غموں کا سال - خالد مسعود

غموں کا سال

[’’سیر و سوانح ‘‘ کے زیر عنوان شائع ہونے والے مضامین ان کے فاضل مصنفین کی اپنی تحقیق پر مبنی ہوتے ہیں، ان سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]

 

بعثت نبوی کا دسواں سال رسول اللہ ﷺکے لیے پے در پے مشکلات کا سال تھا۔ اسی لیے اس کو حضورﷺکے لیے عام الحزن یعنی غم کاسال قرار دیا گیا ہے۔ اس میں آپ کے چچا اور بنوہاشم کے سربراہ خاندان ابوطالب کا انتقال ہوا۔ اس کے جلد بعد رسول اکرم ﷺ کی غمگسار رفیقہ حیات کی رحلت ہوئی جو آپ کے لیے شدید صدمہ کا باعث ہوئی۔ بعد ازاں حضورﷺ نے طائف کے سرداروں سے راہ و رسم بڑھانے کی سعی کی جو بارآور نہ ہوئی اور آپ کو بے نیل مرام واپس آنا پڑا۔

ابوطالب کاانتقال:

ابوطالب نے بنوہاشم کی سربراہی کی پوری مدت میں حضورﷺ کی سرپرستی بڑی شفقت کے ساتھ کی اور وہ پورا تحفظ دیا جو قبیلہ کے ایک فرد کی حیثیت سے حضورﷺ کا حق تھا۔ تاہم آنحضرت ﷺ کی تعلیم نے ان کو متاثر نہ کیا اور وہ اپنے آبائی دین ہی پر قائم رہے۔ جب وہ مرض الموت کی کیفیت سے دوچار تھے تو حضورﷺ ان کی بیمار پرسی کے لیے تشریف لے گئے۔ دیکھا تو ابوجہل اور عبداللہ بن ابی امیہ بھی ان کے پاس موجود تھے۔ حضورﷺنے چچا سے کہا کہ آپ لا الہ الا اللہ کہہ دیجئے تاکہ میں خداکے ہاں آپ کے ایمان کی گواہی دے سکوں۔ ابوجہل اور عبداللہ دونوں نے ابوطالب کو عار دلائی کہ کیاتم عبدالمطلب کے طریقہ سے پھر جاؤ گے؟ نبی ﷺ برابر ابوطالب کو ایمان کی دعوت دیتے رہے مگر انہوں نے لا الہ الا اللہ کہنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ میں عبدالمطلب کے مذہب پر قائم ہوں۔ چنانچہ اسی پر ان کا انتقال ہوا۔۱؂
ابوطالب کے انتقال کے بعد خاندان کی سربراہی ابولہب کے پاس آئی جو اسلام کا کٹر دشمن تھا۔ روایات کے مطابق ابتدا میں تو اس نے نبی ﷺ کو اطمینان دلایا کہ وہ پہلے کی طرح اپنا مشن جاری رکھ سکتے ہیں لیکن جلد ہی قریش میں موجود اسلام کے مخالفین کے ساتھ اس نے ہم آہنگی پیدا کر لی اور حضورؐ کواپنے قبیلے کا پہلے کی طرح کا تحفظ حاصل نہیں رہا۔ مخالفین کی زیادتیاں بہت بڑھ گئیں۔ آپ کو پریشان کیاجانے لگا۔ حضورؐ تبلیغ کرتے تو ابولہب جس طرح پہلے بطور فرد آپ کی باتوں کی نفی کرنے کے لیے آپ کا پیچھا کرتاتھا اسی طرح اب بطور سردار قبیلہ بھی یہی حرکت کرتا۔

حضرت خدیجہ کا انتقال:

سیرت نگاروں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ابوطالب اور حضرت خدیجہ کی وفات ایک ہی سال ہوئی البتہ اس بارے میں اختلاف ہے کہ پہلے کس کا انتقال ہوا اور حضورﷺ کو یہ دو صدمے کتنے وقفہ سے پیش آئے۔ بعض روایات میں تو دونوں کے درمیان چند روز ہی کا وقفہ بتایا گیا ہے لیکن بعض میں ڈیڑھ دو ماہ کی مدت کا تعین کیاگیا ہے۔
رسول اللہ ﷺکے لیے حضرت خدیجہ کی جدائی غیر معمولی مسائل کو جنم دینے والی تھی۔ وہ آپ کی قدردان، مزاج شناس اور غمگسار بیوی تھیں۔ ان سے آپ کی چھ اولادیں ہوئیں جن میں سے چار بیٹیاں تھیں۔ زینب، رقیہ، ام کلثوم اور فاطمہ ۔ ان کے انتقال کے وقت صرف دو بیٹیاں شادی شدہ تھیں،زینب ،حضرت خدیجہ کے بھانجے ابوالعاص بن الربیع کے نکاح میں تھیں اور رقیہ حضرت عثمان بن عفان کے نکاح میں، جو اس وقت حبشہ میں مہاجر تھے۔ اس طرح گھر کو سنبھالنے کے لیے صرف دو بیٹیاں رہ گئیں جن کی عمریں اس وقت پندرہ اور دس گیارہ برس کے لگ بھگ رہی ہوں گی۔
اسلام کے لیے حضرت خدیجہ کی خدمات بے مثل تھیں۔ انہوں نے رسول اللہﷺ کی بعثت کے مراحل میں آپ کو دلاسا دینے، آپ کی تصدیق کرنے اور تبلیغ کے کام میں آپ کی ہمت افزائی کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ اس کے علاوہ انہوں نے اپنا مال راہ خدا میں صرف کر کے نبی ﷺ کو روزی کمانے کے دھندے سے آزاد ہی کر دیا، حضورﷺ کی دعوتی مشکلات میں آپ کا بھرپور ساتھ دیا اور آخر دم تک اسلام کی وفادار خادمہ رہیں۔ نبی ﷺ کے ساتھ انہوں نے رفاقت کا حق ادا کر دیا جس کے باعث اس پورے عرصہ میں آپ نے دوسری شادی کا کبھی سوچا تک نہیں۔ حضورﷺ مدۃ العمر ان کو یاد کر کے ان کی خوبیوں اور قربانیوں کا تذکرہ کیا کرتے۔
حضرت خدیجہ کے بعد جب گھر کا نظام چلنے میں دشواری پیش آئی تو عثمان بن مظعون کی زوجہ خولہ بنت حکیم نے آپ کو مشورہ دیا کہ پھر سے شادی کر لیں۔ انہوں نے دو رشتے تجویز کیے۔ ایک حضرت سودہ بنت زمعہ کا، جو سکران بن عمرو کی بیوہ تھیں اور ہجرت حبشہ سے لوٹنے والوں میں شامل تھیں، دوسرا عائشہ بنت ابی بکر کا جو ابھی تک غیر شادی شدہ تھیں، لیکن ان کی نسبت مطعم بن عدی کے بیٹے جبیر کے ساتھ طے پا چکی تھی۔ آنحضرتﷺنے دونوں رشتے پسند فرمائے لیکن حضرت عائشہ کی نسبت پہلے سے طے ہونے کے باعث سودہ سے شادی کر لی۔ حضرت ابوبکر اپنے لیے خیروبرکت کا یہ موقع کہاں کھونے والے تھے۔ انہوں نے مطعم بن عدی سے ملاقات کر کے اس کا عندیہ معلوم کرنا چاہا۔ مطعم کی بیوی نے کہا کہ اگر ہم بیٹے کی شادی آپ کے ہاں کر دیں تو آپ میرے بیٹے کو بھی بے دین بنا لو گے۔ حضرت ابوبکر نے مطعم سے اس کا موقف جاننا چاہا تو اس نے بیوی کے بیان کی حمایت کر دی۔ حضرت ابوبکر نے کہا کہ پھر ایسا رشتہ لٹکائے رکھنے کا فائدہ؟ چنانچہ انہوں نے نسبت توڑ دی۔حضرت ابوبکر نے خولہ بنت حکیم سے کہا کہ اب میری طرف سے اجازت ہے، حضورﷺ تشریف لے آئیں۔ اس طرح حضرت عائشہ کی نسبت آنحضرتﷺ کے ساتھ ٹھہر گئی۔ البتہ عربوں کے دستور کے مطابق رخصتی کا معاملہ موخر کر دیاگیا۔

سفر طائف:

ابولہب کی سرداری میں جب آنحضرت ﷺ کو بنوہاشم سے وہ مدد نہ ملی جو بطور فرد قبیلہ آپ کا حق تھا تو قریش کی ستم رانی میں اضافہ ہو گیا اور مخالف سردار آپ کی ایذا رسانی میں بے حد جری ہو گئے۔ آپ کو تکلیف پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیتے۔ ابولہب کی طرف سے کوئی روک ٹوک نہ ہوتی۔ جب آپ لوگوں کو دین کی بات سناتے تو یہ لوگ آپ پر خاک ڈالتے اور آپ کے مخاطبوں سے کہتے کہ اس شخص کے کہنے میں مت آؤ، یہ تمہیں لات اور عزیٰ سے چھڑانا چاہتا ہے۔ اسی طرح کی صورت حال میں ایک مرتبہ آپ گھر پہنچے تو آپ کی صاحبزادی نے آپ کے سر سے مٹی صاف کی اور بال دھوئے۔ وہ رونے لگیں تو آپ نے ان کو دلاسا دیا۔
ایک مرتبہ آپ بیت اللہ کے پاس کھڑے نماز ادا کر رہے تھے۔ ابوجہل اور اس کے ساتھی حسب معمول وہاں بیٹھے تھے۔ ان میں سے کسی نے کہا کہ تم میں کوئی ایسا شخص ہے جو فلاں قبیلہ کے محلہ میں جا کر اوجھ اٹھا لائے اور جب محمد سجدہ کی حالت میں ہوں تو ان کی پیٹھ پر رکھ دے۔ اس پر مجلس کا بدبخت ترین آدمی اٹھا اور جا کر اوجھ اٹھا لایا۔ وہ انتظار میں رہا۔ جونہی حضورﷺ سجدہ میں گئے اس نے اوجھ آپ کے کندھوں پر رکھ دی۔ ابوجہل اور اس کی پارٹی یہ منظر دیکھ کر لوٹ پوٹ ہونے لگے۔ حضورﷺ سجدہ ہی کی حالت میں رہے اور سر نہیں اٹھایا۔ آپ کی بیٹی حضرت فاطمہ کو اس حادثہ کی خبر ہوئی تو وہ بھاگی ہوئی مسجد میں آئیں اور اوجھ حضورﷺ کے کندھوں سے اتاری۔ جب حضورﷺنے سجدہ سے سر اٹھایا تو دعا کی کہ اے اللہ، تو ان قریش کے لیڈروں، ابوجہل، عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ولید بن عتبہ، امیہ بن خلف اور عقبہ بن ابی معیط سے نمٹ لے۔ اس پر پوری پارٹی نہایت جزبز ہوئی کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اس شہر میں جو دعا مانگی جائے وہ قبول ہوتی ہے۔ راوی ابن مسعود بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے جن قرشی سرداروں کو بددعا دی، میں نے ان سب کو غزوہ بدر کے بعد گڑھے میں مردہ پڑے دیکھا۲؂۔
ایذا رسانی کا یہ سلسلہ مسجد حرام ہی تک محدود نہ تھا بلکہ بدبخت لوگ آپ کے گھر کے اندر بھی غلاظت پھینک دیتے۔ روایات کے مطابق آپ اپنے ہمسایوں سے پوچھتے کہ کیا یہی حق ہمسائیگی ہے کہ پڑوسی کو اذیت دی جائے۔ لیکن ان لوگوں پر اس طرح کی اپیلیں کیا اثر کر سکتی تھیں جو خدا اور بندوں کے حقوق ہی سے ناآشنا تھے۔
جب رسول اللہ ﷺ نے دیکھا کہ ابولہب نے ان کو اپنی سرپرستی سے عملاً محروم کر دیا ہے تو آپ کو متبادل جوار حاصل کرنے کا خیال آیا۔ مکہ اور طائف اس لحاظ سے جڑواں شہر تھے کہ دونوں کی لیڈرشپ ملک بھر میں معزز و محترم سمجھی جاتی تھی۔ قریش کی طائف میں جائدادیں تھیں۔ اسی طرح وہاں کے ثقیف قبائل مکہ میں بھی رہائش رکھتے تھے۔ لہٰذا ان دونوں شہروں میں لوگوں کی آمدورفت بھی رہتی اور باہم رشتے ناتے بھی ہوتے۔ عربوں میں کسی معزز آدمی کا جوار حاصل کرنا ایک معمول کی بات تھی اور شرفاء اس سے انکار نہیں کرتے تھے۔ لہذا نبی ﷺ نے وہاں جا کر قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا ۳؂۔
حضورﷺنے اپنے متبنیٰ زید بن حارثہ کو ساتھ لیا اور طائف پہنچے۔ وہاں عمرو بن عمیر کے تین بیٹے ۔۔ عبدیالیل، مسعود اور حبیب ۔۔ سب سے بااثر سردار تھے۔ آپ نے ان کو اسلام کی دعوت بھی پیش کی اور جوار بھی طلب کیا۔ نہایت غیر متوقع طور پر انہوں نے آپ کا ساتھ دینے اور قریش کے بالمقابل کھڑا ہونے سے انکار کیا اور آپ کی تعلیم کا بھی مذاق اڑایا۔ اس معاملہ میں تینوں بھائیوں کی رائے ایک ہی تھی۔ لہذا نبی ﷺ نے وہاں رکنا مناسب نہیں سمجھا اور واپسی کی راہ لی۔ ان ظالموں نے اپنے غلاموں اور لڑکوں بالوں کو ہدایت کی کہ اس شخص کا پیچھا کریں اور اس کو زچ کریں۔ انہوں نے اسی پر اکتفا نہیں کی بلکہ حضورﷺ کو اور زید کو زخمی کر دیا۔ راستہ میں انگوروں کا باغ نظر آیا تو حضورﷺ سستانے کے لیے اس میں داخل ہو گئے اور بیلوں کی چھاؤں میں آرام فرمایا۔ یہ باغ مکہ کے سرداروں عتبہ اور شیبہ کا تھا۔ اتفاق سے وہ دونوں اس میں موجود تھے۔ ان کی نظر آپ پر پڑی تو خاندانی نسبت کالحاظ کرتے ہوئے انہوں نے ایک طشتری میں انگور آپ کو بھجوائے۔ ان کا نصرانی غلام عداس یہ تحفہ آپ کے لیے لایا۔ آپ نے بسم اللہ پڑھ کر انگور کھانے شروع کیے تو غلام چونکا۔ کہنے لگا کہ اس دیار کے لوگ تو کھاتے وقت یہ کلمات نہیں ادا کرتے۔ حضورﷺ کو عداس سے دلچسپی پیدا ہوئی اور اس کا تعارف چاہا۔ اس نے بتایا کہ میں نینویٰ کانصرانی ہوں۔ آپ نے فرمایا کہ تمہارا علاقہ تو ایک صالح شخص یونس بن متی کا ہے۔ وہ نبی تھا، میں بھی نبی ہوں۔ لہٰذا وہ میرابھائی ہے۔ یہ سن کر عداس نے حضورﷺ کے ہاتھوں اور سر کو بوسہ دیا۔
طائف سے رخصت ہوتے وقت حضورﷺ نے نہایت آزردہ ہو کر دعا کی کہ اے رب، میں نہایت کمزور ہوں، میرے وسائل کم اور میرے حیلے کمزور ہیں۔ تو کمزوروں کا مالک ہے، تیرے سوا میرا بھروسہ کسی پر نہیں۔ تو ہی نصرت فرما۔ روایت میں آتا ہے کہ فرشتہ نے حاضر ہو کر اجازت چاہی کہ میں اس بستی کو دو پہاڑوں کے بیچ میں کچل دوں۔ لیکن آپ نے منع فرمایا کہ میں اللہ سے امید رکھتا ہوں کہ وہ انہی ظالموں کی نسل سے ایسے لوگ پیدا کرے گا جو صرف اس ذات واحد لا شریک لہ‘ کی عبادت کریں گے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گے۔
مکہ کو واپس ہوتے ہوئے آپ نے نخلہ کے مقام پر قیام کیا اور قرشی لیڈر سہیل بن عمرو کا جوار حاصل کرنے کے لیے اس کے پاس پیغام بھیجا۔ اس نے کہا کہ بنو عامر بن لوی (سہیل کاخاندان) بنو کعب بن لوی (آنحضرت کاخاندان) کو پناہ نہیں دے سکتے۔ اس کے بعد آپ نے مطعم بن عدی، جس کا تعلق بنو عبدمناف سے تھا، کے پاس یہی پیغام بھیجا تو اس نے قبول کر لیا اور کہلا بھیجا کہ میری پناہ میں تشریف لے آئیں۔ آپ نے مطعم کے ہاں شب بسر کی اور صبح کو وہ اپنے بیٹوں کے جلو میں آپ کو مسجد حرام میں لے گیا اور اعلان کیا کہ محمد کو اب میرا جوار حاصل ہے۔ کوئی ان کو گزند نہ پہنچائے۴؂۔
اس واقعہ سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ سردار بننے کے بعد ابولہب نے عرب روایت کے خلاف محض تعصب اور دشمنی کی بنا پر اپنے ایک فرد قبیلہ کا حق حفاظت ادا نہیں کیا اور اس کے دشمنوں کا علانیہ ساتھ دیا۔ ورنہ یہ کیسے ممکن تھا کہ حضورﷺبنوہاشم کے ساتھ اپنی وابستگی کے باوجود دوسرے خاندان کے ایک سردار کا جوار حاصل کر کے مکہ میں داخل ہوتے۔
حضورﷺ کے سفر طائف کو بالعموم یہ معنی پہنائے جاتے ہیں کہ آپ نے اہل مکہ کو چھوڑ کر ثقیف میں قسمت آزمائی کا فیصلہ کیا اور تبلیغ کا آغاز عبد یا لیل، مسعود اور حبیب تین سرداروں سے کیا۔ یہ نقطہ نظر صحیح نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو اس کا مطلب یہ تھا کہ حضورﷺ نے اپنے اصل مخاطبوں یعنی قریش سے قطع تعلق کر لیا اور اپنا میدان عمل خود ہی تبدیل کر لیا۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کارسول اپنے اولین مخاطبوں کو جن کی طرف اس کی بعثت ہوتی ہے بلا اذن الٰہی نہیں چھوڑا کرتا، حتیٰ کہ اس کو اپنے اوپر ایمان لانے والوں کو دشمن کے رحم و کرم پر چھوڑ کر خود بستی سے نکل جانے کی اجازت تک نہیں ہوتی۔ وہ جہاز کے کپتان کی طرح خود مسافروں کی بحفاظت ساحل کو روانگی کی نگرانی کرتا ہے اور سب سے آخر میں جہاز کو ڈوبنے کے لیے چھوڑ کر اپنی کشتی میں سوار ہو کر خود کو بچاتا ہے۔ چونکہ قریش کی طرح قبیلہ ثقیف بھی عرب کے مضبوط قبائل میں سے تھا اس لیے حضورﷺ کا وہاں جوار حاصل کرنے کے لیے جانا ، تاکہ آپ اپنا کام مکہ میں جاری رکھ سکیں، ایک قابل فہم بات ہے۔

