بم دھماکوں کی ذمہ داری

بم دھماکوں کی ذمہ داری

 

پچھلے دنوں بھارت ، دہلی کے لال قلعے میں ایک مسلح کارروائی ہوئی ، جس میں کچھ بھارتی فوجی ہلاک ہو گئے ۔ اس کارروائی کی ذمہ داری پاکستان میں ایک ’’جہادی‘‘ مذہبی گروہ نے بڑے فخر سے قبول کی اور اخبارات کو لال قلعہ کا نقشہ جاری کر کے بتایا کہ ان کے افراد نے کس طرح یہ کارروائی کی۔
اس واقعہ کے بعد پاکستان میں ایک بم دھماکا ہوا ۔ یہ دھماکاکسی قلعے میں نہیں ،بلکہ کراچی میں صدر جیسے معروف علاقے کے قریب شاہراہِ لیاقت پر تین منزلہ رہایشی اور تجارتی عمارت میں عید کی رات ہوا جس میں ایک تین سالہ بچی ہلاک اور اس کے والد ، والدہ اور بھائی سمیت ۱۰ افراد زخمی ہوئے ۔ یہ دھماکا بھی دراصل ایک ’’جہادی‘‘ مذہبی گروہ کے دفتر میں ہوا تھا۔ اس گروہ نے کہا کہ : ’’یہ دھماکا لال قلعے میں ہماری کارروائی کا جواب ہے ۱؂ ، اس میں ’’را‘‘ ملوث ہے ۔‘‘ اس گروہ نے کہا کہ: ’’معصوم شہریوں کو شہید کر کے بھارت نے بین الاقوامی قانون کے دھجیاں بکھیری ہیں ۔ اس کا بدلہ مجاہدین پر قرض ہے ۔ اس کا بدلہ سری نگر اور دہلی میں لیا جائے گا ۔‘‘
اسی طرح پاکستان کے اول الذکر ’’جہادی‘‘ گروہ نے کہا کہ: ’’یہ دھماکا لال قلعے کی کارروائی کے ردِ عمل میں ہوا ہے ۔ یہ بزدلانہ حرکت ہے۔‘‘ اور ساتھ یہ اعلان کیا کہ :’’اب ہم بھارت کے اندر اہم فوجی چھاؤنیوں ، پولیس عمارتوں اور تھانوں کو نشانہ بنائیں گے ۔ ‘‘اس گروہ نے کہا کہ: ’’جہاد کے نام پر واجپائی کے پیروں تلے سے زمین نکل رہی ہے ۔ واشنگٹن کے ایوان لرز رہے ہیں ۔ ہم دہشت گرد نہیں ۔ ہم تو مظلوم پر ظلم نہیں کرتے، بلکہ ظلم کے خاتمے کے لیے نکلے ہیں ۔ خدا نے ہمیں جہاد کے آداب سکھائے ہیں ۔ مجاہدین سڑکوں اور گاڑیوں میں دھماکا نہیں کرتے ۔۔۔سنگینوں کے سائے تلے کسی قسم کے مذاکرات نہیں ہوں گے اور نہ کوئی بات سنی اور نہ کی جائے گی ۔ ‘‘
اُدھر بھارت میں دہلی کی شاہی مسجد کے امام اور بھارتی مسلمانوں کے ایک اہم رہنما مولانا سید احمد بخاری نے کہا کہ :’’ان گروہوں کی کارروائیوں سے بھارت میں مسلمانوں کے خلاف فرقہ دارانہ نفرت پیدا ہو رہی ہے ۔ ‘‘ انھوں نے ’’جہادی‘‘ گروہوں سے اپیل کی کہ : ’’وہ بھارتی فوج کی یک طرفہ جنگ بندی کے جواب میں سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کریں ۔ ‘‘انھوں نے بھارتی حکومت پر بھی زور دیا کہ : ’’وہ کشمیر کے تمام نوجوانوں کو رہا کرے اور سرحد پار کر کے مجاہد گروپوں میں شامل ہونے والوں کے لیے عام معافی کا اعلان کرے ۔‘‘
