ایصال ثواب - جاوید احمد غامدی

ایصال ثواب

 اللہ تعالیٰ نے یہ بات قرآن مجید میں بطور اصول واضح کر دی ہے کہ ہر شخص اپنے فعل کا خود ذمہ دار ہے۔ کسی شخص کے فعل کی ذمہ داری دوسرے پر نہیں ڈالی جا سکتی اور نہ کوئی شخص کسی دوسرے شخص کے فعل کی ذمہ داری اپنے اوپر لے سکتا ہے۔ اِسی طرح یہ بات بھی واضح کر دی ہے کہ قیامت میں جس شخص کو جو کچھ بھی ملے گا، اُس کے عمل کے صلے میں ملے گا۔ ایک شخص کے عمل کا صلہ دوسرا نہیں پا سکتا۔ سعی و عمل کے بغیر وہاں کسی کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔ ارشاد فرمایا ہے:

اَلَّا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰی، وَاَنْ لَّیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰی، وَاَنَّ سَعْیَہٗ سَوْفَ یُرٰی،ثُمَّ یُجْزٰہُ الْجَزَآءَ الْاَوْفٰی.(النجم۵۳:۳۸۔۴۱)’’یہ کہ کوئی جان کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گی اور یہ کہ انسان کو (آخرت میں)وہی ملے گا جو اُس نے (دنیا میں) کمایا ہے اور جو کچھ اُس نے کمایا ہے، وہ عنقریب دیکھا جائے گا، پھر اُس کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔‘‘

اِس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ انسان کے عمل کی صورت نہیں ہے جو خدا کے ہاں پہنچتی اور اُسے اجر کا مستحق بناتی ہے، بلکہ دل کا تقویٰ ہے جو باعث اجر ہوتا ہے۔ یہ تقویٰ، ظاہر ہے کہ کوئی قابل انتقال چیز نہیں ہے۔ اِس کی جگہ انسان کا دل ہے۔ اِسے وہاں سے اٹھا کر کسی دوسری جگہ منتقل نہیں کیا جا سکتا کہ کوئی دوسرا شخص بھی اِس کے ثمرات میں سے کچھ حصہ پا سکے۔ قربانی ایک عظیم عبادت ہے۔ اُس میں ہم اپنا اور اپنے جانور کا منہ قبلہ کی طرف کرکے اُس کو اِس احساس کے ساتھ اپنے پروردگار کی نذر کر دیتے ہیں کہ یہ درحقیقت ہم اپنے آپ کو اُس کی نذر کر رہے ہیں۔ اُس کے بارے میں فرمایا ہے:

لَنْ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوْمُھَا وَلَا دِمَآؤُھَا، وَلٰکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ.(الحج۲۲:۳۷)’’اللہ کو (تمھاری) اِن (قربانیوں) کا گوشت اور خون نہیں پہنچتا، بلکہ اُس کو صرف تمھارا تقویٰ پہنچتا ہے۔‘‘

قرآن کے یہ دونوں مقامات پیش نظر ہوں تو دوسروں کی نیکی یا بدی سے آدمی کو خدا کے ہاں کسی فائدے یا نقصان کے پہنچنے کی ایک ہی شکل باقی رہ جاتی ہے اور وہ یہ کہ اُس کی نیت، ارادے اور سعی و جہد کو بالواسطہ یا بلا واسطہ اُس نیکی یا بدی میں دخل ہو۔ اِس کی کئی صورتیں ہو سکتی ہیں، مثلاً یہ کہ اُس نے کسی کو خیر و صلاح کی تعلیم دی ہو یا اپنے عملی نمونے سے نیکی کے کسی کام کی مثال قائم کی ہو یا اُس کے لیے اسباب و وسائل فراہم کرنے میں اُس کا کوئی حصہ رہا ہو۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اِسی بنا پر فرمایا ہے:

اذا مات الانسان انقطع عنہ عملہ الا من ثلاثۃ: الا من صدقۃ جاریۃ، او علم ینتفع بہ، اوولد صالح یدعولہ.(مسلم، رقم ۴۲۳۲)’’انسان مر جاتا ہے تو اُس کا عمل بھی اُس کے ساتھ ہی منقطع ہو جاتا ہے۔تین چیزیں، البتہ مستثنیٰ ہیں: ایک صدقہ جاریہ، دوسرے علم جس سے فائدہ اٹھایا جائے، تیسرے صالح اولاد جو والدین کے لیے دعا کرتی رہے۔‘‘

