اسلام ، اسلام ازم اور مغرب - ابو یحییٰ

اسلام ، اسلام ازم اور مغرب

[یہ ابو یحییٰ صاحب کی اس تقریر کا متن ہے جس کا انگریزی ترجمہ یونیورسٹی آف ویسٹرن آسٹریلیا، پرتھ میں منعقد ہونے والی ایک کانفرنس میں پڑھا گیا، ادارہ]

انسان اس دھرتی پر کتنے عرصے سے آباد ہے، یہ بات کچھ قطعیت کے ساتھ تو نہیں بتائی جا سکتی، لیکن معلوم انسانی تاریخ کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ اس کرہ ارض پر انسانوں کی تاریخ باہمی تصادم اور خونریزی سے عبارت ہے۔ پوری انسانی تاریخ کا احاطہ کرنا تو اس مختصر گفتگومیں ممکن نہیں لیکن ہم جانتے ہیں کہ ہابیل و قابیل سے شروع ہونے والے تنازعات نے پہلے قبائلی جھگڑوں اور پھر بادشاہوں اور خاندانوں کی حکومت کی شکل میں قوموں کے درمیان مستقل جنگ وجدل کی شکل اختیار کر لی۔ اگر ہم جدید تاریخ کی بات کر لیں تو چھوٹے بڑے تنازعات کی ایک طویل فہرست ہمارے سامنے آتی ہے ۔

دورِ جدید کی تاریخ کے دو مراحل گزر چکے ہیں۔ دورِ جدید کی تاریخ کا پہلا مرحلہ وہ تھا جب اقوامِ عالم قومی ریاستوں کی بنیاد پر تقسیم تھیں۔ اس دور میں مغرب کی اقوام علم و فن اور ٹیکنالوجی سے مسلح ہوکر اپنے ممالک سے نکلیں اور پوری دنیا پر اپنا اقتدار قائم کر لیا۔ بعد میں جنگ عظیم اول اور دوم کے نتیجے میں سامراجی ممالک کی قوت ختم ہوگئی۔ نوآبادیاتی ریاستیں ایک ایک کر کے آزاد ہوگئیں ۔ تاہم اس کے بعد اقوام عالم ایک نئی کشمکش کا شکار ہوگئیں۔ یہ کشمکش نظریاتی بنیادوں پر تھی جس میں جدید دنیا کے اہم اور طاقتور ترین ممالک، کمیونزم اور سرمایہ دارانہ نظام کی بنیاد پر، امریکہ اور سوویت یونین کے زیر سایہ، دو حصوں میں تقسیم ہوگئے۔ یوں بیسویں صدی کا نصفِ آخر دو عظیم سپر پاورز کی باہمی چپقلش سے عبارت رہا۔ یہ وہ دور تھا جب بظاہر غیر جانبدار کہلائے جانے والے ممالک بھی کسی نہ کسی اعتبار سے دو سپر پاورز سے متعلق تھے۔ ان ممالک کی یہ کشمکش صرف نظریاتی بنیادوں تک محدود نہ تھی بلکہ اس عرصے میں دنیا ایٹمی جنگ کی شکل میں اپنی مکمل فنا کے خطرے سے دوچار رہی۔ اس کے علاوہ سپر پاورز کی پراکسی وار اور دیگر ممالک کی باہمی جنگ وجدل میں انسانی خون مسلسل بہتا رہا۔ دورِ جدید کی تاریخ کا یہ دورسو ویت یونین کے خاتمے کے ساتھ تمام ہوا۔

کمیونزم کے زوال کے نتیجے میں سوویت یونین ختم ہوا تھا، دنیا نہیں۔ چنانچہ سرد جنگ کے فاتح اہل مغرب کے ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہونا شروع ہوا کہ اب دنیا کے معاملات کس اصول پر چلیں گے؟ اقوام عالم کی نئی صف بندی کن اساسات پر ہو گی؟ نیا عالمی نظام کن بنیادوں پر استوار ہو گا؟ ان سوالات کے نتیجے میں بہت سے جوابات سامنے آئے مگر جس نقطۂ نظر نے دنیا بھر کے اہل علم و دانش کی توجہ حاصل کی وہ سیموئل پی ہنٹنگٹن کے شہرۂ آفاق مضمون ’’تہذیبوں کا تصادم‘‘ میں پیش کیا گیا۔ یہ مضمون 1993 میں ’فارن افیئرز‘ نامی جریدے میں شایع ہوا۔ بعد میں مصنف نے اسی عنوان سے ایک کتاب میں اپنے نقطۂ نظر کو تفصیلی دلائل کے ساتھ موید کر کے پیش کیا۔

