متن حدیث میں ہمارے تصرفات (۲) - ساجد حمید

متن حدیث میں ہمارے تصرفات (۲)

 (گذشتہ سے پیوستہ)

تمہید

میں نے اس مضمون کا عنوان ’’متنِ حدیث میں علما کے تصرفات‘‘ باندھا تھا۔ لفظ ’تصرف‘ کے معنی معاملہ کرنا، الٹنا پلٹنا، استعمال میں لانا وغیرہ کے آتے ہیں۔ دورِ تدوین سے آج تک حدیث کے ساتھ ہم نے جو کچھ کیا ہے، تصرف ہی اس کے بیان کے لیے ایک اچھا لفظ ہے، لیکن بعض لوگوں نے میرا پہلا مضمون پڑھ کر یہ تاثر بیان کیا ہے کہ اس لفظ میں ایک سختی ہے، وہ یہ کہ اس سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ شایدعلما نے جانتے بوجھتے ایسا کیا ہے۔لغوی اعتبار سے یہ لفظ نہ منفی ہے اور نہ مثبت۔ان مضامین میں میرا مقصد علما کی تنقیص نہیں ہے، نہ میں نے اسے اس قسم کے کسی منفی مقصد کے لیے لکھا ہے ۔ اس لیے میں نے اس مضمون کا عنوان تبدیل کردیا ہے، اور عنوان میں سے ’علما‘ کا لفظ نکال دیا ہے۔
میں نے اپنے مضمون کی پہلی قسط اور اس قسط میں بھی یہی بات عرض کی ہے کہ یہ تصرفات بیان و حکایت کا فطری تقاضا ہیں، راویوں اور علما نے یہ جان بوجھ کر نہیں کیے۔ ’علما‘ کا لفظ اس لیے استعمال کیا گیا تھا کہ اس میں رواۃِ حدیث کے ساتھ ساتھ صوفیہ، محدثین ، فقہا، شارحین، مفسرین اور مصنفین سب شامل تھے، ان کے لیے علما ہی کی تعبیر سب سے زیادہ موزوں تھی۔بہرحال کسی بھی قسم کی غلط فہمی کو زائل کرنے کے لیے یہ ضروری تھا کہ میں اس کے عنوان میں تبدیلی کردوں۔ اب یہ مضمون اسی عنوان سے چھپے گا تاآنکہ اس میں کسی قسم کی کوئی خطا سامنے آجائے۔
اس سلسلے کے مضامین کے دو حصے ہیں: ایک تصرفات کے بیان کا اور دوسرا مسئلے کی توجیہ کا۔ واضح رہے کہ یہ دوسرا حصہ میرے ان مضامین کا لازمی حصہ نہیں ہے۔ اس دوسرے حصے، یعنی توجیہ و توضیح کے لیے ان مضامین میں میرا اصول یہ ہے کہ اگر میں مختلف درجے کی احادیث سے اخذ و استفادہ کروں گا، تو اس میں کوئی بھی حدیث حسن یا حسن لغیرہ کے درجے سے نیچے کی نہ ہو، یعنی یہ کہ ان احادیث کو میں اس اصول پر لوں کہ کم ازکم صحیح تر احادیث میں ان مضامین کی تائید اور بنیاد موجود ہو، اوریہ بھی میری کوشش ہوگی کہ اسی حدیث سے استشہاد کروں جسے کسی نہ کسی محدث نے قابلِ احتجاج قرار دیا ہو، میں اپنی راے پر اس کو منحصر نہیں کروں گا۔ البتہ تصرفات کے بیان میں صحیح و ضعیف کا امتیاز میرے خیال میں ضروری نہیں ہے،اس لیے کہ یہ بھی تصرف ہی کی ایک صورت ہے۔اور اس لیے بھی کہ ان ضعیف حدیثوں کو حدیث کی حیثیت نہ بھی دیں، ایک تاریخی دستاویزی حیثیت تو انھیں حاصل ہے ہی، اس لیے تصرف کے تحت تو اسے لایا جاسکتا ہے ۔مزید یہ کہ ضعیف روایات کا وجود اور ان کو کتابوں میں لکھنا بذات خود ایک تصرف ہے،یعنی باوجود ضعفِ سند کے اسے کسی مجموعۂ حدیث میں درج کرناوغیرہ اقوال رسول پر ایک تصرف ہی تو ہے۔ اسی طرح اس میں بھی شبہ نہیں ہے کہ امت کا ایک بڑا طبقہ ضعیف احادیث سے اخذو استفادہ کرتا ہے۔۱؂ جس مضمون پر ’’اشراق‘‘ کے اداریے میں تبصرہ ہوا، اس میں بحمد اللہ ایک بھی روایت اس اصول سے ہٹی ہوئی نہیں ہے، جسے میں نے اوپر بیان کیا ہے ۔
اسی طرح بعض احباب نے کہا کہ تمھارا مضمون جدید تعلیم یافتہ لوگوں کے لیے خاصا مشکل تھا، ان کی آسانی کے لیے میں نے حسب ضرورت مشکل الفاظ کے انگریزی مترادف دے دیے ہیں۔

متن حدیث میں لفظی و معنوی ادراج

تجزۂ حدیث کے بعد اگلا اہم تصرف ادراج ہے ۔ ادراج سے ہماری مراد راوی کا عمداً یا سہواً کلام نبوی میں اپنی بات شامل کرنا ہے۔اس سے دو قسم کی چیزیں متنِ حدیث میں شامل ہوئی ہیں:
ایک الفاظ ،یعنی راوی نے اپنے یا کسی اور راوی کے الفاظ و جمل کو اس طر ح سے بیان کردیا کہ وہ حدیث کے متن کا حصہ قرار پا گئے ۔
دوسری راے ، اس کی دو صورتیں ہیں، 
۱۔ ایک یہ کہ کسی صحابی یا راوی کی راے یا فتویٰ قول نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مل کر حدیث کی حیثیت پاگیا، قطع نظر اس کے کہ یہ عمل عمداً ہوا ہو یا سہواً۔
۲۔ دوسرے یہ کہ احادیث کا معتد بہ حصہ روایت بالمعنیٰ۲؂ کے طریقے پر منتقل ہوا ہے،اور فقیہ (prudent) سے فقیہ آدمی بھی جب کسی بات کو سمجھ کردوسروں کواپنے لفظوں میں سناتا ہے، تو وہ دراصل متکلم کا نہیں، بلکہ اپنا فہم آگے بیان کررہا ہوتا ہے ۔۳؂ 
واضح رہے کہ یہ بھی روایت۴؂ کا فطری تقاضا ہے، کیونکہ محدثین کی جمعِ حدیث (compilation) سے پہلے، احادیث بطور ایک مکمل روایت کے کم سنائی جاتی تھیں،بلکہ وہ زیادہ تر اپنی راے یا عمل کے ثبوت کے لیے سنائی جاتی تھیں۔ اس نوعیت کی گفتگو میں الفاظِ حدیث کاحسب فہم بدل جانا ایک فطری معاملہ ہے ۔اس میں ضروری نہیں — جیسا کہ بعضے خیال کرتے ہیں — کہ راویوں کی نیت فتنہ کی ہو اور اس میں کوئی فساد پیدا کرناان کے پیش نظر ہو۔ انسان اپنی فطری و طبعی ضرورتوں کے تحت الفاظ اور کلام کے ساتھ ایسا کرتا ہی کرتا ہے۔ مثلاً بات سمجھاتے وقت اپنی طرف سے مثال دے دی یا اپنی بات کو تقویت دینے کے لیے قرآن کی آیت تلاوت کردی، جس سے سننے والا یہ گمان کربیٹھتا ہے کہ یہ بھی قولِ نبوی ہی ہے۔اس کی ایک عمدہ مثال مفسرین و مصنفین کے ہاں ملے گی۔ جب وہ کسی مضمون میں قرآن کی آیت سے استشہاد۵؂ کریں گے تووہ اپنے مضمون کے موقع و محل کی رعایت سے جو ترجمہ کریں گے، وہ اس ترجمے سے مختلف ہو گا ، جو انھوں کسی دوسرے مضمون یا اپنی تفسیر میں کیا ہو گا۔ ا ن تمام مصنفین کی نیت قرآن میں ردو بدل کی نہیں ہوتی، بلکہ موقع و محل کے لحاظ سے الفاظ کا انتخاب بدل جاتا ہے۔چنانچہ یہی امر اس وقت ہوتا تھا، جب صرف مسموع حدیث ۶؂ سے استشہاد کیا جاتا تھا۔ عہدِ اول میں متونِ حدیث مکتوب (written) حالت میں نہیں تھے کہ جن سے متن کے الفاظ کو جانچا جا سکتا۔ یہ سہولت حدیث کی کتابوں کے وجود میں آنے کے بعد حاصل ہوئی۔ اب یہ کتب اصلاً بالمعنیٰ روایت ہونے والی احادیث پر ہی مشتمل ہیں۔
الفاظ کی تبدیلی، مفہوم کا ابلاغ اور کسی مثال یا آیت سے استشہاد کے عمل سے بلاشبہ ایک راوی کا قول وفہم ہمیں فراہم ہو جاتا ہے، اور ایک قولِ رسول کے ساتھ مثال یا آیت کی اطلاع بھی ہمیں فراہم ہو جاتی ہے،جو بلاشبہ خود ایک قیمتی چیز ہے۔لیکن اس خوبی کے ساتھ جو خرابی پیدا ہوتی ہے، وہ یہ ہے کہ ایک امتی کا قول و فہم ارشادِ نبوی نہ ہونے کے باوجود ارشادِ نبوی کی حیثیت پا لیتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کسی کے لیے یہ اتنی سنگین بات نہ ہو، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ نہایت سنگین امر ہے ۔اس امر کی سنگینی کی وجہ ہی سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی طرف کسی قول کی نسبت۷؂ کو منع فرمایا تھا، ۸؂ اور اس عمل کی نہایت شدید الفاظ میں مذمت (condemnation) کی تھی، کیونکہ آپ کو معلوم تھا کہ ایسا ہونے سے میری بات کے ساتھ غیر نبی کی بات بھی دین قرار پاجائے گی۔اس میں شبہ نہیں ہے کہ صحابہ، ائمہ اور رواۃ۹؂ سمیت تمام امت اس قول کی مخاطب ہے کہ جس نے میری جانب کسی قول کی جھوٹی نسبت کی، اس نے دوزخ میں ٹھکانا بنا لیا۔کسی کو اس سے استثنا (exception) حاصل نہیں ہے۔ اب فرق صرف یہی ہے کہ اگر کچھ ایسا ہوا ہے تو سلف صالحین (pious ancestors) نے عمداً ایسا نہیں کیا، اور گناہ گار وہی ہے جس نے عمداً (intentionally) ایسا کیا ہو۔ اسی وجہ سے بعض محدثین روایت بالمعنیٰ کے قائل نہیں تھے، اور بہت سے لوگوں نے اس پر شرائط عائد کیں۔ ان کا کہنایہ تھا کہ روایت بالمعنیٰ روایت تو جائز ہے، مگر اس کے لیے راوی کو زبان و بیان اور حدیث کا صاحب علم ہونا چاہیے ۔۱۰؂

اس تصرف کے اثرات

احادیث میں روایات کے بالمعنیٰ منتقل ہونے کی وجہ سے مضامین میں ایسی تبدیلی آجاتی ہے، جو اس بات کو آفاقی (universally compatible) اور خطا سے پاک نہیں رہنے دیتی، حالاں کہ اللہ اور اس کے رسول نے آفاقی اور بے خطا بات کہی ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ غیر نبی خواہ وہ کتنا ہی جیدعالم کیوں نہ ہو معصوم عن الخطا نہیں ہے۔ اس لیے وہ نہ صرف فہم و بیان میں خطا کرسکتا ہے، بلکہ اپنے محدود علم اور اپنے عہد کے سانچوں (paradigms) کے لحاظ سے چیزوں کو دیکھتا۱۱؂ ہے۔ جب کہ رسول کا نہ علم محدود ہوتا ہے، اور نہ وہ دین بتاتے وقت زمانی سانچوں کا اسیر ہوتا ہے۔ ۱۲؂ وہ خالقِ ارض و سما سے پاتا اور بے کم و کاست اسے بیان کردیتا ہے۔اس اکیلے کی بات پوری امت کے تواتر پر بھاری ہوتی ہے، اس لیے کہ اس پر خدا کی ذات براہِ راست نگہبان رہتی ہے تاکہ خدا کا پیغام بے کم و کاست اس کے بندوں تک پہنچ جائے۔۱۳؂ یہ بات محتاجِ دلیل نہیں ہے کہ انبیاکے بعد کسی کو یہ مقام حاصل نہیں ہے۔
ادراج متن حدیث میں ہوا، علما نے جس کے پرکھنے کے اصول وغیرہ بنائے ہیں، جو علوم الحدیث کی کتابوں میں دیکھے جاسکتے ہیں۔۱۴؂ لہٰذا اب ہمیں دوہری محنت کرنا ہوگی۔ ہر ہر حدیث کے تمام طرق اکٹھے کرکے دیکھنا ہو گا کہ ان طرق میں ادراج کے کیا کیا امکانا ت ہیں تاکہ ہم اصل قولِ رسول تک پہنچ سکیں۔ اگر ہم ان اضافوں سے حدیث کو ممیز (distinguish) کر سکیں تو ان شاء اللہ نہ صرف بہت سے امور میں ہم ان اعتراضات سے نکل جائیں گے، جن کا آج حدیث کو سامنا ہے، بلکہ دین کو بے آمیز صورت بھی سامنے لا سکیں گے۔ آئیے مثالوں سے اسے سمجھتے ہیں۔

لفظی ادراج کی ایک مثال

عورتوں کو عقل و دین میں ناقص کہنے والی حدیث اس کی ایک سادہ ترین مثال ہے۔ بخاری و مسلم وغیرہ میں آنے والی حدیث کے الفاظ بالعموم یوں منتقل ہوئے ہیں۔ اضافہ شدہ الفاظ کو خط کشید کردیا گیا ہے:

عن أبي سعید الخدري، قال: خرج رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم في أضحی أو فطر إلی المصلی، فمر علی النساء، فقال: ’’یا معشر النساء تصدقن فإني أریتکن أکثر أہل النار‘‘، فقلن: وبم یا رسول اللّٰہ؟ قال: ’’تکثرن اللعن، وتکفرن العشیر، ما رأیت من ناقصات عقل ودین أذہب للب الرجل الحازم من إحداکن‘‘، قلن: وما نقصان دیننا وعقلنا یا رسول اللّٰہ؟ قال: ’’ألیس شہادۃ المرأۃ مثل نصف شہادۃ الرجل‘‘، قلن: بلی، قال: ’’فذلک من نقصان عقلہا، ألیس إذا حاضت لم تصل ولم تصم‘‘، قلن: بلی، قال: ’’فذلک من نقصان دینہا‘‘.(بخاری، رقم ۳۰۴)

’’ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عید الاضحی یا عید فطر پڑھانے کے لیے عیدگاہ کی طرف نکلے، تو آپ عورتوں کے پڑاؤ سے گزرے، آپ نے فرمایا: اے عورتو، اللہ کی راہ میں خرچ کیا کرو، کیونکہ میں نے دیکھا ہے کہ تم عورتیں زیادہ دوزخ میں جاؤ گی۔ عورتوں نے پوچھا: یارسول اللہ، ایسا کیوں ہے؟ آپ نے فرمایا: اس لیے کہ تم لعن طعن زیادہ کرتی ہو، اور شوہر اور عزیزوں کا کفران نعمت کرتی ہو۔ میں نے ناقصِ عقل ودین چیزوں میں سے تم عورتوں سے زیادہ تیز کوئی چیز نہیں دیکھی، جو صاحب حزم مردوں کی عقل ماؤف کردیتی ہو۔ تو انھوں نے کہا :اے رسول اللہ، عورت کے اس دین و عقل کے نقص سے کیا مراد ہے؟ توفرمایا: کیا عورت کی گواہی مرد کی گواہی سے آدھی نہیں ہے؟تو عورتوں نے کہا: ہاں ایسا ہی ہے، تو آپ نے فرمایا: یہ عورت کی کم عقلی ہے۔ کیا ایسا نہیں ہے کہ جب وہ حیض سے ہوتی ہے، تو نہ نماز پڑھ سکتی ہے اور نہ روزے رکھ سکتی ہے؟ عورتوں نے کہا: ہاں، ایسا ہی ہے۔ آپ نے فرمایا :تو یہ ان کے دین کی کمی ہوئی۔‘‘

