متن حدیث میں ہمارے تصرفات (۳) - ساجد حمید

متن حدیث میں ہمارے تصرفات (۳)

 (گذشتہ سے پیوستہ)

انضمام المتون

ایک حدیث کے متن کا دوسرے متن میں ضم کرنا یا پیوند لگانا تیسرا تصرف ہے، جو حدیث کے ساتھ برتا گیا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ دو مختلف احادیث کے متون یا جملوں کو ملا کر ایک نئی حدیث بنا لی جاتی ہے۔اس میں دونوں جملے یا متن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہوسکتے ہیں، مگران کے پیوندسے جو نئی بات بنتی ہے، وہ ہر گز ہر گز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نہیں ہوتی۔ پہلے ہم ایک سادہ جملے سے اس بات کو سمجھتے ہیں، پھر احادیث کی مثالوں سے سمجھیں گے۔
ایک محقق کسی موقع پر کہے:
(بات نمبر ۱): ’’اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے۔ خداے حقیقی کے سوا میں کسی خداکو نہیں مانتا۔ یہ خداؤں کو ماننے والے سب جھوٹے ہیں۔‘‘
یہی محقق کسی دوسرے موقع پر کہے:
(بات نمبر۲): ’’ملحدین کی اتنی بات درست ہے کہ خداؤں کا وہ تصور جو انسانوں نے اپنے اپنے تہذیبی شعور کے ساتھ تخلیق کیا ہے، وہ کسی طرح قابل قبول نہیں ہے۔‘‘
کوئی اخباری رپورٹراس محقق کی دونوں باتوں میں سے ٹکڑے لے کر پیوند لگا کرایک اور بات بنائے، اور کہے:
(بات نمبر۳ جو دونوں کا مجموعہ ہے) ’’ملحدین کی اتنی بات درست ہے کہ خداؤں کا وہ تصور جو انسانوں نے اپنے اپنے تہذیبی شعور کے ساتھ تخلیق کیا ہے، وہ کسی طرح قابلِ قبول نہیں ہے۔ (میں کسی خداکو نہیں مانتا، یہ خداؤں کو ماننے والے سب جھوٹے ہیں)۔‘‘
بلاشبہ، پہلی دونوں باتیں اسی آدمی کی تھیں، لیکن اب یہ تیسری پیوند شدہ عبارت اس آدمی کی ہرگز نہیں ہے، اگرچہ اجزا اسی کے کلام سے لیے گئے ہیں ۔ اس انضمامِ عبارت کے پیوند کو ہم نے بریکٹوں میں (...) کے نشان سے نمایاں کردیا ہے۔آپ اس پیوند کا نتیجہ دیکھ سکتے ہیں کہ کتنا سنگین ہو سکتا ہے۔ اوپر کی مثال میں واضح ہے کہ ایک موحد اور مومن آدمی ملحد بن گیا ہے۔ ذیل میں ایسی ہی مثالیں احادیث سے پیش کی جاتی ہیں۔جن میں خود دوسری حدیثوں میں حلال اور جائز رکھا گیا معاملہ ان حدیثوں میں حرام ہو گیا ہے۔

پہلی مثال

سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کی یہ روایت دیکھیے:

...عبد اللّٰہ بن عمر فقال: أتَی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ضیف، فقال لبلال: ’’ائتنا بطعام‘‘، فذہب بلال فأبْدل صاعین من تمرٍ بصاع من تمر جیّد، وکان تمرہم دُوناً، فأَعجبَ النبيَّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم التمرُ، فقال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ’’من أین ہذا التمر؟‘‘، فأخبرہ أنہ أبدل صاعاً بصاعین، فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ’’رُدَّ علینا تمرنا‘‘. (مسند احمد، رقم۴۷۲۸) 
’’عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی اکرم کے پاس ایک مہمان آیا، تو آپ نے حضرت بلال سے فرمایا: کھانے کو کچھ لاؤ، تو حضرت بلال گئے اور انھوں نے دو صاع کھجورکو ایک صاع کھجورسے تبادلہ میں لیا، یوں کہ ان کی کھجورگھٹیا تھی۔ (اچھی قسم کی کھجور دیکھ کر)نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حیران ہوئے، تو آپ نے حضرت بلال سے دریافت فرمایا: یہ (عمدہ) کھجور کہاں سے آئی ہے؟ تو انھوں نے آپ کو بتایا کہ (اپنی ردی کھجور دے کر)یہ ایک صاع دو صاع کے بدلے خریدی ہے۔تو آپ نے فرمایا: اپنی کھجور واپس لے کر آؤ۔‘‘

یہ ایک سادہ واقعہ ہے، جس میں آپ نے حضرت بلال کے سودے کو پسند نہیں فرمایا، اور کہا کہ جاؤ اپنی کھجوریں واپس لے آؤ۔ لیکن فقہاے محدثین نے ایک دوسری روایت سے ایک ٹکڑا کاٹ کر اس میں درج کردیا۔یہ اضافہ سہواً معلوم نہیں ہوتا، جیسا کہ آگے چل کر معلوم ہوگا، ایک فقہی الجھن کو دور کرنے کے لیے یہ اضافہ کیا گیا۔ پیوند شدہ روایت یوں ہے:

أن أَبَا سَعِیْدٍ، یَقُوْلُ: جَاءَ بِلَالٌ بِتَمْرٍ بَرْنِيٍّ، فَقَالَ لَہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ’’مِنْ أَیْنَ ہٰذَا‘‘؟ فَقَالَ بِلَالٌ: تَمْرٌ کَانَ عِنْدَنَا رَدِيْءٌ، فَبِعْتُ مِنْہُ صَاعَیْنِ بِصَاعٍ لِمَطْعَمِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ عِنْدَ ذٰلِکَ: ’’أَوَّہْ عَیْنُ الرِّبَا لَا تَفْعَلْ، وَلٰکِنْ إِذَا أَرَدْتَ أَنْ تَشْتَرِيَ التَّمْرَ فَبِعْہُ بِبَیْعٍ آخَرَ، ثُمَّ اشْتَرِ بِہِ‘‘.(مسلم، رقم ۱۵۹۴۔ بخاری، رقم ۱۰۸۰) 
’’ابو سعید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضرت بلال برنی ۱؂ کھجوریں لائے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ کہاں سے آئی ہیں؟ حضرت بلال نے عرض کی: ہمارے پاس جوگھٹیا کھجوریں تھیں، وہ میں نے دو صاع دے کر ایک صاع یہ برنی کھجورخریدلی ہے، کہ نبی پاک کھائیں گے آپ نے فرمایا: اوہو یہی تو سود ہے آیندہ ایسا مت کرنا، البتہ جب بھی ایسا کرنا ہو، تو کھجورکو کسی اور چیز کے عوض بیچو، پھر اس چیز سے دوسری قسم کی کھجورخرید ا کرو۔‘‘

اس روایت میں خط کشیدہ حصہ پیوند شدہ ہے۔دونوں متون کے موازنے سے آپ یہ سمجھ سکیں گے کہ انضمام کہاں اور کیا ہوا ہے:

غیر پیوند شدہ متن

...عبد اللّٰہ بن عمر فقال: أتَی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ضیف، فقال لبلال: ’’ائتنا بطعام‘‘، فذہب بلال فأبْدل صاعین من تمرٍ بصاع من تمر جیّد، وکان تمرہم دُوناً، فأَعجبَ النبيَّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم التمرُ، فقال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ’’من أین ہذا التمر؟‘‘، فأخبرہ أنہ أبدل صاعاً بصاعین، فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ’’رُدَّ علینا تمرنا‘‘.(مسند احمد، رقم۴۷۲۸) 

