بنی اسرائیل میں ایک عظیم رسول کی آمد کی خبر (3) - خالد مسعود

بنی اسرائیل میں ایک عظیم رسول کی آمد کی خبر (3)

[جناب خالد مسعود صاحب کی تصنیف ’’حیات رسول امی‘‘ سے انتخاب]

 

اس سے معلوم ہوا کہ آپ نے اپنی آمد کا خاص مقصد یہ بتایا کہ مجھے لوگوں کو نبی موعود کی آمد کی نوید سنانا ہے۔ آپ کی کتاب کا عنوان انجیل ہے جس کے معنی خوش خبری کے ہیں۔ عیسائی اس خوش خبری کا مصداق خود حضرت عیسیٰ علیہ السلام کوقرار دیتے ہیں، حالانکہ ایسا ماننے کا کوئی قرینہ نہیں۔ اس کے نمایاں وجوہ حسب ذیل ہیں:
ا۔اگر حضرت یحییٰ کی بشارت اور اپنی خوش خبری کا مصداق سیدنا مسیح خود ہوتے تو شہروں میں ان کی منادی ان الفاظ میں ہوتی کہ آسمان کی بادشاہی آ چکی۔ اب تمھیں انتظار کس کا ہے، ایمان لاؤ۔
ب۔ جب حضرت یحییٰ قیدخانہ میں تھے اور انھوں نے سیدنا مسیح کی تبلیغ کی شہرت سنی تو انھوں نے پیغام بھیج کر حقیقت معلوم کی۔ اس کے جواب میں حضرت مسیح نے اس بات کی تردید فرمائی کہ آپ ہی موعود نبی ہیں:

’’یوحنا نے قیدخانہ سے پچھوا بھیجا کہ آنے والا تو ہی ہے یا ہم دوسرے کی راہ دیکھیں تو جواب بھجوایا کہ غریبوں کو خوش خبری سنائی جا رہی ہے اور مبارک وہ ہے جو میرے سبب سے ٹھوکر نہ کھائے۔ ‘‘(متی ۱۱: ۴۔۶)

اس اقتباس میں ’’آنے والا‘‘ سے مراد وہ خاص پیغمبر ہے جس کی آمد کی اطلاع انبیاے بنی اسرائیل مسلسل دیتے آئے اور جس پر ایمان لانے کا عہد بنی اسرائیل کوہ طور کے دامن میں کر چکے تھے۔ غریبوں کو جو خوش خبری سنائی جارہی تھی ، وہ آسمانی بادشاہت کے نزدیک آنے کی تھی۔ غریب سے مراد اللہ کے آگے عاجزی و فروتنی کا اظہار کرنے والے لوگ ہیں جن کے متعلق مسیح علیہ السلام کا قول یہ ہے کہ ’’مبارک ہیں وہ جو دل کے غریب ہیں، کیونکہ آسمان کی بادشاہی انھی کی ہے‘‘۔ (متی ۵:۳) دوسرے الفاظ میں مغرور اور ہٹ دھرم لوگ اس بادشاہی میں شامل ہونے سے محروم رہیں گے۔
اوپر کے اقتباس سے صاف ظاہر ہے کہ حضرت یحییٰ خود جس پیغمبر کی آمد کی خوش خبری دیتے رہے تھے، اسی کی آمد کی بابت انھوں نے حضرت مسیح سے پچھوایا کہ کیا وہی موعود پیغمبر ہیں۔ آں جناب نے واضح الفاظ میں جواب بھجوایا کہ میں تو خود اس کی آمد کی خوش خبری سنا رہا ہوں۔ میری ذات کے بارے میں کسی کو غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے۔ مطلب یہ ہوا کہ موعود پیغمبر میں نہیں، میرے بعد آنے والا ہے۔
ج۔ حضرت مسیح مدۃ العمریہ نوید خود بھی سناتے رہے اور آخر میں اپنے خلفا کو بھی اس بات کی تلقین فرمائی کہ میرے بعد اسی مشن کی تکمیل تم کرنا۔ آپ نے فرمایا:

’’اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے پاس جانا اور چلتے چلتے یہ منادی کرنا کہ آسمان کی بادشاہی نزدیک آ گئی ہے۔ ‘‘(متی ۱۰ :۷۔۸)

