ابراہیم ذریت نوح: مناظرہ یا استدلال؟ ساجد حمید

ابراہیم ذریت نوح: مناظرہ یا استدلال؟

 ’’اشراق“ فروری ۲۰۱۹ء کے صفحہ ۵۰ پرطبع شدہ مضمون کی صورت میں ایک اورپرلطف تنقید نکلی ہے۔ یہ عموماً مناظرانہ انداز کا مضمون ہے،جس میں لاطائل تقریروں، غلط بیانیوں اور استہزا  کے سوا کچھ نہیں۔یہ البتہ اس ہوشیاری سے لکھا گیاہے کہ قاری کا دھیان  استدلال سے ہٹا رہےاور لگے کہ استدلال ہی ہو رہا ہے۔ اسی عمل کو میں نے پچھلے مضمون میں آنکھوں میں دھول جھونکنے سے تعبیر کیا تھا۔ میرے محاکمے کا جواب نہ ملنے پر اس پورے مضمون میں ناقد نے آئیں بائیں شائیں سے اپنی غلطیوں پر پردہ ڈالنے کا کام کیا ہے۔ ایک جملہ بھی ایسا نہیں ہے جسے میں استدلال کا نام دے سکوں۔ اس کے ہر ہر جملے کی مضحکہ خیزی واضح کی جاسکتی ہے[۱]۔لیکن عقل، نقل اور اپنے اساتذہ سے میں نے یہی سیکھا ہے کہ مناظرے نہیں کیا کرتے۔ ذيل ميں اس مضمون كا مناظرانہ انداز عياں كرنے كے ليے اس کے اہم مقامات كا تجزيہ كررہا ہوں۔

میں کسی کی تضحیک پسند نہیں کرتا ،اس مضمون میں جو تبصرے ، تضحیک آمیز باتیں اور غلط بیانیاں ہیں، ان باتوں سے’اَشِدَّآءُ عَلَي الْكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَيْنَهُمْ‘ کے  اصول پر صرف نظر کررہا  ہوں ۔دو ایک مثالیں، البتہ دے دوں گا تاکہ آپ کو معلوم ہو جائے کہ واقعتاً اس مضمون میں ایسی چیزیں موجودہیں۔لیکن یہ احتیاط برتی ہے کہ میں نے جو تبصرے کیے ہیں، وہ تحریرپر ہیں، ناقد پر نہیں۔

ذریة‘ کے معنی کی بحث

اس مضمون میں لفظ ’ذریة‘ کی بحث میں لکھا گیا:  ’’ عربی زبان میں اس لفظ کے اصل معنی کسی شخص کی اولادکے ہیں ‘‘(ص ۵۱)۔ مزید لکھا گیا: ’’ لفظ کے اسی معنی کااطلاق ہے کہ یہ عربی زبان میں کم عمروالی اولاد،یعنی بچوں کے لیے اوربعض اوقات بڑی عمر کی اولاد،یعنی نوجوانوں کے لیے بھی استعمال ہواہے‘‘(ص ۵۱)۔  پھر دعویٰ کیا گیا: ’’ کبھی یہ چھوٹے بچوں کے ساتھ اُن کے وجودکاسبب بننے والی عورتوں کوبھی محیط ہو جاتا ہے“[۲] (ص۵۲)۔ پھر یہ کہا گیا کہ ’’ ’ ذُرِّیة ‘ کاایک معنی’’ نسل‘‘ بھی بتایا جاتا ہے۔یہ اس لفظ کااصل میں دوسرامعنی نہیں ،بلکہ یہ اولاد کے سلسلے کی ایک دوسرے لفظ کے ساتھ تعبیرہے ‘‘(ص ۵۲)۔ اس سےنتیجہ یہ فراہم کیا گیا ہے کہ ’’ ’ذُرِّیة‘  کااصل مطلب اولادہے اوریہ مطلب اُس کے تمام اطلاقات میں  ایک جزولاینفک کی طرح موجود رہتا ہے ‘‘ (ص ۵۲)۔ یہ محض آئیں بائیں شائیں ہے۔ حالاں کہ درج ذیل آیت میں خود ناقد نے ’ذریة‘  کا ترجمہ نسل کیا ہے، یہاں ’ذریة‘  کا لفظ ’’اولاد کےسلسلے‘‘ کے معنی سے بالکل منفک ہو چکا ہے:

وَاٰيَةٌ لَّهُمْ اَنَّا حَمَلْنَا ذُرِّيَّتَهُمْ فِي الْفُلْكِ الْمَشْحُوْنِ.(یٰس۳۶:  ۴۱)

’’اوران کے لیے ایک بہت بڑی نشانی یہ بھی ہے کہ ان کی نسل کوہم نے (ان سے)بھری ہوئی کشتیوں میں اٹھارکھاہے۔‘‘(ترجمہ ا ز ناقد)

 بقول ناقد اس آیت سے  مراد یہ ہے کہ کشتیوں کے تمام سوار باقی لوگوں کی نسل (بمعنی اولاد)ہوتے ہیں۔ یہ بے بنیاد بات ہے۔ آیت میں’الْفُلْكِ الْمَشْحُوْنِ‘ آیا ہے؟ اس کے دو مصداق ممکن ہیں۔پہلا حضرت نوح کی کشتی،دوسر ے ہرعام و خاص کشتی ۔ اوپرناقد نے دوسرے امکان کو ترجیح دی ہےترجمہ میں  کشتیوں لکھا ہے۔ اسی ترجیح کے ساتھ  ترجمہ کریں:

(قرآن کے مخاطب) لوگوں کے لیے نشانی ہے کہ ہم نے کشتیوں  میں ان کی نسل کو اٹھایا ہوا ہے( نسل کا لفظ سلسلۂ اولاد یا اولاد کے مفہوم سے منفک ہوئے بغیر)۔

اس صورت میں یہ ماننا پڑے گا  کہ ہر کشتی میں ہم سب کی نسل بمعنی اولاد بیٹھی ہوتی ہے! اس وقت، جب میں یہ سطور لکھ رہا ہوں تو  ایک جہاز کی آواز آرہی ہے۔ میں آپ لوگوں سے کہوں کہ’آیة لكم أنّ اللہ حمل ذریتَكم فی هذه الطّائرة‘[۳]۔ تو کیا مراد یہ ہے کہ جہاز میں  آپ کی نسل (بمعنی اولاد)ہے؟ ظاہر ہے نہیں۔ بالکل ایسی ہی مثال اوپر سورۂ یٰس کی آیت ہے،وہاں ’ذریة‘ کا لفظ اولاد کے مفہوم سے منفک ہو کر ’’ہم نسلوں‘‘ کے معنی میں بولا گیا ہے۔ اولاد کا رشتہ پیش نظر نہیں ،لیکن نوع میں سے ہونے کا رشتہ موجود ہے[۴]۔ زیر بحث مضمون میں دیے گئے حوالوں (اشراق، فروری، ص ۵۱- ۵۲)سے صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ لفظ ’ذُریة‘ اولاد اورابناے نوع کے معنی میں آتاہے ۔ميدان جنگ ميں ہم نسلوں کے معنی میں جذبۂ ترحم کی بیداری کے لیے  ’ذریة‘بولا جاتا ہے ،جس  کا اطلاق غیر مقاتلین پر ہو تا ہے۔ ان اطلاقات کو سمجھنے کے لیے یہ مثالیں دیکھیے:

فَإنِّي أحْكمُ أنْ تُقْتَلَ المُقَاتِلَة، وَأنْ تُسْبَى الذُّرِّیة. (بخاری،رقم۳۰۴۳)

’’میرافیصلہ ہے کہ مقاتلین کوقتل کردیاجائے اور ان کے بچوں اورعورتوں کو قید کر لیا جائے۔‘‘ (ترجمہ ناقدص۵۲)

 یہاں شارحین نے ’ذریة‘سے مراد عورتیں اور بچے لیے ہیں تو اس لیے نہیں کہ ’ذریة‘ کالفظ ’’ بچوں کے ساتھ اُن کے وجودکاسبب بننے والی عورتوں کوبھی محیط ہو جاتا ہے‘‘(ص ۵۲)، بلکہ ’ذریة‘ کے’مقاتلة‘ کے تقابل میں آنے   سے  یہ معنی پیدا ہوئےہیں، اسی لیے  ’نساء ‘پر عطف ہوکر  صرف بچوں کےمعنی میں رہ جاتا ہے۔ مثلاً دوسری روایتوں میں دیکھیے  یہ فیصلہ یوں نقل ہواہے:’أنْ تُقْتَلَ المُقَاتِلَة وَأنْ تُسْبَى النِّسَاءُ وَالذُّرِّیة‘ (بخاری، رقم۴۱۲۲)۔  یہاں یہ صرف بچوں کے معنی میں ہے اور اولاد کے مفہوم سے منفک ہو کر آیا ہے ۔یہی اطلاق ذیل کی روایت میں   بھی ہواہے:

غَزَوْنَا مَعَ رَسُولِ اللہ صَلَّى الله عَلَیه وَسَلَّمَ، فَمَرَرْنَا عَلَى امْرَاة مَقْتُولَة، قَدِ اجْتَمَعَ عَلَیها النَّاسُ، فَافْرَجُوا لَه، فَقَالَ: مَا كانَتْ هذِه تُقَاتِلُ فِیمَنْ یقَاتِلُ. ثُمَّ قَالَ لِرَجُلٍ: انْطَلِقْ الَى خَالِدِ بْنِ الْوَلِیدِ، فَقُلْ لَه: إنَّ رَسُولَ اللہ صَلَّى الله عَلَیه وَسَلَّمَ یأمُرُك، یقُولُ: لَا تَقْتُلَنَّ ذُرِّیة، وَلَا عَسِیفًا.(ابن ماجہ، رقم ۲۸۴۲)

”ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ ایک جنگ کی وجہ سے نکلے،  تو ہم ایک عورت کی لاش کے پاس پہنچے، جس پر لوگ جمع تھے۔ تو لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تھوڑے تھوڑے پیچھے ہٹے۔ آپ نے اس عورت دیکھ کرکہا یہ تو مقاتلین  میں سے نہیں تھی۔پھر ایک آدمی کو کہا کہ خالد بن ولیدکے پاس جاؤ ، اسے کہو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ  وسلم نے حکم دیا ہے کہ ’ذریة‘ اور خادموں  کو نہ مارا جائے۔

ذریة ‘کالفظ یہاں بھی’مقاتلة‘ کے مقابل میں ہے، جس کا واقعہ میں اطلاق تو عورت پر ہوا، مگرآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان:’لَا تَقْتُلَنَّ ذُرِّية‘ میں ناقابل جنگ لوگ ـــــــــ عورتیں ،کم سن لڑکے ، لڑکیاں ـــــــــ سب شامل ہیں۔  ’لَا تَقْتُلَنَّ ذُرِّية‘ سے آپ  کا مطلب یہ نہیں تھا کہ خالد بن ولید عورتوں کو  مارنےسے رکیں، مگر بچوں کو مارتے رہیں۔ ان روایتوں میں بھی ’ذریة‘میں اولاد کا مفہوم موجود نہیں ہے۔ناقد کے اپنے حوالےسب غلط ہیں۔ لیکن غلطیوں کی پردہ پوشی کے لیے ناقد کا یہ اصرار دیکھیے:’’ان مثالوں کی روشنی میں یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ ’ذُرِّيَّة‘  کااصل مطلب اولادہے اوریہ مطلب اُس کے تمام اطلاقات میں ایک جزولاینفک کی طرح موجود رہتا ہے‘‘(ص ۵۲)۔دیکھ لیجیے یہ تجزیہ صحیح بنیادوں پر استوار نہیں، بلکہ لا طائل تقریروں سے غلط باتوں کے صحیح ہونے کا تاثر بنایا گیا ہے۔

البتہ ایک بات ہو سکتی ہے، جسے میں بعید از علم و عقل ہونے کی وجہ سے خیال میں بھی نہیں لانا چاہتا کہ کوئی آدمی وہ راے رکھ سکتا ہے۔وہ یہ ہے کہ خواہ ’ذریة‘  کا مطلب  نسل ہو، بچے یا عورتیں ، ہر صورت میں   ـــــــــ یہ لوگ کسی نہ کسی کی   ـــــــــ اولاد  تو ہوتے ہیں، لہٰذا اولاد ہونے کے معنی ’ذریة‘سے منفک نہیں ہوتے۔ اگر اصل معنی یوں برآمد ہوتے ہیں، تواس اصول پرالناس، لوگ اور انسان کے الفاظ سے بھی اولاد کے معنی منفک نہیں ہوں گے۔ کیونکہ یہ سب کسی نہ کسی کی اولاد ہی ہیں۔’لوگ‘ گدھوں گھوڑوں کو تو نہیں کہتے کہ آدم کی اولاد سے نکل جائیں گے۔ ناقد کا یہ اصول درج ذیل اقتباس کی آخری بات میں خود ناقد کی غلطی ثابت کرتا ہے:

”اب ہم اردوبولنے والوں کے لیے یہ تورواہے کہ ہم اس مفہوم کو ’’اُن کے لوگوں ‘‘کے الفاظ میں اداکریں کہ اردومیں ’’لوگوں ‘‘  کالفظ ’’اُن کے‘‘کی اضافت کے ساتھ بیان نوع کے لیے بھی آجایاکرتا ہے، لیکن اس کے لیے محض ’’لوگوں ‘‘    کا لفظ لاناکسی طرح بھی درست نہیں ہے جو’الناس ‘ کا مفہوم دیتااوراس طرح ’ ذُرِّیَّة ‘   میں سے اولادکے مفہوم کوبالکلیہ خارج کردیتاہے۔“ (ص ۵۲-  ۵۳)

یہ پورا اقتباس محض لایعنی تقریر ہے۔ پہلے کہا:’’ اردومیں ’لوگوں ‘  کالفظ ’اُن کے‘کی اضافت کے ساتھ بیان نوع کے لیے بھی آجایاکرتا ہے ‘‘۔ ایک چیز اگرہو سکتی ہے تو پھر بحث کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ جب لوگ  کا لفظ ابناے نوع کے معنی  میں آجاتا ہے ، اور میں نے اسی معنی اور اسی محل  میں لیا ہے[۵]تو  اس تقریر کا وجود اس مضمون میں ناقابل فہم ہے ۔یہ تقریریں قاری پر مصنوعی دھاک بٹھانے کوہوتی ہیں کہ ہم سے اختلاف کرنے والاچھوٹی چھوٹی باتوں سے بھی واقف نہیں ہے ، اسے اردو بھی نہیں آتی ۔اس لیے اس نالائق کے مضمون پر دھیان نہ دو۔یہ استدلال کی تہی دامانی پرنفسیاتی جھنجھلاہٹ کا اظہاربھی  ہوسکتا ہے ۔

ذُرِّيَّتَهُمْ‘ کی بحث

اپنی غلطیوں پر پردہ ڈالنے کی ایک اور تقریر دیکھیے۔ لکھا ہے:’’ جن حضرات نے آج اس کے لیے ’’لوگوں‘‘     کا لفظ استعمال کیاہے ،اُنھیں اصل میں سورۂ یٰس کی مذکورہ آیت میں’ ذُرِّيَّتَهُمْ ‘ کی اضافت سے مغالطہ ہو گیا ہے، دراں حالیکہ اس لفظ سے بھی ابناے نوع ،یعنی آدم کی اولادہی مرادلی گئی ہے‘‘ (ص۵۲- ۵۳)۔

اس کا مطلب یہ ہے  کہ آیت میں موجود ’ذریتهم‘ میں ’هُم‘ بے معنی ہے ۔ یہ  مذاق نہیں ہے ،ناقد نے درج بالا حوالے کے  خط کشیدہ جملہ میں یہی لکھا ہے کہ  ’’’ذُرِّيَّتَهُمْ ‘ کی اضافت سے مغالطہ ہو گیاہے۔‘‘ میرے نقد کے بعد اب قرآن کے الفاظ مغالطہ آمیز نظر آنے لگے ہیں۔ اس لیے کہ پہلے ’ذریة‘ کو غلط معنی میں  لے لیا۔ اب اس کا دفاع تو کرنا ہے۔ لہٰذا اب تاویلات پر تاویلات ہوں گی۔جب کشتیوں میں ’’ آدم کی اولاد ہی مراد لی گئی ہے‘‘ تو  گویا ’هُم‘ یہاں موجود ہی نہیں ہے۔ بقول ناقد،اللہ کو کہنا  تو تھا ’ذُرِّية آدم‘ ،لیکن ’ذُرِّيَّتَهُمْ‘  بول کر مغالطہ میں ڈال دیا ۔اللہ میرے ان مغالطوں میں برکت ڈالے جو قرآن کے الفاظ کے آگےسرجھکانے کا نتیجہ ہیں۔

یہی ’هُم‘ کی طرف ’ذریة‘ کی اضافت ہی تووہ  قرینہ ہےجو زبان شناس مفسرین کو ابناے نوع   یا’آباء‘ کے معنی میں لینے پرآمادہ کرتاہے۔لیکن یہ مفسرین بے چارے، معاذاللہ ، نابلد تھے، ہمارے ناقد کی زبان شناسی ان کو چھو کر  بھی نہیں گزری تھی، ورنہ وہ بھی سمجھ جاتے کہ یہ ’هُم‘ مغالطہ آمیزہے، تو وہ بھی یہی ترجمہ کرتے کہ ’’ہم نے بھری ہوئی کشتیوں میں آدم کے بچوں کو اٹھارکھاہے۔ یہ بات ابناے نوع ، ’ذریۃ‘  اور’ذریتهم‘ میں ’هم‘ کی ضمیر سے ناواقفیت کا مظہر ہے۔ اس پر ناقد کا یہ جملہ  دیکھیے: ’’لغت کی کوئی کتاب یاعربی ادب کی کوئی نظیر،  ہماری نظرسے ایسی نہیں گزری جس میں اس کا معنی اولادکے اس مفہوم سے بالکل مجردکرکے صرف ’’لوگ‘‘،  یعنی الناس بتایاگیا ہو‘‘ (۵۲)۔ اپنے ہی مضمون  میں اولاد کے مفہوم سے تجرید کی ایک سے زیادہ مثالیں موجود ہیں، لیکن ... دیکھیے، کیا خوب تعلی ہے!!!

’ بَعْضُهَا مِنْۣ بَعْضٍ ‘ کی بحث

اپنی خطاؤں کی پردہ داری کی ایک اور سعی ’ذُرِّيَّةًۣ بَعْضُهَا مِنْۣ بَعْضٍ ‘ (آل عمران ۳: ۳۴)  میں ’بَعْضُهَا مِنْۣ بَعْضٍ ‘ کے معنی کے طے کرنے میں کی گئی ہے۔ہمارے استدلال کو رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’بَعْضُهَا مِنْۣ بَعْضٍ ‘ ، میں ترتیب ہوتی ہے اور طرفین کا وجود ماننا لازم نہیں ہے(ص ۵۳)۔ اس کو ثابت کرنے کے لیے کوئی دلیل نہیں دی گئی، محض دعوے ہیں، جو کسی طرح سے بھی علمی درجے پر ثابت نہیں ہوتے۔  لسانیات میں ایسی  توجیہات کی کوئی وقعت نہیں ہوتی ، جب تک کہ آپ اسے کلام سے ثابت نہ کردیں۔

جب آپ سینہ زوری سے یہ کہیں کہ’’ اس میں دونوں طرف سے ہونے کا مفہوم اصلاًموجود نہیں ہوتا‘‘ (ص۵۳)  اور آپ دھیان ہی نہ دیں کہ اس جملے میں ’بَعْضُهَا مِنْۣ بَعْضٍ ‘میں ’بَعْضٍ ‘دو  دفعہ آیا ہے، اگریہاں طرفین موجود نہیں ہیں ، تو اس کا مطلب یہ  ہے کہ  دوسرا ’بَعْضٍ ‘جملے میں  براے بیت آگیا ہے، یعنی تلاوت میں ہے، لیکن معنًا منسوخ ہو چکا ہے!!!تو آدمی سواے دعاے مغفرت کے اور کر ہی کیا سکتا ہے۔ حقیقت تو یہی ہے نا کہ پہلا ’بَعْض ‘ایک طرف اور دوسرا’بَعْضٍ ‘دوسری طرف کو بیان کرتا ہے۔ سچ یہ ہے کہ اپنی غلطیوں کو چھپانے کے لیے’یحرفون الكلم عن مواضعه‘ کے پرانے  طریقے کا احیا کرلیا گیا ہے کہ سورۂ یٰس کی آیت کے  ’ذریتهم ‘ سے’هُم‘ کو نکال دو کہ مغالطہ آمیز ہے ، اور ’بَعْضُهَا مِنْۣ بَعْضٍ ‘ میں سے  دوسرے ’بَعْضٍ ‘کو نکال دوکہ یہ ہماری راے کے خلاف طرفین کا مفہوم ادا کرتا ہے ۔اپنی غلطی نہ چھوڑو، قرآن کو بدل کر اپنے مطابق کرلو[۶]۔

ذُرِّيَّةَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍ‘ کی بحث

اس آیت سے متعلق غلط راے کو درست دکھانے کی کوشش میں ،ناقدکا مضمون انتشار استدلال کا شکار ہو گیا ہے۔انتشار استدلال کا مطلب یہ ہے کہ مثلاً ایک ہی آیت سے متعلق جب کئی پہلوؤں سے بحث ہو، اور ان پہلوؤں کے الگ الگ ایسے جواب دیے جائیں کہ نہ وہ اکیلے اکیلےآیت  سے مطابقت رکھیں اور نہ مجموعی طورپر درست نتیجہ فراہم کریں۔اسے جھوٹ کی تمثیل سے سمجھیں۔ چونکہ جھوٹ کے پیر نہیں ہوتے، اس لیے بولنے والا کئی متضاد باتیں ایک گفتگو میں کر جاتا ہے۔ اس  لیے جب استدلال بھی مختلف جگہوں پر کیا جائے ، اور  وہ سچائی پر قائم  نہ ہو تو جھوٹ کی طرح اس کے بھی پاؤں نہیں ہوتے ۔تو کہیں آپ کچھ کہہ جائیں گے اور کہیں کچھ۔ جس سے استدلال کی کم زوری  سننے والے پر کھل جاتی ہے ۔مثلاً اگر کوئی باپ ـــــــــ بیٹے سے متعلق پوچھےجانے پر ـــــــــ کہے کہ وہ  پانچ بجے تک گھر میں تھا، پھر  دوران گفتگو کہے کہ ساڑھے چار بجے اس کا فون آیا تھا۔ توممکن ہے اسے تنبہ نہ ہوکہ ابھی اس نے کہا  تھا کہ وہ پانچ بجے تک گھر تھا۔ لیکن سننے والا جھوٹ پکڑلیتا ہے۔ بعینہٖ استدلال کے پاؤں نہ ہوں تو اس کی قلعی بھی کھل جاتی ہے۔آئیے اب اس انتشار استدلال کو  اس مضمون میں دیکھیں۔

سورۂ بنی اسرائیل کی تیسری آیت  کے جملے:’ذُرِّيَّةَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍ‘، کی بنیاد پر میں نے کہاتھا کہ بنی اسرائیل حضرت نوح علیہ السلام سے نسبی تعلق نہیں رکھتے۔ دسمبر۲۰۱۸ءکے اشراق کے شمارے میں میرا استدلال تین حصوں پر مشتمل تھا (ص ۶۸)۔ایک یہ کہ سیدھا ’اولاد نوح‘ کہنے کے بجاے گھما پھرا کر یہ بات کیوں کہی گئی ہےکہ ’’ ان لوگوں کی اولادجنھیں ہم نے نوح کے ساتھ (کشتی پر)  سوار کیا تھا ‘‘ ؟ اس کی وجہ ان لوگوں کو بتانی چاہیے جو بنی اسرائیل کو اولاد نوح مانتے ہیں۔میری دوسری دلیل یہ تھی کہ لسانی طور پر یہ ممکن نہیں ہے  کہ ’ذُرِّيَّةَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍ‘   کا اسلوب اختیار کیا جائے تو اس سے مراد اولاد نوح ہو۔ تیسرے میں نے یہ کہا تھا کہ اگر ’ذرية ‘ کو اولاد کے معنی میں لیا جائے تو ’مَن‘ کی طرف اضافت ’مَن‘ کے واحد ہونے کو لازم کرتی ہے۔یہ استدلال فیصلہ کن تھا۔ ہمارے ناقد نے ان تینوں کا جواب دینے کی کوشش کی ہے۔ہر بات کا ایسا جواب دیا کہ آیت میں رکھ کر دیکھا ہی نہیں۔آئیے دیکھتے ہیں۔پہلے سوال کا جواب یوں دیا ہے:

” قرآن نے ان (نوح) کی معیت میں سوارہونے والوں کاوصف خصوصی طورپر نمایاں کیا ہے، اور اس قدرنمایاں کیاہے کہ یہ حضرت نوح کے ساتھ نجات پانے والے مومنین کاتعارف ،بلکہ ایک طرح سے اُن کادوسرانام ہوگیاہے۔...سوواضح ہوجاناچاہیے کہ یہ بھی وصف بیان کرنے کاایک انداز ہے ،’’ گھماؤ پھراؤ‘‘ یا ’’پیچ دارقسم‘‘     کا اسلوب ہرگز نہیں ہے۔ “(اشراق ،ص ۶۱)

