حضرت حمزہ بن عبدالمطلب رضی ﷲ عنہ - ڈاکٹر وسیم مفتی

حضرت حمزہ بن عبدالمطلب رضی ﷲ عنہ

 

حسب و نسب: ابوطالب اور زبیر بن عبدالمطلب آں حضور صلی ﷲ علیہ وسلم کے سگے چچا، جب کہ حضرت حمزہ آپ کے سوتیلے چچا تھے۔ بنومخزوم سے تعلق رکھنے والی فاطمہ بنت عمرو آپ کی دادی تھیں۔ حضرت حمزہ کی والدہ کا نام ہالہ بنت اہیب (یا وہیب) تھا ۔دونوں خواتین آپ کے دادا عبدالمطلب کے نکاح میں آنے والی سات بیبیوں میں شامل تھیں۔مقوم(یا عبدالکعبہ) اور حجل(اصل نام: مغیرۃ) حضرت حمزہ کے سگے بھائی، جب کہ حضرت صفیہ بن عبدالمطلب ان کی سگی بہن تھیں۔ہالہ بنت اہیب نبی اکرم صلی ﷲ علیہ وسلم کی والدہ آمنہ بنت وہب کی چچا زاد بہن تھیں،عبد مناف دونوں کے دادا تھے۔ حضرت قریش سے تعلق رکھنے کی وجہ سے حضرت حمزہ بن عبدالمطلب قریشی اوراپنے دادا ہاشم بن عبد مناف کی نسبت سے ہاشمی کہلاتے ہیں۔ حضرت حمزہ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم سے چار(یا دو: ابن عبدالبر) برس بڑے تھے۔نبی صلی ﷲ علیہ وسلم کی ولادت کے بعد سب سے پہلے ابو لہب کی باندی ثویبہ نے اپنے بیٹے مسروح کے ساتھ آپ کو دودھ پلایا،قبل ازیں وہ حضرت حمزہ کی رضاعت کر چکی تھی اور آپ کے بعد حضرت ابوسلمہ بن عبدالاسد مخزومی کی دودھ پلائی بھی اس کے ذمہ آئی ۔اس طرح آں حضور صلی ﷲعلیہ وسلم، حضرت حمزہ بن عبدالمطلب، حضرت ابو سلمہ بن عبدالاسد اور مسروح رضاعی بھائی ہوئے۔ ابوعمارہ اور ابویعلیٰ حضرت حمزہ کی کنیتیں تھیں۔حضرت حمزہ کا قد میانہ تھا۔

عبدالمطلب کی نذر: چاہ زمزم کی دوبارہ کھدائی کے وقت آں حضور صلی ﷲ علیہ وسلم کے دادا عبد المطلب نے نذر مانی تھی کہ اگر ان کے دس بیٹے ہوئے اور وہ بالغ ہو کر ان کی حفاظت کرنے کے قابل ہو گئے تو ان میں سے ایک کو کعبہ کے پاس قربان کر دیں گے۔چنانچہ جب حارث،زبیر،حجل ،ضرار، مقرم،ابولہب،عباس،حمزہ، ابوطالب اور عبدﷲ جوان ہوئے تو انھوں نے ان کو اپنی نذر کے بارے میں بتایا۔ان کی آمادگی کے بعد قربانی کے لیے پیش کیے جانے والے بیٹے کا فیصلہ کرنے کے لیے انھوں نے ہبل بت کے سامنے رکھے ہوئے قرعہ اندازی کے سات پیالوں سے مدد لی۔سب سے چھوٹے اور محبوب تر ین بیٹے ،نبی صلی ﷲ علیہ وسلم کے والد عبدﷲ کا نام نکلا تو قریش کے اصرار پرایک کاہنہ سجاح کی مدد لی گئی۔اس کی تجویز پر بیٹے کے بجاے سو اونٹوں کا فدیہ دیا گیا۔ دوسری روایت کے مطابق عبدالمطلب کے بارہ یا تیرہ بیٹے ہوئے۔

عبدالمطلب کی بنوزہرہ سے رشتہ داری: عبدالمطلب ایک دفعہ یمن کے سفر پر گئے تو راستے میں ایک یہودی عالم نے ان کے ہاتھ(نتھنے: ابن جوزی) دیکھ کر بتایا کہ آپ کے ہاتھوں میں نبوت و حکومت کے آثار ہیں، لیکن ان کا تعلق قبیلۂ بنو زہرہ سے ہے۔آپ مکہ جا کر کسی زہریہ سے شادی کر لیں، چنانچہ انھوں نے بنوزہرہ کی ہالہ بنت وہب سے نکاح کر لیا ۔ان سے حضرت صفیہ اور حضرت حمزہ پیدا ہوئے۔ عبدالمطلب کے چھوٹے بیٹے عبدﷲ کی شادی بنوزہرہ ہی کی آمنہ بنت وہب سے ہوئی۔ان سے حضرت محمد صلی ﷲ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت ہوئی۔حضرت مسور بن مخرمہ کہتے ہیں کہ ہالہ کی عبدالمطلب سے اور آمنہ کی ان کے بیٹے عبدﷲ سے شادی ایک ہی روز ہوئی (مستدرک حاکم، رقم ۴۸۷۷)۔

جنگ فجار: عام الفیل کے بیس سال بعد۵۸۸ ء میں چوتھی اورآخری جنگ فجار ہوئی ۔ زبیر بن عبدالمطلب نے بنو ہاشم کی نمایندگی کی۔ ابو طالب بن عبدالمطلب، حضرت حمزہ بن عبدالمطلب ،حضرت عباس بن عبدالمطلب اور رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم بنوہاشم کے دستے میں شامل تھے۔آپ اپنے چچاؤں اور اہل قبیلہ کو تیر پکڑاتے جاتے تھے۔عکاظ کے مقام پر لڑی جانے والی اس جنگ میں قریش اور اس کے اتحادی کنانی قبائل کو بنوقیس پرفتح حاصل ہوئی۔ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے اپنے چچاؤں کے ساتھ جنگ فجار میں حصہ لیا اوراس میں تیر اندازی کی ۔اس شرکت پر مجھے کوئی پشیمانی نہیں۔

حضرت خدیجہ کا پیام: نوجوان محمد صلی ﷲ علیہ وسلم کی مکہ میں نیک نامی اور امانت کے چرچے ہوئے تو حضرت خدیجہ نے نفیسہ بنت منیہ کو پیغام بر بنا کر آپ کی طرف بھیجا ۔ اس وقت حضرت خدیجہ کے چچا عمرو بن اسد زندہ تھے، صحیح روایت کے مطابق تب ان کے والد خویلدبن اسد وفات پا چکے تھے۔ یہ مقدس رشتہ طے ہوا تو نبی صلی ﷲ علیہ وسلم اپنے چچاؤں ابوطالب،حضرت حمزہ اور خاندان کے دوسرے بزرگوں کے ساتھ سیدہ خدیجہ کے مکان پر آئے۔ آپ کے سرپرست اور چچا ابو طالب نے وہ مختصر خطبہ پڑھا جو ادب عربی کا حصہ بن گیا ہے۔ پانچ سو درہم (یا بیس اونٹ)مہر کے عوض یہ نکاح انجام پایا۔ یہ بعثت سے پندرہ سال پہلے ۲۵ عام الفیل کا سن تھا، آپ کی عمر مبارک پچیس برس اور ام المومنین خدیجہ کی چالیس سال تھی۔

اقربا کو دعوت: جب رسالت مآب صلی ﷲ علیہ وسلم کو ﷲ کی طرف سے حکم ہوا: ’وَاَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ‘، ’’اپنے قریبی رشتہ داروں کوخبردار کرو‘‘(الشعراء۲۶: ۲۱۴) توحضرت علی کو دعوت کی تیاری کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: تمام بنوعبدالمطلب کو جمع کر لینا تاکہ میں ان تک اپنی بات پہنچا سکوں ۔ آپ کے چچا ابو طالب ، حضرت حمزہ، حضرت عباس اور ابولہب سمیت چالیس کے قریب آدمی اکٹھے ہوئے، سب نے پیٹ بھر کر کھانا کھایا ۔ کھانے سے فارغ ہونے کے بعد آپ بات شرو ع کرنے لگے تھے کہ ابولہب مہمانوں کو لے کر اٹھ کھڑا ہوا۔آپ نے فرمایا: علی، کل پھر یہی اہتمام ہو، اس شخص نے مجھے بات نہیں کرنے دی۔ اگلے دن خورونوش کے بعد آپ نے فرمایا: اے بنو کعب بن لؤی، اپنے آپ کو جہنم سے بچالو؛ اے بنو ہاشم، اپنے آپ کو دوزخ سے بچالو؛ ا ے بنو عبدالمطلب، اپنے آپ کو آگ سے بچالو۔ میں تمھارے پاس دنیا و آخرت کی بھلائی لے کر آیا ہوں۔ ﷲ نے مجھے حکم دیا ہے کہ تمھیں دین حق کی طرف بلاؤں۔تم میں سے کون اس کام میں میرا مددگار بنے گا؟حضرت علی کہتے ہیں کہ سب خاموش رہے تو میں نے آپ کے ساتھ تعاون کرنے کا اعلان کیا، حالاں کہ میں ان سب سے چھوٹاتھا ۔

