آسمانی شرائع میں جہاد کا صحیح تصور - عمار خان ناصر

آسمانی شرائع میں جہاد کا صحیح تصور

 جہاد انبیاء کی شریعتوں میں مقصد کے حصول کے ایک ذریعے کے طور پر مشروع کیا گیا ہے اور اہل علم کی تصریح کے مطابق فی ذاتہ کوئی مطلوب یا مستحسن امر نہیں، کیونکہ اس میں انسانی جان ومال کا ضیاع ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر متبادل راستے موجود ہوں تو جنگ کے راستے سے گریز کیا جائے گا۔ مزید یہ کہ جان و مال کی قربانی بھی تب مطلوب ہوگی اگر حصول مقصد کا ظن غالب ہو۔ بصورت دیگر یہ راستہ اختیار نہیں کیا جائے گا۔ ہاں، جب یہ ناگزیر ہوجائے اور حصول مقصد اسی راستے پر منحصر ہوجائے تو پھر مسلمانوں سے شریعت کا تقاضہ یہ ہوتا ہے کہ وہ آگے بڑھیں اور میدانِ جنگ میں جان و مال کی قربانی پیش کریں۔ ایسے حالات میں اس جیسا افضل عمل کوئی دوسرا نہیں ہوسکتا اور حبِ دنیا اور بزدلی کی وجہ سے اس سے گریز کرنے والی قومیں ذلت ورسوائی کی حق دار ٹھہرتی ہیں۔

جہاد سے کس مخصوص مقصد یا غایت کا حصول پیشِ نظر ہے اور شریعت کا یہ حکم کب فرضیت یا استحباب کے درجے میں انسانوں کی طرف متوجہ ہوتا ہے؟ اس کا تمام تر دار و مدار عملی حالات پر ہے۔ انبیاء کی تاریخ میں بعض دفعہ اس طریقے سے عالمی سطح پر انقلابی اور دور رس تبدیلیاں لائی گئیں، بعض دفعہ محدود اور وقتی مقاصد (مثلاً جان و مال اور علاقے کا دفاع وغیرہ) حاصل کیے گئے، اور بہت سے حالات میں اس کو چھوڑ کر بالکل مختلف راستے اور طریقے اختیار کیے گئے۔ چنانچہ شریعت میں اصولی طور پر جہاد کا حکم موجود ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ ہمیشہ اور ہر طرح کے حالات میں اس راستے کا انتخاب شریعت کا لازمی تقاضہ ہے۔ اس کا تعین حالات کریں گے اور حالات کی نوعیت ہر دور کے اہل علم و فقہ اپنی بصیرت کی روشنی میں طے کریں گے۔

تورات میں بنی اسرائیل کو جو شریعت دی گئی، اس میں واضح طور پر بنی اسرائیل کو اپنی سلطنت کے قیام کے لیے ایک مخصوص علاقے پر قبضہ کرنے کا حکم دیا گیا تھا اور اس مقصد کے لیے جنگ کے تفصیلی احکام بیان کیے گئے تھے۔ تاہم انبیائے بنی اسرائیل نے اپنے طرزِ عمل سے واضح کیا کہ اس حکم پر عمل علی الاطلاق نہیں بلکہ بہت سی شرائط و قیود کی رعایت کے ساتھ ہی مطلوب ہے۔ چنانچہ:

۱۔ موسیٰ علیہ السلام کے دور میں جب بنی اسرائیل نے بیت المقدس کو فتح کرنے میں بزدلی دکھائی تو اللہ تعالیٰ نے چالیس سال کے لیے انھیں اس اقدام سے روک دیا اور متنبہ کیا کہ اب اگر اس سے قبل انھوں نے جنگ کی تو نقصان کے خود ذمہ دار ہوں گے۔

