سانحۂ ’’جتوئی‘‘ اور زنا کی سزا - سید منظور الحسن

سانحۂ ’’جتوئی‘‘ اور زنا کی سزا

 

اخبارات کی رپورٹنگ کے مطابق گزشتہ دنوں پنجاب کے ایک گاؤں جتوئی میں بعض انسان نما درندوں نے برسرعام اجتماعی زنا بالجبر کا اقدام کیا۔قومی اور بین الاقومی حلقوں میں اس سانحے پرشدید رنج و الم کا اظہار کیا گیا اور مجرموں کو جلد از جلد قرار واقعی سزا دینے کا مطالبہ کیا گیا۔ پاکستان کے چیف جسٹس نے اس واقعے کا از خود نوٹس لیتے ہوئے حکومت کے کارپرداز عناصرکو فوری کارروائی کا حکم دیا۔ہم سمجھتے ہیں کہ اگر اخباری روایت درست ہے تو مجرمین نہایت عبرت انگیز سزا کے مستحق ہیں۔ یہ عفت و عصمت کی ان بنیادوں کے تحفظ کا معاملہ ہے جن پرہمارے معاشرے کی عمارت استوار ہے۔ معاشرے کے ارکان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ مجرموں کے مواخذے کے لیے مقدور بھر دباؤ قائم رکھیں ۔ ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہیے کہ ہمارے عدالتی نظام کے اسقام اس موقع پر بھی مجرموں کے لیے حقیقی سزا سے چھٹکارے کا باعث بن جائیں۔ اس موقع پر یہ سوال بھی لوگوں کے سامنے آیا ہے کہ شریعت کی رو سے اس جرم کی قرار واقعی سزا کیا ہونی چاہیے ؟
ہمارے بعض احباب نے اس واقعے کے حوالے سے زنا کی سزا کے بارے میں استاذ گرامی جناب جاوید احمد غامدی کے نقطۂ نظر کو جاننا چاہا ہے ۔ اس ضمن میں ہم یہاں چند اصولی باتیں بیان کرنے پر اکتفا کریں گے ۔
زنا کی سزا کے بارے میں استاذ گرامی نے اپنا نقطۂ نظر اپنی تصانیف’’میزان‘‘ اور ’’برہان‘‘ میں بہت وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے ۔ ان کا موقف سورۂ نور کی حسب ذیل آیت پر مبنی ہے:

’’ زانی مرد ہو یا عورت ،دونوں میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارو ۔ اور اللہ کے اس قانون کو نافذ کرنے میں اُن کے ساتھ کسی نرمی کا جذبہ تمھیں دامن گیر نہ ہونے پائے ، اگرتم اللہ اور قیامت کے دن پر فی الواقع ایمان رکھتے ہو ۔ اور اِن کی اِس سزا کے وقت مسلمانوں کی ایک جماعت وہاں موجود رہنی چاہیے ۔ یہ زانی نکاح نہ کرنے پائے ،مگر زانیہ اور مشرکہ کے ساتھ اور اس زانیہ کے ساتھ نکاح نہ کرے ، مگر کوئی زانی یا مشرک ۔ اہلِ ایمان پر یہ بہرحال حرام ٹھیرایا گیا ہے ۔‘‘(النور ۲۴ : ۲۔۳)

استاذ گرامی کے نزدیک یہی سو کوڑے کی سزا ہے جو قرآن مجید نے جرم زنا کے لیے مقرر کر دی ہے۔ اس سے زائد کوئی سزا قرآن مجید میں اس جرم کے حوالے سے مذکور نہیں ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر زنا عام جرم سے آگے بڑھ کر زنا بالجبریا اس سے بھی بدتر شکل اختیار کر لے جیسا کہ سانحۂ جتوئی کے حوالے سے بیان کیا گیا ہے تو کیا اس صورت میں بھی یہی سو کوڑے کی سزا قائم رہے گی اور کیا جرم کی شدت اور شناعت میں فرق کی وجہ سے سزا میں کوئی تغیر واقع نہیں ہو گا؟ ہم سمجھتے ہیں کہ ہو بہ ہو یہی سوال اس کے علاوہ چوری اور قتل کی سزا میں بھی پیدا ہوتا ہے۔چوری کی سزا ہاتھ کاٹنا ہے اور قتل عمد کی سزا موت ہے۔ مگر چوری جب عام طریقے کے بجائے ڈاکے اورقتل دہشت و بربریت کی شکل اختیار کر لے تو کیا اس صورت میں بھی ان جرائم کی عام سزائیں ہی نافذ کی جائیں گی ؟ ہماری فقہ ایسے سوالوں کے جواب میں خاموش ہے۔ استاذ گرامی کے نزدیک قرآن مجید اس بارے میں نہایت واضح رہنمائی سے فیض یاب کرتا ہے۔ اس نوعیت کے جرائم کو وہ محاربہ اور فسادفی الارض سے تعبیر کرتا اور ان کے مجرمین کے لیے چار سزائیں تجویز کرتا ہے۔ ارشاد فرمایا ہے:

’’وہ لوگ جو اللہ اور رسول سے لڑتے اور ملک میں فساد برپا کرنے کے لیے تگ و دو کرتے ہیں ، اُن کی سزا بس یہ ہے کہ عبرت ناک طریقے سے قتل کیے جائیں یا سولی چڑھائے جائیں یا اُن کے ہاتھ پاؤں بے ترتیب کاٹ ڈالے جائیں یا وہ جلاوطن کر دیے جائیں ۔یہ اُن کے لیے اس دنیا میں رسوائی ہے اور آخرت میں اُن کے لیے بڑی سزا ہے ،مگر جو لوگ توبہ کر لیں،اِس سے پہلے کہ تم ان پر قابو پاؤ تو سمجھ لو کہ اللہ مغفرت فرمانے والا ہے ، اس کی شفقت ابدی ہے۔‘‘ (المائدہ ۵ :۳۳۔ ۳۴)

استاذ گرامی اس آیت کی وضاحت میں اپنی کتاب ’’میزان‘‘ میں لکھتے ہیں:

’’محاربہ اور فساد فی الارض ،یعنی اللہ اور رسول سے لڑنے اور ملک میں فساد برپا کرنے کے معنی ان آیات میں یہی ہو سکتے ہیں کہ کوئی شخص یا گروہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے اور پوری جرأت و جسارت کے ساتھ اس نظامِ حق کو درہم برہم کرنے کی کوشش کرے جو شریعت کے تحت کسی خطۂ ارض میں قائم کیا جاتا ہے۔ چنانچہ ایک اسلامی حکومت میں جو لوگ زنا بالجبر کا ارتکاب کریں یا بدکاری کو پیشہ بنا لیں یاکھلم کھلا اوباشی پر اتر آئیں یا اپنی آوارہ منشی ، بدمعاشی اور جنسی بے راہ روی کی بنا پر شریفوں کی عزت و ناموس کے لیے خطرہ بن جائیں یا اپنی دولت و اقتدار کے نشے میں غریبوں کی بہو بیٹیوں کو سر عام رسوا کریں یا نظم حکومت کے خلاف بغاوت کے لیے اٹھ کھڑے ہوں یا قتل و غارت ،ڈکیتی ،رہزنی ،اغوا ،دہشت گردی، تخریب، ترہیب اور اس طرح کے دوسرے سنگین جرائم سے حکومت کے لیے امن و امان کا مسئلہ پیداکر دیں ، وہ سب اسی محاربہ اور فساد فی الارض کے مجرم قرارپائیں گے ۔ان کی سرکوبی کے لیے یہ چار سزائیں اس آیت میں بیان ہوئی ہیں :
تقتیل،
تصلیب ،
ہاتھ پاؤں بے ترتیب کاٹ دینا ،
نفی ۔‘‘(۲۸۴)

تقتیل سے مراد عبرت انگیز طریقے سے قتل کرنا ہے، تصلیب سے مراد مجرم کے ہاتھوں اور پاؤں میں میخیں ٹھونک کر اسے سولی پر لٹکانا اور سسک سسک کر مرنے کے لیے چھوڑ دینا ہے، ہاتھ پاؤں بے ترتیب کاٹ دینے سے مرادایک طرف کا ہاتھ اور دوسری طرف کا پاؤں کاٹ کر اسے نمونۂ عبرت بنا کر زندہ رہنے دینا ہے اور نفی سے مراد مجرم کو جلا وطن کر دینا ہے۔ عدالت کو اس بات کا اختیار ہے کہ وہ جرم کی نوعیت اور شناعت کے لحاظ سے جو سزا مناسب سمجھے ، اسے نافذ کر دے۔
’’یہ ان کے لیے اس دنیا میں رسوائی ہے‘‘ کے الفاظ سے محاربہ اور فساد فی الارض کی سزا کا ایک لازمی پہلو یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مجرم کو دنیا میں رسواکر دیا جائے۔ اس سے مقصود یہ ہے کہ یہ مجرم باقی لوگوں کے لیے عبرت بن جائیں اور ان کے لیے ایسے جرم کے ارتکاب کی جرات ہی باقی نہ رہے۔اس بنا پر یہ ضروری ہے کہ سزا دیتے ہوئے رحم اورہم دردی کا کوئی جذبہ دامن گیر نہیں ہونا چاہیے۔مولانا امین احسن اصلاحی اس بارے میں لکھتے ہیں:

’’دنیا میں ان کی یہ رسوائی دوسروں کے لیے ذریعۂ عبرت و بصیرت ہو گی اور اس کے اثر سے اُن لوگوں کے اندر بھی قانون کا ڈر اور احترام پیدا ہو گا جو یہ صلاحیت نہیں رکھتے کہ مجرد قانون کی افادیت اور عظمت کی بنا پر اس کا احترام کریں ۔موجودہ زمانے میں جرم اور مجرمین کے لیے فلسفہ کے نام سے جو ہم دردانہ اور رحم دلانہ نظریات پیدا ہو گئے ہیں ،یہ انھی کی برکت ہے کہ انسان بظاہر جتنا ہی ترقی کرتا جاتا ہے ،دنیا اتنی ہی جہنم بنتی جا رہی ہے ۔اسلام اس قسم کے مہمل نظریات کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا ۔اس کا قانون ہوائی نظریات پر نہیں ،بلکہ انسان کی فطرت پر مبنی ہے ۔‘‘ (تدبرِ قرآن ۲/ ۵۰۷)

اس بحث کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ جتوئی میں ہونے والا جرم اگر اخباری تفصیلات کے عین مطابق ہے تو اس پر عام جرم زنا کا اطلاق نہیں ہو گا ۔یہ اپنی اصل کے اعتبار سے محاربہ اور فساد فی الارض کا جرم ہے۔ قرآن مجید کی رو سے اس کی سزا’’تقتیل ‘‘یعنی عبرت ناک طریقے سے قتل بھی ہے ۔ رجم یا سنگ ساری کی سزا اسی تقتیل ہی کی ایک صورت ہے جس میں لوگ مجرم کو پتھر مار مار کر ہلاک کر دیتے ہیں ۔عدالت اگر چاہے تو فساد فی الارض کے مجرم پر رجم کی یہ سزا بھی نافذ کر سکتی ہے۔
ہم سب یہ چاہتے ہیں کہ عدالت سانحۂ جتوئی کے مجرموں کو بلا تاخیر بدترین سزا دے کر دنیا کے لیے نمونۂ عبرت بنا دے۔ ایسا نمونۂ عبرت کہ آیندہ کوئی ایسے گھناؤنے اقدام کا تصور بھی نہ کر سکے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ان مجرموں پر یہ سزا ضرور نافذ ہونی چاہیے اور انھیں کیفر کردار تک پہنچا کر چھوڑنا چاہیے۔ مگر کیا اس بنا پر یہ توقع قائم کی جا سکتی ہے کہ آیندہ کے لیے اس طرح کے جرائم کا سلسلہ رک جائے گا؟ ہر شخص اس سوال کا جواب نفی میں دے گا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ سزا کا خوف انسان کو جرم سے باز رہنے پرآمادہ رکھتا ہے، مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ جب انسان ظلم و جبر ، اخلاق باختگی اور انتقام پر اتر آئے تو وہ اپنی جان و مال اور عزت و آبرو کی پروا کیے بغیر بدترین جرم کرنے سے بھی گریز نہیں کرتا۔ چنانچہ ہمارے نزدیک سزاؤں کے ساتھ ساتھ ، بلکہ اس سے بڑھ کراس امر کی ضرورت ہے کہ افراد معاشرہ کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا جائے۔ ان کے اندر اعلیٰ اخلاق اور قانون پسندی کا شعور بیدار کیا جائے۔ جرائم کی روک تھام کا اصل راستہ یہی ہے۔

-------------------------------

 

بشکریہ ماہنامہ اشراق

تحریر/اشاعت ستمبر 2002
مصنف : سید منظور الحسن
Uploaded on : Nov 14, 2016
2995 View