اس کتاب کی ا شاعت پر قریباً ربع صدی کا عرصہ گزرچکا ہے اوراس دوران میں پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ بین اقوامی سیاست میں اس وقت جو کچھ ہورہا ہے اس کی سب سے بہتر تفہیم بلاشبہ اسی خاکے کی بنیاد پر کی جا سکتی ہے جو ’’تہذیبوں کا تصادم‘‘ میں پیش کیا گیا تھا۔ یہ کتاب اپنے صفحات کے اعتبار سے تو بے حد ضخیم ہے مگر مرکزی خیال کے اعتبار سے بہت مختصر۔ یعنی سرد جنگ کے بعد کی دنیا ثقافتی بنیادوں پر تقسیم ہو گی اور یہی تقسیم مستقبل کی جنگ و امن کے سلسلے میں فیصلہ کن ہو گی۔

یہ کتاب ایک خاص نقطۂ نظر کی تنقید میں لکھی گئی تھی جو سرد جنگ کے خاتمے اور کمیونزم کے خلاف مغرب کی کامیابی کے بعد مغربی حلقوں میں بڑا مقبول ہوا تھا۔ یعنی آزاد، جمہوری اور سرمایادارنہ مغربی معاشرہ انسانی فکری ارتقا کی آخری حد ہے۔ جس کے بعد دنیا پر واضح ہو چکا ہے کہ یہی اقدار مبنی برحق ہیں۔ دنیا انہیں قبول کر رہی ہے۔ اسے ایسا ہی کرنا چاہیے۔ اس عمل کے نتیجے میں ایک عالمی آفاقی تہذیب وجود میں آجائے گی جس کا امام مغرب ہو گا۔ اس نقطۂ نظر کی نمائندہ کتاب 1989؁ء میں شایع ہونے والی فرانسس فوکویاما کی کتاب “The End of History” تھی۔

مصنف نے اس نقطۂ نظر کو رد کرتے ہوئے اہل مغرب پر یہ بات واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ سرد جنگ کے بعد بین الاقوامی تصادم ختم نہیں ہوا بلکہ اس کی اساسات بدل گئی ہیں۔ پہلے یہ تصادم قومی اور نظریاتی بنیادوں پر ہوتا تھا اور اب تہذیبی بنیادوں پر ہو گا۔ مصنف واضح طور پر یہ بتاتے ہیں کہ مغرب کا ٹکراؤ ممکنہ طور پر چین اور مسلم دنیا سے ہو گا۔

آج ہم دورِجدید کے تیسرے دور میں سانس لے رہے ہیں۔ بہت سے حلقے ہنٹنگٹن کی اس رائے سے نہ اس وقت متفق تھے اور نہ آج ہیں۔ مگر دنیا کو دیکھنے کا ایک تناظر یہ ہے کہ کیا ہونا چاہیے اور دوسرا یہ کہ درحقیقت کیا ہورہا ہے۔ پہلے زاویے سے دیکھاجائے تو ہم میں سے کوئی بھی ہنٹنگٹن سے اتفاق نہیں کرنا چاہے گا۔ دوسرے زاویے سے جب ہم پوسٹ نائن الیون دنیا کا جائزہ لیتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ اس سے اختلاف کرنا آسان نہیں ہے۔ القاعدہ کا 23 فروری 1998 کا افغانستان سے جاری کیا ہوا وہ فتویٰ ہو جس میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف اعلان جہاد کرتے ہوئے فوجی اور سویلین کا قتل جائز قرار دیا گیا یا پھر نائن الیون کا واقعہ ہو، امریکہ کا افغانستان اور پھر عراق پر حملہ ہو یا دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کا معاملہ ہو، یا القاعدہ، طالبان اور اب داعش کی مغربی طاقتوں سے مسلسل جنگ ہو، سب اس بات پر شاہد ہیں کہ مسلم تہذیب اور مغربی تہذیب کلی نہ سہی مگر جزوی طور پر حالت جنگ میں ہیں۔ اس جزوی جنگ کے نتیجے میں لوگوں میں دوریاں پیدا ہونا شروع ہوگئی ہیں۔ ایک طرف مسلم ممالک کے عوام میں مغربی ممالک کے خلاف نفرت بڑھ رہی ہے اور دوسری طرف بعض مغربی ممالک میں برقنی اور اسکارف پر پابندی، اسلامو فوبیا کے فروغ، مسلمان مخالف سیاستدانوں کی مقبولیت اور مسلم ممالک کے لوگوں کو معقول وجوہات کے باوجود مغربی ممالک کے ویزہ نہ ملنے کا عمل اس بات کا اظہار ہے کہ دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی۔