یہ تمام قرائن اس کے حق میں ہیں کہ حضرت مسیح کی بعثت کا مقصد اپنے بعد آنے والے اس نبی کی راہ ہموار کرنا تھا جس کی نوید پچھلے انبیا بھی سناتے رہے تھے۔ آپ نے لوگوں کو خبردار کیا کہ جس خاص پیغمبر کا تمھیں انتظار تھا، اب اس کی آمد کا وقت نزدیک آ چکا ہے۔ میرے بعد اس کی آمد کا انتظار کرو۔

آسمانی بادشاہت کی حقیقت تمثیلات کی روشنی میں

متی باب ۱۳ میں متعدد تمثیلات کے ذریعے سے سیدنا مسیح علیہ السلام نے آسمانی بادشاہت کی حقیقت سمجھائی۔ فی الواقع ان تمثیلات میں پیغمبر موعود کی رسالت کی خصوصیات سمو دی گئی ہیں۔ بعض خصوصیات حسب ذیل ہیں:
ا۔آسمانی بادشاہت رائی کے دانہ کی طرح ہو گی جو بہت چھوٹا ہوتا ہے، لیکن جب اگتا ہے تو بڑھتے بڑھتے اس قدر تناور درخت بن جاتا ہے کہ اس کی ڈالیوں پر پرندے بسیرا کرتے ہیں۔ یا اس کی مثال وہ خمیر ہے جو ایک عورت ذرا سی مقدار میں بہت سے آٹے میں ملا دیتی ہے تو کچھ دیر بعد تمام آٹے میں خمیر اٹھ چکا ہوتا ہے۔ یعنی نبی موعود اپنی دعوت کا آغاز کریں گے تو وہ تنہا ہوں گے۔ اس کے بعد لوگ ان کے ہم نوا بنتے جائیں گے، ان کا قافلہ بڑھتا چلا جائے گا، یہاں تک کہ ان کی تعلیم کی روشنی سے پورا ملک جگمگا اٹھے گا۔ ہوتے ہوتے کئی دوسری اقوام اسی کی نام لیوا ہو جائیں گی اور اسی کی پناہ میں آسودگی پائیں گی۔
ب۔آسمانی بادشاہت کھیت میں چھپے کسی خزانے کی طرح ہے جس پر اگر کوئی شخص مطلع ہو جائے تو اس کو حاصل کرنے کے لیے اپنی جائداد بیچ کر اس کھیت ہی کو خرید لیتا ہے۔ یا اس کی تمثیل یوں ہے جیسے عمدہ موتیوں کا کوئی سوداگر جب اپنی پسندکا بیش قیمت موتی کہیں دیکھ لیتا ہے تو اس کو حاصل کرنے کی خاطر اپنا سب کچھ بیچ دیتا ہے۔ یعنی نبی موعود کی دعوت کی قدر وقیمت سے جو شخص واقف ہو جائے گا، وہ اس کو حاصل کرنے کے لیے کسی چھوٹی یا بڑی قربانی سے دریغ نہیں کرے گا۔ وہ مال و جان کو عزیز نہیں رکھے گا، بلکہ دعوت کی خاطر جان لڑا دینے کو اپنی سعادت سمجھے گا۔
ج۔آسمانی بادشاہت اس بڑے جال کی مانند ہو گی جو دریامیں ڈالا جاتا ہے تو اس میں ہر قسم کی چھوٹی بڑی مچھلیاں سمیٹ لی جاتی ہیں۔ اس کے بعد دریاکے کنارے پر لا کر اچھی مچھلیاں الگ کر لی جاتی ہیں اور خراب پھینک دی جاتی ہیں۔ علیٰ ہذالقیاس اچھے بیج کے ساتھ کچھ خراب بیج بھی کھیت میں پڑ جاتا ہے تو کسان اس کو اگنے اور بڑھنے دیتا ہے۔ جب فصل کٹتی ہے تو خراب بیج کے پودوں کو الگ جمع کر کے آگ لگا دی جاتی ہے اور اچھے بیجوں کی فصل کو سمیٹ کر محفوظ کر لیاجاتا ہے۔ اس تمثیل میں یہ حقیقت بیان ہوئی ہے کہ موعود نبی کی رسالت میں مومن و منافق جمع ہو جائیں گے تو منافقوں کو برداشت کیاجائے گا اور ان پر فوری گرفت نہیں ہو گی۔ بعد کے مراحل میں ان کے ساتھ ایسا معاملہ کیا جائے گا جس سے ان میں اور خالص و مخلص اہل ایمان میں امتیاز ہو جائے گا۔

