سورۂ توبہ میں ’الَّذِیْنَ یَلُوْنَکُمْ مِّنَ الْکُفَّارِ‘ سے مراد - سید منظور الحسن

سورۂ توبہ میں ’الَّذِیْنَ یَلُوْنَکُمْ مِّنَ الْکُفَّارِ‘ سے مراد

 

سورۂ توبہ کی آیت کے الفاظ ’الَّذِیْنَ یَلُوْنَکُمْ مِّنَ الْکُفَّارِ‘ سے کون لوگ مراد ہیں؟ اس کے جواب میں بعض اہل علم کا خیال ہے کہ سید ابوالاعلیٰ مودودی، مولانا امین احسن اصلاحی اور جناب جاوید احمد غامدی، تینوں ان سے ’منافقین‘ مراد لیتے ہیں۔ مولانا مودودی کی حد تک تو اُن کی بات بالکل درست ہے، مگر اصلاحی صاحب اور غامدی صاحب کے حوالے سے درست نہیں ہے۔ دونوں علما کے تراجم اور تفاسیر اس غلط فہمی کی واضح تردید کر رہے ہیں۔
مولانا اصلاحی کا ترجمہ یہ ہے:

’’اے ایمان والو، تمھارے گرد و پیش جو کفار ہیں، ان سے لڑو اور چاہیے کہ وہ تمھارے رویہ میں سختی محسوس کریں اور جان رکھو کہ اللہ متقیوں کے ساتھ ہے۔‘‘

غامدی صاحب نے یہ ترجمہ کیا ہے:

’’ایمان والو، (اِن تنبیہات کے بعد اب نکلو اور جس طرح کہ پیچھے حکم دیا گیا ہے کہ )، اپنے گرد وپیش کے منکروں سے جنگ کرو، اور چاہیے کہ وہ تمھارے اندر سختی پائیں، تم جان لو کہ اللہ اُن کے ساتھ ہے جو تقویٰ اختیار کرنے والے ہوں۔‘‘

مولانا اصلاحی کی تفسیر یہ ہے:

’’یہ آیت پوری سورہ کے اصل مضمون کا خلاصہ ہے۔ جیسا کہ آپ نے دیکھا، کفار و مشرکین پر اتمام حجت ہو چکنے کے بعد ان سے اعلان براء ت اور ان کے خلاف اعلان جنگ ہے۔ آیات ۲۳۔ ۲۴ کے تحت یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ منافقین اپنے پاس پڑوس کے کفار و مشرکین سے عزیزانہ و دوستانہ روابط اور دوسرے کاروباری مفادات وابستہ رکھنے کے سبب سے، اس بات کے لیے تیار نہیں تھے کہ ان سے جنگ کریں یا اپنے تعلقات ان سے یک قلم ختم کر لیں۔ ان کی اس منافقت کی اچھی طرح قلعی کھولنے اور ایمان، تقویٰ اور صداقت کے حقیقی مقتضیات تفصیل سے واضح کر دینے کے بعد اب یہ دین کا اصل مطالبہ ان کے سامنے پھر رکھ دیا گیا ہے۔ خطاب اگرچہ عام ہے، لیکن قرینہ پتا دے رہا ہے کہ روے سخن ان ہی کی طرف ہے۔ فرمایا کہ ’قَاتِلُوا الََّذِیْنَ یَلُوْنَکُمْ مِّنَ الْکُفََّارِ‘، یعنی جو کفار تمھارے پاس پڑوس اور گرد و پیش میں ہیں، ان سے جنگ کرو۔ گرد و پیش کے کفار جس طرح تمھاری دعوت ایمان و ہدایت کے سب سے زیادہ حق دار تھے، اسی طرح اب، اللہ اور رسول کی طرف سے اتمام حجت اور اعلان جنگ کے بعد، تمھاری تلواروں کے بھی سب سے زیادہ سزاوار یہی ہیں، جو لوگ قرابت داری، دوستی اور اپنے دنیوی مفاد کی خاطر ان کے معاملے میں مداہنت برتیں گے، وہ جیسا کہ آیت ۲۳ میں فرمایا ہے، اپنی جانوں پر سب سے زیادہ ظلم ڈھانے والے ٹھیریں گے اور انھی کے لیے آیت ۲۴ میں یہ وعید ہے کہ تم انتظار کرو، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ تمھارے باب میں اپنا فیصلہ صادر فرما دے۔ یہ حقیقت ایک سے زیادہ مقامات میں واضح کی جا چکی ہے کہ ایمان و اخلاص کی اصل روح اس وقت بیدا ہوتی ہے، جب اس کی خاطر اپنوں سے جنگ کرنی پڑے۔ ’یَلُوْنَکُمْ‘ کی قید اسی پہلو کو نمایاں کر رہی ہے۔ ’وَلْیَجِدُوْا فِیْکُمْ غِلْظَۃً‘، یعنی اب وہ تمھارے طرزعمل سے یہ محسوس کر لیں کہ تمھارے اندر ان کے لیے موالات، دوستی اور محبت کی کوئی جگہ باقی نہیں رہ گئی ہے، بلکہ جس طرح وہ من حیث القوم تمھارے اور تمھارے دین کے دشمن ہیں، اسی طرح تم بھی من حیث الجماعت ان کے اور ان کے دین کے دشمن بنو۔ اب تک وہ تمھارے دل میں اپنے لیے بڑا نرم گوشہ پاتے تھے، اس وجہ سے ان کو توقع تھی کہ وہ اپنے مقاصد کے لیے تم کو برابر استعمال کرتے رہیں گے۔ اب یہ حالت یک قلم ختم ہو جانی چاہیے۔‘‘ (تدبر قرآن ۳/ ۶۶۳)

