مختلف کلامی تعبیرات اور ان سے علمی وعقلی استفادہ - عمار خان ناصر

مختلف کلامی تعبیرات اور ان سے علمی وعقلی استفادہ

 ابو عثمان عمرو بن بحر بن محبوب الجاحظ (۱۶۳--۲۵۵ھ) دوسری/تیسری صدی ہجری کا ایک باکمال ادیب اور متکلم ہے۔ اس کا شمار معتزلہ کے ائمہ اور کبار میں ہوتا ہے، تاہم اس کی تحریروں سے واضح ہوتا ہے کہ وہ نہ صرف نصوص کی اتباع اور عقل وقیاس کی رعایت کے مابین توازن کی اہمیت کو تسلیم کرتا ہے، بلکہ مختلف ذہنی وفکری سطحوں کی دینی ضروریات کے لحاظ سے معتزلہ اور متکلمین کے الگ الگ مناہج کی افادیت کا بھی معترف ہے، چنانچہ اس نے لکھا ہے کہ: لولا مکان المتکلمین لھلکت العوام من جمیع الامم ولولا مکان المعتزلة لھلکت العوام من جمیع النحل (کتاب الحیوان، ص ۷۵۲ وص ۷۹۳، طبع دار الکتاب العربی بیروت، ۲۰۰۸) جاحظ کی مراد یہ ہے کہ متکلمین کے ہاں نصوص سے قریب تر رہنے کے جس منہج کو ترجیح دی گئی ہے، اس میں عوام الناس کی ذہنی سطح کی زیادہ رعایت پائی جاتی ہے اور انھیں دین وایمان سے وابستہ رکھنے کے لیے یہی طریقہ مفید اور موثر ہے، لیکن ایک مختلف ذہنی سطح پر دینی حقائق پر غور وفکر سے جو کلامی فرقے وجود میں آئے ہیں، ان کی تشفی متکلمین کے طریقے سے نہیں ہو سکتی اور ان کے لیے معتزلہ کا طریقہ ہی راہ نجات کا درجہ رکھتا ہے۔

کلامی نوعیت کے بیشتر اختلافات اور نزاعات کی اصل حقیقت یہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اہل علم دینی وعلمی مصالح کے تناظر میں بوقت ضرورت ایسی تعبیرات سے بھی استفادہ کرتے رہے ہیں جنھیں عام طو رپر ’اہل السنة‘ کے منہج سے ہٹا ہوا قرار دیا گیا ہے۔ مثال کے طو رپر قرآن مجید کے ’معجز‘ ہونے کا مطلب اہل سنت کے متکلمین کے نزدیک یہ ہے کہ یہ کلام اپنے اندر داخلی طور پر ایسے کمالات واوصاف رکھتا ہے کہ اس کی نظیر پیش کرنا کسی فرد بشر کے بس میں نہیں۔ اس کے برعکس معتزلہ کا مسلک یہ بیان کیا جاتا ہے کہ قرآن کے اعجاز کا تعلق داخلی اوصاف سے نہیں، بلکہ اس بات سے ہے کہ اگر کوئی انسان اس کی مثل کلام بنانے کی کوشش کرتا ہے تو فی نفسہ ممکن ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ اپنی قدرت سے اسے ایسا کرنے سے عاجز کر دیتے ہیں۔ امام رازی نے قرآن کی مختصر سورتوں میں اعجاز کا پہلو واضح کرتے ہوئے اسی تعبیر کی مدد لی ہے۔ ابن کثیرؒ نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے:

’وہذہ الطریقة وان لم تکن مرضیة لان القرآن فی نفسہ معجز لا یستطیع البشر معارضتہ کما قررنا الا انہا تصلح علی سبیل التنزل والمجادلة والمنافحة عن الحق‘ (تفسیر ابن کثیر، البقرہ، آیت ۲۳، ۲۴)۔

یعنی یہ طریقہ اگرچہ پسندیدہ نہیں، کیونکہ قرآن فی نفسہ ایک معجز کلام ہے جس کا معارضہ انسان نہیں کر سکتے۔ تاہم بر سبیل تنزل بحث ومباحثہ اور حق بات کے دفاع کی غرض سے اس استدلال سے کام لیا جا سکتا ہے۔

اسی طرح مولانا اشرف علی تھانویؒ نے اپنے دروس ترمذی میں ایک جگہ فرمایا ہے کہ صفات باری تعالیٰ کے بارے میں سلف کا مسلک امرار علی الظاہر اور عدم تاویل تھا (بلکہ ایک خاص دور میں اسے راہ راست اور گمراہی کے مابین امتیاز کی حیثیت حاصل رہی)، تاہم متاخرین نے تاویل کے طریقے کو عوام کی ذہنی سطح کے زیادہ قریب پاتے ہوئے مصلحت کی خاطر اسی مسلک کو اختیار کر لیا۔

مختلف ذہنی سطحوں اور ہر زمانہ کے خاص ذہنی معیارات کے لحاظ سے دینی حقائق ومسائل میں تعبیرات کا یہ تنوع اور اختلاف ہر دور کی دینی ضرورت رہا ہے اور رہے گا، اس لیے دینی علوم کے طلبہ اور اساتذہ کو ذمہ داری کے ساتھ یہ بات گہرائی میں جا کر سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ ان کے ماحول میں جو مختلف دینی تعبیرات پیش کی جا رہی ہیں، ان میں سے کون سی فی الواقع کفر اور الحاد وزندقہ کے دائرے میں آتی ہیں اور کون سی ایسی ہیں جن کا اصل محرک دینی حقائق کو کسی خاص فکری وذہنی سطح کے لیے مانوس بنانا ہے اور جن سے ایک خاص دائرے میں استفادہ بھی کیا جا سکتا ہے۔

بشکریہ مکالمہ ڈاٹ کام، تحریر/اشاعت 14 دسمبر 2016
مصنف : عمار خان ناصر
Uploaded on : Dec 23, 2016
2167 View