۲۔ حضرت داؤد علیہ السلام کے زمانے سے کچھ پہلے بنی اسرائیل کے قبائل الگ الگ سیاسی انتظام کے تحت زندگی گزار رہے تھے اور کوئی متحدہ اجتماعی نظم موجود نہیں تھا۔ اس موقع پر جب بنی اسرائیل میں یہ داعیہ پیدا ہوا کہ وہ اپنے کھوئے ہوئے علاقے کفار سے واپس حاصل کرنے کے لیے جہاد کریں تو انھوں نے اپنے نبی سے درخواست کی کہ ان پر ایک بادشاہ کو مقرر کر دیا جائے جس کی قیادت میں وہ جہاد کر سکیں۔ ان کی درخواست پر اللہ نے طالوت کو ان کا بادشاہ بنا کر ان پر قتال کی ذمہ داری عائد کی۔ یہاں قرآن نے جو الفاظ استعمال کیے ہیں، وہ بہت قابل توجہ ہیں۔ ’’فلما کتب علیھم القتال‘‘، یعنی جب ان پر جہاد فرض کیا گیا، حالانکہ جہاد کی فرضیت اصولی طور پر پہلے سے تورات میں موجود تھی۔ قرآن کی اس تعبیر سے ایک نہایت اہم شرعی نکتہ واضح ہوتا ہے کہ کسی مخصوص صورت حال میں عملاً جہاد کا فرض ہونا، اصولی فرضیت سے مختلف ایک معاملہ ہے۔

۳۔ بابل کی اسیری اور پھر رومی سلطنت کے ہاتھوں بنی اسرائیل کی حکومت کے خاتمے کے بعد حضرت مسیح علیہ السلام تک جتنے بھی انبیاء آئے، انھوں نے اپنی دعوت اور محنت کا موضوع خود بنی اسرائیل کی دینی و اخلاقی حالت کو بنایا۔ کسی ایک نے بھی انھیں یہ سبق نہیں دیا کہ اس ذلت ورسوائی سے نکلنے کے لیے ’’جہاد’’ کی طرف لوٹیں۔ ان میں سے حضرت مسیح علیہ السلام نے تو اپنی دعوتی جدوجہد سے بنی اسرائیل میں رائج اس تصور کی غلطی کو آخری درجے میں واضح کر دیا کہ دینی احیاء کا مطلب صرف قومی حکومت اور سیاسی سیادت کی بحالی ہے۔ بنی اسرائیل نے انھیں ’’مسیح موعود’’ ماننے سے انکار ہی اس لیے کیا کہ ان کے خیال میں مسیح موعود کاکام بنی اسرائیل کے قومی اقتدار کی بحالی تھا، جب کہ حضرت مسیح نے اپنی دعوت کو تمام تر بنی اسرائیل کی اخلاقی حالت پر مرکوز رکھا اور انھیں بتایا کہ اگر انھوں نے اس اجتماعی حالت کو اس پہلو سے درست نہ کیا تو قیامت تک کے لیے رسوائی اور محکومی کے عذاب سے دوچار کر دیے جائیں گے۔

ان میں سے کسی بھی دور میں جہاد کا حکم نہ منسوخ ہوا تھا اور نہ اصولی طور شریعت میں اس کی اہمیت کم ہو گئی تھی۔ فرق صرف حالات میں پیدا ہوا تھا۔ بنی اسرائیل داخلی اعتبار سے اس جگہ پر نہیں تھے کہ انھیں اللہ کی نصرت ملتی، بلکہ اللہ کے وعدے کے مطابق ان کے دشمنوں کو ان کی بداعمالیوں کی پاداش میں ان پر مسلط کر دیا گیا تھا۔ ایسی صورت میں انبیاء اور دعاۃ کی ذمہ داری یہی بنتی تھی کہ وہ انھیں ان کی اصل بیماری کی طرف متوجہ کریں، نہ کہ ایک مشروط و مقید شرعی حکم کو اصل قرار دے کر قومی حمیت وغیرت کا جذبہ بیدار کرنے میں لگ جائیں۔

بشکریہ مکالمہ ڈاٹ کام، تحریر/اشاعت 16 فروری 2017
مصنف : عمار خان ناصر
Uploaded on : Feb 16, 2017
3141 View