بنی اسرائیل میں ایک عظیم رسول کی آمد کی خبر (2) - خالد مسعود

بنی اسرائیل میں ایک عظیم رسول کی آمد کی خبر (2)

[جناب خالد مسعود صاحب کی تصنیف ’’حیات رسول امی‘‘ سے انتخاب]

 

انجیلوں میں آسمانی بادشاہت کا تذکرہ

انجیلوں کی موجودہ حیثیت اگرچہ ایک قابل بحث موضوع ہے، لیکن چونکہ عیسائی دنیا چار انجیلوں کو قابل اعتماد قرار دیتی اور ان کے مذہبی رہنما ان کی حقانیت کے قائل ہیں، اس لیے دوسرے ادیان کے ماننے والے، خواہ ان کی استنادی حیثیت کے بارے میں ان سے مختلف رائے رکھتے ہوں، انھیں ان کتابوں سے متعلق کسی مسئلہ پر تحقیق کرتے وقت بہرحال انھی کتابوں کے بیان پر اعتماد کرنا پڑتا ہے۔
انجیلوں کاقاری ان میں بارہا استعمال ہونے والی اصطلاح ’آسمان کی بادشاہی‘ (Kingdom of Heaven) کی طرف متوجہ ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اس کا ذکر عیسیٰ علیہ السلام کے ہم عصر نبی یحییٰ علیہ السلام نے بھی کیا ہے اور حضرت مسیح علیہ السلام اس کو مختلف معانی میں بار بار استعمال کرتے ہیں۔ کہیں وہ اس سے محض نبوت مراد لیتے ہیں یعنی نبی پر ایمان لانے والا گویا آسمان کی بادشاہی میں داخل ہو جاتا ہے۔ اور کہیں اہل ایمان کی آخری سرفرازی یعنی جنت میں داخلہ کو آسمان کی بادشاہی میں داخلہ سے تعبیر کرتے ہیں۔ یہ دونوں مواقع عبارت کے سیاق و سباق پر غور کرنے سے بآسانی متعین کیے جاسکتے ہیں۔ ان دو استعمالات کے علاوہ انھوں نے آسمان کی بادشاہی کے نزدیک آجانے کا نہایت قوت سے پرچار کیا، اس پرچار کو اپنی آمد کا مقصد قرار دیا اور اس بادشاہی کی خصوصیات کو متعدد تمثیلوں کی مدد سے سمجھایا۔ یہود کو بالخصوص خبردار کیا کہ اگر وہ اس بادشاہی میں داخل نہ ہوئے تو وہ ملعون قوم ٹھہریں گے۔ آسمان کی اس بادشاہی کا اطلاق عام نبوت پر ہوتا ہے نہ آخرت کے انجام پر، لہٰذا یہ ان دونوں سے مختلف کوئی چیز ہے۔

حضرت یحییٰ علیہ السلام کی منادی

انجیل متی کو کھولیے تو حضرت یحییٰ (یوحنا) علیہ السلام آسمانی بادشاہی کے نزدیک آ جانے کی خبر دیتے نظر آتے ہیں۔ ان کی منادی یہ ہواکرتی کہ ’’توبہ کرو، کیونکہ آسمان کی بادشاہی نزدیک آ گئی‘‘ (متی ۳:۲) انھوں نے یہود کے دو مشہور گروپوں صدوقیوں اور فریسیوں کو مخاطب کر کے متنبہ کیا کہ:

’’اے سانپ کے بچو، تم کو کس نے جتا دیا کہ آنے والے غضب سے بھاگ سکو گے۔ پس توبہ کے موافق پھل لاؤ اور اپنے دلوں میں یہ کہنے کا خیال نہ کرو کہ ابراہیم ہمارا باپ ہے، کیونکہ میں تم سے کہتا ہوں کہ خدا ان پتھروں سے ابراہیم کے لیے اولاد پیدا کر سکتا ہے۔ اور اب درختوں کی جڑ پر کلہاڑا رکھا ہوا ہے۔ پس جو درخت اچھا پھل نہیں لاتا وہ کاٹا اور آگ میں ڈالا جاتا ہے۔ میں تو تم کو توبہ کے لیے پانی سے بپتسمہ دیتا ہوں، لیکن جو میرے بعد آتا ہے، وہ مجھ سے زور آور ہے۔ میں اس کی جوتیاں اٹھانے کے لائق نہیں۔ وہ تم کو روح القدس اور آگ سے بپتسمہ دے گا۔ اس کا چھاج اس کے ہاتھ میں ہے اور وہ اپنے کھلیان کو خوب صاف کرے گا اور اپنے گیہوں کو توکھتے میں جمع کرے گا، مگر بھوسی کو اس آگ میں جلائے گا جو بجھنے کی نہیں۔ ‘‘(متی ۳:۷۔۱۲)

