عمر فاروق رضی ﷲ عنہ (12) - ڈاکٹر وسیم مفتی

عمر فاروق رضی ﷲ عنہ (12)

 

سیرت و عہد

عمر وبن عاص رضی اﷲ عنہ عمر فاروق رضی اﷲ عنہ کو مصر کے حالات سے مطلع کرتے رہتے تھے ۔ا ن کے خطوط سے حضرت عمر کو عیسائی پیشوا بن یامین کا مقام ومرتبہ معلوم ہواتوہدایت بھیجی کہ مصر کے سیاسی و انتظامی معاملات بہتر اور اطمینان بخش طور پر چلانے کے لیے بن یامین سے مشاورت مفید رہے گی۔بن یامین نے بھی مشورہ دینے میں بخل سے کام نہ لیا ۔ان کا سجھاؤ تھا کہ لوگ اپنی فصل کاٹ لیں تو ان سے خراج وصول کیا جائے۔مصر کی بند ہو جانے والی نہروں کو ازسر نو کھدوا کر جاری کیا جائے اور ان کے پلوں کو مرمت کرایا جائے۔ ٹیکس کلکٹروں کی تنخواہیں بروقت ادا کی جائیں تاکہ وہ رشوت پر آمادہ نہ ہوں۔ حضرت عمرو دریاے نیل کو بحر احمرسے ملانے والی نہرٹراجن (Trajan) کھدوانے کی پلاننگ پہلے سے کر چکے تھے۔یہ ہزاروں برس پہلے عہد فراعنہ میں نکالی گئی تھی۔ رومی بادشاہ ٹراجن (Trajan، اصل نام :Marcus Ulpius Nerva Trajanus، ۸استمبر ۵۳ تا۹ اگست ۷اا) نے اس کی اصلاح کرائی تو اسی کے نام سے موسوم ہوگئی۔ حضرت عمرو بن عاص نے ہزاروں مزدور بھرتی کرکے ایک سال سے بھی کم عرصے میں قریباً ۰۰ اکلو میٹر لمبی اس بے نشان ہو جانے والی نہر کواز سرنو جاری کردیا،اب ا س کانام نہر امیرالمومنین ہو گیا۔ 
ابو الحسن قفطی (م ۶۴۶ھ/ ۲۴۸اء) نے اپنی کتاب ’’اخبار العلما باخبار الحکما‘‘ میں ایک قصہ بیان کیا ہے۔ ایک قبطی پیشوا حنا (یحیےٰ نحوی) نے، جسے عیسائی علما نے تثلیث کا انکار کرنے کی وجہ سے اپنی کونسل سے خارج کر رکھا تھا، حضرت عمرو بن عاص سے کہا: اسکندریہ کے شاہی خزانوں میں ایک بڑا خزینہ اہل روم کی ۴۵ ہزارکتابوں پر مشتمل لائبریری ہے۔اسے شاہ اسکندریہ بطلیموس دوم فلاڈلفس (Ptolemy II Philadelphus، ۳۰۹ ۔۲۴۶ ق م)کے حکم پر زمیرہ نے جمع کیا تھا۔ فلسفہ وحکمت کی یہ کتابیں ہمیں سونپ دیجیے ، آپ کے لیے تو یہ بے قیمت ہیں، لیکن ہمارے لیے بہت مفید رہیں گی۔ حضرت عمرو نے کہا: میں امیرالمومنین حضرت عمر سے اجازت لیے بغیر کوئی فیصلہ نہیں کر سکتا۔ حضرت عمر کا جواب آیا: ان کتابوں میں جوکچھ کتاب اﷲ کے موافق ہے ، کتاب اﷲ میں موجود ہونے کی وجہ سے اس کی ہمیں ضرورت نہیں اور جو قرآن کے مخالف ہے ،اس سے ہمیں کیا لینا؟ انھیں تلف کر ڈالو۔ مورخ صاحب فرماتے ہیں: ان کتابوں کو اسکندریہ کے حماموں میں تقسیم کر دیا گیا جہاں یہ۶ ماہ تک ایندھن کے طور پر استعمال ہوتی رہیں۔ اس واقعے کو بے شمار مستشرقین جھٹلا چکے ہیں۔ اس کا من گھڑت اور بے سرو پاہونا، اسی بات سے ثابت ہو جاتا ہے کہ حنا (یحیےٰ نحوی) مصر میں مسلمانوں کی آمد سے کئی سال قبل وفات پا چکا تھا اور مذکورہ کتب خانہ اس سے کہیں پہلے۴۸ء میں بھسم ہو چکا تھا۔ جب رومی بادشاہ قیصر نے اسکندریہ کو تاراج کیا اوراس کی بندرگاہ اور نصف شہر کو جلا ڈالا۔مسلمان آئے تو اس کتب خانے کے علاوہ دوسری تمام لائبریریاں بھی معدوم ہو چکی تھیں۔ بٹلر (Butler) کا کہنا ہے: انھیں عیسائیوں کی فرقہ دارانہ جنگوں نے اجاڑ دیا تھا۔
اب وہ مرحلہ آیا جب امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب اور فاتح مصر حضرت عمرو بن عاص میں اختلافات نے جنم لیا۔ خلیفۂ ثانی کا تقاضا تھا کہ خراج کاملاً مدینہ بھیجا جائے، جبکہ حضرت عمرو اس کا بیش ترحصہ مصر کی نہروں اور اس کے پلوں پر خرچ کرنا چاہتے تھے، کئی اور اصلاحات بھی ان کے پیش نظر تھیں۔ انھیں حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کا خط موصول ہوا کہ تم نے پچھلے سال بھیجے جانے والے خراج کا نصف بھی ادا نہیں کیا۔ قحط پڑا ہے نہ خشک سالی آئی ہے اور تم بہانے بنا رہے ہو۔ یقیناًتمھارے بددیانت عمال ہی اس میں رکاوٹ بن رہے ہوں گے۔ حضرت عمرو کی وضاحت سے ان کی تسلی نہ ہوئی اور خراج فوراً ادا کرنے کا حکم لکھ بھیجا۔ حضرت عمرو نے بار بارمصر کی مقامی ضروریات کا عذر پیش کیا تو حضرت عمر نے حضرت محمد بن مسلمہ کو مصر بھیجا جنھوں نے مال فے وصول کیا۔ کچھ مورخین کا خیال ہے کہ حضرت عمر حضرت عمرو کو معزول کرناچاہتے تھے کہ خود ان کی شہادت کا سانحہ پیش آ گیا۔
حضرت عمر رضی اﷲ عنہ جزیرہ نماے عرب کو ایک سیاسی اکائی بنانا چاہتے تھے ۔ان کے پیش نظر نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کا یہ فرمان تھا: ’لا یترک بجزیرۃ العرب دینان‘، ’’دو دین (یہودیت و نصرانیت) جزیرۂ عرب میں نہ رہنے دیے جائیں۔‘‘ (مسند احمد، رقم ۲۶۳۵۲) جس طرح انھوں نے خلافت سنبھالتے ہی نجران کے عیسائیوں کو عراق میں اور فدک و خیبر کے یہودیوں کو شام میں جا بسایا، ایسے ہی مرتدین پر مسلمانوں کی صفوں میں شامل ہوکر جہادنہ کرنے کی پابندی ختم کر دی۔ سیدنا ابوبکر نے یہ پابندی اس لیے لگائی تھی، کیونکہ وہ اہل ردہ کی شورش فرو کرنے کے بعد ان پر فوری اعتماد نہ کر سکتے تھے۔ حضرت عمر نے اسے ہٹانا ضروری سمجھا، اس لیے کہ ان کے خیال میں اس سے مسلمانوں میں تفریق پیدا ہوسکتی تھی۔جب ایک گروہ کو احساس ہو کہ اسے کم آزادی یا کم عزت ملی ہوئی ہے تو وہ وحدت کا حصہ نہیں بن سکتا۔ انھوں نے تمام عرب جنگی قیدیوں کو آزاد کر کے ان کے کنبوں میں واپس بھیجنے کا حکم بھی دیا۔