شہادت علی الناس: جناب جاوید احمد غامدی کے حلقے سے ڈاکٹر محمد مشتاق کے استفسارات - احمد بلال

شہادت علی الناس: جناب جاوید احمد غامدی کے حلقے سے ڈاکٹر محمد مشتاق کے استفسارات

 محترم ڈاکٹر مشتاق صاحب نے امامت، شہادت، اتمامِ حجت اور جہاد و عذاب وغیرہ کے متعلق غامدی صاحب کے مؤقف کی کچھ وضاحت طلب فرمائی ہے۔ اس تخصیص کے ساتھ کہ غامدی صاحب ہی کے الفاظ نقل کیے جائیں۔
عرض ہے کہ غامدی صاحب نے ان موضوعات پر تفصیل سے لکھا ہے۔ ان کی کتاب "ميزان" میں بالخصوص "قانونِ دعوت" اور "قانونِ جہاد" میں جا بجا اس پورے عنوان کی مختلف جہات سے وضاحت موجود ہے۔ اس کے علاوہ ان کی کتاب "مقامات" میں ان کا مضمون "خدا کے فیصلے" بھی اسی عنوان کی توضیحِ مزید پر مشتمل ہے۔ تفصیلات کے طالب انہیں اپنے مطالعے میں لا کر اپنے سوالات کے جوابات خود بھی پا سکتے ہیں۔ تاہم، کہیں کوئی اشکال رہ جائے تو ہم حاضر ہیں!
سوالات کی ترتیب سے وضاحت پیشِ خدمت ہے:

1۔ امامت اور شہادت

جی ان میں کچھ فرق ہے۔ منصبِ شہادت ذمہ داری کا بیان، جبکہ امامت اس ذمہ داری کو باحسن و خوبی ادا کر دینے کے نتیجے میں اعزاز و انعام کا بیان ہے۔ اسی لیے "إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا" کے بعد "لَا يَنَالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ" کی تخصیص کی گئی ہے۔ اس کو یوں بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ منصبِ شہادت کی ذمہ داریوں سے کما حقّہٗ عہدہ برآ ہونے کی صورت میں دنیا کی امامت سونپ دی جاتی ہے، جبکہ ان ذمہ داریوں سے دامن چرانے پہ ذلت و محکومی کی سزا مقدر کر دی جاتی ہے۔ اس کے متعلق غامدی صاحب کے صریح الفاظ تو نہیں مل سکے، پر اُن کے جا بجا بیانات سے یہ تفریق واضح ہے۔ جیسے مثلاً:
"ذریّتِ ابراہیم کا یہی منصب ہے جس کے تحت یہ اگر حق پر قائم ہو اور اُسے بے کم و کاست اور پوری قطعیت کے ساتھ دنیا کی سب قوموں تک پہنچاتی رہے تو اُن کے نہ ماننے کی صورت میں اللہ تعالیٰ اِن قوموں پر اُسے غلبہ عطا فرماتے ہیں اور اِس سے انحراف کرے تو اِنھی کے ذریعے سے ذلت اور محکومی کے عذاب میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ بنی اسرائیل اور بنی اسمٰعیل، دونوں اِس وقت اِسی عذاب سے دوچار ہیں۔" (ذرّيّتِ ابراھیم کی دعوت، قانونِ دعوت، ميزان)