پیوند شدہ متن

أن أَبَا سَعِیْدٍ، یَقُوْلُ: جَاءَ بِلَالٌ بِتَمْرٍ بَرْنِيٍّ، فَقَالَ لَہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ’’مِنْ أَیْنَ ہٰذَا؟‘‘ فَقَالَ بِلاَلٌ: تَمْرٌ کَانَ عِنْدَنَا رَدِيءٌ، فَبِعْتُ مِنْہُ صَاعَیْنِ بِصَاعٍ لِمَطْعَمِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ عِنْدَ ذٰلِکَ: ’’أَوَّہْ (عَیْنُ الرِّبَا) (لَا تَفْعَلْ، وَلٰکِنْ إِذَا أَرَدْتَ أَنْ تَشْتَرِيَ التَّمْرَ فَبِعْہُ بِبَیْعٍ آخَرَ، ثُمَّ اشْتَرِ بِہِ)‘‘.(مسلم، رقم ۱۵۹۴۔ بخاری، رقم ۱۰۸۰) 

اگرچہ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اس متن میں پہلے متن کے مقابلے میں بہت کچھ مختلف ہے، لیکن ہمارا موضوع اس وقت متون کا ضم ہے، اس لیے اسی پر محدود رہیں گے۔ ا س متن میں دوجملے دو سری دو روایتوں سے لائے گئے ہیں۔ جن احادیث سے یہ ٹکڑے کاٹے گئے ہیں، وہ ذیل میں ہیں:

یُحَدِّثُ أَنَّ أَبَا ہُرَیْرَۃَ، وَأَبَا سَعِیْدٍ، حَدَّثَاہُ، أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَعَثَ أَخَا بَنِي عَدِيِّ الْأَنْصَارِيَّ، فَاسْتَعْمَلَہُ عَلٰی خَیْبَرَ، فَقَدِمَ بِتَمْرٍ جَنِیْبٍ، فَقَالَ لَہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ’’أَکُلُّ تَمْرِ خَیْبَرَ ہٰکَذَا؟‘‘ قَالَ: لَا وَاللّٰہِ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، إِنَّا لَنَشْتَرِي الصَّاعَ بِالصَّاعَیْنِ مِنَ الْجَمْعِ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ’’لَا تَفْعَلُوْا، وَلٰکِنْ مِثْلاً بِمِثْلٍ، أَوْ بِیْعُوْا ہٰذَا وَاشْتَرُوْا بِثَمَنِہِ مِنْ ہٰذَا، وَکَذٰلِکَ الْمِیْزَانُ‘‘.(مسلم، رقم ۱۳۹۵) 
’’ابو ہریرہ اور ابو سعید رضی اللہ عنہما دونوں بیان کرتے ہیں کہ آپ نے بنوعدی انصاری کے ایک آدمی کوخیبر کا والی مقرر کیا، تو وہ جنیب ۲؂ قسم کی کھجورلے کر آیا، تو آپ نے اس سے پوچھا کہ آیا خیبر کی تمام کھجوریں ایسی ہی ہیں؟ اس نے عرض کیا: نہیں یارسول اللہ، ہم ملی جلی کھجوردے کر دو صاع کے بدلے ایک صاع جنیب خرید لیتے ہیں، آپ نے فرمایا: یوں نہ کیا کرو، جب اس ملی جلی کھجورکا سودا کرو، تو اسے پہلے بیچو، اور پھر اس کی قیمت سے اچھی کھجور خریدو، ایسے ہی صحیح سودا ہوگا۔‘‘

اس روایت کا خط کشیدہ جملہ سامنے رکھیے۔ لیکن سیدنابلال والی مذکورہ حدیث میں یہ جملہ ملانے سے بھی بات واضح نہیں ہوئی تو اس میں عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کے ملتے جلتے فتوے سے ایک اور جملہ مستعار لیا گیا۔ وہ فتویٰ کچھ یوں ہے:

حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ حَرْبٍ النَّدَبِيُّ، قَالَ: سَأَلْتُ ابْنَ عُمَرَ عَنِ الصَّرْفِ الدِّرْہَمِ بِالدِّرْہَمَیْنِ فَقَالَ: عَیْنُ الرِّبَا، عَیْنُ الرِّبَا، فَلَا تَقْرَبْہُ، ہَلْ سَمِعْتَ مَا قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ’’خُذُو الْمِثْلَ بِالْمِثْلِ‘‘.(مسند ابی داؤد الطیالسی، رقم ۱۹۷۲۔ المعجم الکبیر للطبرانی، رقم ۱۴۰۶۸)
’’بشر بن حرب ندبی کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر سے ایک درہم کے بدلے دو درہم کی صرف ۳؂ کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے فرمایا کہ یہ تو عین سود ہے، عین سود ہے، اس کے قریب بھی نہ پھٹکنا۔ تم نے سنا ہے نا کہ آپ نے فرمایا تھا کہ سونا مثل بمثل ہو تو تب ٹھیک ہے۔‘‘

اس روایت کے خط کشیدہ الفاظ کو بھی سامنے رکھیں اورحضرت بلال کی وہی روایت دوبارہ دیکھیں ۔ میں نے انضمام شدہ الفاظ کو نمایاں کردیا ہے اور جہاں جہاں پیوندلگائے گئے ہیں، وہاں دونوں جانب (...) کا نشان بھی لگا دیا ہے، سہولت کے پیش نظر نیچے دوبارہ لکھتا ہوں:

أن أَبَا سَعِیْدٍ، یَقُوْلُ: جَاءَ بِلاَلٌ بِتَمْرٍ بَرْنِيٍّ، فَقَالَ لَہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ’’مِنْ أَیْنَ ہٰذَا؟‘‘ فَقَالَ بِلاَلٌ: تَمْرٌ کَانَ عِنْدَنَا رَدِيْءٌ، فَبِعْتُ مِنْہُ صَاعَیْنِ بِصَاعٍ لِمَطْعَمِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ عِنْدَ ذٰلِکَ: ’’أَوَّہْ (عَیْنُ الرِّبَا) (لَا تَفْعَلْ، وَلٰکِنْ إِذَا أَرَدْتَ أَنْ تَشْتَرِيَ التَّمْرَ فَبِعْہُ بِبَیْعٍ آخَرَ، ثُمَّ اشْتَرِ بِہِ)‘.(مسلم، رقم ۱۵۹۴۔ بخاری، رقم ۱۰۸۰) 
’’ابو سعید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضرت بلال برنی۴؂ کھجوریں لائے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ کہاں سے آئی ہیں؟ حضرت بلال نے عرض کی: ہمارے پاس جوگھٹیا کھجوریں تھیں، وہ میں نے دو صاع دے کر ایک صاع یہ برنی کھجورخریدلی ہے، کہ نبی پاک کھائیں گے، آپ نے فرمایا: اوہو (یہی تو سود ہے) آیندہ (ایسا مت کرنا، البتہ جب بھی ایسا کرنا ہو، تو کھجورکو کسی اور چیز کے عوض بیچو، پھر اس چیز سے دوسری قسم کی کھجور خریدا کرو)۔‘‘