ابولہب کی ایذا رسانی: رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم کا چچا ابولہب آپ کا پڑوسی تھا۔وہ اپنے گھر کا پاخانہ اور گندگی آپ کے دروازے پر پھینک دیتا تھا۔ آپ صرف اتنا فرماتے: اے بنو عبدالمطلب، تم کیسے ہم سایے ہو؟ایک روز حضرت حمزہ نے اسے ایسا کرتے دیکھ لیا تو پاخانہ اٹھا کر ابولہب کے سر پر ڈال دیا۔وہ سر جھاڑتا جاتا اور کہتا جاتا: صابی، احمق۔ ابولہب پھر خودیہ حرکت کرنے سے باز آ گیا، تاہم اس طرح کے لوگوں کے ساتھ مل کر سازشیں کرتا رہا۔

قبول اسلام: حضرت حمزہ بن عبدالمطلب ۶ ؍ نبوی (۵؍ نبوی:ابن جوزی، ۲؍ نبوی:ابن عبدالبر،ابن اثیر )میں ایمان لائے۔ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم کوہ صفا پر تھے کہ ابوجہل کاوہاں سے گزر ہوا۔اس نے آپ کو برا بھلا کہا ، گالی گلوچ کی اور دین اسلام کا استہزا کیا۔جواب میں آپ خاموش رہے ۔عبدﷲ بن جدعان کی باندی اپنے گھر بیٹھی سن رہی تھی۔ابوجہل صفا سے کعبہ کے پاس قریش کی منعقدہ بیٹھک میں آ بیٹھا۔کچھ دیر ہی گزری تھی کہ حضرت حمزہ بن عبدالمطلب شکار سے واپسی پر گلے میں کمان لٹکائے آ گئے۔ ان کا طریقہ تھا ، شکارکرنے کے بعد بیت ﷲ کا طواف کرتے ،قریش کی مجلس میں بیٹھتے، حاضرین سے سلام دعا اور گپ شپ کرتے۔ اس کے بعد ہی وہ گھر لوٹتے۔گھر کے راستے میں انھیں عبدﷲ بن جدعان کی باندی ملی او ر کہا: اے ابو عمارہ، کاش! آپ دیکھ لیتے،آپ کے بھتیجے محمد نے ابو الحکم بن ہشام کا کیسا سلوک برداشت کیا۔ اس نے انھیں سب وشتم کیا اور ایذا پہنچائی، لیکن وہ چپ رہے۔ حضرت حمزہ کو سخت غصہ آیا ، غیظ و غصب سے پر دوڑتے دوڑتے ا بوجہل کے پاس پہنچ گئے اور کمان اس کے سر پر دے ماری۔ اس کا سر پھاڑ کر بولے: میں نے بھی محمد کادین اختیار کر لیا ہے اور انھی باتوں کا قائل ہو گیا ہوں جو وہ کہتے ہیں۔مجھے روک سکتا ہے تو روک لے۔ابوجہل کے قبیلے بنومخزوم کے لوگ اس کی حمایت میں کھڑے ہوئے تو اس نے خود انھیں روک دیا اور کہا: ابوعمارہ کا غصہ بجا ہے ، میں نے اس کے بھتیجے کو بہت برا کہا ہے۔قبول اسلام کے بعد حضرت حمزہ گھر گئے تو شیطان نے ان کے دل میں وسوسہ ڈالا کہ تم قریش کے سردار ہو کر اس دین کو مان آئے ہو جس کے ہدایت ہونے پر تمھارا پورا یقین نہیں۔رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم نے انھیں سمجھایا اورتسلی دی تو وہ مطمئن اور پر یقین ہو گئے۔ حضرت حمزہ کے مسلمان ہونے کے بعد مکہ کے اہل ایمان کو بڑی تقویت ملی۔ مختلف قبائل اسلام کی طرف مائل ہونے لگے (مستدرک حاکم، رقم ۴۸۷۸)۔ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم کی یہ دعا بھی قبول ہوئی کہ اے ﷲ، میرے محبوب چچاؤں حمزہ اور عباس کے ذریعے سے مجھے طاقت دے۔ان دونوں کے علاوہ آپ کا کوئی چچا اسلام نہ لایا۔

۶ ؍نبوی میں حضرت عمر اپنی مسلمان ہونے والی بہن حضرت فاطمہ بنت خطاب اورمسلم بہنوئی حضرت سعید بن زید کی سر پھٹول کرنے کے بعد شرمندہ ہوئے۔ان کو مائل بہ ایمان دیکھ کر حضرت خباب بن ارت دار ارقم لے آئے جہاں نبی صلی ﷲ علیہ وسلم ،حضرت ابوبکر ،حضرت حمزہ اور دیگر مخلص اہل ایمان جمع تھے۔حضرت عمر نے دروازہ کھٹکھٹایا، ایک صحابی نے آپ کو بتایاکہ عمر گلے میں تلوار لٹکائے کھڑے ہیں۔حضرت حمزہ بولے: ان کو آنے دیں،اگر بھلا چاہیں گے تو ہم جی جان سے تعاون کریں گے اور اگر ارادہ برا ہوا تو انھی کی تلوار سے ان کا کام تمام کر دیں گے۔ آں حضور صلی ﷲ علیہ وسلم حضرت عمر کی طرف بڑھے اوران کی چادر زور سے کھینچ کر بولے :ابن خطاب، کیسے آئے ہو؟ حضرت عمر نے ایمان لانے کا اعلان کیا تو آپ نے زور سے’ ﷲ اکبر‘ کا نعرہ بلند کیا۔ حضرت عمر حضرت حمزہ کے مسلمان ہونے کے تین دن بعد ایمان لائے۔ انھوں نے ایمان قبول کرتے ہی کہا: یا رسول ﷲ،کیا ہم حق پر نہیں؟ تو پھر ہم کیوں چھپ چھپ کر جییں؟ اس کے بعد مسلمان دوصفیں بنا کر حرم میں پہنچے: ایک میں حضرت عمر اور دوسری میں حضرت حمزہ تھے۔ رسول اکرم صلی ﷲ علیہ وسلم نے بیت ﷲ کا علانیہ طواف کیا اور ظہر کی نماز ادافرمائی۔

حضرت حمزہ کے ایمان لانے کے بعد ہی حضرت عبدﷲ بن مسعودنے مقام ابراہیم پر ، جہاں قریش کی بیٹھک جمی ہوئی تھی، بلند آواز میں سورۂ رحمن تلاوت کرنے کی ہمت کی۔یہ الگ بات ہے کہ قریش نے مار پیٹ کر ان کا منہ سجا دیا۔

شعب ابو طالب: متعدد مسلمانوں کے حبشہ ہجرت کر جانے اور حضرت حمزہ کے ایمان لانے کے بعدمشرکین کو اسلام کی بڑھتی ہوئی طاقت روکنے کا اس کے علاوہ کوئی طریقہ نہ سوجھا کہ مسلمانوں کا معاشی بائیکاٹ کیا جائے۔ چنانچہ تمام رؤساے قریش نے اہل ایمان کے سماجی مقاطعہ کا معاہدہ تحریر کیا اور اس پر دستخط ثبت کر کے کعبہ میں لٹکا دیا۔مسلمان تین سال شعب ابو طالب میں محصور رہے،قریش نے ان کی غلہ و حاجات ضروریہ کی رسدروک رکھی تھی۔ ایک بار حضرت خدیجہ کے بھتیجے حکیم بن حزام اپنی پھوپھی کے لیے گندم لے کرجارہے تھے کہ ابوجہل نے دیکھ لیا۔اس نے انھیں روکنا چاہا تو ابوالبختری بن ہشام نے ٹوکا۔اس پر ان دونوں میں لڑائی مار کٹائی ہو گئی۔حضرت حمزہ بن عبدالمطلب پاس کھڑے دیکھ رہے تھے۔

رؤیت جبریل: حضرت حمزہ نے نبی صلی ﷲعلیہ وسلم سے کہا: مجھے حضرت جبرئیل علیہ السلام اپنی اصل شکل میں دکھا دیں۔آپ نے فرمایا: آپ ان کو دیکھ نہ سکیں گے۔انھوں نے اصرار کیا تو آپ نے دکھایا کہ حضرت جبرئیل کعبہ کی اس لکڑی پر اترے جس پر طواف کرنے والے اپنے کپڑے لٹکا دیتے ہیں۔ان کے پاؤں سبز زمرد کی طرح تھے۔ حضرت حمزہ انھیں دیکھتے ہی بے ہوش ہو گئے۔