اِن میں اولاد کے ذکر پر کسی کو تعجب نہ ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ سراسر والدین کی سعی ہے، اِس لیے کہ والدین اگر سچے مومن ہیں تو نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ اور دوسرے تمام اعمال خیر کی تعلیم سب سے پہلے وہی اولاد کو دیتے ہیں۔ چنانچہ وہ اگر نیکی کے کسی کام سے معذور ہو جائیں تو اِس میں کوئی حرج نہیں کہ اُن کے کسی ارادۂ خیر کو اولاد پایۂ تکمیل تک پہنچا دے، بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات سے معلوم ہوتا ہے کہ اُسے پہنچانا چاہیے، اِس لیے کہ یہی سعادت مندی کا تقاضا ہے۔ نیت اور ارادے کے ساتھ اِس سے اُنھیں تعمیل کا اجر بھی مل جائے گا۔ روایتوں میں بیان ہوا ہے کہ قبیلۂ خثعم کی ایک عورت نے پوچھا: یا رسول اللہ، میرے باپ پر حج فرض ہے، مگر وہ اتنا بوڑھا ہے کہ سواری پر ٹھیر بھی نہیں سکتا، کیا میں اُس کی طرف سے حج کر سکتی ہوں؟ آپ نے فرمایا: کر سکتی ہو*۔ اِسی طرح جہینہ کی ایک عورت نے حضور سے پوچھا: میری ماں نے حج کی نذر مانی تھی، اب وہ دنیا سے رخصت ہو گئی ہے، کیا میں اُس کی طرف سے حج کر سکتی ہوں؟ آپ نے فرمایا: ضرور کرو، کیا اُس پر قرض ہوتا تو تم ادا کرتیں؟ یہ اللہ کا قرض ہے، اِسے بھی ادا کرو، اِس لیے کہ اللہ اِس کا زیادہ حق دار ہے کہ اُس کا قرض ادا کیا جائے۔*
انسان کی زندگی میں یہی حیثیت والدین کے علاوہ کسی دوسرے شخص، مثلاً کسی استاذ یا کسی بزرگ کی بھی ہو سکتی ہے۔ اُس کا حکم بھی ، ظاہر ہے کہ یہی ہونا چاہیے۔ اِس مضمون کی تمام روایتیں اِسی ضابطے پر محمول ہیں۔ اِس کے بغیر اگر کسی کے لیے کوئی عمل کیا جاتا ہے تو اُس کا اجر پھر اُسی کے لیے ہے جس نے وہ عمل کیا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بیان کیا گیا ہے کہ ایک عورت نے اپنا بچہ آپ کی طرف اٹھایا اور پوچھا: کیا یہ بھی حج کر سکتا ہے؟ آپ نے فرمایا: ہاں، لیکن اِس کا اجر تمھارے لیے ہے**۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اِس ارشاد کی بنیاد پر زیادہ سے زیادہ جو بات کہی جا سکتی ہے ، وہ یہ ہے کہ جس کے لیے نیکی کی گئی ہے، اُس کو اجر ملنے کا امکان نہ بھی ہوتو نیکی کے کام میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اُس کا اجر نیکی کرنے والے کو ہر حال میں مل جائے گا۔ تاہم اِس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ اُن تقریبات کے لیے بھی اِس سے کوئی جواز پیدا کیا جا سکتا ہے جو ایصال ثواب کے نام پر اِس وقت مسلمانوں میں رائج ہو چکی ہیں۔ اِس طرح کی تقریبات یقیناًبدعت ہیں۔ قرآن و حدیث میں اِن کے لیے کوئی بنیاد تلاش نہیں کی جا سکتی۔
اِس معاملے میں یہ بات، البتہ ملحوظ رہنی چاہیے کہ ’لَیْسَ لِلْاِنْسَانَ اِلَّا مَاسَعٰی‘ میں نفی کا اسلوب نفی استحقاق کے لیے ہے اور یہ ضابطہ اُسی موقع سے متعلق ہے، جب لوگوں کے لیے جنت اور جہنم کا فیصلہ کیا جائے گا۔ اپنے ایمان و عمل سے جنت کا استحقاق پیدا کر لینے کے بعد اللہ تعالیٰ کے افضال و عنایات سے اِس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ چنانچہ قرآن میں صراحت ہے کہ اولاد اگر اپنے ایمان کی بنیاد پر کسی ادنیٰ سے ادنیٰ درجے میں بھی جنت کی مستحق ہو جائے گی تو اللہ تعالیٰ اُس کے والدین پر اتمام نعمت کے لیے اُسے وہی درجہ عطا فرما دیں گے جو اُس کے والدین کا ہے اور دونوں کو ایک ہی جگہ اکٹھا کر دیں گے۔ ارشاد فرمایا ہے:

وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَاتَّبَعَتْھُمْ ذُرِّیَّتُھُمْ بِاِیْمَانٍ اَلْحَقْنَا بِھِمْ ذُرِّیَّتَھُمْ وَمَآ اَلَتْنٰھُمْ مِّنْ عَمَلِھِمْ مِّنْ شَیْءٍ.(الطور۵۲:۲۱)’’جو لوگ ایمان لائے ہیں اور اُن کی اولاد بھی کسی درجۂ ایمان میں اُن کے نقش قدم پر چلی ہے، اُن کی اِس اولاد کو بھی ہم (اُنھی کے درجے میں) اُن کے ساتھ ملا دیں گے اور اُن کے عمل میں کوئی کمی نہ کریں گے۔‘‘

اِس سے یہ بات نکلتی ہے کہ یہی معاملہ اُس صورت میں بھی ہونا چاہیے، جب والدین کسی نیچے کے درجے میں ہوں گے، اِس لیے کہ والدین اور اولاد کا جو تعلق خاطر اولاد کو والدین کے درجے تک اٹھانے کا باعث بن رہا ہے، وہی تعلق خاطر اِس دوسری صورت میں بھی موجود ہے۔

_______________ 

* بخاری، رقم ۱۸۵۵۔ مسلم، رقم ۳۲۵۱۔
* بخاری، رقم ۱۸۵۲۔
** مسلم، رقم ۳۲۵۳۔

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت دسمبر 2011
مصنف : جاوید احمد غامدی