اس روایت کو پڑھنے والا ہر شخص یہ سمجھ سکتا ہے کہ کس طرح ایک فقہی عمل سے یہ حدیث وجود میں آئی ہے۔ عمدہ کھجور گھٹیا کھجور کے بدلے خریدی گئی، یہ سودا اپنی ذات میں کوئی شرعی خرابی نہیں رکھتا تھا۔سوائے اس کے کہ سیدنا بلال نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھے بغیر یہ خرید وفروخت کی تھی۔ آپ نے اس سودے کو کسی وجہ سے منسوخ کرنے کو کہا، مگر محدثین نے اپنے فہم سے تین روایتوں میں پیوند کاری کی اور ایک نیا متن وجود پذیر کردیا۔ رہا یہ سوال کہ آپ نے یہ سودا منسوخ کیوں کیا، تو اس کی بے شمار وجہیں ہوسکتی ہیں، مگر چونکہ بیان نہیں ہوئیں، اس لیے ہم صرف بات کو سمجھنے کی غرض سے ایک عام سی وجہ بیان کرتے ہیں۔ آپ کے ایک غلام نے خریدوفروخت کا سودا کیا، آقا نے اس سودے کو پسند نہیں کیا۔ لہٰذا اسے لوٹانے کا کہہ دیا، اس لیے کہ حضرت بلال نے پوچھے بغیر سودا کیا تھا۔ یہ وجہ بھی کافی تھی، کیونکہ ہو سکتا ہے کہ مثلاً آپ کا خیال رہا ہو کہ دوصاع کھجور سے دو وقت کا کھانا بن جائے گا یا مہمان کچھ زیادہ متوقع تھے جس سے ایک صاع کھجور سے مہمان نوازی ممکن نہیں تھی وغیرہ۔حضرت بلال نے اس طرح کی کسی وجہ کو سامنے رکھے بغیر سودا کیا ہو گا، آپ نے اسے منسوخ کرنے کا کہہ دیا ہوگا۔ اس حدیث پر اس روشنی میں دوبارہ نظر ڈال لیجیے، اور دیکھیں کہ اس منسوخیِ بیع میں حرمت کی کوئی وجہ نظر آتی ہے؟ چونکہ مسند احمد فقہ کی کتاب نہیں ہے، انھوں نے یہ روایت جیسے ان تک پہنچی درجِ کتاب کردی ہے:

...عبد اللّٰہ بن عمر فقال: أتَی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ضیف. فقال لبلال: ’’ائتنا بطعام‘‘، فذہب بلال فأبْدل صاعین من تمرٍ بصاع من تمر جیّد، وکان تمرہم دُوناً، فأَعجبَ النبيَّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم التمرُ، فقال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ’’من أین ہذا التمر؟‘‘، فأخبرہ أنہ أبدل صاعاً بصاعین، فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ’’رُدَّ علینا تمرنا‘‘.(مسند احمد، رقم۴۷۲۸) 
’’عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی اکرم کے پاس ایک مہمان آیا، تو آپ نے حضرت بلال سے فرمایا: کھانے کو کچھ لاؤ، تو حضرت بلال گئے اور انھوں نے دو صاع کھجورکو ایک صاع کھجورسے تبادلہ میں لیا، یوں کہ ان کی کھجورگٹھیا تھی۔ (بڑھیا کھجوردیکھ کر) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حیران ہوئے، تو آپ نے حضرت بلال سے دریافت فرمایا: یہ (بڑھیا) کھجور کہاں سے آئی ہے؟ تو انھوں نے آپ کو بتایا کہ (اپنی ردی کھجور دے کر)یہ ایک صاع دو صاع کے بدلے میں خریدی ہے۔تو آپ نے فرمایا: اپنی کھجوریں واپس لے کر آؤ۔‘‘

دیکھ لیجیے سودا محض منسوخ کیا جارہا ہے، حلت وحرمت کی کوئی بات بیان میں نہیں آئی ہے۔ لیکن محدثین سودے کو کسی ایسی وجہ سے منسوخ ہونا ضروری سمجھ رہے تھے کہ جس کا تعلق حلال وحرام سے ہو، جب ایسی علت حضرت بلال کے قصے میں نہیں ملی تو اسے عاملِ خیبر کی روایت سے حاصل کیا گیا۔ اس علت کی تخریج بلا وجہ نہیں تھی، بلکہ وہ علی العلم کی گئی تھی۔یہ علم البتہ اسی طرح کی پیوند شدہ یا نامکمل متون والی دوسری روایتوں کی وجہ سے وجود میں آیا تھا۔پیوند لگاتے وقت لازم تھا کہ کچھ احتیاط برتی جاتی، کاش کوئی علامات مقرر کر لی جاتیں تاکہ یہ معلوم ہو جاتا کہ یہ متن پیوند شدہ ہے، اصلی نہیں ہے، کیونکہ جب ہم حدیث کی کتاب میں کوئی روایت پڑھتے ہیں، تو اسے حدیث، یعنی قول رسول صلی اللہ علیہ وسلم سمجھتے ہیں، اس لیے ان کتب میں پیوند شدہ روایات درج نہیں ہونی چاہیے تھیں۔ یہ علت جن روایات کی وجہ سے تخریج ہوئی، وہ ذیل میں پیش خدمت ہیں، یہ روایات پیوند لگانے کی دوسری مثال بھی ہیں، اور حضرت بلال والی روایت میں پیوند لگانے کی فقہی علت بھی فراہم کرتی ہیں ۔
پیوند شدہ روایات کے پیش کرنے سے پہلے یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ ا س روایت میں یہ اضافہ تو اور بھی ناقابل فہم ہو گیا ہے کہ نقد معاملے میں پہلے ایک قسم کی کھجور کسی اور چیز کے بدلے خریدو، اور پھر اس چیزسے دوسری قسم کی کھجور خریدو۔ اس سے نفس حقیقت میں کیا فرق پڑے گا؟ نقد میں سود تو ہوتا نہیں، البتہ غرر اور ضرر ہو سکتا ہے۔ والئ خیبر کو جو بات آپ نے کہی، وہ تو بہت واضح ہے کہ ایک ہی نسل کی کھجور میں جمع و جنیب کے سودے میں ضرر غرر ہو سکتا ہے۔ اس سے بچنے کے لیے یہ احتیاط آپ نے سکھا دی۔لیکن اس کو سود کہنا کسی طرح ممکن نہیں ہے ۔ اس لیے کہ سیدنا بلال اور والی خیبرنے نقد معاملہ کیا ہے۔اور خود صحیح اور عقل و فطرت کے عین مطابق حدیث میں ’لَا رِباً إِلَّا فِي النَّسِیئَۃِ‘ (بخاری، رقم ۲۱۷۸ ۔ ۲۱۷۹) یا ’لاَ رِباً فِیْمَا کَانَ یَداً بِیَدٍ‘ میں جس حقیقت کو جس حصر کے اسلوب میں بیان کیا گیا ہے، ’عین الربا‘ کا یہ اضافہ ان اصولی روایات کے متصادم ہے، یعنی سود نقد سودے میں نہیں ہوتا، سود صرف ادھار میں ہوتا ہے۔حضرت بلال کے قصے میں یہ اضافہ اس شان دار واضح اصولی روایت سے ٹکراتا ہے، اس لیے بھی قابل قبول نہیں ہے۔ اب ان روایتوں کی طرف آتے ہیں جن کی وجہ سے یہ اضافہ کیا گیا، اور وہ خود بھی پیوند شدہ ہیں۔

دوسری مثال

دوسری پیوند شدہ ۵؂ روایت یوں ہے:

عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُ یُخْبِرُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: ’’الذَّہَبُ بِالذَّہَبِ رِباً إِلَّا ہَاءَ وَہَاءَ وَالْبُرُّ بِالْبُرِّ رِباً إِلَّا ہَاءَ وَہَاءَ وَالتَّمْرُ بِالتَّمْرِ رِباً إِلَّا ہَاءَ وَہَاءَ وَالشَّعِیْرُ بِالشَّعِیْرِ رِبًا إِلَّا ہَاءَ وَہَاءَ‘‘. (صحیح بخاری، رقم۲۱۳۴)

اس روایت میں چار چیزوں کو انھی چار چیزوں کے بدلے میں بیع سے منع کیا گیا ہے۔اگرالف لام کی رعایت کی جائے تو ان جملوں کا اردو میں ایک مفہوم یہ ممکن ہے:

’’...نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سونے کے بدلے میں اتنا ہی اور اسی جیسا سونا خریدا جائے تو یہ رِبا (سود) ہے، سوائے اس کے کہ نقدا نقد معاملہ ہو۔گندم کے بدلے اسی قسم و معیار اور اسی مقدار کی گندم خریدو فروخت کی جائے تو اس میں ربا ہے، سوائے اس کے کہ نقدا نقد معاملہ ہو۔ کھجور کے بدلے اس قسم ومعیارکی اور اتنی مقدار کی کھجور خریدو فروخت کی جائے تو اس میں ربا ہے، سوائے اس کے کہ نقدا نقد معاملہ ہو۔ جو کے بدلے اسی قسم و معیاراور اتنی مقدار کے جوکی خریدو فروخت کی جائے تو اس میں ربا ہے، سوائے اس کے کہ نقدا نقد معاملہ ہو۔‘‘

اس حدیث کے اس مفہوم میں نقدا نقد والے تمام جملے دو وجوہ سے بے محل ہیں: ایک اس وجہ سے کہ کون ہے جواِدھر آپ کو وہی چیز دے اور اسی وقت آپ سے ویسی ہی آپ کی چیز لے لے؟ یہ سودا نہیں کھیل ہوا۔ مثلاً کون ہے جو ایک کلو گرام باسمتی چاول دے کر اسی وقت ایک کلوگرام باسمتی چاول لے لے۔ ادھار میں تو ایسا ہو سکتا ہے، نقدًا کیسے ہوسکتا ہے؟ اس وضاحت سے آپ سمجھ سکتے ہیں کہ اس میں نقدا نقد (إلا ہاء وہاء) کا اضافہ بے محل ہے۔ یہ اضافہ سہواً ہوا ہوگا، یہ پیوند دوسری روایتوں کے متن کے باہم متشابہ ہونے کی وجہ سے ہوا، جس طرح ہم قرآن کی متشابہ آیات کو نماز میں گڈ مڈ کردیتے ہیں، اسی طرح حدیث کے متشابہ متون بھی باہم گڈمڈ ہو سکتے ہیں۔ مختصر یہ کہ یہاں پیوند لگا ہے، خواہ سہواً لگا ہو یا عمداً۔
میری بات کو سمجھنے کے لیے باسمتی چاول کی مثال پر دوبارہ غور کریں:

ایک کلو باسمتی چاول ایک کلو باسمتی چاول کے بدلے میں خریدنا سود ہے، لیکن اگر معاملہ نقداً ہو تو درست ہے۔

یعنی نقداً ایک کلو چاول دے کر ایک کلو چاول خرید لو یہ درست ہے، سوال یہ ہے کہ شرعاً تو یہ سودا درست ہے، مگریہ سودانقداً ہوتا کہاں پر ہے کہ ایک ہی چیز کا محض تبادلہ کرلیا جائے۔ دوسری وجہ یہ ہے۔ غور کیجیے کہ پہلا جملہ (خط کشیدہ) اگر ادھار بیع کے لیے ہے تو اس میں ربا (سود) کیسے ہوا؟ کیونکہ ادھار بیع میں سود تو ہوتا ہی تب ہے کہ جب واپسی کے وقت مقدار بڑھا دی جائے یا معیار۔ جب کہ یہ روایت کہہ رہی ہے کہ اتناہی اور ویسا ہی سونا ادھار بیچنا سود ہے، یعنی معیا ر اور مقدار میں کوئی اضافہ ہوا ہی نہیں، تب بھی سود ہے۔سود تو ہوتا ہی اضافہ ہے۔ اگر یہ جملہ نقد کے لیے ہے توعادتاً یا طبعاً نقد سودا یوں ہوتا ہی نہیں ہے کہ میں ایک کلو باسمتی چاول آپ کو دوں اورفوراً ویسے ہی ایک کلو باسمتی چاول آپ سے لے لوں۔
چنانچہ اس روایت کے الفاظ کسی رخ پر صحیح نہیں بیٹھتے، اس لیے کہ اس میں سہواً دوسری روایت سے پیوند لگا ہوا ہے۔ محدثین یا راویوں نے اسی طرح کے مضمون کی دوسری روایات سے یہ الفاظ یہاں درج کردیے ہیں۔شاید اس لیے کہ حضرتِ بلال والی مذکورہ بالا روایت کی نکالی ہوئی علت درست قرار پا جائے۔جن احادیث سے یہ الفاظ چنے گئے ہیں، ان کا حوالہ آگے آتا ہے۔ چونکہ ایسی بیع نقداً ہوتی ہی نہیں ہے، اس لیے یہاں نقد کی بات کرنا ہی بے محل ہے۔ اور اگر یہ اضافہ درست مانا جائے تو پہلے جملہ کا مطلب ادھار ہو گا اور ادھار میں ایک جیسی چیز دینے میں سود پیدا ہی نہیں ہوتا۔ اس طرح کے سودے ادھار میں روزانہ ہوسکتے ہیں۔ آج کوئی اپنی بیٹی کے لیے ۱۲ قیراط کا پانچ تولے سونا چھ ماہ کے لیے ادھار لے اور چھ ماہ بعد ۱۲قیراط کا پانچ تولے سوناہی واپس کردے تو شرعاً، عادتاً اور طبعاً نہایت صحیح معاملہ ہوگا۔لیکن اِدھر آدمی اپنا سونا دے اوراُدھر دوسرے کا اتنا ہی اور ویسا ہی سونا لے تو یہ سودا ناقابل فہم ہے۔
دوسرا مطلب الف لام کی تکرارکا لحاظ کیے بغیر یہ ہو سکتا ہے (کہ یہاں میں صرف سونے والا جملہ لے رہا ہوں تاکہ طوالت سے بچا جاسکے) ۔

اعلی معیار کا سونا گھٹیا سونے کے بدلے خریدا جائے تو یہ سود ہے، سوائے اس کے کہ معاملہ نقدا نقد ہو۔ یا
وزن میں زیادہ سونے کو کم سونے کے بدلے خریدنا سود ہے، سوائے اس کے کہ معاملہ نقدا نقد ہو۔

اس صورت میں بھی نقدا نقد والا جملہ بے محل ہو جاتا ہے ۔ اس جملہ کی وجہ سے پہلے جملے کا مفہوم یہ ہو گا کہ ان چیزوں کی ادھار بیع منع ہو گی۔یہ بات درست نہیں ہے، اس لیے کہ ہمیشہ ایسی ادھار بیع ربا کا باعث نہیں ہے۔مثلاً اگر ایک کلو باسمتی کے معاوضے میں دو کلو موٹے چاول بکتے ہوں، تو خواہ سودا ادھار بھی ہو درست ہے۔ مثلاً،اگر چھ ماہ بعد بھی اس کو دو کلو موٹے چاول ہی دیے جائیں تو اس میں سود نہیں ہو گا۔لہٰذا یہاں بھی یہ جملہ روایت کو بے معنی بنا رہا ہے۔
دوسرے یہ کہ چونکہ ایسے سودے نقد بھی صحیح ہیں اور ادھار بھی اس لیے اس میں بھی نقدا نقد کا اضافہ بے معنی ہے۔ یعنی میں ۱۲ قیراط کاچھ تولے سونا چھ ماہ کے لیے ادھار لوں اور چھ ماہ بعد ۲۴ قیراط اتنا ہی سونا واپس کروں تو اس صورت میں یقیناًاس میں سودپیدا ہوجاتا ہے۔لیکن اگر ۱۲ قیراط کے چھ تولے سونے سے ۲۴ قیراط کا تین تولے سونا بکتا ہو، اور میں چھ ماہ بعد ۲۴ قیراط کاتین تولے سونا واپس کروں تو اس میں نہ سود ہے اور نہ کوئی اور حرمت۔
تیسرے یہ کہ اگر بفرض محال یہ بات مان بھی لی جائے کہ یہ جملہ یوں ہی تھا، تو حضرت بلال والی روایت میں اور اس روایت میں تضاد پیدا ہو جائے گا۔ حضرت بلال والی وہ روایت جسے ہم نے پیوند شدہ قرار دیا ہے، یہ کہتی ہے کہ بڑھیا کھجور کے بدلے گھٹیا کھجور کا نقداً سودا نہیں ہو سکتا، اس لیے کہ اس میں سود ہے۔ جبکہ یہ روایت دوسرے مفہوم کے اعتبار سے یہ کہہ رہی ہے کہ ایسی بیع ہو سکتی ہے۔ لہٰذا ہر اعتبار سے یہ جملہ حدیث میں راویوں کا لگایا ہواپیوند ہے۔ اس پیوند نے ہماری شریعت میں ربا الفضل کے تصور کا اضافہ کیا ہے، جو صدیوں سے لاینحل چلا آرہا ہے۔ جس کا ایک حل استاذی الجلیل غامدی صاحب نے پیش کیا ہے ۔۶؂ 
اس میں اصل، یعنی بے پیوند متن اتنا ہی ہے جو بخاری میں ابو بکرہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں آیا ہے:

قَالَ أَبُوْ بَکْرَۃَ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ’’لَا تَبِیْعُوا الذَّہَبَ بِالذَّہَبِ إِلَّا سَوَاءً بِسَوَاءٍ وَالْفِضَّۃَ بِالْفِضَّۃِ إِلَّا سَوَاءً بِسَوَاءٍ وَبِیْعُوا الذَّہَبَ بِالْفِضَّۃِ وَالْفِضَّۃَ بِالذَّہَبِ کَیْفَ شِئۡتُمْ‘‘.

’’یہ صحابی کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سونے کو سونے کے بدلے (ادھار) مت بیچو، سوائے یہ کہ وہ وزن ومعیار میں بالکل ویسا ہی ہو، اور نہ چاندی کے بدلے چاندی(ادھار) بیچو، الاّ یہ کہ وزن و معیار میں بالکل ایک جیسی ہو، البتہ سونے کے بدلے چاندی اور چاندی کے بدلے سونا جیسے چاہو بیچ سکتے ہو۔‘‘

اس روایت میں بھی آخری جملہ پیوند کامعلوم ہوتا ہے یا پھر یہ نامکمل ہے۔۷؂ بہرحال، روایت کا ابتدائی حصہ درست لگتا ہے۔ البتہ اس میں ’ادھار‘ کا لفظ محذوف ہے یا موقع محل میں واضح ہونے کی وجہ سے مقدر تھا۔ ترجمہ میں یہ مقدر کھول دیا گیا ہے۔اس مقدر کو اگر نہ کھولا جائے تو یہ روایت بھی اسی طرح بے معنی حکم پر مبنی ہو جائے گی۔اس متن کو دیکھ کر واضح ہوجاتا ہے کہ ’إلا سواء بسواء‘ نے مذکورہ بالا روایات میں ’إلا ہاء وہاء‘ کا روپ دھار لیا ہے۔ ذرا دونوں متون کا قریبی جائزہ لیں تو آپ کو واضح ہو گا کہ کس طرح متشابہ متن اس پیوند کا باعث بنا ہے:

پیوند شدہ متن

عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: ’’الذَّہَبُ بِالذَّہَبِ رِباً إِلَّا ہَاءَ وَہَاءَ...‘‘

پیوند سے محفوظ متن

قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ’’لَا تَبِیْعُوا الذَّہَبَ بِالذَّہَبِ إِلَّا سَوَاءً بِسَوَاءٍ...‘‘

ایک تیسرا مفہوم بھی ممکن ہے، لیکن اس میں بہت سی باتیں فرض کرنا پڑیں گی:

عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُ یُخْبِرُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ: ’’الذَّہَبُ بِالذَّہَبِ رِباً إِلَّا ہَاءَ وَہَاءَ وَالْبُرُّ بِالْبُرِّ رِباً إِلَّا ہَاءَ وَہَاءَ وَالتَّمْرُ بِالتَّمْرِ رِباً إِلَّا ہَاءَ وَہَاءَ وَالشَّعِیْرُ بِالشَّعِیْرِ رِباً إِلَّا ہَاءَ وَہَاءَ‘‘.(صحیح بخاری، رقم۲۱۳۴)
’’...نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سونے کے بدلے میں سونا خریدا جائے تواس میں سود کا امکان ہے، سوائے اس کے کہ نقدا نقد معاملہ ہو۔گندم کے بدلے گندم خریدو فروخت کی جائے تو اس میں ربا ہو سکتا ہے، سوائے اس کے کہ نقدا نقد معاملہ ہو۔ کھجور کے بدلے کھجور خریدو فروخت کی جائے تو اس میں ربا کا امکان ہے، سوائے اس کے کہ نقدا نقد معاملہ ہو۔ جو کے بدلے جوکی خریدو فروخت کی جائے تو اس میں سود ہو سکتاہے، سوائے اس کے کہ نقدا نقد معاملہ ہو۔‘‘