2۔ ان مناصب سے بنی اسرائیل کی معزولی

بنی اسرائیل و اہلِ کتاب کو ان دونوں مناصب سے معزول کر دیا گیا، غامدی صاحب کے بیانات سے یہی اخذ ہوتا ہے۔ مثلاً البیان میں سورۃ بنی اسرائیل کی پہلی آیت کی تفسیر کا اختتام ان الفاظ پہ ہوا ہے: "خدا ہر عیب سے پاک ہے، لہٰذا وہ کسی طرح گوارا نہیں کر سکتا تھا کہ ایک قوم کو لوگوں پر اتمامِ حجت کے لیے منتخب کرے اور اُس کی طرف سے اس درجے کی سرکشی کے باوجود اُسے یوں ہی چھوڑے رکھے۔ ناگزیر تھا کہ پیشِ نظر مقصد کے لیے وہ کوئی دوسرا اہتمام کرے۔ اُس نے یہی کیا ہے اور عالمی سطح پر دعوت و شہادت کی ذمہ داری بنی اسمٰعیل کے سپرد کر دی ہے۔"
تاہم، اس میں ایک لطیف نکتے کی نشاندہی ضروری محسوس ہوتی ہے۔ وہ یہ کہ جس طرح اللہ ربّ العزّۃ نے معزولی کی صراحت نہیں فرمائی بلکہ بنی اسرائیل کی فردِ جرم اور بنی اسمٰعیل کو سپردگی سے یہ نتیجہ مخاطبین پہ چھوڑ دیا ہے، اسی طرح غامدی صاحب کے بیانات کا بھی اصل زور اسی جانب رہا ہے کہ بنی اسمٰعیل کو ان ذمہ داریوں کا احساس دلایا جائے۔ پس، اگر یہ کہا جائے تو شائید بے جا نہ ہو کہ منصبِ امامت تو عیاں طور پر ان سے لے لیا گیا ہے، پر منصبِ شہادت کے بارے میں قطعی تصریح سے خدا نے یا تو با مقصد گریز فرمایا ہے، یا ضرورت محسوس نہیں فرمائی۔ البتہ، انسانی عقل جس طرح آپریٹ کرتی ہے، یہ ابہام "negligible" ہے، اور لكل غاية مفيدة ان کی معزولی ہی متصوّر ہے۔