حدیث کی اس روایت کے مطابق ’عورتیں دین و عقل میں ناقص ہیں‘ والا جملہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے۔ لیکن دارمی کی سنن اور ابن حبان رحمہما اللہ کی صحیح کے مطابق یہ الفاظ عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے ہیں۔ مثلاً ذیل کی روایت۱۵؂ دیکھیے، ہم نے ان مقامات کو خط کھینچ کر نمایاں کردیا ہے:

عن ابن مسعود، عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم أنہ قال للنساء: ’’تصدقن فإنکن أکثر أہل النار‘‘، قالت إمرأۃ، لیست من علیۃ النساء: بم، أو لم؟ قال: ’’إنکن تکثرن اللعن، وتکفرن العشیر‘‘.
قال عبد اللّٰہ: ما من ناقصات العقل والدین أغلب علی الرجال ذوي الأمر علی أمرہم من النساء ، قیل: وما نقصان عقلہا ودینہا؟، قال: أما نقصان عقلہا فإن شہادۃ إمرأتین بشہادۃ رجل، وأما نقصان دینہا فإنہ یأتي علی إحداہن کذا وکذا من یوم لا تصلي فیہ صلٰوۃ واحدۃ.(صحیح ابن حبان، رقم ۳۳۲۳) ۱۶؂

’’عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کے گروہ سے فرمایا: اے عورتو، اللہ کی راہ میں خرچ کیا کرو،کیونکہ تم عورتیں زیادہ دوزخ میں جاؤ گی۔ ایک کم حیثیت عورت کھڑی ہوئی اور بولی: یارسول اللہ، ایسا کیوں ہے؟ آپ نے فرمایا: اس لیے کہ تم لعن طعن زیادہ کرتی ہو، اور شوہر اور عزیزوں کا کفران نعمت کرتی ہو۔
حضرت عبد اللہ نے کہا: ناقصِ عقل و دین چیز وں میں سے دنیا میں عورتوں سے زیادہ تیزکوئی نہیں ہے، جو صاحبِ عقل و راے مردوں پر غلبہ پا کر ان کے کاموں سے ان کو ہٹا دے۔ تو کہا گیا: عورت کے اس دین و عقل کے نقص سے کیا مراد ہے؟ تو حضرت عبداللہ نے کہا: عقل کے نقص سے مراد یہ ہے کہ دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کی گواہی کے برابرہوتی ہے۔ اور دین کے نقص سے مراد یہ ہے کہ ان میں سے ہر ایک پر بعض دن ایسے بھی آتے ہیں جن دنوں میں وہ ایک نماز بھی نہیں پڑھ سکتیں۔‘‘

شاید بعض راویوں نے اوپر کے متن کے ’قال عبد اللّٰہ‘ (حضرت عبد اللہ نے کہا) کو حکایت کے عام طریقے پر محض ’قال‘( کہا) کردیا ہو گا، جب کہ ان کی نیت میں اس کا فاعل حضرت عبد اللہ ہی ہوں گے۔ لیکن سننے والے راوی نے اس ’قال‘ کی ضمیرِ فاعل کا مرجع (referent) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو قرار دے دیا ہوگا ، اور اسی فہم کو آگے روایت کردیا گیا ۔ اب حضرت عبداللہ کا یہ جملہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کا حصہ بن کر قولِ رسول کا درجہ پا گیا ۔ کوئی آدمی یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ بات بھی تو ہو سکتی ہے کہ ابن حبان کی اس روایت میں ’قال عبد اللّٰہ‘ کا اضافہ غلط ہو۔ اس صورت میں بھی معاملہ وہی رہا، کیونکہ اگر پہلی روایت کو اصل مانیں تو دوسری میں تصرف ماننا پڑے گا، اور دوسری کو اصل مانیں تو پہلی میں تصرف ماننا پڑے گا۔ لفظی تصرف تو دونوں صورتوں میں وجود پذیر ہوا ہے۔ایک میں قول نبوی صحابی کا قول بنا اور دوسرے میں قولِ صحابی قول نبوی قرار پایا۔
ہمارے پاس اس بات کو ترجیح دینے میں کہ ’ناقصات عقل‘ والا جملہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا نہیں ہے، کچھ اور شواہد اور دلائل بھی موجود ہیں۔
۱۔ مسند الحمیدی میں یہ حدیث یوں نقل ہوئی ہے، جس میں عورتوں کے اس سوال کا مخاطب بھی حضرت عبد اللہ ہی کو بنایا گیا ہے۔ جس سے مزید واضح ہو جاتا ہے کہ یہ الفاظ نبی اکرم کے نہیں ہیں:

عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ’’تَصَدَّقْنَ یَا مَعْشَرَ النِّسَاءِ، وَلَوْ مِنْ حُلِیِّکُنَّ فِإِنَّکُنَّ أَکْثَرُ أَہْلِ النَّارِ‘‘، فَقَامَتِ امْرَأَۃٌ لَیْسَتْ مِنْ عِلْیَۃِ النِّسَاءِ فَقَالَتْ: لِمَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ؟ قَالَ: ’’لِأَنَّکُنَّ تُکْثِرْنَ اللَّعْنَ، وَتَکْفُرْنَ الْعَشِیْرَ‘‘.
ثُمَّ قَالَ عَبْدُ اللّٰہِ: ’’مَا وُجِدَ مِنْ نَاقِصِ الْعَقْلِ وَالدِّیْنِ أَغْلَبَ لِلرِّجَالِ ذَوِي الرَّأْیِ عَلٰی أُمُوْرِہِمْ مِنَ النِّسَاءِ‘‘، قَالَ: فَقِیْلَ: یَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمٰنِ،۱۷؂ وَمَا نُقْصَانُ عَقْلِہَا وَدِیْنِہَا؟ قَالَ: ’’أَمَّا نُقْصَانُ عَقْلِہَا فَجَعَلَ اللّٰہُ شَہَادَۃَ امْرَأَتَیْنِ بِشَہَادَۃِ رَجُلٍ، وَأَمَّا نُقْصَانُ دِیْنِہَا فَإِنَّہَا تَمْکُثُ کَذَا یَوْمًا لَا تُصَلِّي لِلّٰہِ سَجْدَۃً‘‘.(مسند الحمیدی، رقم ۹۲)۱۸؂

’’عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کے گروہ سے فرمایا: اے عورتو، اللہ کی راہ میں خرچ کیا کرو، خواہ اپنے زیورات ہی دینا پڑیں، کیونکہ تم عورتیں زیادہ دوزخ میں جاؤ گی۔ ایک کم حیثیت عورت کھڑی ہوئی اور بولی: یارسول اللہ، ایسا کیوں ہے؟ آپ نے فرمایا: اس لیے کہ تم لعن طعن زیادہ کرتی ہو، اور شوہر اور عزیزوں کا کفرانِ نعمت کرتی ہو۔
پھر حضرت عبد اللہ نے کہا: ناقصِ عقل ودین چیزوں میں سے دنیا میں عورتوں سے زیادہ تیزکوئی چیز نہیں ہے، جو صاحب عقل و راے مردوں پر غلبہ پا کر ان کے کاموں سے انھیں غافل کرسکتی ہو۔ تو کہا گیا: اے ابوعبد الرحمٰن: عورت کے اس دین و عقل کے نقص سے کیا مراد ہے؟ تو حضرت عبد اللہ نے کہا: عقل کے نقص سے مراد ایک مرد کی گواہی کے برابر دو عورتوں کی گواہی ہے۔ اور عورت کے دین کے نقص سے مراد یہ ہے کہ وہ بعض دنوں میں نماز کا ایک سجدہ بھی نہیں کرسکتی۔‘‘

۲۔ بعض روایات میں ’قال‘ عبد اللہ کے بجاے صرف ’قال‘ کے الفاظ رہ گئے ہیں، وہ بھی اس بات کا قرینہ ہیں کہ اب بولنے والا تبدیل ہوا ہے، وگرنہ ایک ہی آدمی کی بات میں دوبارہ ’قال‘ بلاوجہ نہیں آسکتا۔ اس ’قال‘ کو ذیل کی روایت میں خط کشیدہ کردیا گیا ہے:

عَنْ أَبِيْ ہُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَطَبَ النَّاسَ فَوَعَظَہُمْ ثُمَّ قَالَ: ’’یَا مَعْشَرَ النِّسَاءِ، تَصَدَّقْنَ فَإِنَّکُنَّ أَکْثَرُ أَہْلِ النَّارِ‘‘، فَقَالَتِ امْرَأَۃٌ مِنْہُنَّ: وَلِمَ ذَاکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ؟ قَالَ: ’’لِکَثْرَۃِ لَعْنِکُنَّ، یَعْنِیْ وَکُفْرِکُنَّ الْعَشِیْرَ‘‘. قَالَ: ’’وَمَا رَأَیْتُ مِنْ نَاقِصَاتِ عَقْلٍ وَدِیْنٍ أَغْلَبَ لِذَوِي الْأَلْبَابِ، وَذَوِي الرَّأْيِ مِنْکُنَّ‘‘، قَالَتِ امْرَأَۃٌ مِنْہُنَّ: وَمَا نُقْصَانُ دِیْنِہَا وَعَقْلِہَا؟ قَالَ: ’’شَہَادَۃُ امْرَأَتَیْنِ مِنْکُنَّ بِشَہَادَۃِ رَجُلٍ، وَنُقْصَانُ دِیْنِکُنَّ، الحَیْضَۃُ، تَمْکُثُ إِحْدَاکُنَّ الثَّلاَثَ وَالْأَرْبَعَ لَا تُصَلِّی‘‘.(سنن الترمذی، رقم ۲۶۱۳)۱۹؂ 
’’ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو خطبہ دیا، انھیں نصیحتیں کیں، پھر فرمایا: اے عورتو، تم اللہ کی راہ میں خرچ کیا کرو، کیونکہ تم دوزخ میں زیادہ جاؤ گی۔عورتوں میں سے ایک بولی: ایسا کیوں ہے یا رسول اللہ؟ آپ نے فرمایا: تمھاری لعن طعن کی کثرت کی وجہ سے، یعنی شوہر اور اعزہ کی ناشکری کی وجہ سے۔ فرمایا: میں نے ناقصِ عقل و دین چیزوں میں سے تم سے زیادہ صاحب راے و دانش مردوں کی عقل پر چھانے والی کوئی چیز نہیں دیکھی۔ ان میں سے ایک عورت نے کہا: دین اور عقل کے نقص سے کیا مراد ہے؟ انھوں نے کہا: یہ کہ دو عورتیں گواہی میں ایک مرد کے برابر ہیں، (یہ عقل کی کمی ہوئی)اور دین کی کمی یہ ہے کہ حیض تم سب کو کم از کم تین چار دنوں تک نماز سے روکے رکھتا ہے۔‘‘

چنانچہ پہلے اور دوسرے نکتے کو ملا کربات بہت مضبوط ہو جاتی ہے کہ یہ اضافہ دراصل ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی بات ہے، جسے بعد کے راویوں نے غلط طور پر نبی اکرم سے منسوب کردیا تھا۔
۳۔ بہت سی کتب میں یہ روایت بہت مختصر ہے۔ یعنی انھوں نے عبد اللہ بن مسعود کے کلام والا حصہ نقل نہیں کیا ہے۔ یہ بھی ایک تائیدی اشارہ ہے کہ یہ جملہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا نہیں ہے، بلکہ عبداللہ ابن مسعود کا ہے، جو اصل روایت کا حصہ ہی نہیں تھا۔کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ دلیل نہیں ہے، لیکن اوپر کی صریح روایات کے بعد یہ بلاشبہ ایک قوی قرینہ بن جاتا ہے ۔اسی طرح یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس جواب کہ تم خاوند کی ناشکری کرتی ہو، کے بعد مزید سوالات بھی نہیں کیے گئے، بس عورتوں نے خیرات میں زیورات دینے شروع کردیے:

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ، قَالَ: شَہِدْتُ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الصَّلٰوۃَ یَوْمَ الْعِیْدِ، فَبَدَأَ بِالصَّلٰوۃَ قَبْلَ الْخُطْبَۃِ، بِغَیْرِ أَذَانٍ وَلَا إِقَامَۃٍ، ثُمَّ قَامَ مُتَوَکِّءًا عَلٰی بِلاَلٍ، فَأَمَرَ بِتَقْوَی اللّٰہِ، وَحَثَّ عَلٰی طَاعَتِہِ، وَوَعَظَ النَّاسَ وَذَکَّرَہُمْ، ثُمَّ مَضٰی حَتّٰی أَتَی النِّسَاءَ، فَوَعَظَہُنَّ وَذَکَّرَہُنَّ، فَقَالَ: ’’تَصَدَّقْنَ، فَإِنَّ أَکْثَرَکُنَّ حَطَبُ جَہَنَّمَ‘‘، فَقَامَتِ امْرَأَۃٌ مِنْ سِطَۃِ النِّسَاءِ سَفْعَاءُ الْخَدَّیْنِ، فَقَالَتْ: لِمَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ؟ قَالَ: ’’لِأَنَّکُنَّ تُکْثِرْنَ الشَّکَاۃَ، وَتَکْفُرْنَ الْعَشِیْرَ‘‘، قَالَ: فَجَعَلْنَ یَتَصَدَّقْنَ مِنْ حُلِیِّہِنَّ، یُلْقِیْنَ فِي ثَوْبِ بِلاَلٍ مِنْ أَقْرِطَتِہِنَّ وَخَوَاتِمِہِنَّ.(مسلم، رقم۸۸۵) 
’’جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں ایک عید پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا، آپ نے نماز خطبے سے پہلے پڑھائی، جس کے لیے نہ اذان دی گئی اور نہ اقامت کہی گئی۔پھر آپ بلال رضی اللہ عنہ کا سہارا لے کر کھڑے ہوئے ، آپ نے اللہ سے ڈرنے کا حکم دیا، اللہ کی اطاعت پر ابھارا، لوگوں کو نصیحت کی ، اچھی باتوں کی یاددہانی کی، پھر آپ وہاں سے چل دیے اور عورتوں کی جگہ پر آئے، آپ نے انھیں بھی وعظ و نصیحت کی، اور فرمایا: اللہ کی راہ میں خرچ کیا کرو، کیونکہ تم میں سے اکثر دوزخ کا ایندھن بننے والی ہو۔ ایک سیاہ گالوں والی غریب طبقہ کی عورت کھڑی ہوئی اوربولی: کیوں یا رسول اللہ؟ آپ نے فرمایا : اس لیے کہ تم شکایات بہت کرتی ہو، اور شوہروں اور اعزہ کی ناشکری کرتی ہو۔ حضرت جابر کہتے ہیں کہ پھر عورتیں اپنے زیورات راہِ خدا میں دینے لگیں اور وہ حضرت بلال کی چادر میں اپنی بالیاں اور انگوٹھیاں ڈالنے لگیں۔‘‘