اس میں جو چیزیں فرض کرنا ہوں گی، اس میں ایک تو لسانی اصول ہے کہ اسمیہ جملہ کو خبر کے بجاے امکانِ خبر پر محمول کیا جائے۔ دوسرے یہ کہ ان چاروں چیزوں کو باقی تمام اجناس سے ممتاز مانا جائے۔ ممتاز ماننے کا ایک پہلو یہ کہ تبادلے کی بیع (barter system) کے زمانے میں ان کو نقدی (currency) کی حیثیت حاصل ہو، سونے کے ساتھ ان کا جمع کرنا اس کا قرینہ ہے۔یعنی وہ چیزیں جن کو تبادلہ میں معیار کی حیثیت حاصل ہو جاتی ہے ۔نقدی کی حیثیت پانے والی اشیا کی قیمت میں افراط وتفریط غیر فطری عوامل سے ہو سکتاہے۔ضروری نہیں کہ وہ مارکیٹ کے عام بہاؤ سے افراط وتفریط سے گزریں۔ یعنی انھیں مصنوعی طریقے سے بھی اس اتارچڑھاؤ میں رکھا جاسکتا ہے۔ دوسرے یہ کہ ان میں تین چیزوں کا تعلق خوراک سے بھی ہے ۔ یہ بنیادی ضرورت کی چیزہے۔ ذخیرہ اندوزی سے ان چیزوں کی مصنوعی کمی پیدا کی جاتی ہے تاکہ ان کی قیمت بڑھ جائے اور منافع کمایا جائے یا دوسری چیزوں کی قیمت بڑھانے کے لیے ان کی فروانی کردی جاتی ہے وغیرہ۔ مثلاً آج جو کی بوری ایک درہم میں آتی ہے۔ بیوپاری باہمی ساز باز سے جو کی مارکیٹ میں کمی پیدا کردیں، جس سے جو کی قیمت بڑھ جائے۔ چنانچہ قرض دارجب جو واپس کرنے آئیں گے تو وہ مہنگے جو واپس کریں گے، جن کی تازہ قیمت دو درہم فی بوری ہو چکی ہے ۔اس مہنگے جو سے مہاجن دوسری چیزوں کی زیادہ مقدار خرید سکیں گے۔مثلاً چند ماہ پہلے وہ ایک بوری دے کر ایک درہم سونا خرید سکتے تھے، اب وہ دو درہم خرید سکتے ہیں۔ یوں مصنوعی طریقے سے پوری مارکیٹ میں ایک سودی عمل وجود پذیر کیا جاسکتا ہے کہ کل کے سستے جو کے مقابلے میں آج کے مہنگے جو واپس لیے گئے، حالاں کہ مقدار بھی وہی تھی، اور معیار بھی وہی۔ یوں مہاجن چکر دے کر سود کمانے لگ گیا ہوگا۔ 
ہمارے ملک میں کارفرما عناصر پچھلی چند دہائیوں سے زمین اور روپے کے ساتھ ایسا ہی کررہے ہیں۔ یہ ممکن ہے کہ آپ نے اپنے دور میں اس طرح کی سرگرمیوں کے سدباب کے لیے یہ حکم دیا ہو، کہ ان چار چیزوں کی ادھار بیع نہیں ہو گی تاکہ مہاجن قسم کے لوگ سود کی حرمت کے بعد اس طرح جعل سازی سے سود نہ کمانے لگ جائیں۔ اس صورت میں یہ شرعی حکم کے بجاے محض ایک وقتی حل ہوگا، جیسے کوئی آرڈیننس ہو، کہ آج سے ان چار چیزوں کا انھی چار چیزوں کے بدلے ادھار سودا نہیں ہوگا۔ اگر ہوگا تو نقداً ہی ہوگا۔ اس صورت میں ان سب چیزوں کا الف لام جنس کا ماننا ہو گا۔ یعنی سونے کے بدلے سونا نہیں بیچا جائے گا، جو کے بدلے جو، گندم کے بدلے گندم سب کے ادھار بیچنے پر پابندی ہو گی، خواہ یہ چیزیں ایک ہی قسم کی ہوں یا مختلف ۔ یہ ساری بات بھی فرض کرنا پڑے گی کہ مدینۃ النبی میں ایسا ہو رہا تھا۔ جب کہ ہمیں اس چال بازی سے سود بنانے کے کوئی شواہد نہیں ملتے۔ صرف ذخیرہ اندوزی کے شواہد ملتے ہیں۔
بہرحال اگر متن کو پیوند شدہ نہ مانا جائے تومذکورہ بالا قسم کی دُور کی بے شمار کوڑیاں لانی پڑیں گی۔مزید یہ کہ یہ بات بعید از قیاس ہے کہ بنیادی چیزوں کی ادھارخریدو فروخت پر پابندی لگا دی جائے۔ یہ تو لوگوں کو نہایت سخت آزمایش میں ڈالنے والی بات ہے۔
اس دراز نفسی سے صرف یہ کہنا مقصود ہے کہ اس روایت کے متن میں راویوں نے یا محدثین نے کوئی ایسی تبدیلی کردی ہے کہ ایک حقیقت سے اس کا ٹکراؤپیدا ہور ہا ہے۔ اب صرف ایک ہی حل رہ جاتا ہے کہ اس کو وحی قطعی مان کر سمجھ آئے نہ آئے تعبداً مان لیا جائے۔ ہمارے اہل ظاہر نے ایسا ہی کیا، پھر تمام فقہا نے بھی ماننا شروع کردیا ہے۔چنانچہ اسے ربا الفضل کا نام دے دیا گیا کہ یہ عام مانے ہوئے ربا سے مختلف ایک ربا ہے۔ یہ شریعت کاحقیقی ربا پرایک اضافہ ہے ، یعنی یہ عام ربا کے تحت سمجھ میں نہیں آ سکتا، لہٰذا سرفگندگی میں مان لو۔ ہماری راے میں یہ محدثین و رواۃ کے دومتون کے باہم پیوند سے ایک ناقابل فہم متن تشکیل ہوگیا ہے، اگر ہم صحیح متون تک پہنچ جائیں تو ربا الفضل کا قضیہ ہی مٹ جاتا ہے، مزید تحقیق کے لیے استاذ گرامی کی محولہ بالا کتاب: ’’میزان‘‘ کو دیکھا جا سکتا ہے۔ استاذ گرامی نے درج ذیل متن کو صحیح قرار دیا ہے۔ مگر جیسا کہ ہم نے اوپر لکھا اس میں ادھار کو مقدر ماناہے : ۸؂

الذَّہَبُ بِالذَّہَبِ وَزْناً بِوَزْنٍ مِثْلاً بِمِثْلٍ وَالْفِضَّۃُ بِالْفِضَّۃِ وَزْناً بِوَزْنٍ مِثْلاً بِمِثْلٍ فَمَنْ زَادَ أَوِ اسْتَزَادَ فَہُوَ رِباً. (مسلم، رقم ۴۱۵۲)
’’سونے کے بدلے سونا، اسی وزن اور اسی مثل کا خریدو، اور چاندی کے بدلے چاندی اسی وزن اور اسی مثل کی خریدو، جس نے اضافہ کیا یا کرایا تو یہ اضافہ سود ہوگا۔‘‘

