عبدالستار غوری - ڈاکٹر وسیم مفتی

عبدالستار غوری

 عبدالستارغوری ۱۹۹۶ء میں ’’المورد‘‘ آئے ۔میں اس وقت جامعہ عثمانیہ ماڈل ٹاؤن میں دورۂ حدیث میں شریک تھا۔ اگلے دو بر س میں نے اپنے فارغ اوقات اسی جامعہ میں مختلف کتب کی ورق گردانی کرتے گزار دیے تاآنکہ ۱۹۹۸ء میں ڈاکٹرشہزاد سلیم صاحب مجھے ’’المورد‘‘ میں کھینچ لائے۔ ’’المورد‘‘ کی لائبریری کے ہال میں ایک کرسی میز مجھے مل گئی۔ میں صبح ساڑھے سات بجے ’’المورد‘‘ جاتا، اپنی نشست پر بیٹھتا اور نو بجے لوٹ آتا۔ان اوقات میں عبدالستار غوری ’’المورد‘‘ میں ہوتے نہ ان سے ملاقات کا سوال پیدا ہوتا ۔ جب ماہنامہ ’’اشراق‘‘ میں میرے مضامین باقاعدگی سے چھپنا شروع ہوئے تو یہ ڈیڑھ گھنٹامجھے کم پڑ گیا۔تب میں نے دوپہر کے ایک گھنٹے کا اضافہ کیا۔یہ وہ وقت تھا جب غوری صاحب سے میرا تعارف ہوا۔مجھے معلوم ہوا کہ ’تقابل ادیان‘ اور پیغمبر آخر الزمان صلی اﷲ علیہ وسلم کے بارے میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیشین گوئیاں ان کا خاص موضوع ہیں۔ ایک وجہ تعارف اور بھی تھی کہ غوری صاحب وقتاً فوقتاً ،بہانے بہانے سے احباب ’’المورد‘‘ کی دعوت کرتے رہتے تھے۔یہ دعوتیں کھانے کے باوجود میں عبدالستار غوری کے زیادہ قریب نہ ہو سکا، کیونکہ میری نام نہادمصروفیات اس میں رکاوٹ تھیں۔وقت کی کمی اور مزاج کی کوتاہی کی بنا پر میں دوستوں سے کم ہی ہم نشین ہوتا، ’’المورد‘‘ میں کچھ کام ،کچھ آرام کرکے چلا جاتا۔ غوری صاحب کا کمرہ اوپر کی منزل میں تھا ، اس لیے بھی ملاقات کا موقع نہ ملتا۔ ۲۰۰۸ء میں ’’المورد‘‘ میں کچھ انتظامی تبدیلیاں ہوئیں اور اسکالرز کو گھروں میں رہ کر کام کرنے کی ہدایت ہوئی تو غوری صاحب کا بھی ’’المورد‘‘ میں آنا کم ہو گیا۔رفتہ رفتہ ان کا کمرہ خالی ہوا،لیکن انھوں نے ہفتے میں تین چاردن ’’المورد‘‘ میں گزارنے کا معمول اختیار کر لیا۔ اس روٹین میں اس وقت شدت آ گئی جب انھوں نے اپنی کتاب ’’Muhammad Foretold in The Bible by Name‘‘ کے اردو ترجمہ کی تدوین کرنا شروع کی۔ان دنوں وہ صبح ساڑھے سات بجے سے شام چھ بجے تک ’’المورد‘‘ میں موجود رہتے۔بسا اوقات ہفتہ وار چھٹی کا دن بھی یہیں گزارتے۔ان کا قیام لائبریری ہال میں ہوتا جہاں میں بھی صبح و دوپہر دو وقت آتا۔ یہی ایام تھے جب میرا ان سے اختلاط بڑھا۔ سوے طبع کی وجہ سے میں تب بھی غوری صاحب سے زیادہ استفادہ نہ کر سکا، میری حیثیت ایک مشاہد اور مبصر ہی کی رہی۔اسی دور کے چند تاثرات قارئین کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔
عبدالستار غوری بڑے جفا کش اور محنتی تھے۔ عمر کے آخری حصے میں، میں نے انھیں دیکھا کہ لگاتار کام کیے جا رہے ہیں۔ ذرا تکان ہوئی تو چند لمحے لیٹ لیے اور پھر لیپ ٹاپ کے آگے بیٹھ گئے۔
