تجارتی مقاصد کے لیے سودی قرض لینے کا حکم - عمار خان ناصر

تجارتی مقاصد کے لیے سودی قرض لینے کا حکم

 (نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد: ’لعن اللہ آکل الربا وموکلہ وکاتبہ وشاہدیہ‘ کے بارے میں جناب جاوید احمد غامدی کی راے یہ ہے کہ یہاں ’موکل‘ کا لفظ سود ادا کرنے والے کے لیے نہیں، بلکہ سودی قرضوں کے فروغ کے لیے ایجنٹ کا کردار ادا کرنے والے کے لیے استعمال ہوا ہے، ا لیے سود پر قرض لینے والا اس وعید کے دائرے میں نہیں آتا۔ اس ضمن میں بعض استفسارات کے حوالے سے درج ذیل توضیحات لکھی گئیں۔)

(۱) اصل یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد: ’لعن اللہ آکل الربا وموکلہ وکاتبہ وشاہدیہ‘ میں ’موکل‘ کے لفظ کا مصداق باعتبار لغت سود دینے والا بھی ہو سکتا ہے اور ذرا توسع کے ساتھ سود کے لیے ایجنٹی کرنے والا بھی۔ جب لفظ میں گنجائش ہو تو پھر یہ دیکھا جاتا ہے کہ جس وقت کلام کیا گیا، اس وقت خارج میں اس کا ممکنہ مصداق کیا ہو سکتا تھا۔ کوئی منقول دلیل بظاہر ایسی سامنے نہیں جس سے یہ واضح ہو کہ عرب میں سودی کاروبار کی توسیع کے لیے باقاعدہ ایجنٹ کا کام کرنے والے افراد بھی ہوتے تھے یا نہیں۔ اکا دکا افراد کی موجودگی زبان کے عام اصول کی رو سے اس کا سبب نہیں بن سکتی کہ شارع اپنے فرمان میں باقاعدہ انھیں موضوع بنائے۔ ایسا اسی صورت میں موزوں لگتا ہے جب ایجنٹی کا باقاعدہ ایک شعبہ موجود ہو۔ تاہم نقلی دلیل سے ہٹ کر عام قیاس سے کام لیا جائے تو یہ بات بعید نہیں لگتی کہ جس معاشرے میں سودی کاروبار اپنے عروج پر ہو، اس میں سودی ایجنٹی کا شعبہ بھی موجود ہو۔ اب اگر عہد رسالت کے عرب معاشرے میں ایجنٹی کا شعبہ نہ ہو تو پھر ’موکل‘ کا مصداق صرف سود دینے والا ہو سکتا ہے، جبکہ دوسری صورت میں دو ممکنہ مصداق ہوں گے اور تعیین کے لیے اضافی قرائن کی ضرورت پڑے گی۔ گویا جب تک تاریخی طور پر عرب میں ایجنٹی کے شعبے کے موجود ہونے یا نہ ہونے کے یقینی شواہد سامنے نہ آ جائیں، یہ طے کرنا بھی مشکل ہے کہ خارج میں ’موکل‘ کے ممکنہ مصداقات کون کون سے تھے۔ اس صورت حال میں ہمارے پاس ’موکل‘کے مصداق کی تعیین کے لیے قیاسی واستنباطی دلائل سے کام لیے بغیر چارہ نہیں۔ ایک قیاس یہ ہے کہ چونکہ سود دینے والا طیب خاطر سے نہیں بلکہ مجبوری کی وجہ سے سود دیتا ہے، اس لیے اسے اخلاقی طور پر اس جرم میں حصے دار قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس قیاس میں قرض خواہ کو تعاون علی الاثم سے بری قرار دینے کے لیے بنیادی نکتہ ’مجبوری‘ ہے۔ یہ بات درست ہے، لیکن ہر مجبوری یکساں نوعیت کی نہیں ہوتی۔ اضطرار کی وہ حالت جس میں انسان جسم وجان کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے سود دینے پر مجبور ہو جائے، بالکل اور چیز ہے اور اپنے کاروبار کو وسعت دینے اور دولت میں اضافہ کرنے کے لیے سود پر قرض لینے کی ’مجبوری‘ بالکل اور بات ہے۔ دوسری صورت میں کہنے کو یہ کہا جا سکتا ہے کہ قرض لینے والا سود دینے پر ’مجبور‘ ہے، کیونکہ اگر اسے سود کے بغیر کہیں سے قرض مل رہا ہوتا تو وہ وہیں سے لیتا، لیکن دونوں صورتوں میں لفظ ’مجبوری‘ کا مشترک ہونا کیا شارع کی نظر میں بھی دونوں معاملوں کو یکساں بنا دیتا ہے؟ ظاہر ہے کہ نہیں۔ کوئی نادار عورت اگر شدید اضطرار کی حالت میں یا کوئی لونڈی اپنے مالک کے جبر کے تحت جسم فروشی پر مجبور ہو جائے تو ان کی مجبوری کی وجہ سے شرعاً ان پر حد جاری نہیں کی جائے گی، لیکن اگر کسی عورت کی کسی وجہ سے شادی نہ ہو رہی ہو اور کوئی اسے رشتہ نکاح میں قبول کرنے کے لیے تیار نہ ہو اور وہ ’مجبوراً‘ قضاے شہوت کا کوئی دوسرا طریقہ اختیار کر لے تو اس ’مجبوری‘ کا درجہ شارع کی نظر میں یقینا وہ نہیں ہے جو پہلی صورت میں ہے۔ قرآن میں قرض خواہ کو مظلوم قرار دیے جانے کا جو نکتہ پیش کیا گیا ہے، وہ اتنا سادہ نہیں۔ قرض خواہ سے راس المال سے زیادہ رقم وصول کیا جانا یقینا ظلم ہے، لیکن اس سے یہ کسی طرح لازم نہیں آتا کہ اس معاملے میں اس پر سرے سے کوئی اخلاقی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی۔ قرآن نے اس معاملے پر ’ظلم‘ کا اطلاق معاملے کے ایک متعین جزوی پہلو کے لحاظ سے کیا ہے، نہ کہ جملہ پہلووں سے اور اس کا ’ظلم‘ ہونا بھی درحقیقت مشتبہات میں سے ہے جسے قرآن نے ہی واضح کیا ہے، ورنہ سود کے قدیم وجدید حامی اسے ظلم نہیں سمجھتے۔ تجارتی مقاصد کے لیے سود لینے والے حضرات کسی اضطراری کیفیت کے بغیر تبادلہ منفعت کے تصور کے تحت سودی قرض لیتے اور اس پر بخوشی سود ادا کرتے ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ اس زائد ادائیگی کا بار نتیجے کے لحاظ سے ان کی جیب پر نہیں پڑتا بلکہ آگے صارف کو منتقل ہو جاتا ہے۔ اس تناظر میں اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا موقع ومحل اور اس کا stress ملحوظ رکھا جائے تو یہ بات سمجھنے میں کوئی دقت نہیں ہونی چاہیے کہ آپ بحیثیت مجموعی معاشرے میں سودی کاروبار کی موجودگی کی شناعت بیان کر رہے ہیں اور ان تمام کرداروں کو لعنت کا مستحق بتا رہے ہیں جو کسی بھی پہلو سے اسے وجود میں لانے اور قائم رکھنے کا ذریعہ بن رہے ہوں۔ حکم کا stress یہ ہے کہ سود لکھنے اور اس پر گواہی دینے والے افراد بھی، جو سرے سے منفعت میںحصہ دار ہی نہیں، محض اس وجہ سے لعنت کے حق دار ہیں کہ وہ خدا کے نزدیک ایک مبغوض اور ناپسندیدہ کاروباری معاملے کو وجود میں لانے میں حصہ دار بنے۔ اگر کاتب اور گواہوں کا معاملہ یہ ہے تو جو شخص کسی اضطرار کے بغیر صرف اس لیے سود پر قرض لے رہا ہے کہ اس کے ذریعے سے اپنے مال میں اضافہ کرے اور زائد ادائیگی کی صورت میں اسے جو ’ظلم‘ سہنا پڑ رہا ہے، اسے آگے صارف کو منتقل کر دے، ایسے شخص کو ہر قسم کی اخلاقی ذمہ داری سے بری قرار دیتے ہوئے خالص ’مظلوم‘ اور ’مجبور‘ کا درجہ دے دینا عقل وقیاس کی رو سے کسی طرح قابل فہم نہیں۔ درست بات یہی دکھائی دیتی ہے کہ اگر سود دینے والا کسی ناگزیر ضرورت اور اضطرار کے تحت نہیں بلکہ اپنے کاروبار کو وسعت دینے کے لیے سود پر رقم لے رہا ہے تو پھر وہ یقینا تعاون علی الاثم کا مرتکب ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشا د کو بھی اگر اسی تناظر میں لیا جائے کہ وہ اضطراری سودی قرضے سے متعلق نہیں ہے بلکہ غیر اضطراری تجارتی سودی قرض کی شناعت کو بیان کرتا ہے تو یہ بات عقل ونقل کی رو سے بالکل برمحل اور قرین قیاس بن جاتی ہے اور اس پر وارد ہونے والا ظاہری اشکال بھی رفع ہو جاتا ہے۔ ہذا ما عندی والعلم عند اللہ