یہ صورتحال بتاتی ہے کہ یہ جزوی تصادم اسلام اور مغرب کے مکمل تصادم میں بدل سکتا ہے، اگر ہم نے صورتحال کو بہتر بنانے میں اپنا کردار ادا نہیں کیا۔ یہ طالب علم ایک مسلمان اوراسلام کے ایک نمائندے کی حیثیت سے یہ چاہتا ہے کہ وہ اسلام کا نقطہ نظر سامنے رکھے۔ اوریہ واضح کرنے کی کوشش کرے کہ اسلام کی اصل تعلیم عالمی تصادم کو ختم کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ یہ فرد، معاشرے اور تمام انسانیت کے لیے خیر و فلاح کا پیغام ہے۔

اس طالب علم کے نزدیک یہ اسلام اور مغرب کی جنگ نہیں بلکہ اسلام کے نام پر بیسویں صدی میں متعارف کرائی جانے والی دین کی ایک سیاسی تعبیر یعنی سیاسی اسلام یعنی اسلام ازم اور مغرب کے بعض سیاسی گروہوں کی جنگ ہے جن کے مفادات جنگ اور تصادم سے وابستہ ہیں۔ اسلام ازم کی فکر کو بیسویں صدی کے ربع اول میں قبل از تقسیم ہندوستان میں مولانا مودودی اور مصر میں حسن البنا نے متعارف کرایا تھا۔ بعد میں مصر کے سید قطب نے اس فکر کو اپنے قلم سے مزید طاقت بخشی تھی۔

اس فکر کا بنیادی خیال یہ تھا کہ اسلام کل دنیا میں اپنا غلبہ قائم کرنے کے لیے آیا ہے۔ اس لیے مسلمانوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ پہلے اپنے معاشروں میں اور پھر پوری دنیا میں اسلام کو سیاسی طور پر غالب کر دیں۔ اس فکر کے پیش کرنے والوں کے نزدیک مسلم ممالک میں جو اشرافیہ حکمران ہے وہ سیکولر ازم کی علمبردار، مغربی تہذیب سے متاثراور انھی کے مفادات کی نگہبان ہے۔ چنانچہ ان کو اقتدار سے ہٹا کر اقتدار پر قبضہ کرنا کرنے کا بنیادی کام ہے۔ ابتدا ہی میں اس فکر کے حاملین کا ٹکراؤ اپنے ملک کی قیادت سے ہو گیا۔ خاص کر مصر اور دنیائے عرب اس تصادم کا بڑا میدان تھی۔ پاکستان میں خوش قسمتی سے مولانا مودودی نے جمہوری راستہ اختیار کر لیا تھا اس لیے وہاں یہ ٹکراؤ فکری اور سیاسی میدان تک ہی رہا۔ پاکستا ن میں اسلام کو ریاستی سطح پر نافذ کرنے کے لیے دستوری جدوجہد کے ذریعے بہت سی تبدیلیاں اور ترامیم کی گئیں۔ یوں پاکستان میں دہشت گردی کی موجودہ لہر سے قبل یہ ایک دستوری جدوجہد ہی رہی۔

