ہجرت حبشہ - خالد مسعود

ہجرت حبشہ

[’’سیر و سوانح ‘‘ کے زیر عنوان شائع ہونے والے مضامین ان کے فاضل مصنفین کی اپنی تحقیق پر مبنی ہوتے ہیں، ان سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]

 (جناب خالد مسعود صاحب کی تصنیف ’’حیات رسول امی‘‘ سے انتخاب)

 

کفار کی جانب سے مسلمانوں کو جو آزمایشیں پیش آ رہی تھیں، قرآن مجید ان کا عزم و حوصلہ کے ساتھ مقابلہ کرنے کا حکم دیتا اور بشارت دیتا کہ جو لوگ ثابت قدم رہیں گے، ان کو ان کی قربانی کا صلہ ان کی توقعات، اندازوں اور قیاسوں سے بڑھ چڑھ کر ملے گا۔ قرآن نے یہ ہدایت بھی فرمائی کہ اگر دیکھو کہ تمھارے وطن کی زمین تم پر تنگ کر دی گئی ہے جب بھی بددل اور مایوس نہ ہونا۔ خدا کی زمین بہت وسیع ہے۔ اگر اس شہر میں تمھارے لیے اللہ کے دین پر قائم رہنا ناممکن بنا دیا گیا تو اللہ تمھاری رہنمائی کسی ایسی سرزمین کی طرف فرمائے گا، جہاں تم بے خوف و خطر اپنے رب کی عبادت کر سکو گے۔ اللہ تمھیں جاے پناہ عطا فرمائے گا اور رزق بہم پہنچائے گا۔ کیا تم دیکھتے نہیں کہ کتنے جان دار، چرند، پرند ایسے ہیں جو اپنے ساتھ اپنی روزی باندھے نہیں رکھتے، لیکن ان کا رب ان کو رزق دیتا ہے اور وہ شکم سیر ہو کر رات کو اپنے ٹھکانوں پر واپس آتے ہیں۔ لہٰذا تم بھی اپنے رب پر بھروسا کرو۔ و ہ تمھاری مشکلیں آسان فرمائے گا۔ فرمایا:

یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّ اَرْضِیْ وَاسِعَۃٌ فَاِیَّایَ فَاعْبُدُوْنِ. کُلُّ نَفْسٍ ذَآءِقَۃُ الْمَوْتِ ثُمَّ اِلَیْنَا تُرْجَعُوْنَ. وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَنُبَوِءَنَّھُمْ مِّنَ الْجَنَّۃِ غُرَفًا تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْھَا. نِعْمَ اَجْرُالْعٰمِلِیْنَ الَّذِیْنَ صَبَرُوْا وَعَلٰی رَبِّھِمْ یَتَوَکَّلُوْن. وَکَاَیِّنْ مِّنْ دَآبَّۃٍ لَّا تَحْمِلُ رِزْقَھَا اَللّٰہُ یَرْزُقُھَا وَ اِیَّاکُمْ وَھُوَ السَّمِیْعُ العَلِیْمُ.(العنکبوت ۲۹: ۵۶۔۶۰)
’’اے میرے بندو جو ایمان لائے ہو، بے شک میری زمین بڑی کشادہ ہے تو بس میری ہی بندگی کرو۔ ہر جان کو موت کا مزہ چکھنا ہے، پھر تم ہماری ہی طرف لوٹائے جاؤ گے۔ اور جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے، ہم ان کو جنت کے بالا خانوں میں متمکن کریں گے۔ اس کے نیچے نہریں جاری ہوں گی۔ وہ اس میں ہمیشہ رہنے والے ہوں گے۔ کیا ہی خوب صلہ ہے کارگزاروں کا، جنھوں نے صبر کیا اور اپنے رب پر ہر حال میں انھوں نے بھروسا رکھا۔ اور کتنے جانور ہیں جو اپنا رزق اٹھائے نہیں پھرتے۔ اللہ ہی ان کو بھی رزق دیتا ہے اور تم کو بھی۔ اور وہ سننے والا جاننے والا ہے۔‘‘