(۲) (مذکورہ تحریر کے حوالے سے چند مزید سوالات واشکالات کا جواب)

۱۔ میرے علم کی حد تک دوسری بہت سی احادیث کی طرح زیر بحث حدیث کے بارے میں بھی یہ طے کرنا مشکل ہے کہ وہ کسی خاص واقعے کے تناظر میں ارشاد فرمائی گئی یا ایک عمومی تبصرے کے طور پر۔ روایت میں اس کا پس منظر بیان نہیں ہوا۔ ایسی صورت میں فقہا کے ہاں عام طور پر روایت کی تفہیم کسی مخصوص واقعے کے تناظر میں کرنے کا رجحان اس وقت پیدا ہوتا ہے جب اسے ایک عمومی حکم کے طور پر لینے میں کوئی علمی وعقلی اشکال پیدا ہو رہا ہو۔ میرے خیال میں یہ ارشاد ایک عمومی تبصرے کے طور پر بھی قابل فہم اور قابل توجیہ ہے، اس لیے اسے کسی مخصوص شان ورود سے متعلق کرنے کی ضرورت نہیں۔

۲۔ جہاں تک میں غور کر سکا ہوں، قرآن نے ’ظلم‘ کا لفظ محض راس المال سے زائد رقم ادا کرنے کے لیے استعمال کیا ہے اور، جیساکہ آپ نے فرمایا، سیاق وسباق سے یہ تحدید بالکل واضح ہے۔ سود پر قرض لینے والے کی پوزیشن کے بارے میں قرآن بالکل خاموش ہے۔ اس نے ہر جگہ سود لینے ہی کی اخلاقی قباحت کو موضوع بنایا ہے کیونکہ بنیادی طور پر قباحت لینے ہی میں ہے۔ دینے والے کی پوزیشن کی تعیین ایک ذیلی فرع ہے اور اس میں بھی قرض خواہ کے حالات کا بڑا دخل ہے، اس لیے قرآن کے لیے اپنے عام اسلوب اور مزاج کے لحاظ سے اس طرح کی فروعی تفصیلات سے تعرض نہ کرنا ہی موزوں تھا۔

۳۔ اضطراری حالت میں سود پر قرض لینے اور روز مرہ استعمال کے لیے زیادہ قیمت پر اشیا خریدنے میں مجبوری کی نوعیت ایک جیسی ہے۔ دونوں کو اپنی کوئی ایسی ضرورت پوری کرنی ہے جس سے مفر نہیں اور اس کے لیے انھیں سود ادا کیے بغیر قرض اور زیادہ قیمت ادا کیے بغیر مطلوبہ چیز نہیں مل رہی۔ ظاہر ہے کہ اگر مل رہی ہو تو نہ کوئی سود پر قرض لے گا اور نہ مہنگے داموں اشیا خریدے گا۔ چنانچہ ان دونوں صورتوں کو تعاون علی الاثم نہیں کہا جا سکتا۔ جو چیز تجارتی مقاصد کے لیے سودی قرض لینے کو الگ کرتی ہے، وہ درحقیقت اس کا تجارتی ہونا نہیں بلکہ قابل لحاظ شرعی مجبوری کا مفقود ہونا ہے، کیونکہ مفروضہ یہ ہے کہ وہ اس قرض کو کسی ناگزیر ضرورت کے لیے نہیں بلکہ اپنی دولت میں اضافے کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہے۔ اس صورت میں وہ لازماً تعاون علی الاثم کا مرتکب ہے۔ فرض کریں کسی شخص کو اپنے ناگزیر اخراجات کا سلسلہ چلانے کے لیے کوئی چھوٹا موٹا کاروبار کرنا ہے اور اس کے لیے بھی اسے غیر سودی قرض نہیں ملتا تو حکم کی علت کی رو سے وہ حدیث میں مذکورہ وعید کے دائرے سے خارج ہوگا۔ یہ بھی سامنے رہنا چاہیے کہ حدیث میں ایک اصولی حکم بیان کیا گیا ہے۔ کسی مخصوص صورت کے بارے میں یہ طے کرنا کہ اس میں مجبوری کی نوعیت کیا ہے اور تعاون علی الاثم کس پہلو سے اور کس درجے کا پایا جاتا ہے، سراسر دائرہ اجتہاد سے متعلق ہے۔

بشکریہ مکالمہ ڈاٹ کام، تحریر/اشاعت 13 نومبر 2016
مصنف : عمار خان ناصر
Uploaded on : Dec 01, 2016
2834 View