حضرت اسماء بنت ابوبکر رضی ﷲ عنہا - ڈاکٹر وسیم مفتی

حضرت اسماء بنت ابوبکر رضی ﷲ عنہا

 حضرت اسماء حضرت ابوبکر(عبداﷲ) کی سب سے بڑی صاحب زادی تھیں۔ہجرت نبوی سے ستائیس برس قبل پیدا ہوئیں۔تب سیدنا ابوبکرکی عمر بیس سال سے کچھ اوپر تھی۔ ابوقحافہ (عثمان) ان کے دادااور تیم بن مرہ جد تھے جن کے نام پر ان کا قبیلہ بنو تیم کہلاتا تھا ۔مرہ پر ان کا شجرہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے شجرے سے جاملتا ہے ۔ کلاب بن مرہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جبکہ تیم بن مرہ حضرت اسماء کے جد تھے۔ ان کی والدہ کا نام قُتیلہ(یاقُتلہ یا قیلہ) تھا، ام العزیٰ ان کی کنیت تھی۔وہ قریش کی شاخ بنوعامر بن لؤی سے تھیں۔ عبدالعزیٰ بن اسعد حضرت اسماء کے نانا تھے۔ سیدہ عائشہ بنت ابوبکر رضی اللہ عنہا ان کی سوتیلی بہن تھیں اور ان سے چھوٹی تھیں۔ عبداﷲ بن ابوبکر رضی اللہ عنہ ان کے سگے بھائی تھے۔ سیدہ عائشہ کی والدہ کا نام ام رومان تھا۔ام عبداﷲ اسماء رضی اللہ عنہا کی کنیت تھی۔
حضرت اسماء بنت ابوبکر نے کم سنی ہی میں ایمان کی طرف سبقت کی۔السابقون الاولون کی فہرست میں ان کا نمبراٹھارواں یا انیسواں ہے۔
حضرت اسماء کہتی ہیں کہ میں نے زمانۂ جاہلیت کے موحدزید بن عمروبن نفیل کو دیکھاتووہ بہت ضعیف ہو چکے تھے، کعبہ کی دیوارسے ٹیک لگائے بیٹھے خطاب کر رہے تھے۔ کہا: قریش کے لوگو، قسم اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں زید بن عمرو کی جان ہے،تم میں دین ابراہیمی پر میرے سوا کوئی عمل پیرا نہیں رہا۔اے اﷲ، اگر میں جانتا ہوتا کہ کون سا طریقۂ عبادت تمھیں محبوب ترین ہے، تو اسی کے مطابق تیری بندگی کرتا، لیکن مجھے علم نہیں۔پھر اپنی ہتھیلی پر سجدہ کر لیتے۔وہ ان بچیوں کو بچا لیتے جنھیں ان کے والدین زندہ گاڑنا چاہتے۔ ان کی کفالت کرتے ،جب جوان ہوجاتیں تو ان کے والدین کو واپس لینے کی پیش کش کرتے۔وہ تب بھی نہ مانتے تو ان کی کفالت جاری رکھتے۔اپنے ہم وطنوں کو زنا سے بچنے کی نصیحت کرتے (بخاری، رقم ۳۸۲۸)۔ حضرت اسماء نے زید کے توحید کی تلقین پر مبنی اشعار بھی روایت کیے ہیں۔
سیدہ عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ہمارے گھر صبح یا شام کے وقت تشریف لاتے تھے۔ ایک دن آپ عین دوپہر کے وقت آئے ، دھوپ خوب تیز تھی۔ان اوقات میں آنا آپ کا معمول نہ تھا،ا س لیے میرے والد سیدنا ابوبکر نے کہا: آپ کی اس وقت تشریف آور ی کا مطلب یہی ہے کہ کوئی اہم معاملہ درپیش ہے۔انھوں نے آپ کو چارپائی پر بٹھایا۔میں اور اسماء بھی گھر میں تھیں۔آپ نے علیحدگی میں بات کرنے کو فرمایاتو سیدنا ابوبکر نے بتایا: میری ان دو بیٹیوں کے علاوہ یہاں کوئی موجود نہیں۔آپ نے فرمایا : اﷲ نے مجھے مکہ سے نکل جانے اور ہجرت کرنے کی اجازت دے دی ہے(بخاری، رقم ۲۱۳۸)۔ سیدنا ابوبکر کے گھرکے چھوٹے عقبی دروازے(خوخہ) ہی سے آپ غار ثور کو روانہ ہوئے، یہ ہجرت کی پہلی منزل تھی۔ آپ کے جانے کی اطلاع سیدنا ابوبکر کے گھرانے کے علاوہ صرف سیدنا علی کو تھی۔ سیدنا علی کی ذمہ داری تھی کہ آپ کے جانے کے بعد آپ کے بستر پر سوئیں اورآپ کے پاس موجود لوگوں کی امانتیں انھیں لوٹا دیں۔آپ نے تین دن غار ثورمیں قیام کیا۔اس دوران میں سیدنا ابوبکر کے آزاد کردہ حضرت عامر بن فہیرہ ان کی بکریوں کاریوڑ لے کر جاتے تو آپ ان کا دودھ پی لیتے۔ ابن اسحاق کا کہنا ہے کہ روزانہ شام کے وقت حضرت اسماء کھانا تیار کر کے لاتیں۔ تیسرے دن اسماء دونوں کے لیے توش دان لے کر آئیں لیکن اسے لٹکانے والی ڈوری لانا بھول گئیں۔