طلب امارت کی ممانعت اور کفارۂ قسم کی ترغیب - محمد رفیع مفتی

طلب امارت کی ممانعت اور کفارۂ قسم کی ترغیب

عَنْ۱؂ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ سَمْرَۃَ قَالَ قَالَ لِی النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَا عَبْدَ الرَّحْمٰنِ لَا تَسْأَلِ الْإِمَارَۃَ فَإِنَّکَ إِنْ أُوْتِیْتَہَا عَنْ مَسْأَلَۃٍ وُکِلْتَ إِلَیْہَا وَإِنْ أُوْتِیْتَہَا عَنْ غَیْرِ مَسَأَلَۃٍ أُعِنْتَ عَلَیْہَا وَإِذَا حَلَفْتَ عَلٰی یَمِیْن فَرَأَیْتَ غَیْرَہَا خَیْرًا مِنْہَا فَکَفِّرْ عَنْ یَمِیْنِکَ وَاءْتِ الَّذِیْ ہُوَ خَیْرٌ.

عبدالرحمن بن سمرہ سے روایت ہے۔ انھوں نے کہا کہ مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عبدالرحمن، تم کبھی حکومت کے کسی عہدے کو طلب نہ کرنا، کیونکہ اگر یہ تمھیں مانگنے پر دیا گیا تو تم اس کے سپرد کر دیے جاؤ گے (اور تمھاری مدد نہ کی جائے گی) اور اگر یہ مانگے بغیر تمھیں ملا تو اس میں تمھاری مدد کی جائے گی۱؂ اور جب تم کسی بات پر قسم کھاؤ، پھر اس سے بہتر کوئی بات تمھارے سامنے آ جائے تو تم اپنی قسم کا کفارہ دو اور اس بہتر بات کو اختیار کر لو۔۲؂

ترجمہ کے حواشی

۱۔ حکومت کے کسی عہدے کو طلب کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی حکومت کی حرص کے جذبے سے لوگوں کے معاملات کی ذمہ داری سنبھالنا چاہتا ہے۔ حکومت کے کسی حریص شخص سے عدل کی توقع نہیں کی جا سکتی، کیونکہ اس میں موجود طلب حکومت کی کمزوری اقتدار میں آنے کے بعد اس کے اقدامات اور اس کے فیصلوں پر اثر انداز ہوتی ہے، یعنی اس میں محض حق کی خاطر ایسا فیصلہ کرنے کی ہمت ہی نہیں ہوتی جس کے نتیجے میں اس کا اپنا اقتدار چھن سکتا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے لیے خدا کی اس مدد کی نفی کی گئی ہے جس کے بغیر انسان کوئی خیر پا ہی نہیں سکتا، لیکن اگر کسی شخص میں حرص کا یہ پہلو موجود نہ ہو، بلکہ اس کی جگہ خیر کا کوئی جذبہ کارفرما ہو تو اس کے لیے طلب حکومت میں کوئی حرج نہیں ہے، جیسا کہ یوسف علیہ السلام کا معاملہ ہے کہ جب ان کے سامنے مصر کے بادشاہ نے اپنی حکومت کا بڑے سے بڑا عہدہ پیش کیا تو انھوں نے مصریوں کی ضرورت اور اپنی صلاحیت کو مد نظر رکھتے ہوئے، اپنے لیے ’اجْعَلْنِیْ عَلٰی خَزَآءِنِ الْاَرْضِ اِنِّیْ حَفِیْظٌ عَلِیْمٌ‘، ’’مجھے ملک کے ذرائع آمدن پر مامور کر دیجیے، میں امانت دار بھی ہوں اور باخبر بھی‘‘ (یوسف۱۲: ۵۵) کے الفاظ سے حکومت کا ایک بہت بڑا عہدہ طلب کیا۔
۲۔ قسم اپنے عہد پر اللہ کو گواہ ٹھہرانا ہے۔ آدمی جب کوئی قسم کھائے تو اسے چاہیے کہ وہ لازماً اسے پورا کرے۔ لیکن اگر کبھی اس کے سامنے یہ بات آ جائے کہ قسم کو پورا کرنے کی صورت میں وہ اس سے بہتر کسی کام سے یا خیر و تقویٰ کی کسی بات سے محروم رہ جاتا ہو تو اسے چاہیے کہ وہ قسم کو پورا کرنے کے بجائے اس کا کفارہ دے اور اس بہتر کام یا خیر و تقویٰ کے حوالے سے اس بہتر بات ہی کو اختیار کرے۔