غامدی صاحب کا حاشیہ یہ ہے:

’’آیت میں خطاب اگرچہ عام ہے، لیکن روے سخن اُنھی منافقین کی طرف ہے جو اپنی دوستیوں، رشتہ داریوں اور کاروباری تعلقات کے پیش نظر اُن لوگوں کے خلاف کسی اقدام کے لیے تیار نہیں تھے جن کے ساتھ اِس سورہ میں جنگ کا حکم دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ہر شخص کو اُنھی سے لڑنا ہے جو اُس کے گردوپیش میں رہتے ہیں اور کسی نہ کسی لحاظ سے اُس کے اپنے ہیں۔ ایمان و اخلاص کا اصلی امتحان اِسی سے ہوتا ہے۔ یاد رہے کہ گو سالہ پرستی کے جرم کی پاداش میں جب بنی اسرائیل کے قتل عام کا حکم دیا گیا تھا تو اُس میں بھی یہی تقاضا کیا گیا تھا۔ آیت میں ’یَلُوْنَکُمْ‘ کی قید اِسی پہلو کو نمایاں کررہی ہے۔‘‘ (البیان ۲/ ۴۰۳)

میرے فہم کی حد تک ان اقتباسات سے درج ذیل باتیں واضح ہوتی ہیں:
۱۔ یہ آیت سورہ کے اصل مضمون کا خلاصہ ہے۔
۲۔ سورہ کا اصل مضمون ’کفار‘ اور ’مشرکین‘ سے اعلان براء ت اور اعلان جنگ ہے۔ 
۳۔اس آیت میں اہل ایمان کو ’کفار‘ اور ’مشرکین‘ کے خلاف جنگ لڑنے کا حکم دیا گیا ہے۔
۴۔ ’کفار‘ اور ’مشرکین‘ کے خلاف جنگ لڑنے کا یہ حکم عام ہے جو ایمان کا اظہار کرنے والے سب مسلمانوں کو ان کی عمومی حیثیت میں دیا گیا ہے، یعنی مومنین (سچے اہل ایمان) اور منافقین (جھوٹے اہل ایمان) کی کوئی تفریق نہیں کی گئی۔
۵۔ تاہم، روے سخن یا کلام کا رخ منافقین (جھوٹے اہل ایمان)کی طرف ہے اور مقصود یہ نمایاں کرنا ہے کہ آیا وہ اس حکم کی تعمیل میں مومنین (سچے اہل ایمان) کے شانہ بشانہ کفار و مشرکین کے خلاف برسر جنگ ہوتے ہیں یا نہیں اور اس طرح ان کے دعویٰ ایمان کی قلعی کھولنا ہے۔
۶۔ روے سخن منافقین کی طرف ہونے کا قرینہ ’یَلُوْنَکُمْ مِّنَ الْکُفَّارِ‘ (تمھارے گرد و پیش جو کفار ہیں)کے الفاظ ہیں ۔ اسی سورہ کی آیات ۲۳۔ ۲۴ سے واضح ہے کہ ایمان لانے والوں کے گردو پیش میں کفار و مشرکین ان کے باپوں، بیٹوں، بھائیوں ، بیویوں،رشتہ داروں اور دوستوں کی صورت میں موجود تھے اور جنھیں منافقین (جھوٹے اہل ایمان) نے اللہ، اس کے رسول اور جہاد سے زیادہ عزیز بنا رکھا تھا۔

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت جون 2018
مصنف : سید منظور الحسن
Uploaded on : Aug 31, 2018
1586 View