شعائر اللہ اور فطرت اللہ - ڈاکٹر وسیم مفتی

شعائر اللہ اور فطرت اللہ

 ’’شِعار‘‘ اس لباس کو کہتے ہیں جو جسم کے ساتھ لگا رہتا ہے ۔ اس کے مقابل میں ’’دِثار‘‘ کا لفظ بولا جاتا ہے یہ وہ لباس ہوتا ہے جو حسبِ ضرورت جسم سے الگ کر کے رکھ لیتے ہیں ،جیسے چادر اور اوڑھنی ۔ یوں ’’شِعار‘‘ کے لفظ میں شِے ء لازم کا مفہوم پیدا ہو گیا ۔ پھر یہ جنگ اور سفر کے دوران میں پکارے جانے والے کسی خاص نعرے کے لیے استعمال ہونے لگا ، جس سے لوگ ایک دوسرے کو بلاتے ہیں یا للکار کر دشمن پر حملہ کر دیتے ہیں ، جیسے جنگِ بدر میں مہاجرین یا بنی عبد الرحمن کہہ کر ایک دوسرے کو پکارتے تھے ۔ اوس یا بنی عبید اللہ اور خرزج یا بنی عبداللہ پکار کر ایک دوسرے کی ہمت بڑھاتے تھے ۔ (البدایہ وا لنھایہ ، ابنِ کثیر ، ج۳ ، ص ۲۷۴)
ایک اور غزوہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ’حٰمٓ ۔ لا ینصرون‘، شعار مقرر فرمایا ۔ (سنن ابو داؤد ، کتاب الجہاد) آج کل سلوگن ، ماٹو اور ’Coat of arms ‘کے الفاظ اس مقصد کے لیے استعمال ہوتے ہیں ۔ کہتے ہیں کہ عوام کی طاقت ان کے سلوگن میں ہوتی ہے ۔ ایسے ہی اسکول اور کالج اپنا ایک ماٹو مقرر کرتے ہیں اور طلبہ کو اسے مدِ نظر رکھنے کی تعلیم دیتے ہیں ۔ ملکی سطح پر قومی ترانہ ، قومی جھنڈا ، قومی کھیل اور قومی پھول شناخت کا کام انجام دیتے ہیں ۔
’’شِعار‘‘ سے ملتا جلتا لفظ ’’شعیرہ‘‘ ہے ، جس کی جمع شعائر ہے۔ ’’شعیرہ‘‘ کے معنی علامت اور نشانی کے ہیں۔ قرآنِ مجید میں یہ لفظ حج کے اعمال و مناسک کے لیے آیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’ان الصفا والمروۃ من شعائر اللہ ‘۔ (بے شک صفا اور مروہ اللہ کے شعائر میں سے ہیں )۔ (البقرۃ ۲ : ۱۵۸) اسلام کے ابتدائی زمانے میں صحابہ سعی بین الصفا و المروہ سے کراہت محسوس کرتے تھے اور سمجھتے تھے کہ یہ شعائر جاہلیت میں سے ہیں ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انھیں مطلع کیا کہ صفا اور مروہ جاہلیت کے نہیں بلکہ اللہ کے شعائر میں شامل ہیں ۔ سورۂ حج میں ارشاد ہے :’والبدن جعلنھا لکم من شعائر اللہ لکم فیھا خیر‘۔ (اور قربانی کے اونٹوں کو ہم نے تمھارے لیے شعائرِ الہٰی میں سے ٹھیرایا ہے ۔ تمھارے لیے ان میں بڑے خیر ہیں)۔ (۲۲: ۳۶) پھر یہ بھی فرمایا : ’لن ینال اللہ لحومھا ولا دمآؤھا ولکن ینالہ التقویٰ منکم‘۔ (نہ ان کے گوشت اللہ کو پہنچتے ہیں اور نہ خون ۔ لیکن تمھارے اندر کا تقویٰ اس تک رسائی پاتا ہے)۔ (۲۲: ۳۷) اونٹ عربوں کا محبوب اور سب سے بڑھ کر کام آنے والے جانور تھا ۔ یہود اس کی حرمت کا عقیدہ رکھتے تھے ۔ اس لیے ہدی کے اونٹوں کے شعائر اللہ میں سے ہونے کا بطور خاص تذکرہ فرمایا اور یہ بھی بتایا کہ ان کے خون اور گوشت کا اللہ کو کچھ فائدہ نہیں ہوتا ۔ جذبہء عبودیت اور خدا ترسی کے ساتھ ان کی قربانی ہی اللہ کو مطلوب ہے ۔
