قرآن مجید اور فکر فراہی - ابو یحییٰ

قرآن مجید اور فکر فراہی

دور حاضر کا علمی چیلنج، اس کے پیدا کردہ عملی مسائل، اس کے تمدنی انقلابات، اس کے فکری سوالات کا دائرہ اتناوسیع اور ان کی نوعیت اس قدر پیچیدہ ہے کہ ایسا کوئی مذہبی فکر کبھی ان کا جواب نہیں دے سکتا جس میں انسانی افکار کی آمیزش ہو چکی ہو۔ اس دنیا میں یہ حیثیت صرف اور صرف قرآن کریم ہی کو حاصل ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ کا پیغام ہر طرح کی انسانی تحریفات اور آمیزش سے پاک کردیا گیا ہے۔ فکر فراہی کی اصل بنیاد یہ ہے کہ اس نے قرآن کریم کی اس حیثیت کو گرہ میں باندھ کر اسے اپنے غور و تدبر کا موضوع بنا لیا۔ یہی سبب ہے کہ یہ فکر اسلام کی دعوت کو نہ صرف ایک اعلیٰ علمی اور عقلی سطح پر پیش کرتا ہے، بلکہ ان اعتراضات کا بھی مکمل جواب دیتا ہے جو اسلام پر کیے جارہے ہیں۔ 

 

قرآن کریم:میزان و فرقان

فکر فراہی کا امتیاز یہ ہے کہ اس کے ائمہ نے نہ صرف قرآن مجید کو دین کی بنیادی کتاب مانا ہے، بلکہ فہم دین میں اسے عملاً یہ مقام دیابھی ہے۔ ان کے نزدیک قرآن ہی وہ میزان، یعنی ترازو ہے جس پررکھ کر اور فرقان، یعنی کسوٹی (Touchstone) ہے جس پہ پرکھ کر دین کے نام پر پیش کی جانے والی ہر دوسری شے کی حیثیت متعین کرنی چاہیے۔قرآن پاک پروردگار عالم کا کلام ہے۔ اس کا فیصلہ آنے کے بعد کسی دوسری بات اور نقطۂ نظر کو قبو ل کرنا ممکن نہیں رہتا۔اس بات کی وضاحت میں استاذ گرامی جاوید احمد صاحب غامدی لکھتے ہیں:

’’...دین میں ہرچیزکے ردوقبول کافیصلہ اِس(قرآن) کی آیات بینات ہی کی روشنی میں ہوگا۔ ایمان و عقیدے کی ہربحث اِس سے شروع ہوگی اوراِسی پرختم کردی جائے گی۔ ہر وحی، ہر الہام، ہر القا،ہرتحقیق اور ہر راے کواِس کے تابع قراردیاجائے گا اور اِس کے بارے میںیہ حقیقت تسلیم کی جائے گی کہ بوحنیفہ و شافعی، بخاری و مسلم، اشعری و ماتریدی اور جنید و شبلی، سب پراِس کی حکومت قائم ہے اوراِس کے خلاف اِن میں سے کسی کی کوئی چیزبھی قبول نہیں کی جاسکتی۔‘‘ (میزان ۲۵)

جو لوگ علمی پس منظر رکھتے ہیں، وہ سمجھ سکتے ہیں کہ یہ بات کہنا کوئی آسان نہیں، اس لیے کہ ہمارے ہاں عملی طور پر جو کچھ ہوتا ہے، وہ اس کے بالکل برخلاف ہے۔ لوگ قرآن کریم کی بات کو اہمیت دینے کے بجاے دیگر چیزوں کو زیادہ اہم سمجھتے ہیں۔ مثلاًآپ قرآن کریم کی کوئی سی تفسیر اٹھاکر دیکھ لیں، وہاں قرآن کریم کی بنیاد پر اس کی بات کو کم واضح کیا گیا ہوتا ہے اور دیگر چیزوں کا بیان زیادہ ہوتا ہے۔ اسی رویے سے تمام اختلافات کا آغازہوتااور فرقہ بندی کا دروازہ کھلتا ہے۔ چنانچہ مختلف مسائل، معاملات اوراحکام پر غور کرتے ہوئے قرآن مجید کو بنیاد بنانا اور ہر دوسری چیز پر اس کی بات کو ترجیح دینا فکر فراہی کی سب سے بڑی اور بنیادی خدمت ہے۔آگے حدیث اور قرآن کے تعلق کے ضمن میں ایک عملی مثال سے ہم اس بات کی وضاحت کریں گے۔