جب قریش کے ظلم و ستم کا بازار گرم سے گرم تر ہوتا گیا تو اہل ایمان کے لیے مکہ کی سرزمین واقعی تنگ ہو گئی۔ اسلام کا نام لے کر کوئی شخص اپنے آپ کو معاشرہ کے غیظ و غضب سے بچا نہیں سکتا تھا۔ اسی زمانہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بارگاہ خداوندی میں درخواست کی کہ اے رب، اسلام کو عمرو بن ہشام یاعمر بن الخطاب کے اسلام سے قوت بخش۔ عمرو بن ہشام ابوجہل کا نام ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت میں پیش پیش تھا اور عمر بن الخطاب ایک دبنگ نوجوان کے طور پر معروف تھے اور ان کا دل پسند مشغلہ کمزور مسلمانوں کو تنگ کرنا تھا۔ مسلمان نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے شکوہ کرتے کہ ان کی زندگی سخت عذاب میں ہے تو حضور تسلی دیتے کہ حوصلہ رکھو، اللہ تعالیٰ آسانی کی راہ نکالے گا۔ تم سے پہلی قومیں بھی مخالفین کے ہاتھوں بے حد تنگ ہوئیں، یہاں تک کہ ان کے سروں پر آرے چلا دیے گئے، لیکن وہ اپنے دین سے دست بردار نہ ہوئیں۔
جب حالات تشویش ناک حد تک نازک ہو گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو جو خاص طور پر مصائب کا نشانہ بنے ہوئے تھے ، حبشہ کی جانب ہجرت کی اجازت دی، کیونکہ وہاں کاعیسائی حکمران اصحمہ اپنی رحم دلی اور عدل گستری کی بڑی شہرت رکھتا تھا اور اس کے ملک میں امن و امان کا دور دورہ تھا۔ دوسرے یہ ملک عرب سے مغرب میں بحر قلزم کے پار ہونے کے باعث نہایت قریب بھی تھا۔ عجیب بات ہے کہ قریش کے تقریباً تمام خانوادوں کے نوجوان مسلمان ہجرت کرنے میں پیش پیش تھے۔ پہلا گروپ جس نے ہجرت کی، گیارہ مردوں اور پانچ خواتین پر مشتمل تھا۔ ان کی تفصیل حسب ذیل ہے:
بنو امیہ: حضرت عثمان بن عفان مع زوجہ رقیہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
بنو عبد شمس: حضرت ابو حذیفہ بن عتبہ مع زوجہ سہلہ بنت سہیل بن عمرو
بنو مخزوم: حضرت ابوسلمہ بن عبدالاسد مع زوجہ ام سلمہ
بنو اسد: حضرت زبیر بن العوام
بنو عبدالدار: حضرت مصعب بن عمیر
بنو زہرہ: حضرت عبدالرحمن بن عوف
بنو جمح: حضرت عثمان بن مظعون
بنو عدی: حضرت عامر بن ربیعہمع زوجہ لیلیٰ بنت ابی حثمہ
بنو عامر: حضرت ابوسبرہ بن ابی رہممع زوجہ ام کلثوم بنت سہیل۔ حاطب بن عمرو
بنو حارث: حضرت سہیل بن بیضاء
اس سے معلوم ہوا کہ دین کی خاطر اپنوں سے جدائی کا صدمہ جہاں ان نوجوان مسلمانوں کوسہنا پڑا، وہیں اس سے قریش کے بیش تر خانوادے بھی متاثر ہوئے۔ سیرت نگاروں کے بقول یہ ہجرت رجب ۵ نبوی میں ہوئی۔
پہلے گروپ کے حبشہ بخیروعافیت پہنچنے اور وہاں کی حکومت کے اس پر اعتراض نہ کرنے کی خبر جب مسلمانوں کو ملی تو پھر ہجرت کرنے والوں کاایک تانتا بندھ گیا۔ بعض نمایاں نام یہ ہیں:
بنو ہاشم: حضرت جعفر بن ابی طالبمع زوجہ اسماء بنت عمیس
بنو امیہ: حضرت خالد بن سعید بن العاص۔ عروہ بن سعید بن العاص مع زوجہ فاطمہ بنت صفوان بن امیہ
بنو اسد: حضرت عبداللہ بن جحش۔ عبیداللہ بن جحش مع زوجہ ام حبیبہ بنت ابی سفیان
بنو عامر: حضرت سکران بن عمرو مع زوجہ سودہ بنت زمعہ۔ عبداللہ بن سہیل بن عمرو
بنو حارث: حضرت ابو عبیدہ بن الجراح
ان کے علاوہ حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت عتبہ بن مسعود اور حضرت ابو موسیٰ اشعری کے نام آئے ہیں۔ یہ تعداد اسی (۸۰) سے متجاوز تھی۔ ظاہر ہے کہ مکہ سے ہر مسلمان نے ہجرت نہیں کی، بلکہ انھی لوگوں نے کی جو قریش کے ظلم کا نشانہ بنے ہوئے تھے۔ باقی لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسب فیض کے لیے وہیں رہے۔