ہجرت مدینہ: ساکنان مکہ کو ہجرت کا اذن ہواتوحضرت حمزہ بھی شہر نبی پہنچ گئے ۔ابن اسحق کی روایت کے مطابق حضرت حمزہ ،حضرت زید بن حارثہ، حضرت حمزہ کے حلیف حضرت ابومرثدکناز بن حصین،ان کے بیٹے مرثد، حضرت انسہ اور حضرت ابوکبشہ قبا میں بنوعمرو بن عوف کے حضرت کلثوم بن ہدم کے ہاں ٹھیرے۔ ایک اور روایت کے مطابق یہ سب حضرات حضرت سعد بن خیثمہ کے مہمان ہوئے۔ تیسری روایت بتاتی ہے کہ حضرت حمزہ نے بنونجار کے حضرت اسعد بن زرارہ کے ہاں قیام کیا۔ مسجد نبوی تعمیر ہوئی تو نبی صلی ﷲ علیہ وسلم نے حضرت حمزہ،حضرت جعفر اور حضرت علی کے گھر اپنے گھر کے ساتھ تعمیر کرائے، حالاں کہ حضرت جعفر ابھی حبشہ سے نہ لوٹے تھے۔ ان اصحاب کے گھروں کے دروازے مسجد میں کھلتے تھے جو بعد میں آپ نے ﷲ کے حکم سے بند کرا دیے۔ آپ نے فرمایا: ’’اس مسجد میں کوئی دریچہ کھلا نہ رہنے پائے، سواے دریچۂ ابو بکر کے‘‘ (بخاری، رقم ۴۶۷۔ مسلم، رقم ۶۲۴۵)۔ حضرت علی رضی ﷲ عنہ کے گھر کا بڑا دروازہ ہی مسجد کے اندر تھا، اسے بند کرنا ممکن نہ تھا۔

مواخات: رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم نے مدینہ تشریف آوری کے بعد حضرت انس بن مالک کے گھر میں پینتالیس (یا پچاس) مہاجرین اور اتنی ہی تعداد انصار کی جمع کی اور ان میں باہمی مواخات قائم فرمائی۔ سب سے پہلے آپ نے حضرت علی کا ہاتھ پکڑ کر انھیں اپنا اسلامی بھائی بنایا۔آپ نے ایک مہاجر کو ایک انصاری کا بھائی قرار دینے کے ساتھ کچھ مہاجرین میں باہمی مواخات بھی قرار فرمائی۔آپ نے اپنے آزادکردہ حضرت زید بن حارثہ کو حضرت حمزہ کا مومن بھائی قرار دیا۔ اسی بنا پرحضرت حمزہ نے جنگ احد میں اپنی شہادت کی صورت میں حضرت زید کے حق میں وصیت کی۔ابن کثیر کہتے ہیں کہ حضرت حمزہ شروع سے حضرت زید کی ضروریات کا خیال رکھتے تھے۔

سریۂ حمزہ بن عبد المطلب: رمضان ۱ھ (۶۲۳ء ) ہجرت مدینہ کے سات(دوسری روایت:بارہ) ماہ بعد رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم نے حضرت حمزہ کو سفید علم عطا کر کے ساحل سمندر(سیف البحر) کی طرف عیص کے مقام پر بھیجا جو قریش کی شام سے تجارت کے راستے پر واقع تھا۔ تیس مہاجر صحابہ ان کے ساتھ تھے۔ ان میں ایک بھی انصاری نہ تھا۔ ساحل پر ان کا سامنا ابوجہل کے قافلے سے ہوا جو مکہ کے تین سو گھڑ سواروں کے ساتھ سفر کر رہا تھا۔مجدی بن عمرو دونوں فریقوں کا حلیف تھا، اس نے ان میں بیچ بچاؤ کرا دیا اور جنگ کی نوبت نہ آئی۔ زہری ،موسیٰ بن عقبہ اور واقدی کا کہنا ہے کہ یہ تاریخ اسلامی کاپہلا سریہ تھا اور رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم نے جو پرچم حضرت حمزہ کے سپرد فرمایا، وہ آپ کا عطا کردہ پہلا جنگی پرچم تھا۔اسے حضرت ابومرثد نے تھامے رکھا ۔ ابن اسحق کہتے ہیں کہ شوال ۱ھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ساٹھ (یا اسی) مہاجرین کا ایک دستہ ترتیب دیااور حضرت عبیدہ بن حارث کی قیادت میں اسے بطن رابغ جانے کا حکم دیا۔ حضرت عبیدہ کو آپ نے جو پرچم عنایت کیا ،وہ پہلااسلامی پرچم تھا۔ زہری کی دلیل یہ ہے کہ نبی صلی ﷲ علیہ وسلم نے پہلے حضرت حمزہ کو سیف البحر(ساحل)کی طرف بھیجا ،پھر غزوۂ ابوامیں تشریف لے گئے، وہاں سے آپ لوٹے تو حضرت عبیدہ بن حارث کو روانہ فرمایا۔ابن ہشام کہتے ہیں کہ حضرت حمزہ اور حضرت عبیدہ کے سریے ایک ساتھ روانہ کیے گئے تھے، اس لیے اس باب میں اہل تاریخ میں اختلاف رونما ہو گیا۔ہم نے اہل علم سے جو سماع کیا، اس کے مطابق حضرت عبیدہ بن حارث پہلے پرچم بردار تھے۔ حضرت حمزہ کی طرف منسوب کچھ اشعار میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ انھیں پہلا علم اسلامی بلند کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ اگر یہ اشعار واقعی حضرت حمزہ کے ہیں تو ان کا دعویٰ سچ ہی ہو گا، لیکن افسوس کہ عربی شاعری کے اکثر علما ان کی طرف اشعار کی نسبت درست نہیں مانتے:

فما برحوا حتی انتدبت لغارۃ          لہم حیث حلوا أبتغي راحۃ الفضل

’’مشرکین اپنے کفر پر قائم رہے، یہاں تک کہ میں ان کے پڑاؤ کرنے کی جگہ چھاپا مارنے لپکا،مجھے فضیلت و سبقت کی تمنا تھی ۔‘‘

بأمر رسول ﷲ ، أول خافق          علیہ لواء لم یکن لاح من قبلي

’’یہ رسول ﷲ کے حکم سے ہوا،اس سریہ پر پہلا پرچم پھڑپھڑا رہا تھا جو مجھ سے پہلے نمودار نہ ہوا تھا ۔‘‘

لواء لدیہ النصر من ذي کرامۃ          إلہ عزیز فعلہ أفضل الفعل
’’یہ پرچم ایسا تھا کہ ﷲ عزیز و مقتدر کی مدد ساتھ تھی جوایسا زبردست الٰہ ہے جس کا کرنا سب سے خوب کرنا ہے۔‘‘

ابن حجر نے دونوں روایتوں میں یوں تطبیق کی کہ پرچم کے لیے عربی میں دو لفظ ’رایہ‘ اور ’لواء‘ آتے ہیں ۔ عبیدہ کے لیے ’رایہ‘ اور حمزہ کے لیے ’لواء‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ممکن ہے ، دونوں کی اولیت اس خاص نام کے حوالے سے درست ہو۔بیہقی کا خیال ہے کہ نبی صلی ﷲ علیہ وسلم نے حضرت عبدﷲ بن جحش کو سرایا کے سلسلے کا پہلا امیر مقرر فرمایا۔

غزوۂ ودان یا غزوۂ ابوا: ۱۲ ؍ربیع الاول ۲ھ (جون ۶۲۳ء )ہجرت کے بارھویں ماہ آں حضور صلی ﷲ علیہ وسلم قریش کے قافلے کا تعاقب کرنے کے لیے فرع کے گاؤں ودان روانہ ہوئے،ابوا یہاں سے چھ میل دورواقع ہے۔ آپ کا سفید علم حضرت حمزہ بن عبدالمطلب نے بلند کررکھا تھا۔قریش سے مقابلہ تونہ ہوا، تاہم بنوضمرہ کے سردار مخشی بن عمروسے معاہدۂ صلح طے ہوگیا۔ابن سعد کہتے ہیں: غزوۂ ودان ہی غزوۂ ابوا ہے۔

غزوۂ ذو العشیرہ: جمادی الاولیٰ ۲ھ (اکتوبر۶۲۳ء ) رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم شام کو جانے والے قریش کے قافلے کو روکنے کے لیے مدینہ سے سو میل دور مکہ کی جانب ینبع کے قریب واقع مقام عشیرہ(یا ذو العشیرہ) تک پہنچے۔ ڈیڑھ سو یا دو سو مہاجرین آپ کے ساتھ تھے۔ آپ کا پرچم حضرت حمزہ نے اٹھا رکھا تھا۔اس مہم میں کسی جنگ کی نوبت نہ آئی، البتہ بنومدلج اور بنوضمرہ کے حلیف قبائل سے صلح ہو گئی ۔

غزوۂ بدر سے پہلے ہونے والے سرایا میں نبی صلی ﷲ علیہ وسلم نے انصار کو اس لیے شامل نہیں فرمایا، کہ انھوں نے آپ سے عہد کیا تھا کہ ہم اپنے گھر میں آپ کی حفاظت کریں گے۔

جنگ بدر: ۱۷؍ رمضان ۲ھ (۱۳؍ مارچ۶۲۴ء) کو بدر کے میدان میں کفر و اسلام کا فیصلہ کن معرکہ ہوا۔ ۳؍ رمضان کو تین سوسے زائد مسلمان مدینہ سے چلے تو ان کے پاس محض ستر اونٹ تھے جن پر وہ باری باری سوار ہوتے۔ نبی صلی ﷲ علیہ وسلم،حضرت علی اورحضرت ابو لبابہ باری باری ایک اونٹ پر سوار ہوتے رہے، روحا کے مقام پر پہنچ کر آپ نے حضرت ابولبابہ کو مدینہ کا عامل مقرر کرکے واپس بھیج دیا تو حضرت مرثد غنوی آپ کے شریک سفر بن گئے۔ حضرت حمزہ ، حضرت زید بن حارثہ ،حضرت ابوکبشہ اور حضرت انسہ نے ایک اونٹ پر باری لی۔ میدان جنگ میں حضرت علی نے مہاجرین کا پرچم اٹھایا، جب کہ حضرت سعد بن عبادہ نے انصار کا پرچم تھاما۔ آں حضرت صلی ﷲ علیہ وسلم نے حضرت علی سے کہا: مشرکوں کی فوج کے قریب کھڑے حمزہ سے پوچھو ، کون ہے جو سرخ اونٹ پر پھر رہا ہے؟ انھوں نے بتایا کہ یہ عتبہ بن ربیعہ ہے جو اپنی فوج کو جنگ سے باز رہنے کی اپیل کر رہا ہے(مسند احمد، رقم ۹۴۸)۔

