ڈاکٹر فاروق خان شہید کا ’متبادل بیانیہ‘ - خورشید احمد ندیم

ڈاکٹر فاروق خان شہید کا ’متبادل بیانیہ‘

 ڈاکٹر محمد فاروق خان شہید کا 'متبادل بیانیہ‘ میرے سامنے رکھا ہے اور گزرے ماہ و سال ایک فلم کی طرح ذہن کے پردے پر رنگ بکھیر رہے ہیں۔ انسانی لہو کا رنگ ان رنگوں میں سب سے نمایاں ہے۔

جب مذہب کے نام پر دہشت گردی کا عذاب، اس سرزمین پر اترا تو اس کے خلاف اٹھنے والی پہلی آواز استادِ گرامی جاوید احمد صاحب غامدی کی تھی۔ انہوں نے دلائل کے انبار لگا دیے کہ یہ مذہب کا ایک محرف بیان ہے۔ اللہ کی کتاب اس کی تائید کرتی ہے اور نہ ہی اللہ کے آخری رسول سیدنا محمدﷺ کے ارشادات۔ یہ مذہب کا بیان نہیں، وحشت ہے۔ اللہ کا دین اس سے پاک ہے کہ اس کے نام پر بے گناہ لوگوں کا خون بہایا جائے اور زمین کو دارالفساد بنا دیا جائے۔ اُس وقت چند افراد ہی اس کا ادراک کر سکے کہ ریاست اور اہلِ مذہب کا رخ کسی اور طرف تھا۔ جنہوں نے اس سچائی کو ابتدائی مرحلے ہی میں پہچانا اور قبول کیا، ان میں سے ایک ڈاکٹر فاروق خان شہید بھی تھے۔
مذہب کی اُس تعبیر کے اثرات آج سب نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیے۔ ریاست اور اہلِ مذہب دونوں نے جان لیا کہ کس طرح دینِ حق میں تحریف کی گئی اور دین سے محبت رکھنے والے نوجوانوں کو گمراہ کیا گیا۔ آج اس کا اعتراف کبھی 'پیغامِ پاکستان‘ کی صورت میں ہو رہا ہے اور کبھی عسکری تنظیموں کو کالعدم قرار دینے کی شکل میں۔ آج سب نے اس بیانیے سے رجوع کر لیا ہے جو کم و بیش چالیس سال تک ملتِ اسلامیہ کا غالب بیانیہ بنا رہا۔
بچشمِ سر نتائج دیکھنے کے بعد رجوع غنیمت ضرور ہے مگر بصیرت کا اظہار نہیں۔ بصیرت یہ ہے کہ حادثہ ہونے سے پہلے آثار کو بھانپ لیا جائے تاکہ حادثے سے محفوظ رہا جا سکے۔ افسوس کہ حادثہ ہو گیا۔ ہمارا سماج اجڑ گیا۔ ہماری ریاست خطرات میں گھر گئی۔ ہمارے ہزاروں لوگ جان سے چلے گئے۔ ہم اجتماعی طور پر نفسیاتی مریض بن گئے۔ ڈاکٹر فاروق خان ایک نفسیاتی معالج بھی تھے۔ انہوں نے بہت پہلے اس کی تشخیص کر دی تھی۔ نفسیاتی مریض کا ایک بڑا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ وہ خود کو مریض نہیں سمجھتا۔ لوگوں نے خود کو مریض سمجھنے سے انکار کیا اور معالج ہی کو مار ڈالا۔
اکتوبر2010ء میں ڈاکٹر فاروق خان کو شہید کر دیا گیا۔ وہ اپنے مطب میں اللہ کے اذن سے شفا بانٹ رہے تھے۔ قاتل مریض کے بہروپ میں داخل ہوئے اور اپنے ہی ایک خیر خواہ اور معالج کے سینے میں گولیاں اتار گئے۔ ڈاکٹر صاحب نے اس 'متبادل بیانیہ‘ کے لیے اپنی جان دے دی۔ یہ سلوک کسی ایک مسیحا کے ساتھ نہیں ہوا۔ جاوید غامدی صاحب کو ملک چھوڑنا پڑا۔ اس سے پہلے مولانا حسن جان کی جان بھی لے لی گئی اور پھر مفتی سرفراز نعیمی بھی مار ڈالے گئے۔ آج ہم نے رجوع تو کر لیا مگر کہیں ان شہیدوں کو یاد نہیں کیا، جنہوں نے یہ سب کچھ سمجھاتے سمجھاتے اپنی جانیں قربان کر دیں۔
