وراثت میں یتیم پوتے کا حق - عمار خان ناصر

وراثت میں یتیم پوتے کا حق

 مرنے والے کے مال میں یتیم پوتے کے حق وراثت کا مسئلہ مختلف پہلووں سے غور وفکر اور مناسب قانون سازی کا متقاضی ہے۔ اس ضمن میں سب سے بنیادی بات تو یہ پیش نظر رہنا چاہیے کہ اپنی نوعیت کے لحاظ سے یہ ایک اجتہادی مسئلہ ہے، یعنی قرآن یا سنت میں اس سے متعلق مثبت یا منفی طور پر کوئی ایسی واضح تصریح موجود نہیں جس کی حتمی پابندی لازم ہو۔ یہ سوال اس دائرے سے متعلق ہے جس میں فقہا، شریعت کے مقاصد، عملی مصالح اور عقلی وقیاسی اصولوں کی روشنی میں شارع کا منشا متعین کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

اس حوالے سے پہلا امکان جو غور وفکر کا تقاضا کرتا ہے، یہ ہے کہ کیا باپ کی غیر موجودگی میں اس کی اولاد کو اس کے قائم مقام قرار دے کر دادا کی وراثت میں حصہ دیا جا سکتا ہے؟ یہاں قیاس کا ایک پہلو یہ چاہتا ہے کہ صلبی اولاد کی موجودگی میں پوتوں اور پوتیوں کو وارث نہ مانا جائے اور جمہور فقہاءنے اسی قیاس کو ترجیح دی ہے۔ تاہم شرعی نظائر سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض صورتوں میں صلبی اولاد کی موجودگی میں کلی طور پر نہ سہی، لیکن جزوی طور پر یقیناً‌ شریعت نے ولد الولد کو صلبی اولاد کے حصے میں شریک ٹھہرایا ہے۔ چنانچہ سورة النساءکی آیت ۱۱ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ مرنے والے کی اولاد میں صرف لڑکیاں ہوں تو دو یا اس سے زیادہ ہونے کی صورت میں وہ دو تہائی ترکے کی حق دار ہوں گی، جبکہ صرف ایک لڑکی ہو تو آدھا ترکہ اس کو دیا جائے۔ یہ ہدایت اصلاً صلبی اولاد کے لیے ہے، اس لیے ان کے ہوتے ہوئے اولاد کی اولاد ترکے میں وارث نہیں بنتی۔ تاہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مقدمے میں، جس میں مرنے والے کی صرف ایک بیٹی تھی، لیکن اس کے ساتھ ایک پوتی بھی موجود تھی، یہ فیصلہ فرمایا کہ نصف مال اس کی صلبی بیٹی کو جبکہ ایک تہائی اس کی پوتی دے دے دیا جائے تا کہ دونوں کا حصہ مل کر دو تہائی کے برابر ہو جائے۔ یہ فیصلہ آپ نے اس پہلو کو ملحوظ رکھتے ہوئے فرمایا کہ میت کی صلبی اولاد میں کوئی لڑکا موجود نہیں جو دوسرے ورثا کے حصوں کو نکالنے کے بعد عصبہ کی حیثیت سے سارے مال کا وار ث بن سکے، اس لیے بیٹی اور پوتی کو دو بیٹیاں شمار کرتے ہوئے انھیں مجموعی طور پر ترکے کے دو تہائی کا وارث قرار دیا جائے، البتہ آپ نے تقسیم یوں کی کہ صلبی بیٹی کو قرآن کے حکم کے مطابق نصف ترکہ دینے کے بعد باقی ایک سدس پوتی کو دے دیا جائے۔ یہ اجتہاد جہاں پیغمبر کے خداداد علم وفہم کی ایک خوب صورت مثال ہے، وہاں اس سے زیر بحث سوال یعنی یتیم پوتے کو دادا کی وراثت میں حصہ دینے کے حوالے سے بھی ہمیں اجتہادی راہ نمائی ملتی ہے۔

بہرحال اگر یتیم پوتے کو اس کے مرحوم باپ کے قائم مقام تسلیم نہ کیا جائے جبکہ پوتا ضرورت مند بھی ہو تو مقاصد شریعت کی روشنی میں دوسرا امکانی حل یہ ہو سکتا ہے کہ دادا اس کے حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے مال میں اس کے لیے وصیت کر دے۔ اصولاً تو یہ دادا کی اخلاقی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ازخود اس وصیت کا اہتمام کرے، لیکن اگر اس نے وصیت نہیں کی تو قرآن نے ورثہ کو یہ ہدایت کی ہے کہ وہ تقسیم وراثت کے موقع پر دیگر اقربا اور یتیموں اور مسکینوں کا بھی خیال رکھیں اور انھیں اس مال میں شریک کریں۔ (النساء، آیت ۸)

تاہم ہمارے معاشرے میں چونکہ اس دوسری صورت کا امکان کم ہے، اس لیے سوال یہ سامنے آتا ہے کہ دادا پر یتیم پوتے کے حق میں وصیت کرنے کی جو اخلاقی ذمہ داری عائد ہوتی ہے، کیا اسے قانونی طور پر لازم قرار دیا جا سکتا ہے یا عدالت دادا کے مرنے کے بعد اپنا صواب دیدی اختیار استعمال کرتے ہوئے پوتے کو ترکے میں سے کچھ حصہ دے سکتی ہے؟ ہماری طالب علمانہ رائے میں یہ نہ صرف مصلحت کے عمومی اصول کے تحت درست ہے، بلکہ قرآن مجید میں اس کی منصوص نظیر بھی موجود ہے۔ چنانچہ جب وراثت تقسیم کرنے کا اختیار ابھی معروف کے مطابق مورث کی صواب دید پر منحصر تھا تو قرآن نے اجازت دی تھی کہ اگر وہ اپنی وصیت میں جانب داری یا حق تلفی کا مرتکب ہو تو اس کے مرنے کے بعد انصاف کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے وصیت میں ترمیم کی جا سکتی ہے۔ (البقرہ ۲:۲۸۱) یہ حکم ظاہر ہے کہ اس دائرے میں اب بھی موثر ہے جس میں مرنے والے کو وصیت کا اختیار دیا گیا ہے۔

دوسری جگہ قرآن نے یہ بیان کیا ہے کہ اگر مرنے والا اپنے قریبی رشتہ داروں کی غیر موجودگی میں کسی دور کے رشتے دار کو وارث قرار دے تو سارا مال تنہا اسی کو دینے کے بجائے اس کے بہن بھائیوں کو بھی چھٹے یا ایک تہائی حصے میں شریک کیا جائے۔ (النساء۴:۲۱۔ یہ رائے آیت کی اس تفسیر پر مبنی ہے جو جناب جاوید احمد غامدی نے ”البیان“ میں بیان کی ہے۔)

ان دو آیتوں کی روشنی میں یہ کہنا غالباً غلط نہیں ہوگا کہ اگر دادا یتیم پوتے کی احتیاج وضرورت پیش نظر ہوتے ہوئے بھی اس کے لیے وصیت نہیں کرتا تو وہ اس کی حق تلفی کا مرتکب ہوتا ہے جس کی تلافی کے لیے عدالت کو یہ اختیار ہوگا کہ وہ مرنے والے کے حق وصیت کو خود استعمال کرتے ہوئے یتیم پوتے کو بھی ترکے میں سے مناسب حصے کا حق دار قرار دے۔ واللہ اعلم

------------------------------

بشکریہ مکالمہ ڈاٹ کام

تحریر/اشاعت 17 نومبر 2016

مصنف : عمار خان ناصر
Uploaded on : Nov 17, 2016
3883 View