ان کا منشا تھا کہ جزیرۂ عرب کے تمام باشندگان یکساںآزاد ہوں ۔وہ قومی نہیں، بلکہ اسلامی وحدت پیدا کرنا چاہتے تھے۔ سیدنا عمر نے ہجرت نبوی کو اہم ترین واقعہ قرار دیتے ہوئے اسی سے اسلامی کیلنڈر کی ابتداکی۔یوں جاہلی کیلنڈر جو عام الفیل یا عربوں کی اہم جنگوں کے سن وقوع سے شروع ہوتے تھے اور ایرانی و رومی کیلنڈر پس منظر میں چلے گئے۔
کچی اینٹیں مسجد نبوی کی دیواریں اور کھجور کی چھالیں اس کی چھت تھیں۔اپنی خلافت کے پہلے چار سال حضرت عمر نے مسجد میں ذرا بھی تبدیلی نہ کی۔اسلامی مملکت کے وسعت اختیار کرنے سے مدینہ کے باشندوں کی تعد اد بھی بڑھ گئی تو انھوں نے مسجد کو کشادہ کرنے کاحکم دیا۔ساتھ ساتھ کہتے جاتے کہ اگر میں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کویہ فرماتے نہ سنا ہوتا: ’’چاہیے کہ ہم اپنی مسجد کی گنجایش کچھ بڑھا لیں۔‘‘ تو اسے ہر گز وسیع نہ کرتا۔وہ مسجد ہی میں بیٹھ کر امور مملکت انجام دیتے، البتہ ان لوگوں کومنع کرتے جو مسجد میں بیٹھ کر گپ شپ یا شعر و شاعری کرتے۔ایسی سرگرمیوں کے لیے انھوں نے مسجد کے باہر ایک جگہ مقرر کردی جسے بطیحا کہا جاتاتھا۔
حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے مدینہ میں رہ کر تمام جنگوں کی خود پلاننگ کی ،وہ اکثر اوقات فوجوں کی پوزیشن طے کرتے ،میمنہ ومیسرہ اور مقدمہ وقلب کے کمانڈروں کا تقرر کرتے اور جب فتح حاصل ہو جاتی تو محض والی مقرر کرنے پر اکتفا نہ کرتے، بلکہ شہر کے انتظام و انصرام کے متعلق ہدایات بھیجتے۔انھوں نے مفتوحہ علاقوں میں پہلے سے رائج ایرانی و بازنطینی نظام ہاے مملکت کو اپنایانہ عرب میں چلتا ہوا دیہی و شہری نظام ان پر مسلط کیا ۔اس باب میں والیوں کو چھوٹ تھی کہ وہ احکام اسلامی کی روشنی میں اپنے خطے کی ضروریات کے مطابق قواعدسلطنت خود ترتیب دیں۔ اس طرح نوزائیدہ اسلامی مملکت نے ایک ریاست ہاے متحدہ کی صورت اختیار کر لی۔دارالحکومت مدینہ میں وہی شورائی نظام جاری تھا جس پر رسالت مآب صلی اﷲ علیہ وسلم نے عمل فرمایا اور جس پر سیدنا ابوبکر کاربند رہے۔ حضرت عباس بن عبدالمطلب، حضرت عبداﷲ بن عباس، حضرت علی بن ابو طالب، حضرت عثمان بن عفان اور حضرت عبدالرحمان بن عوف خلیفۂ ثانی کی مجلس شوریٰ کے اہم ارکان تھے۔ کبھی ’اَلصَّلٰوۃُ جَامِعَۃٌ‘ کی ندا کے بعد شوریٰ عامہ منعقد ہوتی اور حضرت عمر عامۃ المسلمین کی آرا سے مستفید ہوتے۔ وہ ذہین نوجوانوں سے انفرادی مشورہ بھی کرتے۔ جنگ جسر (پل والی جنگ) میں حضرت ابوعبیدثقفی کی شہادت کے بعد اسلامی فوج کو شکست کا سامنا کرنا پڑا توامیرالمومنین نے عامۃالمسلمین سے مشورہ کیا۔ سب نے کہا: آپ خودعراق چلیں، ہم بھی آپ کے ساتھ جائیں گے۔ اہل شوریٰ میں سے حضرت عثمان اور حضر ت عبدالرحمان بن عوف نے اس بات سے اختلاف کیا، ان کا کہنا تھا کہ امیر المومنین کا مدینہ میں رہنا زیادہ ضروری ہے۔ اسی راے پر عمل ہوا۔ جب شام کے مقام عمواس میں طاعون کی وبا پھوٹی توحضرت عمر شام ہی کے سفر پر تھے۔ وہ تبوک کے قریب واقع سرغ تک پہنچے تھے کہ اس وبا کی اطلاع ملی۔ انھوں نے موجود مہاجرین وانصار سے سفر جاری رکھنے کے بارے میں مشورہ کیا تو متضا د آرا سامنے آئیں۔ حضرت عبدا لرحمان بن عوف نے یہ فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سنایا: ’’جب تم کسی شہر میں وبا پھیلنے کی خبر سنو تو وہاں کا رخ نہ کرو۔‘‘ تو حضرت عمر نے اس پر عمل کا ارادہ کر لیا۔ انھوں نے ابو عبیدہ کے اعتراض ’أفراراً من قدر اﷲ‘ (کیا آپ تقدیر الٰہی سے بھاگ رہے ہیں؟) کے جواب میں کہا: ہاں، اﷲ کی ایک تقدیر سے بھاگ کر دوسری تقدیر کی طرف جا رہا ہوں۔ حضرت عمر نے اپنے عمال کو بھی اہل راے سے مشورے کا پابند کیا۔
خلیفۂ دوم نے آں حضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے قرابت داروں(بنو ہاشم) کو سرکاری مناصب دینے سے گریز کیا، کیونکہ ان کا خیال تھا کہ لوگ عام طور پر صاحب منصب سے ناراض ہی رہتے ہیں ۔دوسری وجہ یہ رہی کہ وہ انھیں اپنی مشاورت کے لیے مدینہ میں مقیم رکھنا چاہتے تھے۔شوریٰ حکومت کا اہم ادارہ تھی، اس طرح یہ اصحاب بھی اسلامی حکومت میں شامل رہے۔
حضرت عمررضی اﷲ عنہ وسیع اختیارات کے مالک تھے ۔وہ کتاب و سنت کی تعبیر کرتے ،ان میں پائے جانے والے احکام نافذ کرتے، قاضی القضاۃ (چیف جسٹس) ہونے کے علاوہ، وہ فوج کے سپریم کمانڈر بھی تھے۔اتنی زبردست اتھارٹی نے ان میں اور فروتنی پیدا کر دی۔ایک بار کاندھے پر مشک ڈھوئی اور کہا:میرے نفس میں کچھ غرور آگیا تھا، اس لیے میں نے اسے ذلیل کیا۔فرماتے تھے: مجھے رعیت کی حالت کی خبر کیسے ہو سکتی ہے، جب تک ان پر آنے والی مصیبت مجھے بھی لاحق نہ ہو؟ اپنے آپ کو انتہائی غریب شخص کی جگہ رکھ کرا سے پیش آنے والی مشکلات کا اندازہ کرتے۔ قحط کا پورا سال انھوں نے چکنائی لی نہ گوشت کھایا، کیونکہ یہ عوام کو میسر نہ تھے۔وہ لاغر ہو گئے اوررنگ سیا ہ پڑ گیا،لوگوں کواندیشہ ہو کہ حضرت عمر چل ہی نہ بسیں۔
