جن اور فرشتہ - طالب محسن

جن اور فرشتہ

 

(مشکوٰۃ المصابیح، حدیث: ۶۷۔۷۲)

عن ابن مسعود رضی اﷲ عنہ قال : قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ما من أحد إلا و قد وکل بہ قرینہ من الجن و قرینہ من الملائکۃ ۔ قالوا : و إیاک یا رسول اﷲ ۔ قال : و إیای ، و لکن اﷲ أعاننی علیہ فأسلم ، فلا یأمرنی إلا بخیر ۔
’’ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم میں سے کوئی ایسا نہیں ہے ، مگر یہ کہ وہ اپنے ساتھی ایک جن اورایک فرشتے کے سپرد کر دیا گیا ہو ۔ لوگوں نے پوچھا : یا رسول اللہ ، کیا آپ کے ساتھ بھی یہی معا ملہ ہے؟ آپ نے فرمایا: ہاں ، میرے ساتھ بھی ، لیکن اللہ نے میری مدد کی ، چنانچہ وہ مسلمان ہو گیا ۔ لہٰذا وہ مجھے خیر ہی کی باتیں کہتا ہے۔ ‘‘

لغوی مباحث

وکل بہ: ’ وَکَّل‘ کا مطلب اپنا معاملہ کسی کے سپرد کرنا ہے ۔یہاں یہ مجہول ہے اور اس سے مراد ان کا مسلط ہونا ہے۔
قرین : ساتھی، جس کا ساتھ ہمہ وقتی ہو۔

متون

اس روایت کے متون میں کچھ فرق تو محض لفظی ہیں ۔ مثلا ایک روایت میں ’من الجن‘ کے بجائے ’من الشیاطین‘ ہے ۔اسی طرح احمد کی ایک روایت میں ’قد وکل بہ‘ کی جگہ ’ومعہ‘ روایت ہوا ہے۔ لیکن ایک فرق کافی اہم ہے اور وہ فرق یہ ہے کہ ایک دو روایات میں ’قرینہ من الملائکۃ‘ کا ذکر نہیں ہے۔ کیونکہ زیادہ تر روایات میں یہ جز بیان ہوا ہے۔ چنانچہ اسے راویوں کا سہو ہی قرار دیا جائے گا۔

معنی
اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کو کچھ مادی قواعد و ضوابط کا پابند بنا رکھا ہے ۔ یہ قواعد ہم اپنے مشاہدے اور تجزیاتی مطالعے کی روشنی میں سمجھ لیتے ہیں ۔ جدیددور میں سائنس دانوں نے اس دائرے میں بہت سا کام کیا ہے اوروہ بہت سے قوانین دریافت کر چکے ہیں اوردریافت کرتے رہیں گے، لیکن اللہ تعالیٰ کی یہ دنیا صرف ان مادی احوال تک محدود نہیں ہے ۔ اس مادی کارخانے کے پیچھے ایک غیر مادی نظام بھی کارفرما ہے ۔ اس روایت میں اس غیر مادی دنیا کے ایک معاملے کے بارے میں خبردی گئی ہے ۔ معلوم ہوتا ہے کہ ہر انسان کے ساتھ کچھ غیر مادی طاقتیں وابستہ ہیں ۔ یہ طاقتیں خیر اور شر کی طاقتیں ہیں ۔ اس روایت میں یہ واضح کر دیا گیا ہے کہ ان طاقتوں کے وابستہ ہونے سے کوئی انسان بھی مستثنٰی نہیں ہے۔
قرآنِ مجید میں یہ بات بیان ہوئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذی شعور مخلوقات میں فرشتے اورجنات بھی شامل ہیں ۔فرشتے سراپاخیر مخلوق ہیں اور اللہ تعالیٰ کے احکام کی تنفیذ کا ذریعہ بھی ہیں ۔ جنات انسانوں کی طرح آزمایش سے گزر رہے ہیں اور انھیں خیروشر کے ترک و اختیار کی پوری آزادی حاصل ہے ۔ چنانچہ ان میں صالحین بھی موجود ہیں اور اشرار بھی پائے جاتے ہیں ، بلکہ انھی کا ایک فرد ابلیس انسانوں کو گمراہ کرنے کا مشن اختیار کیے ہوئے ہے اور اپنے اس مشن کو پورا کرنے کے لیے انسانوں اور اپنے ہم جنسوں سے کام بھی لیتا ہے۔ہمارے نزدیک ، ملائکہ کی ذمہ داریوں اور ابلیس اور اس کے لشکر کی چالبازیوں کے نتیجے میں وہ صورتِِ حال پیدا ہوجاتی ہے جس کے لیے اس حدیث میں ایک جن اورایک فرشتے کے مسلط کیے جانے کی تعبیر اختیار کی گئی ہے ۔ 
یہاں یہ بات واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسانوں کی رہنمائی اور بھلائی ہی کا بندو بست کیا گیا ہے ۔ یہ آزمایش کے لیے جنوں اور انسانوں کو دی گئی آزادی ہے جس کے نتیجے میں مذکورہ صورتِ معاملہ پیدا ہو جاتی ہے ۔
قرآنِ مجید میں یہ بات اس طرح بیان نہیں ہوئی ، لیکن فرشتوں اور جنات کے انسانی زندگیوں میں کردار اور مداخلت کو مختلف مقامات پر بیان کیا گیاہے ۔مثلاً سورۂ انعام میں بتایا گیا ہے :

