یہ خالص علمی رویہ ہے جس میں”کون“اوجھل اور ”کیا“ سامنے رہتا ہے۔ چنانچہ اس کے بعد یہ بات زیادہ اہمیت نہیں رکھتی کہ کہنے والا اپنی بات کے کسی معتبر حوالے کے ساتھ ریلیشن سے باخبر ہے یا بے خبر ہے یا اس نے بہت غور و تحقیق کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا ہے یا محض سنی سنائی بات کو آگے بیان کر دیا ہے۔ اسی طرح یہ بھی اہم نہیں ہے کہ اس کا مذہب، اس کا فکری پس منظر اور علمی زاویۂ نظر کیا ہے۔
چنانچہ مثال کے طور پر اگر ایک ایسا شخص جو ہمارے نزدیک غیر مسلم، ملحد یا سیکولر ہے، یہ کہتا ہے کہ انسانی شرف کے اعتبار سے سب انسان برابر ہیں یا مسلمہ انسانی حقوق رنگ، نسل اور مذہب کی تفریق کے بغیر ملنے چاہییں یا لوگوں کو اظہار راے کی آزادی ہونی چاہیے، یا غلامی اور انسانوں کی خرید و فروخت پر پابندی عائد ہونی چاہیے یا خواتین کے حقوق کو پامال نہیں کرنا چاہیے یا دنیا کو امن کا گہوارہ بننا چاہیے یا عدل و انصاف کو ریاست کی اولین ترجیح ہونا چاہیے یا مذاہب کے پیروکاروں کو رواداری کا رویہ اختیار کرنا چاہیے یا قومی معاملات میں معاہدوں کی پاس داری کرنی چاہیے یا حکومتوں کو لوگوں کی راے پر منحصر ہونا چاہیے یا قوموں کے حق خودارادی کا احترام ہونا چاہیے وغیرہ وغیرہ ــــــ تو ہم بادنیٰ تامل اس کی بات کی تائید کریں گے اور ضرورت محسوس کریں گے تو یہ بھی بتائیں گے کہ یہ بات فلاں اخلاقی اصول پر مبنی ہے، یا فلاں آیت قرآنی سے مطابقت رکھتی ہے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فلاں علم و عمل سے ہم آہنگ ہے۔
ہمارے جلیل القدر علما نے سرسید، علامہ اقبال اور محمد علی جناح جیسے قومی قائدین اوربعض دیگر ایسے مشاہیر کے بارے میں کہ جن کی دینی و علمی حیثیت مسلم نہیں ہے، یہی رویہ اختیار کیا ہے کہ ان کی بات کو پہلے دین و اخلاق کے مسلمات پر پرکھا ہے اور درست پایا ہے تو قبول کیا ہے، وگرنہ رد کر دیا ہے۔
استاذ گرامی جناب جاوید احمد غامدی نے جب اپنے ایک شذرے میں قائد اعظم کے ۱۱ ؍ اگست ۱۹۴۸ء کے اس اعلان کے حوالے سےکہ ’’ریاست کے شہریوں میں حقوق شہریت کے لحاظ سے مذہب کی بنیاد پر کسی قسم کی کوئی تفریق نہ ہو گی‘‘ یہ لکھا تھا کہ ’’ صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس کا لفظ لفظ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے ’’میثاق مدینہ‘‘ کی پیروی میں صادر ہوا ہے۔‘‘ تو درحقیقت اسی علمی رویے کو بنیاد بنایا تھا۔