آپ سفر پر روانہ ہونے لگے تو وہ اونٹنی سے توشہ دان لٹکانے لگیں، ڈوری نہ ملی تو سیدنا ابوبکر کے کہنے پر اپنا کمر بند کھول لیا،اس کاایک حصہ پھاڑ کر الگ کر لیا، اس کی رسی بنا کر توشہ دان لٹکایااور دوسرا پھر کمر سے باندھ لیا۔بخاری کی روایت ذرا مختلف ہے ۔ حضرت اسماء خود بیان کرتی ہیں کہ جب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ہجرت کا ارادہ فرمایا تو میں نے اپنے والد سیدنا ابوبکر کے گھر میں آپ کا توشہ دان تیار کیا۔ آپ کے توشہ دان اور مشکیزے کو باندھنے کے لیے اپنے کمر بند کے علاوہ کچھ نہ ملاتووالد نے کہا:اسے پھاڑ کر دو حصے کر لو۔ایک سے پانی کی مشک اور دوسرے سے توشہ دان کو باندھ لو(رقم ۲۹۷۹)۔ اس طرح ایک نطاق (کمر بند) کے نطاقین (دو کمر بند)بن گئے۔رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: اﷲ تعالیٰ تمھیں اس ایک کمر بند کے بدلے میں جنت میں دو کمر بند عطا کرے گا۔ تب سے ذات النطاقین (دو کمر بندوں والی) ان کا لقب ہو گیا (بخاری، رقم ۳۹۰۵)۔
آپ کو رخصت کر کے حضرت اسماء مکہ پہنچیں تو قریش کے لوگ ابوجہل کی سربراہی میں ان کے گھر آئے۔ حضرت اسماء باہر نکلیں تو پوچھا: بنت ابو بکر، تمھارے اباکہاں ہیں؟ انھوں نے جواب دیا مجھے کیا معلوم۔ ابوجہل بہت بدزبان اور بدطینت تھا۔اس نے ہاتھ اٹھا کر حضرت اسماء کے گال پر اس زور سے تھپڑ جڑ دیا کہ ان کی بالی گر گئی۔ حضرت اسماء کہتی ہیں: تین دن گزر ے تھے کہ زیریں مکہ سے ایک شخص یہ اشعار گنگناتا ہوا آیا :

جزی اﷲ رب الناس خیرجزاۂ
رفیقین حلا خیمتی ام معبد

’’اﷲ، لوگوں کا رب ،ان دونوں ساتھیوں کو بہترین جزا دے جوبنوکعب کی عورت ام معبد کے خیموں میں ٹھہرے۔‘‘

ہما نزلا بالبر ثم تروحا
فافلح من امسی رفیق محمد

’’وہ دونوں بیابان میں ٹھہرے پھر سفر جاری رکھا توجو محمد کا ساتھی بنا کامیاب ہوا۔‘‘

تب ہمیں معلوم ہو گیا کہ آپ مدینہ کی طرف منزلیں طے کر رہے ہیں۔ حضرت اسماء مزید بیان کرتی ہیں کہ سیدنا ابوبکر کے پاس پانچ یا چھ ہزار درہم موجود تھے ،وہ ساری رقم اپنے ساتھ لے گئے۔میرے دادا ابو قحافہ نے پوچھا: لگتا ہے، ابوبکرنے مال لے جا کر تمھیں پریشانی میں مبتلا کر دیا ہے۔ میں نے انھیں مطمئن کر نے کے لیے کچھ پتھر لے کرگھرکے اس خفیہ خانے میں رکھ دیے جہاں سیدنا ابوبکر مال رکھا کرتے تھے۔اوپر کپڑا ڈال کر میں نے اپنے نابینا دادا سے کہا: اسے ہاتھ سے ٹٹول لیں۔وہ خوش ہو گئے اور کہا: اگر وہ اتنا مال چھوڑ گئے ہیں تو خیر ہے۔
حضرت اسماء بنت ابوبکر کا بیاہ ہجرت سے پہلے مکہ میں آں حضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے پھوپھی زاد بھائی حضرت زبیر بن عوام سے ہوا۔ مدینہ ہجرت کے وقت وہ حاملہ تھیں۔عبداﷲ بن زبیر پہلے بچے تھے جو مہاجرین کی مدینہ آمد کے فوراً بعد قبا میں پیدا ہوئے۔واقدی کی روایت درست نہیں کہ وہ شوال ۲ھ میں پیدا ہوئے۔ حضرت اسماء کہتی ہیں کہ میں نومولود کورسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں لائی ۔آپ نے اسے گود میں بٹھا یا، کھجور منگا کراسے چبایا اورپھر اپنا لعاب دہن اس کے منہ میں لگایا۔ پہلی شے جو اس کے پیٹ میں گئی، آپ کا لعاب تھا جس میں کھجور کی آمیزش تھی (بخاری، رقم ۳۹۰۹)۔ آپ ہی نے اس کا نام عبداﷲ رکھا اور اس کے لیے برکت کی دعا کی(مسلم، رقم ۵۶۶۷)۔ اسماء اور زبیر کے ہاں کل آٹھ بچے ہوئے ۔ان کے نام یہ ہیں: عبداﷲ، عروہ، منذر، عاصم،مہاجر، خدیجہ، ام حسن اور عائشہ۔
