مرد و عورت کی برابری - محمد رفیع مفتی

مرد و عورت کی برابری

 سوال: کیا اسلام مرد اور عورت کو برابر سمجھتا ہے؟ اگر نہیں سمجھتا تو کیوں نہیں سمجھتا؟ اور اگر سمجھتا ہے تو پھر اسلام میں عورت کی گواہی آدھی کیوں ہے، مرد کے برابر کیوں نہیں؟ (طاہر جمیل)

جواب: مردوعورت کے وجود پر غور کرنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ دونوں کچھ چیزوں میں برابر ہیں اور کچھ چیزوں میں ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ اگر انھیں خدا کے ساتھ تعلق اور اس کی بندگی، انسانیت ، اخلاقیات، نیکی اور بدی، جرم و سزا ، انعام و اکرام کے پہلو سے دیکھیں تو یہ دونوں وجود برابر ہیں۔ دونوں (مرد و عورت) خدا کی بندگی کے لیے پیدا کیے گئے ہیں، دونوں سے یکساں یہ تقاضا ہے کہ وہ انسانیت کے معیار پر پورے اتریں، دونوں پر برابر کی اخلاقی ذمہ داریاں ڈالی گئی ہیں، یعنی دونوں ہی سارے اخلاقی احکام کے مکلف ہیں، دونوں نیکی و بدی کی آزمایش میں ڈالے گئے ہیں، دونوں کا اعمال نامہ مرتب ہو رہا ہے، دونوں سے برابر کی سطح پر ان کے اعمال کا حساب لیا جائے گا، دونوں کے لیے دنیا میں ایک جیسی سزائیں اور ایک جیسا انعام ہے اور آخرت میں بھی برابر کی سزائیں ہوں گی اور برابر کا انعام ہو گا۔ ان باتوں پر بہت سی آیات دلالت کرتی ہیں، مثلاً چوری، زنا اور قتل جیسے سنگین جرائم میں جو سزا مرد کو دی گئی ہے، وہی عورت کو دی گئی ہے، اگر یہ دونوں برابر نہ ہوتے تو ایسا ہرگز نہ کیا جاتا۔ اسی طرح نیکیوں پر ان کے اخروی انعام کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:

وَمَنْ یَّعْمَلْ مِنَ الصّٰلِحٰتِ مِنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثٰی وَہُوَ مُؤْمِنٌ فَاُولٰٓءِکَ یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ وَلاَ یُظْلَمُوْنَ نَقِیْرًا.(النسا۴: ۱۲۴)
’’مرد ہو یا عورت جو بھی نیکی کرے گا ، اس حال میں کہ وہ مومن ہوا تو ایسے ہی لوگ ہیں جو جنت میں داخل ہوں گے اور اُن پر ذرہ بھر ظلم نہ کیا جائے گا۔‘‘

مَنْ عَمِلَ سَیِّءَۃً فَلَا یُجْزٰٓی اِلَّا مِثْلَہَا وَمَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثٰی وَہُوَ مُؤْمِنٌ فَاُولٰٓءِکَ یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ یُرْزَقُوْنَ فِیْہَا بِغَیْرِ حِسَابٍ. (المومن۴۰: ۴۰)
’’جو شخص بھی کوئی برائی کرے گا تو اُس کو اُس کے برابر ہی بدلہ دیا جائے گا اور جو کوئی نیک کام کرے گا ،خواہ وہ مرد ہو یا عورت اور ہو وہ مومن تو یہی لوگ ہیں جو جنت میں داخل ہوں گے اور اُس میں اِن کو بے حد و حساب رزق دیا جائے گا۔‘‘