خلاصہ یہ کہ ’کشتی والے‘ ایک وصف ہے، اور اسے اس لیے بیان کیا گیا کہ مقصد یاد آئے۔ اس بات کو آیت میں رکھ کر دیکھیے:’ذُرِّيَّةَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍﵧ اِنَّهٗ كَانَ عَبْدًا شَكُوْرًا‘ (بنی اسرائیل۱۷:  ۳)۔

”اے ان لوگوں کی اولادجنھیں ہم نے نوح کے ساتھ (کشتی پر)  سوار کیا تھا۔ اس میں شک نہیں کہ وہ  (ہمارا) ایک شکر گزاربندہ تھا۔“ (ناقد کا ترجمہ)

اس جملے میں مجھے بتائیے کہ کشتی سواروں کو آخری جملے  ـــــــــ نوح شکر گزار بندہ تھا  ـــــــــ نےکیا فراموش نہیں کردیا ہے؟  یعنی صرف نوح پیش نظرتھے ،سارے کشتی والے نہیں ۔ ’کشتی والے‘تب مقصد یاددلانے والے بنتے ، اگر کہا جاتا کہ وہ سب اللہ کے شکر گزار بندے تھے۔ دیکھیے، پہلے کشتی والوں کا مقصد یاددلانے کے لیے ذکر ہوا ،   پھر ان میں سے ایک شخص کو نمایاں کیا گیا، تو کیاکلام چیخ چیخ کر نہیں کہہ  رہا ہے  کہ معاملہ کچھ اور ہے۔  آیت میں ’اِنَّهٗ كَانَ عَبْدًا‘،کے واحد صیغے ہی وہ قرینہ ہے جوکشتی والوں کونمونہ و اسوہ نہیں رہنے دیتا[۷]۔لیکن ذرا رکیے، میری بات غلط ہو سکتی ہے کیوں کہ ہوسکتا ہے کہ یہ واحد کے صیغے بھی ’’مغالطہ آمیز‘‘ ہوں!

ناقد کا کہنا ہے کہ ’ذرية مَن‘ میں ’مَن‘ کو’’ جمع میں لانازیادہ معنی خیز ہے‘‘۔آپ نے دیکھا کہ ’مَن‘ جمع کے بعد ’اِنَّهٗ كَانَ عَبْدًا‘ لا کر ایک آدمی کونمایاں کیا گیا ہے، جس سےوہ معنی خیزی پیدا نہیں ہوتی، بلکہ الٹا ایک غرابت محسوس ہوتی کہ جمع کے بعد اچانک شخص واحد کو نمایاں کیا اور  باقیوں کو درخور اعتنا بھی نہیں سمجھا۔ اس غرابت کو محسوس کرنے لیے ’ذوق گزیدہ ‘ہونا پڑتا ہے۔ یہی تو کلام کے وہ نفیس قرائن ہوتے ہیں کہ جن سے قرآن کے طالب علم کی نظر چوکنی نہیں چاہیے۔ خط کشیدہ الفاظ پیش نظر رکھتے ہوئے میرے اور ناقد کےترجمہ کا موازنہ کریں تو بات واضح ہو گی کہ کس ترجمے میں غرابت ہے:

”اے ان لوگوں کی اولاد،جنھیں ہم نے نوح کے ساتھ سوار کیا تھا۔ اس میں شک نہیں کہ وہ  ایک شکرگزار بندہ تھا۔“(ناقد کا ترجمہ)

”اے اس شخص کی اولاد،جسے ہم نے نوح کے ساتھ   سوار کیا تھا۔ اس میں شک نہیں کہ وہ  ایک شکر گزاربندہ تھا۔ “(ساجد کا ترجمہ)

ذرا سوچ کر بتائیے کہ اس جملے میں جمع لانے سے کیا تاثیر بڑھی ہے، یا غرابت کا شکار ہوگئی ہے؟

دوسرے سوال کا جواب یوں ہے:

”دعویٰ یہ ہے کہ ’’اے اُن لوگوں کی اولادجنھیں ہم نے نوح کے ساتھ کشتی پرسوارکیاتھا‘‘کے الفاظ بتارہے ہیں کہ بنی اسرائیل اولادنوح نہیں ہیں، مگرحقیقت یہ ہے کہ ان میں اس طر ح کی نفی کرنے کی کوئی صلاحیت موجودنہیں ہے،…ہم سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ابن حنبل کے بیٹے عبداللہ جنھوں نے دوسرے شاگردوں کے ساتھ اپنے باپ سے حدیث کادرس لیا،اُن کی اولادسے اس جملے میں خطاب کرنا آخر کیوں روا نہیں ہے کہ ’’اے اُن لوگوں کی اولاد جو ابن حنبل سے پڑھتے رہے۔‘‘؟کیاکوئی شخص یہ دعویٰ کرے گاکہ محض ان الفاظ سے اس بات کی نفی ہو گئی ہے کہ یہ بچے عبداللہ کے نہیں ہیں ؟ اورکیاوہ اس سے آگے بڑھ کر یہ نتیجہ بھی نکال سکے گاکہ یہ ابن حنبل کے دوسرے شاگردوں کی اولاد ہیں ؟[۸]۔“ (ص ۶۳)

یہ جواب بھی آیت سے الگ رہ کر دیا گیا ہے کہ ’ذُرِّيَّةَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍ ‘،کا اسلوب بنی اسرائیل کےاولاد  نوح علیہ السلام ہونے کی نفی نہیں کرتا۔ اس بات کی توضیح میں  احمد بن حنبل کی مثال دی گئی ہے ۔یہ  مثال یوں ہے: ’’اے اُن لوگوں کی اولاد جو ابن حنبل سے پڑھتے رہے۔‘‘اس مثال میں تین  غلطیاں ہیں ۔ پہلی غلطی یہ کہ  اس میں اولاد کی نسبت ابن حنبل کے ساتھیوں تک نہیں پہنچائی ، جب کہ قرآن میں حضرت نوح کے ساتھیوں  تک پہنچائی گئی ہے۔یعنی یوں کہنا چاہیے تھا کہ ان کی اولاد جوابن حنبل کے ساتھ پڑھتے رہے۔دوسری غلطی یہ کہ ’سے‘ اور ’کے ساتھ‘  کے ردو بدل سے معنی میں زمین آسمان کا فرق پڑ جاتا ہےاحمد بن حنبل کے ساتھ پڑھنے والے، اور احمد بن حنبل سے پڑھنے والے، دونوں کا مفہوم جدا ہے ۔ قرآن میں ’کے ساتھ‘ (مع) کے الفاظ ہیں، جب کہ ناقدنے شاید سہواً  ’سے ‘  کی مثال بنائی ہے۔ خط کشیدہ الفاظ کو ذہن میں رکھ کر ، ذیل کے دونوں جملوں پر غور کریں:

اے اُن لوگوں کی اولاد جو ابن حنبل سے پڑھتے رہے، (’لوگوں‘میں ابن حنبل کا بیٹا شامل ہو سکتا ہے)۔

اے اُن لوگوں کی اولاد جو ابن حنبل کےساتھ پڑھتے رہے[۹]، (ابن حنبل کا بیٹا شامل نہیں  ہوسکتا)۔

تیسری غلطی یہ کہ عبداللہ اوراحمدبن حنبل کاتعلق معلوم ہے، جب کہ حضرت نوح سے بنی اسرائیل کا نسبی تعلق  زیربحث ہے۔اس لیے وہ دلیل کا حصہ نہیں بن سکتا۔

تیسرے سوال کا جواب یوں دیا ہے:

” آیت میں ’’مَنْ‘‘ کا حرف آیاہے۔یہ واحدکے لیے بھی استعمال ہوتاہے اورجمع کے لیے بھی ۔بنی اسرائیل،  ظاہرہے کہ کشتی میں سوا ر ہونے والے کسی ایک شخص کی اولادہیں ،مگراس مقام پراسے جمع میں لانازیادہ معنی خیز ہے۔‘‘ (ص۶۴)

’’واضح ہو جاتا ہے کہ ان سے صرف اورصرف نوح کی اولاد مرادلی گئی ہے۔‘‘(ص۶۴)

یہ تیسرا انتشار دلیل ہے۔ ایک جگہ لکھا ہے:’’ واضح ہو جاتا ہے کہ ان سے صرف اورصرف نوح کی اولاد مرادلی گئی ہے‘‘(ص۶۴)۔ دوسری جگہ لکھا ہے ’’بنی اسرائیل، ظاہرہے کہ کشتی میں سوا ر ہونے والے کسی ایک شخص کی اولادہیں ،مگراس مقام پراسے جمع میں لانازیادہ معنی خیز ہے‘‘۔

یہ بھی میری بات کا بس جواب دے دینے کی سعی کا نتیجہ ہے۔ جب ’ذُرِّية‘ کو جمع کی طرف اضافت کرتے ہیں، توپھر حقیقی اولاد کے معنی لیے ہی نہیں جا  سکتے۔کیونکہ بنی اسرائیل حقیقی اولاد تو ایک ہی مرد کی ہوگی سارے کشتی والوں کی تو نہیں۔ جمع کی طرف اضافت ہو تو دو میں سے ایک بات ناگزیر ہوگی۔ یا ’ذُرِّية‘ ایک سے زیادہ خاندانوں پر مشتمل ہو، یا یہ اضافت مجازی ہو۔ جب ذریت کی اضافت جمع کی طرف کی جائے،   ـــــــــ اور جمع کا مصداق نسل در نسل آبا نہ ہوں تو     ـــــــــ ذریت ہونے کی نسبت محض مجازی ہوگی، حقیقی نہیں۔ اس صورت میں وہ لوگ بھی ذریت میں شمار ہو سکتے ہیں،جن کے آبا کشتی میں سوار نہ  بھی ہوں مگر وہ ان کےروحانی ورثا ہوں۔

جیسے ہم پاکستانیوں کو یہ کہا جاتا ہے: تمھارے آبا نے قربانیوں سے یہ پاکستان حاصل کیا۔ اس مخاطبت میں وہ لوگ بھی شامل ہوتے ہیں جو پاکستانی تو ہیں، مگران کے آبا نے کوئی قربانی نہیں دی  تھی ۔ مجازی اضافت میں ایک پاکستانی کو بھی کہا جاسکتا ہے :اے مہاجرین آزادی  کی اولاد۔ یہ حقیقی اولاد کے معنی نہیں دیتا۔ واضح ہوا کہ اگر ’ذُرِّية‘ کو ’مَنْ‘ بمعنی جمع کی طرف مضاف مانا جائے تو بنی اسرائیل اصحاب سفینہ کے مجازی ورثا شمار ہوں گے، اولاد نہیں۔ یہاں دیکھیے،ناقد نے خود اپنی ہی راے کو غلط ثابت کردیا ہے۔ چہ بوالعجبی کہ اولاد حقیقی اور اضافت مجازی! انتشار استدلال واضح ہوا کہ محض بات کو بات سے رد کرنے کی سعی ہوئی ہے۔

اس روشنی میں آپ جان سکتے ہیں کہ ناقد کی فراہم کردہ مہاجرین پاکستان کی مثال درست نہیں ہے، کیونکہ وہ محض روحانی ورثا  کی مثال ہے۔ اس مثال میں آبا سے  نسبت مجازی ہے، خواہ ان میں ان کی حقیقی اولاد بھی شامل ہو، جب کہ ہمارا ناقد یہاں بس حقیقی اولاد کے معنی میں لے رہاہے ۔ لکھا ہے:’’ واضح ہو جاتا ہے کہ ان سے صرف اورصرف نوح کی اولاد مرادلی گئی ہے‘‘(ص ۶۴)۔

دوسری صورت میں اگر اضافت حقیقی ہے اور ’مَنْ‘ بمعنی جمع ہے، تو اولادبھی جمع ہوگی۔یعنی جب یہ کہا جائے گا کہ ’’نوح کے ہم سواروں کی اولاد‘‘ تو جتنے ’من‘ کے مصداق ہوں گے ،کم از کم اتنے ہی خاندان مانے جائیں گے۔ اس صورت میں یہ ماننا پڑے گا کہ بنی اسرائیل کشتی نوح کے ایک نہیں کئی افراد کی اولادوں  کا مجموعہ ہیں، جو کہ بالبداہت غلط ہے۔دوسری صورت یہ ہے کہ مخاطب کے لحاظ سے ’مَن‘ کے معنی طے کیے جائیں۔تو چونکہ وہ بنی اسرائیل ہیں جو کہ ایک ہی مرد کی اولاد ہوسکتے ہیں، لہٰذا جمع کے معنی نہیں لیے جاسکتے۔نتیجہ یہ کہ جس مثال سے میری بات کو رد کرنے کی کوشش کی گئی ہے، وہ ہر  صورت ناقد کے مقدمات ہی کو الٹ رہی ہے۔

