حدود آرڈی نینس ــــــ جناب جاوید احمد غامدی کا موقف - سید منظور الحسن

حدود آرڈی نینس ــــــ جناب جاوید احمد غامدی کا موقف

 حدودکے بارے میں جناب جاوید احمد غامدی کا موقف یہ ہے کہ یہ اسلامی شریعت کا جزو لازم ہیں۔ جان، مال، آبرو اور نظم اجتماعی سے متعلق تمام بڑے جرائم کی یہ سزائیں قرآن مجید نے خود مقرر فرمائی ہیں۔ چنانچہ ان کی حیثیت پروردگار عالم کے قطعی اور حتمی قانون کی ہے۔ عالم اور محقق ہوں یاقاضی اور فقیہ، ان میں ترمیم و اضافے یا تغیر و تبدل کاحق کسی کو حاصل نہیں ہے۔ شریعت کے دیگر اجزا کی طرح یہ بھی ابدی، اٹل اور غیر متبدل ہیں۔ زمانہ گزرا ہے اور مزید گزر سکتا ہے، تہذیب بدلی ہے اور مزید بدل سکتی ہے،تمدن میں ارتقا ہوا ہے اور مزید ہو سکتا ہے، مگر ان کی قطعیت آج بھی اسی طرح قائم ہے جس طرح آج سے چودہ سو سال پہلے قائم تھی۔ ان کا انکار قانون خدا وندی کا انکار ہے اور انھیں چیلنج کرنا حکم الٰہی کو چیلنج کرنے کے مترادف ہے۔ان کی تعمیل ہمارے ایمان کا تقاضا اور ان کے نفاذ کی جدوجہد ہمارا اجتماعی فریضہ ہے۔ ہمارے حکمرانوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ انھیں من و عن نافذ کریں۔ وہ اگر اس سے گریز کرتے ہیں تو انھیں آگاہ رہنا چاہیے کہ:
’’جو لوگ اللہ کے نازل کیے ہوئے قانون کے مطابق فیصلے نہیں کرتے، وہی ظالم ہیں، وہی فاسق ہیں۔‘‘(المائدہ)
حدود اللہ کے بارے میں یہ جناب جاوید احمد غامدی کا موقف ہے۔ جہاں تک ان کی تعبیر و تشریح کا تعلق ہے تو ان کے نزدیک اس کا حق ہر صاحب علم کو حاصل ہے۔ اس معاملے میں جو چیز فیصلہ کن ہے، وہ کسی تعبیر کا قدیم ہونا یا مشہور و مقبول ہونا نہیں ہے، بلکہ مبنی بر دلیل ہونا ہے۔ عقلی اور نقلی دلائل ہی کو یہ حیثیت حاصل ہے کہ ان کی بنا پر کسی رائے کے رد وقبول کا فیصلہ کیا جائے۔ سلف وخلف کے علما نے حدود اللہ اور دیگر احکام الٰہی کی تعبیر و تشریح کا جو کام گزشتہ چودہ سو سال میں کیا ہے، وہ بلاشبہ گراں قدر اور وقیع ہے ، مگراس کے باوجود بہرحال انسانی کام ہے اور انسانوں میں سے صرف پیغمبروں ہی کو یہ حق حاصل ہے کہ لوگ ان کی بات کے سامنے سر تسلیم خم کریں۔ باقی انسانوں کے کام سے، خواہ وہ ابو حنیفہ،مالک، شافعی، احمد بن حنبل ، ابن تیمیہ ، غزالی، شاہ ولی اللہ ، فراہی اور اصلاحی جیسے جلیل القدر ائمۂ امت ہی کیوں نہ ہوں، اختلاف کیا جا سکتا اور ان کی آرا کے مقابل میں نئی رائے کو پیش کیا جا سکتا ہے۔
’’جرم زنا کا آرڈی نینس۱۹۷۹ء ‘‘ بھی حدود اللہ کی تعبیر و تشریح پر مبنی ایک انسانی کاوش ہے۔ اس کے بارے میں جناب جاوید احمد غامدی کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ اس کی بعض دفعات شریعت کے مطابق نہیں ہیں۔ لہٰذا اس کی تدوین جدید ہونی چاہیے اور اسے ایک الگ ضابطے کے طور پر قائم رکھنے کے بجائے مجموعۂ تعزیرات پاکستان اور ضابطۂ فوج داری کا حصہ بنا دینا چاہیے۔ ان کے نزدیک اس میں پانچ بنیادی مسائل ہیں جن پر قرآن و سنت کی روشنی میں از سر نو غور ہونا چاہیے۔
ٰٓایک بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ اس میں زنا اور زنا بالجبرکی سزا میں فرق قائم نہیں کیا گیا۔ دفعہ ۵ زنا کی سزا کو بیان کرتی ہے اور اس کے تحت درج ہے کہ اس جرم کا مرتکب اگر ’’محصن‘‘ یعنی شادی شدہ ہے تو اسے سنگ سار کر کے ہلاک کر دیا جائے گا اور اگر ’’غیر محصن‘‘ یعنی غیر شادی شدہ ہے تو اسے سو کوڑے مارے جائیں گے۔ بعینہٖ یہی سزا دفعہ ۶ کے تحت زنا بالجبرکے زیر عنوان بیان کی گئی ہے۔ گویا زناکی سزا میں اگر کوئی فرق قائم ہے تو وہ ازدواجی حیثیت کی بنا پرہے، اس کے بالرضا یا بالجبر ہونے کی بنا پر نہیں ہے۔