ڈاکٹر فاروق خان نے سوچ سمجھ کر اس راستے کا انتخاب کیا۔ ہر کوئی جانتا تھا کہ غالب بیانیے والے ان کی جان کے درپے ہیں۔ دوستوں نے بارہا ان سے کہا کہ وہ کم از کم اپنی رہائش ہی تبدیل کر لیں کہ ان کا علاقہ اب مقتل بن چکا۔ وہ اس کے لیے آمادہ نہ ہوئے۔ ان کاکہنا تھا کہ اپنی قوم میں انذار کرنا اور شہادتِ حق دینا ان کی ذمہ داری ہے اور وہ اس راستے میں بخوشی اپنی جان دے دیں گے۔ انہوں نے جان دے دی اور اپنے رب کے ساتھ اپنا پیمان نبھا دیا۔ ان کی شہادت پر غامدی صاحب نے اپنے جذبات کو منظوم کیا: 
وہ قتل گاہوں میں شاخِ زیتون لے کے پھرتا رہا ہمیشہ
اگرچہ برسوں سے اپنے قابیل کے ارادوں کو جانتا تھا
ڈاکٹر فاروق خان نے اپنا 'متبادل بیانیہ‘ پورے ابلاغ کے ساتھ قوم کے سامنے رکھا۔ کتابوں کی صورت میں۔ خطبات کے ذریعے۔ ٹی وی پروگراموں کی معرفت اور اخباری کالموں کی شکل میں۔ ان کے کالم اور مقالات بکھرے ہوئے تھے۔ برادرم ممتاز الدین اور برادرم محمد یونس نے انہیں مرتب کیا‘ اور ڈاکٹر حسن الامین نے اسلامی یونیورسٹی کے ادارے 'اقبال انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار ریسرچ اینڈ ڈائیلاگ‘ کے زیرِ اہتمام کتابی شکل میں شائع کر دیا۔ 
ڈاکٹر حسن الامین نے اس ادارے کو علمی مکالمے کا ایک متحرک ادارہ بنا دیا ہے۔ 'متبادل بیانیہ‘ کے عنوان سے انہوں نے اس علمی اور فکری کام کو مرتب کرنے کا ارادہ کیا‘ جو گزشتہ ماہ و سال میں سامنے آیا۔ ڈاکٹر فاروق خان کی کتاب بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ اس عنوان سے وہ مزید کتب بھی سامنے لا رہے ہیں۔ مقصود یہ ہے کہ اسلام، ملتِ اسلامیہ اور بطورِ خاص پاکستان کو جن سماجی، سیاسی اور معاشی چیلنجوں کا سامنا ہے‘ ان پر سنجیدہ اور علمی پیرائے میں بحث کو فروغ دیا جائے۔ اس سے علمی مکالمے کی روایت آگے بڑھے اور سماج کا تہذیبی ارتقا ہو۔
اس مجموعے میں، ڈاکٹر فاروق خان کی جن تحریروںکا انتخاب شامل ہے، وہ مذہب، سیاست اور عالمِ اسلام کے بارے میں ہیں۔ یہ وہ مضامین ہیں جو 2004ء اور 2005ء کے دوران میں لکھے گئے۔ انہی دنوں میں کے پی میں متحدہ مجلسِ عمل کی حکومت تھی‘ جس نے ایک حسبہ بل منظور کیا تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے اس کا علمی محاکمہ کیا ہے۔ اسی طرح عسکریت پسند رجحانات کا مختلف علمی، سیاسی اور سماجی زاویوں سے جائزہ لیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کو اللہ تعالیٰ نے اپنی بات کو عام فہم اور سادہ بنانے کا خصوصی ملکہ عطا کیا تھا۔ اس کتاب میں شامل مضامین ان کی اس صلاحیت کا عملی اظہار ہیں۔