مدینہ کے ابتدائی ایام میں حضرت اسماء کی زندگی بڑی کٹھن تھی جو انھوں نے بڑے صبر و قناعت سے بسر کی ۔ خود بیان کرتی ہیں : ’’زبیر نے مجھ سے شادی کی تو ان کے پاس مال تھا نہ غلام۔ایک گھوڑے اورایک اونٹنی کے سوا ان کے پاس کچھ نہ تھا۔میں ہی گھوڑے کو چارہ دیتی،اس کی ضرورتیں پوری کرتی اور اس کی دیکھ بھال کرتی۔ اونٹنی کی خوراک کے لیے کھجوروں کی گٹھلیاں پیستی،اس کا چارہ تیار کرتی،اسے پانی پلاتی ، اس کا چمڑے کا ڈول سیتی۔ میں ہی گھر کے لیے پانی ڈھوتی۔‘‘ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت زبیر کو بنونضیر کے علاقہ میں ایک قطعۂ زمین (یا کھجوروں کا باغ)عطا کیاجو ان کے گھر سے چھ میل دور تھا۔ حضرت اسماء پیدل یہ فاصلہ طے کر تیں اور سر پر کھجوروں کی گٹھلیاں لاد کر لاتیں۔ ایک دفعہ آپ کچھ انصاری صحابہ کے ساتھ گزر رہے تھے کہ اسماء کو جاتے ہوئے دیکھ لیا۔آپ نے انھیں اپنے پیچھے اونٹ پر بیٹھنے کو کہا، لیکن اسماء نے مردوں کے ساتھ جانے میں شرم محسوس کی، پھر انھیں زبیر کے مزاج کا خیال آیا ،وہ اس بات کو اچھا نہ سمجھتے ۔آپ نے ان کی جھجک اور شرم کودیکھتے ہوئے اصرار نہ کیا ۔اس کے بعد حضرت ابوبکر نے اپنی بیٹی کے لیے ایک خادم بھیج دیا جو گھوڑے کو سنبھالنے لگا۔زبیر کو اس واقعے کا پتا چلاتو کہا: تمھارا سر پر گٹھلیاں اٹھانا آپ کے ساتھ آنے سے زیادہ گراں تھا۔ اسماء مزید کہتی ہیں کہ میں آٹا گوندھ لیتی تھی، لیکن روٹی اچھی طرح پکانی نہ آتی تھی۔میری انصاری پڑوسنیں بہت اچھی تھیں،وہ میری روٹیاں پکا دیتیں (بخاری، رقم ۵۲۲۴۔ مسلم، رقم ۵۷۴۳)۔
ایک بار حضرت اسماء کی گردن میں ورم آ گیا۔ آں حضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے سوجن پر ہلکی مالش کی۔ آپ یہ دعا بھی فرماتے جاتے تھے کہ اﷲ، اسماء کواس کے برے اثرات اورہونے والی تکلیف سے چھٹکارادے دے۔ حضرت اسماء بنت ابوبکر جب دیکھتیں کہ کسی عورت کوبخار چڑھا ہے توپانی لے کر اس کے جسم پر ڈالتیں اور کہتیں: رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا ہے کہ بخار کو پانی سے ٹھنڈا کریں (بخاری، رقم ۵۷۲۴)۔
۱۰ھ میں حجۃ الوداع ہوا۔طواف زیارت اورعمرہ کرنے کے بعدرسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کے پاس قربانی کا جانور ہے وہ احرام باندھے رکھے، یعنی حج قران کرے۔جس کے پاس ہدی نہیں، وہ احرام کھول دے اور حج تمتع کرے۔ حضرت اسماء کے پاس ہدی نہ تھی ،انھوں نے احرام کھول دیا۔ ان کے شوہر زبیر کے پاس قربانی کا جانور تھا، انھوں نے احرام باندھے رکھا۔ اسماء کپڑے بدل کر زبیر کے پاس جا بیٹھیں تو انھوں نے اٹھ جانے کو کہا،اسماء بولیں : کیا آپ کو اندیشہ ہے کہ میں آپ پر کود پڑوں گی؟ (مسلم، رقم۲۹۷۶)۔ عرفات سے واپسی پر حضرت اسماء نے مزدلفہ میں رات بسرکی۔ نوافل ادا کرنے کھڑی ہوئیں،ایک گھنٹا گزراتو اپنے غلام سے پوچھا: بیٹا، کیا چاند غروب ہو گیا؟ اس نے نہیں کہاتودوبارہ نفل پڑھنے شروع کر دیے،ایک گھنٹے کے بعد پھر پوچھا: کیا چاند غروب ہو گیا؟اس نے اثبات میں جواب دیاتوچلنے کو کہا۔منیٰ پہنچ کر شیطانوں کو کنکریاں ماریں اور فجر کی نماز اپنی قیام گاہ میں ادا کی۔غلام نے کہا: اماں جان، ہم تو منہ اندھیرے پہنچ گئے ہیں۔ حضرت اسماء نے کہا:بچے، رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے عورتوں کو اس کی اجازت دے رکھی ہے (بخاری،رقم ۱۶۷۹۔ مسلم، رقم ۱۲۹۱)۔ یہ آپ کے اس فرمان کے برعکس تھا جو آپ نے نوجوانوں کو ارشاد کر رکھا تھا کہ سورج نکلنے سے پہلے رمی نہ کریں۔آپ کی وفات کے بعد بھی حضرت اسماء کا یہی دستور رہا۔
حضرت اسماء کا جب بھی جبل حجون سے گزر ہوتا تو فرماتیں کہ اﷲ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم پر رحمتیں بھیجے۔ ہم ان کے ساتھ اس مقام سے مکہ آئے تھے۔تب ہم تھوڑے تھے ،ہمارا سامان بھی بہت کم تھا۔میں ،میری بہن عائشہ، میرے شوہر زبیر اور فلاں فلاں نے یہاں سے عمرہ کیا تھا۔بیت اﷲ کے طواف کے بعد ہم نے احرام کھولا اور رات کو حج کے لیے پھر باندھ لیا(بخاری، رقم ۱۷۹۶۔ مسلم، رقم ۲۹۷۸) ۔