قریش کا تعاقب

قریش نے جب دیکھا کہ مسلمانوں کو حبشہ میں ایک پناہ گاہ میسر آ گئی ہے اور وہ امن اور سکون سے وہاں زندگی گزارنے لگے ہیں تو انھوں نے وہاں بھی ان کا تعاقب کرنے کا فیصلہ کیا اور دو آدمی عمرو بن العاص اور عبداللہ بن ابی ربیعہ اصحمہ کے دربار میں جانے کے لیے تیار کیے۔ یہ دونوں بادشاہ کے حضور پیش کرنے کے لیے ہدایا تو لے کر ہی گئے، ان کے علاوہ اس کے مذہبی رہنماؤں کے لیے بھی تحائف لے کر گئے۔ انھوں نے پہلے مذہبی رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں اور دربار میں تعاون کی ان سے یقین دہانی حاصل کی۔ اس کے بعد شاہ نجاشی کے دربار میں پیش ہو کر درخواست کی کہ اے بادشاہ، ہمارے کچھ بیوقوف نوجوان آپ کے ملک میں آئے ہیں۔ یہ اپنا آبائی دین چھوڑ چکے ہیں اور آپ کے دین میں بھی داخل نہیں ہوئے۔ یہ ایک نیا دین پیش کرتے ہیں جس سے نہ ہم واقف ہیں نہ آپ۔ ان کے بزرگوں نے ہمیں آپ کے پاس بھیجا ہے کہ آپ ان کو واپس بھجوائیں، کیونکہ ان کے بزرگ ہی ان پر ٹھیک نظر رکھ سکتے ہیں۔ نجاشی نے درباریوں اور مذہبی رہنماؤں کی راے لی تو سب نے قریش کے وفد کی ہاں میں ہاں ملائی۔ لیکن نجاشی نے کہا کہ جن لوگوں نے میری پناہ پکڑی اور دوسروں کے مقابل میں انھوں نے میرا اور میرے ملک کا انتخاب کیا، میں ان کو تمھارے حوالے کیسے کر دوں، جب تک کہ میں اس معاملہ میں ان کا نقطۂ نظر نہ جان لوں۔
بادشاہ نے اپنا ایلچی بھیج کر مسلمانوں کو دربار میں حاضر ہونے کا حکم دیا۔ انھوں نے فیصلہ کیا کہ جو ہو سو ہو، ہم وہی صحیح حقیقت حال بیان کریں گے جس کی تعلیم ہمیں اللہ کے رسول نے دی ہے۔ جب وہ حاضر ہوئے تو نجاشی نے قریش کا بیان ان کے سامنے رکھا اور جواب طلب کیا۔ مہاجرین کی جانب سے حضرت جعفر بن ابی طالب کھڑے ہوئے اور بیان کیا کہ اے بادشاہ، اس دین کو اختیار کرنے سے پہلے ہم بتوں کی پوجا کرتے، مردار کھاتے، قطع رحمی کرتے، بے حیائی کے کاموں میں شریک ہوتے۔ ہم اس حال میں تھے کہ اللہ نے ہماری طرف اپنا رسول بھیجا۔ اس کی خاندانی وجاہت، سچائی، پاکیزگی اور امانت سے ہم پہلے سے واقف تھے۔ اس نے ہمیں ایک اللہ کی عبادت کی طرف بلایا اور پتھروں کی پوجا سے روکا۔ اس نے ہمیں سچ بولنے، امانت و دیانت داری، صلہ رحمی، اچھی ہمسائیگی ، نماز اور زکوٰۃ ادا کرنے اور شرک نہ کرنے کا حکم دیا اور جھوٹ، تہمت، یتیم کامال کھانے، بے حیائی اور دوسرے محرمات سے رکنے کی ہدایت کی۔ ہم نے اس کی تصدیق کی، اس پر ایمان لائے اور اس کے لائے ہوئے پیغام کی پیروی کی۔ ہماری قوم نے ہم پر بڑی زیادتیاں کیں، ہم کو سزائیں دیں اور ہمارے دین سے ہمیں پھیرنا چاہا۔ جب ہماری زندگی اجیرن کر دی گئی تو ہم آپ کے ملک میں آ گئے اور پناہ کے لیے اس ملک کو چنا۔ ہمیں توقع ہے کہ آپ کے ہاں ہم پر زیادتی نہیں ہو گی۔ یہ سن کر نجاشی نے قریش کے وفد کی درخواست رد کر دی۔
عمرو بن العاص اور عبداللہ بن ابی ربیعہ دربار سے ناکام لوٹے تو مشورہ کر کے نجاشی کے دینی جذبات کو بھڑکانے کا فیصلہ کیا۔ دوسرے دن دوبارہ دربار میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ نیا دین پیش کرنے والا آپ کے پیغمبر عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کے بارے میں بڑی غلط باتیں منسوب کرتا ہے۔ نجاشی نے دوبارہ مسلمانوں کو طلب کیا اور ان کا نقطۂ نظر معلوم کیا۔ حضرت جعفر نے سورۂ مریم کی تلاوت شروع کر دی، جس میں مسیح علیہ السلام کے بارے میں قرآن کی پوری تعلیم موجود ہے۔ نجاشی سنتا جاتا تھا اور روتا جاتا تھا۔ جب تلاوت ختم ہوئی تو حضرت جعفر نے کہا کہ اس کی رو سے حضرت مسیح علیہ السلام اللہ کے بندے، اس کے رسول، اس کی روح اور اس کاکلمہ تھے جو کنواری مریم کے حوالہ کیا گیا۔ نجاشی نے کہا کہ اللہ کی قسم، تم نے جو کچھ کہا، یہ تعلیم اور عیسیٰ علیہ السلام جو کچھ لائے، ایک ہی منبع سے نکلنے والی روشنی ہیں۔
اس صورت حال کو دیکھ کر قریش کے وفد کو نامراد لوٹنا پڑا اور مسلمانوں نے بادشاہ کے دل میں اسلام کا نور ڈال دیا جس کے نتیجہ میں وہ بعد میں مسلمان ہو گیا۔ نجاشی کے ردعمل سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا تعلق نصاریٰ کے اس گروہ سے تھا جو پال کی بدعات کے خلاف اور صحیح دین مسیحی کو اختیار کیے ہوئے تھا۔ یہی وہ لوگ تھے کہ جب ان کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم پہنچتی تو قرآن میں آتا ہے کہ اس کو سن کر ان کی آنکھوں میں آنسو بھر آتے، کیونکہ وہ عیسیٰ علیہ السلام کی پیشین گوئی کا مصداق اس کے اندر پاتے۔ ان لوگوں نے بالعموم اسلام قبول کر لیا۔

حبشہ کے عیسائی وفد کا قبول اسلام

صحیح نصرانیت پر قائم لوگ عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کا بیٹا یا تثلیث (TRINITY) کاایک رکن نہیں مانتے تھے اور اس بات کے منتظر تھے کہ مسیح علیہ السلام کی پیشین گوئی کے مطابق وہ نبی آخرالزماں پر اس وقت ایمان لے آئیں، جب ان کی بعثت ہو۔ مسلمانوں کی حبشہ آمد نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ارشادات کی تصدیق کر دی ۔ انھوں نے مسلمانوں سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت اور آپ کی تعلیمات کے بارے میں معلومات حاصل کیں۔ قریش کے اہل ایمان پر ظلم و ستم کے واقعات سنے اور خود مسلمانوں کے کردار کا مشاہدہ کیا۔ چنانچہ ان کا ایک گروہ، جس میں بیس افراد شامل تھے، خود اپنی آنکھوں سے تمام احوال کا مشاہدہ کرنے اور اللہ کے آخری رسول سے ملاقات کے لیے مکہ آیا۔ انھوں نے ایک مجلس میں آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بکثرت سوالات کر کے اطمینان کر لیا کہ یہ رسول ان علامات پر پورے اترتے ہیں جن کی تعلیم اب تک ان کو دی جاتی رہی تھی۔ ان کے سوالات کے جواب دینے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے موقع و محل کے مطابق ان کے سامنے قرآنی آیات کی تلاوت کی۔ اس کلام نے ان کے رہے سہے شکوک کا ازالہ کر دیا۔ ان کی آنکھیں اشک بار ہو گئیں، کیونکہ حق ان پر آشکارا ہو چکا تھا۔ ان خوش نصیبوں نے قبول حق میں ذرا سی دیر بھی گوارا نہیں کی۔ انھوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کی اور آپ پر ایمان لائے۔ اس کے بعد یہ لوگ حبشہ روانہ ہو گئے، کیونکہ ان کا مقصود مکہ میں قیام کرنا نہ تھا۔۱؂ ظاہر ہے کہ اسلام کی باقی تفصیلات انھوں نے ان مسلمانوں سے حاصل کی ہوں گی جو حبشہ کو ہجرت کر چکے تھے۔ یہ ہجرت حبشہ کا ایک ایسا ثمرہ تھا جس کا تصور بھی قریش نے نہ کیا ہو گا۔ اس کے بعد نجاشی کو بھی خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خط لکھ کر اسلام کی دعوت دی اور وہ مسلمان ہو گیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ اس عادل حکمران کے حق میں دعا فرماتے رہے۔
کفار مکہ عیسائی گروہ کے اسلام قبول کرنے پر بے حد سیخ پا ہوئے۔ ابوجہل اور اس کے ساتھیوں نے ان حق پرست لوگوں کو احمق قرار دیا کہ وہ آئے تو تھے حقیقت حال کامشاہدہ کرنے اور بے سوچے سمجھے مسلمان ہو کر واپس ہو لیے۔
اس واقعہ نے قریش کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا کہ اگر لوگ یہاں آ کر محمد سے متاثر ہوتے رہے تو وہ اس کا پیغام دوسرے قبائل تک پہنچا دیں گے اور اگر یہ دعوت مکہ کے بیرون میں جڑ پکڑ گئی تو ان کے لیے مزید پریشانیاں پیدا کر سکتی ہے۔ لہٰذا انھوں نے بیرون مکہ سے آنے والوں پر بھی نظر رکھنا شروع کی اور اگر ان میں سے کوئی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے کی کوشش کرتا تو اس کی پٹائی کرنے سے بھی دریغ نہ کرتے۔