ایک چوتھی صورت بھی ممکن ہے۔ لیکن اس میں اس موضوع کی تمام روایات پر مجموعی انحصار کرنا ہوگا۔ صرف ایک متن سے کام نہیں چلے گا، کیونکہ لگتا ہے کہ کسی متن میں کوئی بات مقدر تھی، وہ بیان نہیں ہوئی، کسی روایت میں انضمام المتن ہو گیا ہے، کسی میں جملوں کی ترتیب بدل گئی ہے اس لیے ضروری ہے کہ اس بات تک پہنچا جائے کہ جو ان تمام روایات کو ایک جامع بات میں پرو دے اور غیر سودی بیع میں سود کا جو مسئلہ پیدا ہو چکا ہے، وہ حل ہو جائے۔یہ اس لیے ضروری ہے کہ ردی بات کی نسبت بھی رسول کی طرف کرنا درست نہیں ہے۔ تمام متون کو ایک مرتبہ ناقص اور تمام کوایک دوسرے کی تکمیل کرنے والا قرار د ے کر پھر سمجھنے کی کوشش کی جائے ۔ اگر ہم ہرایک متن کو مکمل قرار دے دیں تو اوپر جو میں نے تفصیل کی ہے، اس سے واضح ہے کہ کس قدر سنجیدہ سوالات پیدا ہوجاتے ہیں۔
غور یہ کرنا چاہیے کہ ادھار یا نقد کس صورت میں ایک ہی چیز کے خریدو فروخت سے سود پیدا ہوتا ہے۔ خود صحیح احادیث سے بالحصر یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ سود صرف نسیۂ، یعنی ادھار میں ہوتا ہے۔لہٰذا ان تمام روایتوں میں اس اصولی روایت کی روشنی میں ہم آپ سے آپ یہ مان لیتے ہیں کہ سود والی تمام روایات نسیۂ ہی سے متعلق ہیں، خواہ ان میں ’ادھار‘ کا لفظ آیا ہو یا نہ آیا ہو۔
اب اگلی غور کرنے کی بات یہ ہے کہ کس صورت میں کھجورکوکھجور کے بدلے بیچنے سے سود پیدا ہوتا ہے۔ظاہر ہے اگر ’وزناً بوزنٍ‘ اور ’مثلاً بمثلٍ‘ ہو تو سود نہیں ہوتا۔ یعنی میں نے ایک کلو کھجور آج لی، اور ایک ہفتے بعد وزن اور مثل میں یکساں کھجور واپس کردی تو سود نہیں ہو گا۔لیکن اگر وزن میں یا معیار میں اسے بڑھادیا جائے تو سود ہو جائے گا۔ ایک تیسری چیز ، جیسا کہ ہم نے اوپر ذکر کیا ہے، قیمت ہے ، جو تقریباً سب شارحین کے ہاں فراموش رہی ہے۔تو مثال کے طور پر اگر وزن بھی وہی ہو، معیار بھی وہی ہو، مگر قیمت بدل جائے توکیا سود نہیں ہوگا؟ تو اب ’مثلاً بمثلٍ‘ کے معنی میں قیمت کا مفہوم بھی ڈالنا ہوگا۔ چنانچہ اب یہ کل تین چیزیں ہو جائیں گی: وزن، معیار اور قیمت۔ ان تینوں میں سے کسی ایک میں فرق آ گیا تو سود ہو جائے گا۔
اس کو ایک مثال سے سمجھتے ہیں۔ میں نے آپ سے اکتوبر میں ایک بوری کھجور ادھار لی، اس ماہ اس کی قیمت مثلاً پانچ ہزار روپے بوری تھی۔ جون میں، میں نے یہ کھجورواپس کرنی ہے، جون تک آتے آتے، یہی کھجور مہنگی ہو جائے گی، تب بوری کی قیمت مثلاً چھ ہزارروپے ہو جائے گی۔اب اس بیع میں سود پیدا ہو گیا ہے، یعنی پانچ ہزار روپے پر چھ ہزار روپے وصول کیے گئے۔ تقریباً تمام اجناس میں ایسا ہی ہوتا ہے، فصل آنے کے موسم میں قیمتیں کم ہوجاتی ہیں، مگر جیسے جیسے وقت گزرتا ہے، اجناس کی مقدار میں کمی آتی ہے اور قیمتیں بڑھنے لگتی ہیں۔اس قسم کی بیوع میں سود سے بچنے کا کیا حل ہے؟ وہی کہ ان اجناس کو انھی کے بدلے ادھارنہ خریدا جائے، بلکہ جب بھی خریدا جائے قیمتاً خریدا جائے۔ مثلاً میں نے پانچ ہزار کی بوری لی اور جولائی میں پانچ ہزار روپے ہی واپس کردیے۔ اگر حدیث سنداً اور معناً صحیح ہے تو یہی وہ بات ہے جو آپ نے والئ خیبر سے فرمائی تھی، یعنی جب ایک ہی جنس اسی وزن اور اسی قسم میں بھی لوٹاؤگے تو قیمت میں تبدیلی کی وجہ سے سود پیدا ہوسکتا ہے۔اس لیے پہلے اسے دوسری چیز کے عوض بیچو، اور جب واپس لینی ہو، تو اسی قیمت سے واپس لو۔ یعنی پانچ ہزار کی کھجور ادھار دی تھی، اب پانچ ہزار ہی کی خرید کر واپس لو۔ 
اس میں جیسے سود کا امکان ہے، ویسے ہی ضرر کا بھی امکان ہے۔ مثلاً اگر جون میں، جب کھجور مہنگی ہو، ادھار پر دی گئی، اور اس وقت لوٹائی گئی، جب نئی فصل کے آنے پر قیمتیں گرجاتی ہیں تو ادھار دینے والے کو نقصان، یعنی ضرر ہو گا۔ اس سے بچنے کا بھی وہی طریقہ ہے، جو آپ نے والئ خیبر کو حکم فرمایا۔ آپ کے تجویز کردہ اس طریقے سے قرض دار اور قرض خواہ، دونوں سود یا ضرر سے بچ جاتے ہیں۔ اس تاویل سے ترددات تو سارے دور ہوجاتے ہیں، مگر ان میں درج ذیل باتیں خود سے فرض کرنا پڑیں گی:
۱۔ راویوں نے موقع محل کو بیان نہیں کیا، یا راویوں نے تو بیان کیا، مگر مصنفین نے طوالت سے بچنے کے لیے موقع محل کو ترک کرکے محض قول رسول کو بیان کردیا، جس سے بات سمجھ میں نہیں آرہی کہ بات کیا ہو رہی تھی۔ موقع محل سے ہماری مراد یہ ہے کہ مثلاً ان روایتوں میں بات ادھار کی چل رہی تھی یا نقدبیع کی۔یہ اس مضمون کی اکثر روایتوں سے واضح نہیں ہوتا۔ مثلاً:

قَالَ أَبُوْ بَکْرَۃَ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ’’لَا تَبِیْعُوا الذَّہَبَ بِالذَّہَبِ إِلَّا سَوَاءً بِسَوَاءٍ وَالْفِضَّۃَ بِالْفِضَّۃِ إِلَّا سَوَاءً بِسَوَاءٍ وَبِیْعُوا الذَّہَبَ بِالْفِضَّۃِ وَالْفِضَّۃَ بِالذَّہَبِ کَیْفَ شِئۡتُمْ‘‘.(بخاری، رقم ۲۱۷۵) 
’’یہ صحابی کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سونے کو سونے کے بدلے مت بیچو، سوائے یہ کہ وہ وزن ومعیار میں بالکل ویسا ہی ہو، اور نہ چاندی کے بدلے چاندی بیچو، الاّ یہ کہ وزن ومعیار میں بالکل ایک جیسی ہو، البتہ سونے کے بدلے چاندی اور چاندی کے بدلے سونا جیسے چاہو بیچ سکتے ہو۔‘‘

اسی طر ح یہ روایت دیکھیے:

الذَّہَبُ بِالذَّہَبِ وَزْناً بِوَزْنٍ مِثْلاً بِمِثْلٍ وَالْفِضَّۃُ بِالْفِضَّۃِ وَزْناً بِوَزْنٍ مِثْلاً بِمِثْلٍ فَمَنْ زَادَ أَوِ اسْتَزَادَ فَہُوَ رِباً.(مسلم، رقم ۴۱۵۲)
’’سونے کے بدلے سونا، اسی وزن اور اسی مثل کا خریدو، اور چاندی کے بدلے چاندی اسی وزن اور اسی مثل کی خریدو، جس نے اضافہ کیا یا کرایا تویہ اضافہ سود ہوگا۔‘‘

درج ذیل روایت بھی موقع محل سے مجرد ہو کر آئی ہے:

یُحَدِّثُ أَنَّ أَبَا ہُرَیْرَۃَ، وَأَبَا سَعِیْدٍ، حَدَّثَاہُ، أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَعَثَ أَخَا بَنِيْ عَدِيِّ الْأَنْصَارِيَّ، فَاسْتَعْمَلَہُ عَلٰی خَیْبَرَ، فَقَدِمَ بِتَمْرٍ جَنِیْبٍ، فَقَالَ لَہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ’’أَکُلُّ تَمْرِ خَیْبَرَ ہٰکَذَا؟‘‘ قَالَ: لَا وَاللّٰہِ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، إِنَّا لَنَشْتَرِي الصَّاعَ بِالصَّاعَیْنِ مِنَ الْجَمْعِ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ’’لَا تَفْعَلُوْا، وَلٰکِنْ مِثْلاً بِمِثْلٍ، أَوْ بِیْعُوْا ہٰذَا وَاشْتَرُوْا بِثَمَنِہِ مِنْ ہٰذَا، وَکَذٰلِکَ الْمِیْزَانُ‘‘. (مسلم، رقم ۱۳۹۵)

’’ابو ہریرہ اور ابو سعید رضی اللہ عنہما دونوں بیان کرتے ہیں کہ آپ نے بنوعدی انصاری کے ایک آدمی کوخیبر کا والی مقرر کیا، تو وہ جنیب قسم کی کھجورلے کر آیا، تو آپ نے اس سے پوچھا کہ آیا خیبر کی تمام کھجوریں ایسی ہی ہیں؟ اس نے عرض کی: نہیں یارسول اللہ، ہم ملی جلی کھجوردے کر دو صاع کے بدلے ایک صاع جنیب خرید لیتے ہیں، آپ نے فرمایا: یو ں نہ کیا کرو، جب اس ملی جلی کھجورکا سودا کرو، تو اسے پہلے بیچو، اور پھر اس کی قیمت سے اچھی کھجورخریدو، ایسے ہی صحیح سودا ہوگا۔‘‘