3۔ شہادت علی النّاس اور اتمامِ حجت

اس ضمن کی تفصیل "قانونِ دعوت" کے باب میں ہر اعتبار سے زیرِ بحث آ گئی ہے۔ کوئی کسر اگر پھر بھی محسوس ہوتی ہے تو وہ اگلے ہی باب "قانونِ جہاد" میں واضح ہو جاتی ہے، یا "خدا کے فیصلے" میں رفع۔ اتمامِ حجت شہادت علی النّاس کے مراحل میں سے ایک مرحلہ ہے۔ اس کا تعلق رسولوںؑ کی شہادت کے ساتھ خاص ہے۔بلکہ جن مراحل سے رسولوںؑ کی شہادت کا بیڑا گزرتا ہے، اور جن کی تخریج غامدی صاحب نے انذار، انذارِ عام، اتمامِ حجت، ہجرت و براٴت، اور جزا و سزا کے مراحل کی صورت میں "پیغمبر کی دعوت" کے زیرِ عنوان کی ہے، ان میں کا ہر ہر مرحلہ خاص خدائی فرمان کا مرہونِ منت بتلایا ہے، جسے رسولؑ کی عدم موجودگی میں جاننے کا، ظاہر ہے کوئی طریقہ دستیاب نہیں ہو سکتا۔ خود رسل علیھم الصلوٰۃ و السلام بھی ان مراحل کے آغاز کا فیصلہ نہیں کر سکتے؛ انہیں بھی بس اللہ کے اذن کا انتظار ہی کرنا ہوتا ہے ۔ چونکہ محولہ بالا پورے ابواب اسی موضوع پر وارد ہیں اس لیے یہاں کسی خاص اقتباس کے نقل کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔
تاہم، جب شہادت علی الناس کی ذمہ داری رسولوں کے متّبعین پہ بھی ڈال دی جائے، اور جیسا کہ بنی اسمٰعیل پہ ڈال دی گئی، تو یہ سوال حل طلب ہو جاتا ہے کہ متّبعین پر تکلیف کی نوعیت کیا ہے۔ چنانچہ غامدی صاحب کی "line of reasoning" کو جو شخص "follow" کرتا ہوا اس سوال تک پہنچے تو اس کے لیے اتنا جواب تو بالکل واضح ہے کہ ان کے اپنے کی دعوت سے نہ تو اتمامِ حجت کے یقین کی کوئی صورت ہے، اور نہ اس کے نتیجے میں جزا و سزا کا کوئی فیصلہ ان کے اختیار میں ہی ہے۔ بلکہ غامدی صاحب نے تو دعوت کے اس باب میں یہی نہیں کہ پیغمبرؑ اور اُمّت کے درمیان واضح فرق نمایاں کیا ہے، اُمت کے بھی مختلف گروہوں کی تقسیم کر کے ذمہ داری کی نوعیت بیان کی ہے۔ قانونِ دعوت کے ابتدائیے میں لکھتے ہیں: "اس قانون کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں دعوت کی ذمہ داری اہلِ ايمان کی مختلف حیثیتوں کے لحاظ سے بالکل الگ الگ صورتوں میں اُن پر عائد کی گئی ہے۔" اور پھر مختلف درجات کی ذمہ داریاں بیان کرتے ہیں۔
میرا گمان ہے کہ محترم سائل کو اگر کوئی ابہام محسوس ہو رہا ہے تو لازماً اس نکتے میں ہو رہا ہو گا کہ اتمامِ حجت حقیقتاً تو امت کے صلحا کے ذریعے بھی ہو سکتا ہے۔ تو اس بات کو مان لینے میں کوئی حرج کی بات نہیں۔ کسی شخص کی ذہنی و قلبی ساخت کے اعتبار سے کب کسی داعی کا کوئی کلام یا عمل مدعو کے لیے پوری طرح وضوح کا باعث بن جائے، اور پھر وہ عناد، ضد یا ہٹ دھرمی کے باعث ايمان قبول کرنے سے انکار کر دے، یہ سب کچھ دنیا میں آج بھی مسلسل وقوع پذیر ہو سکتا ہے۔ پر انسان کے پاس وحی کے بند ہو جانے کے بعد نہ تو کوئی ایسا وسیلہ ہے جس سے وہ اس بابت یقین حاصل کر سکے، اور نہ ہی اختیار کہ وہ کسی کے بارے میں یہ رائے دیکر جزا و سزا کا بیڑا اٹھا سکے۔ غامدی صاحب اتمامِ حجت کے مابعد مرحلے ہجرت و براٴت میں لکھتے ہیں: 
"اس کے بعد اگر ہجرت کا فیصلہ ہو تو پیغمبر کو اُس کا حکم دے دیا جاتا ہے۔ قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حکم اللہ تعالٰی ہی دیتا ہے، اس کا فیصلہ کوئی پیغمبر اپنے اجتہاد سے نہیں کر سکتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی انسان کے لیے اپنی عقل و رائے سے یہ فیصلہ کر لینا کہ اُس کی طرف سے حجت پوری ہو گئی ہے اور قوم کی طرف سے دعوتِ حق کے لیے اب کسی مثبت ردِّعمل کی توقع نہیں کی جا سکتی، کسی طرح ممکن نہیں ہے۔ چنانچہ قومِ لوطؑ کے متعلق یہ فیصلہ لے کر جب خدا کے فرشتے ابراہیمؑ جیسے جلیل القدر پیغمبر کے پاس آئے تو اُنہوں نے اسے قبل از وقت سمجھا اور اس کے بارے میں اللہ تعالٰی سے مجادلہ کیا اور یونسؑ نے اپنی رائے سے یہ فیصلہ کر لیا تو اللہ تعالی نے اس پر سخت مواخذہ کیا اور ان کے رجوع کے بعد ان کی قوم کے ایمان سے یہ بات ثابت ہو گئی کہ توفیقِ ہدایت کا وقت صرف اللہ کے علم میں ہے۔ قرآنِ مجید انھی کی مثال پیش کر کے واضح کرتا ہے کہ اللہ کے پیغمبرؑ کو اس معاملے میں پوری استقامت کے ساتھ اللہ کے فیصلے کا منتظر رہنا چاہیے۔ وہ اپنی رائے سے یہ خیال کر کے کہ اُس کی طرف سے فرضِ دعوت کافی حد تک ادا ہو چکا، اپنی قوم کو چھوڑ کر نہیں جا سکتا۔ اُس پر لازم ہے کہ وہ جس ذمہ داری پر مامور ہوا ہے، اس میں برابر لگا رہے، یہاں تک کہ اُس کا پروردگار ہی یہ فیصلہ کر دے کہ حجت پوری ہو گئی، قوم کی مہلت ختم ہوئی اور اب پیغمبرؑ اُنہیں چھوڑ کر جا سکتا ہے۔"
اس لیے غامدی صاحب کے مؤقف میں متّبعین کی شہادتِ حق کے ذریعے بھی اتمامِ حجت باعتبارِ حقیقت ہو تو سکتا ہے، پر اس کے واقعتاً ہو جانے کی خدائی اطلاع کے راستے اب مسدود ہو جانے کے باعث اس کے نتیجے پر منحصر اقدامات، جو پھر مزید خدائی اذن کے بھی محتاج ہوتے ہیں، ناقابلِ عمل ہو جاتے ہیں۔ پس "for all practical purposes" متّبعین کے ہاتھوں اتمامِ حجت نہیں ہوتا۔