عمرو بن عبسہ السلمی کا قبول اسلام

عمرو بن عبسہ زمانۂ جاہلیت میں حنفا میں سے تھے۔ وہ عقیدہ رکھتے تھے کہ جو لوگ بتوں کی پوجا کرتے ہیں، وہ گمراہی پر ہیں اور ان کی کوئی بنیاد نہیں۔ انھوں نے سنا کہ مکہ میں ایک شخص ایک نیا دین پیش کر رہا ہے۔ انھیں اس کے بارے میں جاننے کی خواہش ہوئی تو سواری لے کر مکہ جا پہنچے۔ وہاں جا کر معلوم ہوا کہ اس شخص کی قوم اس کی دشمن ہو رہی ہے اور کسی کو اس سے ملنے نہیں دیتی۔ کہتے ہیں کہ میں نے جستجو کی اور چھپ چھپا کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ملا۔ میں نے پوچھا: ’آپ کیا ہیں‘؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’میں اللہ کا نبی ہوں‘۔ میں نے پوچھا: ’نبی کیا ہوتا ہے!‘ آپ نے فرمایا کہ اللہ نے مجھے ایک پیغام دے کر بھیجا ہے۔ میں نے پوچھا: ’اللہ نے آپ کو کون سا پیغام دے کر بھیجا ہے‘۔ آپ نے فرمایا: ’صلہ رحمی اور بت شکنی کا پیغام، اور یہ کہ اللہ کو ایک مانا جائے اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کیا جائے‘۔ میں نے پوچھا کہ اس تعلیم میں آپ کا ساتھ کون دے رہے ہیں۔ آپ نے بتایا: آزاد اور غلام دونوں۔ میں نے کہا: ’میں بھی آپ کا پیروکار بنتا ہوں‘۔ آپ نے جواب دیا: ’ابھی تم اس کی طاقت نہیں رکھتے۔ دیکھتے نہیں کہ میرے معاملہ میں لوگوں کا حال کیا ہے۔ تم اس وقت واپس لوٹ جاؤ۔ پھر جب سنو کہ میں غالب آ گیا ہوں تم میرے پاس آ جانا‘۔ عمرو کہتے ہیں کہ میں واپس اپنے قبیلے میں لوٹ گیا۔ میں آپ کے بارے میں ٹوہ میں لگا رہتا اور لوگوں سے دریافت کرتا رہتا۔ یہاں تک کہ اہل یثرب میں سے کچھ لوگ میرے ہاں آئے۔ انھوں نے آپ کے بارے میں بتایا کہ آپ مدینہ آگئے ہیں اور لوگ آپ پر ایمان لانے کے لیے بھاگم بھاگ ان کے پاس آ رہے ہیں۔ ان کی قوم نے ان کی جان لینی چاہی، لیکن وہ اس پر قادر نہ ہو سکی۔ کہتے ہیں: یہ سن کر میں مدینہ گیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ملا۔ آپ نے مجھے فوراً پہچان لیا۔ میں نے اس موقع پر آپ سے نماز اور وضو کے مسائل دریافت کیے۔۲؂
اس واقعہ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ مکہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کرنا بے حد مشکل بنا دیا گیا تھا۔ عمرو بن عبسہ مکہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہنے کے خواہش مند رہے ہوں گے، لیکن آپ نے ان کو مشورہ دیا کہ اپنے قبیلہ کو واپس جائیں اور اسلام کے غلبہ کاانتظار کریں۔