یہاں انتشار استدلال میرے تینوں سوالات کا   ـــــــــ آیت سے مجرد رہ کر   ـــــــــ جواب دینےکی کوشش کا نتیجہ ہے۔آپ نے دیکھا کہ تینوں جواب الگ الگ بھی آیت سے موافق نہیں، اور مشترکہ  طور پر بھی نہیں۔یہ اس طرز فکر کا نتیجہ ہے کہ ہر بات کا بس جواب دے دیا جائے۔حق پانے کے بجاے ہر دلیل کا جو منہ میں آئے جواب دیتے جاؤ، اور

کرو شور اتنا کہ اس شور میں

 صدا حق کی تم کو سنائی نہ دے[۱۰]​ 

اسی انتشار کا شکار وہ بحث بھی  ہے، جو ’’منشاے متکلم ‘‘ کی سرخی کے تحت ہے۔ پہلے  دیکھیےصفحہ ۵۹ پر لکھا ’’نسب کا بیان ہرگز نہیں ہو رہا‘‘ ۔ پھر لکھا: ’’ اللہ نے جب سیدناابراہیم کے فروع...میں آنے والی نبوت کا ذکرکیاہے تواُن کی فضیلت کے بیان کو... کامل کردینے کے لیے بیچ میں اُن کی اصل، یعنی حضرت نوح کودی جانے والی نبوت کابھی ذکرکردیاہے ‘‘(ص۶۰)۔اب منشا کے خلاف ہونے کے باوجود اصل و فروع کہاں سےآگئے؟یہ مناظرانہ انتشاراستدلال ہے۔ جس آیت میں’وَمِنْ ذُرِّيَتِه‘ کے الفاظ موجود ہوں، اس کے بارے میں کہنا  کہ ’’ نبیوں کے نسب کابیان ہرگز نہیں ہورہا ‘‘ ،چہ بوالعجبی !حیرانی یہ  ہے کہ یہ بات وہی شخص کہے کہ جو اسی مضمون میں ’اولاد‘ کو’ذریة‘ کے لاینفک معنی قرار دے چکا ہو، اور جمع کی  طرف اضافت میں بھی حقیقی اولاد مانتا ہو۔ میرے اس مضمون کا مقصدصرف  یہ دکھانا ہےکہ ناقد کا نقد سنجیدہ نہیں، بلکہ مناظرانہ ہے۔ وگرنہ مثالوں سے واضح کرتا کہ  منشا سے ہٹ کرکلام سے دیگر معلومات کس طرح حاصل ہوتی ہیں۔

’’احتمال اور دلیل میں فرق‘‘ (ص ۶۱ ) اور’’ دعویٰ اوردلیل میں مطابقت ‘‘(ص ۶۲) کی سرخیوں کے تحت جوکچھ لکھا ہے، اسے لکھنےسے بہتر تھا کہ اپنے مضمون ہی کو اس معیار پر پورا کرلیا جاتا۔یہ بحث مناظرانہ تعلی سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے۔استدلال کی غلطی پہلے واضح کی جا چکی ہے۔ اسی طرح صفحہ ۶۲ پر میری ایک مثال پر تنقید کی ہے کہ آیت خطابیہ ہے اور میری یہ مثال بیانیہ ہے۔میں نے مثال ’’استدلال کو ایک سادہ مثال سے سمجھتے ہیں‘‘  (اشراق، دسمبر ۲۰۱۸ء، ص ۶۸) کے انداز میں دی تھی۔آیت کی توضیح میں نہیں۔ اوپر آپ نے دیکھا کہ ناقد کی ایک بھی مثال آیات کے مطابق نہیں ہے۔ دوسری قسط میں ایک مثال کو ناقد نے یہ کہہ کر پیش کیا ہے کہ وہ حرف بہ حرف آیت کے مطابق ہےآگے  اس کا حال بھی دیکھ لیجیے گا۔

  غلط بیانیاں ،تعلیاں اور استدلال کی بے مائیگی کی جھنجھلاہٹ

پہلی قسط کے مزعومہ استدلال کے اہم نکات کا تجزیہ یہاں مکمل ہوا، باقی مباحث بھی ایسے ہی ہیں۔ اس قسط میں کچھ غلط بیانیاں، تعلی اور جھنجھلاہٹ پر مبنی تقریریں بھی ہیں۔ ان کی بس ایک ایک مثال دوں گا، کیونکہ  اس طرح کی چیزوں کا تجزیہ کرنا حکمت گفتگو کے خلاف ہے ۔غلط بیانی کی ایک مثال دیکھیں:

”اس وضاحت پران لوگوں کی طرف سے کہاگیاہے کہ اس میں ہم نے جو ’مِنْ غَيْرِ سُوْٓءٍ‘اور ’وَمَا مَسَّنَا مِنْ لُّغُوْبٍ‘کی مثالیں لکھی ہیں ، وہ سب کے سب کنایے ہیں ۔ ہم عرض کریں گے کہ ان کی یہ بات قرآن کے کسی بھی طالب علم کے لیے بالکل ہی غیرمتوقع اورحددرجہ باعث حیرت ہے۔“ (ص ۶۶)

کنایہ جس طرح ناقد نے یہاں پیش کیا ہے ،میں نے یوں نہیں لکھا تھا، میں نے لکھاتھا: ’’بائیبل کی اصلاح کے ضمن میں جتنے حوالے قرآن سے بطور مثال دیے گئے ہیں، وہ سب کے سب کنایے ہیں، مثلاً ان میں سے کس آیت میں کہا گیا ہے  کہ میں اہل تورات کی غلطی بتا رہا ہوں۔؟ کہیں بھی نہیں“ (اشراق، دسمبر، ص ۷۷)۔ یعنی میں نے کنایہ لفظوں میں نہ کہنے کے معنی میں بولا تھا۔

ذیل کی تقریر استدلا ل کے احساس بے مائیگی سے پیدا جھنجھلاہٹ  اور تعلی کی مثال ہے ۔ناقد نے لکھا ہے:

”مطالعہ کے دوران ہوسکتاہے کہ اس طرح کی نئی چیزیں روزہی طالب علموں کے سامنے آئیں ۔ جب بھی ایساہوتوعرض ہے کہ وہ اپنے بزرگوں کی ایک نصیحت کوہمیشہ یاد رکھیں اور ’’ کاتا اور لے اڑی‘‘ والا معاملہ کبھی نہ کریں ، بلکہ اچھی طرح سے غوروفکرکریں ، ہزار مرتبہ پرکھیں اوراُنھیں خوب پختہ کریں، اورہوسکے تواس سلسلے میں دوست احباب سے بھی رابطہ کریں ۔ ہمیں بڑی امیدہے کہ اس کے نتیجے میں اکثرچیزیں ہواہوجائیں گی اوردرست اورمحکم بات ہی باقی رہ پائے گی۔اوراس کایہ فائدہ بھی لازماًحاصل ہوگاکہ وہ اس طرح علم اور تحقیق کا صحیح حق اداکریں گے اور پروردگارعالم کی کتاب کے معاملے میں ایک واجب احتیاط کا بھی التزام کریں گے۔“ (ص۶۶- ۶۷)

یہ پیراگراف  اس جھنجھلاہٹ( فرسٹریشن) کا اظہار ہے، جو  استدلال کی تہی دامنی کے احساس سے ذہن میں پیدا ہوتی ہے۔جب ہم استدلال میں پھنس جاتےہیں تو ہماری نفسیات ہمیں دوسرے ہتھ کنڈوں پر اکساتی ہے۔ پھر ہم لاطائل تقریریں ،دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے اپنی تعریفیں ،مخالف کی چھوٹی چھوٹی باتوں کو اچھالنے ، اور اسے نصیحتیں کرنے لگتے ہیں۔ اس مضمون میں تعلی اور جھنجھلاہٹ کے کافی مقامات ہیں۔ بس ایک پر ہی اکتفا کرتا ہوں ۔ کیونکہ مخالف کی ایسی  باتوں کو  زیادہ بیان کرنا یہ مجادلۂ احسن کے خلاف ہے۔

دوسری قسط

دوسری قسط بھی اسی ڈھب پر ہے۔لاطائل لمبی تقریریں، مثلاً”اشراق“  مارچ۲۰۱۹ء کے  صفحہ ۳۳ سے لے کر ۴۰ تک آٹھ صفحے ان باتوں پر برباد ہوئے ہیں کہ جو فکر فراہی کے مبتدی کو بھی معلوم ہوتی ہیں۔مثلاً رسولوں کے ساتھ اہل ایمان کی نجات، عام بعد الخاص اور تخصیص کےلسانی اسلوب وغیرہ۔ پھر خیانت کے تسلیم شدہ معنی کو ثابت کرنے کے لیے  ۵۰ سے ۵۲ تک تین صفحے ضائع کردیے ۔صفحہ ۳۸ پرحضرت شعیب اور ’وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ ‘ کی  تخصیص کی ’’نہایت نفیس‘‘ مثال دی ہے۔جسےپڑھ کر میرا وجود احساس حصول کی مسرت سے بھر گیا تھا!یہ سب  لاطائل تقریریں ہیں۔ ادھر ادھر کی باتوں سے دھاک بٹھانے کے لیے بھرتی کے مباحث لانے پڑتے ہیں ۔ آئیے اب اس قسط کے بھی مزعومہ استدلال کا جائزہ لیتے ہیں۔

میرے نقد نے جب غلطیاں واضح کیں تو ان باتوں کو تسلیم کرنے کے بجاے ان میں ناقد نے نئی آرا اختیار کی ہیں ۔ اسے shifty(  متلون الراے )ہوناکہتے ہیں۔یہ  ایک طرز مباحثہ ہے، یعنی غلطی ماننے کے بجاے مخالف کے اعتراضات کے جواب میں مسلسل پوزیشن بدلتے رہو۔ مثلاً پہلی قسط میں ’ذريتهم‘ کی بحث ، جس میں’هُم‘ کومغالطہ آمیز قرار دے کر صفحہ ۵۲ پر’ذريتهم‘ سےمراد’اولاد آدم‘ لی گئی ہے۔ لیکن اس سےذرا پہلے ’ذريتهم‘  کا ترجمہ پہلی راے کے مطابق کیا گیا ہے:’ان کی نسل‘۔ اسی طرح  سورۂ ہود  کی ۴۰ویں آیت کے ساتھ ہوا ہے۔ پہلی راے کے مطابق  ’وَمَنْ اٰمَنَ ‘  کا ترجمہ: ’’ او ر ان کو بھی جو ایمان لائے ہیں‘‘،(مارچ ص ۴۰) کیا گیا ہے۔ جب میں نے کہا یہ ’وَمَنْ اٰمَنَ‘تخصیص نہیں کرسکتا تو راے تبدیل کی گئی اور صفحہ ۴۱ پر ’’اس کا صحیح ترجمہ یہ ہے‘‘کہہ کر تازہ ترجمہ یہ کیا ہے: ’’اور دوسرے مومنین کو سوار کرلو‘‘۔ آگے واضح ہو گا  کہ ’’دوسرے ‘‘ کے اضافے سے کیا فرق پڑتا ہے۔ ناقد کے مضمون کی دونوں اقساط میں اس کی متعدد مثالیں ہیں ۔

وَاَهْلَكَ، وَمَنْ اٰمَنَ ‘ اور عطف العام علی الخاص کی بحث

سورۂ  ہود کى آیت :’وَاَهْلَكَ... وَمَنْ اٰمَنَ ‘ (۱۱ :۴۰) سے متعلق میں نے لکھا تھا کہ’اھلَك‘ پر جب ’وَمَنْ اٰمَنَ‘ کو عطف کیا گیا ہے  تو یہ مغایرت کا تقاضا کرتا ہے۔ لہٰذادونوں کو الگ الگ لینا پڑے گا۔

میری اس تنقید کے بعد نئی راے سامنے آتی ہے ۔”اشراق“ نومبر ۲۰۱۸ء   کے صفحہ ۴۷ پر لکھا تھا:  ’’دیکھ لیا جاسکتا ہے کہ یہاں ’وَمَنْ اٰمَنَ ‘ کو ’اهلك‘ پر عطف کیا گیا ہے۔ یہ مغایرت کا تقاضا کرتا ہے۔‘‘ اور اب اسی آیت کے بارے میں لکھا گیا ہے: ’’ یہ بھی عام بعد الخاص کی نوعیت کا عطف ہےاور تعمیم کے لیے آیا ہے‘‘ (اشراق، مارچ ، ص ۳۷) ۔