ڈاکٹر صاحب نے جب ایک اخبار میں اپنے کالم شروع کیے تو ابتدا ہی میں اپنا سیاسی نظریہ بیان کر دیا تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے لکھا: ''امت مسلمہ کے لیے لائحہ عمل تجویز کرتے وقت، میں جذبات کے بجائے حکمت، ہوش مندی اور عملی حقائق کو پیشِ نظر رکھتا ہوں۔ میرے نزدیک مسلمانوں کی موجودہ زبوں حالی کی ایک بڑی وجہ ان کی جذباتیت، خوش فہمی اور حقیقت سے عاری سوچ ہے‘‘۔
ڈاکٹر صاحب اس نقطہ نظر کے مضمرات سے آگاہ تھے۔ انہوں نے لکھا: ''میرا یہ مسلک ذاتی طور پر میرے لیے بہت نقصان دہ ہے۔ اس لیے کہ اس کی وجہ سے ایک بڑا طبقہ مجھے بزدل، بلکہ امریکی ایجنٹ سمجھتا ہے؛ تاہم چونکہ میں امتِ مسلمہ کا مفاد اسی میں سمجھتا ہوں کہ نعرے بازی اور کھوکھلے دعووں کے برعکس، زمینی حقائق کی بنیاد پر لائحہ عمل بنایا جائے، اس لیے میں جان بوجھ کر بد نامی کا یہ تاج اپنے سر پہننے کے لیے تیار ہوں‘‘۔
واقعہ یہ ہے کہ یہ بد نامی کا نہیں، شہادتِ حق کا تاج تھا۔ وہ بزدل نہیں، صاحبِ عزیمت تھے۔ ڈاکٹر صاحب سب الزامات سے پاک دنیا سے رخصت ہو گئے۔ ان کی کتابیں ان کی بصیرت اور دور اندیشی کی گواہی دیتی رہیں گی۔ 12 مارچ کو مردان میں 'متبادل بیانیہ‘ کی تقریب رونمائی ہوئی۔ برادرم سلیم صافی سمیت ان کے احباب نے اپنے تاثرات بیان کیے‘ اور سیاسی جماعتوں کی مقامی قیادت نے بھی انہیں خراجِ تحسین پیش کیا۔
آج ملک بھر میں متبادل بیانیوں کا غوغا ہے لیکن ڈاکٹر فاروق شہید کا کہیں ذکر نہیں۔ وہ اس کے مستحق تھے کہ کم از کم سوات کی اس یونیورسٹی کو ان سے منسوب کر دیا جاتا جسے انہوں نے اپنا لہو دے کر آباد کیا۔ جہاں خود کش حملہ آور تیار ہوتے تھے، آج وہاں علوم کے ماہرین تیار ہو رہے ہیں‘ جو مستقل کا اثاثہ ہیں۔ کسی شاہراہ کو ان کے نام کر دیا جاتا جہاں کبھی خوف کا پہرہ تھا اور آج لوگ بے خوف ہو کر سفر کرتے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ احسان نا شناسی میں ہمارا ثانی کم ہی ہو گا۔
ریاستی رویے سے قطع نظر، جب بھی علمی سطح پر متبادل بیانیے کی بات ہو گی، یہ ممکن نہیں ہے کہ جاوید احمد غامدی اور ڈاکٹر فاروق خان جیسے لوگوں کو نظر انداز کیا جا سکے۔ ایک کو ملک سے جانا پڑا‘ اور دوسرے کو جان سے۔ مبارک ہیں وہ لوگ جو زندگی میں شہادتِ حق کا فریضہ سرانجام دیتے، اس کی قیمت ادا کرتے اور اپنے رب کے حضور میں سرخرو ہوتے ہیں۔
بشکریہ روزنامہ دنیا، تحریر/اشاعت 16 مارچ 2019
مصنف : خورشید احمد ندیم
Uploaded on : Mar 16, 2019
2486 View