نبوت اور رسالت کا فرق - ابو یحییٰ

نبوت اور رسالت کا فرق

 فکر فراہی کی علمی خدمات کا چوتھا میدان جس نے علم کی روایت اور عملی دنیا کے معاملات پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں، وہ نبوت و رسالت کا فرق متعین طور پر واضح کرنا ہے۔یہ مسئلہ اپنے نتائج کے اعتبار سے بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ایک مسلمان کی زندگی کا نصب العین کیا ہونا چاہیے، اسے اپنی زندگی اسلامی انقلاب برپا کرنے کے لیے وقف کردینی چاہیے یا دین اس کے سامنے کوئی اور مقصد رکھتا ہے؟ مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان تعلقات کی اصل نوعیت جنگ کی ہے یا دعوت کی ؟ مسلمانوں کو غیر مسلم رعایا سے خراج وصول کرنا چاہیے؟ مرتد کی سزا موت ہے؟ اس نوعیت کے متعدد سوالات ہیں جن کا درست جواب اس معاملے کو سمجھنے سے ملتا ہے۔

قرآن کریم دین کی بنیادی کتاب ہے۔امام فراہی اور ان کے تلامذہ کی علمی تحقیقات کی بنیاد قرآن پاک پر رکھی گئی ہے اور یہ مسئلہ یہیں سے حل ہوتا ہے۔ ان اہل علم کے مطابق قرآن میں نبی اور رسول کا فرق اس طرح واضح کیا گیا ہے کہ نبی اللہ کا پیغام بندوں تک پہنچاتا ہے، جبکہ رسول بندوں کو پیغام پہنچانے کے ساتھ دنیا میں ان کے لیے اللہ تعالیٰ کی عدالت قائم کرکے ان کی سزا و جز اکا فیصلہ بھی سنا دیتا ہے۔اس بات کا مطلب یہ ہے کہ نبی لوگوں کو جنت کی طرف بلانے اور جہنم کے عذاب سے متنبہ کرنے تک محدود رہتا ہے ۔لوگ اس پرایمان لے آتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں بروزقیامت سرخ رو ہوں گے ۔وہ اس کی بات کا انکار کردیتے ہیں تو اس روز اللہ تعالیٰ کی گرفت میں آجائیں گے۔ ان نبیوں میں سے کچھ کو اللہ تعالیٰ منصب رسالت پر فائز کردیتا ہے۔یہ لوگ نہ صرف اللہ تعالیٰ کا پیغام بندوں تک پہنچاتے ہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ معجزات اور بینات کے ذریعے سے ، عالم اسباب میں ان رسولوں کی قوم پر یہ بات بالکل واضح کردیتے ہیں کہ یہ نبی واقعتا اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے، یعنی اللہ کے رسول ہیں۔یہ رسول اپنی قوم پر یہ بھی واضح کردیتے ہیں کہ اس نے ان رسولوں کی بات نہیں مانی تو آخرت سے قبل اس دنیا ہی میں انھیں خدا کے عذاب کا سامنا کرناہوگا۔ایک خاص وقت تک اس قوم کو مہلت دی جاتی ہے تاکہ رسول کاپیغام اس پر پوری طرح واضح ہوجائے۔اس کے بعد بھی جب وہ جان بوجھ کر ضد، تعصب اور خواہشات کی پیروی کی بنا پر سچائی کو قبول نہیں کرتی تو اس قوم کا فیصلہ اسی دنیا میں کردیا جاتا ہے۔