یعنی پہلے یہ تخصیص کر رہا تھا اب تعمیم اسی بحث میں پھر جب  صفحہ ۳۹ پر میرے اس اعتراض کا جواب دیا کہ مغایرت اور تخصیص اکٹھے نہیں ہو سکتے تو مغایرت کو پھرموجود  مانا ہے، اور تخصیص کو بھی۔ گویا یک نہ شد دو شد۔ پہلے ایک ہی آیت میں تخصیص اور مغایرت اکٹھے تھے اب اس کے ساتھ عام بعد الخاص کا اسلوب بھی جمع ہو گیا ہے۔میر انیس سے معذرت کے ساتھ:

اک پھول کا مضموں ہو تو سو رنگ سے سمجھوں

 ہمارے ناقد کی آرا کی روشنی میں یہ جملہ کشتی نوح کے ذکر کی وجہ سے کشتی نوح جیسا ہی ہو گیا ہے۔ کشتی میں متعدد جانور تھے اس آیت میں متعدداسالیب ۔ اسی جملے میں ایک اوراسلوب کی نشان دہی آگے آئے گی۔[۱۱]

وَمَنْ اٰمَنَ‘ کا ترجمہ ’’اوردوسرے مومنین ‘‘(ص ۴۱)کردیا گیا ہے۔ اور مثالوں میں یہ مثال بنا ڈالی ہے: ’’تم اپنے گھروالوں اور دیگر مومنین کو سوار کرالو‘‘۔آیت میں’دوسرے‘یا ’دیگر‘کے لیے کوئی لفظ موجود نہیں ہے، نہ سیاق ہی اس کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ اگر اصل آیت سے جوڑ کر دیکھا جاتا تو شاید کم از کم اتنا ہی ہو جاتا کہ ترجمہ اس کے مطابق ہو جاتا۔ناقد نے مضمون میں جتنے ترجمے کیے ہیں سب میں ’’دیگر ‘‘یا ’’دوسرے‘‘ کا ذکر نہیں ہے ۔ صفحہ ۴۰ پر ٹھیک اس بحث سے پہلے کیا گیا ترجمہ اس اضافے سے پاک ہے۔اسی کو میں نے shiftyہونا کہا ہے۔ایسے طرز جدل کا سلسلہ کبھی ختم نہیں ہو سکتا۔

صفحہ ۴۰ پر جوتخصیص پر لکھا گیا ہے،اس سے معلوم ہوتا ہے ہمارے ناقد کے پاس ایک جادوئی عطف ہے جو ایک ساتھ مغایرت، تخصیص ، تعمیم، خاص پر عام کا عطف، اورمعیت کا مفہوم پیدا  کرسکتا ہے۔ہمارے ناقد کے لیے یہ نہایت آسان سی بات ہےکوئی مفہوم یا اسلوب شامل کرنے کے لیے  ایک جملہ ہی تو لکھنا ہے۔

اس تلون الراے  کی اس مضمون میں متعدد مثالیں ہیں، بس ایک اور کی طرف اشارہ کرکے آگے بڑھتا ہوں۔  ’ذُرِّيَّةًۣ بَعْضُهَا مِنْۣ بَعْضٍ ‘،(آل عمران۳ : ۳۴) کے حوالے سے ایک بات کا جواب دیتےہوئے ناقدنے اسے  حال قرار دیا ہے(فروری ص ۵۷)، کیونکہ میرے محاکمہ کےبعد ناقد کے خیال میں اب یہی بات چل سکتی تھی[۱۲]، لیکن نہ پہلے اپنی بات کو آیت پر پرکھ کردیکھا تھا، اور نہ اب ۔ پہلے آیت کا ترجمہ جملہ مستانفہ کے طور پر کیا گیا ہے(ص۵۵)، نہ حا ل نہ بدل۔اگلے مضمون میں دیکھیے گا کہ یہ  لکھا جائے گا کہ حال کا ترجمہ  جملہ مستانفہ سے کیا جاسکتا ہے ۔

ایک اوربودا استدلال دیکھیے۔ میں نے مغایرت اور تخصیص کا فرق سمجھانے کے لیے ایک مثال دی تھی: ’’بیٹا اپنے بچوں اور پاکستانی بچوں کو لیتے آنا‘‘۔یہ مثال ثابت کرتی ہے کہ ’’اپنے بچوں ‘‘کی ’پاکستانی بچوں‘ سےتخصیص نہیں ہو سکتی ۔ لہٰذا،  ناقد کی راے غلط ثابت ہوئی ، تو  تبصرہ ہوا کہ ’’اس مثال اور آیت کے الفاظ میں مشرق و مغرب کی دوری ہے۔‘‘(ص۳۹)۔اولاً تو یہ تبصرہ ہی غلط ہے، جسے آگے چل کر واضح کروں گا ۔ ثانیاً، اس کے مقابلے میں جو مثالیں دی گئیں ہیں۔ ان میں حسب معمول ہوشیاری دکھائی گئی ہے ۔ذیل کے جائزے سے واضح ہوگا کہ ناقدکی  مثالوں کا آیت سے کوئی واسطہ ہی نہیں ہے، لکھاہے:

’’اردو کی ایک اور مثال پیش کیے دیتے ہیں اور امید کرتے ہیں اہل علم اس میں مغایرت کے ساتھ ساتھ تخصیص بھی پیدا ہوتے ضروردیکھ لیں گے... : ’’بیٹا پاکستانیوں اور دوسرے بچوں کو لیتے آنا‘‘۔اوراگر آیت کے ہر ہر لفظ کی رعایت رہے تو اس کی مثال یہ  بھی ہوسکتی ہے: بیٹا اپنے ساتھ پاکستانیوں ، سواے ان کے جو بالغ ہو چکے ہیں اور دوسرے بچوں کو بھی لیتے آنا۔دیکھ لیا جاسکتا ہے کہ ’’دوسرے بچوں‘‘  کا عطف پاکستانیوں سے مغایرت کو بھی بیان کررہا ہے اور ان ’’پاکستانیوں ‘‘کے بچہ ہونے کو بھی۔‘‘ (ص ۳۹)

مجھے میری شرافت روکتی ہے کہ میں اس پیرا گراف کی علمی دیانت کھولوں۔ اس لیے علمی تجزیہ پراکتفا کرتا ہوں۔ پہلے پہلی مثال دیکھیے:’’ بیٹا پاکستانیوں اور دوسرے بچوں کو لیتے آنا ‘‘۔اس میں بچوں سے پہلے ’’دوسرے‘‘  کا اضافہ کیا گیا ہے۔ یہ شمول (inculsion)کا کردار ادا کرنے والا لفظ ہے ۔ یہ اپنے مابعد کو اپنے ماقبل میں شامل کرتا ہے۔ آیت میں کوئی ایسا حرف تک موجود نہیں ہے۔’’پاکستانیوں‘‘ میں  بچے کے معنی  پیدا ہونا ’بچوں‘ کے عطف   کی وجہ سے نہیں، بلکہ ’دوسرے‘ کی وجہ سے ہے۔اس مثال سے ’دوسرے‘ نکال دیں تو تخصیص نہیں ہو گی۔اس مثال کی  دوسری ’علمی صداقت‘ ترتیب کا بدلنا ہے۔ ’’پاکستانیوں‘‘اور ’’دوسرے بچوں ‘‘کی ترتیب قرآن کے مطابق الٹ ہونی چاہیے۔کیونکہ قرآن میں ’اهلك‘اور’ومن اٰمن‘ کی ترتیب مثال کے الٹ ہے۔وہاں پہلے اہل خانہ کا ذکر ہے، جو بچوں کے مماثل ہے، اور ’مَن اٰمن‘ وصف ہونے کی بنا پر پاکستانیوں کے محل میں ہونا چاہیے۔ لیکن کوئی بات نہیں ، اس لیے کہ’المناظرة خدعة‘۔

 تیسرے  یہ کہ جس شخص نے چند لفظ پہلے یہ بات مکمل کی ہو کہ یہ عام بعد الخاص کا عطف ہے، وہ دونوں جگہ عام لفظ بولے’’پاکستانیوں‘‘ بھی اور’’دوسرے بچے‘‘ بھی۔چوتھے یہ کہ ان میں عام بعد الخاص کا تعلق بھی نہ ہو۔ پانچویں یہ کہ کہیں بھی ’اهلك‘ والےرشتہ کا ذکر نہ ہو جو ’اهل‘ کی ضمیر مخاطب کی طرف اضافت سے ’اهلك‘ میں بیان ہوا ہے۔اسے مناظرہ نہ کہیں تو کیا کہیں؟

اب دوسری مثال کی طرف آتے ہیں: ’’بیٹا اپنے ساتھ پاکستانیوں ، سواے ان کے جو بالغ ہو چکے ہیں اور دوسرے بچوں کو بھی لیتے آنا‘‘۔ مذکورہ بالا تمام غلطیاں اس میں بھی پوری طرح موجود ہیں۔یعنی ایک بچوں سےپہلے’دوسرے‘ کا اضافہ،  دونوں جگہ عام الفاظ کا استعمال، دونوں میں عام بعد الخاص کے اسلوب کا غیاب اور ’اهلك‘ جیسےمرکب کا فقدان وغیرہ۔ اس پر یہ  دعویٰ کہ مثال عین مطابق آیت ہے !

اس میں مزید غلطی یہ ہے کہ آیت  :’مَنْ سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ ‘ میں قول متعین نہیں ہے، جب کہ مثال میں ’’سواے  ان کے جو بالغ ہو چکے ہیں‘‘کے الفاظ میں،بالغ ہونا متعین ہے۔ ترتیب بھی غلط ہے،آیت میں پہلے گھر کے لوگ ہیں ، پھر استثنا ہے،پھر اہل ایمان ۔ میری مثال ہی آیت کے قریب تھی۔ میں نے مختصر کرنے کے لیے استثنا کے جملے کو بیان نہیں کیا تھا۔ اب بیان کردیں، اور دیکھیں اس میں تخصیص اور مغایرت اورعام بعد الخاص کے اسالیب اکٹھے ہوتے ہیں!

بیٹا، اپنے بچوں کو      ـــــــــ سواے جن  کے بارے میں پہلے بات ہو چکی       ـــــــــ اور پاکستانیوں کو لے آؤ۔

مجھے بتائیں اس جملے میں ’’اپنے بچوں ‘‘ کے معطوف سے ’’ پاکستانیوں‘‘ سے بچے کیسے مراد ہوں گے؟ اور ان ’’پاکستانیوں’’ کے عطف سے’’ اپنے بچوں‘‘ کو پاکستانی [۱۳]کیسے قرار دیں گے؟ہے نا ، کامیاب مناظرہ؟

مَنْ سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ ‘ کی بحث

وَاَهْلَكَ اِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ ‘ اس میں خط کشیدہ الفاظ  کا مطلب یہ ہے کہ جن اہل خانہ کے بارے میں اللہ نے پہلے کوئی بات کررکھی ہے، وہ کشتی میں سوار نہیں ہوں گے۔ روکنے کی وجہ غیر منصوص ہے،کیونکہ لفظوں میں بیان نہیں ہوئی۔’اِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ ‘ میں کافر ہونے کے معنی ڈالنے کے لیے کلام میں کوئی اشارہ نہیں ہے۔ناقد نے اس کے یہ معنی متعین کرنے کے لیے بالکل غیر متعلق آیت پیش کردی  ہے[۱۴]یہ آیت  نوح علیہ السلام کی دعوت کا خلاصہ ہے، کشتی میں سوار کرنے کےلیے اصول استثنا نہیں۔  یعنی یکسرغیر متعلق آیت پیش کردی گئی ہے۔ لیکن ناقد نے الٹا میرے اوپر یہ تبصرہ کردیا ہے کہ ’’ معلوم ہونا چاہیے کہ وہ کسی دلیل پر نہیں، بلکہ  خالص قیاس پر مبنی ہے‘‘(ص۳۵) ۔ حقیقت یہ ہے کہ ’اِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ ‘ قرآن کے عام طریقے سے مختلف ہے۔یہاں ’إلا من كفر، إلا من ظلم، إلا الذین كفروا‘، جیسا جملہ نہیں آیا۔ اب قرآن کے اس جملے کوقرآن کے اسی موضوع سے متعلق دوسرے جملوں سے سمجھنا چاہیے تھا ۔وہ یہ تھا: ’يٰنُوْحُ اِنَّهٗ لَيْسَ مِنْ اَهْلِكَ ‘ (ہود۱۱:  ۴۶)۔ لیکن میرے بغض میں ناقد کو خدا کا فیصلہ منظور نہیں ہے۔حق یہ ہے کہ میری راے منصوص ہے اور ناقد کی قیاسی ۔میری راے کو قیاسی کہناصریح  غلط بیانی ہے۔اس تجزیے سے یہ بات واضح ہورہی ہوگی کہ کلام کے قطعی نہ  مانے جانے کا ایک سبب یہ مناظرہ  بازی بھی ہوتی ہے۔