رسول اللہ ﷺکے لیے طمانیت کا آسمانی انتظام:

ان پے در پے مشکلات اور دعوت دین کے مقابل میں کفار کے مایوس کن رویہ سے حضورﷺ کو جو پریشانی لاحق ہوتی اس کے مداوا کے لیے ہدایات آپ کو ساتھ ساتھ دی جاتیں تاکہ آپ کو سکون اور اطمینان کی دولت میسر ہو۔ طائف سے مایوس لوٹنے پر آپ کو جنات کی قرآن سے اثر پذیری کا واقعہ سنایا گیا۔ یہ واقعہ طائف سے واپسی پر نخلہ میں قیام کے دوران پیش آیا۔ حضورﷺ شب کی نماز میں بلند آواز میں قرآن مجید کی تلاوت کر رہے تھے تو جنوں کی ایک جماعت کا وہاں گزر ہوا۔ قرآن کی تلاوت سن کر وہ ٹھٹک گئے اور نہایت غور سے اس کو سنتے رہے۔ جب تلاوت ختم ہوئی تب انہوں نے اپنی راہ لی اور اپنی قوم میں واپس پہنچ کر اس بات کا تذکرہ کیا کہ ہم نے نہایت عالی شان اور تعجب خیز کلام سنا ہے جس میں پوری قوت سے رب کی وحدانیت کا اقرار اور شرک کرنے والوں کی مذمت کی گئی ہے جبکہ ہمارے بدبخت لیڈر رب کی شان میں گستاخیاں کرتے اور ہمیں غلط راہ پر چلانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ یہ کلام اہل زمین پر بڑے اہتمام سے نازل کیاگیا ہے اور اس کے نزول کے دوران شیاطین کی دراندازی روکنے کے لیے پہرے لگا دیے گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پہلے ہم چھپ چھپا کر عالم بالا کی خبروں کی سن گن حاصل کر لیا کرتے تھے لیکن اب ایسا کریں تو ہمارے اوپر شہابیے برسائے جاتے ہیں۔ قرآن مجید کی تلاوت پر جنوں کے اس رد عمل کے بارے میں آنحضرت ﷺ کو اس لیے بتایا گیا کہ آپ کو تسلی ہو کہ خرابی نہ اس کلام میں ہے اور نہ آپ کے سنانے میں۔ یہ صرف بعض سننے والوں کے دلوں کی سختی ہے جس کے باعث ان پر یہ کلام اثر نہیں کرتا۔ ورنہ طبیعت میں ہدایت کی طلب ہو تو جنوں جیسی ایک غیر متعلق جماعت بھی قرآن سے اتنا متاثر ہوتی ہے کہ اپنی قوم کی صحیح رہنمائی پر کمربستہ ہو جاتی ہے۔
جنوں کی اثرپذیری کایہ واقعہ وحی کے ذریعہ سے حضورﷺکو بتایا گیا۵؂۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ اس جماعت سے نہ آپ کی ملاقات ہوئی اور نہ کوئی گفتگو ہوئی۔ یہ جنات پہلے ہی سے صاحب ایمان تھے۔ ان کو قرآن میں اپنے عقیدہ توحید کی تائید نظر آئی تو وہ اس پر ایمان لائے اور اپنی قوم کو بھی اس کی دعوت دی۔