دین میں قرآن مجید کی اہمیت کوواضح کرنے کے ساتھ ساتھ فکر فراہی کی بڑی خدمت ان اصولوں کو واضح کرنا ہے جن کی روشنی میں قرآن مجید کی کسی بات کا اصل مدعا واضح طریقے پر متعین کیا جاسکتا ہے۔اس فکر کے ائمہ نے کم و بیش ایک صدی تک یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ قرآن کریم خود اپنا مدعا کیسے بیان کرتا ہے۔اس کے لیے انھوں نے قرآن مجید کی زبان، اس کے اسالیب ،اس کی آیات کے سیاق و سباق، اس کے احکام کے موقع و محل کو سمجھنے کے لیے اپنی زندگیاں وقف کردیں۔خاص کر امام فراہی نے اسے اپنی زندگی کا سب سے بڑا مقصد بنالیا تھا اور زندگی کے آخری برسوں میں جب ان کے علم کا سورج نصف النہار پر تھا، انھوں نے گوشہ نشینی اختیار کرکے اپنے آپ کو اس کام کے لیے وقف کردیا۔کم و بیش یہی معاملہ امام اصلاحی کا تھا جنھوں نے اپنی زندگی کے آخری چالیس برسوں میں سے تیس برس یہی کام کیا۔اسی محنت کا نتیجہ ’’تدبر قرآن‘‘ کی شکل میں وجود میں آیا جو اسلامی علوم کی تاریخ میں تفسیر کے موضوع پر لکھی گئی چار بنیادی کتابوں میں سے ایک ہے۔استاذ گرامی جاوید احمد غامدی نے بھی اپنی ساری زندگی قرآن کریم پر غور و فکر میں گزاری۔ اس کے بعد قرآن پاک پر غور و تدبر کے کچھ اصول انھوں نے اپنی کتاب ’’میزان‘‘ میں بیان کیے ہیں جو قرآن پر غور و تدبر کے لیے بہت اہم ہیں۔

 

نظم قرآن 

قرآن کریم کا مدعا و مفہوم سمجھنے کے لیے اس کا نظم ایک بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ امام فراہی اور ان کے شاگردوں کا ایک بنیادی کام قرآن مجید کے مدعا کو اس کے نظم کی روشنی میں پیش کرنا ہے۔ نظم کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کریم ایک مجموعۂ اقوال زریں نہیں جس میں اچھی باتوں کو ایک ساتھ جمع کردیا گیا ہو،بلکہ یہ ایک منظم اور مربوط کلام ہے۔اللہ تعالیٰ نے اپنا یہ کلام سورتوں کی شکل میں مرتب کیا ہے۔ سورت کی ہر آیت پچھلی آیت سے جڑ کر ایک خاص نوعیت کے ربط اور نظم کو تشکیل دیتی ہے جو کلام میں ادبی حسن ،زور اور لطافت پیدا کردیتا ہے۔اسی نظم کی بنا پر ہر آیت کا اپنا ایک مخصوص سیاق و سباق اور موقع و محل وجود میں آتا ہے، جس کی بنا پر یہ ممکن ہوجاتا ہے کہ کسی بات کے آٹھ دس معنی لینے کے بجاے ایک ہی معنی مرادلیے جائیں جو کسی مسئلے میں قرآن کا ایک متعین،واضح اور فیصلہ کن نقطۂ نظر سامنے لاتے ہیں۔

