اذکار و ادعیہ مسنونہ (۲) - محمد رفیع مفتی

اذکار و ادعیہ مسنونہ (۲)

 (گذشتہ سے پیوستہ )

(۹۸)

عَنْ عَلِیٍّ الْأَزْدِیِّ ... أَنَّ ابْنَ عُمَرَ عَلَّمَہُمْ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ إِذَا اسْتَوٰی عَلٰی بَعِیْرِہِ خَارِجًا إِلٰی سَفَرٍ کَبَّرَ ثَلَاثًا ثُمَّ قَالَ: سُبْحَانَ الَّذِیْ سَخَّرَ لَنَا ہَذَا وَمَا کُنَّا لَہُ مُقْرِنِیْنَ وَإِنَّا إِلٰی رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُوْنَ، أَللّٰہُمَّ إِنَّا نَسْأَلُکَ فِیْ سَفَرِنَا ہَذَا الْبِرَّ وَالتَّقْوٰی وَمِنَ الْعَمَلِ مَا تَرْضٰی، أَللّٰہُمَّ ہَوِّنْ عَلَیْنَا سَفَرَنَا ہَذَا وَاطْوِ عَنَّا بُعْدَہُ، أَللّٰہُمَّ أَنْتَ الصَّاحِبُ فِی السَّفَرِ وَالْخَلِیْفَۃُ فِی الْأَہْلِ، أَللّٰہُمَّ إِنِّیْ أَعُوْذُ بِکَ مِنْ وَعْثَاءِ السَّفَرِ وَکَآبَۃِ الْمَنْظَرِ وَسُوْءِ الْمُنْقَلَبِ فِی الْمَالِ وَالْأَہْلِ وَإِذَا رَجَعَ قَالَہُنَّ وَزَادَ فِیْہِنَّ آیِبُوْنَ تَاءِبُوْنَ عَابِدُوْنَ لِرَبِّنَا حَامِدُوْنَ. (مسلم، رقم ۳۲۷۵)حضرت علی ازدی (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ حضرت ابن عمر( رضی اللہ عنہما) نے انھیں بتایا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی سفر کے لیے نکلتے ہوئے اپنے اونٹ پر اچھی طرح بیٹھ جاتے تو تین دفعہ تکبیر کہتے اور پھر یہ کہتے:
پاک ہے وہ ذات جس نے اس سواری کو ہمارے لیے تابع فرمان بنا دیاہے، ورنہ ہم اِس پر غلبہ حاصل نہیں کر سکتے تھے، اور حقیقت یہ ہے کہ ہم اپنے رب ہی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ اے اللہ ، ہم اپنے اس سفر میں تجھ سے نیکی اور تقویٰ کی توفیق مانگتے ہیں اور ایسے عمل کی توفیق مانگتے ہیں جو تجھے راضی کر دے۔ اے اللہ، تو ہمارے اس سفر کو ہم پر سہل کر دے اور اس کی درازی سمیٹ دے۔ اے اللہ، تو سفر میں ساتھی ہے اور پیچھے اہل وعیال میں رکھوالا ہے۔ اے اللہ، میں اس سفر کی مشقت سے تیری پناہ مانگتا ہوں اور اس سے بھی کہ کوئی برا منظر میرے سامنے آئے اور اس سے بھی کہ جب میں اپنے اہل وعیال اور اموال میں لوٹوں تو کوئی خرابی میری منتظر ہو۔
پھر جب آپ سفر سے واپس آتے تو انھی الفاظ کے ساتھ مزید ان کلمات کا اضافہ کرتے:
ہم لوٹنے والے ، توبہ کرنے والے، عبادت کرنے والے اور اپنے رب ہی کی حمد کرنے والے ہیں۔

(۹۹)

عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أَبِیْ بَکْرَۃَ أَنَّہُ قَالَ لِأَبِیْہِ: یَا أَبَتِ إِنِّیْ أَسْمَعُکَ تَدْعُوْ کُلَّ غَدَاۃٍ: أَللّٰہُمَّ عَافِنِیْ فِیْ بَدَنِیْ، أَللّٰہُمَّ عَافِنِیْ فِیْ سَمْعِیْ، أَللّٰہُمَّ عَافِنِیْ فِیْ بَصَرِیْ لَا إِلٰہَ إِلَّا أَنْتَ، تُعِیْدُہَا ثَلَاثًا حِیْنَ تُصْبِحُ وَثَلَاثًا حِیْنَ تُمْسِیْ، فَقَالَ: إِنِّیْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَدْعُوْ بِہِنَّ فَأَنَا أُحِبُّ أَنْ أَسْتَنَّ بِسُنَّتِہِ، قَالَ عَبَّاسٌ فِیْہِ: وَتَقُوْلُ: أَللّٰہُمَّ إِنِّیْ أَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْکُفْرِ وَالْفَقْرِ، أَللّٰہُمَّ إِنِّیْ أَعُوْذُ بِکَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ لَا إِلٰہَ إِلَّا أَنْتَ، تُعِیْدُہَا ثَلَاثًا حِیْنَ تُصْبِحُ وَثَلَاثًا حِیْنَ تُمْسِیْ فَتَدْعُوْ بِہِنَّ فَأُحِبُّ أَنْ أَسْتَنَّ بِسُنَّتِہِ، قَالَ: وَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: دَعَوَاتُ الْمَکْرُوْبِ: أَللّٰہُمَّ رَحْمَتَکَ أَرْجُوْ فَلَا تَکِلْنِیْ إِلٰی نَفْسِیْ طَرْفَۃَ عَیْنٍ وَأَصْلِحْ لِیْ شَأْنِیْ کُلَّہُ لَا إِلٰہَ إِلَّا أَنْتَ.(ابوداؤد، رقم ۵۰۹۰)حضرت عبدالرحمن بن ابی بکرہ (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ میں نے اپنے والد سے کہا کہ اے ابا جان، میں آپ کو ہر روز یہ دعا کرتے ہوئے سنتا ہوں: ’أَللّٰہُمَّ عَافِنِیْ فِیْ بَدَنِیْ، أَللّٰہُمَّ عَافِنِیْ فِیْ سَمْعِیْ، أَللّٰہُمَّ عَافِنِیْ فِیْ بَصَرِیْ لَا إِلٰہَ إِلَّا أَنْتَ‘ (اے اللہ، مجھے میرے بدن میں عافیت دے، اے اللہ میری سماعت میں عافیت دے، اے اللہ میری بصارت میں عافیت دے، تیرے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے)، آپ ان کلمات کو صبح وشام تین تین دفعہ پڑھتے ہیں(اس کی کیا وجہ ہے؟)، انھوں نے یہ بتایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو انھی کلمات کے ساتھ دعا کرتے ہوئے سنا ہے اور مجھے یہ پسند ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ اپناؤں۔
عباس راوی کہتے ہیں کہ ان الفاظ کے ساتھ (عبدالرحمن بن ابی بکرہ کے) یہ الفاظ بھی تھے: ’وَتَقُوْلُ أَللّٰہُمَّ إِنِّیْ أَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْکُفْرِ وَالْفَقْرِ، أَللّٰہُمَّ إِنِّیْ أَعُوْذُ بِکَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ لَا إِلٰہَ إِلَّا أَنْتَ‘ (آپ کہتے ہیں:اے اللہ ،میں کفر اور محتاجی سے تیری پناہ چاہتا ہوں، اے اللہ، میں عذاب قبر سے تیری پناہ چاہتا ہوں،تیرے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے)۔
آپ ان کلمات کو صبح وشام تین تین دفعہ پڑھتے اور ان کے ساتھ دعا کرتے ہیں( تو انھوں نے کہا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کلمات پڑھتے ہوئے سنا ہے ،چنانچہ) میں پسند کرتا ہوں کہ آپ کے طریقے کو اپناؤں۔ راوی کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مصیبت زدہ آدمی کی دعا یہ ہے:
’أَللّٰہُمَّ رَحْمَتَکَ أَرْجُوْ فَلَا تَکِلْنِیْ إِلٰی نَفْسِیْ طَرْفَۃَ عَیْنٍ وَأَصْلِحْ لِیْ شَأْنِیْ کُلَّہُ لَا إِلٰہَ إِلَّا أَنْتَ‘(اے اللہ، میں تجھ سے تیری رحمت کا امید وار ہوں، تو مجھے ایک لمحے کے لیے میرے نفس کے حوالے نہ کر اور میرے تمام کاموں کو سنوار دے، تیرے سوا کوئی الٰہ نہیں)۔