یہی صورت حال مباہلہ سے متعلق بحث میں ہے، میری راے منصوص اور ناقد کی راے قیاسی ہے۔دل چسپ بات صفحہ سینتالیس پر پندرھواں  فٹ نوٹ  ہے، جو تضاد فکر کا آئینہ دار ہے۔چودھواں فٹ نوٹ اور بھی دل چسپ ہے قنوت کو مباہلہ[۱۵] سے  مشابہ قرار دیا گیا ہے۔ واضح ہے کہ بنی اسرائیل کی مصر سےرہائی میں ان کے ایمان کو شرط نہیں بنایا گیا، مصر سے نکلنے کے بعد اس قوم کی تطہیر کی گئی ۔اس میں ناقد نے جوکچھ لکھا ہے، محض قیاس ہے۔ حضرت نوح اور لوط کی اہل کی بحث سے مجھے اختلاف نہیں،یہ باتیں مکتبۂ فراہی میں مسلم ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ اس عمومی اصول سے  استثنائی صورت حال کی نفی کیسے ہوگی۔

ایک لمحے کے لیے ناقد کی پوری بات مان لیتے ہیں کہ ’اِلَّا مَنْ سَبَقَ‘ والے جملے سے کافر ہی مراد ہیں۔ اب بات یہ بنی کہ گھر والے مومنوں کو اور باہر والے مومنوں کو سوار کرلو۔اہل ایمان کو ان دو حصوں میں بانٹنے کی وجہ کیا ہوئی؟ناقد کا خیال ہے کہ یہاں اطناب کا اسلوب اختیار کیا گیا ہے ۔لہٰذایہ ’’ جملہ یہ بتائے گا کہ نجات کا قانون اپنے اطلاق میں مخاطبین کی دونوں قسموں کو  محیط ہے‘‘(ص۴۱)۔پوری زلیخا پڑھیے آپ کو پتا  چل جائے گا کہ سواے بھرتی کی باتوں کے اور کچھ نہیں۔سوال یہ نہیں تھا کہ نجات دونوں کو محیط ہے یا نہیں سوال یہ تھا کہ دو قسمیں بنائی کیوں گئی ہیں؟ خالی اہل ایمان کہنے سے بھی دونوں کو محیط ہو جاتا۔

اِنَّهٗ لَيْسَ مِنْ اَهْلِكَ ‘ کی بحث

اس بحث میں بھی فکرفراہی کی خو بو دکھائی دی ہے۔لیکن جیسا پہلے گزرا ، ان قواعد کا استعمال برمحل نہیں جو فکر فراہی کے مدرسہ میں بولے اور سمجھے جاتے ہیں۔لکھا ہے:’’ اس لفظ میں پائی جانے والی یہی تخصیص[۱۶] ہے جو اعادۂ معرفہ کے اصول پر اس واقعہ کے تفصیلی بیان میں آخر تک موجود رہی ہے‘‘(ص۴۲)۔ یہاں اعادۂ معرفہ کے اسلوب کا اطلاق ہوتا ہے یا نہیں اس سے قطع نظر، یہ بات کلام میں ویسے ہی مسلمہ ہوتی ہے کہ جن لوگوں کا ذکر کیا جارہا ہوتا ہے آخر تک لفظوں سے وہی مراد ہوتے ہیں۔ لیکن جب تخصیصات آجاتی ہیں، تو اس کی وجہ سے الفاظ بدلے جاتے ہیں،تاکہ ان تخصیصات کا ساتھ باقی رہے۔مثلاً’اهلك‘ کو کم ازکم اسم ضمیر میں بدلنا چاہیے،  جو کہ اس طرح کے مواقع پر فطری طریقۂ کلام ہے ۔

 میری مراد یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ’احْمِلْ... وَاَهْلَكَ اِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ ‘ (۱۱:   ۴۰) کہ اپنے   خاندان کو سوار کرلو،سواے ان کے جن کو پہلے روک دیا گیا ہے۔اس کا حوالہ دیتے ہوئے حضرت نوح علیہ السلام نے کہا کہ’رَبِّ اِنَّ ابْنِيْ مِنْ اَهْلِيْ ‘ (۱۱:   ۴۵)، تو اگر تخصیصات کو شامل کرکے بات کہنی ہوتی تو یہ جملہ کلام کی فطرت ہے کہ یوں ہونا چاہیے تھا:’إن ابني منهم‘،میرا بیٹا انھی میں سے تو ہے، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ بلکہ اللہ کے الفاظ کو حوالہ بنایا گیا، تاکہ بعد کی تفصیلات سے مجرد رکھا جائے ۔اس کی دوسری وجہ یہ بھی رہی ہوگی کہ یہ جملہ اللہ کے جملے کے  فوراً بعد کا مکالمہ نہیں، بلکہ کشتی میں سوار ہونے کے بعد کا ہے، جب بیٹا غرق ہونے لگا۔ اس لیے وقفہ کی وجہ سے ضروری تھا کہ وعدے کے الفاظ ہی کو بول کر حوالہ دیا جائے۔پھر جب اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب دیا تو  فطری تقاضا تھا کہ وہ یوں آتا   :’إنه لیس منهم‘۔لیکن ہم دیکھتے ہیں ایسا نہیں ہوا،بلکہ جواب یوں ہے:’يٰنُوْحُ اِنَّهٗ لَيْسَ مِنْ اَهْلِكَ‘(۱۱:   ۴۶)۔

نوح علیہ السلام نے وہی مرکب پورا پورا  دہرایا ہے، جو اللہ نے بولا تھا، پھر اللہ نے وہی الفاظ دہرائے جو خود فرمائے تھے  ـــــــــــ  سواے متکلم و مخاطب  کی ضمائرکے ناگزیر رد و بدل کے ـــــــــــ  تو جب کلام میں یوں پورے کا پورا ٹکڑا دہرایا جاتا ہے تو وہ دراصل قول کا حوالہ بنتا ہے ، جو پہلے کہا گیا ہو ، نہ کہ اعادۂ معرفہ کا۔ تخصیصات کا تحمل بھی یہاں موجود نہیں رہا۔ چنانچہ یہ حوالۂ قول کا اسلوب ہے۔بالفاظ دگر، یوں کہیے کہ جن کلمات، یعنی ’اهلك‘ سے بات شروع ہوئی ، وہی پورے کلمات دہرا  کر حضرت نوح نے اصل  قول اللہ کا حوالہ دیا،  اور اللہ نے بھی ان کی درخواست کے رد کے لیے اپنے قول ہی کا حوالہ دے کر کہا کہ وہ ’اهلك‘ میں سے نہیں ہے۔اگر وہ بات ہوتی جو ناقد نے سمجھی ہے تو اسے ایسے  لفظوں میں ڈھلنا چاہیے تھا، جو تخصیصات کا محمول بنیں۔ یا گفتگو میں کہیں تو کفر کا اشارہ ہی آجاتا  ۔ بلکہ جہاں ناقد کے مطابق ابن نوح کا جرم بتایا گیا ہے وہاں بھی اسے کافر، ظالم یا فا سق نہیں کہا گیا، بلکہ بالکل بےمثل جرم عائد کیا گیا  ہے۔ یہ تبصرہ  تو فرعون جیسے مجرم  پر بھی نہیں ہوا۔تعجب خیز ہے کہ ایک بیٹا ’اِنَّهٗ عَمَلٌ غَيْرُ صَالِحٍ ‘[۱۷] جیسا مبالغہ آمیز الفاظ میں مجرم ہو،  اور باپ کو پتا ہی نہ چلے!

اس تجزیے سے واضح ہوا ہوگا کہ یہ مضمون فکر فراہی کے موٹے موٹے اصولوں کے تذکرے سےمصنوعی رعب ڈالنے کی سعی کے سوا کچھ نہیں ۔فکر فراہی کے اصول الفاظ کے آگے جھکنا سکھاتے ہیں، ان کو اپنے معنی سے پھیرنا نہیں۔

وَنَادٰي نُوْحُ اِۨبْنَهٗ‘ کی بحث

میں نے یہ لکھا تھا کہ یہ جملہ حکایت ہے اور اللہ تعالیٰ نے  حکایتا ًیوں بیان کیا ہے۔چونکہ اس حکایت  میں تغلیط آگے ’اِنَّهٗ لَيْسَ مِنْ اَهْلِكَ ‘ کے الفاظ سے ہو رہی تھی، تو یہاں: ’وَنَادٰي نُوْحٌ رَّبَّهٗ ‘ کے جملے میں تغلیط نہیں کی گئی۔حکایت اور تبصرۂ الہٰی کے فرق کو سمجھنے  کے لیےمیں نے قصۂ ذوالقرنین کی مثال دی تھی ، وہاں  بھی حکایت خدا ہی کی طرف سے ہورہی ہے (اشراق، دسمبر ۲۰۱۸ء،  ص ۸۷ - ۸۸)۔اس کے جواب میں  ناقد نے اور ہی راہ لی ہے۔ لکھا ہے:’’ اگر یہ بات غلط ہوتی تو اس کی برسر موقع تردید بھی کرتا، یا کم از کم اس کے غلط ہونے کی طرف ایک اشارہ ضرور کردیتا‘‘(ص ۴۳)۔ اسے کہتے ہیں دوسرے کی بات پر مٹی ڈالنا۔میں نے لکھا تھا :قرآن کی  تردید لفظوں میں ہے:’يٰنُوْحُ اِنَّهٗ لَيْسَ مِنْ اَهْلِكَ ‘ ۔اس سے زیادہ صریح تردید اور کیا ہوگی ، مگر پھر بھی ایک اشارہ کا مطالبہ!

اس سے پہلے یہ بھی تجویز کیا گیا ہے کہ یہ جملہ یوں ہوتا: ’’نادی نوح الذی یزعم ابنه‘‘۔اور اس کے لیے سورۂ انعام سے مثال دی ہے:’ فَقَالُوْا هٰذَا لِلّٰهِ بِزَعْمِهِمْ وَهٰذَا لِشُرَكَآئِنَا ‘ (ص ۴۳)۔کیا تعجب انگیز بات ہے! پہلے یہ کہ’بِزَعْمِهِمْ ‘حکایت کی تردید کے بجاے افتراء علی الله کی نشان دہی کے لیے آیا ہے۔ دوسرے یہ کہ اگر یہ تردید ہی ہے تو اس کے کئی اسلوب ہو سکتے ہیں۔ مثلاً کبھی ’بِزَعْمِهِمْ ‘  کا اضافہ [۱۸] کردیا کسی مقام پر واضح لفظوں میں کہہ دیا کہ ’اِنَّهٗ لَيْسَ مِنْ اَهْلِكَ ‘،اور کسی جگہ تردید بھی نہ کی، کیونکہ قرآن کا مجموعی موقف، یا سیاق و سباق کے قرائن  اس کی تردید کررہے ہوتےہیں۔اس لیے بھی کہ جب حکایت ہورہی ہوتی ہے تو اس میں ’قال‘،’قالوا ‘،’نادٰی ‘وغیرہ کے الفاظ خدا کی طرف نسبت کو ختم کردیتے ہیں۔ لہٰذا  یہ خواہ مخواہ کا اصرار ہے کہ تردید لازماً ہو، اورناقد کے پسندیدہ الفاظ میں اور پسندیدہ مقام پر ہو۔ اس پر یہی کہہ سکتا ہوں:’أاتّخذ عند الرحمن عهدًا‘!