1979 میں جس وقت سوویت یونین نے افغانستان پر قبضہ کیا تو امریکہ کی سربراہی میں مغربی ممالک اور اسلامی ممالک کے اتحاد نے اپنی پراکسی جنگ لڑنے کے لیے اسلامسٹ فکرکو نہ صرف فروغ دیا بلکہ عملی طور پر انھیں ہر ممکن سہولت ، جنگی تربیت، اسلحہ اور مالی معاونت فراہم کی۔ مغرب کی سیاسی قیادت نجانے اس بات سے کیوں انجان بن گئی کہ وہ افغانستان کرائے کے سپاہی نہیں بھیج رہے بلکہ اسلام ازم کی فکر کو ایک نرسری فراہم کر رہے ہیں جس کا آخری ہدف پوری دنیا پر اسلام کا سیاسی غلبہ قائم کرنا ہے۔ جن کے نزدیک مغربی سیکولر نظام ہو یا مسلم آمرانہ اور جمہوری حکومتیں سب ہی حکومت سے معزول کیے جانے کے قابل ہیں۔ چنانچہ یہ کچھ افراد کو طاقت دینے کا عمل نہیں تھا بلکہ ایک عالمی سیاسی غلبہ کی دعویدار فکر کو طاقتور بنانے کے ہم معنی تھا۔افغانستان کی فکر ختم ہوگئی مگر یہ نظریہ زندہ تھا۔ چنانچہ یہی وہ نظریہ ہے جو ایک کے بعد دوسری تنظیم اورایک کے بعد دوسرے لیڈر کی شکل میں آج بھی ظاہر ہو رہا ہے۔

اسلام ازم کی اس فکر پر عالم اسلام میں بہت طاقتور علمی اور فکری تنقیدیں ہو چکی ہیں۔ مگر زمینی حالات کی بنا پر ان تنقیدوں کو اپنی تمام تر صحت کے باوجود مسلمانوں کی فکری قیادت میں زیادہ قبولیت نہیں ملی۔ اس کا سبب پچھلی دو صدیوں میں مسلم ممالک پر مغربی ممالک کی تاریخ ہے۔ جبکہ اس صورتحال کو پیچیدہ بنانے میں کشمیر اور فلسطین کے سیاسی تنازعات نے اہم کردار ادا کیا ہے جو عام مسلمانوں میں اینٹی مغرب خیالات کے فروغ کا اہم سبب ہیں۔ ایسے میں اہل مغرب کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ دنیا کے لیڈر ہونے کی ذمہ داری کو قبول کرتے ہوئے جلد از جلد سیاسی تنازعات کے خاتمے کے لیے کوشش کریں۔ جبکہ دوسری طرف ضروری ہے کہ اب عام لوگوں تک اسلام کا اصل پیغام قرآن مجید اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کی روشنی میں پہنچایا جائے تاکہ اسلام کا امن او رمحبت پر مبنی روشن چہرہ لوگوں کے سامنے نمایاں ہو۔

قرآن مجید کے مطابق اللہ تعالیٰ نے یہ دنیا انسانوں کے امتحان کے لیے بنائی ہے۔ امتحان یہ ہے کہ کون غیب میں رہتے ہوئے اللہ پروردگار پر ایمان لاتا ہے اور اس کے احکام پر اپنی آزادانہ مرضی سے عمل کرتا ہے۔ یہاں ہر شخص کو اختیار ہے کہ ایمان لائے یا انکار کر دے۔ قرآن مزید وضاحت کرتا ہے کہ دین میں کوئی جبر نہیں۔ اس پہلو سے دیکھیں تو اسلام ایک دعوت ہے۔ یہ کوئی جبر نہیں ہے۔ یہ اپنی مرضی سے خدا کے حکم کے سامنے جھک جانے کا نام ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کو بن دیکھے اس کے سامنے جھک جانے کا نام ہے۔ یہ اختیار رکھتے ہوئے بے اختیار ہوجانے کا نام ہے۔ اسلام دوسروں پر دین ٹھونسنے کا نام نہیں۔ یہ دوسروں کی خیر خواہی کے جذبے سے ان تک ان کے رب کا پیغام پہنچانے کا نام ہے۔ جو لوگ ایمان لائیں قرآن مجید ان کے سامنے اپنے نفس کے تزکیہ کا ہدف رکھتا ہے۔ اس کے ساتھ ان کو یہ بشارت دیتا ہے کہ جس شخص نے تزکیہ نفس کا راستہ اختیار کیا وہ جنت کی ابدی کامیابی کے حقدار ہیں اور جو نفس کو آلودہ کریں گے ان کے لیے آخرت کی نامرادی ہو گی۔