۴۔ میرے ایک سرسری استقصا سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ۲۳۵ ہجری سے پہلے وفات پانے والے محدثین کی کتب میں ان روایات میں یہ الفاظ موجود نہیں ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ بعد میں کہیں اضافہ ہوئے ہیں۔ مثلاً ابو داؤد طیالسی(متوفی ۲۰۴ ھ)۲۰؂ کی مسند، حمیدی (متوفی ۲۱۹ھ)۲۱؂ کی مسند، ابن الجعد (متوفی ۲۳۰ھ)۲۲؂ کی مسند، ابن ابی شیبہ (متوفی ۲۳۵ھ)۲۳؂ کی مصنف، وغیرہ میں یہ الفاظ موجود نہیں ہیں۔لگتا ہے کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا یہ جملہ آہستہ آہستہ نبی اکرم سے نسبت پا گیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے سب سے پہلے یہ الفاظ سلمی۲۴؂ (متوفی ۲۳۸ھ) کی کتاب ’’ادب النساء‘‘ میں ملتے ہیں:

وأنہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: ’’أکثرن من الصدقۃ! فإنکن أکثر أہل النار!‘‘ فقالت إحداہن: ولم یا رسول اللّٰہ؟ قال: ’’إنکن أنکر الناس لنعمتہ! وإني لم أر ناقصات عقلٍ ودین وأصرف لقلوب الرجال ذوي الأحلام منکن!‘‘(۲۷۳)

۵۔ صحیح بخاری کی جو روایت (رقم ۳۰۴) ہم نے اوپربیان کی ہے، اس سے اور اس سے مماثل روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے عورتوں سے الگ سے بات کی، تو یقیناًوہاں سواے حضرت بلال رضی اللہ عنہ اور خواتین کے آپ کے ساتھ کوئی نہیں تھا۔ لیکن سنن ترمذی کی محولہ بالا اس حدیث (رقم ۲۶۱۳) اوردیگر مرد صحابہ سے مروی روایات میں یہ تاثرہوتا ہے کہ عورتوں اور مردوں سے اکٹھے خطاب کیا گیا۔ اس حدیث کو روایت کرنے والے تینوں مرد صحابہ اسے نبی اکرم سے براہ راست بیان کررہے ہیں۔اس لحاظ سے بخاری والی بات ماننے میں ترددپیش آتا ہے، اس لیے کہ اس روایت کو کسی نے حضرت بلال سے یا اپنی ازواج سے روایت نہیں کیا،بلکہ تینوں صحابہ نے براہ راست نبی اکرم سے بیان کیا ہے۔ ممکن ہے یہ بھی ایک تصرف ہو، اور بخاری کی بات ہی درست ہو۔ اگر بخاری کی بات درست ہے تو پھر یہ ماننا پڑے گا کہ یا سیدنا بلال سے یا خواتین سے یہ روایت ہم تک پہنچی ہو گی۔دوسری صورت میں یہ ماننا پڑے گا کہ ابو سعید خدری، جابر بن عبد اللہ ، ابو ہریرہ، اور عبد اللہ ابن مسعود بھی خواتین کے پنڈال میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔لگتا یہ ہے کہ یہ روایت اصلًا خانوادہ (family) ابن مسعود سے ہم تک پہنچی ہے۔ ان کی اہلیہ رضی اللہ عنہا، اس مجلس میں موجود تھیں۲۵؂ (بخاری، رقم ۱۴۶۶)، انھوں نے اپنے زیور کا صدقہ کرنا چاہا تھا۔ جس میں پھر وہ سوال اٹھا تھا کہ آیا وہ اپنے میاں اور یتیم بھتیجے جو انھوں نے پالنے کے لیے گود لیے ہیں، کیا ان پر خرچ کرسکتی ہیں؟
میرے استقصا کی حد تک حضرت زینب، یعنی زوجہ عبد اللہ ابن مسعود نے ناقصاتِ عقل والا جملہ نقل ہی نہیں کیا، جو براہ راست اس واقعہ کی شاہد تھیں۔ صحیح بخاری ومسلم کی مذکورہ بالا روایتوں سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ شایدنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ و خیرات پر ابھارنے کی یہ بات حضرت زینب ہی کو دیکھ کر شروع کی تھی، کیونکہ آپ صاحبِ ثروت خاتون تھیں۔اس لیے اگر وہ ناقصاتِ عقل والی بات کسی روایت میں نہیں بتاتیں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ یہ بات نبی پاک نے کی ہی نہیں۔
۶۔ناقصاتِ عقل و دین کی توضیح والا جملہ سیاق و سباق سے میل نہیں کھاتا۔ جب عورت کی تخلیق ہی اس طرح سے ہوئی ہے کہ وہ عقل میں ناقص ہے۔ وہ اس پیدایشی نقص کے سبب سے مرد کی عقل پر اثرانداز ہوتی ہے تو اس کا تو قصور ہی نہ ہوا، اس لیے کہ اس کا یہ پیدایشی نقص اس کے لیے عذر ہے۔اسے ایک چیز کی سمجھ ہی نہیں ہے ، تو وہ مجرم کس طرح سے ہوئی۔جرم تو تب تھا کہ وہ مکمل عقل و شعور کی مالک ہونے کے بعد ایسا کرتی۔ اس لیے دوزخ میں عورتوں کے زیادہ ہونے کی وجہ ناقابل فہم ہے۔
یہ بات دین کے مسلمہ اصولوں اور قرآن و سنت کے قطعی نصوص (verses) کے بھی خلاف ہے کہ مکلف کم عقل ہو ،پھر بھی اسے سزا ملے۔۲۶؂ سب سے بڑا جرم جس پر ایک عورت مرد کو ابھار سکتی ہے، وہ زنا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہی نے عورتوں کو رجم بھی کیا ہے؟ قرآن مجید نے بھی ایک ہی سانس میں دونوں کو برابر قرار دیا ہے، اور کہا ہے کہ دونوں کے بارے میں کوئی نرمی اللہ کے دین میں نہیں ہے: ’اَلزَّانِیَۃُ وَالزَّانِیْ فَاجْلِدُوْا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنْہُمَا مِاءَۃَ جَلْدَۃٍ وَّلَا تَاْخُذْکُمْ بِہِمَا رَاْفَۃٌ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ‘ (النور ۲۴: ۲)۔ سوال یہ ہے کہ اس وقت جب وہ کسی مرد کی عقل پر حاوی ہوتی ہیں، تو ناقص عقل ہیں، لیکن جب سزا کا موقع آئے تو انھیں وہی سزا ملے ،جو کامل عقل والے کو ملتی ہے!! اس کا کوئی اثر سزا میں ظاہر نہ ہو ، یہ بات سمجھ میں نہیں آتی۔ قرآن کے اس بیان اور عورت کو رجم کرنے کے عملِ نبوی سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ اسلام نے مرد و عورت کو عقل میں برابر مانا ہے، اگر عقل و دانش میں کم مانا ہوتا تو اسلام عورت کے ساتھ مختلف معاملہ کرتا، کیونکہ اس حدیث کے مطابق وہ عقل کی کمی کی وجہ سے معذور تھی۔ 
واضح رہے کہ غلام عورت کو زنا کی آدھی سزا دی گئی ہے، اس لیے کہ معاشرے میں اس کے مقام کی وجہ سے اسے اس درجہ کا احصان۲۷؂ وتحفظ حاصل نہیں تھا جو آزاد عورت کو حاصل تھا۔ لہٰذا اس کی سزا تو کم ہو گئی، لیکن ایک عورت جو خدا کی طرف سے تھی ہی ناقصِ عقل ، اسے بعض چیزیں سمجھ ہی نہیں آسکتیں تو اس کی سزا کم کیوں نہ ہوئی؟ حد یہ ہے کہ تمام جرائم میں عورت کو مرد کے برابر سزا دی گئی ہے۔ مثلاً چوری کی سزا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی نے فاطمہ نامی عورت کے ہاتھ بھی کاٹے ہیں۔ کیوں یہ بات اس وقت پیش نظر نہ رہی کہ وہ ناقص العقل ہے!
دین کے تمام احکام سے ثابت ہے کہ عورت مرد ہی کی طرح دین کی پوری پوری مکلف ہے۔ مثلاًدونوں ارتکابِ شرک پر دوزخ میں جائیں گے، اگر عورت کم عقل ہے تو اسے تو سمجھ ہی نہیں آئے گی کہ شرک کیا ہے اور کیا نہیں ہے، پھر سزا کس بات کی؟ وغیرہ۔ لہٰذا حدیث کے متن پر یہ اضافہ دین کی باقی تمام تعلیمات کی نفی کرتا ہے۔جن کا مدارقطعی نصوص پر ہے۔ لہٰذا ادرست بات یہ ہے کہ ان کے زیادہ دوزخ میں جانے کا سبب یہی ہوناچاہیے کہ ان کو عقل و شعور تو پورا پورا ہے، لیکن اس کے ہوتے ہوئے وہ مردوں کے مقابلے میں زیادہ گناہ کرتی ہیں اور ان کی عقل پر حاوی ہو کر ان کو گناہوں پر ابھارتی ہیں۔
۶۔ جس نقص دین و عقل کی بات اس روایت میں کی گئی ہے، وہ نقص کہلانے کا موجب نہیں ہے۔ حیض کے دنوں میں نماز نہ پڑھنا اور گواہی کا آدھا ہونا،۲۸؂ کسی طرح نقص بمعنی خطا نہیں ہے۔ خود صانع فطرت نے جس چیز کو جیسا تخلیق کیا ہو، وہ نہ نقص ہے اور نہ دوش دیے جانے کا سبب۔ 
خود شریعت یا صانعِ فطرت نے جس چیز کو مقر ریا تخلیق کیا ہو، وہ نقص موجبِ سزا نہیں ہو سکتا۔ مثلاً ایک گونگے آدمی کو اس بات پر کافرنہیں کہا جاسکتا کہ وہ تصدیق باللسان نہیں کرسکتا ۔عورتوں کے لیے دین ہی یہ ہے کہ وہ ان دنوں میں نماز نہ پڑھیں۔ ان کا ایسا کرنا ہی کامل اطاعتِ الٰہی ہے۔ وہ عورت تو ناقص دین ہے، جو طہرکے دنوں میں نماز نہ پڑھے۔ لیکن وہ عورت ناقص دین کیسے ہو سکتی ہے، جو خدا کے حکم ہی کی وجہ سے چند مخصوص دنوں میں نماز نہ پڑھے۔ لہٰذا یہ تبصرہ بھی برمحل نہیں ہے۔عقل و دین میں ناقص ہونا، رعایت کی وجہ تو ہوسکتا ہے، دوزخی ہونے کی وجہ نہیں ہو سکتا۔
۷۔ اسی طرح جن نقائص کا ذکر ہوا ہے، وہ کسی کی عقل کی کمی پر کیسے دلالت کرتا ہے ؟ کیا حیض میں نماز نہ پڑھنے سے عقل متاثر ہوتی ہے یا گواہی آدھی ہونے سے؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک صحابی۲۹؂ کی گواہی کو دو آدمیوں کے برابر قرار دیا تھا، تو کیا (استغفراللہ ، صرف بات سمجھانے کے لیے عرض کررہا ہوں) باقی تمام صحابہ ابو بکر و عمر، بلکہ خلفاے راشدہ سمیت سب صحابہ نعوذ باللہ ان کے مقابلے میں ناقص العقل تھے؟ ابو بکر کی صدیقیت، عمر کی فاروقیت، عثمان کی حیا ، علی کی قضا، ابن مسعود کی قرآنیت، عبیدہ بن الجراح کی امانۃ الأمۃ، — رضی اللہ عنہم ورضوا عنہ — وغیرہ ان دو گواہیوں والے ایک صحابی کے مقابلے میں کیا ٹھہریں گے! گواہی کے کم یا زیادہ ہونے کا کوئی تعلق عقل و بصیرت سے نہیں ہے۔ ساری امت جانتی ہے کہ ان دو گواہیوں والے صحابی حضرت خزیمہ کے مقابلے میں خلفاے راشدہ — رضوان اللہ علیہم اجمعین — کا مقام و مرتبہ زیادہ ہے، حالاں کہ ان سب کی گواہی خزیمہ کے مقابلے میں آدھی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن مجید نے بھی گواہی کی بنیاد عقل کی کمی بیشی پر نہیں رکھی، بلکہ عدالت۳۰؂ اور بھول چوک (خطا وغیرہ)سے مبرا ہونے ۳۱؂ پر رکھی ہے تاکہ گواہی میں شبہات نہ رہیں۔ یہ دونوں امور ایسے ہیں کہ مرد و عورت برابر ہیں۔

۸۔ عورت کا مرد کی عقل کو فتور میں مبتلا کرکے اس کو غلط کام پر اکسانا بلاشبہ ایک گناہ کی چیز ہو سکتا ہے۔ لیکن یہ کوئی عورت کے ساتھ خاص نہیں ہے۔ مرد بھی عورت اور دیگر انسانوں کو اکساتا ہے۔ رہا وہ پہلو جس کو ابن حجر رحمہ اللہ نے بیان فرمایا ہے کہ مرد جب عورت کے جال میں پھنس کر وہ بات کہہ یا کردیتا ہے جس پر اس نے ابھارا ہوتا ہے تو گویا وہ صرف ابھارنے کی مجرم نہیں ہے، بلکہ اس کارِ شر میں شریک بھی ہے۔ اس لیے وہ زیادہ قصور وار ہوئی ۔۳۲؂ یہ بات بھی تب درست ہے کہ مرد دوسروں کو برائی پر نہ اکساتے ہوں، اور اکسا کر ہمیشہ پیچھے ہٹ جاتے ہوں۔ سچ تو یہ ہے کہ عورت کے لیے مرد وہی کردار ادا کرتا ہے، جو اس روایت میں عورت کے لیے بیان ہوا ہے۔
روایت کا اپنا جملہ تو یہی بات کہتا ہے کہ تمھیں عقل تو پوری ملی ہے، مگر پھر بھی تم مردوں کے مقابلے میں لعن طعن اور کفرانِ زوج کرتی ہو، حالاں کہ اس سے بچنے کی عقل اور صلاحیت تمھیں ویسی ہی دی گئی ہے، جیسی مردوں کو، اسی لیے تو تم زیادہ دوزخ میں جاؤ گی۔ جب کہ اس پر اس متضاد جملے کو عطف کردیا گیا ہے کہ تم ناقص عقل ہو۔
اس دراز گوئی کا مقصد یہ ہے کہ کئی پہلوؤں سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ یہ پیغمبر اسلام کا جملہ نہیں ہے۔ایک صحابی کا فرمان ہے، ان کی بات بھی بلاشبہ ایک نوع کی حجیت اپنے اندر رکھتی ہے، لیکن بہرحال وہ قول رسول کے برابر نہیں ہے۔