صفحہ ۴۴ پر لکھا ہے:’’ ان حضرات نے بھی جب  حکایت ...(کی)مثال پیش کی تووہ بھی اس میں بقول کا لفظ لانے پر مجبور ہوگئے۔ ان کی مثال یہ ہے : بقول نصاریٰ عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے بیٹے ہیں۔‘‘یہ اغماض ہے۔  آیت یوں ہے:’وَنَادٰي نُوْحُ اِۨبْنَهٗ ‘ نوح نے اپنے بیٹے کو پکارا: اے میرے بیٹے۔ ’نادٰی ‘ کی نسبت نوح علیہ السلام کی طرف ہے  تو یوں یہ نوح علیہ السلام کے ذہن کی ترجمانی ہے ، ’نادٰی ‘ یہاں وہی کردار ادا کررہا ہے جو ہماری مثال میں ’بقول‘ کررہا ہے۔ یہاں یہ الفا ظ نہیں ہیں کہ ’’وہ نوح کا بیٹا تھا‘‘۔الفاظ یہ ہیں کہ ’’نوح نے اپنے بیٹے کو پکارا‘‘۔ پہلی بات اطلاع ہے اور دوسری حکایت ۔

ذوالقرنین کی مثال

ذوالقرنین کی مثال میں  حقیقت واقعہ سے مختلف دو چیزوں  کی طرف میں نے نشان دہی کی تھی،جن کی قرآن مجید نے تردید بھی نہیں کی۔  ذوالقرنین کا ’مَغْرِبَ الشَّمْسِ ‘ پہنچنا، اور سورج کوسیاہ چشمے میں ڈوبتے ہوئے دیکھنا۔انھیں میں نے حکایت کے اصول کو سمجھانے کے لیے پیش کیا تھا کہ خلاف حقیقت ہونے کے باوجود قرآن نے کوئی تردید نہیں کی۔اس لیے کہ یہ  حکایت ہے، اللہ کا اپنا نقطۂ نظر بیان نہیں ہو رہا ۔لیکن ناقد نے دو میں سے ایک خلاف حقیقت بات کو تو لے لیا اور دوسری سے صرف نظر کرلیا۔لکھا ہے:

’’یہ اصل میں انسانی آنکھ کے مشاہدے کا اعتبار کیا ہے، ... اس کا معاملہ یہ نہیں ہے کہ اس شخص کی ولدیت کے بارے میں ایک حقیقت ہواور ایک اس کے بارے میں انسان کا کوئی مجموعی طور پر مشاہدہ ہو،  بلکہ یہ کسی بات کے حقیقت ہونے اور نہ ہونے کا معاملہ ہے اور ہم زبان کے کسی ایسے قاعدے  سے واقف نہیں ہیں  جو ہمیں اجازت دیتا ہو کہ ہم دونوں ہی امور کی یکساں طور پر حکایت کرسکیں۔‘‘(ص ۴۴)

آخری جملے کی تعلی پر اتنا ہی کہناہے کہ قلم اٹھانے سے پہلے  اسالیب لسانی سے واقفیت ضروری ہے۔ چار نکاتی استدلال پیش کیا گیا  ہے: ایک آنکھ کے مشاہدے کا اعتبار ، دوسرے انسانوں کے مجموعی مشاہد  ےکا لحاظ اور تیسرے، حقیقت ہونے اور نہ ہونے کا معاملہ، چوتھے زبان میں جواز۔ آخری نکتہ درست ہے کہ زبان میں آنکھ کے مشاہدے کا اعتبار کیا جاتا ہے، خواہ وہ حقیقت کے خلاف ہو۔لیکن پہلے تینوں نکتے آیات کے لحاظ سے غلط ہیں۔   آیات یوں ہیں:

فَاَتْبَعَ سَبَبًا. حَتّٰ٘ي اِذَا بَلَغَ مَغْرِبَ الشَّمْسِ وَجَدَهَا تَغْرُبُ فِيْ عَيْنٍ حَمِئَةٍ وَّوَجَدَ عِنْدَهَا قَوْمًاﵾ قُلْنَا يٰذَا الْقَرْنَيْنِ اِمَّا٘ اَنْ تُعَذِّبَ وَاِمَّا٘ اَنْ تَتَّخِذَ فِيْهِمْ حُسْنًا. قَالَ اَمَّا مَنْ ظَلَمَ فَسَوْفَ نُعَذِّبُهٗ ثُمَّ يُرَدُّ اِلٰي رَبِّهٖ فَيُعَذِّبُهٗ عَذَابًا نُّكْرًا. وَاَمَّا مَنْ اٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَهٗ جَزَآءَ اِۨلْحُسْنٰيﵐ وَسَنَقُوْلُ لَهٗ مِنْ اَمْرِنَا يُسْرًا. ثُمَّ اَتْبَعَ سَبَبًا. حَتّٰ٘ي اِذَا بَلَغَ مَطْلِعَ الشَّمْسِ وَجَدَهَا تَطْلُعُ عَلٰي قَوْمٍ لَّمْ نَجْعَلْ لَّهُمْ مِّنْ دُوْنِهَا سِتْرًا. (الکہف ۱۸ : ۸۵ - ۹۰)

ان آیات  میں تین باتیں ہیں: زمین پر سورج کے ڈوبنے کا مقام، سورج کے طلوع ہونے کا مقام ، اور سورج کا چشمہ میں ڈوبنا۔  تینوں عام مشاہدہ نہیں ہیں۔ پہلےدو نوں  عام ہونا تو درکنارکسی کا مشاہدہ ہی نہیں  ہیں۔ جب کہ تیسرا پانی کے کنارے رہنے والوں ہی کا عام مشاہدہ ہوگا، سب کا نہیں۔

آنکھ کے مشاہدہ کے تحت صرف ایک بات آتی ہے:چشمہ  میں سورج کا ڈوبنا ۔لیکن سفر کرکے ان جگہوں تک پہنچنا  کہ جہا ں زمین سے سورج طلوع ، یا غروب ہوتا ہے، یہ آنکھ کا مشاہدہ نہیں ہے، بلکہ ایک راے ہے۔ حقیقت کے برعکس معاملہ ہے۔ قرآن کے الفاظ:’مَغْرِبَ الشَّمْسِ‘ اور ’مَطْلِعَ الشَّمْسِ‘ کو آپ محض مشرقی و مغربی علاقوں کے معنی میں نہیں لے سکتے ، کیونکہ،حکایت کے مطابق سورج ڈوبنے کی جگہ پر انھوں نے اپنی آنکھوں سے سورج کو چشمے میں ڈوبتے دیکھا۔ یعنی وہ بزعم خویش اس جگہ پہنچے جہاں جا کر سورج ڈوبتا ہے۔ دوسرے یہ کہ قرآن کہتا ہے کہ وہ چلتے گئے کہ پہلے آفتاب  کے مقام غروب پر پہنچے اور پھر چلتے گئے اورآفتاب کے مقام طلوع تک  پہنچے۔ یہ ایسی بات ہے کہ آنکھ کا مشاہدہ تو ہر گز نہیں ہے۔ یہ حقیقت کے خلاف ہے، لیکن قرآن نے کوئی تردید نہیں کی۔ ابن نوح سے  زیادہ ’مَغْرِبَ الشَّمْسِ‘ کی تردید کی ضرورت تھی کہ یہ ایسی خلاف حقیقت بات ہے کہ قرآن کے کلام الہٰی ماننے میں آج اعتراض بن چکی ہے ، جب کہ ابن نوح  کا اہل سے ہونا شاید ہی کبھی  قابل اعتراض بن سکے۔

ہم چونکہ بالعموم آیات کو تفسیروں کی روشنی میں سمجھتے ہیں، اس لیے ’مَغْرِبَ الشَّمْسِ‘ اور ’مَطْلِعَ الشَّمْسِ‘ وغیرہ  کو سادہ مشرقی اور مغربی علاقوں کے  معنی میں لے لیتے ہیں۔’عین حمئة‘ کو سمندر کے معنی میں ، اور سمجھتے ہیں کہ یہی مراد ہے۔ یہاں صرف مشاہدۂ نگاہ کی بات نہیں ہے، اور نہ زبان کا عمومی اسلوب ہے کہ عرب مشرقی و مغربی علاقوں کو ’مَغْرِبَ الشَّمْسِ‘ اور ’مَطْلِعَ الشَّمْسِ‘ کے الفاظ سے بیان کرتے ہوں۔اس صورت میں زمین کی طرف اضافت کی جاتی ہے[۱۹]۔  دل چسپ بات یہ ہے کہ  جو چیز آنکھ سے دیکھی جاتی ہے، اس کی نسبت تو’وَجَدَهَا تَغْرُبُ ‘ کہہ کر ذوالقرنین کی طرف کردی اور جو مشاہدۂ نگاہ سے متعلق نہیں تھی ، اس پر کوئی لفظ نہیں بولا۔اس لیے کہ اللہ تعالیٰ اپنی بات نہیں کررہے تھے۔صرف حکایت کررہے تھے۔’نَادٰي نُوْحُ اِۨبْنَهٗ ‘ میں حضرت نوح کے ذہن کی ترجمانی کی اور’بَلَغَ مَغْرِبَ الشَّمْسِ‘  میں ذوالقرنین کے ذہن کی۔

خانوادۂ نوح کی نجات کے مبحث پر جو صفحات ضائع کیے گئے  ہیں(ص ۴۴- ۴۹)، اس پر مجھے کچھ نہیں کہنا، اس لیے کہ وہ میرے موقف کا جواب نہیں ہے۔ میں نے دینونت رسالت میں کفار کی سزا کی کبھی نفی نہیں کی۔  میں  بس ایک استثنائی صورت حال بتا رہا ہوں، جامع اصول استثنا کو رد نہیں کرتا۔اس لیے وہ صفحات تحصیل حاصل کی سعی  سے زیادہ کچھ نہیں ہیں۔

خیانت کے معنی کی بحث

یہ بحث بھی میرے موقف پر نہیں خود ساختہ بات پر ہے۔ چونکہ یہاں میری بات غلط سمجھی گئی ہے۔اس لیے اس کی وضاحت ضروری ہےمیں نے اس میں یہ ہر گز نہیں کہا جو ناقد نے برآمد کرلیا ہےکہ’’اس سے مراد بدکاری ہے کہ’خیانت‘  کا لفظ جب مرد وعورت کے حوالے سے  آتا ہے تو عربی زبان میں اس کا عام مستعمل معنی یہی ہے‘‘(مارچ ۲۰۱۹ء ،ص ۵۰)۔ یہ  مجھ پر صریحاً تہمت ہے۔

ناقد کو شاید میرے اس جملے سے غلطی لگی ہے کہ ’’ عمومی مستعمل معنی[۲۰]  کے لیے قرائن فراہم کرنے کا مطالبہ... ‘‘۔ اس کا مطلب توصرف یہ تھا کہ یہ جس معنی میں عموماً مستعمل ہے۔ میں نے جو بات لکھی تھی وہ یہ ہے  کہ جب بھی میاں بیوی کی خیانت کا ذکر ہو اور یہ نہ بتایا جائے کہ وہ کس معاملے میں خیانت ہے تو مراد بدچلنی ہی ہوگی (دسمبر۲۰۱۸ء، ص ۸۵)۔ اسی صفحے پرمیرے الفاظ یہ بھی تھے:’’شوہر یا بیوی کی طرف نسبت ہی اس کا دو ٹوک قرینہ ہے‘‘۔  گویا خیانت اپنے اصل معنی سے ہٹا ہی نہیں ۔میں اسی بات کو ایک اور مثال سے واضح کرتا ہوں کہ  جب بھی کاروباری شراکت داروں کے بارے میں یہ کہا جائے کہ  انھوں نے خیانت کی،  اور یہ نہ بتایا جائے کہ کیا خیانت کی ہے تو اس سے مراد صرف کاروبار میں فراڈ ہوگا۔یعنی خیانت کے عمومی مستعمل  معنی یہاں فراڈ کے ہوں گے۔اسی پہلو سے مرد و عورت کی مثالیں میں نے دی تھیں۔ ’مستعمل  معنی‘ کی سرخی (ص۵۲) کے تحت ساری بحث اسی غلطی کا شاخسانہ ہے۔ محض لا طائل تقریریں!

ایک اور مثال دیکھیے۔ میری اس بحث میں ’’بے وفائی‘‘ کی مثال بھی تھی۔ لیکن اسے گول کردیا گیا ہے، بلکہ اس کی نسبت اپنی طرف کرلی گئی۔ اس سے میری یہ بات واضح ہوتی تھی کہ میں نے خیانت کے کون سے عمومی معنی مراد لیے تھے۔ بے وفائی بھی عام لفظ ہے ، لیکن جب اسے میاں بیوی کے لیے بولا جائے توبدچلنی ہی کے معنی دے گا، شرط یہ ہے کہ بے وفائی کی وضاحت نہ آگئی ہو۔  چنانچہ ناقد نے لکھا ہے: ’’اگر دوسری زبانوں ہی سے مثالیں دے کر سمجھانا ضروری ہے تو ہم عرض کریں گے کہ اردو میں خیانت کی صحیح مثال’’ بے وفائی‘‘ اور انگریزی میں unfaithfulness کا لفظ ہے۔یہ خیانت کے ہر طرح سے متبادل ہے، اور اسی کی طرح خاص معنی میں مستعمل نہیں‘‘۔کاش ہمارے ناقد کو بے وفا بیوی وشوہر ،unfaithful- wife جیسے مرکبات سے واقفیت ہوتی ، تو یہ جملہ نہ لکھا جاتا۔

صفحہ ۵۴ سے آخر تک زوجہ ہاے نوح و لوط علیہما السلام کی خیانت کو بمعنی کفر لینے کے لیے جو  سیاق و سباق سے نکات پیش کیے گئے ہیں: اولاً، وہ لاطائل تقریریں ہیں۔قرآن کے کسی بھی مقام سے اس طرح کے  نکات برآمد کیے جاسکتے ہیں۔ثانیاً، یہ بحثیں الفاظ  و تراکیب کے معنی نہیں، بلکہ  مدعا کے تعین کے لیے ہوتی ہیں۔ مثلاً  آدم و ابلیس کا قصہ قرآن میں ایک سے زیادہ مقامات پر آیا ہے۔ سب مقامات پراس میں دہرائے گئے جملوں کے معنی ایک ہی ہوں گے مدعا مختلف ہوگا۔مثلاً آدم کو سجدے کے حکم پر فرشتوں کےسجدہ کا ذکرکہیں  اسوۂ حسنہ کے بیان کے لیے ہوا اورکہیں فرماں برداری کے لیے۔لیکن کہیں بھی ’فَسَجَدُوا‘   کا مطلب یہ نہیں ہوگا، فرشتوں نے اچھا اسوہ دکھایا ، یا انھوں نے فرماں برداری کی ۔لیکن یہ مدعاے کلام ضرور ہو سکتا ہے۔