چنانچہ، وہ عذاب جس کی وعید رسول کرتے تھے،ظاہر ہوتا اور نافرمانوں کو ہلاک کردیا جاتاہے۔ دوسری طرف اہل ایمان اس عذاب سے بچالیے جاتے اور انھیں زمین کا وارث بنادیا جاتاہے۔ قرآن پاک میں قوم نوح، قوم عاد، قوم ثمود، آل فرعون، قوم شعیب اور قوم لوط وغیرہ کی داستان بار بار اسی پس منظر میں دہرائی گئی ہے۔ اور اس لیے دہرائی گئی ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک نبی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک رسول بھی تھے اور ان کے ابتدائی مخاطبین کا معاملہ بھی اسی اصول پر ہونا تھا۔ چنانچہ دنیا نے دیکھا کہ ان کے ساتھ یہی ہوا۔حضور کی دعوت کا انکار کرنے والوں کی جڑ سرزمین عرب سے کاٹ دی گئی، مگر اس دفعہ اللہ کے رسول پر ایمان لانے والوں کی تعداد کافی تھی اور انھیں مدینہ میں اقتدار بھی حاصل ہوگیاتھا۔ اس لیے خدا کا عذاب نافرمانوں پر اہل ایمان کی تلواروں کے ذریعے سے نازل ہوا (التوبہ ۹: ۱۴)۔ آخر کار ایک مشرک بھی سرزمین عرب میں باقی نہ رہا ۔ دوسری طرف حضور کے ماننے والے ربع صدی میں ساری متمدن دنیا کے حکمران بن گئے۔ رسالت کے اس قانون کی تفصیل استاذ گرامی کی تصنیف ’’میزان‘‘ کے باب ’’قانون دعوت‘‘ نیز راقم کی کتاب ’’عروج و زوال کا قانون اور پاکستان ‘‘میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔

مسلمان کی زندگی کا مقصد

اس بحث کے آغاز میں ہم نے کچھ سوالات اٹھائے تھے اور یہ بتایا تھا کہ ان اہم سوالات کا جواب اسی معاملے کو سمجھنے میں پوشیدہ ہے۔ ان تمام سوالات کا جواب اس مختصر تحریر میں دینا ممکن نہیں ہے۔البتہ، اس سلسلے کا پہلا سوال ایک مسلمان کے لیے بنیادی اہمیت کا حامل ہے، کیونکہ یہ اس کی نجات کا مسئلہ ہے، یعنی ایک مسلمان کی زندگی کا نصب العین کیا ہونا چاہیے اور خد اکی جنت میں جانے کے لیے اسے اس دنیا میں کیا کرنا چاہیے؟

دور جدید میں بعض اہل علم نے دیکھا کہ حضور نے ایک داعی کی حیثیت سے اپنی زندگی کا آغاز کیا اور آخر کار ایک عظیم انقلاب برپا کردیا۔اس انقلاب کے نتیجے میں ایک حکومت قائم ہو گئی۔ انھوں نے اس سے یہ نتیجہ نکالاکہ اسلامی انقلاب کی جدو جہد اور اس کے نتیجے میں حکومت الٰہیہ یا خلافت کا قیام ہر مسلمان کی زندگی کا مقصد ہونا چاہیے۔ اسے اس انقلاب کو برپا کرنے کے لیے کوئی جماعت قائم کرنی چاہیے یا پہلے سے قائم کسی جماعت میں شامل ہو کر جدو جہد کرنا چاہیے۔

تاہم، جیساکہ ہم نے وضاحت کی ہے، اصل معاملہ بالکل مختلف ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول تھے۔ اس حیثیت میں یہ لازم تھا کہ وہ اور ان کے صحابہ غالب آئیں۔ اس غلبے کا فطری نتیجہ انقلاب اور اقتدار تھا، مگر یہ کسی قسم کی جدو جہد کا ثمر نہیں ، بلکہ یہ ایک خدائی فیصلے کا ظہور تھا۔قرآن کریم میں اس بات کو مختلف حوالے سے بیان کر دیا گیاہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

’’اللہ نے لکھ رکھا ہے کہ بے شک میں غالب رہوں گا اور میرے رسول بھی۔ بے شک، اللہ بڑا ہی زورآور اور غالب ہے۔‘‘ (المجادلہ ۵۸ :۲۱)

’’ و ہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ وہ اسے تمام ادیان پر غالب کر دے، خواہ ان مشرکوں کو یہ بات کتنی ہی ناگوار گزرے۔‘‘ (الصف۶۱ :۹)