غامدی صاحب کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ زنا اور زنا بالجبر، دونوں الگ الگ جرم ہیں اور شریعت کی رو سے ان کی سزا بھی الگ الگ ہے۔ ان میں وہی فرق ہے جوچوری اور ڈکیتی میں ہے۔ زنا میں مجرم سے ایک جرم کا صدور ہوتاہے، جبکہ زنا بالجبر کا مجرم دو جرائم کا ارتکاب کرتا ہے۔ایک زنا اور دوسرا ظلم و جبر۔یہ دوہرا جرم زنا بالجبر کو زنا کے مقابلے میں زیادہ سنگین بنا دیتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ شریعت میں ان دونوں کے لیے الگ الگ سزامقرر کی گئی ہے۔زنا کی سزا سو کوڑے ہے جو سورۂ نور میں ان الفاظ میں بیان ہوئی ہے کہ: ’’زانی مرد ہو یا عورت، دونوں میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارو۔‘‘ جہاں تک زنا بالجبر کا تعلق ہے تویہ اور اس نوعیت کے دیگر سنگین جرائم کی سزائیں سورۂ مائدہ میں ’محاربہ‘ اور ’ فساد فی الارض‘ کے جامع عنوانات کے تحت بیان کی گئی ہیں۔انھی میں سے ایک سزا عبرت ناک طریقے سے قتل ہے۔ ’رجم‘ یعنی لوگوں کی ایک جماعت کا مجرم کو پتھر مار کر ہلاک کرنا بھی اسی سزا کی ایک صورت ہے۔
زنا اور زنا بالجبر کے جرائم کی نوعیت اور ان کی سزا کا فرق اتنا بدیہی ہے کہ جب اس آرڈی نینس کے مصنفین نے خود ان کی تعزیری سزائیں طے کی ہیں تو ان میں فرق قائم کیا ہے ۔ چنانچہ دیکھیے، دفعہ ۱۰ کے تحت درج ہے کہ زنا کی تعزیری سزا قید بامشقت ہو گی جس کی حد ۱۰ سال تک ہے اور زنا بالجبر کی تعزیری سزا قید بامشقت ہو گی جس کی حد ۲۵ سال تک ہے۔مزید براں یہ بھی درج ہے کہ جب زنا بالجبر اجتماعی آبرو ریزی کی صورت اختیار کر جائے تو مرتکبین میں سے ہر ایک کو سزا ئے موت دی جائے گی۔
اس آرڈی نینس میں دوسرا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ یہ سزا میں ثبوت کی بنیاد پر فرق کرتا ہے۔آرڈی نینس کی دفعات ۸ اور ۹ زنااور زنا بالجبر کے ثبوت کو بیان کرتی ہیں۔ ان میں بیان ہوا ہے کہ ان جرائم کے ثبوت کے لیے اگرچار مسلمان مردگواہ میسر ہوں تو حدنافذ ہوگی یعنی سو کوڑے یا سنگ ساری کی سزا دی جائے گی اور اگر گواہوں کی تعداد چار سے کم ہو گی تو تعزیر نافذ ہو گی یعنی قید کی سزا دی جائے گی۔گویا مثال کے طور پر اگر کسی نے زنا بالجبر کا ارتکاب کیا ہے اور اس کے خلاف چار گواہ میسر آ گئے ہیں توجرم پورا ثابت قرار پائے گا اور مجرم پر حد کی سزا نافذ کر کے اسے سنگ سار کر دیا جائے گااور اگر گواہی دینے والوں کی تعداد چار سے کم ہے یعنی دو یا تین ہے تو ثبوت جرم مکمل نہیں سمجھا جائے گا، لہٰذا اس پر حد کے بجائے تعزیر نافذ ہو گی اور اس کی سزا کچھ مدت کی قید بامشقت قرار پائے گی۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ جرم کے ثبوت کے درجات ہیں ۔جرم اگر کم درجے میں ثابت ہو گا تو سزا کی مقدار کم ہوگی اورزیادہ درجے میں ثابت ہو گا تو سزا کی مقدارزیادہ ہو گی۔
غامدی صاحب کے نزدیک ثبوت جرم کے لیے شریعت نے کسی خاص طریقے کی پابندی لازم نہیں ٹھہرائی ہے۔ چنانچہ اسلامی قانون میں جرم ان تمام طریقوں سے ثابت ہوتا ہے جو اخلاقیات قانون میں مسلمہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اخلاقیات قانون کا یہ مسلمہ اصول ہے کہ جرم یا ثابت ہوتا ہے یا ثابت نہیں ہوتا ۔ ثبوت اور عدم ثبوت کے درمیان کی کوئی چیز نہیں ہے ۔ یعنی جرم کبھی پچاس فی صد، ستر فی صد یا نوے اورننانوے فی صد ثابت نہیں ہوتا۔ ہمیشہ سو فی صد ثابت ہوتا ہے یا بالکل ثابت نہیں ہوتا۔کوئی جج اگر کسی مجرم پر سزا نافذ کرتا ہے تو اس یقین کے ساتھ کرتا ہے کہ مقدمہ پایۂ ثبوت کو پہنچ گیا ہے۔ مقدمہ اگر پایۂ ثبوت کو نہیں پہنچا ، اس میں ابہام یا شک و شبہ پایا جاتا ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ جرم ثابت نہیں ہوا اور ملزم سزا کا مستحق نہیں ہے۔ لہٰذا اس پر نہ حد نافذ ہو گی نہ تعزیر۔سوال یہ ہے کہ اگر جرم ثابت نہیں ہوا تو پھر تعزیر کیوں اور اگر ثابت ہو گیا ہے تو پھر حد کیوں نہیں؟ چنانچہ عقل و فطرت اور دین و شریعت کی رو سے اس بات کی کوئی گنجایش نہیں ہے کہ ثبوت اور عدم ثبوت کے درمیان کسی حالت کا تصور کیا جائے اور اس بنا پر یہ قانون بنایا جائے کہ اگر جرم اتنا ثابت ہو تو حد نافذ ہو گی اور اتنا ثابت ہو تو تعزیر کی سزا دی جائے گی۔