 آیت کو سمجھنے کے لیے قریبی قرائن تھے ، ذوالقرنین کی آیات کی طرح یہاں بھی اغماض کیا گیا ہے۔ میں نے دونوں مضامین میں ابن نوح اور ازواج نوح و لوط کو مسلمان نہیں مانا۔ لہٰذا، ان کے ثبوت کفرکی  تقریروں کی ضرورت نہیں تھی۔ ان میں کون پکی کافر تھی کون منافق تھی، یہ غیب کی بات ہے، ہمارے ناقد کے علم میں یقیناً ہو گی،میں علم الغیب نہیں رکھتا، نصوص تک محدود رہنا چاہتا ہوں، لہٰذا نہیں جانتا۔قریبی قرائن سے میری مراد اولًا:’امْرَاَتَ نُوْحٍ وَّامْرَاَتَ لُوْطٍ ‘، اور’كَانَتَا تَحْتَ عَبْدَيْنِ ‘[۲۱]، کے الفاظ کے زیر اثر ’فَخَانَتٰهُمَا ‘ کے الفاظ ہیں۔ ثانیاً:  خیانت کی وضاحت کا نہ ہونا ہے، ثالثاً، نوح و لوط کی بیویوں کی خیانت کے تذکرہ  والی آیت کے فوراً بعد، دو نیک بیبیوں : فرعون کی بیوی اور سیدہ مریم کا  ذکر ۔ یقیناً ان کا ایمان ہی وجۂ ذکر ہے،لیکن ’اَحْصَنَتْ فَرْجَهَا ‘  کا یہاں ذکر بلاوجہ نہیں ہے۔ چونکہ موازنہ مقصود ہے تو’اَحْصَنَتْ فَرْجَهَا ‘ سے ازواج نوح و لوط کے لیے بد چلنی بھی ثابت ہوتی ہے۔ لیکن جب راے کا دفاع ہی مقصود ہو تو ایسے صاف قرائن  بے معنی رہتے ہیں، پھرتہی دامانی پر پردہ ڈالنے کے لیے بسیار گوئی سے سہارا لیا جاتا ہے۔

اس ساری بحث سے بس میں نے یہ ثابت کیا ہے کہ یہ نقد نہیں، مناظرانہ ، غیر مدلل تقریریں ہیں ، ان میں ایسی کوئی دلیل پیش نہیں کی گئی جس سے میری غلطی یا ناقد کی راے ثابت ہو۔ اپنے اس مضمون  سےمیں اپنی طرف سے اس موضوع پر گفتگو ختم  کررہا ہوں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مناظروں میں پڑنا میرے جیسے آدمی کا کام نہیں ہے،اور نہ مسلسل پوزیشن بدلنے والے سے گفتگوجاری رکھنا کوئی عقل کا کام ہے ۔ لہٰذا ، اب اس انداز سے میراناقد جو مرضی لکھے، میں اس کا جواب نہیں دوں گا۔ہاں، البتہ غلطی ثابت کر دی گئی، تو اعترافی نوٹ ضرور شائع کردوں گا۔  وما توفیقی الا باللہ۔

___________

[۱] ۔مثلاً مضمون کا پہلا جملہ ہی دیکھ لیں۔

[۲] ۔اولاد یا سلسلۂ اولاد کے معنی منفک ہوگئے۔

[۳]۔ آپ کے لیے نشانی ہے کہ اس جہاز میں اللہ  تعالیٰ نے آپ  لوگوں کی ’ذریة‘ کواٹھارکھا ہے۔

[۴]۔ اسی معنی میں مفسرین کے دونوں گروہوں نے لیا ہے:جو ابناے نوع مراد لے رہے ہیں اور جو’ذريتهم‘ سے  ’آباءهم ‘مراد لے رہے ہیں۔

[۵]۔ میں نے حاشیہ میں لکھا تھا کہ میں یہ’ذريتهم‘ کے معنی کررہا ہوں۔ یعنی ذریت جس کی اضافت’هُم‘ ’’ان کے‘‘ کی طرف ہوئی ہوئی ہے۔  پھر میں نے استاذ گرامی کا حوالہ بھی دیا تھا جس میں انھوں نے اسے ابناے نوع ہی کے معنی میں لیا ہے، اولاد کے معنی میں نہیں۔ (اشراق، دسمبر  ۲۰۱۸ء، ص ۷۵) ۔

[۶]۔  اسی اصول پر آپ اس بحث کو دیکھ  سکتے ہیں جو ناقد نے’حسین مني و أنا من حسین‘ کے بارے میں کی ہے۔ اس میں بھی جو مثالیں دی ہیں، وہ بھی یک فریقی ہیں۔حالاں کہ اس جملے میں ’أنا‘ اور ’حسین‘ دو فریق ہیں۔

[۷]۔ سچی بات یہ ہے کہ  اوصاف والی بات  بھی کہانی ہی ہے۔وہ مقامات جن کا ناقد نے حوالہ دیا ہے۔ اگر ان ہی کو دیکھا جائے تو کشتی کا حوالہ اس معنی میں بالکل استعمال نہیں ہوا، چہ جائیکہ زیر بحث مقام پر،اور اگر وہ وصف کے طور پر آیا بھی ہے تو میری تفسیر ہی میں صحیح بیٹھتا ہے ناقد کی تفسیر میں نہیں۔

[۸]۔  یہاں مجھے ایک اعتراف کرنا ہے۔یہ اس مضمون کا ایک خوشگوار مقام ہے۔یہاں پہنچ کر ایک دم معلوم ہوتا ہے کہ ہمارا ناقد فکر فراہی کے دائر ے میں تھوڑا سا داخل ہوگیا ہے۔ہم اس استدلال سے اتفاق کریں یا اختلاف بہرحال یہ مقام ہماری ’ذوق گزیدگی ‘کےمعیار پرتھوڑا ساپورا اترتا ہے۔ اگر یہ کسی اور کا القا نہیں تو مجھے اعتراف ہے کہ یہ لسانی فہم کا صحیح منہج اختیار کیا گیا ہے۔ کاش استدلال درست ہوتا اور آیتیں اسے قبول کرتیں۔

[۹] ۔اگرچہ ’’پڑھتے رہے‘‘  میں بھی وہ بات نہیں، جو’’ نوح کے ساتھ سواروں ‘‘ میں ہے، لیکن پھر بھی  ، وہ معنی ادا نہیں ہوتے جو ناقدکے خیال میں ہیں۔

[۱۰]۔  دوسرا مصرع اصل میں  یوں تھا: صدا سسکیوں کی سنائی نہ دے۔

[۱۱]۔  لہٰذا یہ آیت  معجزہ ہے۔ ہم فخر کے ساتھ قرآن کو دور جدید میں بطور کلام الہٰی پیش کرسکتے ہیں کہ ہر جملہ میں متعدد اسالیب بیک وقت برتے گئے ہیں۔

[۱۲]۔  حالاں کہ’ذرية‘ کو حال لینے پر وہی اعتراضات وارد ہوں گے ، جو بدل ماننے پر ہوئے تھے۔ لازم ہے کہ حال میں بیان شدہ  وصف  ذوالحال پر منطبق ہو سکے۔ مثلا ً علی اور گھوڑا ہنستے ہوئے آئے۔اس حال کا ذوالحال گھوڑانہیں ہو سکتا۔آدم ’ذرية‘  کا ذوالحال نہیں ہوسکتے کہ بمعنی اولادیہ وصف ان پر منطبق نہیں ہوسکتا۔

[۱۳]۔  یہ اس طرح کی بات ہے کہ یہ کہا جائے کہ ’احْمِلْ فِيها مِنْ كُلٍّ زَوْجَينِ اثْنَينِ وَاهلَك‘ کے اس  جملے میں’وَاهلَك‘ کاعطف ’كُلٍّ زَوْجَينِ اثْنَينِ‘ سے مغایرت بھی کررہا ہے اور تخصیص بھی کہ العیاذ باللہ ’كُلٍّ زَوْجَينِ اثْنَينِ‘ بھی اہل خانہ میں سے تھے۔

[۱۴] ۔’وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰي قَوْمِهٖ فَقَالَ يٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَيْرُهٗﵧ اَفَلَا تَتَّقُوْنَ ‘۔( المؤمنون۲۳ :  ۲۳)۔

[۱۵]۔  باقی رہ گیا کہ مباہلہ، کہ وہ دلائل کے جواب  میں   مکابرت کی وجہ سے  تھا ،اور دونوں طرف سے جماعتوں نے آنا تھا ،یہ آرا قرآن کے سیاق و سباق  کے مطابق نہیں۔ لیکن اس موضوع پر بات  یہاں نہیں کی جاسکتی ، کیونکہ مضمون کے دائرے سے بات باہر چلی جائے گی۔

[۱۶]۔  لیکن یہ تخصیص تو اب ناقد کے الفاظ میں تعمیم قرار پا چکی ہے!

[۱۷]۔  یہ بھی ملحوظ رہنا چاہیے کہ یہ جملہ واؤ عطف کے بغیر آیا ہے:’يٰنُوْحُ اِنَّهٗ لَيْسَ مِنْ اَهْلِكَ اِنَّهٗ عَمَلٌ غَيْرُ صَالِحٍ ‘۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ یہ ’لَيْسَ مِنْ اَهْلِكَ ‘ سےالگ بات نہیں ہے۔

[۱۸]۔  مثلاً سورۂ بقرہ (۲)کی اس آیت ’وَقَالُوا اتَّخَذَ اللّٰهُ وَلَدًاﶈ سُبْحٰنَهٗﵧ بَلْ لَّهٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِﵧ كُلٌّ لَّهٗ قٰنِتُوْنَ ‘ (۱۱۶) میں تردید،’سُبْحٰنَه ‘ کے جملے سے کی ہے۔سورۂ کہف (۱۸)میں ،اسی بات ’قَالُوا اتَّخَذَ اللّٰهُ وَلَدًا ‘ (۴) کی تردید’مَا لَهُمْ بِهٖ مِنْ عِلْمٍ... ‘ (۵) سے کی ہے۔سورۂ مومنون میں اسی بات کی تردید ’وَمَا كَانَ مَعَهٗ مِنْ اِلٰهٍ... ‘ (۲۳:  ۹۱) کے الفاظ سے کی ہے۔’ بِزَعْمِهِمْ  ‘ کا اسلوب ضروری نہیں ہوتا، پورے قرآن میں یہ اسلوب صرف دو جگہ استعمال ہوا ہے۔

[۱۹]۔  زبان کا یہ عمومی اسلوب غالباً کچھ یوں بیان کرتا:’وَاَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِيْنَ كَانُوْا يُسْتَضْعَفُوْنَ مَشَارِقَ الْاَرْضِ وَمَغَارِبَهَا... ‘ (الاعراف۷:  ۱۳۷)

[۲۰]۔  ناقد نے  اس جملے کے سیاق و سباق کا خیال بھی نہیں رکھا۔ میں نے ناقد کے نادر معنی کے مقابل میں یہ الفاظ بولے تھے ۔ ناقد کا خیال ہے کہ اس سے اپنے شوہر کی نبوت پر ایمان نہ لانا ، اور مشن رسالت میں ان کا ساتھ نہ دینا مراد ہے۔ میں نے اس کے مقابل میں یہ کہا تھا کہ لفظ اپنے عمومی معنی میں مستعمل ہے۔ثبوت تو ناقد کو دینا ہے کہ جس نے خیانت کے وہ معنی لیے ہیں جو لفظ’خیانت‘ کے یوں استعمال سے ہر گز برآمد نہیں ہوتے۔

[۲۱]۔  یہ صاف قرینہ ہے، یہ جملہ دونوں کو بیویاں قرار دینے کے لیے نہیں آیا۔ عربی جاننے والے جانتے ہیں کہ ’امرأة عمران‘،’امرأة فرعون‘،’امرأة نوح‘،وغیرہ  سب بیوی ہی کے معنی دیتے ہیں۔’تَحْتَ عَبْدَيْنِ‘ نکاح کے قائم ہونےاور’فَخَانَتٰهُمَا ‘ کے معنی کے تعین کے لیے قرینہ ہے۔

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت اپریل 2019
مصنف : ساجد حمید
Uploaded on : May 24, 2019
3995 View