سب سے پہلے اسود بن عبدالاسد مخزومی نکلااور بولا: میں نے ﷲسے عہد کیا ہے کہ مسلمانوں کے حوض سے پانی پیوں گا یا اسے ڈھا ؤں گا یا اس کے پاس مر جاؤں گا۔حضرت حمزہ بن عبدالمطلب اس کا مقابلہ کرنے آئے اورتلوار کا وار کر کے اس کی آدھی پنڈلی کاٹ پھینکی۔وہ کمر کے بل گرا اور اپنی قسم پوری کرنے کے لیے حوض میں جا گرا۔حضرت حمزہ نے اس کا پیچھا کیا اورایک اور وار کر کے حوض کے اندر اس کا خاتمہ کر دیا۔

ابوجہل نے صلح کی بات کرنے پرطعن وتشنیع کی توعتبہ،اس کا بھائی شیبہ بن ربیعہ اور اس کا بیٹا ولید بن عتبہ آگے بڑھے اوردعوت مبارزت(duel)دی۔ انصار میں سے حضرت عوف بن عفرا،حضرت معوذ بن عفرا اورحضرت عبدﷲ بن رواحہ ان کا سامنا کرنے آئے تو پوچھا: تم کون ہو؟ بتایا: گروہ انصار۔عتبہ بولا: ہمارا تم سے کوئی مطلب نہیں۔پھر ایک مشرک نے آو از دی: اے محمد، ہماری قوم کے ،ہم سے برابر کی چوٹ رکھنے والوں کو بھیجو۔ نبی صلی ﷲ علیہ وسلم نے بھی پسند نہ کیا کہ قریش کی پہلی ٹکر انصار سے ہو۔ آپ پکارے: اے بنی ہاشم، اٹھ کر مقابلہ کرو، اٹھو،حمزہ ! اٹھو،عبیدہ بن حارث، اٹھو، علی! تینوں نکل کر آئے تو عتبہ نے ان کے نام پوچھے، کیونکہ جنگی لباس پہننے کی وجہ سے وہ پہچانے نہ جاتے تھے۔ حضرت حمزہ نے کہا: میں شیر خدا اور شیر رسول حمزہ بن عبدالمطلب ہوں۔ حضرت علی نے کہا: میں بندۂ خدا اور برادر رسول علی بن ابو طالب ہوں۔حضرت عبیدہ نے کہا: میں حلیف رسول عبیدہ بن حارث ہوں۔ عتبہ بولا: اب برابر کے، صاحب شرف لوگوں سے جوڑ پڑا ہے۔ اولاً اس نے اپنے بیٹے ولید کو بھیجا،حضرت علی اس کے مقابلے پرآئے ۔دونوں نے ایک دوسرے پرتلوار سے وار کیا۔ ولید کا وار خالی گیا، جب کہ حضرت علی نے ایک ہی ضرب میں اس کا کام تمام کر دیا۔ پھر عتبہ خود آگے بڑھا اورحضرت حمزہ اس کا سامنا کرنے نکلے۔ ان دونوں میں بھی دو ضربوں کا تبادلہ ہوااور عتبہ جہنم رسید ہوا۔اب شیبہ کی باری تھی،حضرت عبیدہ بن حارث سے اس کا دوبدو مقابلہ ہوا، دونوں نے ایک دوسرے پر کاری ضربیں لگائیں۔ حضرت عبیدہ کی پنڈلی پر تلوار لگی اور ان کا پاؤں کٹ گیا۔جنگی روایت کے مطابق حضرت حمزہ اورحضرت علی فاتح ہونے کی وجہ سے اپنے ساتھی کی مدد کر سکتے تھے۔دونوں پلٹ کر شیبہ پر پل پڑے ،اسے جہنم رسید کیا اور زخمی حضرت عبیدہ کو اس حال میں اٹھا کر لے آئے کہ ان کی ٹانگ کی نلی سے گودا بہ رہا تھا۔ان کی شہادت اسی زخم سے ہوئی۔

ابن اسحٰق، طبری، ابن اثیر اور ابن کثیر نے بیان کیا ہے کہ حضرت حمزہ کا روبرو مقابلہ شیبہ سے ہوا اورانھوں ہی نے شیبہ کو جہنم رسید کیا۔اس طرح عتبہ اور حضرت عبیدہ میں دوبدو جنگ ہوئی جس میں دونوں زخمی ہوئے ۔پھرحضرت علی اورحضرت حمزہ نے مل کر عتبہ کو انجام تک پہنچایا ۔ ابن سعد کی روایت اس کے برعکس ہے،ان کا کہنا ہے کہ روبرو مقابلے کے بعد حضرت حمزہ نے عتبہ کو قتل کیا، جب کہ شیبہ نے حضرت عبیدہ کا سامنا کیا۔خلاف اکثریت ہونے کے باوجود اس روایت کو ترجیح دینا پڑتی ہے، کیونکہ یہ حقائق سے زیادہ موافقت رکھتی ہے۔ابوسفیان کی بیوی ہند بنت عتبہ نے حضرت حمزہ سے بدلہ لینے کی قسم اس لیے کھائی تھی، کہ اس کا باپ انھی کے ہاتھوں مارا گیا تھا۔ چنانچہ اگلے برس جنگ احد ہوئی اورحضرت حمزہ حبشی غلام وحشی کا نیزہ لگنے کے بعد شہید ہوئے تواسی انتقام کی آگ میں جلتے ہوئے ہندنے ان کا پیٹ چاک کر کے کلیجہ چبایااور پھر اگل دیا۔سنن ابوداؤد میں ایک تیسری ترتیب مذکور ہوئی ہے۔حضرت علی خود روایت کرتے ہیں کہ ’’حمزہ عتبہ کی طرف بڑھے اور میں (علی )نے شیبہ کا سامنا کیا۔عبیدہ اور ولید میں دو ضربوں کا تبادلہ ہوا ،دونوں نے ایک دوسرے کو شدید زخمی کر کے گرا دیا ۔پھر حمزہ نے اور میں نے ولید کو قتل کیا اور عبیدہ کو اٹھا لائے‘‘(رقم ۲۶۶۵)۔

جنگ بدر کے دن حضرت حمزہ نے حضرت علی اور حضرت زید بن حارثہ کے ساتھ مل کر ابوسفیان کے ایک بیٹے حنظلہ کو قتل کیا اور دوسرے بیٹے عمرو کو قید کر لیا۔ انھوں نے طعیمہ بن عدی اوررسو ل ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم کو ایذائیں دینے والے ابوقیس بن فاکہ کو جہنم واصل کیا۔نبیہ بن حجاج کو حضرت حمزہ اور حضرت سعد بن ابی وقاص نے مل کر قتل کیا۔ ابن ہشام کی روایت کے مطابق ابو قیس بن ولید بھی حضرت حمزہ کے ہاتھوں انجام کو پہنچا۔عتیب بن زمعہ حضرت حمزہ اور حضرت علی کی مشترکہ کاوش سے قتل ہوا۔عائذبن سائب بدر کے دن قید ہوا، پھر فدیہ دے کر چھوٹا، تاہم مکہ لوٹتے ہوئے دوران جنگ میں حضرت حمزہ کے لگائے ہوئے زخم سے ہلاک ہوا۔

غزوۂ بدر کے روز حضرت عبدالرحمن بن عوف کی اپنے پرانے مشرک دوست امیہ بن خلف سے ملاقات ہوئی تو اس نے پوچھا: وہ شخص کون ہے جس نے اپنے سینے پر شترمرغ کے پر لگا رکھے ہیں؟ انھوں نے بتایا: یہ حمزہ بن عبدالمطلب ہیں۔امیہ بولا: یہی تو ہے جس نے(آج)ہمیں بڑا نقصان پہنچایاہے۔ قریش کہتے تھے کہ آج ہمیں صفیہ بنت عبدالمطلب کے بھائی حمزہ،بیٹے زبیر بن عوام اور بھتیجے علی بن ابوطالب نے بہت نقصان پہنچایا۔