(۱۰۰)

عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِیْ عَمْرٍو قَالَ : سَمِعْتُ قَالَ: کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ: أَللّٰہُمَّ إِنِّیْ أَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْہَمِّ وَالْحَزَنِ وَالْعَجْزِ وَالْکَسَلِ وَالْجُبْنِ وَالْبُخْلِ وَضَلَعِ الدَّیْنِ وَغَلَبَۃِ الرِّجَالِ.(بخاری، رقم ۶۳۶۹)حضرت عمرو بن ابی عمرو (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ میں نے حضرت انس ( رضی اللہ عنہ ) کو کہتے ہوئے سنا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا پڑھا کرتے تھے: اے اللہ، میں تیری پناہ مانگتا ہوں، فکر سے، غم سے، عاجزی، سستی، بزدلی ، بخل، قرض کے بوجھ اور لوگوں کے غلبے سے۔

(۱۰۱)

عَنْ عَاءِشَۃَ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَقُوْلُ: أَللّٰہُمَّ إِنِّیْ أَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْکَسَلِ وَالْہَرَمِ وَالْمَغْرَمِ وَالْمَأْثَمِ، أَللّٰہُمَّ إِنِّیْ أَعُوْذُ بِکَ مِنْ عَذَابِ النَّارِ وَفِتْنَۃِ النَّارِ وَفِتْنَۃِ الْقَبْرِ وَعَذَابِ الْقَبْرِ وَشَرِّ فِتْنَۃِ الْغِنٰی وَشَرِّ فِتْنَۃِ الْفَقْرِ وَمِنْ شَرِّ فِتْنَۃِ الْمَسِیحِ الدَّجَّالِ، أَللّٰہُمَّ اغْسِلْ خَطَایَایَ بِمَاءِ الثَّلْجِ وَالْبَرَدِ وَنَقِّ قَلْبِیْ مِنَ الْخَطَایَا کَمَا یُنَقَّی الثَّوْبُ الْأَبْیَضُ مِنَ الدَّنَسِ وَبَاعِدْ بَیْنِیْ وَبَیْنَ خَطَایَایَ کَمَا بَاعَدْتَّ بَیْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ. (بخاری، رقم ۶۳۷۵)حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا) سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا پڑھا کرتے تھے: اے اللہ، میں سستی سے، بڑھاپے سے ،تاوان اور گناہ سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ اے اللہ، میں پناہ مانگتا ہوں، آگ کے عذاب سے، آگ کی آزمایش سے، قبر کی آزمایش سے، قبر کے عذاب سے، دولت کی آزمایش کے شر سے، فقر کی آزمایش کے شر سے اور مسیح دجال کی آزمایش کے شر سے۔ اے اللہ، تو میرے گناہوں کو برف اور اولوں کے پانی سے دھو دے اور میرے دل کو گناہوں سے پاک کر دے، جس طرح سفید کپڑا میل سے پاک کیا جاتا ہے، اور میرے اور میری خطاؤں کے درمیان میں ایسی دوری پیدا کردے، جیسی دوری تو نے مشرق اور مغرب میں پیدا کر رکھی ہے۔

(۱۰۲)