اس تزکیہ نفس کا جو راستہ دین بیان کرتا ہے وہ ایمان وعمل صالح کے کچھ مطالبات ہیں جو قرآن میں بیان ہوئے ہیں۔ ان مطالبات کا بنیادی خلاصہ یہ ہے کہ انسان اپنے خالق کے ساتھ اور مخلوق خدا کے ساتھ اپنا تعلق درست بنیادوں پر استوار کر لے۔ یہ درست بنیادیں عدل، احسان اور انفاق ہیں۔ قرآن مجید ان تین چیزوں کو اختیار کرنے کا حکم دیتا ہے اور تین چیزوں یعنی بدکاری، حق تلفی اور ظلم سے رکنے کا حکم دیتا ہے۔ چنانچہ اسلام کی تعلیمات ایک طرف فرد کو آنے والی دنیا میں کامیابی کی بشارت دیتی ہیں اور دوسری طرف دنیا میں انسانیت کے لیے فلاح و بہبود کا سامان ہیں۔ اس لیے کہ دنیا میں ہمیشہ فساد کی وجہ یہی رہی ہے کہ لوگ عدل، احسان، دوسروں کی مدد سے گریزاں رہتے ہیں اور بدکاری، ظلم اور حق تلفی کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔

اسلام نے اپنے پیروکاروں کے سامنے جو مطالبات رکھے ہیں ان میں سے بیشتر کا تعلق افراد کی ذاتی زندگی سے ہے۔ یہ مطالبات انسان کے جسم کی پاکیزگی اور خور ونوش کی پاکیزگی کے حوالے سے ہیں۔ یہ احکام خدا کی عبادت اور اس کے بارے میں درست نقطہ نظر رکھنے کے حوالے سے ہیں۔ یہ احکام مخلوق خدا کے ساتھ عدل و احسان کے تقاضے پورا کرنے کے حوالے سے ہیں۔ یہ احکام بدکاری سے رکنے اور عفت کے فروغ کے حوالے سے ہیں ۔

تاہم انسان چونکہ ایک سماجی وجود ہے اس لیے قرآن مجید نے انسان کی معاشرتی حیثیت کو ملحوظ رکھ کر بھی کچھ احکام دیے ہیں۔ چنانچہ ایک فرد جب شوہر بنتا ہے تو اس حیثیت میں کچھ ذمہ داریاں اس پر عائد ہوجاتی ہیں۔ والدین اور اولاد کے تعلق کی شکل میں کچھ اور ذمہ داریاں اس پر عائد ہوتی ہیں۔ قرابت داروں سے معاملہ کرتے ہوئے کچھ ذمہ داریاں اس پر عاید ہوتی ہیں۔

معاشرے کی سیاسی تنظیم ریاست ہے۔ چنانچہ کوئی شخص اس ریاستی ڈھانچے کا حکمران بنتا ہے تو دین اس پر بھی کچھ ذمہ داریاں عاید کر دیتا ہے۔ مثال کے طور پر ضرورت کے موقع پر جنگ و جہاد کا فیصلہ کرنا۔ جرائم کی سرکوبی کے لیے کچھ خاص جرائم کے حوالے سے دی گئی سزاؤں کونافذ کرنا۔ جمعہ کا اہتمام کرنا۔ نیکی کے فروغ اور برائیوں کے پھیلاؤ کو روکنے میں اپنا کردار ادا کرنا، زکوٰ ۃ کی وصولیابی وغیرہ۔

اسی طرح معاشرے میں خیر و شر کا شعور قائم رکھنے کے لیے اور دین کی دعوت کو زندہ رکھنے کے لیے یہ حکم دیا گیا ہے کہ معروف یعنی مسلمہ طور پر مانی ہوئی اچھائیوں جیسے انصاف، دیانت، رحم وغیرہ کی تلقین کی جائے اورمنکر یعنی مسلمہ طور پر بری مانی ہوئی برائیوں جیسے ظلم ، رشوت، دھوکہ دہی سے لوگوں کو روکا جائے۔ علما کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ معاشرے کے تمام طبقات کو انذار کریں۔ یعنی خدا کے حضور پیشی کا احساس زندہ رکھیں اور لوگوں کو اللہ کے احکام پر عمل کرنے کی تلقین کریں تاکہ وہ اللہ کی پکڑ کی زد میں نہ آئیں۔ حکمران بھی اگر اپنی ذمہ داریاں پوری نہ کریں تو ان کو بھی وعظ و نصیحت ہی کیا جا سکتا ہے۔ یہی علماء کے کرنے کا کام ہے۔