نماز تہجد کا حکم:

یوں تو شروع ہی سے مشکلات کا مقابلہ کرنے کے لیے حضورﷺ کو صبر و استقامت اور کثرت نماز کی تلقین کی گئی تھی اور آپ اس پر بھرپور عمل بھی کر رہے تھے لیکن نئے حالات میں، جب قریش ہی نہیں بلکہ بنوہاشم کی طرف سے بھی آپ پر زیادہ سختی شروع ہو گئی تو آپ پر روزانہ کی پانچ فرض نمازوں کے علاوہ ایک چھٹی نماز ۔۔نماز تہجد۔۔ بھی واجب کر دی گئی اور فجر میں قرآن کی تلاوت میں اضافہ کرنے کی ہدایت کی گئی کیونکہ یہ وقت ایسا ہوتا ہے جب طبیعت ہشاش بشاش ہوتی ہے اور زبان سے ادا ہونے والے کلمات دل کی گہرائیوں میں اتر کر اس کو متاثر کرتے ہیں۔ یہ ہدایت اگرچہ آپ کے لیے تھی لیکن تمام اہل ایمان نے بھی اس پر عمل شروع کر دیا کیونکہ نبی ﷺ اور آپ کے تمام ساتھی ایک جیسے حالات میں زندگی گزار رہے تھے اور سب کے مسائل ایک جیسے تھے۔

 

حواشی و حوالہ جات
۱؂ صحیح مسلم۔ کتاب الایمان ۔ باب اول الایمان قول لا الہ الا اللہ۔ ج ۱، ص ۳۱
۲؂ صحیح بخاری ۔ کتاب الوضو۔ باب اذا القی علی ظہر المصلی قذر
۳؂ السیرۃ النبویہ۔ ابن ہشام۔ ص ۴۱۹
۴؂ ایضاً، ص ۳۸۱
۵؂ جنوں کے قرآن سننے کا واقعہ زیادہ تفصیل سے سورہ الجن میں بیان ہوا ہے۔ اس کامختصر ذکر سورہ الاحقاف میں بھی ہے۔

-------------------------------

 

بشکریہ ماہنامہ اشراق

تحریر/اشاعت جون 2009
مصنف : خالد مسعود
Uploaded on : Sep 07, 2016
3585 View