امیر المومنین مدینہ پہنچنے والے مال غنیمت میں سے عام شہری جتنا حصہ وصول کرتے ۔ایک مرتبہ فرمایا: میرے لیے دو جوڑے ہی کافی ہیں،ایک سردیوں والا ، ایک گرمیوں کے لیے، خوراک وہ ہو جو ایک عام قریشی کھاتا ہے،حج یا عمرہ کرنا ہو تو ایک سواری مل جائے۔خدا کے مال میں میں اتنا تصرف ہی جائز سمجھتا ہوں جو مال یتیم میں روا ہوتا ہے،گنجایش ہوئی تو نہ لیا ، ضرورت پڑی تو معروف کے مطابق لے لیا ۔ایک بار ان کے پاس کچھ یمنی چادریں آئیں، انھوں نے یہ اہل مدینہ میں بانٹ دیں۔ ہر شہری کو ایک چادر ملی، حضرت عمر کے حصے میں بھی ایک آئی۔ وہ خطبہ دینے کھڑے ہوئے تواس چادر سے سلی ہوئی قمیص پہن رکھی تھی ۔ ایک شخص چلایا: عمر، ہم تمھاری بات سنیں گے، نہ مانیں گے۔ انھوں نے پوچھا: کیوں؟ اس نے کہا: اس لیے کہ آپ نے یمنی چادروں میں سے اپنا حصہ زیادہ رکھا ہے۔ ہمیں ایک ایک ٹکڑا ملا ہے جس سے ہماری قمیص نہیں بن پائی اور آپ نے قمیص سلالی۔ کیسے؟ ان کے بیٹے حضرت عبداﷲ بن عمر نے وضاحت پیش کی کہ میں نے اپنا حصہ اپنے والد کو دے دیا ہے تووہ شخص مانا اور کہا: اب سمع و طاعت ہو گی۔ خلیفۂ دوم بیمار پڑے تو طبیب نے شہد تجویز کیا، تب بیت المال میں ایک کپی سے زیادہ شہد نہ تھا۔ وہ منبر پر چڑھے اور حاضرین سے کہا: اگر آپ نے مجھے یہ شہد لینے کی اجازت دی تو میں استعمال کروں گا ورنہ یہ مجھ پرحرام رہے گا۔ اپنی جان کے معاملے میں مسلمانوں نے حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کی اس قدر شدت پسندی دیکھی تو ان کی بیٹی ام المومنین حفصہ رضی اﷲ عنہا سے رجوع کیا، تب بھی ان کا جواب تھا: اے حفصہ، تو نے مال غنیمت سے حسب خواہش حظ اٹھانے کا مشورہ دے کر اپنی قوم کی خیر خواہی کی اور اپنے باپ کا برا چاہا۔ میرے مال و دولت میں تو تمھار ا حق ہو سکتا ہے ، میرے دین وایمان میں نہیں۔
حضرت عمر اہل ایمان کے ساتھ اولاد کا سا برتاؤکرتے۔انھیں ہر دم خوش دیکھنا چاہتے،ان کے دکھوں کا اسی طرح مداوا کرتے، جیسے ایک باپ کر تا ہے۔ ایک رات وہ اپنے غلام اسلم کے ساتھ نواح مدینہ کے گشت پر تھے کہ ایک خیمے سے کسی عورت کے رونے کی آواز آئی۔معلوم ہوا،وہ درد زہ میں مبتلا ہے اور اسے دایہ کا انتظام کرنے کی گنجایش نہیں۔ وہ فوراً گھر گئے اور اپنی اہلیہ حضرت ام کلثوم بنت علی کو لے آئے۔ آٹا اورگھی ان کی کمر پر لدا تھا، دایہ گیری کا ضروری سامان بھی پاس تھا۔ جب حضرت ام کلثوم پکاریں: اے امیر المومنین، صاحب خانہ کو بیٹے کی بشارت دے دیجیے توانھیں خبر ہوئی کہ ان سے مواسات کرنے والاخود اپنے وقت کابادشاہ ہے۔ ایک بار کسی بچے کے رونے کی آواز سنی تو اس کی ماں کو غفلت کرنے پر ڈانٹا،کچھ رات گزری تو ایک اور بچہ روتا ہوا پایا،آخری پہرہوا تو بھی ایک بچے کا رونارات کا سکون برباد کر رہا تھا۔ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے بچے کی ماں سے کہا: تو کیسی ماں ہے؟تیرے بچے کو رات گزرنے پر بھی رونے سے قرار نہیں آیا۔ اس نے کہا: میں اسے دودھ کے بجاے روٹی دیتی ہوں اوریہ لیتا نہیں۔ انھوں نے پوچھا: یہ کیوں؟ اس نے بتایا: کیونکہ امیر المومنین صرف دودھ چھڑائے ہوئے بچے (weaned) کو وظیفہ دیتے ہیں۔ انھوں نے بچے کی عمر پوچھی اور ماں کو دودھ پلائی جاری رکھنے کا مشورہ دیا۔ فجر کی نماز پڑھانے کے بعد وہ لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے، آنکھیں آنسووں سے بھری تھیں، فرمایا: عمر کوڑی کوڑی کو محتاج ہو جائے! اس نے مسلمانوں کے کتنے ہی بچے مار ڈالے۔ پھر مدینہ میں منادی کرادی کہ اپنے بچوں کا دودھ جلدی جلدی نہ چھڑاؤ، ہم نے مسلمانوں کے ہر نومولود کے لیے وظیفہ مقرر کر دیا ہے۔ یہی حکم پوری مملکت اسلامیہ میں نافذ کر دیا گیا۔ انھی راتوں کا ذکر ہے جب حضرت عمر مدینہ کی گلیوں میں گشت کرتے تھے۔ ایک عورت جھوٹ موٹ کی ہنڈیا چڑھا کر روتے ہوئے بچوں کو بہلا رہی تھی۔ ان کو پتا چلا تو فوراً گئے، آٹا، گھی اور پکانے کا کچھ سامان لے آئے۔ غلام اسلم نے کہا: یہ سامان میں اٹھا لیتا ہوں۔ حضرت عمر نے کہا: تو کیا تو روز قیامت بھی میرا بوجھ اٹھائے گا؟ بچے پیٹ بھر کر سو گئے تو وہ لوٹے، ان کی زبان پر یہ الفاظ جاری تھے: بھوک ہی ہے جو بچوں کو سونے نہیں دیتی اور ان کورلا مارتی ہے۔
اپنے پہلے خطبے میں حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے فرمایا: میرے لیے اس کمزور سے زیادہ قوی کوئی نہ ہو گا (جس کا حق مارا گیا ہو) تاآنکہ میں اس کا حق اسے دلا دوں۔اسی طرح میں اس طاقت ور سے بڑھ کر کسی کو بودا نہ سمجھوں گا (جس نے کسی کا حق دبا لیا ہو)حتیٰ کہ میں ا س سے دوسرے کا حق چھین نہ لوں۔ایک بار کہا: لوگو، میں نے تم پر عمال اس لیے مقرر نہیں کیے کہ تمھیں ماریں پیٹیں،بے عزتی کریں یا تمھارے مال چھین لیں ۔ان کا فرض تمھیں کتاب وسنت کی تعلیم دینا ہے۔جس کے ساتھ بھی زیادتی ہو مجھے خبر کرے ،میں خود قصاص لوں گا۔ حضرت عمرو بن عاص نے پوچھا: تو کیا کوئی حاکم اپنے کسی شہری کی تادیب کرے گا تواس سے بھی قصاص لیا جائے گا؟ حضرت عمر نے کہا: ہاں۔