جہاں تک سورۂ نور کی آیات ۴۔۵ میں چار گواہوں اور سورۂ نساء کی آیت ۱۵ میں چار مسلمان گواہوں کی شرط کا تعلق ہے تو واضح رہے کہ یہ شہادت کا کوئی عمومی قانون نہیں ہے، بلکہ دو استثنائی صورتوں کا بیان ہے۔ایک صورت وہ ہے جسے اسلامی شریعت میں’ قذف‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی پاک دامن پر زنا کی تہمت لگائے تو اسے کہا جائے گا کہ اس الزام کی تائید میں چار عینی گواہ پیش کرو ۔ اس سے کم کسی صورت میں الزام ثابت نہیں ہو گا۔حالات و قرائن اور طبی معاینہ جیسی شہادتوں کی اس معاملے میں کوئی حیثیت نہیں ہے۔ نہ انھیں طلب کیا جائے گا اور نہ قبول کیا جائے گا۔ الزام لگانے والا اگرچار گواہ پیش نہیں کرتا تو اسے اسی کوڑے مارے جائیں گے اور ہمیشہ کے لیے ساقط الشہادت قرار دے دیا جائے گا۔ قذف کے اس قانون سے اللہ تعالیٰ کا مقصود یہ ہے کہ اگر کسی شخص کی حیثیت عرفی مسلم ہے اور وہ ایک شریف آدمی کے طور پر پہچانا جاتاہے تو اسے توبہ و انابت کا موقع دیا جائے اور معاشرے میں رسوا نہ کیا جائے۔چار گواہوں کی شرط کی دوسری صورت ان عورتوں سے متعلق ہے جو قحبہ گری کی عادی مجرم ہوں۔ حکومت ان سے نمٹنے کے لیے چار مسلمان گواہوں کو طلب کرسکتی ہے جو اس بات کی گواہی دیں گے کہ فلاں زنا کی عادی ایک قحبہ عورت ہے اور ہم اسی حیثیت سے اسے جانتے ہیں۔ ان دو مستثنیٰ صورتوں کے سوا اسلامی شریعت ثبوت جرم کے لیے عدالت کو کسی خاص طریقے کا پابند نہیں کرتی۔
تیسرابنیادی مسئلہ یہ ہے کہ یہ آرڈی نینس گواہوں کے معاملے میں جنس اور مذہب کی بنیاد پر تفریق کرتا ہے۔ چنانچہ اس کی دفعہ ۸ کے الفاظ ’’چار بالغ مسلمان مرد‘‘ سے واضح ہے کہ اس کی رو سے جرم زنا اسی صورت میں لائق حد قرار پائے گاجب جرم کے عینی گواہ بالغ مرد ہوں اور مسلمان ہوں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اس جرم میں نہ عورت کی گواہی قبول کی جائے گی اور نہ غیر مسلم مرد کی۔
غامدی صاحب کے نزدیکیہ چیز بھی اخلاقیات قانون کے خلاف ہے۔ شریعت اسلامی اس سے پاک ہے کہ اس طرح کی غیر عقلی اور خلاف عدل باتوں کو اس کی نسبت سے بیان کیا جائے۔ اس کی رو سے جرم ان تمام طریقوں سے ثابت ہوتا ہے جو علم و فن اور تہذیب و تمدن کے ارتقا کے نتیجے میں وجود پذیر ہوئے ہیں اور جنھیں انسان کے اجتماعی ضمیر نے ہمیشہ قبول کیا ہے ۔ چنانچہ حالات و قرائن ، طبی معاینہ یا اس نوعیت کے دیگر شواہد کی بنا پر اگر جرم کے ارتکاب اور مجرم کا پوری طرح تعین ہو جاتا ہے تو جرم ثابت قرار پائے گا اور مجرم سزا کا مستحق ٹھہرے گا۔تاہم قذف کے معاملے میں چار گواہوں اور قحبہ عورتوں کے معاملے میں چار مسلمان گواہوں کی شرط کا استثنا بہرحال قائم رہے گا۔