چنانچہ اللہ تعالیٰ کا یہ فیصلہ ظہور میں آیا ۔ مسلمانوں کی قلت تعداد اور کمزوری کے باوجود دنیا نے دیکھا کہ اپنی دعوت کا آغاز تنہا کرنے والی ہستی کچھ ہی عرصہ میں سرزمین عرب پر غالب آگئی ۔ تمام ادیان مغلوب ہوگئے اور خدا کا دین غالب ہوگیا۔یہ سب اللہ تعالیٰ کی خصوصی تائید سے ہوا ۔ اگر انسانوں میں سے کچھ لوگ آپ کا ساتھ نہ دیتے تو اللہ تعالیٰ کفار پر فطرت کی طاقتوں کو مسلط کرکے انھیں ہلاک کردیتا۔ اس سے قبل یہی ہوتا رہا تھا، مگر جب صحابۂ کرام نے اسلام قبول کرلیا تو خدائی عذاب کے لیے ان کی تلواروں کا انتخاب کیا گیا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

’’تم ان سے لڑو، اللہ تمھارے ہاتھوں سے ان کو سزا دے گا ، ان کو رسوا کرے گا، تم کو ان پر غلبہ دے گا۔‘‘(التوبہ۹ :۱۴) 

یہ رسالت کے نتیجے کے طور پر آنے والی سزا کا بیان تھا، جبکہ جزاکے طورپراہل ایمان کو غلبہ اور زمین کااقتدار دے دیا گیا۔ انھیں زمین کا حکمران بنادیا گیا۔ یہ ایک خدائی فیصلہ تھا ۔یہ کسی انقلابی جدو جہد کا ثمر نہ تھا۔اس فیصلے کا اعلان،اس کے ظہور سے قبل،یوں کیا گیا:

’’تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور جنھوں نے اعمال صالحہ کیے، ان سے اللہ کا وعدہ ہے کہ ملک میں ان کو اقتدار بخشے گا، جیسا کہ ان لوگوں کو اقتدار بخشا جو ان سے پہلے گزرے اور ان کے لیے ان کے اس دین کو متمکن کرے گا جس کو ان کے لیے پسندیدہ ٹھہرایا اور ان کی اس خوف کی حالت کے بعد اس کو امن سے بدل دے گا۔‘‘ (النور۲۴ :۵۵) 

اس تفصیل سے واضح ہے کہ یہ معاملہ ہر مسلمان کے لیے نہیں ہے۔ قرآن میں اسے اس طرح بیان نہیں کیا گیا۔ یہ مسلمانوں کی زندگی کا نصب العین نہیں ہے کہ وہ حضور کے طریقے پر انقلاب برپا کرنے کی کوشش کریں۔حضور کاعرب پر غلبہ سرے سے کوئی انسانی واقعہ نہیں تھا، بلکہ، جیسا کہ ہم نے واضح کیا ہے کہ یہ ایک خدائی فیصلے کا ظہور تھا۔ایک عام مسلمان کے لیے کرنے کا کام یہی ہے کہ وہ حضور کی دعوت کے مطابق ایمان اور عمل صالح کو اختیار کرے۔ اپنے نفس کو پاکیزہ تر بنائے۔ اپنے حلقے اور دائرۂ اثر میں لوگوں کو نیکیو ں کی تلقین کرے اور برائی سے روکے۔ جہاں دین کو اس کی مدد و نصرت درکار ہو، وہاں اپنی بھرپور استعداد کے مطابق اس کام کے لیے اٹھے۔ یہ سب کرنے کے بعد قرآن ہمیں یہ یقین دلاتا ہے کہ جنت میں اس کا داخلہ یقینی ہے۔

کیا فکر فراہی ایک نئے فرقہ کی بنیاد ہے؟

ایک سوال اس موقعے پر ذہنوں میں پیدا ہوسکتا ہے، وہ یہ ہے کہ جن شخصیات کا ہم نے اوپر ذکر کیا ،آیا وہ کوئی نئے لوگ ہیں؟ان کا ہمارے اسلاف کی دینی روایت سے کوئی تعلق نہیں؟ایک دوسرا سوال یہ پیدا ہوسکتا ہے کہ فکر فراہی کے نام پر کسی نئے فرقے کی بنیاد تو نہیں پڑچکی ؟

پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ امام فراہی اور ان کے شاگردوں کا سلسلہ دین کی قدیم روایت ہی کا ایک حصہ ہے۔ اوپر جن شخصیات کا ہم نے ذکر کیا، ان میں سے ہر شخص کے اساتذہ میں قدیم دینی روایت کے اہل علم، اور قدیم دینی تعلیم کا پس منظر شامل ہے۔ان تینوں اہل علم نے ابتدا میں قدیم طریقے پر عربی ،فارسی اور قرآن کریم کی تعلیم حاصل کی۔ پھر قدیم دینی روایت کا علم حاصل کیا۔ فراہی کے اساتذہ میں علامہ شبلی نعمانی، مولانا عبد الحئی فرنگی محلی اور مولانا فیض الحسن سہارنپوری جیسے قدیم روایت کے بڑے لوگ شامل تھے۔ اصلاحی صاحب نے روایتی دینی تعلیم کی تکمیل کے بعد ایک صاحب سند محدث اور عالم دین مولانا عبد الرحمن مبارک پوری سے علم حدیث کی باقاعدہ تحصیل کی ۔ جاوید صاحب کی ابتدائی تعلیم گو سرکاری اسکول میں ہوئی، لیکن اس کے ساتھ ساتھ قدیم علمی روایت کے مختلف اہل علم سے عربی، فارسی اور درس نظامی کی تعلیم بھی انھوں نے حاصل کی ۔اہل علم سے دینی تعلیم کا یہ سلسلہ بعد میں بھی جاری رہا ۔مثلاً گورنمنٹ کالج کے زمانے میں حدیث کی کتاب ’’دارمی ‘‘کا ایک حصہ مولانا عطا للہ حنیف صاحب سے پڑھا۔

ان اہل علم کا جو کام سامنے ہے، وہ صاف بتاتا ہے کہ موجودہ دور میں دینی مدارس میں رائج درس نظامی تو محض ایک ابتدائی چیز ہے ، امت کی چودہ سو سالہ علمی روایت پر ان کی محققانہ نظر ہے، مگر کم علمی کے اس دور میں جب درس نظامی دینی علم کی معراج سمجھا جاتا ہے ،یہ بتانا ضروری ہے کہ یہ لوگ درس نظامی کا مکمل پس منظر رکھتے ہیں، ورنہ حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ اسلاف کی اس قدیم روایت کا حصہ ہیں جس میں دینی ماخذوں پر براہ راست نظر اوردین پر زندہ غور و فکر کے بغیر کوئی شخص عالم کا مقام حاصل نہیں کرسکتا تھا۔

جہاں تک دوسرے سوال کا جواب ہے تو واضح رہنا چاہیے کہ فرقہ اس وقت وجود میں آتا ہے جب کسی امام فن کی بات کو حرف آخر سمجھ کر اس سے اختلاف کو جرم سمجھا جائے۔ فکر فراہی کا بنیادی امتیازیہی ہے کہ اس نے ہمارے اسلاف کی اس قدیم روایت کو پھر زندہ کیا ہے جو اختلاف راے کے باوجود احترام پر مبنی تھی۔جس روایت میں امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام ابویوسف، امام محمد، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل ایک دوسرے کے استاد شاگرد ہونے کے باوجود آپس میں اختلاف کرتے تھے۔اسی طرح اصلاحی صاحب، فراہی سے متعدد جگہ اختلاف کرتے ہیں اور غامدی صاحب کی آرا متعدد مقامات پر اصلاحی صاحب سے بالکل مختلف ہیں۔ ان کو یکجا کرنے والی چیز صرف یہ ہے کہ ان کے دین سمجھنے کا بنیادی اصول یکساں ہے، وہ یہ ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہستی دین کا تنہا ماخذ ہے اور آپ نے قرآن و سنت کی شکل میں ہم تک جو دین پہنچایا ہے، وہ ہدایت کے معاملے میں حرف آخر ہے ۔