متن کے حواشی

۱۔ یہ بخاری کی روایت رقم ۶۲۴۸ ہے۔ بعض اختلافات کے ساتھ یہ مضمون یا اس کے کچھ حصے حسب ذیل ۴۱ مقامات پر نقل ہوئے ہیں۔
نسائی، رقم۳۷۸۲، ۳۷۸۳، ۳۷۸۴، ۳۷۸۹، ۳۷۹۰، ۳۷۹۱؛ بیہقی، رقم ۱۹۶۲۶، ۱۹۶۵۸، ۱۹۷۳۱، ۱۹۷۳۲، ۱۹۷۳۹، ۱۹۷۴۰، ۱۹۷۴۱، ۱۹۷۴۲، ۱۹۷۴۳، ۱۹۷۴۴، ۱۹۷۴۵، ۲۰۰۳۳، ۲۰۰۳۴؛ ابن ابی شیبہ، رقم ۱۲۳۰۲؛ بخاری، رقم ۶۳۴۳، ۶۷۲۷، ۶۷۲۸؛ ابوداؤد، رقم ۳۲۷۷، ۳۲۷۸؛ مسلم، رقم ۱۶۵۲(۲)؛ ترمذی، رقم۱۵۲۹؛ دارمی، رقم ۲۳۴۶، ۲۳۴۷؛ احمد بن حنبل، رقم ۲۰۶۳۵، ۲۰۶۳۷، ۲۰۶۴۱، ۲۰۶۴۲، ۲۰۶۴۴، ۲۰۶۴۶، ۲۰۶۴۷، ۲۰۶۴۸؛ ابن حبان، رقم ۴۳۴۸، ۴۴۷۹،۴۴۸۰۔
بعض روایات مثلاً نسائی، رقم ۳۷۸۳ میں ’وَاءْتِ‘ (اور اختیار کرو) کے بجائے ’ثُمَّ اءْتِ‘ (پھر اختیار کرو) کے الفاظ روایت ہوئے ہیں۔
بعض روایات مثلاً بیہقی، رقم ۱۹۶۵۸ میں ’إِذَا حَلَفْتَ‘ (جب تم قسم کھاؤ) کے بجائے ’إِذَا آلَیْتَ‘ (جب تم قسم کھاؤ) کے الفاظ روایت ہوئے ہیں اور ’فَکَفِّرْ عَنْ یَمِیْنِکَ وَاءْتِ الَّذِیْ ہُوَ خَیْرٌ‘ (تو اپنی قسم کا کفارہ دو اور اسے اختیار کرو جو بہتر ہے) کے بجائے ’فَأْتِ الَّذِیْ ہُوَ خَیْرٌ وَکَفِّرْ عَنْ یَمِیْنِکَ‘ (تو اسے اختیار کرو جو بہتر ہے اور اپنی قسم کا کفارہ دو) کے الفاظ روایت ہوئے ہیں۔
بعض روایات مثلاً ابن ابی شیبہ، رقم ۱۲۳۰۳ میں ’غَیْرَہَا خَیْرًا‘ (اس کے سوا بہتر کو) کے بجائے ’مَا ہُوَ خَیْرٌ‘ (وہ جو بہتر ہے) کے الفاظ اور ’فَکَفِّرْ عَنْ یَمِیْنِکَ‘ (پھر اپنی قسم کا کفارہ دو) کے بجائے ’وَکَفِّرْ یَمِیْنَکَ‘ (اور اپنی قسم کا کفارہ دو) کے الفاظ روایت ہوئے ہیں۔
بعض روایات مثلاً بخاری، رقم ۶۳۴۳ میں ’أُوْتِیْتَہَا‘ (تمھیں وہ دی گئی) کے بجائے ’أُعْطِیْتَہَا‘ (تمھیں وہ دی گئی) کے الفاظ روایت ہوئے ہیں اور اس حدیث میں جملوں کی ترتیب ’فَإِنَّکَ إِنْ أُوْتِیْتَہَا عَنْ مَسْأَلَۃٍ وُکِلْتَ إِلَیْہَا وَإِنْ أُوْتِیْتَہَا عَنْ غَیْرِ مَسَأَلَۃٍ أُعِنْتَ عَلَیْہَا‘ (کیونکہ اگر تمھیں یہ مانگنے پر دیا گیا تو تم اس کے سپرد کر دیے جاؤ گے (اور تمھاری مدد نہ کی جائے گی) اور اگر وہ مانگے بغیر تمھیں ملا تو اس میں تمھاری مدد کی جائے گی) کے بجائے ’فَإِنَّکَ إِنْ أُعْطِیْتَہَا عَنْ غَیْرِ مَسَأَلَۃٍ أُعِنْتَ عَلَیْہَا وَإِنْ أُعْطِیْتَہَا عَنْ مَسْأَلَۃٍ وُکِلْتَ إِلَیْہَا‘ (کیونکہ اگر مانگے بغیر تمھیں یہ ملا تو اس میں تمھاری مدد کی جائے گی اور اگر یہ مانگنے پر تمھیں دیا گیا تو تم اس کے سپرد کر دیے جاؤ گے (اور تمھاری مدد نہ کی جائے گی)) روایت ہوئی ہے۔
بعض روایات مثلاً ترمذی، رقم ۱۵۲۹ میں ’إِنْ أُوْتِیْتَہَا‘ (اگر تمھیں وہ دی گئی) کے بجائے ’إِنْ أَتَتْکَ‘ (اگر وہ تیرے پاس آئی) کے الفاظ روایت ہوئے ہیں۔ اسی طرح اس میں ’فَکَفِّرْ عَنْ یَمِیْنِکَ‘ (تو تم اپنی قسم کا کفارہ دو) کے بجائے ’وَلْتُکَفِّرْ عَنْ یَمِیْنِکَ‘ (اور چاہیے کہ تم اپنی قسم کا کفارہ دو) کے الفاظ روایت ہوئے ہیں۔