سنن ابنِ ماجہ ، کتاب المناسک میں ، زید بن خالد الجھنی رضی اللہ عنہ سے اور مسندِ احمد میں ان سے اور حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ جبریل علیہ السلام ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے او رکہا : ’یا محمد مر اصحابک فلیر فعوا اصواتھم بالتلبیۃ فانھا من شعار الحج‘۔ (اے محمد ، اپنے صحابہ کو حکم فرمائیں کہ تلبیہ پڑھتے ہوئے آواز بلند رکھیں کیونکہ یہ شعارِ حج میں سے ہے )۔
ان شواہد سے پتا چلتا ہے کہ قرآن و حدیث میں شعار اور شعائر کے الفاظ خصوصاً مناسکِ حج کے لیے ہی استعمال ہوئے ہیں ۔ سورۂ حج میں ان کے لیے حرمت کا لفظ بھی آیا ہے اس سے معلوم ہوا کہ شعائر محترم اور قابلِ تعظیم ہیں ۔ البتہ اردو اور فارسی لٹریچر میں شعائر کا لفظ عام معنوں میں بولا جاتا ہے ۔ تمام مذہبی رسوم ، عبادات اور مقدس مقامات ان میں شامل ہو جاتے ہیں اور یہ انگریزی لفظ ’Ritual‘ کے قائم مقام ہو گیاہے ۔ اسے زبان کا توسع کہا جا سکتا ہے لیکن خود قرآن و حدیث کے جو نظائر ہم نے پیش کیے ہیں ان کا اسلوب بتاتا ہے کہ صرف افعالِ حج ہی شعائر اللہ نہیں ہیں بلکہ یہ شعائر اللہ میں شامل ہیں اور ان میں سے کچھ ہیں ۔ جیسے ’ من شعائر اللہ ‘(شعائر اللہ میں سے ۔ شعائر اللہ کی نوعیت والے) ’من شِعار الحج‘ (عملِ حج میں سے ) کی تراکیب سے رہنمائی ملتی ہے ۔ چونکہ باقی عبادات اور دینی اہمیت رکھنے والے مقامات کا صراحت سے ذکر نہیں ہوا اس لیے ہم ان کو تبعاً شعائر اللہ کہیں گے کیونکہ یہ لغۃً و عرفاً اس معنی میں شامل ہیں ۔ افعالِ حج کے شعائر اللہ میں سے ہونے کی صراحت اسی لیے کی گئی کہ زمانہء جاہلیت کی بعض قبیح رسمیں حج میں شامل ہو گئی تھیں اور صحابہ ء کرام سعی اور قربانی کے بارے میں کچھ شبہات رکھتے تھے ۔ مشرکانہ رسوم کی نفی کر کے اصل مناسک کے بارے میں بتا دیا گیا کہ ان کو بغیر جھجک کے بجا لاؤ کیونکہ یہ اللہ کی قربت اور ثواب کا سبب ہیں ۔
شعائر اللہ کی طرح ایک اور ترکیب فطرت اللہ ہے جو قرآنِ مجید کی سورۂ روم آیت ۳۰ میں آئی ہے ۔ ارشادِ ربانی ہے :’ فاقم وجھک للدین حنیفا ۔ فطرت اللہ الَتی فطر الناس علیھا ، ۔ (پس اے نبی، آپ یکسو ہو کر اپنا رخ اس دین کی طرف جما دیں اور اس فطرت پر برقرار رہیں جس پر اللہ نے لوگوں کو پیدا کیا ہے ) فطرت سے مراد وہ فطری استعداد و صلاحیت ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہر بندے میں ودیعت کی ہے ۔ اس صلاحیت کو استعمال کر کے آدمی حق و باطل میں امتیاز کرتا ہے اور دینِ توحید تک پہنچ سکتا ہے ۔ یہ مرتے دم تک اور ہوش و حواس کے قائم رہنے تک موجود رہتی ہے اور کوئی اس کو کھرچ نہیں سکتا ۔ لاکھ بدلنے کی کوشش کریں، یہ نہیں بدلتی ۔ اور جب ہواے نفس اور تزئینِ شیطان کے ڈالے ہوئے حجاب اٹھتے ہیں تو دین کی سیدھی راہ نظر آنے لگتی ہے۔ حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’ مامن مولود یولد علی الفطرۃ فابواہ یہودانہ او ینصرانہ اویمجسانہ کما تنتج البھیمہ جمآء ھل تحسون فیھا من جدعاء‘۔ (ہر نومولود فطرت پر پیدا ہوتا ہے پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی ، عیسائی یا پارسی بنا ڈالتے ہیں ۔ جیسے ایک چوپایہ سالم چوپائے کی شکل میں پیدا ہوتا ہے کیا تم نے دیکھا کہ ان میں کوئی بوچا ]کانوں سے محروم [پیدا ہوا ہو ) ۔ (صحیح بخاری ، کتاب الجنائز) چوپائے کی مثال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مشرکانہ رسم واضح کرنے کے لیے دی ۔ جب ایک اونٹنی پانچ بچے جن لیتی اور آخری نر ہوتا تو اس کے کان چیر کر اس کو بوچابنا دیتے۔ اس کا دودھ پیتے اور نہ اس پر سواری کرتے ۔ جہاں اس کا دل چاہتا چرتی پھرتی ۔ اسے ’’بحیرہ‘‘ کا نام دیا جاتا ۔ (المائدہ ۵: ۱۰۳) اس میں ایک لطیف سا اشارہ کافروں کے اعراض کی طرف بھی ہے کہ وہ کان لپیٹ کر دینِ فطرت سے بہرے ہو چکے ہیں ۔
یہ حدیث بیان کرنے کے بعد حضرت ابوہریرہ نے سورۂ روم کی یہی آیت تلاوت کر دی ۔ اس سے پتا چلا کہ فطرت دینِ توحید و اسلام پر قائم ہونا ہے جبکہ شرک و کفر فطرت کی نفی ہے ۔
فطرت اللہ کا ایک مظہر وہ جسمانی ساخت وہیئت بھی ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا کی ہے ۔ ہمیں چاہیے کہ اس ہیئت کو برقرار رکھیں اور اس کی آرایش اور اصلاح اس طرح کریں کہ یہ ساخت بگڑنے نہ پائے ۔ جسمانی فطرت کو قائم رکھنے اور جسم کی صفائی و ستھرائی کے قاعدے ، ابو الانبیاء حضرت ابراہیم خلیل اللہ کی نشانی ہیں اور خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطے سے ہمیں ملے ہیں ۔ صحیح بخاری ،کتاب اللباس میں حضرت ابوہریرہ روایت کرتے ہیں :’ سمعت النبی ، یقول الفطر ۃ خمس : الختان والاستحداد و قص الشارب و تقلیم الاظفار و نتف الآباط ، ۔( میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ۔ پانچ چیزیں فطرت ہیں : ختنہ کرانا ، زیر ناف بال صاف کرنا ، مونچھیں چھوٹی کرانا ، ناخنوں کو کاٹنا اور بغلوں کے بال اکھاڑنا ) صحیح ، مسلم کتاب الطہارہ میں حضرت عائشہ کی روایت میں دس چیزیں بیان ہوئی ہیں ۔ اس میں ’اعفاء اللحیۃ‘ ۔ (داڑھی کا بڑھانا ۔ مسواک کرنا ) ’استنشاق الماء‘۔ (ناک میں پانی چڑھا کر صاف کرنا ) ’غسل البراجم‘ ۔ (انگلیوں کے جوڑوں کی میل دھونا ) ’انتقاص الماء‘۔ (پانی سے استنجا کرنا ) اور ’المضمضہ‘ (کلی کرنے )کے اضافے ہیں ۔ ختنے کا ذکر نہیں ہوا ۔ بحیثیتِ مجموعی یہ جسم کی صفائی کرنے اور اسے خوب صورت رکھنے کے ضابطے ہیں ۔ طبری نے حضرت عبد اللہ بن عباس کے حوالے سے لکھا ہے کہ یہ وہ خصائل ہیں جن کے ذریعے سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جانچا گیا ۔ یعنی انھیں ان اطوار کی تعلیم دی گئی ۔ (جامع البیان الجزء الاول ص ۴۱۴ ۔ ۴۱۵)
اب یہ مسلمان اور کافر کے درمیان نشانِ تفریق بن گئے ہیں ۔ چنانچہ ایک آدمی نے اسلام قبول کیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حکم دیا کہ کفر کے بال صاف کرو اور ختنہ کراؤ۔ (مسند احمد ۔ مسند المکیین حدیث ابی کلیب)
فطرت اللہ پر برقرار رہ کر ہی ہم دینِ اسلام پر قائم رہ سکتے ہیں ۔ اسی فطرت سے توحید پھوٹتی ہے ، شرک کی آلودگی دور ہوتی ہے اور عقائد کا فساد ختم ہوتا ہے ۔ وحی کی تعلیم اسی فطرت کو چمکا کر اسے جلا بخشتی ہے ۔ اس فطرت کی روشنی ہی میں ہم اپنے وجود اور اپنی وضع قطع کو اصل حالت میں باقی رکھ سکتے ہیں ۔ اس فطرت کے منافی تزئین و آرایش جسم میں بگاڑ پیدا کرتی ہے ۔ کافر فطرت کو مسخ کر کے خیالات و اعمال کی ٹھوکریں کھاتے ہیں ۔
ایسے ہی شعائر اللہ چونکہ اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ ہیں ۔ ان کی تعظیم خود اللہ کی تعظیم ہے۔ ’ذلک ومن یعظم شعائر اللہ فانھا من تقوی القلوب، ۔ (ان امور کا اہتمام رکھو ۔ اور جو اللہ کے شعائر کی تعظیم کرے تو یاد رکھے کہ یہ چیز دل کے تقویٰ سے تعلق رکھنے والی ہے )۔ (الحج ۲۲: ۳۲) ہمیں حق نہیں پہنچتا کہ اپنی طرف سے کوئی شعیرہ مقرر کر لیں یا اللہ نے تعظیم کا جو طریقہ بتایا ہے اسے چھوڑ کر اپنی مرضی سے طریقہء تعظیم وضع کر لیں ۔ حجرِ اسود کو بوسہ دینا یا اشارے سے استلام کرنا شعیرہ ہے ۔ صفا اور مروہ کے درمیان پہلے آہستہ پھر تیز چلنا، شعار ہے ۔
بیت اللہ کا طواف کرنا ہی عبادت ہے ۔ نماز اور روزے کے جن آداب کی ہمیں تعلیم دی گئی ہے ، انھیں اسی طرح بجا لانا ہی ہمارے لیے عبادت ہے ۔ ان میں اپنی طرف سے کمی بیشی کرنا جائزنہیں ۔ اپنی طرف سے نئے مقدس مقامات بنا لینا بھی درست نہیں کیونکہ اس سے شرک کی راہ کھلتی ہے ۔
فطرت اللہ اور شعائر اللہ دین کے دو پہلو ہیں ، جو مختلف بھی ہیں اور آپس میں مربوط بھی ۔ کچھ باتیں ہمیں اپنی عقل سے سمجھ میں آ جاتی ہیں اور کچھ کتاب و سنت کی رہنمائی سے معلوم ہوتی ہیں ۔ ہمارا کام ہے کہ اپنی عقل کو عقلِ سلیم بنائیں اور کتاب و سنت سے ہدایت حاصل کرنے میں کوئی کوتاہی نہ کریں۔

 

------------------------------

 

بشکریہ ماہنامہ اشراق

تحریر/اشاعت فروری 2001
مصنف : ڈاکٹر وسیم مفتی
Uploaded on : Aug 23, 2016
3991 View