غزوۂ بدر میں قریش کے ستر افراد نے جہنم کی راہ دیکھی اور ستر ہی مسلمانوں کی قید میں آئے۔رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم نے صحابہ سے قیدیوں کے بارے مشورہ کیا۔حضرت ابوبکر نے مشورہ دیا کہ یہ ہمارے ہی چچیرے اور بھائی بند ہیں،ان سے فدیہ لے کر چھوڑ دیں۔ہمیں مال مل جائے گا اور عین ممکن ہے ، ﷲ انھیں ہدایت دے دے۔ حضرت عمر نے کہا: میری راے مختلف ہے۔میں کہتا ہوں کہ فلاں شخص میرے سپرد کر دیا جائے اور میں اس کی گردن اڑا دوں، عباس کو حمزہ کے حوالے اور عقیل علی کو سونپ دیا جائے ۔یہ ان کا سر قلم کردیں تاکہ ﷲ کو علم ہو کہ ہم قائدین کفار سے کوئی ہمدردی نہیں رکھتے۔نبی صلی ﷲ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر کی راے پر عمل کیا،تاہم ﷲ کی طرف سے ناراضی کی آیات نازل ہوئیں: ’تُرِیْدُوْنَ عَرَضَ الدُّنْیَا وَاللّٰہُ یُرِیْدُ الْاٰخِرَۃَ‘، ’’تم دنیا کے سروسامان کی خواہش کر رہے ہو او رﷲ آخرت چاہتا ہے‘‘ (الانفال ۸: ۶۷)۔ پھر فدیہ قبول کرنے کی اجازت دے دی گئی (مسنداحمد، رقم ۲۰۸)۔

غزوۂ بنو قینقاع: ۲ھ (۶۲۴ء )جنگ بدر کے بعد قبیلۂ بنو قینقاع کے یہودنے عہدشکنی کی ۔ایک یہودی نے ایک مسلمان عورت سے بد تمیزی کی تو ایک مسلمان نے اسے قتل کر دیا ۔ جنگ کی نوبت آئی تویہودی قلعہ بند ہو گئے۔ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم نے ان کا محاصرہ کر لیا جو پندرہ دن جاری رہا۔اس غزوہ میں بھی حضرت حمزہ بن عبدالمطلب جیش اسلامی کے علم بردار تھے۔غزوۂ بنوقینقاع کے مال غنیمت میں سے پہلی دفعہ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم کے لیے خمس نکالا گیا۔

حرمت خمر: حضرت علی خود روایت کرتے ہیں کہ (۲ ھ میں) جنگ بدر کے بعد مال غنیمت تقسیم ہواتو میرے حصے میں ایک اونٹنی آئی، پھرایک اونٹنی نبی صلی ﷲ علیہ وسلم نے خمس میں سے مجھے عطا کردی۔ ایک دن میں نے دونوں اونٹنیاں ایک انصاری کے دروازے پر باندھیں، میں ان پر خوشبو دار گھاس اذخر ڈھونا چاہتا تھا تاکہ( اسے سناروں کے ہاتھ) بیچ کر سیدہ فاطمہ کے ساتھ اپنے ولیمے کا خرچ نکالوں۔ بنو قینقاع کا ایک (یہودی) زرگرمیرے ساتھ تھا۔(اس وقت شراب حرام نہ ہوئی تھی)حضرت حمزہ بن عبدالمطلب اس گھر کے اندر شراب نوشی کر رہے تھے،ایک باندی ان کے ساتھ تھی ۔وہ پکاری: او حمزہ، یہ اونچی کوہانوں والی پلی ہوئی اونٹنیاں(تو دیکھو)۔حضرت حمزہ نے تلوار لے کر اونٹنیوں پر حملہ کردیا،ان کی کوہانیں کاٹ ڈالیں،پہلو چیر دیے اور کلیجے نکال دیے۔ حضرت علی نے یہ ہول ناک منظر دیکھا تو آں حضرت صلی ﷲ علیہ وسلم کے پاس چلے آئے۔حضرت زید بن حارثہ آپ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، آپ نے اپنی چادر اوڑھی اور حضرت علی اورحضرت زید کے ساتھ حضرت حمزہ کے پاس پہنچے اورسخت ناراضی کا اظہار کیا۔حضرت حمزہ کا نشہ ابھی اترانہ تھا، بولے: تم سب تو میرے آبا کے غلام ہو۔آپ کو معلوم ہوا کہ وہ نشے میں ہیں تو فوراً پلٹ آئے (بخاری، رقم ۲۳۷۵۔ مسلم، رقم ۵۱۷۱۔ ابوداؤد، رقم ۲۹۸۶۔ مسند احمد، رقم ۱۲۰۱)۔ ابن کثیر کہتے ہیں کہ اس روایت سے پتا چلتا ہے کہ جنگ بدر کے مال غنیمت میں سے خمس نکالا گیا اورابو عبید کی راے درست نہیں کہ خمس کا حکم غزوۂ بدر کے بعد نازل ہوا۔

جنگ احد:۱۵ (۷:ابن سعد)شوال ۳ ھ (جنوری ۶۲۵ء )میں جنگ احد ہوئی۔جنگ بدرمیں ہلاک ہونے والے قریشی سرداروں کے بیٹوں نے ابوسفیان کی مالی مدد سے مسلمانوں سے بدر کی شکست کا بدلہ لینے کا پروگرام بنایا۔ ۵؍ شوال کو لشکر مکہ سے روانہ ہوا تو حضرت عباس نے خط لکھ کرنبی صلی ﷲ علیہ وسلم کو اطلاع دے دی۔ آپ کا ارادہ تھا کہ مدینہ کے اندر رہ کر دشمن کا مقابلہ کیا جائے ،اکابر مہاجرین و انصار کا بھی یہی خیال تھا، لیکن حضرت حمزہ بن عبدالمطلب ،حضرت سعد بن عبادہ،حضرت نعمان بن مالک اور انصار کی ایک جماعت نے اصرار کیا کہ یا رسول ﷲ، ہمارا دشمن یہ نہ سمجھ بیٹھے کہ ہم اس کا دو بدو مقابلہ کرنے سے گھبرا رہے ہیں۔جب آپ تلوار حمائل کیے ہوئے میدان جنگ چلنے کو تیار ہوگئے تو یہ اصحاب نادم ہوئے اوراپنی راے واپس لینے کا اعلان کیا۔آپ نے فرمایا: کسی نبی کے لیے مناسب نہیں کہ وہ زرہ پہن لے اور پھر اتار دے۔ آپ نے حضرت مصعب بن عمیر کوعلم سونپا،حضرت زبیر بن عوام کو رسالہ کا امیر مقرر کیا اور حضرت حمزہ کو جو پیادہ فوج کے ساتھ تھے، آگے بھیج دیا۔ آں حضور صلی ﷲ علیہ وسلم نے جبل احد کی گھاٹی میں جیش صحابہ کو اس طرح ترتیب دیاکہ پہاڑ آپ کے پیچھے تھا۔ میمنہ پر حضرت علی، میسرہ پر حضرت منذر بن عمرو اور قلب پر حضرت حمزہ متعین تھے۔ جنگ کا بازار گرم ہوا تو حضرت حمزہ ، حضرت علی اور حضرت ابودجانہ دشمن کی صفوں میں گھس گئے اور خوب قتال کیا۔ حضرت حمزہ ’میں اسد ﷲ اور اسد رسول ہوں‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے دو دو تلواروں سے لڑتے رہے ،جام شہادت نوش کرنے سے پہلے انھوں نے تیس مشرکوں کو ٹھکانے لگایا۔حکیم بن حذام جنگ بدر میں مشرکوں کی جانب سے لڑ رہے تھے اور حوض کے پاس کھڑے تھے ،حضرت حمزہ کی تلوار انھیں چھونے ہی لگی تھی کہ وہ اچانک ان کے سامنے سے گھسٹ کر پرے ہوگئے۔مشرکوں کا علم بردار عثمان بن طلحہ عورتوں کی صف کے آگے رجزپڑھ رہا تھا:

إن علی أہل اللواء حقًا           أن تخضب الصعدۃ أو تندقا

’’پرچم اٹھانے والے کے لیے لازم ہے کہ اس کا نیزہ خون سے بھر جائے یا ٹوٹ جائے ۔‘‘

حضرت حمزہ نے اس کے کاندھے پر تلوارکا ایسا زبردست وار کیا جو اس کے کاندھے اور ہاتھ کو کاٹتا ہوا کمر تک جا پہنچا اور اس کا پھیپھڑا نظر آنے لگا۔پھر یہ نعرہ لگاتے ہوئے پلٹے کہ میں حاجیوں کو پانی پلانے والے (عبدالمطلب) کا بیٹا ہوں۔جضرت حمزہ (دوسری روایت: حضرت علی ) نے مشرکوں کے دوسرے پرچم بردارارطاۃ بن عبد شرحبیل کو بھی جہنم رسید کیا۔پھریہ پرچم یکے بعد دیگرے سات مشرکوں نے اٹھایا، لیکن باری باری ساتوں صحابہ کے ہاتھوں اپنے انجام کو پہنچے۔ حضرت حمزہ بن عبدالمطلب نے مکہ میں عورتوں کا ختنہ کرنے کی ماہر ام انمار کے بیٹے سباع بن عبدالعزیٰ کو تلوار کا وارکر کے دوزخ کی راہ دکھائی۔ یہ ان کا آخری شکار تھا۔اسی اثنا میں جبیر بن مطعم کے غلام وحشی اسودنے انھیں تلوار لہراتے ہوئے، مشرکوں کو ٹھکانالگاتے ہوئے دیکھا اور کہا: ان کی تلوار سے تو کوئی بھی بچ نہیں رہا۔ حضرت حمزہ سباع بن عبدالعزیٰ کو ٹھکانے لگاکر میدان جنگ میںآگے پیچھے حرکت کر رہے تھے کہ یکایک پھسل کر پیٹھ کے بل گرے اور زرہ ان کے پیٹ سے ہٹ گئی۔(دوسری روایت: اپنی گری ہوئی زرہ اٹھانے کے لیے جھکے تھے)۔ وحشی نیزہ پھینکنے کا ماہر تھا، ایک چٹان کی اوٹ میں بیٹھا ہواحضرت حمزہ کی نگرانی کر رہا تھا۔ اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس نے نیزہ تاک کران کے پیڑو (pelvic floor)میں دے مارا۔ وہ وحشی کی طرف لپکے، لیکن ہمت نہ ہوئی اور اٹھ نہ سکے۔وحشی نے ان کی جان نکلنے کا انتظار کیا، پھر اپنابرچھا نکالا اور لشکر میں گم ہو گیا۔یہ آں حضور صلی ﷲ علیہ وسلم کے خواب کی تعبیر تھی جو آپ نے جنگ سے پہلے دیکھاتھا کہ آپ کی تلوار ذوالفقار کی دھار میں دندانہ پڑگیا ہے۔ وحشی کے آقا جبیر بن مطعم کا چچا طعیمہ بن عدی جنگ بدر میں حضرت حمزہ کے ہاتھوں مارا گیا تھا۔ جبیر نے حضرت حمزہ کو شہید کرنے کے بدلے اسے آزاد کرنے کا وعدہ کیا تھا۔