یہ تو تھا مر د و عورت کی برابری کا پہلو ، اب ہم اس کی طرف آتے ہیں کہ کیا یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ بعض پہلووں سے یہ دونوں برابر نہیں ہیں۔
اس معاملے میں صحیح بات یہ ہے کہ مرد و عورت کئی میدانوں میں ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ مختلف ہونا لازماً کم تر اور گھٹیا ہونا نہیں ہوتا۔ یہ ایسے ہی ہے، جیسے ایک آدمی کی ذمہ داری اور کار کردگی کے لیے ایک میدان ہوتا ہے اور دوسرے کے لیے دوسرا۔مثلاً اولاد جننا، اسے دودھ پلانا ،یہ تو عورتوں ہی کے ساتھ خاص ہے، مرد اس معاملے میں صفر پر کھڑے ہیں۔ بچوں کی ابتدائی تربیت میں ماں کا کردار زیادہ ہوتا ہے اور باپ کا کم۔ گھر کے کام کاج، مثلاً کھانا پکانا، گھر سنبھالنا، اس میں بھی عورتوں ہی کا غلبہ ہے۔ معاش کی محنت مشقت ، کسان کی طرح تپتی دھوپ میں زمین پر ہل چلانا، دور دراز کے سفر کرکے سامان تجارت ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانا، مزدوروں، مزارعوں اور کسانوں کی طرح کام کرنا یا ان سے کام لینا، اس میں بھی عام طور پر مرد حضرات ہی آگے دکھائی دیے ہیں۔ خوف ناک حالات میں اپنے لائف پارٹنر کو شیلٹر دینا، مثلاً اسے شیر، چیتے، بھیڑیے، ریچھ یا اس چوہیا ہی سے بچانے کی کوشش کرنا جو کمرے میں گھس آئی ہو، یہ سب کام عام طور پر مردوں کے ساتھ خاص ہیں، عورتیں زیادہ تر ان کاموں میں پیچھے رہنا ہی پسند کرتی ہیں۔
اب رہا یہ مسئلہ کہ عورت کی گواہی آدھی کیوں ہے؟ کیا یہ کوئی خاص نوعیت کا مسئلہ ہے ؟
اس سوال کا تفصیلی جواب استاذ محترم جاوید احمد صاحب غامدی نے اپنی کتاب ’’برہان‘‘ کے مضمون ’’قانون شہادت‘‘ میں درج ذیل الفاظ میں دیا ہے:

’’ثبوت جرم کے لیے قرآن مجید نے کسی خاص طریقے کی پابندی لازم نہیں ٹھیرائی ، اِس لیے یہ بالکل قطعی ہے کہ اسلامی قانون میں جرم اُن سب طریقوں سے ثابت ہوتا ہے جنھیں اخلاقیات قانون میں مسلمہ طور پر ثبوت جرم کے طریقوں کی حیثیت سے قبول کیا جاتا ہے اور جن کے بارے میں عقل تقاضا کرتی ہے کہ اُن سے اِسے ثابت ہونا چاہیے ۔ چنانچہ حالات، قرائن، طبی معاینہ، پوسٹ مارٹم، انگلیوں کے نشانات، گواہوں کی شہادت ، مجرم کے اقرار، قسم ، قسامہ اور اِس طرح کے دوسرے تمام شواہد سے جس طرح جرم اِس دنیا میں ثابت ہوتے ہیں ، اسلامی شریعت کے جرائم بھی اُن سے بالکل اِسی طرح ثابت قرار پاتے ہیں ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی حقیقت اپنے ارشاد : ’ البینۃ علی المدعی والیمین علی المدعیٰ علیہٗ میں لفظ ’البینۃ‘ سے واضح فرمائی ہے ۔ ابن قیم لکھتے ہیں :

البینۃ فی کلام اللّٰہ ورسولہ وکلام الصحابۃ اسم لکل ما یبین الحق فھی اعم من البینۃ فی اصطلاح الفقھاء حیث خصوھا بالشاھدین اوالشاھد والیمین.(اعلام الموقعین ۱/ ۱۳۱)
’’’ البینۃ‘ اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام کے کلام میں ہر اُس چیز کا نام ہے جس سے حق واضح ہو جائے ۔چنانچہ فقہا کی اصطلاح کے مقابلے میں اِس کا مفہوم وسیع تر ہے ، کیونکہ اِن حضرات نے اِسے دو گواہوں یا ایک گواہ اور قسم کے ساتھ خاص کر دیا ہے۔‘‘