اس آرڈی نینس کے مولفین کی توجہ شاید اس بات کی طرف نہیں ہوئی کہ جرم کے وقت گواہ کا موجود ہونا سرتاسر ایک اتفاقی امر ہے۔کسی جرم کے موقع پر کوئی مردبھی موجود ہو سکتا ہے اور کوئی عورت بھی، مسلمان بھی ہو سکتا ہے اور غیر مسلم بھی، بچہ بھی ہو سکتا ہے اور بوڑھا بھی اور ایک فرد بھی ہو سکتا ہے اور زیادہ افراد بھی اور یہ بھی عین ممکن ہے کہ مظلوم اور مجرم کے علاوہ کوئی فرد بشر موجود ہی نہ ہو۔ سوال یہ ہے کہ کیا اسلام کا قانون یہ ہو سکتا ہے کہ کوئی معصوم بچی ماں کے سامنے درندگی کا شکار ہوئی ہو اور عدالت ماں کی گواہی محض عورت ہونے کی بنا پر رد کر دے یا کسی پاک دامن کی آبرو ریزی کا گواہ مذہباً عیسائی ہو اور اس کی گواہی غیر مسلم ہونے کی وجہ سے قبول نہ کی جائے ؟ اسلام اس سے بری ہے کہ اس پر اس طرح کی تہمت لگائی جائے۔ قذف اور قحبہ عورتوں کی سرکوبی کے معاملے کے سوا یہ گواہوں کے حوالے سے کوئی شرط عائد نہیں کرتا۔ اس کے نزدیک ثبوت جرم کی اصلاًایک ہی شرط ہے اور وہ عدالت کا اطمینان ہے۔ یہ اطمینان اگر کسی عورت کی گواہی سے ہوتا ہے تو جرم ثابت قرارپائے گا، کسی غیر مسلم کی گواہیسے ہوتا ہے تو جرم ثابت قرارپائے گا ، کسی بالغ کی گواہی سے ہوتا ہے تو جرم ثابت قرارپائے گا، کسی بچے کی گواہی سے ہوتا ہے تو جرم ثابت قرارپائے گا ، یہاں تک کہ اگر کوئی فرد بطور گواہ میسر نہیں ہے اور عدالت فقط میڈیکل رپورٹ کی بنا پر مطمئن ہو جاتی ہے تو جرم ثابت قرارپائے گا اور مجرم پر پوری سزا نافذ ہوگی۔ یہی اخلاقیات قانون کا تقاضا ہے اور یہی شریعت اسلامی کا منشا ہے۔
چوتھا مسئلہ یہ ہے کہ اس آرڈی نینس میں جرم کی نوعیت اور مجرم کے حالات کی رعایت کا جو اصول شریعت میں ثابت ہے ، اسے قانون میں شامل نہیں کیا گیا۔
غامدی صاحب کے نزدیک قرآن مجید سے واضح ہے کہ چوری اور زنا کے جرائم میں قطع ید اور سو کوڑوں کی سزائیں درحقیقت ان جرائم کی انتہائی سزائیں ہیں۔یہ صرف انھی مجرموں کے لیے ہیں جن سے جرم بالکل آخری درجے میں سرزد ہو اور وہ اپنے حالات کے لحاظ سے کسی رعایت کے مستحق نہ ہوں۔ چنانچہ عدالت کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ اگر چاہے توجرم کی نوعیت اور مجرم کے حالات کی رعایت سے ان سزاؤں میں تخفیف کر سکتی ہے۔ یہ اصول سورۂ نور کی آیت ۳۳ اور سورۂ نساء کی آیت ۲۵ سے معلوم ہوتا ہے۔سورۂ نور میں قرآن مجید نے ان لونڈیوں کے لیے اللہ کی رحمت اور مغفرت کا اعلان کیا ہے جن کے مالک انھیں پیشہ کرنے پر مجبور کرتے تھے ۔ سورۂ نسا میں زنا کی مرتکب ان لونڈیوں کی سزاعام عورتوں کے مقابلے میں آدھی مقرر کی گئی ہے جنھیں ان کے مالکوں نے عقد نکاح میں لا کرپاک دامن رکھنے کی پوری کوشش کی تھی۔گویا ایک موقع پر مجبوری کو تسلیم کرتے ہوئے پوری سزا معاف کردی گئی ہے اور دوسرے موقع پر ناقص اخلاقی تربیت کا عذر مانتے ہوئے سزا میں کمی کر دی گئی ہے۔ چنانچہ قرآن مجید کے ان مقامات سے یہ بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ حالات کی رعایت سے سزا میں تخفیف شریعت کا عین منشا ہے۔
پانچواں مسئلہ یہ ہے کہ اس آرڈی نینس میں شریعت کی مقرر کردہ بعض سزاؤں کو شامل نہیں کیا گیا۔
غامدی صاحب کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ سورۂ مائدہ کی آیات ۳۳۔ ۳۴ میں ’محاربہ‘ اور ’فساد فی الارض‘ کے زیر عنوان جو سزائیں بیان ہوئی ہیں ، وہ شریعت کا حصہ ہیں اور انھیں لازماً اس قانون میں شامل ہونا چاہیے۔ ان آیات میں جرائم کے لیے’ یُحَارِبُوْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ وَیَسْعَوْنَ فِی الْاَرْضِ فَسَادًا‘ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ ان کے معنی اللہ اور رسول سے جنگ کرنے اور زمین میں فساد برپا کرنے کے ہیں۔ یہ ایک جامع تعبیر ہے اور اس کا اطلاق قتل و غارت گری، زنا بالجبر، اجتماعی آبرو ریزی، ڈکیتی ، دہشت گردی اور اس نوعیت کے ان جرائم پر ہوتا ہے جو معاشرے میں فساد کا باعث ہوں اور ریاست کے لیے امن و امان کا مسئلہ پیدا کر دیں۔ان جرائم کے لیے شریعت نے چار سزائیں مقرر کی ہیں۔ ایک یہ کہ ان کا ارتکاب کرنے والوں کو عبرت ناک طریقے سے قتل کیا جائے، دوسرے یہ کہ انھیں عبرت ناک طریقے سے سولی کی سزا دی جائے، تیسرے یہ کہ انھیں اس طرح زندہ رکھا جائے کہ ان کے ہاتھ اور پاؤں بے ترتیب کاٹ دیے جائیںیعنی دایاں ہاتھ اور بایاں پاؤں یا بایاں ہاتھ اور دایاں پاؤں کاٹا جائے اور چوتھے یہ کہ انھیں جلاوطن کر دیا جائے۔ یہ سزائیں بھی اسی طرح شریعت کا حصہ ہیں جس طرح قتل، زنا، چوری اور قذف کی سزائیں شریعت کا حصہ ہیں۔ خاص زنا کے حوالے سے دیکھیں تو اس کی اصل سزا توسورۂ نور کے مطابق سو کوڑے ہی ہے ، لیکن کوئی شخص اگر زنا بالجبر کا ارتکاب کرے یا بدکاری کو پیشہ بنا لے یا کھلم کھلا اوباشی پر اتر آئے اور شرفا کی عزت و ناموس کے لیے خطرہ بن جائے تو وہ فساد فی الارض کا مجرم اور محاربہ کی انھی سزاؤں میں سے کسی سزا کا مستحق قرار پائے گا۔رجم یعنی لوگوں کے ایک گروہ کا مجرم کو پتھرمار کر ہلاک کرناعبرت ناک طریقے سے قتل ہی کی ایک صورت ہے۔چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے زنا کے بعض عادی مجرموں پر رجم کی جو سزا نافذ کی، وہ اصل میں فساد فی الارض ہی کی سزا تھی ۔ اسے کوئی الگ سزا تصور کرنا قرآن و سنت کے مسلمات اور حدیث کے نظائر کے خلاف ہے۔
حدود اللہ اور اس کے جملہ مباحث کے حوالے سے یہ جناب جاوید احمد غامدی کا موقف ہے۔ ملک کے اہل دانش اور ارباب حل و عقد کے استفسار پر انھوں نے اسی کا اظہار کیا ہے۔ یہ ان کا کوئی حالیہ موقف نہیں ہے ، وہ اسے پندرہ بیس سال سے بیان کر رہے ہیں۔ اس کی تفصیل ان کی تصانیف میں ’’حدود و تعزیرات‘‘، ’’رجم کی سزا‘‘، ’’قانون شہادت‘‘ اور’’ اخلاقیات‘‘ کے زیر عنوان دیکھی جا سکتی ہے۔غامدی صاحب کے اس موقف کو بعض مذہبی حلقوں نے ہدف تنقید بنایاہے اور اخبارات و جرائد میں مختلف مضامین شائع کیے ہیں۔انھی میں سے ایک مضمون مولانا زاہد الراشدی کا ہے جو ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ کے جولائی ۲۰۰۶ کے شمارے میں شائع ہوا ہے۔مولانا زاہد الراشدی دیوبندی مکتب فکر کے نمائندہ عالم دین ہیں۔ روایتی علما میں شاید وہ واحد شخصیت ہیں جو اگر چہ بلند آہنگ ہیں، مگر تہذیب اور شایستگی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے۔بالعموم مکالمے اور اصولی گفتگو تک محدود رہتے ہیں اورمناظرے سے گریز کرتے ہیں۔تنقید بھی کرتے ہیں، اختلاف بھی کرتے ہیں اور قلم رواں ہو تو طنز و تعریض بھی کرتے ہیں، مگر نہ محرکات طے کرتے ہیں اور نہ کفر کے فتوے صادر کرتے ہیں۔ مختلف نقطۂ نظر کے حامل مسلمان کو مسلمان کہتے ہیں اور اس سے میل جول کو جائز سمجھتے ہیں۔ کسی پر نقد و تبصرہ مقصود ہو تو ہر ممکن کوشش کرتے ہیں کہ اس کی بات کو اسی کے ماخذ سے اور اسی کے مفہوم کے مطابق لیا جائے۔ اس بنا پر ہمارا احساس یہ ہے کہ ان کا وجود مذہبی حلقے کے لیے ایک نعمت سے کم نہیں ہے۔
مولانا کے بارے میں ہمارے اس تبصرے پر کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ ان اوصاف میں ایسی کون سی خاص بات ہے؟ یہ تو وہ بنیادی اخلاقیات ہیں جوہر مسلمان میں ہونی چاہییں، بلکہ مسلمان تو بڑی بات ہے ، انھیں توہر انسان کے طرز عمل کا حصہ ہونا چاہیے۔ اس سوال کے جواب میں رومی کے اس شعر کے سوا اور کیا کہا جا سکتا ہے کہ: 

دی شیخ با چراغ ہمی گشت گرد شہر
کزدام و دد ملولم و انسانم آرزوست

بہرحال، مولانا کا یہی طرز عمل اور یہی مقام و مرتبہ ہمارے لیے اس امر کا داعی ہوا ہے کہ ان کے مضمون کامطالعہ کیا جائے اور اگر کوئی اشکال یا اختلاف ہوتو بصد احترام ان کی خدمت میں پیش کیا جائے۔
مولانا نے اپنے مضمون میں حدود آرڈی نینس کی نوعیت ، اہمیت اور تاریخی پس منظر کو بیان کرنے کے بعد دو طبقات کی نشان دہی کی ہے جو اس آرڈی نینس پر اعتراض رکھتے ہیں۔ ان کے نزدیک ایک طبقہ وہ ہے جو سرے سے حدود اللہ کے نفاذ کے خلاف ہے۔ یہ طبقہ ان قوانین کو موجودہ زمانے کے لحاظ سے غیر ضروری ،بلکہ غلط قرار دیتا ہے۔ دوسرا طبقہ وہ ہے جو ان کے اسلامی ہونے کا تو قائل ہے، مگر عملاًاسلام کا نام لے کر مغرب کے موقف اور ایجنڈے کی تقویت کا باعث بن رہا ہے۔ اس طبقے کے بارے میں مولانا نے لکھا ہے :