آخری بات

یہاں یہ بات واضح کرنا ضروری ہے کہ ان ائمہ کے کام میں عقائد، عبادات اور اخلاقیات کے حوالے سے کوئی چیز ایسی نہیں جو نئی ہو۔ ان معاملات میں انھوں نے دین کی قدیم تعبیر کو نئے استدلال اورزور کے ساتھ پیش کرنے کی خدمت ہی سر انجام دی ہے۔ مزید یہ کہ دین کی بعض بنیادی باتوں میں جو انحرافات پیدا ہوگئے تھے، اس میں اسلاف کے نقطۂ نظر کو ایک نئی شان کے ساتھ اجاگر کیا ہے۔ اس کی ایک مثال دین کا وہ نصب العین ہے جو سیاسی انقلاب کی شکل میں بیان کیا جاتاہے، اس کی تفصیل ہم اوپر کرچکے ہیں، یہ درحقیقت اسلاف کے فہم دین سے ایک انحراف تھا۔یہ انحراف کسی فروعی معاملے میں نہیں، بلکہ دین کی بنیاد میں ہوا، مگر ان اہل علم نے پوری شان سے صحیح بات کو پیش کیا ۔ یہ دراصل اسلاف کے موقف کا دفاع تھا جو نئے اور مضبوط دلائل کے ساتھ کیا گیا۔

ان اہل علم کے پورے کام کا بمشکل ایک فیصد حصہ ایسا ہے جس میں یہ قدیم تعبیر سے مختلف نظر آتے ہیں۔ اس کی بعض مثالیں اوپر گزری ہیں، جیسے تصویر یا عورت کی گواہی وغیرہ، مگر ان معاملات میں، جیسا کہ ہم نے واضح کیا ، مسئلہ قدیم یا جدید کا نہیں، بلکہ دلیل کا ہے۔دلائل یہ بات واضح کرتے ہیں کہ قدیم روایت کے بیش تر اہل علم، بعض وجوہات کی بنا پر، اصل مدعا کو متعین نہ کرسکے۔

اس بات میں بھی، بلاشبہ اللہ تعالیٰ کی ایک حکمت کا ظہور ہے، وہ یہ کہ اسلام ہر زمانے کا دین ہے۔خدا ہر دور میں اس کا تحفظ کرے گا۔قرآن کریم کے معجزات کبھی ختم نہیں ہوں گے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کبھی بنجر نہیں ہوگی۔اہل حق ہر طرح کی مخالفت کے باوجود سچائی پیش کرتے رہیں گے۔ قرآن و حدیث میں اس امت کے آخری حصے کے بارے میں یہ بات بیان کر دی گئی ہے۔

آج اسلام کا پیغام اور اس کی تعلیمات اپنی اصل شکل میں نکھر کرسامنے آگئی ہیں۔اب وقت آگیا ہے کہ اسلام کی دعوت اٹھے اور دنیا کے ہر گوشے میں پھیل جائے۔گلوبل ایج میں اسلام کی دعوت ہر گھر میں پہنچ جائے۔ہر سوال کا جواب دیا جائے۔ ہر شک کودور کیا جائے۔ہر اعتراض کو رفع کیا جائے۔ہر شبہ کا جواب دیا جائے۔

اب وقت آگیا ہے کہ لوگ اٹھیں اور دین کی دعوت کے لیے خود کو وقف کردیں۔وہ اپنا سرمایہ نصرت دین میں لگائیں۔ اپنا وقت دین سیکھنے میں صرف کریں۔اپنی صلاحیت دین کے ابلاغ میں خرچ کریں، اس لیے کہ قیامت کا وعدہ قریب آگیا ہے۔

 -------------------

۱؂ ماہنامہ الندوہ، دسمبر۱۹۰۵۔

۲؂ تفصیل کے لیے ملاحظہ کیجیے ان کی کتاب ’’میزان‘‘ کا مقدمہ ’’اصول و مبادی‘‘۔ 

 --------------------------------------------------

 

بشکریہ ریحان احمد یوسفی

 

مصنف : ابو یحییٰ
Uploaded on : May 25, 2016
4681 View