اِس سے مستثنیٰ صرف دو صورتیں ہیں :
اول یہ کہ کوئی شخص کسی ایسے شریف اور پاک دامن مرد یا عورت پر زنا کی تہمت لگائے جس کی حیثیت عرفی بالکل مسلم ہو ۔ اِس صورت میں قرآن کا اصرار ہے کہ اُسے ہرحال میں چار عینی گواہ پیش کرنا ہوں گے ، اِس سے کم کسی صورت میں بھی اُس کا مقدمہ قائم نہ ہو سکے گا۔ حالات، قرائن، طبی معاینہ ،یہ سب اُس معاملے میں اُس کے نزدیک بے معنی ہیں ۔ آدمی بدچلن ہو تو ثبوت جرم کے لیے یہ سب طریقے اختیار کیے جا سکتے ہیں ، لیکن اُس کی شہرت اگر ایک شریف اور پاک دامن شخص کی ہے تو اسلام یہی چاہتا ہے کہ اُس سے اگر کوئی لغزش ہوئی بھی ہے تو اُس پر پردہ ڈال دیا جائے اور اُسے معاشرے میں رسوا نہ کیا جائے ۔ چنانچہ اِس صورت میں وہ چار عینی شہادتوں کا تقاضا کرتا، اور الزام لگانے والا اگر ایسا نہ کر سکے تو اُسے لازماً قذف کا مجرم ٹھیراتا ہے ۔ ارشاد فرمایا ہے :

وَالَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ ثُمَّ لَمْ یَاْتُوْا بِاَرْبَعَۃِ شُھَدَآءَ فَاجْلِدُوْھُمْ ثَمٰنِیْنَ جَلْدَۃً وَّلَا تَقْبَلُوْا لَھُمْ شَہَادَۃً اَبَدًا، وَاُولٰٓءِکَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ، اِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْا مِنْ بَعْدِ ذٰلِکَ وَاَصْلَحُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ. (النور ۲۴ : ۴۔۵)
’’اور جو لوگ پاک دامن عورتوں پر تہمت لگائیں ، پھر چار گواہ نہ لائیں تو اُن کو اسّی کوڑے مارو اور اُن کی گواہی پھر کبھی قبول نہ کرو اور یہی لوگ فاسق ہیں ، لیکن جو اِس کے بعد توبہ و اصلاح کر لیں تو اللہ (اُن کے لیے) غفورو رحیم ہے۔‘‘

دوم یہ کہ کسی معاشرے میں اگر قحبہ عورتیں ہوں تو اُن سے نبٹنے کے لیے قرآن مجید کی رو سے یہی کافی ہے کہ چار مسلمان گواہ طلب کیے جائیں جو اِس بات پر گواہی دیں کہ فلاں فی الواقع زنا کی عادی ایک قحبہ عورت ہے ۔ وہ اگر عدالت میں پوری ذمہ داری کے ساتھ یہ گواہی دیتے ہیں کہ ہم اِسے قحبہ کی حیثیت سے جانتے ہیں اور عدالت نقدو جرح کے بعد اُن کی گواہی پر مطمئن ہو جاتی ہے تو وہ اُس عورت کو سزا دے سکتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

وَالّٰتِیْ یَاْتِیْنَ الْفَاحِشَۃَ مِنْ نِّسَآءِکُمْ فَاسْتَشْھِدُوْا عَلَیْھِنَّ اَرْبَعَۃً مِّنْکُمْ، فَاِنْ شَھِدُوْا فَاَمْسِکُوْھُنَّ فِی الْبُیُوْتِ حَتّٰی یَتَوَفّٰھُنَّ الْمَوْتُ اَوْ یَجْعَلَ اللّٰہُ لَھُنَّ سَبِیْلًا.(النساء ۴ : ۱۵)
’’اور تمھاری عورتوں میں سے جو بدکاری کرتی ہیں، اُن پر اپنے اندر سے چار گواہ طلب کرو ۔ پھر اگر وہ گواہی دے دیں تو اُن کو گھروں میں بند کر دو ، یہاں تک کہ موت اُنھیں لے جائے یا اللہ اُن کے لیے کوئی راہ نکال دے ۔ ‘‘