ہم یہ بات ان صفحات پر بارہا کر چکے ہیں کہ دین و شریعت کے اعتبار سے جہاد و قتال کا حق صرف مسلمانوں کے حکمرانوں کو حاصل ہے۔ عام مذہبی گروہ جس طرح زانی کو کوڑے نہیں مار سکتے ،چور کے ہاتھ نہیں کاٹ سکتے ، اسی طرح جہاد و قتال بھی نہیں کر سکتے ۔ قرآنِ مجید گواہ ہے کہ مخالفین کے شدید مظالم کے باوجود جب تک کسی نبی کو سیاسی اقتدار نہیں مل گیا ، اس وقت تک اس نے کبھی جہاد وقتال نہیں کیا ۔ یہی وجہ ہے کہ جید اہلِ علم جہاد وقتال کے لیے سیاسی اقتدار کو لازمی شرط قرار دیتے ہیں ۔ جہاد و قتال کے بارے میں یہ دین کی تعلیمات ہیں ۔ یہ ہم اس وقت تک بیان کرتے رہیں گے اور بار بار بیان کرتے رہیں گے ، جب تک ان کی خلاف ورزی جاری ہے۔
یہاں ہمارے پیشِ نظر حکمت و دانائی کے پہلو سے مولانا سید احمد بخاری کی بات کی تائید کرنا ہے۔ بلاشبہ یہ بات انبیا کی تعلیمات کے عین مطابق ہے ۔ انسانی جھگڑوں کے خاتمے میں عفو و درگزر اور رواداری کا رویہ غیر معمولی طور پر مثبت کردار ادا کرتا ہے ۔ پاکستان اور بھارت کی بہتری اسی میں ہے کہ وہ اپنے تنازعے سیاسی بصیرت سے حل کریں اور اس معاملے میں عفو و درگزر اور رواداری سے کام لیں ۔
بھارت کے چند فوجیوں کو ہلاک کر کے خوش ہونے والوں کو سوچنا چاہیے کہ ان کے اقدام کا نتیجہ کیا نکل رہا ہے۔ ان کے اقدام سے ہو سکتا ہے کہ ایک واجپائی کو کچھ خوف محسوس ہو رہا ہو ، مگر بھارت کے رہنے والے کروڑوں مسلمان یقینی طور پر واجپائی سے زیادہ خوف کا شکار ہو رہے ہیں ۔ بھارتی مسلمانوں کے مذہبی رسالوں کے اداریے بارہا اس بات کا اظہار کر چکے ہیں ۔ مولانا سید احمدبخاری کا بیان بھی اسی سنگین صورت حال کی طرف اشارہ کر رہا ہے ۔ پچھلے دنوں روزنامہ ’’جنگ‘‘ میں ایک خبر اس عنوان سے شائع ہوئی کہ : ’’بھارتی مسلمانوں نے خوف میں عید منائی۔ ‘‘ اور تفصیل میں لکھا گیا کہ: ’’بھارت میں رہنے والے مسلمانوں نے بدھ کو عید الفطر دکھ اور خوف کے عالم میں منائی ۔ لال قلعہ پر کشمیری مجاہدین کے حالیہ حملوں کی وجہ سے نمازِ عید کے اجتماعات پر انتہا پسند ہندوؤں کے حملے کا خطرہ تھا جس کے پیش نظر نماز عید کے اجتماعات کی حفاظت کے لیے انتظامات کیے گئے ۔ یوں مسلمانوں نے خوف و ہراس کے ماحول میں عید منائی ۔‘‘
اس سنگین صورتِ حال پر مزید غور کریں تو یہ سنگین تر محسوس ہونے لگتی ہے ۔ غور کیجیے ،جب یہ ’’جہادی‘‘ مذہبی گروہ بھارت میں کوئی کارروائی کرتے ہیں تو ظاہر ہے کہ بھارت کی حکومت اس کا پورا انتقام لیتی ہے ، وہ بھارت کے مسلمانوں کی بالعموم اور کشمیر کے مسلمانوں کی بالخصوص زندگی کا گھیرا تنگ کر کے اور پاکستان کے رہایشی علاقوں میں بم دھماکے کر کے اپنے انتقام کی آگ بجھاتی ہے ۔دہلی کے لال قلعے کی کارروائی کے بعد ۳جنوری ۲۰۰۱ کو مقبوضہ کشمیر کے شہر کشتواڑ میں مکمل طور پر لکڑی سے بنی مرکزی جامع مسجد آتش زدگی کے واقعہ میں شہید ہو گئی ۔ کشمیر کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ آگ شارٹ سرکٹ کی وجہ سے لگی جبکہ مقامی مسلمانوں کا موقف یہ ہے کہ فائر بریگیڈ کے عملے نے بروقت آگ پر قابو پانے کی کوشش نہیں کی اور مسجد ایک گھنٹے کے اندر راکھ کا ڈھیر بن گئی ۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ یہ واقعہ کس سلسلے کی کڑی ہو گا ۔