آں حضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی حیات میں سورج گرہن ہوا تو آپ نے نماز کسوف کی چار رکعتیں پڑھائیں۔ حضرت اسماء بنت ابوبکر اس میں شریک تھیں۔ نماز کے دوران میں ان کو غشی بھی آئی (بخاری، رقم ۸۶)۔ نماز ختم ہوئی تو گرہن چھٹ چکا تھا۔ غزوۂ بنومصطلق میں سیدہ عائشہ نے اسماء سے مانگ کرہار پہناجو بیدا یا ذات الجیش کے مقام پر ٹوٹ کر گر گیا اور وہ اونٹ اس پر بیٹھ گیا جس پر سیدہ عائشہ سوار تھیں۔ آپنے ہار کی تلاش کے لیے قافلہ رکوایا۔اسی دوران میں نماز کا وقت ہو گیا ،آس پاس کہیں پانی نہ تھا ،کچھ صحابہ کو وضو کیے بغیر نماز پڑھنا پڑی ۔اسی موقع پر آیات تیمم نازل ہوئیں اور اہل ایمان نے پہلی بار تیمم کیا (بخاری، رقم ۴۵۸۳۔مسلم، رقم ۷۴۵)
حضرت اسماء بنت ابوبکر نے اپنے شوہر اور بیٹے کے ساتھ جنگ یرموک میں شرکت کی۔اسی معرکے میں زبیر بن عوام رومی فوج کی صفوں کو اول سے آخر تک چیرتے ہوئے نکل گئے اور صحیح سلامت لوٹ آئے۔ابو واقد لیثی کہتے ہیں کہ میں نے اسماء کو زبیر کے ساتھ یہ گفتگو کرتے ہوئے سنا کہ ابو عبداﷲ، بخدا، دشمن کا ایک سپاہی دوڑتا ہوا گزرا، اس کے قدم میرے خیمے کی رسی کے کنڈے سے اڑ گئے اور وہ وہیں گر کر مر گیا،وہ کسی کے اسلحے کا نشانہ نہ بناتھا۔
خلیفۂ دوم سیدنا عمر نے اسماء بنت ابوبکر کا وظیفہ ایک ہزار درہم سالانہ مقرر کیا۔
حضرت اسماء بنت ابوبکر نے عبداﷲ بن عمرسے پچھوایا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم تین چیزوں کو حرام قرار دیتے ہو: کپڑوں میں ریشمی دھاریوں اور نقوش کا ہونا، سرخ(ارغوانی)زین پوش اوررجب کے پورے مہینے کے روزے رکھنا۔ عبداﷲ نے جواب بھیجا کہ جو خود ہمیشہ روزہ رکھتا ہے (یعنی ابن عمر) رجب کے روزوں کوکیسے حرام کہہ سکتا ہے،کپڑوں میں ریشمی نقوش رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ریشم کو حرام قرار دینے کے ضمن میں آتے ہیں۔رہ گیا ارغوانی زین پوش تو خود میرا(عبداﷲ بن عمرکا)زین پوش ارغوانی ہے۔ حضرت اسماء نے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کا سبز خسروی جبہ نکال کر دکھایاجو آپ پہنا کرتے تھے۔اس کے گریبان اوردامنوں پر دیبا کی پٹی لگی تھی۔فرمایا: یہ جبہ سیدہ عائشہ کے پاس تھا ،ان کی وفات کے بعد میں نے لے لیا (مسلم، رقم ۵۴۶۰)۔
سعید بن عاص کی گورنری کے زمانہ میں مدینہ میں چوروں کی کثرت ہو گئی تو حضرت اسماء نے ایک خنجر پا س رکھنا شروع کر دیا۔ اسے و ہ سرہانے کے نیچے رکھ کرسوتیں۔
زبیر اسماء کے ساتھ سختی برتتے تھے۔وہ اپنے والد کے پاس آئیں اور زبیر کی شکایت کی تو انھوں نے کہا: بٹیا، صبر کرو، زبیر نیک انسان ہے۔ امید ہے جنت میں بھی وہی تمھارا شوہر ہو، کیونکہ ایک عورت کا خاونداگر نیک ہو اوروہ اس کے مرنے کے بعد کسی اور سے شادی نہ کرے تو اﷲ جنت میں بھی دونوں کوساتھ رکھتا ہے۔ایک بار اسماء نے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ یا نبی اﷲ، میرے گھر میں وہی کچھ ہے جو زبیر لاتے ہیں ۔ کیا مجھے گناہ ہو گا اگر ان کے دیے ہوئے مال میں سے ایک قلیل مقدار سخاوت کر دوں؟ آپ نے فرمایا: جتنی بخشش کر سکتی ہو کر دیا کرو۔ مال گن گن کر رکھنا نہ کنجوسی کرنا، کہیں اﷲ بھی اپنی عطا کم نہ کر دے (بخاری، رقم ۱۴۳۳،۲۵۹۱۔ مسلم ، رقم ۲۳۴۲)۔ آپ کی اس تلقین ہی کا نتیجہ تھا کہ سخاوت حضرت اسماء کی طبیعت کا حصہ بن گئی۔