اِن دو مستثنیات کے سوا اسلامی شریعت ثبوت جرم کے لیے عدالت کو ہر گز کسی خاص طریقے کا پابند نہیں کرتی ، لہٰذا حدود کے جرائم ہوں یا اِن کے علاوہ کسی جرم کی شہادت ،ہمارے نزدیک یہ قاضی کی صواب دید پر ہے کہ وہ کس کی گواہی قبول کرتا ہے اور کس کی گواہی قبول نہیں کرتا۔ اِس میں عورت او رمرد کی تخصیص نہیں ہے ۔ عورت اگر اپنے بیان میں الجھے بغیر واضح طریقے پر گواہی دیتی ہے تو اُسے محض اِس وجہ سے رد نہیں کر دیا جائے گا کہ اِس کے ساتھ کوئی دوسری عورت یا مرد موجود نہیں ہے ، اور مرد کی گواہی میں اگر اضطراب و ابہام ہے تو اُسے محض اِس وجہ سے قبول نہیں کیا جائے گا کہ وہ مرد ہے ۔ عدالت اگر گواہوں کے بیانات اور دوسرے قرائن وحالات کی بنا پر مطمئن ہو جاتی ہے کہ مقدمہ ثابت ہے تو وہ لامحالہ اُسے ثابت قرار دے گی اور وہ اگر مطمئن نہیں ہوتی تو اُسے یہ حق بے شک ، حاصل ہے کہ وہ دس مردوں کی گواہی کو بھی قبول کرنے سے انکار کردے ۔ ‘‘(۲۵۔۲۷)

قحبہ عورتوں کے معاملے میں شہادت کے سوا، جہاں قرآن مجید نے ’منکم‘ کی شرط عائد کرکے اسے مسلمانوں کے ساتھ خاص کر دیا ہے، یہی معاملہ غیر مسلموں کی گواہی کا بھی ہے ۔
استاذ محترم جاوید احمد صاحب غامدی لکھتے ہیں:

’’یہاں یہ واضح رہے کہ ہمارے فقہا کی راے اس معاملے میں مختلف ہے ۔
... فقہا نے اپنے نقطۂ نظر کی بنیاد سورۂ بقرہ کی جس آیت پر رکھی ہے ، وہ یہ ہے :

وَاسْتَشْھِدُوْا شَھِیْدَیْنِ مِنْ رِّجَالِکُمْ، فَاِنْ لَّمْ یَکُوْنَا رَجُلَیْنِ فَرَجُلٌ وَّامْرَاَتٰنِ، مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّھَدَآءِ اَنْ تَضِلَّ اِحْدٰھُمَا فَتُذَکِّرَ اِحْدٰھُمَا الْاُخْرٰی.(۲ : ۲۸۲)
’’اور تم (قرض کی دستاویز پر) اپنے مردوں میں سے دو آدمیوں کی گواہی کرالو ۔ اور اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں سہی، تمھارے پسندیدہ لوگوں میں سے۔ دوعورتیں اِس لیے کہ اگر ایک الجھے تو دوسری یاد دلا دے۔‘‘