یہاں یہ بات واضح رہے کہ قرآن کریم اپنا بنیادی پیغام، یعنی ایمان و اخلاق کی دعوت اور ان کے دلائل بیان کرنے میں کبھی بھی غیر واضح نہیں رہا۔وہ اپنی بات بار بارمختلف انداز میں دہراکر اصل پیغام کو بالکل واضح کردیتا ہے۔ اصل مسئلہ ان قانونی اور فقہی معاملات میں پیش آتا ہے جنھیں قرآن پاک میں ایک دو مرتبہ ہی زیر بحث لایا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ قانون بار بار بیان کرنے کی چیز بھی نہیں ۔ تاہم اس کے نتیجے میں اس کا امکان پیدا ہوجاتا ہے کہ بات کے فہم میں غلطی ہوجائے اور ایسا ہوا ہے، مگر الحمد للہ دور جدید میں ان ائمہ نے ایسے تمام مسائل میں نظم قرآن کی بنیاد پروہ نقطۂ نظر سامنے رکھ دیا ہے جو صاف محسوس ہوتا ہے کہ قرآن کا اصل مدعا ہے۔ اس بات کو ہم ایک ایسی مثال سے سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں جو دور جدید میں اسلام پر اعتراض کا سبب بن رہی تھی اور وہ قرآن کے مطابق عورتوں کی گواہی کا ضابطہ ہے۔

 

قرآن اور عورت کی گواہی

ہمارے ہاں معروف فقہی راے کے مطابق خواتین کی گواہی مردوں سے آدھی ہوتی ہے۔یہ عام جرائم کا معاملہ ہے جہاں دو خواتین کی گواہی مل کر ایک مرد کی گواہی کے برابر ہوتی ہے، وگرنہ حدود کے تحت آنے والے جرائم، مثلاً قتل، زنا وغیرہ میں خواتین کی گواہی سرے سے قابل قبول نہیں سمجھی جاتی (اس مسئلے پر ہم آگے ’’شریعت اور فقہ‘‘ کے عنوان کے تحت گفتگو کریں گے)۔ دو خواتین کی گواہی کے اس قانون کا بنیادی ماخذ قرآن کریم کی سورۂ بقرہ (۲) کی آیت ۲۸۲ سمجھی جاتی ہے۔یہ قرآن کریم کی سب سے بڑی آیت ہے جس کا ترجمہ درج ذیل ہے: 

’’ایمان والو، (قرض کے معاملات ، البتہ ہوں گے۔ لہٰذا) تم کسی مقرر مدت کے لیے ادھار کا لین دین کرو تو اُسے لکھ لو اور چاہیے کہ اُس کو تمھارے درمیان کوئی لکھنے والا انصاف کے ساتھ لکھے ۔ اور جسے لکھنا آتا ہو، وہ لکھنے سے انکار نہ کرے ، بلکہ جس طرح اللہ نے اُسے سکھایا ہے ، وہ بھی دوسروں کے لیے لکھ دے۔ اور یہ دستاویز اُسے لکھوانی چاہیے جس پر حق عائد ہوتا ہو۔ اور وہ اللہ ، اپنے پروردگار سے ڈرے اور اُس میں کوئی کمی نہ کرے ۔ پھر اگر وہ شخص جس پر حق عائد ہوتا ہے ، نادان یا ضعیف ہو یا لکھوا نہ سکتا ہو تو اُس کے ولی کو چاہیے کہ وہ انصاف کے ساتھ لکھوا دے ۔ اور تم اِس پر اپنے مردوں میں سے دو آدمیوں کی گواہی کرالو، لیکن اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد او ردو عورتیں ہوں، تمھارے پسندیدہ گواہوں میں سے ۔ دو عورتیں اِس لیے کہ اگر ایک الجھے تو دوسری یاددلا دے ۔ اور یہ گواہ جب بلائے جائیں تو اُنھیں انکار نہیں کرنا چاہیے ۔ اور معاملہ چھوٹا ہو یا بڑا، اُس کے وعدے تک اُسے لکھنے میں تساہل نہ کرو۔ اللہ کے نزدیک یہ طریقہ زیادہ مبنی بر انصاف ہے، گواہی کو زیادہ درست رکھنے والا ہے اور اِس سے تمھارے شبہوں میں پڑنے کا امکان کم ہو جاتا ہے ۔ ہاں ، اگر معاملہ روبرو اور دست گرداں نوعیت کا ہو ، تب اُس کے نہ لکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ اور سودا کرتے وقت بھی گواہ بنا لیا کرو، اور (متنبہ رہو کہ) لکھنے والے یا گواہی دینے والے کو کوئی نقصان نہ پہنچایا جائے ، اور اگر تم ایسا کرو گے تو یہ وہ گناہ ہے جو تمھارے ساتھ چپک جائے گا ۔ اور اللہ سے ڈرتے رہو ، اور (اِس بات کو سمجھو کہ) اللہ تمھیں تعلیم دے رہا ہے ، اور اللہ ہر چیز سے واقف ہے ۔‘‘