کلام کا ظاہر ان تینوں روایتوں میں نقد بیع پر دلالت کررہا ہے۔ لیکن اس طرح کی نقد بیع میں سود پیدا ہی نہیں ہوتا۔ جس پر اوپر کی ساری تفصیل گواہ ہے۔
۲۔ یہ فرض کرنا پڑے گا کہ ان اجناس میں قدیم عرب میں بھی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ قیمت میں اتار چڑھاؤ ہوتا تھا۔
۳۔ یہ ماننا پڑے گا کہ ان اجناس کی قیمت بڑھنے سے سود کا عنصر بیع میں آجاتا ہے، اس کے باوجود کہ قسم بھی وہی اور وزن بھی اتنا ہی لوٹایا گیا ہو۔
۴۔ یہ فرض کرنا پڑے گا کہ یہ تمام روایات قرض یا ادھار کی بیع سے متعلق ہیں، حالاں کہ ان کامضمون نقد بیع پر دلالت کررہا ہے۔
۵۔ یہ ماننا پڑے گا کہ سیدنا بلال والی روایت میں تصرف کر کے ایک جملہ یا دو جملے دوسری روایات سے پیوند کیے گئے ہیں۔

أن أَبَا سَعِیْدٍ، یَقُوْلُ: جَاءَ بِلَالٌ بِتَمْرٍ بَرْنِيٍّ، فَقَالَ لَہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ’’مِنْ أَیْنَ ہٰذَا؟‘‘ فَقَالَ بِلَالٌ: تَمْرٌ کَانَ عِنْدَنَا رَدِيْءٌ، فَبِعْتُ مِنْہُ صَاعَیْنِ بِصَاعٍ لِمَطْعَمِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ عِنْدَ ذٰلِکَ: ’’أَوَّہْ عَیْنُ الرِّبَا لَا تَفْعَلْ، وَلٰکِنْ إِذَا أَرَدْتَ أَنْ تَشْتَرِيَ التَّمْرَ فَبِعْہُ بِبَیْعٍ آخَرَ، ثُمَّ اشْتَرِ بِہِ‘‘.(مسلم، رقم ۱۵۹۴۔ بخاری، رقم ۱۰۸۰)

۶۔ یہ ماننا پڑے گا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی مذکورہ بالا روایت میں ’إلا ہاء وہاء‘ بھی پیوند ہے، کیونکہ اس طرح نقد بیع ہوتی ہی نہیں ہے۔

عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُ یُخْبِرُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ: ’’الذَّہَبُ بِالذَّہَبِ رِباً إِلَّا ہَاءَ وَہَاءَ وَالْبُرُّ بِالْبُرِّ رِباً إِلَّا ہَاءَ وَہَاءَ وَالتَّمْرُ بِالتَّمْرِ رِباً إِلَّا ہَاءَ وَہَاءَ وَالشَّعِیْرُ بِالشَّعِیْرِ رِباً إِلَّا ہَاءَ وَہَاءَ‘‘. (صحیح بخاری، رقم۲۱۳۴)

۷۔ یہ ماننا پڑے گا کہ مثل سے مراد قسم، یعنی معیار اور قیمت، دونوں ہیں۔
میرے خیال میں حل دو ہی ہیں: ایک وہ جو استاذ گرامی نے اپنی کتاب ’’میزان‘‘ میں پیش فرمایا ہے کہ ادھار کو بعض طرق میں مقدر مانا جائے اور ’إلاہاء وہاء‘ والی روایت میں پیوند کو حذف کرکے سمجھا جائے۔دوسرا حل یہ ہے کہ مذکورہ بالا تمام مفروضات کو مان کر ایک مخفی ربا کے وجود کو تسلیم کیا جائے، جس کی وضاحت میں نے اوپر کی ہے، اور جس کا حل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بتایا ہے کہ ’بِیْعُوْا ہٰذَا وَاشْتَرُوْا بِثَمَنِہِ مِنْ ہٰذَا، وَکَذٰلِکَ الْمِیْزَانُ‘ (مسلم، رقم ۱۵۹۳)۔ میرے خیال میں یہ جملہ سارے متون کو حل کرنے میں نہایت درجہ اہمیت رکھتا ہے، کیونکہ یہ کرنسی کے زمانے میں سمجھنا آسان ہے افراط و تفریطِ زر سے سود کیسے پیدا ہوتا ہے۔لیکن بارٹر سسٹم میں ثمن قرار پانے والی اشیا میں اس کی موجودگی کو پالینا ذرا مشکل ہے۔
۸۔ یہ ماننا پڑے گا کہ صرف سونے یا چاندی ہی کونقدی کی حیثیت حاصل نہیں ہوتی، بلکہ بارٹر سسٹم میں بعض دوسری چیزوں کو بھی نقدی کی حیثیت حاصل ہو جاتی ہے۔ جو ثمن کا درجہ پالیتی ہیں۔
اوپر کی بحث سے واضح ہے کہ متون کی صحت پر کس قدر غور وفکر کی ضرورت ہے۔ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ ہم راویوں اور محدثین کے سہواً اورفقہی تصرفات سے حدیث نبوی پر الزام آنے دیں۔ نہایت دقتِ نظر سے تمام پہلوؤں کو دیکھنا ہوگا۔ ایسے تمام تصرفات کی جانچ کرنی ہوگی اور نہایت ہمدردی سے تمام مواد کو پرکھ کر تاویل کرنا ہوگی۔
[باقی]

_____

۱؂ ایک عمدہ قسم کی کھجور جو جسامت میں ذرا گولائی والی اور زردی مائل رنگ کی ہوتی ہے۔
۲؂ بڑی اور گاڑھے (thick) گودے والی کھجور، دوسری راے کے مطابق وہ کھجور جو ایک ہی قسم یا ایک ہی کوالٹی کی چن چن کر الگ کرلی گئی ہو۔یہی دوسری راے ہی صحیح لگتی ہے، اس لیے کہ عرب کھجوروں کے نام ان کے ساتھ معاملے کے لحاظ سے بھی رکھ لیتے ہیں جیسے تمرٌ جَنِيٌ، یعنی وہ کھجور جسے درخت سے چنا گیا ہو،خواہ اس پر چڑھ کر یا اسے ہلا کر۔
۳؂ ایسی خرید وفروخت جس میں ایک ہی چیزکی بڑھیا قسم دے کر گھٹیا قسم خریدی جائے یا بالعکس۔
۴؂ ایک عمدہ قسم کی کھجور جو جسامت میں ذرا گولائی والی ہوتی ہے، اور زردی مائل رنگ کی ہوتی ہے۔

۵؂ اس پیوند کی نشان دہی استاذ گرامی نے اپنی کتاب ’’میزان‘‘ میں کی ہے، دیکھیے ص ۵۰۸۔
۶؂ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے استاذ گرامی کی کتاب ’’میزان‘‘ صفحہ ۵۰۸، باب ’’قانونِ معیشت‘‘۔
۷؂ دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں ’یداً بید‘ کے الفاظ تھے، جو رہ گئے ہیں:

قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم: ’’الذہب بالذہب والفضۃ بالفضۃ والبر بالبر والشعیر بالشعیر والتمر بالتمر والملح بالملح مثلاً بمثل سواء بسواء یداً بید فإذا اختلفت ہذہ الأصناف فبیعوا کیف شئتم إذا کان یداً بید‘‘.(صحیح مسلم، رقم ۱۵۸۷ )

۸؂ میزان، جاوید احمد صاحب غامدی ۵۰۸۔

____________

 

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت اپریل 2017
مصنف : ساجد حمید
Uploaded on : Nov 14, 2017
3057 View