جنگ احد میں ابوسفیان کی بیوی ہند بنت عتبہ اور اس کی ساتھی عورتوں نے مسلمان شہداکی لاشوں کا مثلہ کیا۔ انھوں نے شہید صحابہ کے کان ناک کاٹ ڈالے ۔اس نے ان کٹے ناک کانوں کی مالائیں اور پازیبیں بنائیں اور اپنی باندیوں اور خادماؤں میں بانٹ دیں۔اس نے سیدنا حمزہ کے قاتل وحشی کو کٹے اعضا کے ہار اور بالیاں پیش کیں۔ ہندنے حضرت حمزہ کا پیٹ چاک کر کے کلیجہ نکالا اور چبانے کی کوشش کی، لیکن نگل نہ پائی اور تھوک دیا۔پھر وہ ایک بلند ٹیلے پر چڑھ گئی اور بلند آوازمیں یہ اشعار پڑھنے لگی:

نحن جزیناکم بیوم بدر           والحرب بعد الحرب ذات سعر

’’ہم نے تم سے بدر کے دن کا بدلہ لے لیا،پہلی جنگ کے بعد کی جانے والی دوسری جنگ زیادہ بھڑکنے والی ہوتی ہے۔‘‘

ماکان عن عتبۃ لي من صبر           ولا أخي و عمہ و بکري

’’مجھے اپنے باپ عتبہ کی طرف سے قرار تھا نہ اپنے بھائی ولید ،اس کے چچا شیبہ اور اپنے پلوٹھے حنظلہ بن ابو سفیان کی طرف سے صبرتھا۔‘‘

شفیت نفسي و قضیت نذري           شفیت وحشي غلیل صدري

’’میں نے اپنے جی کو ٹھنڈا کیااوراپنی نذر پوری کر لی۔او وحشی، تو نے میرے سینے کی آگ بجھا دی ۔‘‘

حضور صلی ﷲ علیہ وسلم کو یہ خبر ملی تو فرمایا: ﷲ نے آگ پر حرام کر دیا ہے کہ حمزہ کا گوشت چکھ بھی سکے۔اگرکلیجہ ہند کے پیٹ میں چلا جاتا تو اس پر بھی آگ حرام ہو جاتی۔ ابن سعد کہتے ہیں کہ ہند بنت عتبہ نے حضرت حمزہ کے اعضا سے دو کنگن ، دو بازو بند اور دو پازیبیں بنائیں ، انھیں اورآپ کے کلیجے کو مکہ لے گئی۔ ابوسفیان حضرت حمزہ کے لاشے کے پاس سے گزراتو ان کے چہرے پر نیزے کی انی چبھوئی اور کہا: او نافرمان، اپنے عمل کا مزہ چکھ لے ۔حلیس بن زبان نے دیکھ لیا اور کہا: اے بنوکنانہ، دیکھو ،قریش کا سردار اپنے چچا زاد سے کیا سلوک کر رہا ہے۔ابوسفیان نے کہا: کسی کو مت بتانا، مجھ سے غلطی ہو گئی ہے۔میں نے مثلہ کرنے کا حکم دیا نہ روکا،پسند کیا نہ برا سمجھا،مثلہ کرنا مجھے برالگا ہے،اچھا نہیں لگا (مسند احمد، رقم ۴۴۱۴)۔ احد کے شہدا کی اکثریت کی لاشیں قطع و برید سے سلامت نہ رہی تھیں۔ ایک حضرت حنظلہ بن ابوعامر کی نعش کا مثلہ نہ کیا گیا تھا، کیونکہ ان کا باپ مشرکو ں کی صف میں شامل تھا،اس لیے اسے چھوڑ دیا گیا۔