وَ ھُوَ الْقَاھِرُ فَوْقَ عِبَادِہِ وَ یُرْسِلُ عَلَیْکُمْ حَفَظَۃٌ ۔ (۶ : ۶۱)
’’ وہ اپنے بندوں پر پوری طرح حاوی ہے اور وہ تم پر اپنے نگران مقرر رکھتا ہے ۔‘‘

مولانا امین احسن اصلاحی اس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’مطلب یہ ہے کہ کوئی یہ خیال نہ کرے کہ خدا اپنی مخلوق کے کسی فرد اور اپنے گلے کی کسی بھیڑ سے غافل ہوتا ہے ، سب ہر وقت اسی کے کنٹرول میں ہیں ۔ وہ برابر اپنے نگران فرشتوں کو ان پر مقرر رکھتا ہے ، جو ایک پل کے لیے بھی ان کی نگرانی سے غافل نہیں ہوتے۔‘‘(تدبرِقرآن ،ج ۳ ، ص ۷۰)

سورۂ رعد میں اس سے بھی واضح الفاظ میں یہ بات بیان ہوئی ہے :

لَہُ مُعَقِّبَاتٌ مِنّ بَیْنِ یَدَیْہِ وَ مِنْ خَلْفِہِ یَحْفَظُوْنَہُ مِنْ اَمْرِ اللّٰہِ۔ (۱۳ : ۱۱)
’’ان پران کے آگے پیچھے سے امرِالٰہی کے مؤکل لگے رہتے ہیں جو باری باری ان کی نگرانی کرتے ہیں ۔‘‘

اسی طرح جنات کے مسلط ہونے کا مضمون بھی قرآنِ مجید میں بیان ہوا ہے ۔ سورۂ زخرف میں ہے :

وَ مَنْ یَّعْشُ عَنْ ذِکْرِ الرَّحْمٰنِ نُقَیِّضْ لَہُ شَیْطَانًا فَھُوَ لَہُ قَرِیْنٌ۔(۴۳ : ۳۶)
’’اور جو خدا کے ذکر سے اعراض کر لیتا ہے تو ہم اس پر ایک شیطان مسلط کر دیتے ہیں جو اس کا ساتھی بن جاتا ہے ۔‘‘

درجِ بالا آیات کے مطالعے سے واضح ہو جاتا ہے کہ روایت میں جو بات بیان ہوئی ہے ، وہ قرآنِ مجید میں بھی بتائی گئی ہے ۔ روایت سے شبہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے سیدھی راہ پر لگانے کے ساتھ ساتھ گمراہ کرنے کا بندوبست بھی کیا گیا ہے ۔ سورۂ زخرف کی آیت سے واضح ہوجاتا ہے کہ شیطان کا تسلط خود انسان کے اپنے عمل کا نتیجہ ہے ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے حوالے سے یہ بیان کیا ہے کہ میرے جن کو مسلمان کر دیا گیا ہے ۔ یہ درحقیقت پیغمبر کی عصمت کی حفاظت کے اس نظام کا نتیجہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کارِ دعوت کے تحفظ کے لیے کیا جاتا ہے ۔

کتابیات

مسلم ، کتاب صفۃ القیامۃ و الجنۃ و النار ، باب ۱۷۔دارمی ، کتاب الرقاق ، باب ۲۴۔ مسند احمد ، مسند عبداللہ بن عباس،مسند عبد اللہ بن مسعود۔

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت جنوری 2001
مصنف : طالب محسن
Uploaded on : Jul 19, 2017
2247 View