حضرت اسماء کے مزاج میں بھی تیزی تھی، اس لیے میاں بیوی میں ان بن رہنے لگی ۔کئی سال کی ازدواجی زندگی کے بعد حضرت زبیر بن عوام نے ان کو طلاق دے دی تو وہ اپنے بیٹے عبداﷲ کے ساتھ رہنے لگیں۔ چھوٹے بیٹے عروہ والد کے ساتھ چلے گئے۔ حضرت اسماء کی طلاق کے بارے میں کئی قصے بیان کیے گئے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ عبد اﷲ نے اپنے والد سے مطالبہ کیا، میری عمر کے آدمی کی والدہ وطی نہیں کی جاتی، لہٰذا انھیں طلاق دے دیں۔دوسری روایت میں بیان ہوا ہے کہ حضرت اسماء عمر رسیدہ ہو چکی تھیں کہ کسی بات پر زبیربن عوام نے انھیں پیٹا۔ انھوں نے اپنے بیٹے عبداﷲ کو پکارا، وہ آئے تو حضرت زبیر نے کہا: اگر تم اندر آئے تو تمھاری ماں کو طلاق۔عبداﷲ نے کہا: آپ میری ماں کو قسموں کاہدف بناتے ہیں، پھر کمرے میں داخل ہوئے اور ماں کو چھڑا لیا۔ اس طرح حضرت اسماء کی معلق طلاق واقع ہوئی۔ ۳۶ھ میں جنگ جمل ہوئی۔ حضرت زبیر اس میں شریک تھے، لیکن پھر جنگ چھوڑکر مدینہ جانے کا فیصلہ کیا۔ وہ بصرہ سے پانچ میل واپس وادئ سباع تک آئے تھے کہ عمروبن جرموز نے انھیں قتل کر دیا، حضرت اسماء کو ان کی شہادت کا بہت رنج ہوا ۔
سیدہ عائشہ نے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کا یہ فرمان روایت کیا ہے کہ اگر میری قوم نے نیا نیا کفر نہ چھوڑا ہوتا تو میں کعبہ کوگرا کراس کی بنیاد زمین سے ملا دیتا ،اس کے مشرقی و مغربی دو دروازے بنا دیتا اورشمالی گوشے( حطیم) کے چھ گز اس میں (دوبارہ)شامل کر دیتا، اس لیے کہ قریش نے کعبہ کی تعمیر کرتے ہوئے (اس کی اصل ابراہیمی بنیادوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ) انھیں چھوڑ دیا تھا (بخاری، رقم ۱۵۸۶۔ مسلم، رقم ۳۲۲۳)۔ ان کے بھانجے حضرت عبداﷲ بن زبیر کا مکہ پر اقتدار قائم ہوا تو انھوں نے اس ارشاد پر عمل کیا۔انھوں نے آنے جانے کے لیے کعبہ کے دودروازے بنا دیے۔حجاج کو غلبہ حاصل ہوا تو اس نے حضرت ابن زبیر کی تبدیلیاں لوٹا دیں۔
مروان بن حکم کی وفات کے وقت بنو امیہ کی حکومت شام تک محدود ہو چکی تھی۔شام کے علاوہ سارا عالم اسلام حضرت عبداﷲ بن زبیر کے تسلط میں تھا۔عبدالملک بن مروان تخت نشین ہوا تو اس نے چھنے ہوئے علاقے واپس لینا شروع کیے۔یکے بعد دیگرے فتوحات کے بعد حجاز کی باری آئی۔ یکم ذی قعد ۷۳ھ میں جب حضرت عبداﷲ بن زبیراپنے دار الخلافہ مکہ میں مقیم تھے،حجاج بن یوسف نے چالیس ہزار کی فوج لے کر مکہ کامحاصرہ کیاجو چھ ماہ سترہ دن جاری رہا۔اس نے مسجد حرام پر سنگ باری کرنے کے لیے منجنیقیں نصب کرائیں اور اعلان کیا کہ ہماری لڑائی محض ابن زبیر سے ہے۔انھیں تین صورتوں میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہو گا: مکہ چھوڑ کرجہاں دل چاہے، چلے جائیں یا بیڑیوں میں جکڑ کر شام کو بھیج دیے جائیں یا لڑائی کرتے ہوئے مارے جائیں۔ عبداﷲ نے اپنی والدہ حضرت اسماء سے مشورہ کیا تو انھوں نے حجاج کا مقابلہ کرنے کا مشورہ دیا۔ اس سے حضرت اسماء کی سوجھ بوجھ، ایمان کی پختگی اور ثابت قدمی کا پتا چلتا ہے۔انھوں نے اپنے بیٹے کے لیے کفن منگوا کر اسے خوشبو بھی لگوا دی۔اس طویل محاصرے کے دوران میں حضرت عبداﷲ بن زبیرکے دس ہزار ساتھی انھیں چھوڑ کر حجاج سے جا ملے۔قحط سے تنگ آکر ان کے دو بیٹوں حمزہ اور خبیب نے بھی حجاج سے امان طلب کر لی۔وہ اپنی والدہ حضرت اسماء کے پاس آئے اور کہا: اماں جان، گنتی کے چند جاں نثار میرے ساتھ رہ گئے ہیں ، اگر میں بھی ہتھیار ڈال دوں تو امان مل جائے گی ،آپ کا کیا حکم ہے؟ حضرت اسماء نے جواب دیا: اگر تمھیں یقین ہے کہ تم حق پر ہو اور اسی کی دعوت دے رہے ہوتو اپنی روش پر قائم رہو۔اگر تم نے حکومت واقتدار دنیا کے لیے حاصل کیا تھا توتم سے برا کوئی آدمی نہیں،اپنے آپ کو اور اپنے ساتھ شہید ہونے والوں کو خواہ مخواہ ہلاکت میں ڈالا۔ حضرت عبداﷲ نے کہا: مجھے ڈر ہے کہ اہل شام میری لاش کی بے حرمتی کریں گے۔ حضرت اسماء نے کہا: کوئی مضایقہ نہیں ، راہ حق پر ڈٹے رہو۔انھیں گلے لگایا، ہمت بڑھائی اور دعا دی۔ عبداﷲ کی شہادت سے دس دن پہلے حضرت عبداﷲ اور عروہ دونوں بھائی اپنی والدہ کی خبر گیری کے لیے آئے جو بیمار تھیں۔ کہا: شدید تکلیف میں ہوں جس سے موت ہی نجات دے سکتی ہے۔لیکن میں دو باتوں میں سے ایک کے ہونے سے قبل مرنا نہیں چاہتی،عبداﷲ کو شہادت نصیب ہو اور مجھے اجر کی امید ہو جائے یا یہ فتح یاب ہو جائے اور مجھے سکون مل جائے۔
۱۷ جمادی الاولیٰ ۷۳ھ ،بدھ کے روز جب جنگ کا بازار گرم تھا، منجنیق سے پھینکا ہوا ایک روڑا زور سے آکر حضرت ابن زبیرکے سر پر لگا ، وہ گرگئے ،اٹھنے کی کوشش کی تو اٹھا نہ جا سکا۔ چنانچہ اپنے بائیں کندھے کا سہارا لیااور تلوارچلانی شروع کر دی۔ اسی اثنا میں شامی فوجی ان پر ٹوٹ پڑے ،ایک نے پاؤں کاٹا ،دوسرے نے سر تن سے جدا کر دیا۔ حضرت عبداﷲ بن زبیر کی جان لینے کے بعد بھی حجاج کی تشفی نہ ہوئی۔اس نے ان کا سر مدینہ بھیج دیا پھر عبدالملک بن مروان کے پاس لے جایا گیا،بقیہ دھڑ بالائی مکہ کے جبل حجون کی داہنی گھاٹی کداکے اوپر ایک تنے سے الٹا لٹکا دیا۔مسلم کی روایت ہے کہ ا س نے انھیں یہودیوں کے قبرستان میں دفن کیا (رقم۶۵۸۸)۔ ایک روایت کے مطابق حجون پہاڑ کے اسی مقام پردفنایا گیا جہاں انھیں سولی پرلٹکایا گیا۔تیسری روایت ہے کہ ان کے زخمی اور کٹے پھٹے جسم کو غسل دینے، کفن پہنانے ،خوشبو لگانے اورنماز جنازہ پڑھنے کے بعد حضرت اسماء مدینہ لے گئیں اورصفیہ بنت حیی کے گھر دفن کیا۔بعد میںیہ گھرمسجد نبوی میں شامل کر لیا گیا۔ اس طرح وہ ابوبکر وعمر کے ہم نشین ہو گئے (تاریخ دمشق)۔
حضرت اسماء نے سو برس کی عمرپائی۔ مدینہ ہجرت کرنے والی اہل ایمان عورتوں میں سب سے آخر میں انھوں نے وفات پائی۔ان کی وفات جمادی الاولیٰ۷۳ھ میں اپنے بیٹے حضرت عبداﷲ بن زبیر کے قتل کے کچھ دنوں بعد(دس،بیس یابیس سے اوپر) ہوئی۔ وہ شدت غم سے نڈھال ہو کر حجاج کے پاس آئیں اور پوچھا: سولی پر چڑھے اس سوار کے اترنے کا وقت نہیں آیا؟ اس نے کہا:ہم دونوں نے اس صلیب پر لٹکنے کا مقابلہ کیا، لیکن یہ جیت کر مصلوب ہونے میں کامیاب ہوا۔ اﷲ نے اسے دردناک عذاب دیا ہے اور حق کی تائید کی ہے۔ حضرت اسماء نے کہا: (کبھی) باطل بھی حق پر غالب آ جاتا ہے۔ حجاج نے کہا: تیرا بیٹا منافق تھا، اس نے بیت اﷲ میں بے دینی کا ارتکاب کیا۔ حضرت اسماء بولیں: تو جھوٹ کہتا ہے ،وہ اہل ایمان کے ہاں پیدا ہونے والا مدینہ کا پہلا بچہ تھا۔اس کی پیدایش پر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم بے حد مسرور ہوئے،مسلمانوں نے خوشی سے ’اﷲ اکبر‘ کا نعرہ بلند کیا تو مدینہ گونج اٹھا۔ تم اور تمھارے ساتھی اسے قتل کر کے خوش ہو رہے ہو۔ عبداﷲ کی پیدایش پر خوش ہونے والے تم سے بہت بہتر تھے۔ واﷲ، وہ منافق نہ تھا،وہ تووالدین کا تابع فرمان، روزہ دار، شب بیدار اور عبادت گزار تھا۔حجاج نے جھڑک دیا، چلی جا،تو ایک بڑھیا ہے جس کی عقل جاتی رہی ہے۔ انھوں نے کہا: میری عقل زائل نہیں ہوئی۔ میں گواہی دیتی ہوں کہ میں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ بنوثقیف میں ایک جھوٹا نبی پیدا ہو گا اور ایک قتل و غارت کرنے والا ہلاکو (مسلم، رقم ۶۵۸۸۔ المعجم الکبیر طبرانی، رقم ۳۷۴)۔ جھوٹا نبی، مختارثقفی تو ہم نے دیکھ لیا ،ہلاکو تو ہے۔ حجاج نے کہا: میں منافقوں کو تباہ کرنے والا ہوں۔ حضرت اسمانے اپنے بیٹے کی میت کے پاس کھڑے ہو کر طویل دعا کی اور ایک آنسو بہائے بغیر لوٹ گئیں۔