حضرت حمزہ کی شہادت ۷(یا ۱۵ )شوال ۳ھ کوہوئی،ان کی عمرانسٹھ برس ہوئی۔ جنگ ختم ہونے کے بعد رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم حضرت حمزہ کی میت ڈھونڈنے نکلے اورفرمایا: میں نے ان درختوں کے پاس انھیں ’میں ﷲ کا شیر ہوں اور ﷲ کے رسول کا شیر ہوں‘کے نعرے لگاتے دیکھا تھا ۔ آپ نے وادی احد کے بیچ ان کی ادھڑی ہوئی لاش اس حال میں دیکھی کہ کلیجہ نکلا ہوا، ناک کان کٹے ہوئے تھے تو بہت دل گیر ہوئے اور روتے ہوئے فرمایا: اگر مجھے اپنی پھوپھی اور حمزہ کی سگی بہن صفیہ بن عبدالمطلب کے غم کا خیال نہ ہوتا اوریہ خدشہ نہ ہوتا کہ میرے بعداسے سنت سمجھ لیا جائے گا ،میں ان کی میت کو یہیں چھوڑ دیتا۔ درندے اور شکاری پرندے اسے اپنی خوراک بنا لیتے اوروہ ان کے پیٹوں سے اٹھائے جاتے (ابوداؤد، رقم ۳۱۳۶۔ مستدرک حاکم، رقم ۱۳۵۱)۔ اگر ﷲ مجھے کسی جنگ میں قریش پرغلبہ دیتا تو میں ان کے تیس (دوسری روایت :ستر)مردوں کا مثلہ کرتا۔حمزہ، آپ کی شہادت سے بڑھ کر مجھ پر کوئی مصیبت آئے گی اورنہ آج سے زیادہ غیظ و غضب دلانے والا موقع ملے گا ۔ آپ کے غم کو دیکھتے ہوئے (احد کے میدان میں،اسی وقت : بیہقی،فتح مکہ کے موقع پر: ترمذی، رقم ۳۱۲۹)ﷲ کی طرف سے یہ آیات نازل ہوئیں: ’وَاِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوْا بِمِثْلِ مَا عُوْقِبْتُمْ بِہٖ وَلَءِنْ صَبَرْتُمْ لَھُوَ خَیْرٌ لِّلصّٰبِرِیْنَ. وَاصْبِرْ وَمَا صَبْرُکَ اِلَّا بِاللّٰہِ وَلَا تَحْزَنْ عَلَیْھِمْ وَلَاتَکُ فِیْ ضَیْقٍ مِّمَّا یَمْکُرُوْنَ‘ ’’اگر تم نے بدلہ لیا تواتنا ہی لینا جتنی زیادتی تمھارے ساتھ کی گئی ہے۔ اور اگر تم صبرکر لو تو یہ صبر کرنے والوں کے لیے بہت بہتر ہے۔ اور تمھیں صبر حاصل نہیں ہو سکتا، مگر ﷲ ہی کے تعلق سے۔ اور تم ان چالوں سے دل تنگ نہ کرو جو کافر چل رہے ہیں‘‘ (النحل۱۶: ۱۲۶۔۱۲۷)۔ حضرت جبریل آئے اورفرمایا: سات آسمانوں میں ’حمزۃ أسد ﷲ و أسد رسولہ‘ لکھ دیا گیا ہے (مستدرک حاکم، رقم ۴۸۸۱)۔ آپ نے حضرت حمزہ کو سید الشہدا کا لقب عطا کیا اور دعا فرمائی: چچا، ﷲ آپ پر رحم کرے ،آپ حد سے زیادہ صلہ رحمی کرنے والے اور سبقت کے ساتھ نیکی کرنے والے تھے۔ حضرت صفیہ بنت عبدالمطلب آئیں تو رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم نے ان کے بیٹے حضرت زبیر بن عوام سے فرمایا: انھیں واپس لے جاؤ، یہ اپنے بھائی حمزہ کی میت سے کیا جانے والا سلوک نہ دیکھنے پائیں۔ حضرت صفیہ نے کہا: مجھے معلوم ہے، میرے بھائی کا مثلہ کیا گیا ہے۔ میں دیکھ کر صبر کروں گی اور برداشت سے کام لوں گی۔تب آپ نے ان کے سینے پر ہاتھ رکھا ، دعا فرمائی اور میت کے پاس جانے کی اجازت دے دی۔ وہ روئیں ، انا للہ وا نا الیہ راجعون کہا اور لوٹ گئیں۔ شہداے احد کی تدفین کا مرحلہ آیا تونبی صلی ﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: میں ان شہدا کا شاہد ہوں ۔انھیں خون میں لتھڑے ہوئے ہی دفن کر دو۔ ﷲ کی راہ میں گھائل ہونے والا کوئی زخمی ایسا نہ ہو گا جو روز قیامت بہتے ہوئے خون کے ساتھ نہ اٹھایا جائے۔ رنگ تو خون کا ہو گا، لیکن خوشبو مشک کی آئے گی۔سب سے زیادہ قرآن پڑھے ہوؤں کو آگے رکھو۔ آپ نے دودو پاک نفسوں کوغسل دیے بغیر ایک قبر میں اتارا۔سب سے پہلے آپ نے سات تکبیریں کہہ کر حضرت حمزہ کا جنازہ پڑھا، پھر باقی شہدا کی نماز جنازہ ادا کرنا شروع کی ۔ہر بار آپ حضرت حمزہ کی میت ساتھ رکھتے اور نماز جنازہ ادا فرماتے (مستدرک حاکم، رقم ۲۵۵۷)۔ اس طرح حضرت حمزہ کا جنازہ ستر بار پڑھا گیا۔ دوسری روایت ہے کہ آپ نو صحابہ کی میتیں اکٹھی رکھتے ، دسویں حضرت حمزہ ہوتے توان سب کی ایک نماز جنازہ ادا کرتے۔ حضرت انس بن مالک کی روایت کے مطابق نبی صلی ﷲ علیہ وسلم نے شہداے احد کا جنازہ نہیں پڑھا (ابوداؤد، رقم ۳۱۳۵۔ ترمذی، رقم ۱۰۳۶۔ مسند احمد، رقم ۱۲۲۴۰۔ مستدرک حاکم، رقم ۱۳۵۲)۔ ایک روایت کے مطابق صرف حضرت حمزہ کی نماز جنازہ ادا کی گئی، دوسرے شہدا کا جنازہ نہ پڑھا گیا (ابوداؤد، رقم ۳۱۳۷)۔ شوافع اسی مسلک کے قائل ہیں کہ شہید کا غسل ہوتا ہے نہ جنازہ۔ امام ابوحنیفہ کہتے ہیں کہ ان روایات کو جن میں شہداے احد کا جنازہ ادا کرنے کا ذکر ہے ،ترجیح دی جائے گی، چاہے ضعیف ہوں، اس لیے کہ اثبات نفی پر مقدم ہوتاہے۔ سیدالشہدا حضرت حمزہ اور ان کے بھانجے حضرت عبدﷲ بن جحش ایک قبر میں دفن کیے گئے۔ان کی میت کا بھی حضرت حمزہ کی طرح مثلہ کیاگیا تھا،تاہم ان کا جگر محفوظ رہا تھا۔ حضرت ابوبکر ، حضرت عمر ، حضرت علی اور حضرت زبیر قبر میں اترے، رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم کنارے پر بیٹھ گئے۔ایک چادر کو حضرت حمزہ کا کفن بنایا گیا جو اتنی چھوٹی تھی کہ اگر سر ڈھانپتے تو پاؤں ننگے ہو جاتے اور اگر پاؤں پرڈالتے تو سر کھل جاتا (ترمذی، رقم ۹۹۷،۱۰۱۶۔ مسند احمد، رقم ۲۱۰۷۲)۔ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: ان کا چہرہ ڈھانک دو اور پاؤں پر حرمل (یا اذخر) گھاس ڈال دو(مستدرک حاکم، رقم ۲۵۵۸)۔ آپ نے فرمایا: میں نے دیکھاہے کہ فرشتے ان کو غسل دے رہے ہیں (مستدرک حاکم، رقم ۴۸۸۵)۔ حاضرین صحابہ اس بات پر رو دیے کہ نبی صلی ﷲ علیہ وسلم کے چچا کے کفن کے لیے ایک کپڑا نہ مل سکا۔اسی اثنا میں حضرت صفیہ اپنے بھائی کی تکفین کے لیے دو چادریں لے آئیں، ان میں سے ایک حضرت حمزہ کو اور دوسری ایک انصاری کو دے دی گئی جن کی تکفین کے لیے کوئی کپڑا نہ تھا (مسند احمد، رقم ۱۴۱۸)۔کچھ اصحاب اپنے پیاروں کی میتیں مدینہ لے گئے تھے، لیکن رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم نے انھیں واپس لانے کا حکم دیا۔ آپ نے فرمایا: شہدا کو ان کے مقام شہادت پرلے آؤ۔

مدینہ واپسی پر رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم انصار کے قبائل بنو عبدا الاشہل اورظفر کے گھروں کے سامنے سے گزرے تو آہ وبکا اور بین کی آوازیں سنیں۔ آپ کی آنکھوں سے آنسو بہ نکلے اور فرمایا: حمزہ پر رونے والی کوئی نہیں (مسند احمد، رقم ۵۶۶۶)۔ حضرت سعد بن معاذ اور حضرت اسید بن حضیر بنوعبدالاشہل کے گھر گئے اور عورتوں سے کہا کہ نبی صلی ﷲ علیہ وسلم کے گھر جا کر آپ کے چچا کے لیے بھی روؤ اور ان کا افسوس کرو۔حضرت کعب بن مالک نے کہا:

صفیۃ قومي ولا تعجزي           و بکی النساء علی حمزۃ

’’اے صفیہ، اٹھ جائیں ، کمزوری نہ دکھائیں اور عورتوں کو حمزہ پر رلادیں۔‘‘

رات کے وقت آپ نیند سے بیدار ہوئے تو ( حضرت حمزہ کے لیے) عورتوں کے رونے دھونے کی آواز سنی۔ آپ گھر سے باہر تشریف لائے اور فرمایا: ﷲ تم پر رحم کرے، تم رات بھر روتی رہی ہو، میں یہ نہ چاہتا تھا۔ تم نے اپنی طرف سے ہمدردی اور افسوس ظاہر کر دیا ہے۔ جاؤ اور آیندہ کسی جانے والے پر مت رونا (ابن ماجہ، رقم ۱۵۹۱۔مسند احمد، رقم ۵۵۶۳۔ مستدرک حاکم، رقم ۴۸۸۳)۔ اگلے روز آپ منبر پر بیٹھے اور نوحہ خوانی سے سختی سے منع کر دیا۔ اس کے باوجودانصار میں مدت تک یہ طریقہ رہا کہ اپنی میت پر رونے سے حضرت حمزہ کا گریہ کرتے (مسند احمد، رقم ۴۹۸۴)۔ حضرت عبدﷲ بن عباس کی روا یت ہے کہ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: جب جنگ احد میں تمھارے بھائی شہید ہوئے تو ﷲ تعالیٰ نے ان کی روحوں کو سبز پرندوں میں منتقل کر دیا۔وہ جنت کی نہروں پر جا کر پھل میوے کھاتے ہیں اور عرش الٰہی کے سائے میں لٹکی ہوئی سونے کی قندیلوں میں رہتے ہیں۔ انھوں نے کھانے، پینے اورقیام کی لذتیں پائیں تو کہا: کون ہمارے بھائیوں کو بتائے گا کہ ہم جنت میں زندہ ہیں اور کھا پی رہے ہیں تاکہ وہ جہاد سے جی نہ چرائیں اور جنگ میں بزدلی نہ دکھائیں۔ ﷲ نے فرمایا: میں خود بتاؤں گا۔ چنانچہ یہ ارشاد نازل ہوا: ’وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتًا بَلْ اَحْیَآءٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ یُرْزَقُوْنَ‘ (اٰل عمران ۳: ۱۶۹)، اور تم ان لوگوں کو جو ﷲکی راہ میں مارے گئے،مردہ ہر گز نہ سمجھنا ۔وہ اپنے رب کے ہاں زندہ ہیں، کھاپی رہے ہیں (ابو داؤد، رقم ۲۵۲۰۔ مستدرک حاکم، رقم ۳۴۵۷)۔ حضور صلی ﷲ علیہ وسلم ہر سال وادی احد جاتے اور گھاٹی کے کنارے پر کھڑے ہو کر دعا فرماتے: اے شہدا، تمھارے صبر کرنے کی وجہ سے تم پر سلام۔ خوب ہو تمھارا آخرت کا گھر۔ حضرت ابوبکر ،حضرت عمر اور حضرت عثمان نے بھی اسی سنت پر برابرعمل کیا۔ سیدہ فاطمہ ہر جمعہ کے دن حضرت حمزہ کی قبر پرجاکر جھاڑ پونچھ کرتیں اوران کے لیے دعا کرتیں(مستدرک حاکم، رقم ۱۳۹۶)۔