اصل بات کیا ہو گی

اوپر کی بحث سے یہی بات واضح ہوتی ہے کہ ناقصات عقل والا جملہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا تھا، جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب کردیا گیا۔
یہ بات اگرچہ میرے اس مضمون کے دائرے میں نہیں آتی ، لیکن اپنی جگہ اہم ہے کہ حدیث میں جن دو جرموں کا ذکر کیا گیا ہے، وہ یہ ہیں کہ وہ شوہروں اور اعزہ کی ناشکری ہیں ، اور لعن طعن زیادہ کرتی ہیں، وہ بظاہر دوزخ میں لے جانے والا جرم محسوس نہیں ہوتا، اس لیے شاید عبد اللہ بن مسعود نے عورتوں کے بہ کثرت دوزخ میں جانے کی ایک اور ایسی وجہ بتانے کی کوشش کی جودوزخ میں لے جانے کا جواز مضبوط کرتی ہو۔ لیکن تمام طرق بلاامتیاز سند اکٹھے کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مختلف احادیث میں جرم کی نوعیت مختلف ہے۔ 
ان جرائم کی فہرست اگر بنائی جائے تو وہ درج ذیل بنیں گے:
۱۔ احمران: سونا اور زعفران۳۳؂ کی بنا پر آخر ت سے غفلت،۳۴؂ یعنی مسلسل زیبایشِ تن میں مشغول رہنا کہ آخرت فراموش ہی ہو کررہ جائے (ادب النساء، رقم ۲۲۰)۔
۲۔شوہر کی احسان فراموشی اور کثرت شکایت، اور مطلق احسان فراموشی (بخاری، رقم ۱۰۵۲، و متعدد۔ کثرتِ شکایت کا مضمون سنن دارمی، رقم ۱۶۵۱)۔
۳۔ لعن طعن کرنا اور دوسری عورتوں میں اس عادت کو پھیلانا(سنن الدارمی، رقم۱۶۵۱)۔
سواے پہلے جرم کے ان میں سے ہرجرم الگ الگ بہ کثرت دوزخ میں جانے کا سبب بنتا ہے یا نہیں۔ بحیثیت فرمانِ پیغمبر ہمیں ماننے میں تردد نہیں ہے، لیکن ایک ایسا جرم جس کی سزا میں ایک گروہِ انسانیت بہ کثرت دوزخی ہونے والا ہو، تو اس کو محض ایک روایت میں بیان کیا جائے ، کہیں اور زیر بحث نہ آئے، یہ ایک حیرت کی بات ہے؛ نہ قرآن میں، نہ اور دیگر احادیث میں۔ لہٰذا تاویل کرنا ہوگی۔ حضرت عبدا للہ نے یہی کوشش کی تھی۔جو اب ہمارے سامنے قول رسول کا حصہ بن کر روایت ہو ئی ہے۔لیکن یہ تاویل اوپر کی بحث سے واضح ہے کہ دین کے محکم اصولوں اور تعلیمات کے برعکس ہے۔
اگر زینب زوجہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم کی روایت تک بات کو محدود رکھا جائے، جو اس گفتگو کے وقت خواتین کے پنڈال میں تھیں تو نہ ناقصاتِ عقل و دین والی بات حدیث نبوی کا حصہ بنتی ہے، اور نہ شوہر کی ناشکری اور لعن طعن والی بات۔ حضرت زینب نے ان دونوں باتوں کا ذکر اپنی کسی روایت میں نہیں کیا۔جو بذات خود ایک اہم بات ہے۔
لفظی ادراج کی ایک مثال پر اکتفا کرتا ہوں،اس لیے کہ مضمون پہلے ہی بہت طویل ہو گیا ہے۔

معنوی ادراج

پہلی مثال تو حدیث میں ایک جملے کے درج ہونے کی ہے، یہ دوسری مثال اس بات کی ہے کہ بالمعنیٰ روایت ہونے سے معنوی ادراج بھی ہوتا ہے۔ جس کی یہاں میں وہ مثال دوں گا جس کی غلطی خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہی نے نکال دی تھی۔آئیے اب ایسی ہی ایک مثال دیکھتے ہیں، جس میں ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے تبدیلی کی ، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اصلاح کی۔یہ تبدیلی ایسی ہے کہ شاید ہی کسی عالمِ دین کی گرفت میں آ سکتی:

عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ’’إِذَا أَتَیْتَ مَضْجَعَکَ، فَتَوَضَّأْ وُضُوْءَ کَ لِلصَّلٰوۃِ، ثُمَّ اضْطَجِعْ عَلٰی شِقِّکَ الْأَیْمَنِ، ثُمَّ قُلْ: أَللّٰہُمَّ أَسْلَمْتُ وَجْہِيْ إِلَیْکَ، وَفَوَّضْتُ أَمْرِيْ إِلَیْکَ، وَأَلْجَأْتُ ظَہْرِيْ إِلَیْکَ، رَغْبَۃً وَرَہْبَۃً إِلَیْکَ، لاَ مَلْجَأَ وَلاَ مَنْجَا مِنْکَ إِلَّا إِلَیْکَ، أَللّٰہُمَّ آمَنْتُ بِکِتَابِکَ الَّذِيْ أَنْزَلْتَ، وَبِنَبِیِّکَ الَّذِيْ أَرْسَلْتَ. فَإِنْ مُتَّ مِنْ لَیْلَتِکَ، فَأَنْتَ عَلَی الْفِطْرَۃِ، وَاجْعَلْہُنَّ آخِرَ مَا تَتَکَلَّمُ بِہِ‘‘. قَالَ: فَرَدَّدْتُہَا عَلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا بَلَغْتُ: أَللّٰہُمَّ آمَنْتُ بِکِتَابِکَ الَّذِيْ أَنْزَلْتَ، قُلْتُ: وَرَسُوْلِکَ، قَالَ: ’’لاَ، وَنَبِیِّکَ الَّذِيْ أَرْسَلْتَ‘‘. (بخاری، رقم ۲۴۷)

’’براء بن عازب کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب سونے کے لیے بستر پرآؤ تو نماز والا وضوکرو، پھر دائیں کروٹ پر لیٹ جاؤ، پھر یہ دعا کیا کرو: ’اے اللہ، میں اپنے آپ ۳۵؂ کو آپ کے حوالے کرتا ہوں۔ اپنا معاملہ آپ کو تفویض کرتا ہوں ، آپ کی پشت پناہی میں آتا ہوں، آپ کے ساتھ تعلق خاطر اور آپ کی رعب و ہیبت کی وجہ سے،اوراس وجہ سے کہ آپ کے سوا میرا نہ کوئی ملجا ہے اور نہ کوئی جائے پناہ۔ اے اللہ، میں نے آپ کی کتاب قرآن مجید کو مان لیا ہے، اور آپ کے نبی کو بھی مان لیا ہے، جنھیں آپ نے رسول بنا کر بھیجا ہے۔ ‘ یہ دعا سکھا کر آپ نے فرمایا : اگر تو اس رات کو مرگیا، تو تو فطرتِ سلیم پر فوت ہوگا، ان الفاظ کو اپنے آخری کلمات بنا لو، جو تم سوتے وقت کہوگے۔ توکہتے ہیں کہ میں نے یہ دعا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو(یہ دیکھنے کے لیے کہ مجھے صحیح یاد ہو گئی ہے)سنائی تو جب میں یہاں پہنچا کہ اے اللہ، میں نے آپ کی کتاب کو مان لیا ہے، اور ’آپ کے رسول‘... تو آپ نے فوراً ٹوکا: کہ نہیں یوں کہو، ’آپ کے نبی جن کو آپ نے رسول بنا یا ہے‘۔‘‘

یہاں دیکھیے کہ ہمارے لیے یہ بات شاید اتنی اہمیت کی حامل نہ ہو، ہمارا کوئی ساتھی اگر یہ جملہ یوں بھی کہتا کہ ’و رسولک الذي أرسلت‘، تو ہم کہتے چلو ٹھیک ہے، اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ لیکن نبی آخر الزماں کی بصیرتِ رسالت اس بات کو ایسے ہی نہیں جانے دینا چاہتی ، اس لیے کہ اس سے دین کی دوبنیادی اور اہم اصطلاحات میں خرابی آجاتی۔ قرآن مجید میں نبی اور رسول دو الگ الگ منصب ہیں۔ یہ تو ہے کہ انسانوں میں سے ہر رسول نبی لازماً ہوتا ہے، لیکن ایسا نہیں ہے کہ ان میں سے ہر نبی لازماً رسول ہو۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ دونوں منصب حاصل تھے۔ یہی وجہ ہے کہ صرف خاتم النبیین کہنے سے انسانوں میں نبوت و رسالت، دونوں ختم ہو جاتے ہیں۔ اگر خاتم المرسلین کہا جاتا تو نبوت کا اجرا قائم رہتا، کیونکہ نبوت بنیادی منصب ہے، اور رسالت اس کی بنیاد پر ملنے والااعلیٰ منصب ہے۔اس فرق کو ایک مثال سے سمجھتے ہیں۔کسی شخص کو وزارت عظمیٰ پانے کے لیے پارلیمنٹ کا ممبر ہونا ضروری ہے، لیکن ہر پارلیمانی ممبر کے لیے وزیر اعظم ہونا لازم نہیں ۔ کچھ ایسا ہی معاملہ نبوت و رسالت کا ہے۔ جب تک کوئی شخص نبی نہ بنایا جائے، اسے رسالت کا منصب نہیں مل سکتا۔ اس روشنی میں آپ اس جملے کہ ’نبی جن کواللہ نے رسول بنا کر بھیجا ہے‘ کی اہمیت کو سمجھ سکتے ہیں کہ اس میں کس حقیقت کو بیان کیا گیا ہے۔اب اگر وہ جملہ بولا جائے جو میں نے قیاساً لکھا ہے کہ جو غالباً حضرت براء رضی اللہ عنہ کہنا چاہتے تھے، تو وہ اس تصورِ نبوت کے برعکس ہوجاتا ہے۔اس تصور کو قرآن مجید میں بھی پوری طرح ملحوظ رکھا گیا ہے۔ مثلاً سورۂ اعراف کی ذیل کی آیت میں دیکھیے کہ منصبوں کو کس طرح ترتیبِ نزولی سے بیان کیا گیا ہے۔ ہم نے سہولت کے لیے الفاظ کو خط کشید کردیا ہے:

قُلْ یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعَانِ الَّذِیْ لَہٗ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ یُحْیٖ وَیُمِیْتُ فَاٰمِنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہِ النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ الَّذِیْ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَکَلِمٰتِہٖ وَاتَّبِعُوْہُ لَعَلَّکُمْ تَھْتَدُوْنَ.(۷: ۱۵۸) 
’’ان سے کہو، اے لوگو، میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول بنایا گیا ہوں، اس خداکا رسول جو زمین وآسمان کا بادشاہ ہے، جس کے سوا کوئی اور خدا نہیں ہے، جو زندگی اور موت دیتا ہے، لہٰذا اللہ کو مانو، اور اس کے اس رسول کو مانو، جو امیوں میں سےنبی ہے، جو بذاتِ خود بھی اللہ اور اس کے کلام کو مانتا ہے، اس کی پیروی کرو تو ہدایت پاؤ گے۔‘‘

یہ مثال میں نے اس لیے پیش کی کہ لفظی روایت کرنے سے بصیرتِ رسالت کے چنے ہوئے الفاظ ہم تک منتقل ہوتے ہیں، جن میں نہایت باریک اور دقیق پہلوؤں کا بھی پورا پورا لحاظ رکھا گیا ہوتا ہے، جیسا کہ اس مثال میں ہم نے دیکھا۔ لیکن ذہین سے ذہین امتی، بڑے سے بڑا امام، اس بصیرتِ رسالت سے محروم ہوتا ہے، اس لیے وہ جب کلامِ نبوی کو بالمعنیٰ روایت کرے گا تو اس کے لیے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ وہ اس بصیرت سے بات کو آگے منتقل کرے کہ اس میں معمولی سا تغیربھی نہ آیا ہو۔ اس مثال میں براء جیسے جلیل القدر صحابی ہیں، وہ کم عمر ہونے کی وجہ سے اس نازک بات کا فرق ملحوظ نہیں رکھ سکے، جس پر نبیِ رحمت نے ان کی اصلاح کی۔شاید یہی وہ پہلو تھا کہ جس کی وجہ سے قدیم احناف راوی کے فقیہ ہونے کی شرط بھی لگاتے تھے۔لیکن سچی بات یہ ہے کہ صاحبِ نبوت کا وہ ملکہ اورعلم جنھیں قرآن مجید نے ’الْکِتٰب‘، ’الْحُکْم‘ اور ’النُّبُوَّۃ‘ ۳۶؂ کہا ہے، وہ فقیہ سے فقیہ راوی کے پاس بھی نہیں ہوسکتے۔
عصر حاضر میں جو حملہ حدیث پر ہوا ہے، اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ بھی ہے کہ ان فقیہ اور غیر فقیہ راویوں نے روایت بالمعنیٰ کے طریقے پر جب بات کو اپنے الفاظ میں منتقل کیا ، اور مثلاً ’نبی‘ کی جگہ ’رسول‘ کا لفظ بول دیا ہوگا، جس سے معنی میں کہیں معمولی، کہیں بڑا اور کہیں غیر معمولی فرق آگیا ہو گا ۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ذخیرۂ حدیث کو متساہل طریقے سے اختیار نہ کریں،بلکہ نہایت دقتِ نظر سے تمام ذخیرۂ حدیث کو پرکھیں اور کوشش کریں کہ لفظی اور معنوی ادراجات سے جس قدر ممکن ہو حدیث کو پا ک کرلیں۔ لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جہانِ فانی سے رخصت ہو جانے کے بعد اب کون اس کے بارے میں بتا سکے گا کہ راویوں نے الفاظ بدل کر مضمون میں کیا کیا تبدیلیاں کردی ہیں۔اب ہمارے پاس اس عمل کے لیے خود قرآن مجید،سنت متواترہ اورمتعدد طرقِ حدیث ہی کی روشنی میسر ہے۔ اس لیے نہایت دقت نظر سے کام کی ضرورت ہو گی۔

راے کا ادراج

اس کے معنی یہ ہیں کہ کسی صحابی یا راوی کا فتویٰ یا راے حدیث کا حصہ بن گئی ہو۔ اس کی ایک عمدہ مثال وہ حدیث ہے جس میں عبداللہ ابن مسعودرضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ حسن بڑھانے کے لیے اگر ایسے کام کیے جائیں جو خلق اللہ میں تبدیلی کرتے ہوں تو ان پر اللہ تعالیٰ نے لعنت کی ہے (بخاری، مسلم)۔ وہ حدیث یہ ہے:

عن عبد اللّٰہ قال: لعن اللّٰہ الواشمات والمتوشمات والمتنمصات والمتفلجات للحسن المغیرات خلق اللّٰہ ۔ فبلغ ذلک إمرأۃ من بني أسد یقال لہا أم یعقوب، فجاء ت فقالت: إنہ بلغني أنک لعنت کیت وکیت، فقال: وما لي لا ألعن من لعن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم ومن ہو في کتاب اللّٰہ، فقالت: لقد قرأت ما بین اللوحین فما وجدت فیہ ما تقول، قال: لئن کنت قرأتیہ لقد وجدتیہ، أما قرأت: ’’وَمَا آتَاکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَمَا نَہَاکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْا‘‘؟ قالت: بلی، قال: فإنہ قد نہی عنہ.(بخاری، رقم ۴۶۰۴)

’’حضرت عبد اللہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حسن و تزیین کے لیے جلد پر نقش بنانے،اور بنوانے والیوں پر، چہرے کے بال اکھڑوانے والیوں، دانتوں کو رگڑ کر ان کا باہمی فاصلہ بڑھانے والیوں،اور یوں خلق اللہ کو تبدیل کرنے والیوں پر لعنت کی ہے۔ان کی یہ بات بنو اسد قبیلے کی ایک خاتون، جنھیں ام یعقوب کہا جاتا تھا، نے سنی تو وہ ان کے پاس آئی اور کہا کہ میں نے سنا ہے کہ آپ کچھ اس طرح کے لوگوں پر لعنت کرتے ہیں! انھوں نے کہا کہ میں ان پر لعنت کیوں نہ کروں جن پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت کی، اور جن کا ذکر قرآن مجید میں بھی ہو۔اس عورت نے کہا کہ میں نے تو قرآن مجید شروع سے آخر تک پڑھا ہے۔ لیکن میں نے تو اس میں ایسی کوئی بات نہیں پائی جو آپ کہتے ہیں۔ انھوں نے جواب میں کہا: اگر آپ نے صحیح طرح سے قرآن پڑھا ہوتا تو یقیناًیہ بات آپ اس میں پا لیتیں۔ کیا آپ نے یہ نہیں پڑھا کہ ’’جو کچھ اللہ کے رسول نے دیا ہے، وہ لے لو، اور جس سے آپ نے روکا ہے، اس سے رک جاؤ‘‘؟ اس عورت نے کہا: ہاں، میں نے یہ آیت پڑھی ہے۔ تو انھوں نے کہا کہ پھر جان لو کہ ان کاموں سے نبی اکرم نے روکا ہے۔‘‘