سیدنا عمر امور مملکت ممکن حد تک خود بجا لانے کی کوشش کرتے ۔ایک بارحضرت علی نے ان کو مدینہ کے باہر دوڑتے ہوئے دیکھا تو پوچھا: امیر المومنین، آپ کہاں جا رہے ہیں؟ جواب دیا: صدقے کا ایک اونٹ بھاگ نکلا ہے،میں اسے ڈھونڈ رہا ہوں۔ حضرت علی نے کہا: آپ نے تو اپنے بعد آنے ولے خلفا کو مشقت میں ڈال دیا ہے۔ ایک دفعہ وہ عبدالرحمان بن عوف کے گھر اس وقت پہنچے جب وہ تہجد کی نماز پڑھ رہے تھے۔ انھوں نے پوچھا: اس وقت کیا کام آن پڑا ہے؟ حضرت عمر نے بتایا: لوگوں کی ایک جماعت بازار کی ایک جانب سے شہر میں آئی ہے۔ مجھے اندیشہ ہے کہ مدینہ کے چور انھیں نقصان نہ پہنچائیں۔ چلو ہم دونوں ان کی پہرے داری کرتے ہیں۔ وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ وہ مل کر شراب پی رہے ہیں۔ حضرت عمر نے ایک شخص کوپہچان لیا، اس وقت تو واپس ہو لیے، لیکن صبح کو اسے طلب کر لیا۔ جب اس نے کہا: آپ محض تجسس سے معلوم ہونے والے الزام کی بنیاد پر ہمارے خلاف کارروائی نہیں کر سکتے تو اسے چھوڑ دیا، حالانکہ وہ اس کی بادہ خواری کے خود گواہ تھے۔رعایا کے حالات خود معلوم کرنے کی شدید حرص آخری عمر میں ان کی تمنا بن گئی کہ مملکت اسلامیہ کے تمام اطراف میں گھوم پھر کر عامۃ الناس اور عمال کے احوال جانچیں۔ چنانچہ فتح مصر کے بعد فرمایا: اگراﷲ نے مجھے زندگی دی تو ایک کامل برس اپنی رعیت میں گھوم کرگزاروں گا۔لوگوں کی کئی ضرورتیں میری وجہ سے رہ جاتی ہیں، عمال مجھ تک نہیں پہنچاتے اورضرورت مند میرے پاس آ نہیں پاتے۔ میں ۲ ماہ شام میں رہوں،۲ ماہ الجزیرہ میں،۲ ماہ مصر میں، ۲ ماہ بحرین میں،۲ ماہ کوفہ میں اور۲ ماہ بصرہ میں گزاروں ،بخدا!یہ سال کتنا ہی خوب صورت ہو گا؟اے بسا آرزو کہ خاک شدہ،برا ہو اجل کا ،ان کی یہ تمنا برآنے کا موقع ہی نہ آیا۔
عدل فاروقی ضرب المثل مانا جاتا ہے، اس لیے کہ حضرت عمر میں حد درجہ خشیت الٰہی پائی جاتی تھی ۔انھیں ہر لمحہ اپنے حساب اور اپنی پکڑ کا ڈررہتا تھا اور اسی محاسبۂ نفس سے انصاف کے سوتے پھوٹتے ہیں۔جب ان کے پاس کوئی مقدمہ آتاتو گھٹنوں کے بل کھڑے ہو کردعا مانگتے: اے اﷲ، میری مدد فرما،یہ دونوں فریق مجھے دین سے پھسلانا چاہتے ہیں۔ حضرت عمر کے بیٹے حضرت عبدالرحمان مصر میں تھے۔ابو سروعہ اور انھوں نے مل کر شراب پی اور انھیں خمار چڑھ گیا۔ گورنر حضرت عمرو بن عاص نے اپنے گھر ہی میں کوڑے لگوائے اور ان کا سر منڈوا کرچھوڑ دیا۔ حضرت عمر کو خبر ہوئی توتادیب کا خط لکھا: ابن عاص، تو نے عہد امارت کی خلاف ورزی کی ہے۔مجھے تم کو معزول ہی کرنا ہوگا۔ عبدالرحمان تیری رعایا کا ایک فرد ہے، تمھیں اس کے ساتھ دوسرے مسلمانوں کا سا سلوک کرنا چاہیے تھا۔ یہ خط ملتے ہی اسے اونٹ پرلاد کر میرے پاس بھیج دو۔ وہ مدینہ پہنچے تو تکلیف دہ سفر کی وجہ سے چل بھی نہ سکتے تھے۔ عبدالرحمان بن عوف رضی اﷲ عنہ نے کہا: امیر المومنین، اس پرحد نافذ ہو چکی ہے، انھوں نے ایک نہ مانی اور باردگر کوڑے لگوا دیے۔ عبدالرحمان تھکے ہوئے تھے،بیمار پڑے اور اسی مرض سے وفات پائی۔ 