ابوذر غفاری کا قبول اسلام

قبیلۂ غفار کے ابوذر کو کہیں سے معلوم ہوا کہ مکہ میں کسی شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے۔ انھوں نے اپنے بھائی انیس کو مکہ بھیجا کہ اس شخص کے بارے میں معلومات لے کر آئیں۔ انیس مکہ گئے اور تحقیق کے بعد بھائی کوجا کر بتایا کہ وہ شخص اخلاق حسنہ کی تعلیم دیتا ہے اور ایسا کلام پیش کرتا ہے جو نہ شعر ہے نہ کہانت۔ ابوذر کو ان معلومات سے تشفی نہیں ہوئی تو انھوں نے خود رخت سفر باندھا اور مکہ پہنچ گئے۔ مسجد حرام میں اترے اور رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کی جستجو کی، لیکن کامیابی نہ ہوئی۔ کسی سے پوچھنا مناسب نہیں سمجھا۔ رات گئے حضرت علی ان کو مسافر سمجھ کر اپنے گھر لے گئے اور صبح دم وہ پھر مسجد میں آ گئے۔ دوسرے اور تیسرے روز بھی ایسا ہی ہوا۔ بالآخر حضرت علی نے ان کی آمد کامقصد دریافت کیا تو ابوذر نے ان سے پختہ وعدہ لیا کہ وہ کسی سے اس کا تذکرہ نہ کریں گے۔ جب مقصد بتایا تو حضرت علی نے کہا کہ بلاشبہ وہ اللہ کے رسول ہیں۔ اگلی صبح آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی ملاقات کرائی تو ابوذر نے اسلام قبول کر لیا۔ آپ نے ہدایت فرمائی کہ اس وقت واپس چلے جاؤ اور اپنی قوم کو آگاہ کرو۔ البتہ، جب تک میرے بارے میں تمھیں اطلاع نہیں پہنچتی، وہیں رہنا۔ ابوذر کہنے لگے: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے، میں لوگوں کے سامنے اپنے اسلام کااظہار کر کے جاؤں گا۔ وہ مسجد میں گئے اور بلند آواز سے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد اللہ کے رسول ہیں۔ ان کا یہ کہنا تھا کہ لوگ ان کے اوپر پل پڑے اور مار مار کر گرادیا۔ عباس بن عبدالمطلب کی نظر پڑی تو لوگوں کو ہٹایا اور کہاکہ تم جانتے نہیں ہو کہ یہ شخص بنو غفار سے تعلق رکھتا ہے اور یہ قبیلہ شام کے راستے میں تمھاری تجارتی شاہراہ پر آباد ہے۔ تب ابوذر کی خلاصی ہوئی اور انھوں نے اپنی راہ لی۔۳؂
اس واقعہ سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ باہر سے آنے والوں کے لیے قریش نے کیسی فضا بنا رکھی تھی کہ کوئی شخص کھل کر نہ رسول اللہ کا نام لے سکتا تھا اور نہ ان سے ملاقات کر سکتا تھا۔ اگر اتفاق سے کوئی جری شخص آپ سے مل لیتا تو مار پیٹ سے اس کی تواضع کی جاتی۔ اس دور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو یہی مشورہ دیتے کہ وہ اپنے اپنے علاقہ میں رہیں اورجب غلبہ کی خبر سنیں تو پھر رابطہ کریں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کی قبولیت اور حضرت عمر کا اسلام