اِس آیت سے فقہا کا استدلال ، ہمارے نزدیک دو وجوہ سے محل نظر ہے :
ایک یہ کہ واقعاتی شہادت کے ساتھ اس آیت کا سرے سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے ۔ یہ دستاویزی شہادت سے متعلق ہے۔ ہر عاقل جانتا ہے کہ دستاویزی شہادت کے لیے گواہ کا انتخاب ہم کرتے ہیں اور واقعاتی شہادت میں گواہ کا موقع پر موجود ہونا ایک اتفاقی معاملہ ہوتا ہے۔ ہم نے اگر کوئی دستاویز لکھی ہے یا کسی معاملے میں کوئی اقرار کیا ہے تو ہمیں اختیار ہے کہ اُس پر جسے چاہیں گواہ بنائیں ، لیکن زنا ، چوری ، قتل ، ڈاکا اور اِس طرح کے دوسرے جرائم میں ، ظاہر ہے کہ جو شخص بھی موقع پر موجود ہو گا ، وہی گواہ قرار پائے گا۔ چنانچہ شہادت کی اِن دونوں صورتوں کا فرق اِس قدر واضح ہے کہ اِن میں سے ایک کو دوسری کے لیے قیاس کا مبنیٰ نہیں بنایا جا سکتا۔
دوسری یہ کہ آیت کے موقع و محل اور اسلوب بیان میں اِس بات کی کوئی گنجایش نہیں ہے کہ اِسے قانون و عدالت سے متعلق قرار دیا جائے ۔ اِس میں عدالت کو مخاطب کر کے یہ بات نہیں کہی گئی کہ اِس طرح کا کوئی مقدمہ اگر پیش کیا جائے تو مدعی سے اِس نصاب کے مطابق گواہ طلب کرو۔ اِس کے مخاطب ادھار کا لین دین کرنے والے ہیں اور اِس میں اُنھیں یہ ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اگر ایک خاص مدت کے لیے اِس طرح کا کوئی معاملہ کریں تو اُ س کی دستاویز لکھ لیں اور نزاع اور نقصان سے بچنے کے لیے اُن گواہوں کا انتخاب کریں جو پسندیدہ اخلاق کے حامل ، ثقہ ، معتبر اور ایمان دار بھی ہوں اور اپنے حالات و مشاغل کے لحاظ سے اِس ذمہ داری کو بہتر طریقے پر پورا بھی کر سکتے ہوں ۔ یہی وجہ ہے کہ اِس میں اصلاً مردوں ہی کو گواہ بنانے اور دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد کے ساتھ دو عورتوں کو گواہ بنانے کی ہدایت کی گئی ہے تاکہ گھر میں رہنے والی یہ بی بی اگر عدالت کے ماحول میں کسی گھبراہٹ میں مبتلا ہو تو گواہی کو ابہام و اضطراب سے بچانے کے لیے ایک دوسری بی بی اُس کے لیے سہارا بن جائے ۔ اِس کے یہ معنی ، ظاہر ہے کہ نہیں ہیں اور نہیں ہو سکتے کہ عدالت میں مقدمہ اُسی وقت ثابت ہو گا ، جب کم سے کم دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتیں اُس کے بارے میں گواہی دینے کے لیے آئیں ۔ یہ ایک معاشرتی ہدایت ہے جس کی پابندی اگر لوگ کریں گے تو اُن کے لیے یہ نزاعات سے حفاظت کا باعث بنے گی ۔ لوگوں کو اپنی صلاح و فلاح کے لیے اِس کا اہتمام کرنا چاہیے ، لیکن مقدمات کا فیصلہ کرنے کے لیے یہ کوئی نصاب شہادت نہیں ہے جس کی پابندی عدالت کے لیے ضروری ہے ۔ چنانچہ اِس سلسلہ کی تمام ہدایات کے بارے میں خود قرآن کا ارشاد ہے :

ذٰلِکُمْ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰہِ وَاَقْوَمُ لِلشَّھَادَۃِ وَاَدْنآی اَلَّا تَرْتَابُوْٓا.(البقرہ ۲ : ۲۸۲)
’’یہ ہدایات اللہ کے نزدیک زیادہ مبنی برانصاف، گواہی کو زیادہ درست رکھنے والی اور زیادہ قرین قیاس ہیں کہ تم شبہات میں مبتلا نہ ہو۔‘‘ ‘‘ (برہان۲۷۔۳۱)

____________

یہ آرٹیکل محمد رفیع مفتی کی کتاب ’’سوال وجواب‘‘ سے لیا گیا ہے۔
مصنف : محمد رفیع مفتی
Uploaded on : Oct 07, 2017
4150 View