’’دوسرا طبقہ وہ ہے جو ان حدود کے اسلامی ہونے کا قائل ہے، لیکن اسے شکایت ہے کہ ان حدود کی تعبیر و تشریح کے لیے ’’حدود آرڈی نینس‘‘ مرتب کرنے والوں نے ان حضرات کے موقف اور تعبیرات کو معیار تسلیم کرنے کی بجائے امت مسلمہ کے جمہور فقہاے کرام کی تعبیرات کو کیوں بنیاد بنایا ہے اور حدود شرعیہ بلکہ اسلامی احکام و قوانین کی جدید تعبیر و تشریح کرنے والے ان دانش وروں کے نقطۂ نظر کو توجہ کے قابل کیوں نہیں سمجھا؟ ...کسی بھی سلیم العقل اور صاحب انصاف شخص کو یہ صورت حال پیش آ جائے کہ ایک طرف امت کے جمہور فقہا کی تعبیرات ہوں اور دوسری طرف چند دانش ور حضرات اپنی تعبیرات کو اس کے مقابلے پر پیش کر رہے ہوں تو ایک انصاف پسند شخص امت کے چودہ سو سالہ تعامل اور تمام دینی و علمی مکاتب فکر کے جمہور علما کی اجتماعی تعبیرات کو چند دانش وروں کی آرا پر قربان کرنے کے لیے کسی طرح بھی تیار نہیں ہو گا۔ ایسے اصحاب دانش کی حالت انتہائی قابل رحم ہے جو مولوی پر یہ الزام لگاتے ہوئے نہیں تھکتے کہ وہ ضدی ہے، ہٹ دھرم ہے اور دوسروں کے نقطۂ نظر کا احترام نہیں کرتا، لیکن خود ان کی ضد اور ہٹ دھرمی کا یہ عالم ہے کہ امت کے چودہ سو سالہ اجتماعی تعامل اور آج کے جمہور علما ے امت کے اتفاقی موقف کے سامنے چند افراد اس بات پر مصر ہیں کہ قرآن و سنت کے احکام و مسائل میں ان کی تعبیرات و تشریحات کو ہر حال میں قبول کیا جائے اور صرف انھی کو معیار حق قرار دے کر احادیث نبویہ اور فقہ اسلامی کے پورے ذخیرے کو ان کے سامنے ’’سرنڈر‘‘ کرا دیا جائے، ورنہ وہ مغرب کے ساتھ ہیں اور سرے سے اسلامی احکام و قوانین کے نفاذ کو غیر ضروری قرار دینے والوں کی صف میں کھڑے ہیں۔‘‘
مولانا کی اس تقریر کا خلاصہ یہ ہے کہ بعض اہل دانش اس پر مصر ہیں کہ قرآن و سنت کے احکام و مسائل میں انھی کی تعبیرات کو ہرحال میں قبول کیا جائے۔ یہ اصرار عقل و انصاف کے خلاف ہے۔ احکام شریعہ کی تعبیر و تشریح میں قرین عقل و انصاف یہی ہے کہ عصر حاضر کے کسی صاحب دانش کی رائے کے مقابلے میں انھی آرا کو قبول کیا جائے جو امت کے چودہ سو سالہ تعامل کا نتیجہ ہیں اور جن پر قدیم و جدید دور کے جمہورعلما و فقہا کا اتفاق ہے۔
ہمیں نہیں معلوم کہ مولاناکی اس تقریر کا مصداق کون کون لوگ ہیں، تاہم انھوں نے چونکہ جناب جاوید احمد غامدی کا ذکر بھی اسی طبقے کی نسبت سے کیا ہے، اس لیے یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس معاملے میں بھی ہماری وضاحت سامنے آ جائے۔
غامدی صاحب کے نزدیک قرآن و سنت کی تعبیر کا مسئلہ ہو یا کسی ایسے معاملے میں اجتہاد کا جس میں شریعت خاموش ہے، یہ مسلمانوں کے منتخب نمائندے ہیں جن کے فیصلے سے کوئی رائے اسلامی ریاست میں قانون کا درجہ حاصل کر سکتی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ مسلمانوں کی ریاست میں شوریٰ یاپارلیمنٹ کے علاوہ کسی کو قانون سازی کا حق حاصل نہیں ہے۔ اصحاب علم کو پارلیمنٹ کی اختیار کردہ کسی تعبیر سے اختلاف تو ہو سکتا ہے اور وہ اس کا اظہار کر سکتے اور رائے عامہ کو اس کے لیے ہموار بھی کر سکتے ہیں، مگر ان کے لیے اس کا کوئی جواز نہیں ہے کہ وہ اپنی رائے کو معیار حق قرار دیں اور اس کے نفاذ پر اصرار کریں اور غیر اخلاقی، غیر قانونی اور غیر جمہوری طریقوں کو اختیار کر کے اس کے نفاذ کی جدوجہد کریں۔ غامدی صاحب نے ان طریقوں کو نہ کبھی صحیح سمجھا ہے اور نہ کبھی اختیار کیا ہے ۔ اس کے برعکس انھوں نے ہمیشہ ان کی مذمت کی ہے اور انھیں ہر لحاظ سے ناروا قرار دیا ہے۔چنانچہ یہ حقیقت ہے کہ غامدی صاحب کے نزدیک اگر پارلیمنٹ ان کی رائے کے بالکل برعکس قانون سازی کرتی ہے اور مثال کے طور پر شہادت کے باب میں جنس اور مذہب کی بنیاد پر تفریق قائم کرتی اور عورت اور غیر مسلم کی گواہی قبول کرنے سے انکار کرتی ہے، زنا کے جرم میں حد کا نفاذ اسی صورت میں جائزٹھہراتی ہے جب چار مسلمان مرد عینی گواہوں کے طور پر پیش ہوں، زنا اور زنا بالجبر کی سزا میں کوئی فرق نہیں کرتی اور ان میں سے ہر جرم کے لیے سنگ ساری ہی کی سزا کو قرآن و سنت کا منشا قرار دیتی ہے تو اس کی اختیار کردہ یہی تعبیرات ریاست کا قانون قرار پائیں گی اور شہریوں پر ان کی تعمیل واجب ہو گی۔ مگر اس کے معنی یہ ہر گز نہیں ہیں اور نہیں ہو سکتے کہ ان قوانین کے نفاذ کے بعد ان سے نظری اختلاف کا حق بھی یک قلم ختم ہو جائے گا۔ نقطۂ نظر کا اظہارہر شخص کا فطری حق ہے ۔ ہر صاحب علم کونہ صرف یہ حق حاصل ہے، بلکہ اس کی دینی اور اخلاقی ذمہ داری بھی ہے کہ اگر وہ کسی قانون کو خلاف دین سمجھتا ہے تو اس سے برملا اختلاف کرے اوررائے عامہ کو اس کے لیے ہموار کرے۔
مولانا نے اس طبقے کے حوالے سے یہ بھی لکھا ہے کہ یہ لوگ اسلام کا نام لے کر مغرب کے موقف اور ایجنڈے کی تقویت کا باعث بن رہے ہیں۔ اگر مولانا کا روے سخن ہماری طرف ہے تو ہمارا احساس یہ ہے کہ مولانا کے ذہن میںیہ تاثر ہمارے کام کی نوعیت کو نہ سمجھنے کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ہمارے خیال میں اسلامائزیشن کے حوالے سے ہمارے اور روایتی مذہبی طبقے کے مابین ایک بنیادی فرق ہے۔ روایتی مذہبی طبقہ ملک میں اسلامائزیشن کے عمل اور اس میں اپنے کردارکو سیاسی زاویے سے دیکھتا ہے۔ چنانچہ اسے اپنی رائے کے اظہاراور لائحۂ عمل کے تعین میں اپنے سماجی تشخص ، اپنی مذہبی شناخت ، روز مرہ سیاست میں اپنے کردار اور اس طرح کے مختلف خارجی عوامل کو ملحوظ رکھنا پڑتا اور اس بنا پربہت سی چیزو ں کے بارے میں رد و قبول اور ترک و اختیار کا فیصلہ کرنا پڑتا ہے۔
ہمارا معاملہ اس سے بالکل مختلف ہے۔ اسلامائزیشن کے عمل کو ہم خالصتاً دین کی شرح و وضاحت اور اس کی دعوت کے زاویے سے دیکھتے ہیں۔ ہمارے نزدیک قومی و ملی مصالح کا لحاظ دعوت دین کے پہلو سے توضروری ہے، مگر اس کے سوا کسی اور پہلو سے انھیں ملحوظ رکھنا خود دین کے لیے ضرر رسانی کا باعث ہو سکتا ہے۔ چنانچہ ہمارا مسئلہ یہ نہیں ہے کہ ہماری رائے حکومت کی حمایت یا مخالفت پر منتج ہوتی ہے، کسی طبقے کی خوشی یا ناراضی کاسبب بنتی ہے، کسی تحریک کو تقویت دینے یا کمزور کرنے کا باعث بنتی ہے۔ ہمارا مسئلہ صرف اور صرف فہم دین اور اس کا ابلاغ ہے۔ علما کی ذمہ داری ہمارے نزدیک یہی ہے کہ وہ دین میں بصیرت پیدا کریں اور اپنی قوم کو ’انذار‘ کریںیعنی اسے حیات اخروی کی تیاریوں کے لیے بیدار کریں۔ہم سمجھتے ہیں کہ یہ وہ لوگ ہیں:
’’جو بدعت و ضلالت کے تہ بہ تہ اندھیروں میں اپنے چراغ کی لو تیز کر کے سر راہ کھڑے ہو جاتے ہیں اور دنیا کی ہر چیز سے بے نیاز ہو کر لوگوں کو حق کی راہ دکھاتے ہیں ۔وہ اس بات کی کوئی پروا نہیں کرتے کہ لوگ کیا چاہتے ہیں اور کن چیزوں کا تقاضا کرتے ہیں ۔ ان کی ساری دل چسپی بس حق ہی سے ہوتی ہے اور وہ اسی کے تقاضے دنیا کو بتانے کے لیے اپنے دل و دماغ کی ساری قوتیں صرف کر دیتے ہیں ۔وہ لوگوں سے کچھ نہیں مانگتے ، بلکہ اپنے پروردگار سے جو کچھ پاتے ہیں ، بڑی فیاضی کے ساتھ ان کی جھولی میں ڈال دیتے ہیں ۔ چنانچہ ہر دور میں وہ ہستی کا ضمیر ، وجود کا خلاصہ اور زمین کا نمک قرار پاتے ہیں اور اس طرح غربت کے اس مقام پر فائز ہو جاتے ہیں جس کے بارے میں پیغمبر کا ارشاد ہے کہ : ’بدأ الاسلام غریباً، ثم یعود غریباً کما بدأ، فطوبی للغرباء الذین یصلحون اذا فسد الناس ‘(اسلام کی ابتدا ہوئی تو وہ اجنبی تھا ۔ وہ پھر اسی طرح اجنبی ہو جائے گا ۔ پس مبارک ہیں وہ اجنبی جو لوگوں کی اصلاح کے لیے اٹھ کھڑے ہوں جب وہ فساد میں مبتلا ہو جائیں )‘‘