یہود کو تنبیہ

سیدنا مسیح علیہ السلام چونکہ بنی اسرائیل کی اصلاح پر مامور تھے، اس لیے انھوں نے اپنی قوم کو خاص طور پر متنبہ کیاکہ ان کاماضی کارویہ ایسا ہے جس کے بعد اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت خداوندی کی حامل قوم کی حیثیت سے کام کرنے کا مزید موقع نہیں دے گا اور یہ تاج ان لوگوں کو پہنایا جائے گا جو اس کی ذمہ داریوں کا حق ادا کرنے والے ہوں۔ آپ نے فرمایا:

’’میں تم سے کہتا ہوں کہ بہتیرے پورب اور پچھم سے آ کر ابراہیم، اسحاق اور یعقوب کے ساتھ آسمان کی بادشاہی کی ضیافت میں شریک ہوں گے، مگر بادشاہی کے بیٹے باہر اندھیرے میں ڈالے جائیں گے۔ وہاں رونا اور دانت پیسنا ہو گا۔‘‘ (متی ۸: ۱۲۔۱۳)

اس قول کا مفہوم نہایت واضح طور پر یہ ہے کہ مشرق و مغرب کی کتنی قومیں نبی آخرالزمان پر ایمان لا کر اپنے آپ کو اخروی ضیافت کا مستحق بنا لیں گی، لیکن بنی اسرائیل جس ڈگر پر چل رہے ہیں ، اس کاانجام یہ ہو گا کہ یہ پیغمبروں کی اولاد ہونے کے باوجود ایمان سے محروم رہ کر ابدی خسران کے مستحق ٹھہریں گے۔ ایسا کیوں ہو گا اور بنی اسرائیل سے خلعت نبوت کیوں چھین لی جائے گی، اس کو سیدنامسیح نے تاکستان کی مشہور تمثیل سے واضح فرمایا:
یہ تمثیل یوں ہے کہ ایک مالک نے تاکستان یعنی انگوروں کا باغ لگایا۔ وہ اسے باغ بانوں کو ٹھیکے پر دے کر پردیس چلا گیا۔ پھل کا موسم آیا تو اس نے اپنے نوکروں کو پھل لانے کے لیے بھیجا۔ باغ بانوں نے نوکروں کو پکڑ کر کسی کو پیٹا، کسی کو پتھر مارے اور کسی کو قتل کر دیا۔ مالک نے پہلے سے زیادہ نوکر بھیجے۔ ان کے ساتھ بھی یہی سلوک ہوا۔ بالآخر مالک نے اپنے بیٹے کو بھیجا تو باغ بانوں نے اس کو بھی قتل کر دیا۔ ظاہر ہے کہ اس صورت میں مالک ان باغ بانوں کو بری طرح ہلاک کرے گا اور باغ کا ٹھیکہ دوسروں کو دے دے گا جو موسم پر اس کو پھل پیش کریں۔ تمثیل سنا کر سیدنا مسیح نے فرمایا:

’’کیا تم نے کتاب مقدس میں کبھی نہیں پڑھا کہ:
جس پتھر کو معماروں نے رد کر دیا
وہی کونے کے سرے کاپتھر ہو گیا
یہ خداوند کی طرف سے ہوا
اور ہماری نظر میں عجیب ہے
اس لیے میں تم سے کہتا ہوں کہ خداکی بادشاہی تم سے لے لی جائے گی اور اس قوم کو، جو اس کے پھل لائے ، دے دی جائے گی۔ اور جو اس پتھر پر گرے گا، ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا، لیکن جس پر وہ گرے گا اس کو پیس ڈالے گا۔‘‘(متی ۲۱: ۴۲۔۴۴)