اس میں بیان کردہ تین نکات ہیں:
۱۔اللہ تعالیٰ نے ان خواتین پر لعنت کی ہے جو ’واشمات‘،’متوشمات‘،’متنمصات‘ اور ’متفلجات‘ ہیں۔
۲۔ یہ لعنت زیب و زینت (makeup) کے لیے ایسا کرنے والیوں پر ہے ، ابن مسعود رضی اللہ نے اس کے لیے ’للحسن‘ کے الفاظ بولے ہیں۔
۳۔ ایسی زیب وزینت لعنت کی مستحق ہے جو خلق اللہ میں تبدیلی پیدا کرے۔
دوسرا اور تیسرا نکتہ سراسر ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی اپنی راے ہے، اس کا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ پہلا نکتہ جزواً نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب ہو سکتا ہے، لیکن جس محل میں یہ آیا ہے ، اس محل میں یہ حضرت ابن مسعود کی اپنی ذاتی راے ہے۔ اسی طرح ملعونین کی فہرست میں بھی انھوں نے اضافہ کیا ہے۔ دیگر صحابہ سے صرف ’وشم‘ اور ’وصال الشعر‘ سے متعلق بیان لعنت روایت ہوا ہے۔ ’تنمص‘اور ’تفلج‘ کے بارے میں نہیں۔
ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی اس روایت کے اگر تمام طرق اکٹھے کیے جائیں تو ان کی راے کچھ یوں تشکیل پاتی ہے: بالوں میں مصنوعی بال لگانا، اور جلد پر نقش بنوانا، دونوں ایسے عمل نہیں ہیں کہ قرآن وسنت پر نظر رکھنے والا، ان کو ایسا جرم سمجھے جس پر اللہ تعالیٰ خود لعنت کررہے ہوں،اس لیے کہ قرآن اور سنت دینی اور اخلاقی چیزوں پر زور دیتے ہیں ، یہ چھوٹی چھوٹی باتیں اتنا سنگین جرم کیوں ہیں ؟ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے قرآن و سنت پر غور کرکے اس کی سنگینی کا سبب ازخودمتعین کیا۔ یہ سبب ظاہر ہے ان کے اپنے اجتہادی فہم پر مبنی تھا۔اس جرم کو انھوں نے ایسی چیز سے جوڑا جو واقعی اس لعنت کی مستحق ہو۔ قرآن مجید میں انھیں ایک ملتی جلتی چیز ملی۔ وہ جانوروں کے کا ن وغیرہ کاٹنے سے متعلق تھی:

وَّلَاُضِلَّنَّھُمْ وَلَاُ مَنِّیَنَّھُمْ وَلَاٰمُرَنَّھُمْ فَلَیُبَتِّکُنَّ اٰذَانَ الْاَنْعَامِ وَلَاٰمُرَنَّھُمْ فَلَیُغَیِّرُنَّ خَلْقَ اللّٰہِ وَمَنْ یَّتَّخِذِ الشَّیْطٰنَ وَلِیًّا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ فَقَدْ خَسِرَ خُسْرَانًا مُّبِیْنًا.(النساء ۴: ۱۱۹)

جانوروں کے کان کاٹنا ، جسم پر نقش بنانے جیسا ہی ایک کام ہے۔لیکن سوال یہ ہے کہ ایک جانورکے کان میں محض ایک کٹ لگا دینا اتنا برا کیوں ہے؟ قرآن کی اسی آیت میں اس کی علت بھی بتائی گئی ہے اور وہ خلق اللہ میں تبدیلی ہے۔ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے اسے ظاہری معنی میں لیا، یعنی جسم میں کوئی ظاہری تغیر خلق اللہ میں تبدیلی ہے۔ جیسے یہاں کانوں کو چھیدنایا چیرنا بیان ہوا ہے۔اسے اللہ تعالیٰ نے ’خسران مبین‘ کا باعث بتایا ہے۔اس پر قیاس کرتے ہوئے عبد اللہ ابن مسعود نے اسی حکم کا انظباق ’وشم‘ اور ’وصال الشعر‘ والی نہی پر بھی کردیا۔یہی نہیں، بلکہ اس سے ملتی جلتی چیزوں کو بھی اس میں شامل کردیا۔ ظاہری معنی میں جو جو کام خلق اللہ میں تبدیلی کا باعث تھے، وہ سب انھوں نے اس حکم کے تحت جمع کردیے۔ لہٰذا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ’وشم‘ اور ’وصال شعر‘ سے روکا تھا تو انھوں نے ’تنمص‘اور ’تفلج‘ کو بھی ایسا ہی عمل قرار دے دیا۔ یہ غور و فکر کاایک عمدہ منہج ہے، جس سے فہم دین کے دروازے وا ہوتے ہیں۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس سے سمجھی جانے والی بات قول رسول نہیں بنتی۔ مگر ہمارے ہاں اسے قول رسول سمجھا گیا ہے۔ کسی اور صحابی نے ’وشم‘ اور ’وصال شعر‘ کی روایت بیان کرتے وقت یہ سب کچھ نہیں بتایا۔پورا ذخیرۂ احادیث اس سے خالی ہے کہ حضرت ابن مسعود کے سوا کسی نے ’وشم‘ اور ’وصال شعر‘ کو خلق اللہ میں تبدیلی کے تحت بیان کیا ہو، اور زیبایش کے لیے ایسا کرنے والوں پر اس طرح سے لعنت بھیجی ہو۔
اس روایت کا لفظ لفظ بتا رہا ہے کہ یہ ان کی راے ہے۔بنو اسد کے قبیلے کی خاتون نے یہ سوال نہیں کیا کہ آپ حدیث سنا رہے ہیں تو یہ آپ نے کہاں سے لی ہے۔ اس کا سوال یہ تھا کہ آپ ان ان لوگوں پر لعنت کیوں کررہے ہیں؟ اس سوال سے صاف مترشح ہے کہ وہ اس راے کو حدیث کے طور پر نہیں، بلکہ ابن مسعود کی راے کے طور پر لے رہی تھی،اور عبد اللہ ابن مسعود نے جو جواب دیا ، وہ بھی یہی بتا رہا ہے کہ وہ اپنی راے ہی کا دفاع کررہے ہیں۔نہ وہ قول رسول سنا رہے ہیں اور نہ کسی قول رسول کا دفاع کررہے ہیں۔
جب بنو اسد کی عورت نے ان سے پوچھا تو انھوں نے یہ کہنے کے بجاے کہ یہ میری راے نہیں ہے میں آپ کو حدیث نبوی سنا رہا ہوں ۔ انھوں نے اپنی راے کا دفاع کیا ہے، انھوں نے کہا کہ میں ان پر لعنت کیوں نہ کروں جن پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت کی، اور جن کا ذکر قرآن مجید میں بھی ہے۔ ان کے جملہ کا ابتدائی حصہ کہ ’میں ان پر لعنت کیوں نہ کروں‘ بتارہا ہے کہ لعنت کرنے کا عمل ان کا اپنا ہے۔ ورنہ سیدھا جواب یہ تھا کہ میں تو حدیثِ نبوی سنا رہا ہوں، خود میں نے تو کسی پر لعنت نہیں کی۔ ان کے مروی جملے سے باول وہلہ دوسرا تاثر ہوسکتا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ حدیث کی حکایت کرنے کے بجاے اپنی راے کے حق میں ایک مکمل علمی استدلال پیش کر رہے ہیں۔

ان کے جواب پر دوبارہ نظر ڈالیے: انھوں نے کہا کہ میں ان پر لعنت کیوں نہ کروں جن پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت کی، اور جن کا ذکر قرآن مجید میں بھی ہے۔ اس کا خط کشیدہ حصہ یہ بتا رہا ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے استدلال کررہے ہیں، لیکن براہ راست حدیث پیش نہیں کر رہے تھے۔ ان کا اسلوب استدلال کا اسلوب ہے،روایتِ حدیث کا نہیں۔ان کو بس کہنا چاہیے تھا، مجھے دوش نہ دو، میں نے خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ان ان لوگوں پر لعنت کرتے سنا ہے وغیرہ۔ان کا منشا یہ ہے کہ میری اس راے کہ یہ اوریہ لوگ عند اللہ ملعون ہیں، کی بنیاد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل پر ہے۔
ان کے جملے کو ایک دفعہ اور دیکھیں: انھوں نے کہا کہ میں ان پر لعنت کیوں نہ کروں جن پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت کی، اور جن کا ذکر قرآن مجید میں بھی ہے۔ جملہ کا آخری خط کشیدہ حصہ دل چسپ ہے، یہ ترجمہ ہے ان کے الفاظ: ’ومن ہو في کتاب اللّٰہ‘ کا۔اس جملے میں ’مَن ہو‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ ان کی بات کا مطلب یہ ہے کہ میں جن لوگوں پر لعنت کررہا ہوں۔ ان کا ذکرقرآن مجید میں بھی ہے۔لیکن حدیث کا تمام ذخیرہ ان کے جواب کا وہ حصہ نقل نہیں کرتا، جس میں وہ یہ بتائیں کہ قرآن میں ان کا ذکر کہاں ہے؟ کسی راوی نے ان کی بات کو سمجھے بغیر ایک غیر متعلق آیت روایت میں بیان کردی ہے۔یہاں تو وہ آیت آنی چاہیے تھی، جو ان ملعون لوگوں کا ذکر کرتی جو ’وشم‘ اور ’وصال الشعر‘ کے مجرم ہوں، کیونکہ ان کے جملے میں ’من‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے جو انسانوں کے لیے بولا جاتا ہے، باتوں یا نظریات کے لیے نہیں، اور یہاں کوئی ایسا قرینہ بھی نہیں ہے کہ اسے مجازی معنی میں لیا جائے۔ اس سے تصرف در تصرف جو روایات میں ہوتا ہے، وہ بھی آپ پر واضح ہورہا ہوگا، کہ کس طرح الفاظ، آیات اور جملے کیا سے کیا ہوجاتے ہیں۔
اس روایت میں بیان کردہ آیت تو زیادہ سے زیادہ یہ بتارہی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو ماننے کا حکم قرآن میں ہے۔یہ آیت تو اس کو پیش کی جانی چاہیے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دین کا ماخذ نہ مانتا ہو۔ ویسے سچی بات ہے کہ یہ آیت یہ بھی نہیں بتاتی۔ اس کے لیے اس سے زیادہ صریح آیات قرآن مجید میں موجود ہیں، جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اخذِ دین اور آپ کی اطاعت کا حکم دیتی ہیں۔لیکن بفرض محال یہ آیت یہ معنی دیتی بھی تو تب بھی پوری حدیث کے مضمون میں یہ آیت بے محل (misfit) ہے۔ انھوں نے یقیناًاس خاتون کو وہ آیت سنائی ہوگی جس میں خلق اللہ میں تبدیلی کرنے والوں کا ذکر ہو گا۔ وہی آیت جو ہم نے اوپر سورۃ النساء سے نقل کی ہے۔بس اسی آیت میں خلق اللہ میں تبدیلی کرنے والوں کا ذکر ہے۔لیکن راویوں سے یہ آیت فراموش ہو گئی ۔ کسی راوی نے اپنی طرف سے اس آیت کا یہاں پیوند لگا دیا ۔بعد میں یہ آیت موضوع سے متعلق نہ ہونے کے باجود ماخذِ دین پراستدلال کے لیے پیش کی جانے لگی۔بہرحال زیر بحث موضوع سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے، کیونکہ عبد اللہ بن مسعود کی بات یہ تھی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ان لوگوں کو برا کہا ہے اور قرآن مجید نے بھی، اس لیے میں ان کو برا کہہ رہا ہوں، نہ کہ وہ قولِ رسول کی شرعی حیثیت منوانا چاہ رہے تھے۔
اس ادراجِ راے سے آپ یہ جان سکتے ہیں کہ ایک بات مستقل طور پر دین و شریعت کا حکم بن گئی کہ سواے چند تبدیلیوں کے جن میں سر کی حجامت، مونچھوں کی تراش اور ڈاڑھی کا خط وغیرہ شامل ہیں کے سوا، اب جسم انسانی پر ہرطرح کی تبدیلی حرام ہوگی اور وہ حرمت بھی کبیرہ گناہ کے برابر ہے، اس لیے کہ ان اعمال پر لعنت کی گئی ہے۔ جو قرآنی پس منظر میں شرک اورقرآن اور رسول کے انکارجیسے جرائم پر کی گئی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک امتی کی راے ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ درج ذیل روایت پر نگاہ ڈالیں۔ اس میں ’وشم‘ کرنے والیوں کے بارے میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ وہ الفاظ نقل کررہے ہیں، جو خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہے۔اس حدیث میں لعنت اور خلق اللہ میں تبدیلی کا ذکر نہیں ہے ۔اگرچہ اس روایت میں بھی تصرف کا پورا امکان ہے ، مگر پھر بھی کسی قدریہ بات سامنے آتی ہے کہ حضرت عمر جیسے آدمی کے پوچھنے پر انھوں نے وہی بات کہی ہے جو خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہوگی:

عن أبي ہُرَیْرَۃَ قال: أتی عُمَرُ بِامْرَأَۃٍ تَشِمُ، فَقَامَ فقال: أَنْشُدُکُمْ بِاللّٰہِ مَنْ سَمِعَ مِنَ النَّبِيِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فِي الْوَشْمِ، فقال أبو ہُرَیْرَۃَ: فَقُمْتُ فقلت: یا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ، أنا سمعت، قال: ما سَمِعْتَ؟ قال: سمعت النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول: ’’لَا تَشِمْنَ ولا تَسْتَوْشِمْنَ‘‘.(صحیح بخاری، رقم ۵۶۰۲)
’’ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ کے پاس ایک عورت کو لایا گیا ، جو جلد پر نقش بناتی تھی، تو آپ اٹھے اور کہا کہ میں تم کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کون ہے جس نے ’وشم‘ کے بارے میں آپ کو کچھ فرماتے ہوئے سنا ہو؟ ابوہریرہ نے کہا کہ میں کھڑا ہوا اور بولا کہ اے امیر المومنین، میں نے سنا تھا۔ حضرت عمر نے کہا: تم نے کیا سنا تھا؟ ابو ہریرہ نے کہا: میں نے نبی پاک کو کہتے سنا تھا، آپ فرما رہے تھے: نہ نقش جِلد پر بناؤ نہ بنواؤ۔‘‘

اسے ہم نے اصل روایت اس لیے قرار دیا ہے کہ اس میں سیدنا عمر کے مطالبہ پر سیدنا ابو ہریرہ نے وہی الفاظ بتائے ہیں جو انھوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنے تھے۔ چنانچہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ صرف یہ ہیں کہ: ’لَا تَشِمْنَ ولا تَسْتَوْشِمْنَ‘ (نہ tattoo بناؤ اور نہ بنواؤ)۔
کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی لعنت والی روایت نقل ہوئی ہے:

عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ عن النبي ۔ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ۔ قالَ: ’’لَعَنَ اللّٰہُ الوَاصِلَۃَ والمُسْتَوْصِلَۃَ، والوَاشِمَۃَ والمُسْتَوشِمَۃَ.‘‘(بخاری، رقم ۷۲۳)

تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ابو ہریرہ نے یہ بات حضرت عمر سے کیوں نہیں کہی؟لگتا یہی ہے کہ بعد کے راویوں نے عبد اللہ ابن مسعود کے اثر میں یہ روایت میں تبدیلی کی ہے۔ اسی طرح سیدہ اسماء و عائشہ رضی اللہ عنہما سے بھی لعنت والی روایات نقل ہوئی ہیں:

عن أسماء بنت أبي بکر قالت: جاء ت إمرأۃ إلی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقالت: یا رسول اللّٰہ، إن لي إبنۃ عریسًا أصابتہا حصبۃ فتمرق شعرہا أفأصلہ؟ فقال: ’’لعن اللّٰہ الواصلۃ‘‘.(مسلم، رقم ۲۱۲۲)
’’اسماء بنت ابوبکر سے روایت ہے کہ ایک عورت نبی اکرم کی خدمت میں حاضر ہوئی، تو اس نے پوچھا کہ اے رسول اللہ، میری بیٹی کی شادی ہے، لیکن اسے حصبہ کی بیماری ہوئی اور اس کے بال گر گئے ہیں، تو کیا میں مصنوعی بال اسے لگا دوں؟ آپ نے فرمایا: اللہ نے ایسا کرنے والی پر لعنت کی ہے۔‘‘