(جاوید احمد غامدی، قانون دعوت ۳۴)
ہمیں امید ہے کہ مولانا ہماری ان معروضات پر ضرور غور فرمائیں گے۔ مولانا دین کے عالم اور داعی ہیں ، اگر التفات فرمائیں تو چلتے چلتے چند طالب علمانہ سوال ان کی اوران کے توسط سے دیگر علما کی خدمت میں پیش کرنے کی اجازت چاہیں گے۔
ایک سوال یہ ہے کہ کیا دین کے ایک داعی کی یہ ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ دین و شریعت اور ملک و ملت کے بارے میں جس موقف کو مبنی بر حق سمجھتا ہے ،اسے کسی آمیزش اور کسی خوف وطمع میں مبتلا ہوئے بغیر بلا کم و کاست بیان کرے؟
ہمیں یقین ہے کہ مولانا اس سوال کا مثبت جواب دیں گے۔مولانا کا اپنا طرز عمل بھی یہی ہے۔ہمارے طرز عمل میں اس سے اگر کوئی مختلف چیز پائی جاتی ہے تو امید ہے کہ مولانا اس کی نشان دہی کریں گے۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا دین کی تعبیر و تشریح کے معاملے میں عقل و نقل کی بنا پر اختلاف کی گنجایش ہے؟
ہمیں یقین ہے کہ مولانااس سوال کا جواب بھی اثبات میں دیں گے ، کیونکہ اگر انھوں نے اس کاجواب نفی میں دیا تو پھر اس کے معنی یہ ہوں گے کہ امت کے جلیل القدر علما نے اپنے اسلاف اور معاصرین سے اختلاف کا جو طرز عمل اختیار کیے رکھا، وہ سراسر غلط تھا۔مولانا کے لیے یہ کہنا ظاہر ہے کہ بہت مشکل ہو گا۔البتہ ،ہو سکتا ہے کہ اس کے جواب میں وہ یہ کہیں کہ علما کی منفرد آرا سے تو اختلاف کی گنجایش ہے، مگر ان آرا سے اختلاف کی کوئی گنجایش نہیں ہے جن پر جمہور علما متفق ہیں۔ اگر وہ یہ کہیں گے تو اس پر ہمارا سوال یہ ہو گا کہ اختلاف کا اصول اگر عقل و نقل ہے اور اس اصول کی بنا پر احناف شوافع سے، مالکیہ حنابلہ سے ، دیوبندی بریلوی سے اوراہل حدیث شیعہ سے اختلاف کر سکتے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ اسی اصول کی بنا پر ان سب سے اختلاف نہیں کیا جا سکتا؟
تیسرا سوال یہ ہے کہ کیا دین و اخلاق کی رو سے یہ جائز ہے اور کیا کسی صاحب علم کے شایان شان ہے کہ وہ کسی مصنف پر تنقید کے لیے قلم اٹھائے اور اس کی تحریر کو دیکھنا بھی گوارا نہ کرے،اس کی تنقیدات شواہد پر نہیں، بلکہ تاثرات اور سنی سنائی باتوں پر مبنی ہوں اور وہ دلائل پیش کرنے کے بجائے تبصروں پر اکتفا کرے ؟
اس کے جواب میں ہمیں یقین ہے کہ مولانا یہی کہیں گے کہ یہ رویہ نہ دین و اخلاق کی رو سے جائز ہے اور نہ علما کے شایان شان ہے۔ چنانچہ ہم مولانا جیسے صاحب علم اور سنجیدہ فکر سے یہی توقع رکھتے ہیں اور ایک داعی کی حیثیت سے اسی کو ان کے شایان شان سمجھتے ہیں کہ وہ غامدی صاحب کی تالیفات میں سے ان کے موقف کو نقل کر کے یہ بتائیں گے کہ ان کی آرا میں عقل و نقل کے اعتبار سے کیا غلطی پائی جاتی ہے؟ اس ضمن میں اگر وہ قرآن کی آیت نقل کرتے ہیں، حدیث کا حوالہ دیتے ہیں، لغت کے نظائر رقم کرتے ہیں، عقل و فطرت سے استدلال کرتے ہیں توانھیں سننا اور ان کی روشنی میں اپنی آرا پر نظر ثانی کرنا ہم پر واجب ہے، لیکن اگر وہ گمان اور تاثر ہی کو دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں تو پھرہم سب کے لیے پروردگار کی یہ ہدایت ہے:
’’ایمان والو، بہت سے گمانوں سے بچو، کیونکہ بعض گمان صریح گناہ ہوتے ہیں۔‘‘ (الحجرات۴۹:۱۲ )

 __________

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت اگست 2006
مصنف : سید منظور الحسن
Uploaded on : Nov 04, 2017
3219 View