بعض روایات مثلاً نسائی، رقم ۳۷۹۰ میں ’الَّذِیْ ہُوَ خَیْرٌ‘ (جو بہتر ہے) کے بجائے ’الَّذِیْ ہُوَ خَیْرٌ مِنْہَا‘ (جو اس سے بہتر ہے) کے الفاظ روایت ہوئے ہیں۔
بعض روایات مثلاً دارمی، رقم ۲۳۴۶ میں ’إِذَا‘ (جب) کے بجائے ’فَإِذَا‘ (تو جب) کے الفاظ روایت ہوئے ہیں۔
بعض روایات مثلاً احمد بن حنبل، رقم ۲۰۶۳۷ میں ’مِنْ غَیْرِ مَسَأَلَۃٍ‘ (مانگے بغیر) کے بجائے ’عَنْ غَیْرِ مَسَأَلَۃٍ‘ (مانگے بغیر) کے الفاظ روایت ہوئے ہیں۔
بعض روایات مثلاً احمد بن حنبل، رقم۲۰۶۴۱ میں ’وُکِلْتَ إِلَیْہَا‘ (تم اس کے سپرد کر دیے جاؤ گے (اور تمھاری مدد نہ کی جائے گی)) کے بجائے ’أُکِلْتَ إِلَیْہَا‘ (تم اس کے سپرد کر دیے جاؤ گے (اور تمھاری مدد نہ کی جائے گی)) کے الفاظ روایت ہوئے ہیں۔
بعض روایات مثلاً احمد بن حنبل، رقم ۲۰۶۴۴ میں ’إِنْ أُوْتِیْتَہَا عَنْ مَسْأَلَۃٍ وُکِلْتَ إِلَیْہَا وَإِنْ أُوْتِیْتَہَا مِنْ غَیْرِ مَسَأَلَۃٍ أُعِنْتَ عَلَیْہَا‘ (اگر تمھیں یہ مانگنے پر دیا گیا تو تم اس کے سپرد کر دیے جاؤ گے (اور تمھاری مدد نہ کی جائے گی) اور اگر یہ مانگے بغیر تمھیں ملا تو اس میں تمھاری مدد کی جائے گی) کے بجائے ’إِنْ تُعْطَہَا عَنْ غَیْرِ مَسَأَلَۃٍ تُعَنْ عَلَیْہَا وَإِنْ تُعْطَہَا عَنْ مَسْأَلَۃٍ تُکَلْ إِلَیْہَا‘ (اگر یہ مانگے بغیر تمھیں ملا تو اس میں تمھاری مدد کی جائے گی اور اگر یہ تمھیں مانگنے پر دیا گیا تو تم اس کے سپرد کر دیے جاؤ گے (اور تمھاری مدد نہ کی جائے گی)) کے الفاظ روایت ہوئے ہیں۔
بعض روایات مثلاً ابن حبان، رقم ۴۳۴۸ میں ’فَرَأَیْتَ غَیْرَہَا خَیْرًا‘(پھر اس کے علاوہ بات کو بہتر پائے) کے بجائے ’وَرَأَیْتَ غَیْرَہَا خَیْرًا‘ (اور اس کے علاوہ بات کو بہتر پائے) کے الفاظ روایت ہوئے ہیں۔
نسائی، رقم ۳۷۸۲ اور بیہقی، رقم ۱۹۷۴۴ میں یہ حدیث ان الفاظ میں روایت ہوئی ہے:

رُوِیَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ سَمْرَۃَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: إِذَا حَلَفَ أَحَدُکُمْ عَلٰی یَمِیْنٍ فَرَأَی غَیْرَہَا خَیْرًا مِنْہَا فَلْیُکَفِّرْ عَنْ یَمِیْنِہِ وَلْیَنْظُرِ الَّذِی ہُوَ خَیْرٌ فَلْیَأْتِہِ.
’’عبدالرحمن بن سمرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی جب کسی بات پر قسم کھائے، پھر وہ اس سے مختلف بات کو (اپنے حق میں) بہتر پائے تو اسے چاہیے کہ اپنی قسم کا کفارہ دے اور اس بات کی طرف توجہ کرے جو اس سے بہتر ہے اور پھر اسے اختیار کر لے۔‘‘

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت مارچ 2008
مصنف : محمد رفیع مفتی
Uploaded on : Nov 28, 2016
2350 View