سود کا مسئلہ - جاوید احمد غامدی

سود کا مسئلہ

 سود کا لفظ اُس معین اضافے کے لیے بولا جاتا ہے جو قرض کی رقم پر لیا جائے۔ اِس میں اور کرایے میں بظاہر کوئی فرق محسوس نہیں ہوتا، لیکن دقت نظر سے دیکھا جائے تو صاف واضح ہوجاتا ہے کہ جو چیزیں کرایے پر اٹھائی جاتی ہیں، وہ اُن کے وجود کو برقرار رکھ کر استعمال کی جاسکتی ہیں، مگر روپیہ اِس طریقے سے استعمال نہیں کیا جا سکتا، اِسے خرچ کرلینے کے بعد دوبارہ پیدا کرنا پڑتا ہے۔ چنانچہ اِس پر اگر کسی اضافے کا مطالبہ کیا جائے تو یہ فی الواقع ظلم بن جاتا ہے۔ سود اور کرایے کا یہ فرق چونکہ باریک ہے اور انسان اِس کے سمجھنے میں غلطی کر سکتا تھا، اِس لیے اللہ تعالیٰ نے انبیا علیہم السلام کے ذریعے سے انسان کو اپنی شریعت دی تو اُسے بتادیا کہ قرض پر معین اضافے کا مطالبہ زیادتی ہے، اِسے جائز قرار نہیں دیا جاسکتا۔ سود اِسی بنا پر اللہ تعالیٰ کی ہر شریعت میں اور ہمیشہ ممنوع رہا ہے۔ قرآن نے بھی پوری صراحت کے ساتھ اِسے ممنوع ٹھیرایا ہے، اِس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ بنکاری کا جو نظام اِس زمانے میں رائج ہے، اُس کے بارے میں یہ بحث، البتہ پیدا ہو گئی ہے کہ اِس میں تو بنک جس کاروبار کے لیے قرض دیتا ہے، اُس کی منفعت ہی سے حصہ وصول کرتا ہے۔ لہٰذا سود جس علت کی بنا پر ممنوع قرار دیا گیا ہے، وہ بنکاری کے نظام میں کیا ختم نہیں ہو جاتی؟ یہ استدلال مصر و شام کے بعض علمانے بھی پیش کیا ہے اور ہندوستان کے ایک جلیل القدر عالم اور داعی مولانا وحیدالدین خان نے بھی اپنی کتاب ’’فکراسلامی‘‘ میں کسی حد تک اِس کی تصویب فرمائی ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ علما کا یہ استدلال معقول ہو سکتا ہے، مگر اِس کے لیے ضروری ہے کہ بنک اپنے نظام میں درج ذیل اصلاحات کر لیں:
اولاً، جس کاروبار کے لیے قرض دیا گیا ہے، اُس میں نقصان ہو جائے یا کاروبار کسی وجہ سے بند کرنا پڑے تو منفعت کا مطالبہ بھی اُسی دن سے بند کر دیا جائے۔ بنک اِس کے بعد صرف اصل زر کا تقاضا کرے۔
ثانیاً، اشیا قسطوں پر فروخت کی جائیں تو جب تک قسطیں پوری نہ ہوں، بنک اُس شے کی ملکیت میں شریک رہے، ملکیت کے تقاضے پورے کرے اور اُن پر کرایہ لے۔
ثالثاً، قرض اگر غیرکاروباری ضرورتوں کے لیے دیا گیا ہے تو افراط زر سے جو کمی واقع ہوتی ہے، اُس کی تلافی کے سوا کسی زائد رقم کا مطالبہ نہ کیا جائے۔
سود سے متعلق ایک اہم مسئلہ اُن لوگوں کا بھی ہے جو سود لیتے نہیں، مگر ذاتی اور کاروباری ضرورتوں کے لیے قرض لیتے اور اُس پر سود دیتے ہیں۔ عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ یہ بھی اُسی طرح حرام ہے، جس طرح سود لینا حرام ہے۔ علما یہی کہتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اِس کی کوئی بنیاد قرآن و حدیث میں نہیں ہے۔ قرآن نے کسی جگہ ایک لفظ بھی سود دینے والوں کی مذمت میں نہیں کہا، بلکہ اُنھیں مظلوم قرار دیا اور تنگ دست ہوں تو اصل زر کی واپسی کے لیے مہلت دینے کی تلقین فرمائی ہے۔ اِس میں شبہ نہیں کہ حدیث میں سود کھلانے والوں کو بھی یکساں مجرم ٹھیرایا گیا ہے، * لیکن اِس کا مطلب سمجھنے میں لوگوں سے غلطی ہوئی ہے۔ اِس سے مراد وہ لوگ ہیں جو سود کا کاروبار کرنے والوں کے ایجنٹ کی حیثیت سے اُن کے لیے گاہک ڈھونڈتے اور اِس طرح اُنھیں سود کھلا کر ایک بڑے گناہ میں تعاون کے مجرم بنتے ہیں، سود پر قرض لینے والوں سے اِس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

 

* مسلم، رقم ۴۰۹۳۔

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت اکتوبر 2008
مصنف : جاوید احمد غامدی