عبدالملک بن مروان کو حجاج کی بدتمیزی کا پتا چلا تو اسے برا بھلا کہا: ایک نیک انسان کی بیٹی سے تمھارا تعرض کرنے کا کیا مقصد؟اس نے حضرت عبداﷲ بن زبیر کو سولی سے اتارکر سپرد خاک کرنے اور حضرت اسماء سے ہم دردی کرنے کا حکم دیا۔ چنانچہ حضرت عبداﷲ کی تدفین کے بعد حجاج نے حضرت اسماء کو بلایاتو وہ نہ آئیں۔ وہ خود ان کے ہاں گیا اور کہا: اماں جان، امیر المومنین عبدالملک نے مجھے حکم دیا ہے کہ آپ کی ضروریات کا خیال رکھوں۔ حضرت اسماء نے کہا: میں تمھاری ماں ہوں نہ مجھے تم سے کچھ لینا ہے۔میں تواس شہید بیٹے کی ماں ہوں جسے تم نے سولی پر لٹکا رکھا تھا۔ تو نے حضرت عبداﷲ کی دنیا خراب کی اوراس نے تمھاری آخرت تباہ کر دی ہے۔میں نے سنا ہے کہ تم میرے بیٹے کو ذات النطاقین کا بیٹا کہہ کرچڑاتے تھے؟اس نے کہا: ہاں۔ حضرت اسماء نے کہا: میرا کمربند ہی تھا جس کے دو ٹکڑے کر کے میں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا مشکیزہ اور توشہ دان باندھے تھے۔عورتوں کے لیے کمربند ایک ناگزیر شے ہے (مسلم، رقم ۶۵۸۸)۔
حضرت اسماء مسجد حرام آئیں تو وہاں موجود حضرت عبداﷲ بن عمرنے صبر کی تلقین کرتے ہوئے کہا: ان مادی اجسام کی کوئی حیثیت نہیں،ارواح تو اﷲ کے ہاں ہیں۔ حضرت اسماء نے کہا: میں صبر کیوں نہ کروں، یحیےٰ بن زکریاکو دیکھو، اﷲ کے نبی تھے جن کا سر کاٹ کر بنی اسرائیل کی ایک فاحشہ عورت کو پیش کر دیا گیا تھا۔
وہ اپنے بیٹے کو نصیحت کرتیں: بچے، اعلیٰ اخلاق کے ساتھ عمدہ زندگی گزارو،عزت و شرف حاصل کر کے مرو۔لوگ تمھیں قید نہ کرنے پائیں۔
حضرت اسماء خوابوں کی تعبیر بتایا کرتی تھیں، یہ علم انھوں نے اپنے والد سیدنا ابوبکر سے سیکھا تھا۔ان سے حضرت سعید بن مسیب نے حاصل کیا اوردرجۂ کمال کو پہنچے۔
حضرت اسماء دراز قد اور لحیم شحیم تھیں۔آخری عمر میں ان کی بینائی زائل ہو چکی تھی، تاہم دانت صحیح سلامت اور حواس قائم تھے۔ طبرانی کی روایت کے مطابق ان کی نظر بھی آخر تک صحیح رہی۔ سر میں اکثر درد رہتا،سر پر ہاتھ لگا کرکہتی تھیں: یہ میرے ایک گناہ کی پاداش ہے۔ جو اﷲ نے بخش دیے ہیں ،کہیں زیادہ ہیں۔ حضرت اسماء عام طور پرعصفور بوٹی سے خوب رنگے ہوئے زرد کپڑ ے پہنتی تھیں۔ان کی پوتی فاطمہ بنت منذر کہتی ہیں: میں نے آخری وقت تک ان کو ایسے لباس ہی میں ملبوس دیکھا ہے۔حالت احرام میں بھی یہی لبا س ہوتا، تاہم تب زعفران کی خوشبو نہ لگاتیں۔افلاس و تنگ دستی کے بعد اﷲ نے کشادگی دی تو حضرت اسماء نے اعزہ و اقربا اور حاجت مندوں پر بے دریغ خرچ کیا۔سیدہ عائشہ کے ترکے سے حاصل ہونے والا جنگل ایک لاکھ درہم میں حضرت معاویہ کو فروخت کیا اورتمام رقم قاسم بن محمد اور ابن ابی عتیق کو دے دی (بخاری، کتاب الہبہ:باب۲۲)۔ سیدہ عائشہ بھی بہت سخی تھیں، تاہم وہ پہلے کچھ رقم پس انداز کرتیں پھردیتی دلاتیں،ان کے برعکس حضرت اسماء جو ہوتا دے دیتیں اور اگلے دن کے لیے کچھ بھی نہ بچاتیں۔
پابندئ شریعت اور تقویٰ کی یہ کیفیت تھی کہ ایک مرتبہ ان کی والدہ کشمش ، گھی اورچمڑے کو رنگنے والے درخت قرظ کے پتوں کے تحائف لے کر مدینہ آئیں توانھیں قبو ل نہ کیا، والدہ کو گھر میں نہ بٹھایا اورحضرت عائشہ کو پیغام بھیجا کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے پوچھ کر بتاؤ۔آپ نے فرمایا: ان کو عزت سے بٹھاؤ اور تحفے قبول کر لو، کیونکہ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

لاَ یٰنْہٰکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیٰنَ لَمْ یٰقَاتِلُوْکُمْ فِی الدِّیٰنِ وَلَمْ یٰخْرِجُوْکُمْ مِّنْ دِیٰارِکُمْ اَنْ تَبَرُّوْہُمْ وَتُقْسِطُوْٓا اِلَیٰہِمْ.(الممتحنہ۶۰: ۸)
’’اﷲ تمھیں ان لوگوں سے احسان اور انصاف کا سلوک کرنے سے منع نہیں کرتا، جنھوں نے تم سے قتال نہیں کیااور تمھیں تمھارے گھروں سے نہیں نکالا۔‘‘