مکہ سے ایک بڑی تعداد میں مسلمانوں کا محض اس لیے نکل جانا کہ وہ اپنے دین کو بچاسکیں اور بھرے ہوئے آسودہ گھروں کو خیرباد کہہ دینا، جیسے ان کے در و دیوار ان کو کاٹتے ہوں ، اتنا غیرمعمولی واقعہ تھا کہ اس نے مکہ کی بقیہ آبادی کو ہلا کر رکھ دیا اور وہ اپنے جذباتی موقف کا جائزہ لینے پر آمادہ ہوئی۔ انھی لوگوں میں ایک بڑا نام عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کا ہے جو ہجرت حبشہ کے بعد ۶ نبوی میں مسلمان ہوئے۔
حضرت عمر کے اسلام لانے کے بارے میں دو روایتیں نقل ہوئی ہیں:
پہلی روایت: حضرت عمر کے اسلام لانے کے بارے میں جو روایت شہرت پا چکی ہے، وہ یہ ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو العیاذ باللہ قتل کرنے کے ارادہ سے گھر سے نکلے۔ راستہ میں حضرت نعیم بن عبداللہ سے ملاقات ہو گئی جو مسلمان ہو چکے تھے۔ انھوں نے پوچھ لیا: کہاں کا ارادہ ہے؟ بولے: محمد کا فیصلہ کرنا چاہتا ہوں۔ انھوں نے کہا: پہلے گھر کی خبر لو۔ تمھاری بہن اور بہنوئی حضرت سعید بن زید بھی اسلام لا چکے ہیں۔ عمر بہن کے گھر پہنچے۔ وہاں میاں بیوی حضرت خباب بن الارت سے قرآن پڑھ رہے تھے۔ جب معلوم ہوا کہ عمر آگئے تو انھوں نے قرآن کے صفحات چھپا دیے۔ چونکہ عمر بن الخطاب نے قرآن پڑھتے ان کو سن لیا تھا، اس لیے مصر ہوئے کہ بتاؤ تم لوگ کیاپڑھ رہے تھے۔ میاں بیوی نے جب کچھ نہیں بتایا تو عمر نے دونوں کو مار مار کر لہولہان کر دیا۔ ان کا جواب یہ تھا کہ عمر، تم جو چاہے کر لو اب اسلام کی محبت دل سے نکل نہیں سکتی۔ عمر قدرے ٹھنڈے ہوئے تو بہن نے سورۂ طٰہٰ (یا بروایت بعض سورۂ حدید) کے صفحات ان کے آگے رکھ دیے۔ پڑھتے ہی ان کے دل کی کیفیت بدل گئی۔ خباب سے پوچھا: آں حضرت کہاں ہیں؟ انھوں نے بتایا کہ وہ کوہ صفا کے قریب ایک گھر میں ہیں۔ عمر تلوار لٹکائے ہوئے وہاں پہنچے۔ کسی نے دروازے کے سوراخ میں سے جھانک کر دیکھا اور گھبرا کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع کی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دروازہ کھولنے کا حکم دیا اور عمر نے اسلام قبول کر لیا۔ ابن اسحاق کے مطابق یہ روایت اہل مدینہ سے ان کو پہنچی۔۴؂
اس روایت کی شہرت کے باوجود اس پر کئی سوالات پیدا ہوتے ہیں، لیکن ان کا تشفی بخش جواب نہیں ملتا:
۱۔عرب کی قبائلی زندگی میں کسی دوسرے قبیلہ کے ایک فرد کا قتل بڑے دور رس نتائج کاحامل ہوتا تھا۔ یہ کام اگر آسان ہوتا تو قریش کے تمام خانوادے بنو ہاشم پر یہ زور نہ دیتے کہ وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو خود روکیں۔ انھیں یہی خطرہ تھا کہ اگر ہم کوئی ایسا اقدام کر گزرے تو مکہ کے اندر ایک طویل جنگ چھڑ جائے گی جس سے عہدہ برآ ہونا کسی کے لیے ممکن نہ ہو گا۔
۲۔ حضرت عمر جہاں دیدہ اور زیرک آدمی تھے۔ وہ اس حقیقت کو جانتے ہوئے قتل جیسا اقدام نہیں کر سکتے تھے، کیونکہ ان کا قبیلہ بنو عدی بنو ہاشم کے مقابل میں بے حد کمزور تھا۔
۳۔حضرت سعید بن زید اور حضرت فاطمہ بنت الخطاب قدیم الاسلام صحابی ہیں، جو بعثت نبوی کے فوراً بعد مسلمان ہوئے تھے۔ ان کا اسلام پوشیدہ بھی نہیں تھا کہ اس کی بھنک گھر کے افراد کے کانوں میں نہ پڑ سکتی۔ پانچ سال کے عرصہ میں تو ہر مسلمان معلوم و معروف تھا۔ یہی وجہ ہے کہ پورا قبیلۂ قریش ان کو سبق سکھانے پر تلا ہوا تھا اور وہ علی الاعلان حبشہ کو ہجرت کر رہے تھے۔اس روایت سے یوں معلوم ہوتا ہے، جیسے وہ ۶ نبوی میں اس واقعہ سے ذرا پہلے مسلمان ہوئے ہوں۔
۴۔ حضرت عمر کااصرار کہ بہن وہ چیز سنائیں جو پڑھ رہی تھیں، ظاہر کرتا ہے کہ ان کے کان ابھی تک قرآن سے ناآشنا تھے، حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا تو فریضۂ منصبی ہی لوگوں کو قرآن سنانا تھا۔ آپ کئی مرتبہ قریش کے لیڈروں کو قرآن سنا چکے تھے اور خانہ کعبہ کے پاس نماز پڑھتے ہوئے خود بھی ایسی آواز سے پڑھتے تھے جو دوسرے لوگ سن سکیں۔ روایت کا یہ تاثر حقیقت سے بعید ہے۔
۵۔ حضرت فاطمہ کا صحیفہ سے پڑھنا اور پھر اس کو چھپا دینا بھی خلاف حقیقت ہے۔ مسلمانوں کی کس مپرسی کے ان ایام میں قرآن کی تحریر کا اہتمام کرنا اور پھر اس سے پڑھنا پڑھانا ناممکن تھا۔ قریش میں بھی بہت کم لوگ لکھنا پڑھنا جانتے تھے، چہ جائیکہ خواتین معمولاً کوئی صحیفہ پڑھنے پر قادر ہو سکتیں۔ اسی طرح حضرت خباب ایک غلام تھے۔ ان کا پڑھا لکھا ہونا ثابت کرنا ہو گا۔
۶۔سورۂ حدید بالاتفاق مدنی سورہ ہے۔ ۶ نبوی میں اس کا نزول نہیں ہوا تھا۔
۷۔دار ارقم ایک مدت سے مسلمانوں کا مرکز تھا جسے ہر مکی جانتا تھا۔ روایت میں اس کا تذکرہ اس طرح ہوا ہے، جیسے وہ کوئی غیر معروف مکان ہو جو پہلی مرتبہ حضرت عمر کے علم میں آ رہا ہو۔
۸۔روایت کاتاثر یہ ہے، جیسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس مکان میں چھپے ہوئے ہوں۔ حالانکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آمدورفت نہ صرف مسجد حرام میں، بلکہ قریش کی مجالس میں بھی رہتی۔ متعدد روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نماز میں بہ آواز بلند قراء ت کیا کرتے اور قریش خانہ کعبہ کے پردوں میں چھپ کر اس کو سنا کرتے۔ اور یہ اس دور میں بھی ہوا جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے مخالفت بڑے زوروں پر تھی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنا کبھی کسی کے لیے مسئلہ نہیں بنتا تھا۔ اللہ کا رسول ہمیشہ اپنا کام ڈنکے کی چوٹ کرتا ہے۔ وہ اللہ کی طرف سے اس کام پر مامور ہوتا ہے اور اللہ خود اس کی حفاظت کرتا ہے۔ اسے چھپنے چھپانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔
دوسری روایت: حضرت عمر کے اسلام لانے کے بارے میں دوسری روایت حضرت ام عبداللہ بنت ابی حثمہ کی ہے۔ حضرت عامر بن ربیعہ حضرت عمر کے خاندان کے حلیف تھے۔ ان کا کنبہ حبشہ جانے کی تیاری کر رہا تھا کہ عمر آ گئے اور کھڑے ہو کر تیاری کا سماں دیکھنے لگے۔ اب تک ان کا رویہ نہایت سخت رہا تھا اور انھوں نے اس کنبہ کو بہت تکلیفیں دی تھیں۔ عمر پوچھنے لگے: اے ام عبداللہ، روانہ ہو رہی ہو؟ انھوں نے کہا: ہاں۔ تم لوگوں نے بہت سخت اذیتیں دیں اور ہم پر ظلم ڈھایا۔ اب ہم اللہ کی زمین میں نکل جائیں گے یہاں تک کہ اللہ کوئی راہ کھولے۔ عمر نے کہا: اچھا، اللہ تمھارا ساتھی ہو۔ یہ الفاظ ادا کرتے ہوئے ان کی آواز بھرا گئی، دل میں رقت طاری ہو گئی اور وہ اسی کیفیت میں وہاں سے چلے گئے۔ صاف معلوم ہوتا تھا کہ انھیں اس قبیلہ کی روانگی سے دلی صدمہ پہنچا ہے۔ حضرت ام عبداللہ نے اپنے شوہر کو بتایا کہ آج اگر تم عمر کو دیکھتے تو ان پر رقت اور غم کے اثرات دیکھتے۔ مجھے تو ان کے اسلام لانے کی امید پیدا ہو گئی ہے۔۵؂
یہ روایت بالکل فطری معلوم ہوتی ہے۔ ایک گھرانا، جس کے ساتھ برسوں کا بھائی چارا رہا ہو، افراد خانہ سے قلبی تعلق ہو، ایک وقتی مسئلہ پر جذبات کی شدت میں آدمی نے ان کے ساتھ اس قدر زیادتی کی ہو کہ وہ اپنا گھر چھوڑنے پر تیار ہو جائے، لیکن اپنے نظریات پر آنچ نہ آنے دے، جب فی الواقع سامان باندھ لیتا ہے تو سنگ دل سے سنگ دل آدمی کے جذبات میں بھی ارتعاش پیدا ہو جاتا ہے اور وہ یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ خرابی کہیں میرے اندر ہی نہ ہو اور انھی لوگوں کے نظریات درست نہ ہوں۔ اس طرح کے واقعات زندگی کا رخ موڑ دیتے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر کی سوچ اسی واقعہ نے بدل دی اور کچھ عرصہ غور کرنے کے بعد انھوں نے اسلام قبول کر لیا۔
عطا اور مجاہد کی ایک روایت کے مطابق حضرت عمر رات کو کسی وقت مسجد حرام پہنچے۔دیکھا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں قرآن پڑھ رہے تھے۔ انھیں قرآن سننے کا شوق ہوا تو حطیم کی جانب سے غلاف کعبہ کے پیچھے داخل ہوئے اور چھپ کر عین اس جگہ پہنچے جہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے تھے۔ جب نماز ختم ہوئی اور آپ گھر کو چلے تو یہ آپ کے پیچھے ہو لیے۔ جب آپ اپنے گھر کے قریب پہنچے تو یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ گئے۔ آپ نے پوچھا: عمر، ا س وقت کہاں؟ انھوں نے کہا: میں اسلام قبول کرنے کے لیے حاضر ہوا ہوں۔ آپ نے ان کو ہدایت پر استقامت کی دعا دی اور مکہ کا یہ بطل جلیل اسلام کاخادم بن گیا۔۶؂ اگلے ہی روز مسجد میں جا کر اعلان کیا کہ میں مسلمان ہو گیا ہوں اور اب علانیہ یہاں نماز پڑھوں گا، جو مجھے روک سکتا ہو روک کر دکھائے۔
حضرت عمر بن الخطاب کے اسلام سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ان کے حق میں دعا قبول ہو گئی۔ اس سے مسلمانوں کو بڑا حوصلہ ملا اور قریش کو اپنی شکست کا احساس ہوا۔
ہجرت حبشہ کے کچھ عرصہ بعد حضرت عمر کا اسلام لانا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ اس واقعہ نے ان کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ اور انھی کو نہیں، بلکہ متعدد دوسرے قرشی نوجوانوں کو بھی ہلا کر رکھ دیا، کیونکہ قریش کی توقع کے برعکس اس واقعہ کے بعد لوگوں کے مسلمان ہونے کی رفتار میں کوئی کمی نہیں ہوئی اور اسلامی کاروان بڑھتا چلا گیا۔