4۔ مناصبِ شہادت و امامت اور جہاد کا تعلق

ڈاکٹر صاحب کے اس سوال کہ "غامدی صاحب کے نزدیک منصبِ شہادت علی الناس ، منصبِ امامت اور جہاد کا آپس میں کیا تعلق ہے ؟" کی تو بہت سی جہات ہو سکتی ہیں جو اس مختصر مضمون میں زیرِ بحث لانا ممکن نہیں۔ میں ان سے درخواست کروں گا کہ وہ میزان کے باب "قانونِ جہاد" کا مطالعہ فرمائیں۔ اس میں تفصیل موجود ہے۔ ہاں جو مخصوص سوال انہوں نے اس تعلق کی مناسبت سے کیا ہے اس سے تعرض حاضرِ خدمت ہے۔
جیسا کہ مجوّزہ مطالعے سے واضح ہو جائے گا غامدی صاحب جہاد کو دو صورتوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ اس کی ایک صورت قانونِ اتمامِ حجت سے متعلق اور دوسری شریعت کے ابدی احکامات میں سے ہے۔ دوسری تو یہاں زیرِ بحث نہیں۔ قانونِ اتمامِ حجت سے متعلق جو صورت ہے وہ ظاہر ہے اتمامِ حجت کے بعد ہی زیرِ بحث آسکتی ہے۔ پس اوپر جب بیان ہو چکا کہ اتمامِ حجت ہو جانے کے علم کا جب کوئی ذریعہ ہی موجود نہیں تو جزا و سزا کے مرحلے تک پہنچنے کا بھی کوئی امکان نہیں۔ الغرض جہاد کی یہ صورت پیغمبروں کی عدم موجودگی سے متعلق ہی نہیں۔ غامدی صاحب قانونِ جہاد میں رقمطراز ہیں:
"... یہ محض قتال نہ تھا، بلکہ اللہ تعالیٰ کا عذاب تھا جو اتمام حجت کے بعد سنت الٰہی کے عین مطابق اور فیصلۂ خداوندی کی حیثیت سے پہلے عرب کے مشرکین اور یہود و نصاریٰ پر اور اُس کے بعد عرب سے باہر کی قوموں پر نازل کیا گیا۔ لہٰذا یہ بالکل قطعی ہے کہ منکرین حق کے خلاف جنگ اور اِس کے نتیجے میں مفتوحین پر جزیہ عائد کر کے اُنھیں محکوم اور زیردست بنا کر رکھنے کا حق اِس کے بعد ہمیشہ کے لیے ختم ہو گیا ہے۔ قیامت تک کوئی شخص اب نہ دنیا کی کسی قوم پر اِس مقصد سے حملہ کر سکتا ہے اور نہ کسی مفتوح کو محکوم بنا کر اُس پر جزیہ عائد کرنے کی جسارت کر سکتا ہے۔ مسلمانوں کے لیے قتال کی ایک ہی صورت باقی رہ گئی ہے اور وہ ظلم و عدوان کے خلاف جنگ ہے۔ اللہ کی راہ میں قتال اب یہی ہے۔ اِس کے سوا کسی مقصد کے لیے بھی دین کے نام پر جنگ نہیں کی جا سکتی۔"
ھذا ما عندی ۔۔۔۔

بشکریہ احمد بلال
مصنف : احمد بلال
Uploaded on : Jan 21, 2019
2260 View