دین کی ان تعلیمات کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے اللہ تعالیٰ نے انسان کی آزادی کو کسی پہلو سے ختم نہیں کیا۔ جس طرح ایمان لانے یا نہ لانے کی آزادی ہے اسی طرح دینی احکام پر عمل کرنے نہ کرنے کی بھی پوری آزادی ہے۔ اسلام منافقین پیدا نہیں کرنا چاہتا جو ظاہر میں نیک ہوتے ہیں اور اندر سے منکر ہوتے ہیں۔ چنانچہ آزادی کی اس قدر کو تمام دینی احکام میں بھی پوری طرح برقرار رکھا گیا ہے۔ فرد کو جو احکام ذاتی حیثیت میں دیے گئے ہیں، وہ آزاد ہے کہ ان پر عمل کرے یا نہ کرے۔ البتہ قرآن یہ ضرور بتاتا ہے کہ بن دیکھے خدا کی اطاعت کا بدلہ ابدی جنت اور خدا کو نظر انداز کرنے کا نتیجہ جہنم کا قید خانہ ہے۔ انسان کی ابدی کامیابی اور نجات خدا کی مرضی کی زندگی گزارنے پر منحصر ہے لیکن یہ مکمل طور پر انسانوں کا اختیار ہے کہ وہ اس دنیا میں چاہیں تو بندگی کا راستہ اختیار کریں چاہیں تو نہ کریں۔ وہ چاہیں تو عدل، احسان، انفاق کی مثبت اقدار کو اختیار کرنے اور بدکاری، ظلم اور حق تلفی جیسی منفی صفات سے روکنے والی فطری تعلیمات کو اختیار کریں اور چاہیں تو نہ کریں۔ مگر اس پورے معاملے میں جبر نہیں ہے۔ زبردستی نہیں ہے۔

تاہم غلط کو غلط کہا جائے گا، اس سے باز آنے کی تلقین کی جائے گی۔ صحیح کو صحیح کہا جائے گا، اسے اختیار کرنے کی تلقین کی جائے گی۔ نصیحت کی جائے گی۔ یاددہانی کرائی جائے گی۔ برائی کا برا ہونا اور اچھائی کا اچھا ہونا واضح کیا جائے گا لیکن لوگوں کے اختیار پر پہرے نہیں بٹھائے جائیں گے۔ ہاں جن لوگوں کو اجتماعی ذمہ داریاں دی گئی ہیں، چاہے معاشرے کی سطح پر ہوں یا ریاستی سطح پر، ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان احکام کی پیروی کریں جن کا ان کو حکم دیا گیا ہے۔ چنانچہ حکمران معاشرے میں نیکی کے فروغ کے لیے اقدامات کریں گے۔ وہ حق تلفی اور ظلم روکنے کے لیے قانون سازی کریں گے۔ قتل اور چوری کی سزا دیں گے۔ فساد فی الارض اور زنا کی سزا پر عملدرامد کریں گے۔ لیکن حکمرانوں کا یہ حق نہیں کہ وہ مثال کے طور پر لوگوں کو روزہ رکھوائیں اور نہ رکھنے پر سزا دیں۔ خواتین کوڈرائیونگ کرنے سے روکیں، مردوں کو ڈاڑھیاں رکھوائیں یا خواتین کو پردہ کرائیں ۔ یہ فرد کا ذاتی دائرہ ہے۔ اس میں اسے مکمل آزادی حاصل ہے۔ یہ اس کا اور اس کے رب کامعاملہ ہے۔ ایک مسلمان کا یہ حق ہے کہ کوئی حکم سمجھ میں نہیں آتا وہ علما کے پاس جا کر دین سمجھے گا۔ جس عالم کی بات قرآن و سنت سے قریب محسوس ہوئی اسی پر عمل کرے گا۔ لیکن اس پر کوئی چیز زبردستی نہیں ٹھونسی جا سکتی۔