بخاری میں سیدہ عائشہ سے ایک ملتی جلتی روایت یوں آئی ہے:

عن عائشۃ أن امرأۃ من الأنصار زوجت إبنتہا فتمعط شعر رأسہا، فجاء ت إلی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم فذکرت ذلک لہ، فقالت: إن زوجہا أمرني أن أصل في شعرہا فقال: ’’لا إنہ قد لعن الموصلات‘‘. (بخاری، رقم ۴۹۰۹) 
’’سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انصار کی ایک عورت نے اپنی بیٹی کی شادی کی، تو کسی بیماری کی وجہ سے اس کے سر کے بال جھڑ گئے۔ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئی، اور یہ بات بتا کر بولی کہ میری بیٹی کے شوہر نے کہا ہے کہ میں اس کے بالوں میں دوسرے بال لگا دوں۔ آپ نے فرمایا: نہیں بال لگانے والیوں پرلعنت کی گئی ہے۔‘‘

واقعہ اور آخری جملہ دونوں روایتوں میں مختلف ہو گئے ہیں۔ مسلم میں شوہر کا ذکر نہیں ہے شادی ابھی ہونی ہے، اور بخاری میں شوہر کے مطالبے پر بال لگانے کا ذکر ہے اور شادی ہو چکی ہے۔ اسی طرح آخری جملہ کے الفاظ بھی بدل گئے ہیں، راویوں نے اپنے فہم کے مطابق ان میں تبدیلی کردی ہے۔ سیدہ اسماء کی روایت سے یہ کبیرہ گناہ بنتا ہے اور سیدہ عائشہ کے الفاظ سے ایسا نہیں ہوگا۔ابن عباس رضی اللہ عنہ سے بھی اسی مضمون کی ایک روایت نقل ہوئی ہے:

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: ’’لُعِنَتِ الْوَاصِلَۃُ، وَالْمُسْتَوْصِلَۃُ، وَالنَّامِصَۃُ، وَالْمُتَنَمِّصَۃُ، وَالْوَاشِمَۃُ، وَالْمُسْتَوْشِمَۃُ، مِنْ غَیْرِ دَاءٍ.‘‘(سنن ابی داؤد، رقم ۴۱۷۰)

دو روایتیں حضرت معاویہ سے یوں نقل ہوئی ہیں:

عَنْ مُعَاوِیَۃَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ: ’’أَیُّمَا امْرَأَۃٍ أَدْخَلَتْ فِيْ شَعَرِہَا مِنْ شَعَرِ غَیْرِہَا، فَإِنَّمَا تُدْخِلُہُ زُوْرًا.‘‘(مسند احمد، رقم ۱۶۹۲۷)

عَنْ سَعِیْدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ قَالَ: قَدِمَ مُعَاوِیَۃُ بن أبِي سفیان الْمَدِینَۃَ آخِرَ قَدْمَۃٍ قَدِمَہَا فَخَطَبَنَا، فَأَخْرَجَ کُبَّۃً مِنْ شَعَرٍ فقَالَ: مَا کُنْتُ أَرٰی أَحَدًا یَفْعَلُ ہٰذَا غَیْرَ الْیَہُوْدِ، إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَمَّاہُ زُوْرًا، یَعْنِی الْوِصَالَ فِي الشَّعَرِ.(بخاری، رقم ۲۲۹۴)

ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت میں اگرچہ بات اللہ تعالیٰ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے نہیں کی گئی۔ لیکن اس سے مراد یقیناًیہی لی جاتی ہے کہ یہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے لعنت کی گئی ہے۔اس روایت نے ایک اور اضافہ کردیا ہے،وہ ’غیر داء‘ کا اضافہ ہے، یعنی جس نے یہ کام بلاوجہ کیے، ان پر لعنت کی گئی ہے، بیماری کی وجہ سے کرنے والے پر لعنت نہیں ہے۔لیکن یہ بات مذکورہ بالا تمام روایات کے خلاف ہے: عبداللہ بن مسعود صرف حسن کے لیے خلق اللہ میں تبدیلی پر لعنت کررہے ہیں ، سیدات اسماء اور عائشہ بیماری کے باوجود لعنت کا کہہ رہی ہیں ۔ ابوہریرہ مطلقاً ہر اس شخص پر لعنت کررہے ہیں جو ایسا کرے، بیماری میں یا بیماری کے بغیر، لیکن ابن عباس فرماتے ہیں کہ بیماری کی وجہ سے ایسا کرنے والوں پر لعنت نہیں ہے۔حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے دو اور پہلوؤں کا اضافہ کیا ہے اور صریح الفاظ میں ایک کی نسبت نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کی ہے، وہ یہ کہ ایسا کرنا دھوکا (زُور) ہے۔ دوسرا اضافہ ان کا اپنے علم کی بنا پر ہے اور یہ ہے کہ ایسا صرف یہود کرتے تھے۔ہو سکتا ہے کہ یہود کا یہ عمل کسی دینی فتویٰ پر کیا جاتا ہو، تو اسے بدعت ہونے کی وجہ سے منع کیا گیا ہو۔اس عمل پر لعنت بھی ہو سکتی ہے ، اس لیے کہ افتراء علی اللہ بھی ایک اسی نوعیت کا جرم ہے، جس پر لعنت ہو سکتی ہے۔ بہرحال اوپر کی تفصیل کا مطلب یہ ہے کہ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کیا تھا؟ وہ ہمیں مکمل الفاظ میں منتقل نہیں ہو سکا۔
حضرت معاویہ کی بات کسی حد تک اس ممانعت کو دینی معنی میں قابل فہم بنادیتی ہے کہ جس نے دھوکا دینے کے لیے مصنوعی بال سر میں لگائے، وہ خدا سے سزا پائے گا۔ مثلاً یہ کہ کسی بچی کے رشتے کے وقت حقیقت چھپا نے کے لیے مصنوعی بال لگا کر رشتہ دکھا یا جائے اور دلہا والوں کو دھوکے میں رکھا جائے کہ اس کے سرپر بال موجود ہیں ، حالاں کہ اس کے بال نہ ہوں تو یہ بلاشبہ گناہ کی بات ہے اور اس پر لعنت ملامت کی جاتی ہے۔ لیکن یہ علت باقی لعنت کیے گئے اعمال میں کام نہیں آتی۔اگر ان پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے واقعی لعنت کی ہے تو اس کی دینی معنی میں وجہیں بس دو ہی سمجھ میں آتی ہیں: ایک یہ کہ عرب ان حرکات کو دین کا حکم سمجھ کر کرتے ہوں ، اور دوسرے یہ کہ یہ مشرکانہ رسومات ہوں، تاریخی طور پر اس کے شواہد بھی موجود ہیں۔ یہ لعنت غیر دینی معنی میں بھی ہو سکتی ہے۔اسے ہم تہذیبی معنی میں ناگوار کے مفہوم میں لے سکتے ہیں ۔ لیکن زیبایش سے خلق اللہ میں تبدیلی والی بات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نہیں ہے۔وہ محض ایک بلند مرتبہ امتی کا فقہی فتویٰ ہے، جس کی مناط و علت کو ہم نے اوپر واضح کردیا ہے۔ جس کا اطمینا ن ہو، وہ اس پر عمل پیرا رہے، لیکن بطور نبی اکرم کے حکم کے نہیں، بلکہ صرف ایک امتی کے فتوے کی حیثیت سے ۔

دو ضمنی حاشیے

قرآن مجید میں خلق اللہ کے معنی

تین مقامات پر خلق اللہ کا مرکبِ اضافی قرآن مجید میں آیا ہے۔ سورۂ لقمان میں ہے:

خَلَقَ السَّمٰوٰتِ بِغَیْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَھَا وَاَلْقٰی فِی الْاَرْضِ رَوَاسِیَ اَنْ تَمِیْدَ بِکُمْ وَبَثَّ فِیْھَا مِنْ کُلِّ دَآبَّۃٍ وَاَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَنْبَتْنَا فِیْھَا مِنْ کُلِّ زَوْجٍ کَرِیْمٍ. ھٰذَا خَلْقُ اللّٰہِ فَاَرُوْنِیْ مَا ذَا خَلَقَ الَّذِیْنَ مِنْ دُوْنِہٖ بَلِ الظّٰلِمُوْنَ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ.(۳۱: ۱۰۔۱۱)

سورۂ روم میں ہے:

فَاَقِمْ وَجْھَکَ لِلدِّیْنِ حَنِیْفًا فِطْرَتَ اللّٰہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْھَا لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللّٰہِ ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقیِّمُ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ.(۳۰: ۳۰)

اورسورۂ نساء میں یوں ہے، یہی آیت سیدنا ابن مسعود کے پیش نظر ہے:

وَّلَاُضِلَّنَّھُمْ وَلَاُمَنِّیَنَّھُمْ وَلَاٰمُرَنَّھُمْ فَلَیُبَتِّکُنَّ اٰذَانَ الْاَنْعَامِ وَلَاٰمُرَنَّھُمْ فَلَیُغَیِّرُنَّ خَلْقَ اللّٰہِ وَمَنْ یَّتَّخِذِ الشَّیْطٰنَ وَلِیًّا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ فَقَدْ خَسِرَ خُسْرَانًا مُّبِیْنًا.(۴: ۱۱۹)

ان تینوں مقامات پر خلق اللہ میں خلق کی اضافت اللہ کی طرف ہوئی۔ یہ اضافت نسبت و ملکیت کے معنی میں ہے۔ دوسرے لفظوں میں اس آیت میں خلق اللہ میں مصدرکی فاعل کی طرف اضافت ہوئی ہے، یعنی تخلیق کرنے والا اللہ ہے۔ یعنی جیسے کوئی مصور اپنی بنائی ہوئی تصویر کو یہ کہے کہ ’’یہ میری خلق (تخلیق)‘‘ ہے۔ اگر کوئی اوریہ دعویٰ کردے کہ تصویر تو میں نے بنائی ہے تو اس کو کہا جائے گا کہ یہ خلق اللہ میں تبدیلی ہے۔یعنی عمل خلق اور خالق میں نسبت کی تبدیلی ہے۔قرآن مجید سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات اسی نسبتِ خلق کی وجہ سے الٰہ یا رب ہے۔اگر اللہ تعالیٰ ہمارے خالق نہ ہوتے تو وہ اپنے آپ کو ہمارا الٰہ و رب نہ کہتے۔ سورۂ اعراف میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رب ہونے کی دو دلیلیں دی ہیں:

اِنَّ رَبَّکُمُ اللّٰہُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِیْ سِتَّۃِ اَیَّاٍم ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ یُغْشِی الَّیْلَ النَّھَارَ یَطْلُبُہٗ حَثِیْثًا وَّالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُوْمَ مُسَخَّرٰتٍ م بِاَمْرِہٖ اَلَا لَہُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ تَبٰرَکَ اللّٰہُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ.(۷: ۵۴)۳۷؂ 
’’کچھ شک نہیں کہ تمھارا رب اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیداکیا پھر عرش پر بیٹھا۔ وہی رات کو دن کا لباس پہناتا ہے کہ وہ اس کے پیچھے دوڑتا چلا آتا ہے۔ اور اسی نے سورج اور چاند ستاروں کو پیدا کیا سب اس کے حکم کے مطابق کام میں لگے ہوئے ہیں۔ دیکھو سب مخلوق بھی اسی کی ہے اور حکم بھی (اسی کا ہے)۔ یہ اللہ رب العالمین بڑی برکت والا ہے۔‘‘

ان تینوں مقامات پر خلق ظاہری ڈھانچے اور شکل و صورت کے معنی میں مستعمل نہیں ہے۔ اس لیے یہ معنی لینا ہر گز ممکن نہیں کہ خلق اللہ میں تبدیلی کا مطلب ظاہری صورت میں تبدیلی ہے۔ اب ہم وہ آیت دیکھتے ہیں جس میں خلق اللہ کی تبدیلی کو شیطانی عمل قرار دیا گیا ہے:

لَعَنَہُ اللّٰہُ وَقَالَ لَاَتَّخِذَنَّ مِنْ عِبَادِکَ نَصِیْبًا مَّفْرُوْضًا. وَّلَاُضِلَّنَّھُمْ وَلَاُ مَنِّیَنَّھُمْ وَلَاٰمُرَنَّھُمْ فَلَیُبَتِّکُنَّ اٰذَانَ الْاَنْعَامِ وَلَاٰ مُرَنَّھُمْ فَلَیُغَیِّرُنَّ خَلْقَ اللّٰہِ وَمَنْ یَّتَّخِذِ الشَّیْطٰنَ وَلِیًّا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ فَقَدْ خَسِرَ خُسْرَانًا مُّبِیْنًا. (النساء ۴: ۱۱۸۔ ۱۱۹)

’’جس پر اللہ نے لعنت کی ہے، (وہ اللہ سے) کہنے لگا: میں تیرے بندوں سے (غیر اللہ کی نذر دلوا کر مال کا)ایک مقرر حصہ لے لیا کروں گا۔ اور ان کو گمراہ کرتا اور امیدیں دلاتا رہوں گا اور یہ سکھاتا رہوں گا کہ جانوروں کے کان چیرتے رہیں اور کہتا رہوں گا کہ وہ اللہ کی تخلیق کو بدلتے رہیں گے۔ — اور جس شخص نے اللہ کو چھوڑ کر شیطان کو دوست بنایا اور وہ صریح نقصان میں پڑ گیا۔‘‘

کسی دیوتا کے لیے جانور کی نیاز دینے کے لیے مشرکین عرب کا یہ طریقہ تھا کہ جانوروں کے کان کاٹ دیتے ، یہ ایک نشانی ہوتی تھی کہ یہ جانور اب نیاز کا ہے، اسے کوئی نہ چھیڑتا تھا۔ اس آیت میں اسی رسم کی طرف اشارہ ہے۔ گویا جو کام اللہ کے لیے ہونا چاہیے تھا، وہ کام یہ لوگ جھوٹے دیوتاؤں کے لیے کرتے تھے۔ یہی عمل خلق اللہ میں تبدیلی ہے۔ یعنی جب ایک آدمی غیر اللہ کو نذرچڑھاتا ہے تو گویاوہ اپنے اس عمل سے یہ کہتا ہے کہ اس جانور کا خالق یہ دیوتا ہے۔اسی وجہ سے اس پر لعنت ہے ۔اس لیے کہ کسی جانور کی قربانی دینا یا بلی چڑھانا صرف اور صرف خالق حقیقی کا حق ہے۔ اسی کے کہنے پر جانور کی جان لینا جائز ہے ، اور اسی کے آگے اس کی نذر اور نیاز پیش کی جا سکتی ہے۔ سو یہ واضح رہنا چاہیے کہ اللہ کے سوا خلق کی نسبت کسی اورذات کی طرف کرنا یہ خلق اللہ میں تبدیلی ہے۔ سر اور ناک کے بال اور مونچھیں کاٹنا، ڈاڑھی کا خط بنانا،ناخن کاٹنا اور زیرناف اوربغلوں کے بال کاٹنا، ناک اور کان چھدوانا، بازو وغیرہ پر گدوانا، وگ وغیرہ بالوں میں جوڑنا کسی دینی، دنیوی ، طبعی ،سماجی یا طبی ضرورت سے ایسا کرنا ہر گز خلق اللہ میں تبدیلی نہیں۔ لیکن صرف ایک بال بھی کسی دیوتا کی خوش نودی کے لیے ، یااس کی نسبت سے کاٹنا ، لگانا یا رنگنا خلق اللہ میں تبدیلی ہے اور اس پر قرآن مجید میں لعنت کی گئی ہے۔خلق اللہ میں تبدیلی خالق و مخلوق میں نسبت کی تبدیلی ہے۔ سورۂ لقمان کی ذیل کی آیت میں خلق اللہ کی یہی وضاحت آئی ہے:

ھٰذَا خَلْقُ اللّٰہِ فَاَرُوْنِیْ مَا ذَا خَلَقَ الَّذِیْنَ مِنْ دُوْنِہٖ بَلِ الظّٰلِمُوْنَ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ. (۳۱: ۱۱)۔

لعنت کے معنی

بعض صحابہ نے ان چیزوں کے لیے ’لُعِنَ‘، ’لَعَنَ اللّٰہُ‘ اور ’لَعَنَ النبيُّ‘ کے الفاظ بھی استعمال کیے ہیں۔ یہ الفاظ بلاشبہ بہت سخت معنی اپنے اندر رکھتے ہیں۔ لیکن ہر جگہ ایسا نہیں ہے۔ کہیں کہیں یہ زبان کے ایک محاورے کے طور پر استعمال ہوتا ہے، جہاں اس کے معنی نہایت نرم ہو جاتے ہیں۔ مثلاً ’’لسان العرب‘‘ میں اس کے معنی یوں بیان ہوئے ہیں:

لعَنہُ یلعَنہُ لَعْنًا طردہُ وأبعدہُ من الخیر وأخزاہُ وسبَّہ: لعنہ یلعنہ لعنًا.
(اس نے اس کو دھتکارا، خیر سے محرومی کی بددعادی، اسے رسوا کرنے والی بات کہی یا اسے گالی دی)۔ 

تو جب یہ الفاظ لوگوں کے لیے یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف فاعل کی نسبت سے آئیں تو اس کا مطلب صرف یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس کام کو معاشرتی، سماجی یا تہذیبی معنی میں پسند نہیں کیا گیا۔ حلت و حرمت کا اس میں دخل نہ ہو۔
اسی طرح یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ بعض اوقات ایک چھوٹے کام کے لیے ’لعنت‘ کا لفظ آجائے گا۔ تو اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ یہ لعنت اس عمل پر نہیں، بلکہ اس چیز پر کی جاتی ہے جس کی وجہ سے وہ کام کیا جاتا ہے۔جیسے حدیثوں میں آتا ہے کہ آپ نے اس آدمی پر لعنت کی جو لوگوں کے حلقہ کے درمیان میں بیٹھتا ہے۔۳۸؂ ظاہر ہے حلقہ کے بیچ میں بیٹھنا ممنوع چیز نہیں ہے، بلکہ یہ بڑائی اور تکبر ہوتا ہے جس کی وجہ سے کوئی آدمی یوں لوگوں میں نمایاں ہو کر بیٹھتا ہے۔ واضح ہے کہ اس میں خودنمائی کے شکار متکبر آدمی پر لعنت کی گئی ہے، نہ کہ محض حلقہ کے وسط میں بیٹھنے والے پر۔ یہی معاملہ ٹخنوں سے تہ بند کے نیچے لٹکنے کا ہے۔ تہ بند کا لٹکنا گناہ نہیں، بلکہ تکبر سے ایسا کرنا گناہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان حدیثوں میں ’خیلاء‘ کے الفاظ آئے ہیں کہ تکبر سے تہ بند لٹکانا اور بعض میں ’إسبال‘کے الفاظ آئے ہیں، جس کے معنی ہی تکبر سے تہ بند لٹکانے کے ہیں وغیرہ۔ اسی معنی میں وہ جملہ ہے جو مصنوعی بال لگانے والی کے بارے میں آپ نے فرمایا ہے: ’لعن اللّٰہ الواصلۃ‘ (اللہ نے مصنوعی بال لگانے والی کو دھتکارا ہے)۔ اس کی وجہ بال لگانا نہیں، بلکہ دھوکا دینا ہے۔ جیسا کہ ہم اوپر واضح کرچکے ہیں کہ دھوکے کا ذکر خودنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے ہواہے۔اسی طرح اگر یہ اعمال مذہبی رسوم کی صورت اختیار کرچکے تھے تو اس صورت میں یہ بدعت اور افتراء علی اللہ کے زمرے میں آتے ہیں، جس پر قرآن میں وعید بہت سخت ہے، اس صورت میں لعنت اپنے سخت ترین مفہوم میں ہے۔ تیسرا امکان جیسا ہم نے عرض کیا کہ یہ ہو سکتا ہے کہ یہ اعمال اگر دیوتاؤں کو راضی کرنے کے لیے تھے، تو اس صورت میں شرک کا باعث تھے، اس لیے ان پر لعنت بھی اپنے سخت ترین مفہوم میں ہوگی۔ 
زیبایش کے لیے جو ایسا کرے، اس پر لعنت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب نہیں ہے۔آپ نے شادی پر بال لگانے کے موقع پر جو لعنت کی ہے، اس میں وہی پہلو آتا ہے جو حضرت معاویہ نے واضح کردیا ہے کہ وہ زور یا دھوکا ہے۔
اسی طرح اس بات کا پورا امکان ہے کہ دانت ترشوانے والیوں اور tattoo بنوانے والیوں پر لعنت محض کراہتِ ذوقی کے معنی میں ہو،یعنی اچھے نفیس الطبع لوگ ایسے عمل پسند نہیں کرتے۔ہم نے یہ سارے امکانات رکھ دیے ہیں، اس لیے کہ احادیث کے یہ متون حتمی طور پر صرف مصنوعی بال لگانے والیوں پر لعنت کی وجہ زور یا دھوکا بتاتے ہیں ۔ باقی اعمال کی لعنت کا سبب روایات سے واضح نہیں ہوتا۔ اسی مسئلے کو حل کرنے کے لیے ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے خلق اللہ میں تبدیلی کی علت کی تخریج کی تھی۔
[باقی]

________________________

* اس مضمون کی پہلی قسط ’’متن حدیث میں علما کے تصرفات‘‘ کے زیر عنوان جولائی ۲۰۱۳ء کے شمارے میں شائع ہو چکی ہے۔

۱؂ مثلاً امام غزالی جیسے مؤثر ترین عالم کی مشہور کتاب ’’احیاء علوم الدین‘‘ ضعیف احادیث سے بھری پڑی ہے، دین و طریقت کے کئی اسباق اس کتاب میں ایسی ہی احادیث سے مستفاد (derived) ہیں، جن کا امت مسلمہ میں عام چلن ہے۔
۲؂ اس کے معنی یہ ہیں کہ نبی اکرم کی بات آپ ہی کے الفاظ میں بیان نہیں کی گئی، بلکہ آپ کے فرمان سے جو سمجھا گیا، اسے اپنے الفاظ میں یا قریب قریب نبی اکرم کے الفاظ ہی میں تھوڑے ردو بدل سے بیان کیا گیا۔جمہور نے اسے جائز سمجھا ہے:

رأی الجمہور علی أن الروایۃ بالمعنی جائزۃ وقد دلل ابن رجب علی جوازہا بأقوال بعض الصحابۃ والتابعین، وعلماء الحدیث المتقدمین، وبأن اللّٰہ یقص قصص القرون السالفۃ بغیر لغاتہا، وقد قید العلماء ہذا الجواز فاشترطوا فیمن یروي الحدیث بالمعنی أن یکون عارفًا بمواقع الألفاظ، بصیرًا بدلالاتہا، حتی لا یحیل الحلال حرامًا، أو یضع الدلیل في غیر مکانہ.(شرح علل الترمذی ۱/ ۱۱۶) 
’’جمہور کی راے یہ ہے کہ روایت بالمعنیٰ جائز ہے، اور ابن رجب نے اس کے جواز پر دلائل بھی فراہم کیے ہیں، جن میں اقوال صحابہ و تابعین، متقدم محدثین اوراللہ تعالیٰ کا یہ عمل کہ قدیم اقوام کے قصص کو ان کے غیر زبان میں بیان کیا ہے۔ علما نے اس پر کچھ شرائط عائد کیے ہیں کہ اس طریقے سے روایت کرنے والا الفاظ کے مواقع استعمال سے واقف ہو، ان کی دلالتوں سے واقف ہو، کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ حلال کو حرام بنادے یا دلیل کو غلط جگہ رکھ دے۔‘‘

۳؂ ’وقد روٰی کثیر من الناس الحدیث بمعنی فہموہ منہ، فغیروا المعنی‘، ’’بہتوں نے حدیث کو بالمعنیٰ روایت کیا تو انھوں نے اسے سمجھا اور مفہوم بدل دیا‘‘ (شرح علل الترمذی، ابن رجب ۱/ ۱۱۶)
۴؂ To narrate or report۔
۵؂ To put forth a verse as an evidence۔
۶؂ جس کی عبارت تحریر میں آکر ابھی محفوظ نہ ہوئی ہو (unwritten)۔
۷؂ To attribute a statement to somebody۔
۸؂ ’من کذب علي متعمدًا، فلیتبوأ مقعدہ من النار‘، ’’جس نے عمداً میرے نام سے جھوٹی بات سنائی، تو وہ دوزخ میں اپنا ٹھکانا بنا لے‘‘ (ابن ماجہ رقم ۳۰) ۔
۹؂ Narrators of hadiths۔
۱۰؂ علامہ ابن کثیر اپنی کتاب ’’اختصار علوم الحدیث‘‘ میں فرماتے ہیں:

وأما روایتہ الحدیث بالمعنی: فإن کان الراوي غیر عالم ولا عارف بما یحیل المعنی: فلا خلاف أنہ لا تجوز لہ روایتہ الحدیث بہذہ الصفۃ. وأما إذا کان عالمًا بذلک، بصیرًا بالألفاظ ومدلولاتہا، وبالمترادف من الألفاظ ونحو ذلک: فقد جوز ذلک جمہور الناس سلفًا وخلفًا وعلیہ العمل، کما ہو المشاہد في الأحادیث الصحاح وغیرہا، فإن الواقعۃ تکون واحدۃ، وتجيء بألفاظ متعددۃ، من وجوہ مختلفۃ متباینۃ. ولما کان ہذا قد یوقع في تغییر بعض الأحادیث، منع من الروایۃ بالمعنی طائفۃ آخرون من المحدثین والفقہاء الأصولیین، وشددوا في ذلک آکد التشدید. وکان ینبغي أن یکون ہذا ہو الواقع، ولکن لم یتفق ذلک.(اختصارعلوم الحدیث ۱۴۱)
’’جہاں تک روایت بالمعنیٰ کا تعلق ہے تو اگر راوی ان باتوں سے واقف و آگاہ نہ ہو، جو معنی میں تغیر کردیتی ہیں تواس میں کسی کو اختلاف نہیں کہ اس وصف والی، یعنی بالمعنیٰ روایت جائز نہیں ہے۔ اور اگر وہ ان امور سے واقف ہو: الفاظ اور ان کے مدلول کی بصیرت کا حامل ہو، اور الفاظ کے مترادفات وغیرہ سے واقف ہو توجمہور نے سلف و خلف میں اسے جائز قرار دیا ہے، اور اسی پر عمل ہے، صحیح احادیث میں بھی یہی معاملہ نظر آتا ہے، چنانچہ (ہم دیکھتے ہیں کہ)ایک ہی واقعہ ہوتا ہے، جو مختلف الفاظ اور مختلف رنگ سے بیان ہورہا ہوتا ہے۔ چونکہ یہ (روایت بالمعنیٰ) حدیث میں تغیر کا باعث ہوتا ہے، اس لیے بعض محدثین اور اصولی فقہا نے روایت بالمعنیٰ کو ممنوع قرار دیاہے، اور بہت سختی برتی ہے۔ حق تو یہ ہے کہ ایسا ہی ہونا چاہیے تھا، لیکن اس پر اتفاق نہیں ہو سکا۔‘‘