تاکستان کی تمثیل میں بنی اسرائیل کے جرائم سے پردہ اٹھایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تو ان کو برگزیدہ کیا، لیکن وہ اس کے عہد کو پورا نہ کر سکے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی جانب متعدد نبی مبعوث کیے، لیکن انھوں نے ان کی تحقیر کی، بعض کو سنگ سار اور بعض کو قتل کر دیا۔ بالآخر اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف ایک عظیم رسول یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مبعوث فرمایا تو انھوں نے اس کے قتل کی بھی تدبیر کی۔ اس شیطنت کے بعد آخر اللہ تعالیٰ اس ناہنجار قوم کو اپنے باغ کی رکھوالی کے لیے کیوں مسلط رکھے گا۔ وہ لازماً اس ذمہ داری کو دوسروں کے سپرد کر دے گا جو اس کا حق ادا کر سکیں۔
سیدنا مسیح علیہ السلام نے کتاب مقدس کا جو حوالہ دیا یہ اصل میں زبور ۱۱۸: ۲۲۔۲۳ کی عبارت ہے جس کی وضاحت حضرت داؤد کے حوالہ سے اوپر گزر چکی ہے۔ اسی کی تفسیر آں جناب نے آگے کی ہے۔ معماروں کے اس پتھر کو رد کرنے کا مفہوم یہ ہے کہ بنی اسرائیل نے ہمیشہ اپنے بھائیوں بنی اسماعیل کو تحقیر کی نگاہ سے دیکھا اور ان کے اندر کسی خوبی کا اعتراف نہیں کیا۔ لہٰذا بنی اسماعیل کے اندر آخری پیغمبر کی بعثت بنی اسرائیل کو ہکا بکا کردے گی، لیکن اللہ تعالیٰ کا فیصلہ اٹل ہو گا۔ بنی اسرائیل اگر اس پیغمبر سے ٹکرائیں گے تو اپنا سر پھوڑیں گے۔ اس کو کوئی گزند نہ پہنچا سکیں گے۔
جب سیدنا مسیح سے یہود بے زار ہو گئے تو انھوں نے ان کو رومی حکومت کے ہاتھوں قتل کرانے کی سازش تیار کی۔ جب آں جناب اس سے مطلع ہوئے تو اپنی ناہنجار قوم کو آخری مرتبہ یوں جھنجھوڑا:

’’اے یروشلم، اے یروشلم، تو جو نبیوں کو قتل کرتی اور جو تیرے پاس بھیجے گئے ان کو سنگ سار کرتی ہے، کتنی بار میں نے چاہا کہ جس طرح مرغی اپنے بچوں کو پروں تلے جمع کر لیتی ہے، اسی طرح میں بھی تیرے لڑکوں کو جمع کر لوں، مگر تم نے نہ چاہا۔ دیکھو تمھارا گھر تمھارے لیے ویران چھوڑا جاتا ہے، کیونکہ میں تم سے کہتا ہوں کہ اب سے مجھے پھر ہرگز نہ دیکھو گے، جب تک نہ کہو گے کہ مبارک ہے وہ جو خداوند کے نام سے آتا ہے۔‘‘(متی ۲۳: ۳۸۔۳۹)

یہاں حضرت مسیح یہود کو خدا کی لعنت سے بچانے کے لیے اپنی کاوشوں کا ذکر کر رہے ہیں اور بتا رہے ہیں کہ یہود نے ان کی قدر نہیں کی، لہٰذا اب ان سے نبوت کامنصب ہمیشہ کے لیے چھین لیا جائے گا۔ اب ان میں کوئی نبی مبعوث نہیں ہو گا۔ ان کی فلاح کی واحد صورت اب یہ ہے کہ اس نبی موعود پر ایمان لائیں جوخداوند کے نام سے آئے گا۔
یہود سے مایوس ہو کر سیدنا مسیح نے اپنے شاگردوں کو ملک میں پھیل جانے کا حکم دیا کہ وہ بستیوں میں گھوم پھر کر صحیح دین کی منادی کریں۔ بے حد مشکلات کا مقابلہ کرنے کے بعد یہ لوگ اصل دین کو عوام تک پہنچانے میں کامیاب ہو گئے۔ یہودیوں نے اپنی سرشت کے مطابق حضرت مسیح کی تعلیم میں تحریف کا منصوبہ بنایا اور حضرت مسیح کو خدا کا بیٹا اور خدائی کے تین ستونوں میں سے ایک ستون قرار دے کر خدا بنا ڈالا۔ پال نے یہ عقائد مسیح کے پیروکاروں میں پھیلائے تو ان کی اکثریت نے ان کو قبول کر لیا اور خالص دین مسیحی کے حاملین اقلیت میں ہو گئے۔ پال کے ماننے والے رومی سلطنت میں با اثر ہو گئے اور آہستہ آہستہ حکمران طبقہ عیسائی ہو گیا۔ اس طرح بحیثیت مجموعی یہود اور نصاریٰ، جنھیں کتاب اللہ کی وراثت سونپی گئی تھی، دونوں اصل دین توحید کے خادم اور مبلغ کے طور پر ناکام ہو گئے۔
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ سیدنا مسیح نے اپنے بعد اس نبی کے آنے کی اطلاع دی جس سے یہود پہلے سے واقف تھے اور جس کے انتظار کا ان کو حکم دیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ اپنے پیش رو انبیا و رسل کی طرح حضرت عیسیٰ نے بھی اس رسول کی کئی علامات و خصوصیات بیان کیں۔ چند اقتباسات ملاحظہ ہوں:

’’اس کے بعد میں تم سے بہت سی باتیں نہ کروں گا، کیونکہ دنیا کا سردار آتا ہے اور مجھ میں اس کا کچھ نہیں۔ ‘‘(یوحنا ۱۴:۳۰)

’’میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ میرا جانا تمھارے لیے فائدہ مند ہے، کیونکہ اگر میں نہ جاؤں گا تو وہ مددگار تمھارے پاس نہ آئے گا، لیکن اگر میں جاؤں گا تو اسے تمھارے پاس بھیج دوں گا اور وہ آ کر دنیا کو گناہ اور راست بازی اور عدالت کے بارے میں قصور وار ٹھہرائے گا۔ ‘‘(یوحنا ۱۶: ۷۔۸)

’’مجھے تم سے اور بھی بہت سی باتیں کہنا ہیں، مگر اب تم ان کی برداشت نہیں کر سکتے۔ لیکن جب وہ یعنی سچائی کا روح آئے گا تو تم کو کامل سچائی کی راہ دکھائے گا۔ اس لیے کہ وہ اپنی طرف سے نہ کہے گا، لیکن جو کچھ سنے گا وہی کہے گا اور تمھیں آیندہ کی خبریں دے گا۔ ‘‘(یوحنا ۱۶: ۱۲۔۱۳)

’’اور میں باپ سے درخواست کروں گا، تو وہ تمھیں دوسرا مددگار بخشے گا کہ ابد تک تمھارے ساتھ رہے، یعنی سچائی کا روح۔ ‘‘(یوحنا ۱۴: ۱۶۔۱۷)

ان اقتباسات سے حسب ذیل خصوصیات سامنے آتی ہیں:
۱۔آنے والے پیغمبر کا مرتبہ و مقام سب سے اونچا ہے۔ حضرت عیسیٰ بھی اس کے ہم پلہ نہیں۔
۲۔اس کے پاس کامل سچائی یا مکمل حق ہو گا۔ یعنی جو تعلیم دے گا ، وہ آسمانی ہدایت کی تکمیل کرے گی، جبکہ سابق انبیا کے پاس ناتمام ہدایت تھی۔
۳۔ اس کی تعلیم ابد تک باقی رہے گی، یعنی وہ آخری نبی ہو گا اور اس کے پاس جو ہدایت ہو گی، وہ اس وقت تک محفوظ رہے گی جب تک دنیا آباد ہے۔
۴۔ وہ پیغمبر آسمانی تعلیم ہی پیش کرے گا اور مستقبل کے بارے میں واضح اشارات دے گا۔
۵۔ وہ اپنے مخاطبوں کے اندر پائے جانے والے گناہوں، حق تلفیوں اور غلطیوں کی نشان دہی کرے گا اور ان کو اس کاالزام دے گا۔
۶۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد اب وہی پیغمبر مبعوث ہو گا۔ درمیانی زمانہ میں کوئی پیغمبر نہیں آئے گا۔
۷۔حضرت عیسیٰ نے اس پیغمبر کا نام بھی بتایا جس کو مترجموں نے مددگار یا سچائی کا روح کے الفاظ سے ادا کیا ہے۔ حالانکہ ناموں کا ترجمہ نہیں کیا جاتا۔ قرآن نے جہاں حضرت عیسیٰ کے بتائے ہوئے نام کا ذکر لیا، وہاں نام ’احمد‘ بتایا ہے۔
بنی اسرائیل کے انبیا و رسل نے جس وضاحت سے نبی موعود کا ذکر کیا، معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے جد امجد حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا کی روشنی میں اپنے قبیلوں کو ہر دور میں تیار کرتے رہے کہ جوں ہی اس نبی کی بعثت ہو ، وہ اس پر ایمان لانے میں تاخیر نہ کریں اور اس کے دست و بازو بن کر اس کے فرائض کی تکمیل میں اپنا حصہ ادا کریں۔ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ اچھے اہل کتاب ہر دور میں اس آخری نبی کی آمد کے منتظر رہے اور اپنے ہم عصروں کو بھی ذہنی طور پر تیار کرتے رہے کہ وہ بھی اس عظیم رسول کو پہچاننے اور اس پر ایمان لانے میں پیچھے نہ رہیں۔

-------------------------------

 

بشکریہ ماہنامہ اشراق

تحریر/اشاعت جون 2006
مصنف : خالد مسعود
Uploaded on : Sep 08, 2016
2785 View