حضرت حمزہ کی ازواج اور ان کی اولاد: ملّہ بن مالک انصار اوس (یا بنو سلیم)سے تعلق رکھتے تھے۔ان کی بیٹی جن کا نام ہمیں معلوم نہیں ہو سکا، حضرت حمزہ کے نکاح میں آئیں اورحضرت یعلیٰ، حضرت بکر اورحضرت عامر پیدا ہوئے۔ بنوثعلبہ (بنونجار:بلاذری)کی حضرت خولہ بنت قیس انصاریہ سے حضرت عمارہ بن حمزہ کی ولادت ہوئی،انھی سے حضرت حمزہ کنیت کرتے تھے۔حضرت اسماء بنت عمیس کی بہن حضرت سلمیٰ بنت عمیس خثعمیہ کی حضرت حمزہ سے شادی مکہ میں ہو چکی تھی۔ ان سے حضرت امامہ بنت حمزہ کی پیدایش ہوئی۔ یہ وہی امامہ ہیں کہ حضرت حمزہ کی شہادت کے بعد ان کی تولیت کے لیے حضرت علی ، حضرت جعفر اور حضرت زید بن حارثہ میں نزاع ہوااور نبی صلی ﷲ علیہ وسلم نے انھیں ان کی خالہ حضرت اسماء بنت عمیس کے سپرد فرمادیا جو حضرت جعفر بن ابوطالب کی زوجیت میں تھیں۔ حضرت یعلیٰ بن حمزہ کی اولاد عمارہ، فضل ،زبیر، عقیل اور محمد ہوئے ،تمام فوت ہو گئے اور ان کی نسل آگے نہ چل سکی۔

مرثد بن ابو مرثد غنوی حضرت حمزہ بن عبدالمطلب کے حلیف تھے۔

حضرت علی نے رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم سے کہا: آپ اپنے چچا حمزہ کی بیٹی سے شادی کیوں نہیں کر لیتے ،وہ خوب رو ہے۔آپ نے فرمایا: تمھیں معلوم نہیں ، حمزہ میرے رضاعی بھائی بھی ہیں ۔نسب کی بنا پر محرم قرار پانے والے سارے رشتے دودھ پلائی کی وجہ سے بھی حرام ٹھیرتے ہیں۔ مسلم کی روایت ۳۵۷۵کے مطابق یہی سوال ام المومنین ام سلمہ نے بھی کیا۔

قبر کشائی: حضرت جابر بن عبدﷲ روایت کرتے ہیں،حضرت معاویہ نے اپنے عہد حکومت میں احد میں نہر نکالنے کافیصلہ کیا ۔انھیں بتایا گیا کہ اسے شہدا کی قبروں کے اوپر ہی جاری کیا جا سکتاہے تو انھوں نے قبریں کھودنے کی اجازت دے دی۔صحابہ کی میتیں دوسری جگہ منتقل کرنے کے لیے نکالی گئیں تو دیکھنے والے لوگوں کوایسے لگاجیسے وہ سورہے ہیں۔حضر ت حمزہ کے پاؤں کو کدال لگی تو اس میں سے خون بہ نکلا۔

حضرت حمزہ کی اہلیہ حضرت خولہ بنت قیس بن قہد بتاتی ہیں کہ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم حضرت حمزہ سے ملنے آئے۔ دنیا کی باتیں کرتے ہوئے آپ نے فرمایا: دنیا شاداب اور شیریں ہے۔ جس نے اسے حق کے ساتھ حاصل کیا، اسے برکت دی جاتی ہے۔ ﷲ اور اس کے رسول کے مال میں ہاتھ مارنے والے بہت سے ایسے ہوں گے جنھیں روز قیامت جب وہ ﷲ کا سامنا کریں گے، دوزخ نصیب ہو گی (مسند احمد، رقم ۲۷۰۵۴)۔ حضرت حمزہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی ﷲ علیہ وسلم نے ہمیں تلقین فرمائی کہ اس دعاکو لازم کر لو: ’اللّٰہم إني أسئلک باسمک الأعظم و رضوانک الأکبر‘، اے ﷲ، میں تیرے بڑے نام اور تیری رضوان عظیم کے واسطے سے سوال کرتا ہوں (المعجم الکبیر، طبرانی، رقم ۲۹۵۹)۔ ایک دفعہ حضرت حمزہ اور حضرت علی نے اکٹھے غسل کیا۔ نبی صلی ﷲ علیہ وسلم نے پوچھا: تم نے کیسے غسل کیا؟انھوں نے بتایا: ہم نے کپڑا ڈال کر ایک دوسرے کا ستر کر لیا تھا۔آپ نے فرمایا : اگر تم ایسا نہ کرتے تو میں تم دونوں کے ستر کا خیال کرتا (مستدرک حاکم، رقم ۴۸۷۹)۔ ایک آدمی کے ہاں بیٹا پیداہوا تواس نے نبی صلی ﷲ علیہ وسلم سے نام رکھنے کی درخواست کی۔آپ نے فرمایا: حمزہ نام رکھو جو مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے (مستدرک حاکم، رقم ۴۸۸۸)۔ حضرت علی سے مروی ہے کہ نبی صلی ﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مجھ سے پہلے ہر نبی کو سات معزز رفقا دیے گئے تھے، جب کہ مجھے چودہ رفقا(یا نقبا، سات قریش سے اور سات باقی مہاجرین میں سے) کی معیت حاصل ہے۔ حضرت علی سے پوچھا گیا: وہ کون ہیں؟ فرمایا: میں (علی )، میرے دونوں بیٹے (حسن و حسین)، جعفر، حمزہ، ابوبکر، عمر، مصعب بن عمیر، بلال ،سلمان ، مقداد ،ابوذر ،عمار ،اور عبدﷲ بن مسعود‘‘ (ترمذی، رقم ۳۷۸۵)۔ مسند احمدکی روایت ۱۲۶۳ میں مصعب کے بجاے حذیفہ کا ذکر ہے۔ حضرت حمزہ نے عرض کیا: یا رسول ﷲ، مجھے کوئی ذمہ داری دے دیں جس پر میں اپنی زندگی گزار لوں۔ آپ نے فرمایا: حمزہ،آپ اپنے نفس کو زندہ رکھ کر خوش ہوں گے یا اسے مارنا آپ کو محبوب ہو گا؟ جیتا نفس ہی ہونا چاہیے، جواب ملا۔ فرمایا: اپنی ہستی سے چپکے رہو (مسند احمد، رقم ۶۶۳۹)۔

حضرت حمزہ مدینہ آئے تو بنو نجارکی حضرت خولہ بنت قیس سے شادی کی۔ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم اپنی چچی حضرت خولہ کے گھر جاتے تو وہ آپ سے سوالات کرتیں۔ ایک دن آپ ان کے ہاں گئے تو حضرت حمزہ گھر میں نہ تھے۔ حضرت خولہ نے کہا: وہ بنو نجار کی کسی تنگ گلی میں آپ ہی کی طرف جا رہے ہوں گے۔ انھوں نے آپ کو کھجور، ستو اور گھی سے بنا ہوا حلوہ پیش کیا اور کہا: میں نے سنا ہے کہ روز قیامت آپ کو اس طرح کاایسا حوض ملے گا۔ آپ نے فرمایا: ہاں، حوض کوثر کا دامن یاقوت، مونگوں، زمرد اور موتیوں سے لبریز ہو گا۔ اس کی پیمایش ایلہ سے مکہ اور مکہ سے صنعا تک ہو گی۔ مجھے بہت خواہش ہے کہ آپ کی قوم اس سے سیراب ہو (مسند احمد، رقم ۲۷۳۱۶)۔

داستان امیر حمزہ: ایران کے صوبہ سیستان کے باغی لیڈرحمزہ بن عبدﷲ (۱۹۷ھ ،۷۹۶ء) کی زندگی پر لکھی گئی نایاب کتاب ’قصہ مغازی حمزہ‘کو سیدنا حمزہ بن عبدالمطلب کی زندگی سے خلط ملط کر دیا گیا ہے۔’ حمزہ نامہ‘،’داستان امیر حمزہ‘،’Adventures of Amir Hamza‘ میں بہادروں اور شیطانوں سے وہ لڑائیاں ملتی ہیں اوران رومانوی قصوں کا تذکرہ ہے جو ایک صحابی رسول کے لائق نہیں۔ اس داستان کا ہیروایران ،ہندوستان اور برما کے ان علاقوں کا سفر کرتا ہے جو حضرت حمزہ نے دیکھے بھی نہ تھے۔یہ مغل بادشاہ اکبر کی بدعات میں سے ایک ہے ۔اس نے قصے کہانیاں سننے کے لیے اس fiction کو خوب فروغ دیا۔

مطالعۂ مزید: السیرۃ النبویہ(ابن ہشام)، الطبقات الکبریٰ (ابن سعد)،جمل من انساب الاشراف (بلاذری)، تاریخ الامم والملوک(طبری)،دلائل النبوۃ (بیہقی)، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب (ابن عبدالبر)، المنتظم فی تواریخ الملوک والامم (ابن جوزی)، الکامل فی التاریخ (ابن اثیر)، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ(ابن اثیر)، البدیۃ والنہایۃ (ابن کثیر)، تاریخ الاسلام (ذہبی)، سیر اعلام النبلا (ذہبی)، الاصابہ فی تمییز الصحابہ (ابن حجر)، محمد رسول ﷲ (محمد رضا)، اردو دائرۂ معارف اسلامیہ (مضمون نگار:G M Meredith Owens)۔

____________

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت نومبر 2017
مصنف : ڈاکٹر وسیم مفتی
Uploaded on : Jan 05, 2018
7618 View