نیوزی لینڈ کے سانحے کے بعد ـــــ چند غور طلب پہلو - سید منظور الحسن

نیوزی لینڈ کے سانحے کے بعد ـــــ چند غور طلب پہلو

 کرائسٹ چرچ ،نیوزی لینڈ میں ایک سفاک درندے نے اللہ کے حضور میں سجدہ ریز درجنوں انسانوں کو شہید کر دیا ۔ قلم عاجز ہے کہ اس موقع پر دل کے درد کو بیان کر سکے۔ استاذ گرامی جناب جاوید احمد غامدی کے الفاظ مستعار لیے جائیں تو بس یہی کچھ کہا جا سکتا ہے کہ:

 سینے میں کوئی درد ہے، پنہاں کبھی پیدا

 پہلو میں دھڑکتا تھا جو آنکھوں سےرواں ہے

 اڑتا ہوا خاشاک، یہ بکھری ہوئی لاشیں

 انساں ہیں، مگر ان پہ بھی سایوں کا گماں ہے

 بارود کی بارش ہے شب و روز یہاں اب

 بچوں کو اماں ہے، نہ بزرگوں کو اماں ہے

 ابلیس کے ہاتھوں میں ہے دنیا کی حکومت

 یہ تیرا جہاں ہے تو خدایا، تو کہاں ہے؟

 

 دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے آخری سجدے کو امر کردے ، ان کے لہو کو اپنے دربار میں سرخ روئی کا سبب بنا دے اور ان کی معصومانہ شہادت کے صلے میں ان کی غلطیوں اور کوتاہیوں کو معاف فرما دے۔ اس واقعے نے پوری دنیا کو آزردہ کیا ہے، مگر سب جانتے ہیں کہ چند دنوں کے بعد یہ قصۂ ماضی بن جائے گا اور نائن الیون، سیون سیون، آرمی پبلک اسکول اور اس جیسے دوسرے حادثات کے تسلسل میں اس کی حیثیت محض تاریخی حوالے کی ہو کر رہ جائے گی۔ حالات کا یہی جبر ہے جس سے انسانی تاریخ گزرتی ہے۔ اس سے مفر ممکن نہیں ہے۔ تاہم یہ ضروری ہے کہ ایسے حادثات سے سبق حاصل کیا جائے اور اسباب و عوامل کی تحقیق کر کے ان کے تدارک کی منصوبہ بندی کی جائے۔چنانچہ ریاستوں کے ارباب اقتدار کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے اپنے ملکی حالات کے لحاظ سے ضروری اقدامات کو بروے کار لائیں۔ اہل علم ودانش کو البتہ، ایسے واقعات کے فکری پس منظر اور پیش منظر کو زیر غور لانا چاہیے اور ان محرکات، تصورات اور رویوں کی نشان دہی کرنی چاہیے جو ان میں کمی یا برعکس طور پر اضافے کا باعث بن سکتے ہیں۔نیوزی لینڈ کے واقعے کو اگر اس زاویے سے دیکھا جائے تو ہمارے نزدیک چند باتوں کی اہمیت غیر معمولی ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ دنیا کو اب اس بات کا اندازہ ہو جانا چاہیے کہ انتہا پسندی اور دہشت گردی کے مرض کا اصلاً کسی خطے،کسی نسل، کسی قوم یاکسی مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ظلم اور سفاکی کا یہ عارضہ کسی بھی فرد ، گروہ یا حکومت کو لاحق ہو سکتا اور انسانی جانوں کی بربادی کا باعث بن سکتا ہے۔ ہیرو شیما، ناگا ساکی، نیویارک، لندن، بغداد، فلسطین، شام اور پاکستان و افغانستان میں برپا ہونے والی قیامتیں اس کی بدترین مثالیں ہیں ۔ چنانچہ اگر کوئی گورا یا کالا یا کوئی عربی یا عجمی یا کوئی امریکی یاافغانی یا کوئی ہندوستانی یا پاکستانی یا کوئی ہندو،مسلمان، یہودی یا عیسائی ایسے جرائم میں ملوث ہوتا ہے تو اس بنا پر اس کی نسل، اس کی قوم اوراس کے مذہب کو مورد الزام ٹھہرانا کسی طرح بھی جائز نہیں ہے۔ اسی طرح کوئی تحریک، تنظیم یا حکومت ایسی ظالمانہ کارروائیوں کا ارتکاب کرتی ہے تو اس کی ذمہ داری ان کی قوموں پر بحیثیت مجموعی نہیں ڈالی جا سکتی۔ یہ درست ہے کہ بعض اوقات حکومتی یا سیاسی اور مذہبی طبقات ایسے جرائم کی پشت پناہی کرتے ہیں جس کی وجہ سے ان کا دائرہ زیادہ پھیل جاتا ہے،مگر تاریخ شاہد ہے کہ عین اس وقت اس قوم یا مذہب کے لوگوں کی اکثریت انھیں رد کر رہی ہوتی ہے۔ لہٰذا کسی بڑے یا چھوٹے واقعے کو بنیاد بنا کر کسی قوم پر ایسے جرائم کا لیبل لگانا ہرگز دانش مندی نہیں ہے۔ اس کے رد عمل میں قومی حمیت کے جذبات برانگیختہ ہوسکتے اور اصلاح کے بجاے فساد کے امکانات بڑھ سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ انسانی جان کی حرمت کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے جسے سمجھنے کے لیے غور و فکر کی ضرورت ہو۔ یہ علم کا مقدمہ، تاریخ کا مسلمہ، انسانی فطرت کی آواز، قوموں کا ضمیراور مذاہب کا حکم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو دین اپنے انبیا علیہم السلام کی وساطت سے انسانوں کو دیا ہے، اُس میں بلا امتیاز نسل و مذہب انسانی جان کی حرمت ہمیشہ مسلم رہی ہے۔ یہ بات بائیبل میں بھی رقم ہے اور قرآن مجید نے بھی اس کو نہایت واشگاف انداز میں بیان کیا ہے۔ ارشاد فرمایا ہے کہ:

’’جس نے کسی ایک انسان کو قتل کیا، اِس کے بغیر کہ اُس نے کسی کو قتل کیا ہویا زمین میں کوئی فساد برپا کیا ہو تو اُس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کر دیا اور جس نے کسی ایک انسان کو زندگی بخشی، اُس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخش دی۔‘‘ 

(المائدہ ۵ : ۳۲ )​

 چنانچہ ابراہیم و موسیٰ علیہم السلام کے پیرو ہوں، مسیح علیہ السلام کو ماننے والے ہوں یا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھنے والے ہوں، سب پر اس اصول کی پیروی لازم ہے۔ کوئی شخص یا گروہ اگر اس سے انحراف کرتا ہے تو وہ بنی نوع انسان کا دشمن، مذاہب کا تارک، پیغمبروں کا منکر اور خدا کا باغی ہے۔ ساری انسانیت کو مل کر اس کے خلاف فکری و عملی جدوجہد کرنی چاہیے۔ لیکن یہ جدوجہد کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی، اگر یہ مان لیا جائے کہ انتہا پسندی یا دہشت گردی کا تعلق کسی خاص قوم یا مذہب کے ساتھ ہے۔ یہ غلط انداز فکر و عمل قوموں اور تہذیبوں کے تصادم پر منتج ہو سکتا ہے اور خدانخواستہ پورے کرۂ ارض کی تباہی کا سامان پیدا کر سکتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ دنیا بھر کی قوموں اور ریاستوں کے لیے اُس طرز عمل کو مشعل راہ بنانا چاہیے جو نیوزی لینڈ کی حکومت اور عوام نے اِس موقع پر اختیار کیا ہے۔ اسے اتنی پذیرائی ملنی چاہیے کہ وہ آیندہ کے لیے رجحان ساز بن جائے۔ جس طرح خاتون وزیراعظم نے اس اقدام کو سفاکانہ دہشت گردی قرار دیا ، قاتل کو دہشت گرد اور انتہا پسند کہا،مسلمانوں کی حفاظت نہ کر سکنے کی ذمہ داری قبول کی،۱۵ ؍ مارچ کو نیوزی لینڈ کی تاریخ کے سیاہ دن سے تعبیر کیا ،مسلمانوں کا لباس پہنا، انھیں السلام علیکم کہا،ان کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجا، ان کے اجتماع جمعہ میں شرکت کی، ان سے برسر عام معافی مانگی، انھیں گلے سے لگایا اور ہر طرح کے تعاون کا اعلان کیا؛ جس طرح گرجا گھروں پر مسلمانوں کے لیے اظہار ہم دردی کے بینرلگائے گئے، ان کے دروازے مسلمانوں کے لیے کھول دیے گئے، شہدا کے لیے تعزیتی اور دعائیہ مجالس منعقد کی گئیں، مسجدوں کے آگے پھول رکھے گئے، نمازیوں کے لیے لوگ ڈھال بن کر کھڑے ہوگئے؛ اور جس طرح اجتماعات میں اذانیں گونجنے لگیں، پارلیمنٹ کا آغاز تلاوت قرآن سے ہوا اور ارکان پارلیمنٹ نے باادب کھڑے ہو کرتلاوت اور اس کا ترجمہ سنا، سرکاری ٹی وی پر جمعہ کی اذان نشر کی گئی اور حکومتی ارکان اور شہریوں نے جمعہ کے اجتماع میں شرکت کی؛ یہ سب قابل صد تحسین اور لائق تقلید ہے۔