حضرت ضمام بن ثعلبہ رضی ﷲ عنہ - ڈاکٹر وسیم مفتی

حضرت ضمام بن ثعلبہ رضی ﷲ عنہ

 

تاریخ اسلامی میں حضرت ضمام (ضمضام: ابن خلدون) بن ثعلبہ کے قبول اسلام کا قصہ بیان ہوا ہے، تاہم بعد کے حالات کی تفصیل نہیں ملتی۔ ان کا تعلق عدنانی قبیلہ بنو سعدبن بکر سے تھا، اس لیے سعدی کہلاتے تھے۔ سعد بن بکر قبیلۂ بنو ہوازن کے بانی ہوازن بن منصور کے پوتے تھے ،قیس بن عیلان (یاقیس عیلان)ان کے چھٹے اور نزار بن معد نویں جد تھے۔ بنوہوازن کی باقی دو شاخیں سعد کے بھائیوں—- معاویہ بن بکراور منبہ بن بکر—- سے منسوب تھیں۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی دایہ حلیمہ سعدیہ بنت ابوذؤیب بنو سعد سے تعلق رکھتی تھیں۔ یہ ایسی نسبت تھی جس کی بنا پر بنوسعداپنے چچیروں، یعنی بقیہ بنو ہوازن کے آگے بجا طور پر فخر کرتے تھے۔ایک روایت کے مطابق سیدہ حلیمہ کے شوہر حارث بن عبدالعزیٰ کی کنیت ابو کبشہ تھی، اور ان سے نسبت رضاعت رکھنے کی وجہ سے عرب آپ کوابن ابوکبشہ کے نام سے پکارتے تھے۔ فتح مصر کے بعد بنوسعد مصر گئے اوروہاں پر آباد بنوکہلان کی اولاد بنوجذام بن عدی کے ساتھ گھل مل گئے۔ ابن حجر کہتے ہیں کہ کچھ لوگوں کو وہم ہوا اور انھوں نے حضرت ضمام کا تعلق بنو تمیم سے جوڑ دیا جو درست نہیں۔ مضر بن نزار پر حضرت ضمام کا شجرہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے شجرۂ نسب سے جا ملتا ہے ،مضر آپ کے اٹھارویں جد تھے۔ بغوی کا کہنا ہے کہ حضرت ضمام کوفہ میں رہتے تھے۔
ابن اسحاق کے بقول ۹ ھ میں اورواقدی و ابن سعد کی روایت کے مطابق رجب ۵ھ میں قبیلۂ بنو سعد نے دین اسلام کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے اپنے ایک اہم فرد ضمام بن ثعلبہ کو آپ کی طرف روانہ کیا۔ حضرت ضمام قوی جسم کے مالک تھے، ان کے سر پر گھنے بال تھے اور انھوں نے دو چوٹیاں کر رکھی تھیں۔ان کی آمد کی تفصیل حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ یوں روایت کرتے ہیں: ہم نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ مسجد نبوی میں بیٹھے تھے کہ اونٹ پر سوار ایک شخص آیا، اونٹ کو مسجد میں(مسجد کے دروازے پر،مستدرک حاکم، رقم ۴۳۸۰) بٹھا کر اسے رسی باندھی، پھر ہم سے پوچھا: تم میں سے محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) کون ہیں؟ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم تکیہ لگائے ہمارے درمیان تشریف فرما تھے۔ ہم نے جواب دیا: یہ سرخ و سفید صاحب جوتکیہ لگائے ہوئے ہیں، ابن عبدالمطلب؟ اس نے وضاحت چاہی۔ آپ نے فرمایا: ہاں، میں سن رہا ہوں۔ اس نے کہا: میں آپ سے کچھ سوالات کروں گا اورسوال پوچھنے میں سختی سے کام لوں گا ،آپ دل میں ملال نہ رکھیے گا۔ فرمایا: پوچھو، جو جی میں آتا ہے ،میں برا نہیں مناؤں گا۔ وہ بولا: میں آپ کے رب اور آپ سے پہلوں کے معبود کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا اﷲ نے آپ کو تمام انسانوں کی طرف رسول بنا کر بھیجا ہے؟ آپ نے فرمایا: ہاں ، بالکل۔ پھرسوال کیا: میں آپ کو اﷲ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا اﷲ نے آپ کوحکم دیا ہے کہ ہم دن رات میں پانچ نمازیں پڑھیں؟ جواب فرمایا: ہاں، اﷲ!توگواہ ہے۔ اگلا سوال تھا: میں اﷲ کا نام لے کر پوچھتا ہوں کہ کیا اﷲ نے آپ کویہ حکم دیا ہے کہ ہم سال کے اس مہینے ،رمضان میں روزے رکھیں؟ ارشاد فرمایا: یقینا۔ پھر دریافت کیا: میں اﷲ کے واسطے سے پوچھتا ہوں کہ کیا اﷲ ہی نے آپ کوحکم دیا ہے کہ ہم اپنے مال داروں سے زکوٰۃ لے کراپنے غربا میں بانٹ دیں؟ ’’بالکل‘‘، نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کا جواب تھا۔ وہ بولا: میں اس دین پر ایمان لایاجو آپ نے پیش کیا،میں پیچھے موجوداپنی قوم کا ایلچی ، ضمام بن ثعلبہ ہوں ،قبیلۂ بنو سعد کا ایک فرد (بخاری، رقم ۶۳، نسائی، رقم ۲۰۹۳)۔ مسند احمد، مستدرک حاکم اور کتب سیر میں قصۂ ضمام کی روایت کے الفا ظ قدرے اختلاف کے ساتھ اس طرح ہیں: میں آپ کو اس اﷲ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں جو آپ کا اور آپ سے پہلے گزرنے والے اور آپ کے بعد آنے والے لوگوں کا معبود ہے ،کیا اﷲ نے آپ کوحکم دیا ہے کہ ہم اکیلے اسی کی عبادت کریں ، کسی کو بھی اس کے ساتھ شریک نہ ٹھہرائیں اور اپنے پاس سے گھڑے ہوئے ان ہم سروں کا طوق گردن سے اتار پھینکیں جن کی ہمارے آباو اجداد پوجا کرتے آئے ہیں ؟آپ نے فرمایا: اﷲ گواہ ہے ، بالکل۔ آپ نے اسلام کے فرائض، زکوٰۃ، روزہ، حج ایک ایک کر کے بتائے۔ ہر فرض کے ذکر پر ضمام آپ کو قسم دے کر اس کی تصدیق کرتے، جس طرح پہلے کر چکے تھے۔ آپ اپنا بیان مکمل کر چکے تو ضمام پکارے: میں گواہی دیتا ہوں کہ اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں، دراں حالیکہ وہ اکیلا ہے اور کوئی اس کا شریک نہیں۔اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اﷲ کے رسول ہیں۔میں یہ فرائض ادا کروں گا ، ان ممنوعات سے اجتناب کروں گا جن سے آپ نے منع فرمایا ہے اوراپنی طرف سے کوئی کمی و بیشی نہ کروں گا۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ ہمیں قرآن مجید میں اﷲ کی طرف سے حکم ہوا تھا کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے زیادہ سوالات نہ کریں، اس لیے بڑا تعجب ہوا کہ ایک بدوآپ سے سوال پہ سوا ل کیے جا رہا ہے اور ہم سن رہے ہیں۔اس بدو نے(ہر سوال کے شروع میں کہاکہ) آپ کے بھیجے ہوئے معلم نے یوں بتایا ہے (پھر ارکان اسلام میں سے ہر ایک کی آپ کی زبان مبارک سے تصدیق کرائی) (نسائی، رقم ۲۰۹۳)۔ (آپ سے مذاکرہ کرنے کے بعد) حضرت ضمام واپس جانے کے لیے اونٹ کی طرف بڑھے تو رسو ل اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ دو چوٹیوں والا اپنے قول میں سچا ثابت ہوا تو جنت میں جائے گا۔ انھوں نے اونٹ کی رسی کھولی اور روانہ ہو گئے۔ اپنی قوم میں پہنچے تو لوگ ان کے پاس اکٹھے ہو گئے ۔پہلی بات جو ان کے منہ سے نکلی، یہ تھی کہ کیا ہی برے ہیں لات اور عزیٰ۔قوم کا جواب تھا: رکیے، ضمام، پھل بہری سے ڈریے، کوڑھ پن سے ڈریے،پاگل پن لاحق ہونے سے ڈرو۔ حضرت ضمام بولے: بربادی ہو!یہ لات وعزیٰ نقصان پہنچاتے ہیں نہ نفع۔ اﷲ نے ایک رسول مبعوث کیا ہے اور اس پر ایک کتاب نازل کی ہے ۔ان گمراہیوں سے تمھیں نکال دیا ہے جن میں تم مبتلا تھے ۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اﷲ اکیلے کے سوا کوئی معبود نہیں،اس کا کوئی شریک نہیں اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اﷲ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ میں آپ کے پاس سے وہ احکام لایا ہوں جوآپ نے کرنے کو کہے ہیں اور وہ ممنوعات جنھیں کرنے سے روکا ہے۔اس دن حضرت ضمام کے قبیلے کی کوئی عورت، کوئی مرد ایسا نہ رہا جس نے اسلام قبول نہ کیا ہو۔ حضرت عبداﷲ بن عباس کہتے ہیں کہ آں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس جتنے وفود آئے،ہم نے نہیں سنا کہ حضرت ضمام کی قوم سے بہتر کوئی قوم ہو ( احمد، رقم ۲۳۸۰، مستدرک حاکم، رقم ۴۳۸۰)۔ انھوں نے مسجدیں تعمیر کیں اور اذان دینے کا سلسلہ شروع کر دیا۔