دوسری روایت کے الفاظ اس طرح ہیں، حضرت اسماء نے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ میری ماں (قتیلہ) محبت سے مجھے ملنے آئی ہے، عہدقریش سے مشرکہ ہے، کیا میں اس کی خدمت کر سکتی ہوں؟آپ نے فرمایا: ہاں، اس سے صلۂ رحمی کرو (بخاری، رقم ۲۶۲۰، ۵۹۷۸)۔ حضرت اسماء کے بیٹے عروہ روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ میں گھر آیاتو والدہ نماز پڑھ رہی تھیں۔بلند آواز میں تلاوت کرتے ہوئے اس آیت پر پہنچیں: ’فَمَنَّ اللّٰہُ عَلَےْنَا وَوَقٰنَا عَذَابَ السَّمُوْمِ‘ ’’تب اﷲ نے ہم پر احسان کیا اور ہمیں گرم لو کے عذاب سے بچا لیا‘‘ (الطور۵۲: ۲۷)، تو استعاذہ کرنا (اعوذباﷲ پڑھنا) شروع کر دیا۔کافی دیر گزر گئی تو میں بازار چلا گیا، لوٹا تو بھی وہ استعاذہ میں مصروف تھیں۔ حضرت اسماء پر کوئی بیماری آتی تو تمام غلاموں کو آزاد کردیتیں۔اپنی بیٹیوں اور اہل خانہ کو تلقین کرتیں، انفاق کرو اور صدقہ دو۔ مال کے زائد ازضرورت ہونے کاانتظار نہ کرتے رہو۔اگر تم بچت کی طرف دیکھتے رہے تو وہ کبھی ہاتھ نہ آئے گی اور اگر صدقہ کر دیا تو خرچ کیا ہوا محسوس بھی نہ ہو گا۔ وفات سے پہلے حضرت اسماء بنت ابوبکر نے وصیت کی کہ میرے کپڑوں کو عود خوشبو کی دھونی دینا، مجھے خوشبو لگا دینا، لیکن میرے کفن پر مشک ،کافور نہ بکھیرنا ۔
حضرت اسماء کے بیٹے منذر بن زبیرعراق سے آئے تو اپنی والدہ کومروشہر کے بنے ہوئے باریک عمدہ کپڑوں کا ایک جوڑا بھیجا۔انھوں نے اسے چھو کردیکھا اور کہا: اس کے کپڑے واپس کر دو۔منذر پر یہ گراں گزرا، کہا: اماں جان، ان کپڑوں سے بدن دکھائی نہیں دیتا۔ حضرت اسماء نے کہا: دکھائی نہیں دیتا، پتا تو ضرورچلتا ہے۔تب منذرنے دوسری طرح کے مروی وقوہی کپڑے خرید کر بھیجے تو حضرت اسماء نے لے لیے اور کہا: ایسے کپڑے میں پہن لیتی ہوں۔
حضرت اسماء بنت ابوبکرسے متعدد احادیث مروی ہیں جو صحیحین اور سنن میں موجود ہیں۔ان کی مسند اٹھاون احادیث پر مشتمل ہے۔تیرہ احادیث ہیں جن پر بخاری و مسلم متفق ہیں، ان کے علاوہ صرف بخاری میں پانچ اور مسلم میں چار حدیثیں موجود ہیں۔ حضرت اسماء بنت ابوبکر سے حدیث روایت کرنے والوں میں شامل ہیں ان کے بیٹے عبداﷲ بن زبیر، عروہ بن زبیر،ان کے پوتے عبادبن عبداﷲ بن زبیر، عباد بن حمزہ بن عبداﷲ،عبداﷲ بن عروہ، ابوبکر بن عبداﷲبن زبیر،عامر بن عبداﷲ بن زبیر،عبداﷲ بن عباس،ابوواقد لیثی،صفیہ بنت شیبہ،عبداﷲ بن ابی مُلیکہ، مطلب بن عبداﷲ بن حنطب،محمد بن منکدر،فاطمہ بنت منذر بن زبیر رضی اللہ عنہم، حضرت اسماء کے آزاد کردہ عبداﷲ بن کیسان،مسلم قری،ابو نوفل معاویہ بن ابو عقرب اور وہب بن کیسان۔
مطالعۂ مزید:السیرۃ النبوےۃ(ابن ہشام)،الطبقات الکبریٰ (ابن سعد)، الجامع المسند الصحیح(بخاری ، شرکۃ دار الارقم)، المسند الصحیح المختصر من السنن( مسلم، شرکۃ دار الارقم )،تاریخ الامم و الملوک(طبری)،حلےۃ الاولیاء و طبقات الاصفیاء(ابونُعیم اصفہانی)،الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب(ابن عبدالبر)، الکامل فی التاریخ(ابن اثیر)، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ (ابن اثیر)،تہذیب الکمال فی اسماء الرجال(مزی)،تاریخ الاسلام (ذہبی)، سیراعلام النبلاء(ذہبی)،البداےۃ والنہاےۃ (ابن کثیر)،الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ(ابن حجر)، تہذیب التہذیب (ابن حجر)،اردو دائرۂ معارف اسلامیہ(مقالہ: سید نذیر نیازی)۔

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت اکتوبر 2013
مصنف : ڈاکٹر وسیم مفتی
Uploaded on : Jun 30, 2018
5117 View