یہ رویہ اجنبی ضرور ہے، مگر وقت کی آواز، حالات کا تقاضا اور زمانے کا مطالبہ ہے۔ تمام اقوام عالم کو اپنے نظریات، اذواق اور روایات کے مطابق اس کو اختیار کرنا چاہیے۔ اسی کو اختیار کرنے سے دنیا امن و آشتی کا گہوارہ بن سکتی ہے۔ تیسری بات یہ ہے کہ مسلمانوں کو صبر و برداشت کے اس رویے کو اب اپنا مستقل شعار بنا لینا چاہیےجو انھوں نے اس موقع پر اختیار کیا ہے۔ ان کے عوام اور مذہبی اور سیاسی قائدین نے جس تحمل اور بردباری کا مظاہرہ کیا ہے ، وہ قابل تعریف ہے۔ نہ توڑ پھوڑ ہوئی، نہ ہنگامہ ہوا ، نہ الزام تراشے گئے،نہ مذہبی رنگ دیا گیا، نہ بدگمانی پیدا ہوئی ،نہ لب و لہجے میں سختی آئی اورنہ انتقامی جذبات بھڑکے، بلکہ اس سب کچھ کے برعکس نیوزی لینڈ کی حکومت اور عوام کے اقدامات کو سراہا گیا اور ان کے لیے شکرگزاری کے کلمات کا اظہار کیا گیا۔ یہی طرز عمل اخلاق کا تقاضا اوریہی رویہ دین کا مطلوب ہے۔مسلمان اگراس پر استقلال کا مظاہرہ کریں تو وہ نہ صرف اپنے اندر انتہا پسندی کے عناصر کو ختم کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں، بلکہ دنیا سے دہشت گردی کے ناسور کو مٹانے میں بھی معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔اس موقع پر انھیں نہ اس طنز وتعریض کو اختیار کرنا چاہیے کہ ہم پر انتہا پسندی اور دہشت گردی کا الزام لگانے والوں کے اندر خود دہشت گرد پائے جاتے ہیں اور نہ اس الزامی جواب کو دہرانا چاہیے کہ مسلمانوں میں پیدا ہونے والی انتہاپسندی کا اصل سبب امریکا اور بعض دیگر ممالک کی آمرانہ اور ظالمانہ پالیسیوں کا رد عمل ہے۔ اس کے بجاے اس موقع کو دنیا کے سامنے اسلام کی حقیقی تعلیمات پیش کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔ چوتھی اور آخری بات یہ ہے کہ مسلم اور غیر مسلم دنیا، دونوں کو اس امر کا جائزہ لینا چاہیے کہ اسلام کا جو تصور انھوں نے قائم کر رکھا ہے، وہ کس حد تک اسلام کے مآخذ، یعنی قرآن و سنت کے مطابق ہے۔ یہ سوال ان کے ذہنوں میں اٹھنا چاہیے کہ ایک جانب اگر اسلام آدم و حوا کی تمام اولاد کو برابر سمجھتا ہے، رنگ و نسل کے تعصبات کو رد کرتا ہے، اظہار راے کی آزادی کا قائل ہے،’فتنہ‘ (persecution) یعنی مذہبی جبر کوقتل سے بھی بڑا جرم قراردیتا ہے، ایک انسان کے قتل کو تمام انسانیت کا قتل سمجھتا ہے، اور مساجد ہی کو نہیں گرجوں، خانقاہوں اور معبدوں کو بھی مقدس سمجھتا ہے، تو دوسری جانب وہ کیسے حقوق انسانی کے معاملے میں تفریق کر سکتا ہے، کیسے قومی امتیاز کی بات کر سکتا ہے، کیسے کسی کو بالجبر اسلام قبول کرنے یا اسلام پر برقرار رہنے کی ہدایت کر سکتا ہے، کیسے معصوم انسان کو بارود سے اڑانے کی اجازت دے سکتا ہے اورکیسے عبادت گاہوں کو مسمار کرنے کا حکم دے سکتا ہے؟ اسلام اگر اللہ کا دین ہے اور یقیناً ہے تو پھر اس کے افکار میں یہ تناقض اور تضاد ہرگز ممکن نہیں ہے۔ لیکن بظاہر اگر یہ تناقض اور تضاد نظر آتا ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ یا مسلمانوں کے بیان میں کوئی غلطی ہے یا غیر مسلموں کے فہم میں کوئی ابہام ہے یا پھر دونوں مغالطوں اور غلط فہمیوں کا شکار ہیں۔ چنانچہ ہر دو جانب کے اصحاب علم و دانش کو اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ خلافت، اسلامی ریاست، غلبۂ دین، جہاد و قتال ، تکفیر، ارتداد، جزیہ اور ان جیسی دیگر اصطلاحات کے حوالے سے اسلام کا صحیح تصور کیا ہے؟ کیا اس کا صحیح تصور وہی ہے جو روایتی مذہبی مدارس میں پڑھایا جاتا ہے اور جس کی بنا پر اکثر اسلامی تحریکیں اور مذہبی سیاسی جماعتیں اپنی حکمت عملی ترتیب دیتی ہیں یا وہ ہے جو بعض غیر سنجیدہ عناصر اسلامو فوبیا (Islamophobia) کے نام سے دنیا میں پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں؟ اس مسئلے میں فریقین اگر حقیقت تک رسائی چاہتے ہیں تو انھیں اسلام کی اُن تعبیرات کو بھی زیر غور لانا ہو گا جو اسلام کی رائج اور روایتی تعبیرات سے مختلف ہیں۔ اورپھر ان کے باہمی تقابل سے اصل تصور تک پہنچنے کی کوشش کرنی ہو گی۔ متبادل اور مقابل تعبیرات میں سب سے نمایاں کام وہ ہے جو دور حاضر میں جناب جاوید احمد غامدی نے اپنی کتاب ’’میزان‘‘ کی صورت میں دنیا کے سامنے پیش کیا ہے۔ جناب جاوید احمد غامدی کا موقف یہ ہے کہ مسلمانوں میں پائی جانے والی مذہبی انتہا پسندی کا اصل سبب وہ فکر ہے جس کی تعلیم ہمارے مدارس میں دی جاتی ہے اور جسے انتہا پسند مذہبی جماعتیں اپنے اقدامات کی بنیاد بناتی ہیں۔اُن کے نزدیک یہ فکر سیاست، دعوت اور جہاد کے حوالے سے قرآن و حدیث کی بعض غلط تعبیرات کا نتیجہ ہے ، لہٰذا جب تک اِس کی غلطی واضح نہیں ہو جاتی اور اِس کے مقابل میں اسلام کے صحیح فکر کو پیش نہیں کر دیا جاتا ، انتہا پسندی سے چھٹکار ا پاناممکن نہیں ہے۔ انھوں نے لکھا ہے کہ:

 ’’اِس وقت جو صورت حال بعض انتہا پسند تنظیموں نے اپنے اقدامات سے اسلام اور مسلمانوں کے لیے پوری دنیا میں پیدا کر دی ہے، یہ اُسی فکر کا مولود فساد ہے جو ہمارے مذہبی مدرسوں میں پڑھا اور پڑھایا جاتا ہے، اور جس کی تبلیغ اسلامی تحریکیں اور مذہبی سیاسی جماعتیں شب و روز کرتی ہیں۔ اِس کے مقابل میں اسلام کا صحیح فکر کیا ہے؟ اِس کو ہم نے اپنی کتاب ’’میزان‘‘ میں دلائل کے ساتھ پیش کر دیا ہے۔ یہ درحقیقت ایک جوابی بیانیہ (counter narrative) ہے اور ہم نے بارہا کہا ہے کہ مسلمانوں کے معاشرے میں مذہب کی بنیاد پر فساد پیدا کر دیا جائے تو سیکولرازم کی تبلیغ نہیں، بلکہ مذہبی فکر کا ایک جوابی بیانیہ ہی صورت حال کی اصلاح کر سکتا ہے۔ ‘‘ 

(مقامات، غامدی،۱۹۶)

 اِس جوابی بیانیے کا جو حصہ اسلام اور ریاست سے متعلق ہے، اس کے تعارف کے لیے درج ذیل تین نکات کفایت کریں گے۔ان پر ایک نظر ڈالنے سے یہ اندازہ ہو جائے گا کہ اگر اسلام کی صحیح تعبیر یہی ہے جسے جناب جاوید احمد غامدی پیش کر رہے ہیں تو اس کی ترویج سے مسلم اور غیر مسلم دنیا پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ ۱۔ غامدی صاحب کے نزدیک دور جدید کی قومی ریاستیں جو بین الاقوامی معاہدوں کی بنا پر قائم ہوتی ہیں ، اِن میں شہریت اور قومیت کی اساس رنگ و نسل یا نظریہ اور مذہب نہیں ، بلکہ ملک ہے۔ مسلمانوں کی ریاستیں بھی اسی نوعیت کی ہیں۔ ان میں سے کوئی نہ اُس طرح کی مذہبی ریاست ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے جزیرہ نماے عرب میں قائم کی تھی اور جس میں کسی غیر مسلم کو شہریت کا حق حاصل نہیں تھا اور نہ کسی فرد یا گروہ کی مقبوضہ ریاست ہے جس میں بادشاہ یا حکمران کا مذہب ہی ریاست کا مذہب قرار پاتا ہے۔ان میں رہنے والے مسلم و غیر مسلم برابر کے شہری ہیں جن کے حقوق شہریت میں رنگ و نسل اور دین و مذہب کی بنیاد پر کوئی تفریق قائم نہیں کی جا سکتی۔ ۲۔ غامدی صاحب کا موقف ہے کہ خلافت ایک سیاسی اصطلاح ہے۔ اِسے نہ دینی اصطلاح قرار دیا جاسکتا ہے اور نہ مسلمانوں کو اِس کامکلف ٹھہرایا جا سکتاہے کہ وہ خلافت کے نام پر دنیاکے تمام مسلمانوں کی ایک حکومت قائم کرنے کی سعی کریں۔ دنیا بھر کے مسلمانوں کا کسی ایک ریاست یا ایک حکومت کے تحت جمع ہونا ایک محمود خواہش ہو سکتی ہے اور اِس کے لیے پرامن جدوجہد بھی بالکل بجا ہے، لیکن اِس تمنا کو ایک دینی مطالبے کے طور پر پیش کرنادرست نہیں ہے۔ان کے نزدیک دنیا پر غلبۂ اسلام کی جدوجہدنہ دین کا مقصود ہے اور نہ اس مقصد کے لیے کسی تنظیم سازی یا جہاد و قتال کی اجازت ہے۔ جہاد و قتال کا اقدام کوئی منظم ریاست صرف اور صرف ظلم و عدوان کے خلاف کر سکتی ہے اور اس میں بھی نہ خود کش حملوں کا کوئی جواز ہے اور نہ معصوم شہریوں اور غیر مقاتلین کو ہدف بنانے کی کوئی گنجایش ہے۔ ۳۔غامدی صاحب سمجھتے ہیں کہ شرک، کفر اور ارتداد کے حوالے سے مسلمانوں میں رائج مذہبی بیانیہ درست نہیں ہے۔ وہ بیانیہ یہ ہے کہ شرک اور کفر کے استیصال کے لیے دنیا پر اسلام کے غلبے کی جدوجہد شریعت کا حکم ہے اور یہ مسلمانوں کا مذہبی فریضہ ہے کہ وہ دعوت و جہاد کا علم اٹھائیں اور اقوام عالم کی سرحدوں پر کھڑے ہو کر یہ اعلان کریں کہ ’’اسلام لاؤ، جزیہ دو یا لڑنے کے لیے تیار ہو جاؤ۔‘‘ گویا دنیا کے غیر مسلم جو اِس بیانیے کی رو سے کافر اور مشر ک ہیں،اگر اسلام قبول نہیں کرتے تو اُن کے لیے زندگی کی گنجایش صرف اِس صورت میں ہے کہ وہ مسلمان ریاست میں ذمی یا محکوم ہو کر رہنے کا فیصلہ کریں۔ مزید یہ کہ اگر کوئی مسلمان دین سے منحرف ہوکر کوئی دوسرا مذہب اختیار کرے تو اُسے محکوم ہو کر بھی زندہ رہنے کا حق نہیں ہے، شریعت میں اُس کے لیے موت کی سزا مقرر ہے جو ہر حال میں اُس پر نافذ ہونی چاہیے۔ غامدی صاحب کے نزدیک یہ بیانیہ سرتاسر دین و شریعت کے خلاف ہے ۔ اِس کی تائید میں پیش کیے جانے والے قرآن و حدیث کے نصوص اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام کے بعض اقدامات کا تعلق اللہ تعالیٰ کے قانون اتمام حجت سے اور زمانۂ رسالت کے ان مشرکین عرب اور یہود و نصاریٰ سے ہے، جن پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے براہ راست انکار کی پاداش میں عذاب الہٰی نازل کیا گیا تھا۔ زمانۂ رسالت کے بعد کے مشرکین اور یہود و نصاریٰ سے ان آیات و احادیث کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس لیے اسلامی شریعت کا کوئی حکم ان سے اخذ نہیں کیا جا سکتا۔ ہمارے علما نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بحیثیت رسول بعض خصوصی ذمہ داریوں کی تعمیم کر کے یہ نقطہ ہاے نظر مرتب کیے اور کچھ ایسے احکام کو شریعت میں داخل کر دیا جو شریعت کا حصہ نہیں تھے۔ چنانچہ اگر کوئی شخص کسی کو اللہ کا شریک ٹھہراتا ہے، کوئی اللہ اور اس کے رسولوں کا انکار کر تا ہے یا کوئی مسلمان اسلام کو چھوڑنے کا فیصلہ کرتا ہے تو ان اقدامات کی سنگینی، شناعت اور حرمت کے باوجود شریعت میں ان کے لیے کوئی سزا مقرر نہیں ہے۔ ان میں فیصلے کا اختیار اللہ کے پاس ہے ا ور سزا کا معاملہ قیامت اور آخرت تک موخر ہے۔ لہٰذا دنیا میں کسی فرد، جماعت، حکومت، ریاست یا ریاست ہاے متحدہ کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ کسی شخص کے شرک، کفر یا ارتداد کی بنا پر اسے کسی سزا کا مستحق قرار دے۔

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت اپریل 2019
مصنف : سید منظور الحسن
Uploaded on : May 23, 2019
2065 View