جماعت اسلامی کی سیاسی ترقی کے موانع - سید منظور الحسن

جماعت اسلامی کی سیاسی ترقی کے موانع

 پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر ’’جماعت اسلامی‘‘ کو اہم مقام حاصل ہے۔یہ ایک نظریاتی جماعت ہے جو متعین آدرش اور نصب العین رکھتی ہے۔اس کی بنیاد ملت اسلامیہ کے جلیل القدر مبلغ دین سید ابو الاعلیٰ مودودی نے رکھی ہے۔اس کی شہرت ایک اصول پرست جماعت کی ہے۔ایسے ملک میں جہاں سیاست کارفرما قوتوں سے سمجھوتے کا نام ہے اور اقتدارخریدنی اور فروختنی جنس ہے، اس نے بالعموم اپنے اصولی اور نظریاتی موقف کو مقدم رکھا ہے۔ تنظیم سازی اورجماعتی نظم و ضبط کے اعتبار سے یہ تمام جماعتوں میں سرفہرست ہے۔کارکن سے لے کر امیر جماعت تک، ہر فرد ایک نظام سے متصل ہے اور اس کی اتباع کو ناگزیر سمجھتا ہے۔ اس کے کارکن فعال اور بے لوث سمجھے جاتے ہیں۔اس کے طائفے میں ان گنت لوگ ہیں جنھوں نے اپنی زندگیاں اس کی خدمت کے لیے وقف کر رکھی ہیں اور ان میں ایسے جاں نثاروں کی کمی نہیں ہے جو ہدیۂ دل کے ساتھ نذرانۂ جاں پیش کرنے کے لیے بھی تیار رہتے ہیں۔ اس کے رہنما اخلاق و کردار میں اعلیٰ درجے کے حامل ہیں۔ بانی جماعت سید مودودی کا معاملہ تو خیرغیر معمولی ہے، مگر ان کے ابتدائی پیرووں پر بھی اس معاملے میں انگلی اٹھانا آسان نہیں ہے۔ پاکستان میں سیاسی سطح پر اسلامی تشخص کے فروغ اور دستوری سطح پر نفاذ شریعت کی جدوجہد میں اس جماعت کی حیثیت رہنما اوررجحان ساز کی ہے۔ آئینی اور قانونی امور میں اسلام کی آواز کو اس نے جس موثر اور باوقار انداز سے اٹھایا ہے، اس کے نتیجے میں ایک جانب ان عناصر نے پسپائی اختیار کی ہے جو اس ملک کو سیکولر ریاست بنانے کے داعی تھے اور دوسری جانب وہ طبقات اعتماد کے ساتھ آگے بڑھے ہیں جو اس خطۂ ارض کو اسلام کا گہوارہ بنانا چاہتے ہیں۔ یہی وہ خصائص ہیں جن کی بنا پر یہ جماعت اقتدار سے محروم رہنے کے باوجود پوری شان سے قائم و دائم ہے اور قیام پاکستان سے زمانۂ حال تک اس ملک کی تاریخ میں کوئی دور بھی ایسا نہیں ہے جو اس کے فعال کردار سے خالی ہو۔
جماعت اسلامی کے یہ خصائص ہر شخص پر عیاں ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ ان کے ساتھ ۶۳ برس کی مسلسل جدوجہد کے باوجود یہ عوامی مقبولیت اور اقتدار کی منزل سے کوسوں دور نظر آتی ہے اور دن بہ دن روبہ زوال ہے ۔ہمارے نزدیک اس کے تین بنیادی اسباب ہیں:
ایک سبب یہ ہے کہ اس نے اپنے آپ کو اصلاً ملکی سیاست کو ہدف بنانے والی ایک سیاسی جماعت سے آگے بڑھ کر عالم گیر سطح پراسلامی انقلاب برپا کرنے والی جماعت کے طور پر پیش کیا ہے۔اسلامی انقلاب کی دعوت کے لیے اس کی تقریر یہ ہے کہ دین کامقصود غلبۂ دین کی جدوجہد ہے۔ یہ جدوجہد مسلمانوں کی دینی ذمہ داری ہے۔چنانچہ وہ بحیثیت فرد ہوں، بحیثیت قوم ہوں یا بحیثیت امت، انھیں ہر حال میں اس ذمہ داری کو انجام دینا ہے۔دین ان سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اہل اسلام کے سیاسی تسلط کے لیے سرگرم عمل ہوں اور دنیا میں قانون خداوندی کی بالادستی فی الواقع قائم کر دیں۔ اس سوال سے قطع نظر کہ آیا دینی نصوص میں اس تقریر کی کوئی بنیاد موجود بھی ہے یا نہیں؟ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ جماعت کی سیاسی مساعی کا ہدف محض پاکستان نہیں، بلکہ پورا عالم اسلام ہے۔ چنانچہ اس تناظر میں جماعت کو اپنی توجہ ملکی مسائل کے ساتھ ساتھ عالمی مسائل پر بھی مرکوز رکھنی پڑتی ہے۔جلسے جلوسوں، اخباری بیانوں اورانتخابی نعروں میں روزگار، صحت اور تعلیم جیسی عام آدمی کی ضرورتوں کو موضوع بنانے کے بجاے عالم اسلام کے مسائل کو پیش کیا جاتا ہے، اس وجہ سے لوگوں کے ذہنوں میں اس کا تصور ایک ایسی سیاسی جماعت کے طور پر نہیں ابھرتا جو اقتدار میں آکر ان کے مقامی مسائل کو حل کر سکے۔ وہ محسوس کرتے ہیں کہ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کا مسئلہ تو سندھ ، سرحد، پنجاب اور بلوچستان ہیں، مگر جماعت اسلامی کا مسئلہ افغانستان، عراق، فلسطین، کشمیر، چیچنیا، روس اور امریکا ہیں۔ مزید براں اسی وسیع ہدف کی وجہ سے جماعت کے اسباب و وسائل مقامی مقاصد کے لیے مختص ہونے کے بجاے گو ناگوں خارجی مقاصد کے لیے صرف ہوتے ہیں۔ اسی طرح اس کے انتخابی امیدوار اپنے حلقوں سے بڑھ کر ملکی اور بین الاقوامی سیاست میں سرگرم رہتے ہیں ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اکثر لوگ مسلمانوں کی حمیت میں اس کے کردار کو خراج تحسین پیش کرنے کے باوجوداور اس کے امیدواروں کو دوسری جماعتوں کے امیدواروں سے بہتر سمجھنے کے باوجود اسے اپنے ووٹوں سے محروم رکھتے ہیں۔
دوسراسبب یہ ہے کہ اس کے دستورمیں بعض ایسی دفعات مذکور ہیں جو اس کے ایک بھر پور سیاسی جماعت کے طور پر کام کرنے میں مانع ہیں۔ اس ضمن میں دو چیزیں بہت نمایاں ہیں :ایک چیز یہ ہے کہ اس میں حصول رکنیت اور اسے قائم رکھنے کا معیار دیگر جماعتوں کی بہ نسبت بہت کڑا ہے۔ اس کا اندازہ دستور میں درج فرائض رکنیت کے زیر عنوان حسب ذیل نکات سے کیا جا سکتا ہے:
داخلۂ جماعت کے بعدجو تغیرات ہر رکن کو بتدریج اپنی زندگی میں کرنے ہوں گے، وہ یہ ہیں:

’’۱۔ دین کا کم ازکم اتنا علم حاصل کر لینا کہ اسلام اور جاہلیت (غیر اسلام) کا فرق معلوم ہو اور حدود اللہ سے واقفیت ہو جائے۔ 
۲۔ تمام معاملات میں اپنے نقطۂ نظر، خیال اور عمل کو کتاب و سنت کی تعلیمات کے مطابق ڈھالنا، اپنی زندگی کے مقصد، اپنی پسند اور قدر کے معیار اور اپنی وفاداریوں کے محور کو تبدیل کرکے رضاے الٰہی کے موافق بنانا اور اپنی خودسری اور نفس پرستی کے بت کو توڑ کر تابع امر رب بن جانا۔
۳۔ ان تمام رسوم جاہلیت سے اپنی زندگی کو پاک کرنا جو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کے خلاف ہوں اور اپنے ظاہر و باطن کو احکام شریعت کے مطابق بنانے کی زیادہ سے زیادہ کوشش کرنا۔
۴۔ ان تعصبات اور دلچسپیوں سے اپنے قلب کو، اور ان مشاغل اور جھگڑوں اور بحثوں سے اپنی زندگی کو پاک کرنا جن کی بنا نفسانیت یا دنیا پرستی پر ہو اور جن کی کوئی اور اہمیت دین میں نہ ہو۔
۵۔ فساق و فجار اور خدا سے غافل لوگوں سے موالات اور مؤدت کے تعلقات منقطع کرنا اور صالحین سے ربط قائم کرنا۔
۶۔ اپنے معاملات کو راستی، عدل، خدا ترسی اور بے لاگ حق پرستی پر قائم کرنا۔
۷۔ اپنی دوڑ دھوپ اور سعی و جہد کو اقامت دین کے نصب العین پر مرتکز کر دینا اور اپنی زندگی کی حقیقی ضرورتوں کے سوا ان تمام مصروفیتوں سے دست کش ہو جانا جو اس نصب العین کی طرف نہ لے جاتی ہوں۔‘‘(دستور جماعت اسلامی دفعہ۸ )

دوسری چیز یہ ہے کہ دستور میں ارکان کے لیے اختلاف راے کے اظہار کی گنجایش نہایت محدود ہے۔ چنانچہ دفعہ ۹۳ کے تحت نہایت صراحت سے درج ہے کہ جو ارکان جماعت کے فیصلوں سے اختلاف رکھتے ہوں:

’’انھیں ارکان جماعت کے اجتماعات میں اختلاف خیال کے اظہار کا پورا حق حاصل ہو گا، مگر اس غرض کے لیے پریس اور پبلک پلیٹ فارم کو ذریعہ بنانے کا حق نہ ہو گااور یہ حق بھی نہ ہو گا کہ وہ فرداً فرداً ارکان جماعت سے نجویٰ کرتے پھریں۔۔۔ اگر کوئی رکن جماعت، جماعت کی طے کردہ پالیسی سے اختلاف کا اظہار کر دے تو وہ جماعت میں کسی ایسے منصب پر نہیں رہ سکے گا، جس کا فریضہ جماعتی پالیسی کو نافذ یا اس کی ترجمانی کرنا ہو۔‘‘(دفعہ ۹۳)

رکنیت کا کڑا معیار اور اظہار اختلاف پر تحدید، یہ دونوں چیزیں ظاہر ہے کہ جماعت میں لوگوں کی شمولیت کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہیں۔پہلی چیز عوام الناس کے آنے میں رکاوٹ بنتی ہے اور دوسری چیز اصحاب علم و دانش کے آنے میں، اس کی وجہ یہ ہے کہ عوام کی اکثریت دینی تعلیم و تربیت سے محروم ہونے کی وجہ سے نہ مذکورہ معیار کو حاصل کرنے کا داعیہ محسوس کرتی ہے اور نہ اس کی ہمت جمع کر پاتی ہے۔ اہل علم و دانش کے لیے داعیے اور ہمت کا مسئلہ تو پیدانہیں ہوتا، مگر وہ اظہار اختلاف پر پابندیوں کی وجہ سے گریزاں ہو جاتے ہیں۔ وہ یہ محسوس کرتے ہیں کہ جماعت کے ماحول میں جا کر وہ نہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا سکتے، نہ جماعت کی کوئی خدمت انجام دے سکتے اور نہ ملک و قوم کی ترقی میں کوئی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ 
تیسرا سبب یہ ہے کہ جماعت اسلامی فقہ و شریعت کے معاملے میں بتدریج اس روایتی تعبیر کی علم بردار بن کر کھڑی ہو گئی ہے جس کی اساس تقلید جامد کے اصول پر قائم ہے۔ اسی روایتی تعبیر کے بارے میں مولانا مودودی کا یہ تبصرہ تھا:

’’اس (فقہ) میں اسلامی شریعت کو ایک ’’منجمد شاستر‘‘بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔ اس میں صدیوں سے اجتہاد کا دروازہ بند ہے جس کی وجہ سے اسلام ایک زندہ تحریک کے بجائے محض عہد گزشتہ کی ایک تاریخی تحریک بن کر رہ گیا ہے۔‘‘ (تفہیمات ۱/۳۳۷)

مولانا مودودی کی رہنمائی میں پروان چڑھنے والی نفاذ شریعت کی علم برداراس جماعت سے یہ توقع بالکل بجا تھی کہ یہ شریعت اور اسے اخذ کرنے کے اصولوں کا جائزہ لے، تحقیق و جستجو اور اجتہاد کے مقامات کو متعین کرے اور اس ملک کے لیے ایسی فقہ ترتیب دے جو قرآن و سنت کے عین مطابق ہو اور دور جدید کے مسائل کو تشفی بخش طریقے سے حل کرتی ہو، مگر اس نے روایتی فکر کو اختیار کر کے گویاان قوانین کو اختیار کرنے پر اصرار کیا ہے جو ہمارے قدیم فقہا نے اپنے زمانے کی ضرورتوں کے لحاظ سے تشکیل دیے تھے ۔ چنانچہ نفاذ شریعت کے زیر عنوان وہ اپنی دعوت کو نہ قوم کے ذہین عناصر سے منوا سکی ہے اور نہ دنیا کی غیر مسلم اقوام کے سامنے اعتماد کے ساتھ پیش کر سکی ہے۔ چنانچہ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گاکہ جماعت کے اس طرز عمل نے اس کے اپنے جواز ہی کو چیلنج کر دیا ہے، کیونکہ اگرقدیم فقہی تعبیرات ہی کو اختیار کرنا ہے تو روایتی دینی جماعتیں اس کی زیادہ اہل اور زیادہ حق دار ہیں۔
یہی وہ بنیادی رکاوٹیں ہیں جو ہمارے نزدیک جماعت اسلامی کی سیاسی ترقی کی راہ میں مزاحم ہیں۔ ہمارا احساس ہے کہ اگر یہ جماعت اپنے طریق فکر وعمل میں سے یہ رکاوٹیں دور کر لے تو وہ پاکستان میں اسلامی اقدار کو فروغ دے سکتی، عوام میں اپنی جڑوں کو مضبوط کر کے اقتدار کی منزل کی طرف بڑھ سکتی اور ملک کے سیاسی استحکام کے لیے گراں قدر خدمات انجام دے سکتی ہے۔

مصنف : سید منظور الحسن
Uploaded on : Jul 09, 2018
2383 View