سیاق کلام سے پتا چلتا ہے کہ یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب عزیٰ کا بت پاش پاش نہ ہوا تھا۔ حضرت ضمام فتح مکہ سے پہلے پہلے اپنی قوم میں واپس پہنچ گئے ہوں گے، کیونکہ فتح کے بعد ہی حضرت خالد بن ولید نے مشرکوں کے اس معبود کو ریزہ ریزہ کیا تھا (ابن کثیر)۔ روایت میں حج کا ذکر کسی راوی نے شامل کر دیا ہے، کیونکہ حج اس وقت تک فرض نہ ہوا تھا(ابن قیم)۔ حضرت عمر فرمایاکرتے تھے: میں نے نہیں دیکھا کہ کسی نے حضرت ضمام سے زیادہ بلیغانہ اختصار کے ساتھ ، ان سے بہتر طریقے پر آپ سے سوال پوچھاہو۔امام بخاری کہتے ہیں کہ حدیث ضمام سے علما نے اس بات پر استشہاد کیا ہے کہ شیخ کو سبق سناکر سیکھا جا سکتا ہے، یعنی یہ حصول علم کا ایک ذریعہ ہے۔ حضرت ضمام نے اپنی قوم کو یہی تعلیم دی تو سب نے اسے مان لیا (بخاری، کتاب العلم: ۶) ۔
حضرت طلحہ بن عبید اﷲ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ نجد کا ایک شخص رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔اس کے سر کے بال بکھرے ہوئے تھے،ہمیں اس کی آواز کی بھنبھناہٹ سنائی دیتی تھی، لیکن کہی بات سمجھ میں نہ آتی تھی۔ وہ آپ کے قریب ہو ا تومعلوم ہوا کہ اسلام کے بارے میں استفسارات کررہا ہے ۔(ارکان اسلام بتاتے ہوئے )آپ نے فرمایا: دن اور رات میں پانچ نمازیں، تو اس نے پوچھا: کیا اور کوئی نمازبھی مجھے پڑھنی ہو گی؟ فرمایا: نہیں ،نوافل البتہ پڑھ سکتے ہو۔ پھر فرمایا: رمضان کے روزے۔ پوچھا: ان کے علاوہ؟ جواب ارشاد ہوا: نفلی روزہ رکھ سکتے ہو، پھر آپ نے زکوٰۃ کا ذکر کیا تو اس نے وہی سوال دہرایا: مالی واجبات میں سے کچھ اور؟ فرمایا: نفلی صدقہ کے سوا کچھ نہیں۔ وہ شخص یہ کہتے ہوئے واپس مڑ گیا: واﷲ، میں ان فرائض میں کوئی کمی و بیشی نہ کروں گا۔آپ نے فرمایا: اس نے اپنی بات سچ کر دکھائی تو فلاح پا جائے گا (بخاری، رقم ۴۶، مسلم، رقم ۱۱)۔ ’کتاب العلم: ۶‘ میں امام بخاری کی نقل کردہ تعلیق سے قاضی عیاض نے استدلال کیا ہے کہ اس حدیث کے سائل حضرت ضمام بن ثعلبہ ہی تھے۔ ابن عربی اورشارح بخاری ابن بطال کا بھی یہی خیال ہے۔ قرطبی کہتے ہیں کہ یہ دوالگ الگ اشخاص تھے،انھیں ایک فرد قرار دینا خواہ مخواہ کی زبردستی ہے۔ ابن حجر نے بھی اس کی تائیدکی۔ابن اسحاق اور ابن سعد نے حضرت ضمام بن ثعلبہ کے حالات بیان کرتے ہوئے حضرت طلحہ کی اس روایت کا ذکر نہیں کیا۔
مطالعۂ مزید: السیرۃ النبوےۃ(ابن ہشام)،الطبقات الکبریٰ(ابن سعد)،تاریخ الامم والملوک (طبری)، دلائل النبوۃ (بیہقی)، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب (ابن عبدالبر)، المنتظم فی تواریخ الملوک والامم(ابن جوزی)، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ (ابن اثیر)، الکامل فی التاریخ (ابن اثیر)، البداےۃ والنہاےۃ(ابن کثیر)، نہاےۃ الارب فی فنون الادب (شہاب الدین نویری)، تاریخ الاسلام (ذہبی)، زاد المعاد(ابن قیم)، کتاب العبرو دیوان المبتداء والخبر (ابن خلدون)، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ (ابن حجر) اور شرح المواہب اللدنیہ (زرقانی)۔

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت اپریل 2014
مصنف : ڈاکٹر وسیم مفتی
Uploaded on : Sep 07, 2018
1977 View