اس صورتِ حال میں عدل و انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ ’’جہادی‘‘ گروہ جب بھارت میں کسی مسلح کارروائی کی ذمہ داری اپنے اوپر لینے کا اعلان کرتے ہیں تو انھیں پاکستان میں ہونے والے بم دھماکوں کی ذمہ داری بھی اپنے اوپر لینے کا اعلان کرنا چاہیے ۔ ان دھماکوں میں معصوم امن پسند شہریوں کے قتل کی ذمہ داری بھی اپنے اوپر لینے کا اعلان کرنا چاہیے۔ بچوں کے یتیم ہونے اور بیویوں کے بیوہ ہونے کی ذمہ داری بھی اپنے اوپر لینے کا اعلان کرنا چاہیے ۔ٹانگوں اور بازوؤں سے محروم ہونے والے زخمیوں کی ذمہ داری بھی اپنے اوپر لینے کا اعلان کرنا چاہیے ۔ اس لیے کہ انھی گروہوں کا کہنا ہے کہ اُن کی کارروائیوں کے جواب میں بھارت یہ دھماکے کرتا ہے ۔ اسی طرح بھارت کے مسلمانوں کی پریشانیوں میں جو مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور ان پر چھائے ہوئے خوف کے سائے جو مسلسل گہرے ہو رہے ہیں ، اس کی ذمہ داری بھی اپنے اوپر لینے کا اعلان کرنا چاہیے۔
پاکستان اور بھارت جیسے غریب ملکوں کی حکومتیں (جو جنگوں کو بالکل افورڈ نہیں کر سکتیں) باہمی تنازعات پُرامن ذرائع سے حل کرنے کے معاہدوں میں بندھی ہوئی ہیں ،مگر افسوس ہے کہ یہ خود ان معاہدوں پر صحیح طرح عمل پیرا نہیں ہوتیں ۔ اور جب کبھی یہ حکومتیں دانش کا مظاہرہ کرتے ہوئے مذاکرات کا ماحول پیدا کرتی ہیں تو اسلام جیسے امن و آتشی کے پیامبر مذہب کو ماننے والے پاکستان کے یہ مذہبی لوگ ہی مذاکرات کی فضا کو خراب کرنا شروع کر دیتے ہیں ۔ اور اس طرح دنیا کو اسلام کا یہ باطل تاثر دینے کی غیر شعوری کوشش کرتے ہیں کہ اسلام جنگ و جدال کو پسند اور سیاست و سفارت سے مسائل حل کرنے کو ناپسند کرنے والا دین ہے ۔
دیدۂ بینا اور دلِ درمند رکھنے والے ہر مسلمان کے نزدیک یہ بہت سنگین صورتِ حال ہے ۔ تمام مسلمانوں کو اپنی اپنی استعداد اور سطح کے مطابق اس کی اصلاح کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اور یہ دعا مانگنی چاہیے کہ عالم کا پروردگار اسلام اور مسلمانوں کو مسلمانوں کی بے تدبیریوں سے محفوظ رکھے۔

 

۱؂ اب یہ خدا ہی جانتا ہے کہ دہلی کے لال قلعے میں کس گروہ نے کارروائی کی۔ ’’جہادی‘‘ گروہوں میں ایسی مسلح کارروائیوں کا ’’کریڈٹ‘‘ لینے کے بارے میں یہ صورتِ حال پیدا ہوتی رہتی ہے۔

-------------------------------

 

بشکریہ ماہنامہ اشراق

تحریر/اشاعت فروری 2001
Uploaded on : Sep 22, 2016
2709 View