اسی طرح یہ بات بھی یاد رہے کہ غیر مسلموں کے ساتھ اہل اسلام کا تعلق نفرت یا تصادم کا نہیں بلکہ ان کا باہمی رشتہ داعی اور مدعو کا ہے۔ ختم نبوت کے بعد مسلمان اپنے دین پر عمل کر کے اور اپنے دین کی تعلیمات کو دوسرے تک پہنچا کر لوگوں کو اسلام کا پیغام پہنچائیں گے۔ لوگوں پر سیاسی طور پر غالب آنا، ا ن کے ہاتھ سے اقتدار چھین کر ان کے ملکوں پر قبضہ کرنا یہ مسلمانوں کا کام نہیں ہے۔

اس معاملے میں جو غلط فہمی ہوئی ہے وہ رسولوں اور ان کے اولین مخاطبین کے حوالے سے قرآن مجید میں بیان کئے گئے خاص احکام ہیں۔ قرآن مجید کے مطابق اللہ تعالیٰ جس قوم میں کوئی رسول بھیج دے اس کا فیصلہ دنیا میں ہوجاتا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:

’’ہر قوم کے لیے ایک رسول ہوتا ہے اور جب ان کا رسول آ جاتا ہے تو ان کے درمیان عدل سے فیصلہ کر دیا جاتا ہے اور ان پر ظلم نہیں کیا جاتا۔ ‘‘ یونس 47

چنانچہ اسی اصول پر قوم نوح، عاد، ثمود، آل فرعون، قوم لوط اور قوم شعیب وغیرہ کو تباہ کر دیا گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چونکہ کافی صحابہ مل گئے تھے، اس لیے ان کے معاملے میں یہ فیصلہ ہوا کہ انسانوں کی تلوار سے عذاب آئے گا۔ چنانچہ ارشاد ہوا:

’’ان سے لڑو اللہ تمھارے ہاتھوں سے ان کو عذاب دے گا۔‘‘ توبہ 14

چنانچہ قریش کی لیڈرشپ کو اسی اصول پر بدر میں قتل کیا گیا۔ تاہم باقی عرب ایمان لے آیا۔ اور چونکہ اللہ کا یہ وعدہ تھا کہ ایمان لانے والوں کو زمین کا اقتدار دے گا تو صحابہ کرام کے لیے ایسے حالات پیدا کیے گئے کہ عرب کے بعد روم و ایران بھی مفتوح ہوگئے۔ یہ خدائی وعدہ کا ظہور تھا جو سورہ نور میں اس طرح کیا گیا تھا:

’’تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے عملِ صالح کیے ان سے اللہ کا وعدہ ہے کہ ان کو ملک میں اقتدار بخشے گا جیسا کہ ان لوگوں کو اقتدار بخشا جو ان سے پہلے گزرے اور ان کے اس دین کو متمکن کرے گا جس کو ان کے لیے پسندیدہ ٹھہرایا اور ان کی اس خوف کی حالت کے بعد اس کو امن سے بدل دے گا۔ وہ میری ہی عبادت کریں گے اور کسی چیز کو میرا شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔ اور جو اس کے بعد کفر کریں گے تو درحقیقت وہی لوگ نافرمان ہیں۔‘‘ (سورۃ نورآیت ۵۵ )

جس کے بعد ہم یہ دیکھتے ہیں کہ خلفائے راشدین نے دنیا پراس طرح حکومت کی کہ گویا آسمانی بادشاہی دنیا میں قائم ہوگئی۔ اس آسمانی بادشاہی میں خلیفہ وقت سب کا خادم ہوتا تھا اور تمام شہری برابر کی حیثیت کے مالک تھے۔ عدل وانصاف عام تھا۔ مالی فراوانی تھی۔ امن و امان میسر تھا۔ یہ اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کی وہ برکتیں تھیں جو اس زمین پر ہی ظاہر ہوئیں ۔