۱۱؂ اسی طرح قرآن مجید اور حدیث کے فہم اور شرح و تفسیر میں بھی قدیم ذہنی سانچہ ایک کردار ادا کرتا رہا ہے۔ قرآن و حدیث کی بہت سی بحثیں اسی قدیم ذہنی سانچے کے تحت تشریح کے بعد آج، اپنی تمام تر علمی عظمت کے باوجود، پوری طرح قابلِ فہم نہیں رہیں۔ان کو از سر نوسمجھنا ہے، اللہ اور رسول کی تعلیمات وقت کے دائرے میں بند نہیں ہوتیں، لیکن یہ ہماری تشریحات ہیں جویہ نقص ان میں پیدا کردیتی ہیں۔(مثلاً زمین کا ساکن ہونا وغیرہ قرآن وحدیث میں کہیں بیان نہیں ہوا، مگر ہم اسے قرآن و حدیث ہی کی روشنی میں مانتے رہے ہیں)۔
۱۲؂ اسلام کی تعلیمات آفاقی، یعنی ہر عہد کے لیے ہیں۔لیکن یہ بات بھی واضح رہے کہ قرآن و حدیث کے بہت سے مقامات ایسے بھی ہیں جو عہد نبوی سے متعلق تھے۔ مثلاً قرآن مجید میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے چار سے زیادہ شادیوں کی اجازت، سورۂ توبہ کی براء ت: چار ماہ کی مہلت اور اس کے بعد دارو گیر کا حکم، سورۂ توبہ کا عہد برائے مشرکین، سورۃ النصر کی فتح و نصرت کی بشارتیں، اور خاص آپ سے مخاطبت کی آیات وغیرہ عہد نبوی سے کاملاً متعلق ہیں۔آج کے لیے، مثلاً ہمیں اس کی ضرورت پیغمبر اسلام کی دعوت و انذار کے سمجھنے اور رسالت کے باب میں سنت الٰہی کے فہم کے لیے تو نہایت ضروری ہے، لیکن اس میں ہمارے لیے کوئی شریعت نہیں ہے۔ مثلاً اب کون ہے جس کو چار سے زیادہ شادیوں کی اجازت ہو، اور کون ہے، جسے چار ماہ کی مہلت کے بعد والی وارننگ دی جائے گی، اور یہ حکم کس کے لیے ہے کہ جب فتح مکہ ہو اور لوگ جوق درجوق دائرۂ اسلام میں داخل ہوں تو وہ تسبیح و استغفار کرے وغیرہ۔ ایسی چیزوں کے سوا قرآن کا باقی تمام تر حصہ اپنی تعلیمات کے اعتبار سے ابدی ہے اور ہرہر زمانے کے اہل ایمان اس کے مکلف ہیں۔حقیقت میں دیکھا جائے تو بادشاہِ کائنات کا حکم نامہ ہونے کی وجہ سے غیر مسلم بھی اس کے مکلف ہیں۔ 
ٹھیک ایسا ہی معاملہ احادیث کا ہے۔اس کے بہت سے متون دور نبوی سے متعلق ہیں، جیسے ’أمرت أن أقاتل الناس حتی یقول لا إلہ إلا اللّٰہ‘ یا جیسے منافقین کی بعض نشانیاں یا جیسے مغازی اورمشرکین عرب کے بارے میں آپ کے بیانات، جیسے صلح حدیبیہ کا معاہدہ اور قریش سے آپ کے مکالمات، بیعت رضوان میں آپ کے کلمات وغیرہ۔ اس طرح کی چیزوں کے سوا بہت سی چیزیں آج کے لیے بھی ہیں، پرانے زمانوں کے لیے بھی تھیں، جیسے خطبہ حجۃ الوداع کی تعلیمات وغیرہ۔اسی طرح یہ بات بھی واضح رہے کہ رسول کا اندازِ بیان اور استدلال اپنے پہلے مخاطبین کے لحاظ سے ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ وہ انھی کی زبان میں کلام کرتا ہے وغیرہ۔
۱۳؂ الجن ۷۲: ۲۷۔۲۸۔
۱۴؂ مثلاً، دیکھیے المناوی کی شرح نخبۃ الفکر، الیواقیت والدرر، ناشر مکتبۃ الرشد، ۲/ ۴۰۳۔
۱۵؂ صحیح ابن حبان (متوفی ۳۵۴ھ) کے علاوہ مسند ابی یعلیٰ (متوفی ۳۰۷ھ) اور الإیمان للعدنی (متوفی ۲۴۳ھ)۔ مسند الحمیدی، رقم ۹۲ میں بھی ان الفاظ کی نسبت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے ہے۔
۱۶؂ ابن حبان نے اسے صحیح قرار دیا ہے، لیکن اس کے راویوں میں وائل بن مہانۃ کو بہت سے محدثین نے غیر ثقہ قرار دیا ہے، البتہ حاکم صاحب المستدرک اور ذہبی نے اسے شیخین کے درجے کا راوی قراردیا ہے، مستدرک حاکم کی روایت رقم۲۷۷۲، اور ۸۷۸۳۔ پر مستدرک کی تلخیص میں ذہبی نے تعلیق دی ہے کہ ’علی شرط البخاري ومسلم‘۔حالاں کہ ان روایتوں میں بھی وائل بن مہانۃ موجود ہے۔
۱۷؂ ابو عبد الرحمن، عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی کنیت ہے۔
۱۸؂ ان الفاظ کے ساتھ یہ روایت مسند حمیدی اور مسند الحارث میں آئی ہے ، البتہ اسی سند کے ساتھ یہ عبداللہ کے الفاظ کے بغیر مسند احمدمیں بھی آئی ہے۔ اس سلسلۂ سند کو ابن حبان، ذہبی اور حاکم صاحب مستدرک نے صحیح قرار دیا ہے ۔مسند احمد، رقم ۳۵۶۹ پر شیخ شعیب الارنؤوط نے اسے صحیح لغیرہ قرار دیا ہے۔ ویسے بھی صحیح ابن حبان (متوفی ۳۵۴ھ) کے علاوہ مسند ابی یعلیٰ (متوفی ۳۰۷ھ) اور الإیمان للعدنی (متوفی ۲۴۳ھ) سے بھی اسی کی تائید ہوتی ہے کہ یہ عبداللہ ابن مسعودرضی اللہ عنہ ہی کے الفاظ ہیں، اور وہی ان کے مخاطب بھی بنے۔
۱۹؂ الالبانی نے اسے صحیح قرار دیا ہے: صحیح، الإرواء (۱/ ۲۰۵)، الظلال (۹۵۶)۔ اس طرح کی روایت ابن مندہ کی الإیمان رقم۶۶۷میں بھی آئی ہے۔
۲۰؂ ابو داؤد سلیمان بن داؤد بن الجارود طیالسی بصری ۔
۲۱؂ ابو بکر عبد اللہ بن الزبیر بن عیسیٰ بن عبید اللہ قرشی حمیدی مکی۔
۲۲؂ علی بن الجَعْد بن عبیدجَوْہری بغدادی ۔
۲۳؂ ابو بکر بن ابی شیبہ، عبد اللہ بن محمد بن ابراہیم بن عثمان بن خواستی عبسی ۔
۲۴؂ ابو مروان عبد الملک بن حَبِیب بن حبیب بن سلیمان بن ہارون سلمی قرطبی۔
۲۵؂ مکمل حدیث یوں ہے: ’عَنْ زَیْنَبَ امْرَأَۃِ عَبْدِ اللّٰہِ ۔ بِمِثْلِہِ سَوَاءً ۔ قَالَتْ: کُنْتُ فِي المَسْجِدِ، فَرَأَیْتُ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: ’’تَصَدَّقْنَ وَلَوْ مِنْ حُلِیِّکُنَّ‘‘ وَکَانَتْ زَیْنَبُ تُنْفِقُ عَلٰی عَبْدِ اللّٰہِ، وَأَیْتَامٍ فِيْ حَجْرِہَا، قَالَ: فَقَالَتْ لِعَبْدِ اللّٰہِ: سَلْ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَیَجْزِيْ عَنِّيْ أَنْ أُنْفِقَ عَلَیْکَ وَعَلٰی أَیْتَامٍ فِيْ حَجْرِيْ مِنَ الصَّدَقَۃِ؟ فَقَالَ: سَلِيْ أَنْتِ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَانْطَلَقْتُ إِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَوَجَدْتُ امْرَأَۃً مِنَ الْأَنْصَارِ عَلَی الْبَابِ، حَاجَتُہَا مِثْلُ حَاجَتِيْ، فَمَرَّ عَلَیْنَا بِلاَلٌ، فَقُلْنَا: سَلِ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَیَجْزِيْ عَنِّيْ أَنْ أُنْفِقَ عَلٰی زَوْجِي، وَأَیْتَامٍ لِيْ فِيْ حَجْرِي؟ وَقُلْنَا: لاَ تُخْبِرْ بِنَا، فَدَخَلَ فَسَأَلَہُ، فَقَالَ: مَنْ ہُمَا؟ قَالَ: زَیْنَبُ، قَالَ: ’’أَيُّ الزَّیَانِبِ؟‘‘ قَالَ: امْرَأَۃُ عَبْدِ اللّٰہِ، قَالَ: ’’نَعَمْ، لَہَا أَجْرَانِ، أَجْرُ القَرَابَۃِ وَأَجْرُ الصَّدَقَۃِ‘ ‘‘۔
۲۶؂ مثلاً ’لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَہَا لَہَا مَا کَسَبَتْ وَعَلَیْہَا مَا اکْتَسَبَتْ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَآ اِنْ نَّسِیْنَآ اَوْ اَخْطَاْنَا‘ (البقرہ ۲: ۲۸۶)، اور ’رفع القلم عن ثلاثۃ: عن النائم حتی یستیقظ، وعن الصغیر حتی یکبر، وعن المجنون حتی یعقل أو یفیق‘ (سنن ابن ماجہ، رقم ۲۰۴۱) جیسے اصول یہ بتاتے ہیں کہ انسان کو اس کی عقل و ہمت اور قوت کے لحاظ سے مکلف بنایا گیا ہے، اور تین لوگوں پر شریعت کی کوئی گرفت نہیں، جن میں بچے،سوئے شخص اور مجنون کو شامل کیا گیا ہے، یہ وہ تینوں حالتیں ہیں جب آدمی عقل وشعور سے عاری ہوتا ہے۔ یہ شان دار اصول دینے والا دین ’’بے عقل عورتوں‘‘ کو حدو دو تعزیرات میں عقل کے نقص کے باوجود برابر کی سزا دے، اور مزید ظلم یہ ہو کہ دوزخ میں اس قدرتی نقص — جو اللہ نے ان میں رکھا ہے جس میں ان کا کوئی اختیار نہیں — کی وجہ سے زیادہ ڈالی جائیں۔
۲۷؂ Protection and inaccessibility، آزاد و غلام کے اس فرق کی وجہ غالباً یہ تھی کہ خاندانی ہونے یا معاشرے میں خاوند، والد ، چچا تایا کی موجودگی کی وجہ سے آزاد عورت کو معاشرے میں عزت کا مقام حاصل تھا، آزادعورت کے ساتھ ان سب لوگوں کی غیرت وابستہ ہوتی تھی، یہ غیرت جسے عرب ’حفیظۃ‘ کہتے تھے عورت کے تحفظ کی ضامن تھی، جب کہ لونڈیوں کے لیے ایسا نہیں تھا، نہ معاشرے میں ان کا آزاد عزیز موجود ہوتا نہ ان کے ساتھ کسی کی غیرت وابستہ ہوتی، اور نہ ان کو اس ضمن میں تحفظ حاصل ہوتا۔ لہٰذا وہ معاشرے سے حاصل حصانت کے بل پر کسی کو دست درازی سے روک نہ پاتی تھیں۔اسلام نے یہ تحفظ بعد میں ان غلام عورتوں کو بھی حکومت اورقانون سازی کے ذریعے سے فراہم کیا۔
۲۸؂ واضح رہے کہ استاذ گرامی کے نزدیک عورت کی گواہی کی صورت وہ نہیں ہے ،جو بالعموم مانی جاتی ہے۔تفصیل کے لیے استاذ گرامی کی میزان: قانون معیشت / تحریر و شہادت، دیکھی جاسکتی ہے۔
۲۹؂ ’خُزَیْمَۃ فہو بن ثابت ذو الشہادتین‘ ’’خزیمہ جو ثابت کے بیٹے ہیں،جن کی گواہی دو کے برابر ہے‘‘ (فتح الباری ۹/ ۱۵)۔
۳۰؂ ’وَاَشْہِدُوْا ذَوَیْ عَدْلٍ مِّنْکُمْ‘، ’’اور اپنے لوگوں میں سے دو عادل لوگوں کو گواہ بناؤ‘‘ (الطلاق ۶۵: ۲)۔ اس آیت میں یہ نہیں کہا گیا کہ دو زیادہ سیانے لوگوں کو گواہ بناؤ۔
۳۱؂ اسی مقصد کے لیے دو اور چار کی تعداد مقرر کی، وگرنہ ایک مرد بھی کافی ہو سکتا تھا۔ عورتوں کے باب میں بھی دو کا مطالبہ اسی اصول پر ہوا ہے، یعنی شبہ زائل ہو۔ ارشاد ہے:

وَامْرَاَتٰنِ مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّہَدَآءِ اَنْ تَضِلَّ اِحْدٰہُمَا فَتُذَکِّرَ. (البقرہ ۲: ۲۸۲) 
’’اور دو عورتیں، جن کو تم گواہی کے لیے پسند کرو تاکہ ایک گڑبڑا جائے تو دوسری اسے یاد دلا دے۔‘‘

اسی مقصد کے لیے تحریر لکھنے کا حکم دیا کیونکہ: ’وَاَقْوَمُ لِلشَّہَادَۃِ وَاَدْنآی اَلَّا تَرْتَابُوْٓا‘، ’’وہ گواہی کو زیادہ صحیح رکھنے والی اور شکوک و شبہات سے زیادہ بچانے والی ہے‘‘۔ظاہر ہے تحریر کے سیانا اور عقل مند ہونے کا سوال ہی نہیں ہے۔

۳۲؂ ’وَیَظْہَرْ لِیْ أَنَّ ذٰلِکَ مِنْ جُمْلَۃِ أَسْبَابِ کَوْنہنَّ أَکْثَر أَہْل النَّار؛ لِأَنَّہُنَّ إِذَا کُنَّ سَبَبًا لِإِذْہَابِ عَقْلِ الرَّجُلِ الْحَازِم حَتّٰی یَفْعَلَ أَوْ یَقُوْلَ مَا لَا یَنْبَغِيْ، فَقَدْ شَارَکْنَہُ فِي الْإِثْم وَزِدْنَ عَلَیْہِ‘. (فتح الباری ۱/ ۴۷۶)
۳۳؂ زعفران ایک پودا ہے، جس کے پھول کو رنگ اور خوشبو کے لیے پیس کر سفوف (پاؤڈر)بنا لیا جاتاتھا۔ اسے بطور خوشبو بھی استعمال کیا جاتاتھا، اور اس سے داڑھی اورسر کے بالوں اور کپڑوں کو رنگنے اور چاندی کے زیورات پر زرد رنگ چڑھانے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔گویا یہ زیب و زینت کا ایک اہم ذریعہ تھا۔اسی وجہ سے اس کی طلب،حصول اور استعمال کی تراکیب وغیرہ عورتوں کے لیے مشغولیت کا بڑا سبب رہا ہوگا۔
۳۴؂ واضح رہے کہ آخرت سے غفلت ہی بلاشبہ وہ چیز ہے جو مردو عورت ہر ایک کو دوزخ میں لے جائے گی۔ خود قرآن مجید نے اسی مضمون کو سورۃ التکاثر میں اور دیگر بے شمار جگہوں پر بیان کیا ہے۔ سورۃ التکاثر میں تو الفاظ بھی وہی ہیں، جو اس حدیث میں استعمال کیے گئے ہیں۔ ’اَلْہٰکُمُ التَّکَاثُرُ. حَتّٰی زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ‘، ’’تمھیں مال کی کثرت کے جذبے نے تمام عمر غافل رکھا، یہاں تک کہ تم قبروں میں جا پہنچے‘‘ (۱۰۲: ۱۔۲)۔ یہ وہ وجہ ہے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتائی ہو گی۔عورتوں کو بننے سنورنے اور سونا چاندی کے پیچھے لگے رہنے سے وہ غفلت پیدا ہوئی جس نے جنت کی تیاریوں سے روکے رکھا۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان مبارک کچھ اسی مفہوم کا ہے، جیسے ہم پنجاب کے محاورے کے مطابق کہیں: انھیں سرخی پوڈر نے غافل کیے رکھا۔ یعنی بناؤ سنگھار نے۔ اس طرح کے جملے سے اس چیز کی حرمت بیان نہیں ہوتی، بلکہ یہ بیان ہوتا ہے کہ یہ ان چیزوں میں سے ہے جس میں مشغول ہو کر آدمی اپنی راہ کھوٹی کرسکتا ہے۔
۳۵؂ اگرچہ یہاں ’چہرہ‘ کا لفظ آیا ہے، لیکن عربی محاورے کے مطابق چہرہ بول کر پوری ذات مراد ہوتی ہے۔ میں نے ترجمہ اسی لحاظ سے کیا ہے، اس کی مثالیں قرآن مجید میں بھی ہیں، جیسے کہ القصص ۲۸ کی آیت ۸۸ میں استعمال ہوا ہے:

وَلَا تَدْعُ مَعَ اللّٰہِ اِلٰہًا اٰخَرَ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ کُلُّ شَیْءٍ ہَالِکٌ اِلَّا وَجْہَہٗ لَہُ الْحُکْمُ وَاِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ.
’’اور اللہ کے ساتھ کسی اور الٰہ کو مت پکارو، اس لیے کہ اس کے سوا کوئی الٰہ ہی نہیں ہے، ہر چیز ہلاک ہونے والی ہے، سواے اس کی ذات (چہرے) کے، اسی کی حاکمیت ہے، اور تم سب اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔‘‘

(نوٹ : آیت میں یہاں بھی ’’سوائے اس کی ذات کے‘‘ کے بجاے ’’سوائے اس کے چہرے‘‘ کے آیا ہے)۔
۳۶؂ مثلاً اس آیت میں دیکھیے، نبیوں کے ذکر کے بعد فرمایا: 
اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ اٰتَیْنٰھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحُکْمَ وَالنُّبُوَّۃَ فَاِنْ یَّکْفُرْ بِھَا ھآؤُلَآءِ فَقَدْ وَکَّلْنَا بِھَا قَوْمًا لَّیْسُوْا بِھَا بِکٰفِرِیْنَ. (الانعام ۶: ۸۹)

۳۷؂ اس آیت مبارکہ میں لف ونشر مرتب ہے: ’خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ‘ اور ’اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ‘ کے مقابل میں ’اَلَا لَہُ الْخَلْقُ‘ اور ’الْاَمْر‘ بالترتیب اندا ز میں آئے ہیں۔
۳۸؂ واضح رہے کہ یہ حدیث امام ترمذی نے حسن صحیح قرار دی ہے، جبکہ البانی اور شیخ الارنؤط نے ضعیف قرار دی ہے۔ (دیکھیے سنن الترمذی، رقم ۲۷۵۳)۔ میں نے یہاں محض لسانی استدلال کے لیے اقتباس کی ہے کہ ہم کس طرح ایسے مجازی اسالیب میں ایسے جملے بول لیتے ہیں۔ کسی شرعی حکم کے استنباط کے لیے نقل نہیں کی۔ بعض شارحین نے اس شخص پر لعنت کی وجہ یہ بتائی ہے کہ وہ مجلس میں گفتگو کے دوران میں دوسروں کو دیکھنے وغیرہ میں رکاوٹ بنتا ہے۔

________________________

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت فروری 2017
مصنف : ساجد حمید
Uploaded on : Oct 18, 2017
6044 View