اس خطاب میں حضرت یحییٰ علیہ السلام یہود کو خبردار کر رہے ہیں کہ ان کے لیے جو وقت آگے آ رہا ہے ، اس سے وہ اپنی جان صرف اس صورت میں بچا سکتے ہیں کہ وہ اپنے نسب پر غرور کرنے کے بجائے توبہ کریں اور آسمانی بادشاہی کو قبول کریں۔ ابراہیم علیہ السلام کی اولاد ان کے سوا اور بھی ہے، جو اگرچہ وحی و الہام سے بے بہرہ ہونے کے باعث پتھروں کے حکم میں ہے، لیکن اللہ تعالیٰ ان کو دین کی وراثت منتقل کر سکتا ہے۔ چونکہ بنی اسرائیل خداوند تعالیٰ سے کیے گئے اپنے عہد کو پورا کرنے سے قاصر رہے ہیں، اس لیے اب ان کا وجود عبث ہے۔ اگر وہ توبہ نہیں کریں گے تو ان کو ایک بے ثمر درخت کی مانند کاٹ دیاجائے گا۔ میرے بعد آنے والا پیغمبر ایمان لانے والوں کے لیے تو سلامتی لائے گا، لیکن مخالفین کو جہنم رسید کرنے کاباعث ہو گا۔ وہ میری طرح پانی سے بپتسمہ نہیں دے گا، بلکہ روح القدس اور آگ سے بپتسمہ دے گا، یعنی وحی الٰہی پر ایمان لانے کی دعوت دے گا اور جو لوگ اس کا انکار کریں گے ، ان کا دماغ آگ سے درست کرے گا۔ جنگ کے لیے آگ کااستعارہ نہایت معروف ہے۔ ظاہر ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر اس اقتباس کو منطبق کرنا ممکن نہیں۔ وہ بنی اسرائیل میں سے تھے، پانی سے بپتسمہ دیتے تھے، یوحنا کی طرح یہود کو تنبیہ کرتے کرتے ان کی عمر گزری اور ان کی زندگی میں جنگ کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔ حضرت یحییٰ علیہ السلام کے الفاظ ’جو میرے بعد آتا ہے‘ سے بھی یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ اس اقتباس کا مصداق حضرت عیسیٰ ہیں۔ کیونکہ وہ آں جناب کے ہم عصر تھے اور متی کی روایت کے مطابق اس خطاب کے وقت بذات خود حضرت یحییٰ کی خدمت میں موجود بپتسمہ کی درخواست کر رہے تھے۔ (متی ۳:۱۳) لہٰذا ماننا چاہیے کہ ایک پیغمبر کی رسالت کی خوش خبری پہلے حضرت یحییٰ نے دی اور اسی کو زیادہ واشگاف الفاظ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے سنایا، جیسا کہ متی کے اگلے ابواب میں ہے۔ گویا آسمانی بادشاہت کے نزدیک آ جانے سے مراد اس موعود پیغمبر کی بعثت کا زمانہ قریب آ جانا تھا۔

حضرت مسیح کی منادی

حضرت یحییٰ کو رومی گورنر نے گرفتار کر لیا تو

’’اس وقت سے یسوع نے منادی کرنا اور یہ کہنا شروع کیا کہ توبہ کرو، کیونکہ آسمان کی بادشاہی نزدیک آ گئی ہے۔‘‘(متی ۴:۱۷)

یہ خوش خبری آں جناب نے کسی ایک جگہ نہیں، بلکہ علاقے میں گھوم پھر کر ہر جگہ دی:

’’اور یسوع تمام گلیل میں پھرتا رہا اور ان کے عبادت خانوں میں تعلیم دیتا اور بادشاہی کی خوش خبری کی منادی کرتارہا۔ ‘‘(متی ۴:۲۳)

گلیل کے بعد آپ کفر نحوم کی بستی میں یہ منادی کرتے رہے۔ جب وہاں سے رخصت ہونے لگے تو لوگوں نے درخواست کی کہ آپ ہمارے پاس سے نہ جائیں۔ آپ نے جواب دیا:

’’مجھے اور شہروں میں بھی خدا کی بادشاہی کی خوش خبری سنانا ضرور ہے، کیونکہ میں اسی لیے بھیجا گیا ہوں۔ ‘‘(لوقا ۴:۴۳)

[باقی]

-------------------------------

 

بشکریہ ماہنامہ اشراق

تحریر/اشاعت مارچ 2006
مصنف : خالد مسعود
Uploaded on : Sep 08, 2016
2115 View