ٓ قرآن مجید کے مطابق رسولوں کی اقوام کو دنیا میں دی جانے والی یہ سزا اور جزا دراصل قیامت کے آنے کا ایک زندہ ثبوت ہیں۔ اس بات کا ثبوت ہیں کہ اس دنیا کو بنانے والا خدا اس سے لاتعلق ہوکر نہیں بیٹھا۔ بلکہ وقفے وقفے سے وہ اِسی دنیا میں اپنے رسولوں کو بھیج کرسزا وجزا دیتا رہتا ہے تاکہ لوگ آخرت کی سزا وجزا کا انکار نہ کربیٹھیں۔ آخری دفعہ یہ سزا و جزا عرب کی سرزمین میں برپا کی گئی اور اس کی روداد قرآن مجید اور تاریخ کے ریکارڈ میں محفوظ کر دی گئی کہ کس طرح تن تنہا ایک شخص نے ایمان کی صدا دی اور اللہ کا یہ فیصلہ سنادیا کہ نہ ماننے والے آخر کار ہلاک کر دیے جائیں گے۔ دوسری طرف یہ اعلان کر دیا گیا کہ ماننے والوں کو زمین کا اقتدار دے دیا جائے گا۔ صرف ربع صدی میں یہ دونوں باتیں پوری طرح ظاہر ہوگئیں ۔عرب کی پوری لیڈرشپ ہلاک کر دی گئی اور ماننے والے غریب اور بے کس لوگ اس زمانے کی سب سے بڑی سپر پاور بنا دیے گئے۔ اس سے یہ بات آخری درجہ میں ثابت ہوگئی کہ جس خدا نے یہ معجزہ کر دیا وہ قیامت بھی ضرور برپا کرے گا۔ اب مسلمانوں کی ذمہ داری صرف یہ ہے کہ وہ خود بھی دین پر عمل کریں اور ساتھ میں دین حق کی شہادت انسانیت کو دیتے رہیں اور ان تک پیغام حق پہنچاتے رہیں۔ تاکہ قیامت کے دن اللہ کے بندے اور بندیاں یہ نہ کہہ سکیں پروردگار ہمیں آپ کے منصوبے کاعلم نہیں ہو سکا۔ یہی مسلمانوں کے کرنے کا اصل کام ہے۔ یہی وہ کام تھا جو صحابہ کرام نے سرانجام دیا۔

’’اور اسی طرح ہم نے تم کو ایک درمیانی امت بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہو۔‘‘ البقرہ 143

خلاصہ اس گفتگو کا یہ ہے اسلام انسانیت کے لیے فلاح کا پیغام لایا ہے۔ یہ فلاح آخرت کی ابدی زندگی کی بھی اور دنیا کی بھی ہے۔ اسلام کسی پر زور زبردستی نہیں کرنا چاہتا۔ اللہ تعالیٰ چاہتے تو کسی کے لیے ممکن نہ تھا کہ وہ اس کی نافرمانی کرسکے۔ اللہ نے جس طرح پوری کائنات کو اپنے حکم کا پابند کر رکھا ہے اسی طرح وہ انسان کو بھی بنا سکتے تھے۔ مگر وہ انسانوں کا امتحان لے رہے ہیں کہ کون بن دیکھے اچھے عمل کرتا ہے۔ اسلام اول تا آخرت دعوت ہے۔ یہ کوئی جبر نہیں۔ یہ دعوت انسان کو آزاد مان کر دی جا رہی ہے۔ اور دعوت ہی اس بات کی ہے کہ ایک محدود دائرے میں اپنی آزادی کو چھوڑ کر خدا کی بندگی اختیار کر لو۔ اس کا بدلہ ختم نہ ہونے والی جنت ہے۔ یہی معاملہ اسلامی احکام کا ہے۔ چاہے ان کا تعلق فرد سے ہو یا اجتماع سے۔ اسلام کا راستہ انذار اور تبشیر ہے۔ نیکی کی تلقین اور برائی سے منع کرنا ہے۔ اسلام جبر نہیں، نفرت نہیں۔ اسلام محبت ہے۔ اسلام دعوت ہے۔ یہی اسلام کا خلاصہ ہے۔ یہی امن کی راہ ہے۔

آپ کا بہت بہت شکریہ۔

بشکریہ ماہنامہ انذار، تحریر/اشاعت نومبر 2016
’’انذار نومبر 2016‘‘ پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
مصنف : ابو یحییٰ
Uploaded on : Nov 29, 2016
3057 View