مسلمانوں کو غلبہ کی بشارت

ہجرت حبشہ نے ایک اور پہلو سے بھی قریش کو متاثر کیا۔ وہ یہ کہ حبشہ میں مسلمانوں کی پذیرائی اور شاہ حبشہ کے اسلام کی جانب میلان نے قریش کے اندر عیسائیوں کے لیے ایک نفرت سی بٹھا دی، جبکہ مسلمان ان کے ممنون تھے اور ان کے حق میں تعریفی کلمات ادا کرتے۔
ملک عرب سے باہر، لیکن اس سے متصل دو عظیم بادشاہتیں، ایرانیوں اور رومیوں کی تھیں۔ ایرانی مشرک تھے جبکہ رومی پال کی لائی ہوئی بدعات کے باوجود خدا کی وحدانیت کا اقرار کرنے والو ں میں تھے۔ قریش کو عیسائیوں کے مختلف فرقوں کے باہمی اختلافات سے کیا دلچسپی ہو سکتی تھی، وہ سب کو ایک ہی طرح کا مذہبی گروہ سمجھتے۔ ایرانیوں اور رومیوں کے درمیان شام کے علاقہ میں بالعموم سرحدی جھگڑے پیدا ہوتے اور کبھی نوبت باقاعدہ جنگ کی پیدا ہو جاتی۔ ۶۱۶ء میں ایران نے قیصر روم کے علاقہ پر چڑھائی کی تو رومی فوجیں مقابلہ نہ کر سکیں اور ان کے بہت سے علاقہ پر خسرو پرویز کا قبضہ ہو گیا۔ وہ لڑائی کے نتیجہ کے بارہ میں اتنا پر امید ہوا کہ قیصر روم کو پابند سلاسل دیکھنے کے خواب دیکھنے لگا۔ یہ اطلاعات جب مکہ پہنچیں تو قریش نے مسلمانوں کا مذاق اڑانا شروع کیا کہ دیکھ لو اپنے ہم مسلکوں کا حشر۔ تمھارا نبی بھی ہم پر غلبہ کے خواب دیکھتا ہے۔ اگر یہ سچا ہوتا تو خدا ایرانی مشرکوں کو رومی توحید پرستوں پرکیوں غلبہ عطاکرتا۔ دیکھو رومیوں کے پاؤں کسی جگہ ٹکنے میں نہیں آ رہے ہیں اور ایرانی فوجیں ان کے ملک میں گھسی جا رہی ہیں۔ مسلمانوں کا حال بھی یہی ہو گا کہ کہیں ان کو سر چھپانے کی جگہ نہیں ملے گی۔ مسلمانوں کی ہمدردیاں چونکہ عیسائیوں کے ساتھ تھیں، اس لیے وہ شرمندہ ہو کر رہ جاتے اور ان سے کوئی جواب نہ بن پڑتا۔ اس موقع پر سورۂ روم کی آیات نازل ہوئیں:

اآمآ. غُلِبَتِ الرُّوْمُ. فِیْٓ اَدْنَی الْاَرْضِ وَھُمْ مِّنْ بَعْدِ غَلَبِھِمْ سَیَغْلِبُوْنَ. فِیْ بِضْعِ سِنِیْنَ. لِلّٰہِ الْاَمْرُ مِنْ قَبْلُ وَ مِنْ بَعْدُ. وَیَوْمَءِذٍ یَّفْرَحُ الْمُؤْمِنُوْنَ. بِنَصْرِ اللّٰہِ. یَنْصُرُ مَنْ یَّشَآءُ. وَھُوَ الْعَزِیْزُ الرَّحِیْمُ. وَعْدَ اللّٰہِ. لَا یُخْلِفُ اللّٰہُ وَعْدَہٗ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ.(الروم ۳۰: ۱۔۶)
’’یہ سورۂ اآم ہے۔ رومی پاس کے علاقے میں مغلوب ہوئے اور وہ اپنی مغلوبیت کے بعد عنقریب چند سالوں میں غالب آ جائیں گے۔ اللہ ہی کے حکم سے ہوا جو پہلے ہوا اور اللہ ہی کے حکم سے ہو گا جو بعد میں ہو گا۔ اور اس وقت اہل ایمان مسرور ہوں گے اللہ کی مدد سے۔ وہ جس کی چاہتا ہے مدد کرتا ہے اور غالب و مہربان تو وہی ہے۔ یہ اللہ کا حتمی وعدہ ہے اور اللہ اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔‘‘

ان آیات میں مسلمانوں کو تسلی دی گئی کہ ایرانیوں کی کامیابیاں عارضی ہیں۔ بہت جلد حالات پلٹا کھائیں گے اور چند سالوں میں رومی فی الوقت اپنی مغلوبیت کے باوجود ایرانیوں پر غالب آ جائیں گے۔ اس وقت اہل ایمان کے مسرور ہونے کا وقت ہو گا اور مشرکین مکہ اپنا منہ چھپاتے پھریں گے۔
’چند سالوں‘ کے لیے عربی میں جو لفظ استعمال ہوا ہے وہ ’بِضْعِ سِنِیْنَ‘ ہے۔ اس کا اطلاق نو سال یا اس سے کچھ کم مدت پر ہوتا ہے۔ فی الحقیقت ایسا ہی ہوا اور مدینہ کو ہجرت کے بعد دوسرے سال رومیوں نے ایرانیوں کو مکمل طور پر مغلوب کر لیا۔ اس موقع پر اہل ایمان کے لیے اللہ کی نصرت کی ایسی شانیں ظاہر ہوئیں کہ تین سو کمزور مسلمانوں نے ایک ہزار آہن پوش کفار کو بدر کے میدان میں شکست دے دی۔ اس جنگ میں کفار کے صف اول کے تمام سردار جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دشمنی میں پیش پیش رہتے تھے، مارے گئے۔ اس طرح ہجرت حبشہ کے موقع پر کی گئی پیشین گوئی پوری ہو گئی اور اہل ایمان کو کئی مسرتیں ایک ساتھ حاصل ہوئیں۔

حبشہ سے مہاجرین کی واپسی

حبشہ میں قیام کے کچھ عرصہ بعد ۳۳ مسلمان جن میں سے بعض کی بیویاں بھی ساتھ تھیں، وہاں سے مکہ لوٹ آئے۔ ابن اسحاق کے مطابق ان کی آمد اہل مکہ کے اسلام لانے کی ایک غلط خبر سن کر ہوئی۔ واپس آ کر یہ ایک مخمصہ میں گرفتار ہو گئے کہ شہر میں کس کی ذمہ داری پر داخل ہوں۔ اپنے پہلے گھروں کے دروازے ان پر بند ہو چکے تھے۔ کسی مضبوط شخص کا جوار حاصل کیے بغیر مکہ میں رہنا خطرہ سے خالی نہ تھا۔ چنانچہ بعض مسلمانوں نے اپنے قبیلہ کو چھوڑ کر دوسرے خانوادوں کاجوار حاصل کیا۔ حضرت عثمان بن مظعون حضرت ولید بن مغیرہ کی پناہ میں آئے۔ انھوں نے جب دیکھا کہ میں تو ولید کے جوار کے باعث بڑے آرام اور سکون سے ہوں، جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسرے مسلمان تکلیفیں اٹھا رہے ہیں تو وہ ولید کے پاس گئے کہ میں آپ کا جوار لوٹاتا ہوں۔ ولید نے کہا: میں نے جوار مسجد میں دیا تھا، اس کو لوٹانا بھی مسجد ہی میں ہو گا۔ چنانچہ حضرت عثمان مسجد میں گئے اور یہ اقرار کرنے کے بعد کہ ولید کاجوار نہایت شریفانہ تھا، اس کو واپس کرنے کا اعلان کیا اور کہا کہ اب اللہ کی پناہ پر اعتماد کروں گا۔
حضرت ابو سلمہ بن عبدالاسد نے ابوطالب کا جوار حاصل کیا جس پر ابولہب بہت تلملایا اور اس جوار کی مخالفت کی۔ ابوطالب نے جواب دیا کہ ابوسلمہ میرے بھانجے ہیں۔ میں ان کو پناہ دیتا ہوں۔
حبشہ جانے والے باقی مہاجرین وہاں سے دوبارہ ہجرت کر کے مدینہ منورہ پہنچے اور اللہ کی راہ میں دو ہجرتوں کا ثواب حاصل کیا۔ شاید تمام امتوں میں یہ شرف صرف امت مسلمہ کو حاصل ہوا ہے کہ پیغمبر کے بعض ساتھیوں نے دو مرتبہ ہجرت کا ثواب کمایا۔
 

۱؂ السیرۃ النبویہ، ابن ہشام ۳۹۱۔ ۳۹۲۔
۲؂ سیرۃ النبی (مترجم)، ابن کثیر ، مکتبہ قدوسیہ اردو بازار لاہور، ۲۸۱۔
۳؂ صحیح مسلم، باب من فضائل ابی ذر، ۳۸۸۔
۴؂ السیرۃ النبویہ ، ابن ہشام ۳۴۳۔ ۳۴۶۔
۵؂ السیرۃ النبویہ ، ابن ہشام ۳۴۲۔
۶؂ السیرۃ النبویہ ، ابن ہشام ۳۴۸۔

-------------------------------

 

بشکریہ ماہنامہ اشراق

تحریر/اشاعت مئی 2008
مصنف : خالد مسعود
Uploaded on : Sep 09, 2016
5845 View