عَنْ زَیْدِ بْنِ أَرْقَمَ قَالَ: لَا أَقُوْلُ لَکُمْ إِلَّا کَمَا کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ، کَانَ یَقُوْلُ: أَللّٰہُمَّ إِنِّیْ أَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْعَجْزِ وَالْکَسَلِ وَالْجُبْنِ وَالْبُخْلِ وَالْہَرَمِ وَعَذَابِ الْقَبْرِ، أَللّٰہُمَّ آتِ نَفْسِیْ تَقْوَاہَا وَزَکِّہَا أَنْتَ خَیْرُ مَنْ زَکَّاہَا أَنْتَ وَلِیُّہَا وَمَوْلَاہَا، أَللّٰہُمَّ إِنِّیْ أَعُوْذُ بِکَ مِنْ عِلْمٍ لَا یَنْفَعُ وَمِنْ قَلْبٍ لَا یَخْشَعُ وَمِنْ نَفْسٍ لَا تَشْبَعُ وَمِنْ دَعْوَۃٍ لَا یُسْتَجَابُ لَہَا.(مسلم، رقم ۶۹۰۶)روایت ہے کہ حضرت زید بن ارقم (رضی اللہ عنہ) نے لوگوں سے کہا کہ میں تمھیں وہی دعا سکھاتا ہوں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پڑھا کرتے تھے، آپ (صلی اللہ علیہ وسلم )یہ دعا پڑھا کرتے تھے: اے اللہ، میں عاجزی، سستی، بزدلی، بخل، بڑھاپے اور عذاب قبر سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔ اے اللہ، مجھے متقی اور پاکیزہ نفس بنا دے ، یقیناًتو ہی بہترین پاک کرنے والا ہے، تو ہی اس کا آقا اور مولیٰ ہے۔ اے اللہ، میں تیری پناہ مانگتا ہوں ایسے علم سے جو نفع نہ دے اور ایسے دل سے جس میں خشوع نہ ہو اور ایسے نفس سے جو سیر نہ ہو اور ایسی دعا سے جو قبول نہ ہو۔

(۱۰۳)

عَنْ أَبِیْ مُوْسَی الْأَشْعَرِیِّ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہُ کَانَ یَدْعُوْ بِہَذَا الدُّعَاءِ: أَللّٰہُمَّ اغْفِرْ لِیْ خَطِیْءَتِیْ وَجَہْلِیْ وَإِسْرَافِیْ فِیْ أَمْرِیْ وَمَا أَنْتَ أَعْلَمُ بِہِ مِنِّیْ، أَللّٰہُمَّ اغْفِرْ لِیْ جِدِّیْ وَہَزْلِیْ وَخَطَءِیْ وَعَمْدِیْ وَکُلُّ ذٰلِکَ عِنْدِیْ، أَللّٰہُمَّ اغْفِرْ لِیْ مَا قَدَّمْتُ وَمَا أَخَّرْتُ وَمَا أَسْرَرْتُ وَمَا أَعْلَنْتُ وَمَا أَنْتَ أَعْلَمُ بِہِ مِنِّیْ أَنْتَ الْمُقَدِّمُ وَأَنْتَ الْمُؤَخِّرُ وَأَنْتَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ.(مسلم، رقم ۶۹۰۱)حضرت ابو موسیٰ اشعری (رضی اللہ عنہ)روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا پڑھا کرتے تھے: اے اللہ، تو میری خطا اور نادانی اور معاملات میں میری زیادتی کو معاف فرما دے اور ان سب چیزوں کو بھی جنھیں تو مجھ سے زیادہ جانتا ہے۔ اے اللہ، میں نے جو کچھ سوچ سمجھ کر کیا ہے اور جو کچھ ہنسی مذاق میں کیا ہے اور جو دانستہ کیا ہے اور جو کچھ نادانستہ کیا ہے، سب معاف فرما دے، یہ سب میری ہی طرف سے ہے۔ اے اللہ، تو بخش دے جو کچھ میں نے آگے بھیجا ہے اور جو کچھ پیچھے چھوڑا ہے، اور جو کچھ چھپایا اور جو کچھ علانیہ کیا ہے، اور وہ بھی جسے تو مجھ سے زیادہ جانتاہے۔ تو ہی آگے کرنے والا اور تو ہی پیچھے کرنے والا ہے، اور تو ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔

(۱۰۴)

عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہُ کَانَ یَقُوْلُ: أَللّٰہُمَّ إِنِّیْ أَسْأَلُکَ الْہُدٰی وَالتُّقٰی وَالْعَفَافَ وَالْغِنٰی وَالْعِفَّۃَ.(مسلم، رقم ۶۹۰۴)حضرت عبداللہ بن مسعود (رضی اللہ عنہ )سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا پڑھا کرتے تھے: اے اللہ، میں تجھ سے ہدایت، تقویٰ، پاک دامنی، استغنا اور نفس کی پاکیزگی کا سوال کرتا ہوں۔