غوری صاحب کی تمام ملازمت ہائی اسکول اور محکمۂ تعلیم کی تھی۔ وہ اگست ۱۹۹۵ء میں گورنمنٹ ہائی اسکول گڑھی افغاناں،ٹیکسلا سے سینئر ہیڈ ماسٹر کے طور پر ریٹائر ہوئے۔ عام طور پر اسکول ٹیچرز کا مطالعہ اتنا وسیع ہوتا ہے، نہ وہ اتنی گہری علمی نظر کے حامل ہوتے ہیں جو ہمیں غوری صاحب میں دیکھنے کو ملی۔ اس کی وجہ بھی یہی تھی کہ وہ دین سے شغف رکھنے کے ساتھ ان تھک محنت کے عادی تھے۔بی ایڈ کرنے کے علاوہ انھوں نے ۱۹۶۷ء میں پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے ، علوم اسلامیہ کی ڈگری حاصل کی۔وہ ’فاضل اردو‘ اور ’فاضل فارسی ‘ ہونے کے ساتھ عربی زبان کے بھی اچھے عالم تھے۔علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے منعقدہ کورس ’اللسان العربی‘میں پاکستان بھر میں اول آئے اور گولڈ میڈل حاصل کیا۔
عربی زبان پر غوری صاحب کی دسترس اساتذہ سے کہیں بڑھی ہوئی تھی۔ ایک دوبارمیں نے عربیت کے الجھے ہوئے مسائل ان کے سامنے پیش کیے تو انھوں نے تسلی بخش جواب دیا۔ اس طرح انگریزی زبان پر بھی غوری صاحب کو کامل عبور حاصل تھا۔ ان کی انگریزی تحریریں اس پر شاہد ہیں۔
سینئر اساتذہ کا پیپر سیٹر اورہیڈ ایگزامینر ہونا کوئی بڑی بات نہیں۔ان ذمہ داریوں کو نبھانے کے ساتھ غوری صاحب’نیشنل کمیٹی برائے نصاب سازی‘کے سرگرم رکن رہے جس نے پہلی سے بارہویں جماعت تک کا اسلامیات، عربی اورترجمۂ قرآن کا نصاب تیار کیا۔ انھوں نے حکومت آزاد کشمیر کے لیے ’اسوۂ حسنہ ‘ کا نصاب بھی ترتیب دیا۔
عبدالستارغوری مسلسل آٹھ برس ’ریڈیو پاکستا ن ‘پر ہفتے میں دوبار درس حدیث دیتے رہے۔ واہ کینٹ اور اسلام آباد میں کئی سال تک خطبۂ جمعہ دیا، اسلام آباد میں درس قرآن کا آغاز کیا۔
عبدالستار غوری ’’المورد‘‘ کے کارکنوں پر بڑی شفقت فرماتے تھے۔میں نے انھیں کئی دفعہ رفقا کی مالی مدد کرتے دیکھا۔ایک بار خود مجھے ادھار اٹھانے کی ضرورت پڑی تو انھی سے رجوع کیا۔
غوری صاحب ساتھیوں کے ساتھ گھل مل جاتے ۔ان سے ہنسی مزاح، دل لگی کرتے ۔اس وقت یہ محسوس نہ ہوتا کہ ان میں اور ’’المورد‘‘ کے کارکنو ں میں عمر اور علم کا تفاوت ہے۔
بڑھاپے اور ذیابیطس کی وجہ سے غوری صاحب کے لیے اٹھنا دوبھر ہوتا تو نعرہ لگاتے: اٹھ ،شیر خدا! میں نے اسے بھی سامان دل لگی بنا لیا تھا۔کبھی کہتا: شیر خدا بوڑھا ہو گیا ہے، شیر خدا تھک گیا ہے۔ جب کچھ دن نہ آتے تو کہتا: شیر خداکوبہت دنوں بعد دیکھا ہے۔یہ بھی کہتا: کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے۔ واحسرتا! کہ شیر خدا ٹیکسلا میں آسودۂ خاک ہو گیا ہے۔ اب یہ نعرہ میں کبھی نہ سن پاؤں گا، البتہ طوفان زندگی کے تھپیڑے کھانے کے لیے جب تک موجود ہوں، یہ میرے کانوں میں گونجتا رہے گا۔
’’المورد‘‘ کے لائبریرین جاوید اشرف صاحب کی روایت ہے، امسال جنوری میں عبدالستارغوری صاحب ’’المورد‘‘ آئے توکہا: اب کے برس میں سو جاؤں گا۔ شاید انھیں اپنارخصت ہونا معلوم ہو گیا تھا۔
أللّٰہم زد فی حسناتہ و نق خطایاہ بالثلج والبرد۔

------------------------------

بشکریہ ماہنامہ اشراق

تحریر/اشاعت جون 2014
مصنف : ڈاکٹر وسیم مفتی
Uploaded on : Aug 23, 2016
2618 View