بندۂ مومن کا رویہ

بندۂ مومن کا رویہ

  ’’حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس شخص نے اس بات کی گواہی دی کہ اللہ کے سوا کوئی الہٰ نہیں ، وہ تنہا ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بند اور رسول ہیں اور (اس نے) اس بات کی گواہی دی کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ کے رسول ہیں ، وہ اس کی بندی کے بیٹے ہیں، وہ اللہ کا وہ کلمہ ہیں جسے اس نے مریم (علیھا السلام) کی طرف القا فرمایا اور وہ اس کی روح ہیں ۔ اور (وہ یہ بھی مانتا ہے کہ) جنت اور دوزخ حق ہیں (یعنی موجود ہیں) تو اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو (جو ان عقائد کا حامل ہو گا)جنت میں داخل کریں گے، اس کا عمل جو کچھ بھی رہا ہو ۔‘‘ (مشکوٰۃ، رقم ۲۷)

اس حدیث میں بحیثیت مجموعی معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں بندے سے اصل مطلوب چیز اس کا رویہ ہے اور وہ یہ ہے کہ اس نے اپنے آپ کو خدا کا بندہ سمجھا ، وہ خدا کابندہ بن کر جینے کے عہد کے ساتھ زندہ رہا اور زندگی کے آخری سانس تک اس نے بندگی کے حدود سے تجاوز نہ کیا۔
دنیا کی آزمایش دراصل انسان کی فکر اور اس کے علم اور رویے کا امتحان ہے ۔ اس میں اس کی آزمایش دو پہلووں سے ہوتی ہے :
۱۔ اس نے صحیح بات جاننے کے لیے کتنی اور کس درجے میں کوشش کی اور دنیا میں جو وسائل اسے میسر تھے ، ان میں سے اس نے اس مقصد کے لیے کیا کچھ صرف کیا اور کیا کچھ داؤ پر لگایا ۔
۲۔ حق جان لینے کے بعد اسے ماننے اور قبول کر لینے کے بارے میں اس کا رویہ کیا تھا۔ کہیں ایسا تو نہیں ہوا کہ موروثی عقائد ، گروہی تعصبات اور مسلکی اعتقادات قبول حق کے راستے کی رکاوٹ بن گئے ہوں ۔
دنیا میں آدمی جب زندگی کی تگ و دو کے لیے باہر نکلتا ہے تو ا س کا جسم اور کپڑے دونوں آلودہ ہوتے ہیں ۔ دن بھر کی مشقت اور جدوجہد کے بعد وہ جب واپس گھر آتا ہے تو سب سے پہلے اپنے جسم اور کپڑوں کی آلودگی کو دور کرنے کے لیے فکرمند ہوتا ہے ۔ اعمال کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے ۔ یہ ممکن نہیں کہ زندگی کی سرگرمیوں میں بندے سے کوئی گناہ سرزد ہی نہ ہو ۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کے تمام تر اخلاص، خشیت اور تقویٰ کے باوجود اس سے گناہ صادر ہو جاتے ہیں ۔ یہ گناہ روح کی غلاظت ہیں۔جسم اور کپڑوں کی آلودگی کی طرح گناہوں کے بارے میں سچے مومن کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کا دامن دل اگر گناہوں سے آلودہ ہو گیا ہے تو جتنی جلدی ممکن ہو ، وہ اسے توبہ کے پانی سے دھو ڈالے ۔ غلطیوں کا شعور او رگناہوں کی ندامت اسے اعتراف جرم کے ساتھ خدا کی بارگاہ میں حاضر ہو کر مغفرت طلب کرنے پر آمادہ کرتی ہے ۔ اس اعتبار سے دیکھیے تو توبہ گناہوں کا غسل ہے ۔ دین گناہوں سے دل کی طہارت اور خطاؤں سے روح کی پاکیزگی کا نام ہے ۔یہی پاکیزگی اسے آخرت میں خدا کی جنت کا حق دار بناتی ہے۔
اس سے واضح ہوتا ہے کہ دین کوئی مجموعۂ احکام نہیں ہے ، بلکہ یہ انسانوں کو پاکیزہ بنانے کی دعوت ہے ۔ شریعت کے احکام خیالات ، علم اور عمل ہی کی پاکیزگی کے لیے دیے گئے ہیں ۔ ایسی پاکیزگی کی ضرورت اس لیے ہے کہ خدا کی جنت پاکیزہ لوگوں کا ٹھکانا ہے ۔ لہٰذا اس کی جنت میں آبادہونے کے لیے پاکیزگی شرط ہے اور یہ دنیا ایسے ہی پاکیزہ لوگوں کے انتخاب کے لیے بنائی گئی ہے ۔
بندہ اگر یہ حقیقت سمجھ لے تو پھر اس کا اللہ ہی کو الہٰ ماننا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا کا بندہ اور رسول تسلیم کرنا ایک حسی واقعہ بن جاتا ہے پھر اس کے قول و فعل ہر وقت او رہر جگہ پر خدا کی الوہیت اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی شہادت دیتے ہیں۔ پھر وہ خدا کو ہر جگہ اور ہر وقت موجود پاتا ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اور اتباع اس کا شب و روز کا وظیفہ بن جاتی ہے ۔
حدیث کے آخر میں ’علی ما کان من العمل‘ (اس کا جو کچھ عمل بھی رہا ہو ) کے الفاظ آئے ہیں ۔ اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ حدیث میں عقائد و ایمانیات کے اقرار کے بعد اسے ہر برا بھلا کام کرنے کی آزادی حاصل ہو جاتی ہے اور یہ کہ محض اقرار کے بعد اس سے اعمال کی پرسش نہیں ہو گی ، بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مطلب یہ ہے کہ جو کچھ اوپر بیان ہوا اسے اختیار کر لینے کے بعد ایسا شخص خدا اور آخرت کے بارے میں یقین اور اعتماد کے اس درجے میں ہوتا ہے کہ وہ حتی الوسع نافرمانی سے بچنے کی کوشش میں رہتا ہے اور انسان ہونے کے ناتے جو گناہ اس سے سرزد ہو جاتے ہیں ، وہ ان کے فوراً بعد توبہ واستغفار کا راستہ اختیار کرتا ہے ۔ یہ جملہ خدا کے اپنے بندے پر اعتماد کا اظہار ہے ۔ یہ تو ہو سکتا ہے کہ ایسے مخلص شخص سے بڑے سے بڑا گناہ سرزد ہو جائے ، مگر یہ ناممکن ہے کہ وہ گناہ کے باوجود خدا سے بے پروا اور آخرت سے نچنت ہو کر زندہ رہے ۔ وہ لازماً توبہ کر کے گناہوں سے پاک ہو گا۔
اس حدیث کے آخری حصے میں حضرت عیسیٰ اور حضرت مریم علیھاالسلام کے بارے میں کچھ باتیں بیان ہوئی ہیں ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ باتیں وہاں ارشاد فرمائیں جہاں کچھ عیسائی بھی موجود تھے اور انھیں بھی دین کی دعوت دینا پیش نظر تھا۔
اس حدیث سے یہ اصول معلوم ہوتا ہے کہ کسی غیر مسلم کے دائرۂ اسلام میں داخل ہونے کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے سابقہ مذہب کے مخصوص باطل عقائد سے برأت کا اظہار کرے ۔
اس سے یہ بھی واضح ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مخاطب کی رعایت اور موقع محل کے اعتبار سے اپنی بات بیان کرتے تھے۔

_______

تاریخ: ستمبر 2002ء
بشکریہ: محمد اسلم نجمی

Uploaded on : Apr 08, 2016
2952 View