(۱۰۵)

عَنْ طَارِقِ بْنِ أَشِیْمَ الأَشْجَعِیِّ قَالَ: کَانَ الرَّجُلُ إِذَا أَسْلَمَ عَلَّمَہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الصَّلٰوۃَ ثُمَّ أَمَرَہُ أَنْ یَّدْعُوَ بِہٰؤُلَاءِ الْکَلِمَاتِ: أَللّٰہُمَّ اغْفِرْ لِیْ وَارْحَمْنِیْ وَاہْدِنِیْ وَعَافِنِیْ وَارْزُقْنِیْ. (مسلم، رقم ۶۸۵۰)حضرت طارق بن اشیم اشجعی (رضی اللہ عنہ )سے روایت ہے کہ جب کوئی آدمی مسلمان ہوا کرتا تھا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسے نماز سکھایا کرتے اور آپ اسے فرماتے کہ ان الفاظ کے ساتھ دعا کیا کرو: اے اللہ، تو مجھے بخش دے، مجھ پر رحم فرما، مجھے ہدایت دے، عافیت دے اور رزق عطا فرما۔

(۱۰۶)

عَنْ أَنَسٍ قَالَ: کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ: أَللّٰہُمَّ رَبَّنَا آتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْآخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ. (بخاری، رقم ۴۵۲۲)حضرت انس (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا کیا کرتے تھے: اے اللہ، ہمیں دنیا میں بھی بھلائی عطا فرما اور آخرت میں بھی ، اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچالے۔

(۱۰۷)

سَأَلَ قَتَادَۃُ أَنَسًا: أَیُّ دَعْوَۃٍ کَانَ یَدْعُوْ بِہَا النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَکْثَرَ؟ قَالَ: کَانَ أَکْثَرُ دَعْوَۃٍ یَدْعُوْ بِہَا یَقُوْلُ: أَللّٰہُمَّ آتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْآخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ، قَالَ: وَکَانَ أَنَسٌ إِذَا أَرَادَ أَنْ یَّدْعُوَ بِدَعْوَۃٍ دَعَا بِہَا فَإِذَا أَرَادَ أَنْ یَّدْعُوَ بِدُعَاءٍ دَعَا بِہَا فِیْہِ. (مسلم، رقم ۶۸۴۰)حضرت قتادہ (رضی اللہ عنہ) نے حضرت انس (رضی اللہ عنہ) سے پوچھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اکثر اوقات کون سی دعا کیا کرتے تھے؟انھوں نے کہا کہ آپ اکثر یہ دعا کیا کرتے تھے:
’اے اللہ، ہمیں دنیا میں بھی بھلائی عطا فرما اور آخرت میں بھی ، اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچالے‘۔
خود انس رضی اللہ عنہ بھی جب دعا کرتے تھے تو یہی دعا کیا کرتے تھے اور اگر انھیں کوئی اور دعا کرنا ہوتی تو آپ اس کے اندر یہ دعا بھی کر لیا کرتے تھے۔

(۱۰۸)

عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّاءِبِ عَنْ أَبِیْہِ قَالَ: صَلّٰی بِنَا عَمَّارُ بْنُ یَاسِرٍ صَلٰوۃً فَأَوْجَزَ فِیْہَا فَقَالَ لَہُ بَعْضُ الْقَوْمِ: لَقَدْ خَفَّفْتَ أَوْ أَوْجَزْتَ الصَّلٰوۃَ فَقَالَ: أَمَّا عَلٰی ذٰلِکَ فَقَدْ دَعَوْتُ فِیْہَا بِدَعَوَاتٍ سَمِعْتُہُنَّ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا قَامَ تَبِعَہُ رَجُلٌ مِّنَ الْقَوْمِ ہُوَ أُبَیٌّ غَیْرَ أَنَّہُ کَنٰی عَنْ نَفْسِہِ فَسَأَلَہُ عَنِ الدُّعَاءِ ثُمَّ جَاءَ فَأَخْبَرَ بِہِ الْقَوْمَ: أَللّٰہُمَّ بِعِلْمِکَ الْغَیْبَ وَقُدْرَتِکَ عَلَی الْخَلْقِ أَحْیِنِیْ مَا عَلِمْتَ الْحَیَاۃَ خَیْرًا لِیْ وَتَوَفَّنِیْ إِذَا عَلِمْتَ الْوَفَاۃَ خَیْرًا لِی، أَللّٰہُمَّ وَأَسْأَلُکَ خَشْیَتَکَ فِی الْغَیْبِ وَالشَّہَادَۃِ وَأَسْأَلُکَ کَلِمَۃَ الْحَقِّ فِی الرِّضَا وَالْغَضَبِ وَأَسْأَلُکَ الْقَصْدَ فِی الْفَقْرِ وَالْغِنٰی وَأَسْأَلُکَ نَعِیْمًا لَا یَنْفَدُ وَأَسْأَلُکَ قُرَّۃَ عَیْنٍ لَا تَنْقَطِعُ وَأَسْأَلُکَ الرِّضَاءَ بَعْدَ الْقَضَاءِ وَأَسْأَلُکَ بَرْدَ الْعَیْشِ بَعْدَ الْمَوْتِ وَأَسْأَلُکَ لَذَّۃَ النَّظَرِ إِلٰی وَجْہِکَ وَالشَّوْقَ إِلٰی لِقَاءِکَ فِیْ غَیْرِ ضَرَّاءَ مُضِرَّۃٍ وَلَا فِتْنَۃٍ مُضِلَّۃٍ، أَللّٰہُمَّ زَیِّنَّا بِزِینَۃِ الْإِیْمَانِ وَاجْعَلْنَا ہُدَاۃً مُہْتَدِیْنَ. (نسائی، رقم ۱۳۰۶)حضرت عطاء بنسائب (رضی اللہ عنہ) اپنے والد گرامی سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمار بن یاسر (رضی اللہ عنہ) نے ہمیں ایک نماز پڑھائی اور اس میں اختصار سے کام لیا، بعض لوگوں نے کہا کہ آپ نے ہلکی یا مختصر نماز پڑھائی ہے، انھوں نے کہا: اس کے باوجود میں نے اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھی ہوئی کئی دعائیں پڑھی ہیں۔
پھر جب وہ اٹھ کھڑے ہوئے تو لوگوں میں سے ایک آدمی ان کے پیچھے پیچھے گیا ، (عطا راوی کہتے ہیں کہ یہ میرے والد سائب ہی تھے، لیکن انھوں نے یہ روایت بیان کرتے ہوئے اپنا نام نہیں لیا) اور ان سے وہ دعا پوچھی اور پھر آکر لوگوں کو بتائی۔ وہ دعا یہ تھی: اے اللہ، تو اپنے علم غیب اور مخلوق پر اپنی قدرت کے وسیلے سے مجھے اس وقت تک زندگی دے جب تک تو جینے کو میرے لیے بہتر جانے؛ اور اس وقت دنیا سے لے جا، جب تو لے جانے کو بہتر جانے۔ اے اللہ، اور میں کھلے اور چھپے میں تیری خشیت مانگتا ہوں؛ اور خوشی اور رنج میں سچی بات کی تو فیق چاہتا ہوں؛ اور فقروغنا میں میانہ روی کی درخواست کرتا ہوں؛ اور ایسی نعمت چاہتا ہوں جو تمام نہ ہو اور آنکھوں کی ایسی ٹھنڈک جو کبھی ختم نہ ہو۔ اور تیرے فیصلوں پر راضی رہنے کا حوصلہ مانگتا ہوں اور موت کے بعد زندگی کی راحت مانگتا ہوں؛ اور تجھ سے ملاقات کا شوق اور تیرے دیدار کی لذت مانگتا ہوں، اس طرح کہ نہ تکلیف دینے والی سختی میں رہوں اور نہ گمراہ کر دینے والے فتنوں میں۔ اے اللہ، تو ہمیں ایمان کی زینت عطا فرما اور ایسا بنا دے کہ خود بھی ہدایت پر رہیں اور دوسروں کو بھی ہدایت دیں۔

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت دسمبر 2011
مصنف : محمد رفیع مفتی
Uploaded on : May 03, 2017
3725 View