حضرت عمر انصاف کرتے ہوئے امیر و غریب ،والی و رعیت میں کوئی فرق نہ کرتے۔شاہ غسان جبلہ بن ایہم اسلام قبول کرنے کے بعد عمرہ کرنے گیا۔ طواف کے دوران میں بنو فزارکے ایک شخص نے اس کے پاجامے پر پاؤں رکھ دیاتو اس نے اس کی ناک کاٹ ڈالی۔ حضرت عمر نے کہا: اسے راضی کرو یاقصاص دینے کے لیے تیار ہو جاؤ۔ وہ ڈر کر شام کوبھاگ گیا اور دوبارہ عیسائی ہو گیا۔ حضرت عمرو بن عاص کے بیٹے محمد نے ایک مصری کو کوڑا مار دیا اور کہا: میں معززین کی اولاد ہوں۔ حضرت عمرو نے اسے ا س ڈر سے کہ خلیفہ کو شکایت نہ کر دے، جیل میں ڈال دیا۔جب وہ چھوٹا تو مدینہ پہنچ گیا اور حضرت عمررضی اﷲ عنہ سے نالش کر دی۔ انھوں نے فوراً باپ بیٹے کو مصر سے بلا یااور مجلس قصاص میں کھڑا کردیاپھر مصری کودرہ پکڑایا اور فرمایا: اس سے عزت داروں کی اولاد کی پٹائی کر۔ وہ محمد کو پیٹتا جاتا اور حضرت عمر کہتے جاتے: مارو معززین کے بیٹے کو۔ اس نے کوڑا حضرت عمر کو واپس دینا چاہاتو کہا: اب اسے عمرو کی گنجی چندیا پر چلاؤ، اسی کی سلطانی کی وجہ سے اس کے بیٹے نے تمھیں زد و کوب کیا تھا۔ حضرت عمرو نے استدعا کی: امیرالمومنین، آپ نے بدلہ لے لیا ہے اور جی ٹھنڈا کر لیا ہے۔ مصری نے بھی کہا: جس نے مجھے مارا تھا میں نے اسے پیٹ لیا ہے تو معاملہ رفع ہوا۔ حضرت عمر کا غصہ ابھی فرو نہ ہوا تھا، حضرت عمرو کی طرف پلٹے اور کہا: او عمرو، لوگوں کی ماؤں نے انھیں آزاد جنا ہے ،تم نے انھیں کب سے غلام بنانا شروع کر دیا ہے؟ عدل و انصاف سیدنا عمر کی فطرت کا حصہ تھے۔فرماتے تھے: لوگ تب تک سیدھا چلتے ہیں جب تک ان کے لیڈراور ائمہ سیدھا چلتے ہیں۔وہ اپنے عمال کو بھی جادۂ انصاف پر چلانا چاہتے تھے، اسی لیے ان سے سخت بازپرس کرتے تھے۔ان کاکہنا تھا: میرے عامل نے کسی پرظلم کیا، مظلوم کی فریاد مجھ تک پہنچی اور میں نے اس کی داد رسی نہ کی تو میں خودظالم بن جاؤں گا۔ 
مطالعۂ مزید: تاریخ الامم والملوک(طبری)، الکامل فی التاریخ(ابن اثیر)،البدایہ والنہایہ (ابن کثیر)، الفاروق عمر (محمد حسین ہیکل)، اخبار الحکماء (اختصار الزوزنی من ’اخبارالعلما باخبار الحکما‘ للقفطی)۔
The Arab Conquest of Egypt and the last thirty years of Roman dominian (Alfred J Butler)
[باقی]

 

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت جولائی 2008
مصنف : ڈاکٹر وسیم مفتی
Uploaded on : Aug 04, 2017
2126 View