خط کشیدہ حصہ جہاںیہ معاملہ زیر بحث آیا ہے، آیت کا جز ہونے کے بجاے اگر ایک انفرادی ہدایت کے طور پر پڑھا جائے تو بلا شبہ، اس سے یہی نتیجہ نکل رہا ہے کہ دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کے برابر ہے، لیکن جب آیت کو پورا پڑھا جاتاہے اور اس ہدایت کو اس کے سیاق و سباق اور نظم کلام کی روشنی میں دیکھا جاتا ہے تو صاف معلوم ہوجاتاہے کہ یہ بات گواہی کے کسی شرعی اور قانونی ضابطے کے طور پر سرے سے زیر بحث ہی نہیں ہے۔ اصل بات کیا زیر بحث ہے اور اس کا پس منظر کیا ہے؟ اسے ہم کچھ تفصیل سے بیان کردیتے ہیں۔

یہ سورۂ بقرہ کا آخری حصہ ہے جس میں مالی معاملات زیر بحث آئے ہیں۔سورۂ بقرہ (۲) کی آیت ۲۶۱ سے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو انفاق پر ابھارنے کے لیے گفتگو شروع کی اورآیت ۲۷۴ تک یہی سلسلہ چلتا ہے ۔ انفاق کے مختلف پہلووں پر بات کرنے کے بعد موضوع بدلتا ہے اور سود کی مذمت پر گفتگو شروع ہوجاتی ہے۔اس کا سبب یہ ہے کہ انفاق کی ذہنیت کو ختم کرنے والی چیز سود کا وہ نظام ہے جس میں لوگ دوسروں کو اپنا روپیہ بطور قرض سود پر دیتے ہیں۔ آیت ۲۷۵ سے ۲۸۱ تک سود پر بات ہوتی ہے اور اس میں سود کے مکمل خاتمے کا حکم دیا جاتا ہے۔

بات یہاں مکمل ہوگئی، لیکن ایک عملی مسئلہ رہ گیا تھا، وہ یہ کہ سودی قرضوں کی مطلقاً ممانعت کا حکم آنے کے بعد سوال پیدا ہواکہ آیا قرض پر لین دین کا سلسلہ بالکل ختم ہوجانا چاہیے۔ آیت ۲۸۲ دراصل اسی سوال کا جواب ہے۔ یہاں قرآن اپنے مخصوص انداز میں صرف اسی سوال کاجواب نہیں دیتا، بلکہ مزیدکچھ ہدایات بھی دیتا ہے۔ وہ بتاتا ہے کہ لوگ قرض کا لین دین کرتے ہیں ا ور اس میں کوئی ممانعت نہیں، لیکن قرض کے معاملات میں بارہا اختلافات پیدا ہوجاتے ہیں۔ رقم کتنی تھی، واپسی کی مدت کیا طے ہوئی تھی، کس تاریخ کو قرض لیا گیا تھا، یہ باتیں معاملہ کرتے وقت تحریر نہ کی جائیں تو جھگڑے کا سبب بن سکتی ہیں۔چنانچہ اللہ تعالیٰ نے یہ ہدایت کی کہ قرض کا لین دین غیر معینہ نہ ہو، بلکہ واپسی کی مدت طے ہونی چاہیے۔ ایسے موقع پر معاملے کو لکھنے کا اہتمام کرنا چاہیے اور پھر اس دستاویز پر دو مرد گواہ بنالینے چاہیے۔ اگر دو مرد نہ مل رہے ہوں توایک مرد کے ساتھ دو خواتین کو بطور گواہ شامل کرلیا جائے ۔یہ گواہ فریقین کے لیے پسندیدہ اور قابل اعتماد ہوں اور گواہوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ ان کو جب بلایا جائے تو وہ آنے سے انکار نہ کریں۔

اب حکم کو ا س سارے پس منظر میں رکھ کر دیکھیں تو چندباتیں بالکل واضح ہوکر سامنے آتی ہیں:

  • ۱۔ یہ ایک معاشرتی نوعیت کی ہدایت ہے جس میں کسی ممکنہ اختلاف سے بچنے کے لیے ایک اہتمام کرایا جارہا ہے، یعنی قرض کی دستاویز لکھ لی جائے اور اس پر دو مرد گواہ بنالیے جائیں۔ اس نوعیت کے معاملات کا کسی اختلاف کی شکل میں عدالت میں جانے کا ایک امکان پایا جاتا ہے، ا س لیے پہلے مرحلے میں اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو گواہی کی اس مشقت کے لیے تجویز ہی نہیں کیا، کیونکہ اس آیت میں گواہوں پر یہ ذمہ داری ڈالی گئی ہے کہ جب بلایا جائے تووہ آنے سے انکار نہ کریں۔
  • ۲۔ چونکہ گواہ فریقین کی پسند اور اعتماد کے لوگ ہونے چاہییں اور ضروری نہیں کہ ہمیشہ ایسے لوگ مل جائیں، اس لیے یہ کہا گیا کہ دو مرد نہ مل رہے ہوں تو ایک مرد کے ساتھ دو خواتین کو گواہ بنالیا جائے تاکہ عدالت کے اس ماحول میں، جہاں گواہوں پر سخت جرح کی جاتی ہے ، ان میں سے ایک اگر کچھ بھولے تو دوسری اسے یاد دلادے۔پھر اس پورے اہتمام کی علت خود اس آیت میں یہ بیان ہورہی ہے کہ اس سے لوگ شبہ میں نہیں پڑیں گے اور گواہی ٹھیک دی جائے گی۔
  • ۳۔ سب سے زیادہ اہم اور قابل توجہ بات یہ ہے کہ یہاں جرم و سزا کا کوئی قانون اور اس کے لیے گواہی کاکوئی ضابطہ زیر بحث نہیں، نہ اس آیت میں عدالت یا حکومت کو گواہی کی قبولیت کا کوئی ضابطہ دیا جارہا ہے جس کی بنیاد پر وہ جرائم کے ثبوت یا مقدمے کے اندراج کا فیصلہ کریں۔ یہاں معاہدات کا معاملہ زیر بحث ہے، جرائم اور حادثات کا نہیں جن میں گواہ کا انتخاب کرنا کسی کے لیے ممکن نہیں ہوتا (اس معاملے کی تفصیل ہم آگے ’’شریعت اور فقہ‘‘ کے عنوان کے تحت بیان کریں گے)۔ معاہدات اور دستاویز لکھتے وقت گواہ مقرر کرنے کا اختیار فریقین کو ہوتا ہے، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے گواہی کا ایک معیار اپنی طرف سے تجویز کیا ہے۔کوئی شخص ایسا نہ کرے تو یقیناً یہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی ہے، مگر اس بنیاد پر عدالت اس کی بات سننے سے انکار نہیں کرے گی۔ عدالت کے کام کرنے کے اپنے طریقے ہوتے ہیں۔فرض کیجیے کہ عدالت کے پاس قرض کی رقم پر اختلاف کا کوئی مقدمہ آتا ہے جس کی کوئی تحریر اور گواہ نہیں، لیکن مدعی کسی اور ذریعے سے، مثلاً بنک ریکارڈ سے ثابت کردیتا ہے کہ وہ ایک لاکھ روپے کا دعویٰ کررہا ہے تو اس نے ایک لاکھ ہی کی رقم ملزم کو دی ہے۔ ایسی صورت میں عدالت اپنا فیصلہ اس کے حق میں کردے گی۔ اس معاملے میں بنک کا ریکارڈ، چاہے کسی خاتون نے مرتب کیا ہو یا مرد نے ،فیصلہ کن گواہ بن جائے گا۔ 
  • اس تفصیل سے یہ بات واضح ہے کہ قرآن کریم اس مقام پر یہ نہیں بتارہا کہ خواتین کی گواہی مردوں سے آدھی ہوتی ہے،یہاں ایک معاشرتی ہدایت کا بیان ہے جس سے لین دین کے معاملات میں اول تو اختلاف پیدا نہیں ہوگا اور ہوگا توبآسانی اس کا فیصلہ کیا جاسکے گا۔ آیت کا سیاق و سباق ، موقع و محل اور نظم کلام ،قرآن مجیدکے اس مدعا کو پوری طرح واضح کردیتے ہیں۔
بشکریہ: ریحان احمد یوسفی
مصنف : ابو یحییٰ
Uploaded on : May 25, 2016
3791 View