ارتداد کی سزا - عمار خان ناصر

ارتداد کی سزا

 [یہ مصنف کی زیر طبع کتاب ’’حدود و تعزیرات چند اہم مباحث‘‘ کا ایک جز ہے۔ قارئین ’’اشراق‘‘ کے افادے کے لیے اس کتاب کے جملہ مباحث بالا قساط شائع کیے جا رہے ہیں .]

شرعی نصوص میں بیان ہونے والی سزاؤں میں ارتداد کی سزا غالباً موجودہ دور میں سب سے زیادہ زیر بحث آنے والی سزا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دوسری سزاؤں کی طرح یہ سزا محض فروعی احکام کے دائرے تک محدود نہیں رہتی، بلکہ کفر وایمان کے حوالے سے اسلام کے اصولی تصورات اور دنیا کے دیگر مذاہب کے بارے میں اس کے زاویۂ نگاہ سے مربوط ہو جاتی ہے جو دور جدید میں سب سے زیادہ موضوع بحث بننے والے مباحث میں سے ایک ہے۔
قرآن مجید میں یہ بات جگہ جگہ واضح کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس دنیا میں امتحان اور آزمایش کے لیے بھیجا ہے اور اس مقصد کے لیے اسے حق کو قبول کرنے یا نہ کرنے کے معاملے میں پوری آزادی بخشی ہے۔ قرآن مجید کی رو سے ایمان کے معاملے میں اصل اعتبار انسان کے اپنے ارادہ واختیار کا ہے۔ چنانچہ کسی انسان کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اس معاملے میں کسی دوسرے انسان کو جبر واکراہ کے ساتھ ایمان واسلام کی راہ پر لانے کی کوشش کرے اور نہ اس طرح کے ایمان کو اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں کوئی وقعت حاصل ہے۔ ۱؂ ارادہ واختیار کی یہ آزادی دنیا میں رشد و ہدایت کے باب میں اللہ تعالیٰ کی اسکیم کا بنیادی ضابطہ ہے اور اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے دین کے معاملے میں کسی قسم کے جبر واکراہ کا طریقہ اختیار نہیں فرمایا۔ ۲؂ اسی آزادی کی بنا پر انسانوں کا مختلف مذہبی گروہوں میں تقسیم رہنا اللہ تعالیٰ کے قانون آزمایش کا ایک لازمی تقاضا ہے اور ان اختلافات کا حتمی فیصلہ خود اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کریں گے۔ ۳؂ اسی ضمن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے یہ بات قرآن مجید نے بہت وضاحت سے بیان کی ہے کہ آپ کے ذمے بس اللہ کا پیغام لوگوں تک پہنچا دینا ہے اور اس سے آگے کوئی ذمہ داری آپ پر عائد نہیں ہوتی۔ ۴؂
اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ’من بدل دینہ فاقتلوہ‘ (جو شخص اپنا دین تبدیل کرے، اسے قتل کر دو) کے الفاظ میں واضح طور پر مرتد کو سزاے موت دینے کا حکم دیا ہے۔ ۵؂
قرآن مجید کی مذکورہ تصریحات کی روشنی میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ دنیا آزمایش کے لیے بنائی گئی اور انسانوں کو اپنی آزادانہ مرضی سے ایمان یا کفر کا راستہ اختیار کرنے کی اجازت دی گئی ہے تو پھر اسلام سے مرتد ہونے والوں کے لیے قتل کی سزا مقرر کرنے کا کیا جواز ہے اور کیا اس سے خود اسلام کی تعلیمات میں ایک داخلی تضاد پیدا نہیں ہو جاتا؟ اس اشکال کو حل کرنے کے لیے اہل علم کی طرف سے مختلف توجیہات پیش کی گئی ہیں۔ اس ضمن میں بنیادی طور پر تین زاویہ ہاے نگاہ پائے جاتے ہیں۔ یہاں ہم ان کا تنقیدی جائزہ لیں گے:
۱۔ پہلا زاویۂ نگاہ یہ ہے کہ دین کے معاملے میں جبر واکراہ کو فی نفسہٖ ایک جائز اخلاقی رویہ تصور کرتے ہوئے ارتداد پر سزاے موت کی توجیہ جبر واکراہ ہی کی بنیاد پر کی جائے۔ شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ اس نقطۂ نظر کی ترجمانی کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ بنی نوع انسان کی خیر خواہی اور ان کی اخروی نجات کے تناظر میں اللہ تعالیٰ نے دین حق کے معاملے میں جبر واکراہ کے طریقے کو پسند کیا ہے۔ ان کے نزدیک جبر واکراہ شریعت کے ایک باقاعدہ اصول کی حیثیت رکھتا ہے۔ چنانچہ وہ جہاد و قتال کے ذریعے سے دعوت اسلام کو دنیا میں پھیلانے، اہل کفر کو جبر واکراہ کے مختلف طریقوں سے دائرۂ اسلام میں داخل کرنے اور اسلام قبول کرنے والوں کے لیے اس کے دائرے سے نکلنے کی راہ کو سزاے ارتداد کے ذریعے سے مسدود کرنے کے تمام اقدامات کی توجیہ اسی اصول کے مطابق کرتے ہیں۔
؂گویا شاہ صاحب کے نزدیک دراصل اسلام قبول کر کے اس سے پلٹ جانا نہیں، بلکہ کفر بجاے خود اطاعت الٰہی سے سرکشی کے تناظر میں گوارا کیے جانے کا مستحق نہیں اور اس بات کا پورا جواز موجود ہے کہ اس کا راستہ روکنے کے لیے طاقت اور جبر واکراہ کا طریقہ اختیار کیا جائے۔
جبر واکراہ کے حوالے سے شاہ صاحب کا یہ نقطۂ نظر فقہا کے ایک بڑے گروہ کے رجحان کا ترجمان ہے اور اپنے پس منظر اور استدلال کے تفصیلی تجزیے کے لیے ایک مستقل بحث کا متقاضی ہے جس کے یہ صفحات متحمل نہیں ہو سکتے۔ یہاں مختصراً یہ عرض کرنا کافی ہوگاکہ قرآن مجید کے نصوص سے جن کا خلاصہ ہم نے بحث کے آغاز میں پیش کیا ہے، کفر وایمان اور ہدایت وضلالت کے باب میں اللہ تعالیٰ کی جو اسکیم واضح ہوتی ہے، وہ اس نقطۂ نظر کے نتیجے میں بالکل باطل ہو جاتی ہے اور ظاہر ہے کہ ایسے کسی نقطۂ نظر کو شرف قبولیت نہیں بخشا جا سکتا۔ اس زاویۂ نگاہ کے حامل اہل علم نے دین کے معاملے میں جبر واکراہ کی نفی سے متعلق قرآنی نصوص کو منسوخ قرار دینے یا ان کی تاویل کرنے کا جو طریقہ اختیار کیا ہے، وہ علمی لحاظ سے بے حد کمزور ہے اور ہم نے اپنی کتاب ’’جہاد ایک تقابلی مطالعہ‘‘ میں ان کا تفصیلی تجزیہ کر کے ان کی بے مائیگی کو واضح کیا ہے۔
۲۔ دوسرا زاویۂ نگاہ یہ ہے کہ ارتداد پر سزاے موت کی توجیہ جبر واکراہ کے بجاے اسلام کے تحفظ اور دفع فساد کے اصول پر کی جائے۔ اس ضمن میں پیش کی جانے والی توجیہات مختلف اور متنوع ہیں:
ا ۔امام ابن تیمیہ نے یہ راے پیش کی ہے کہ مرتد ہونے والا شخص اپنے وجود سے گویا دوسرے مسلمانوں کو بھی ارتداد کی دعوت دیتا اور اس طرح ملت اسلامیہ کے وجود کے لیے ایک خطرے کی حیثیت اختیار کر لیتا ہے۔ چنانچہ اہل اسلام کو ارتداد کے ان منفی اثرات سے محفوظ رکھنے اور حرمت ملت کو قائم رکھنے کے لیے ایسے شخص کے لیے قتل کی سزا مقرر کی گئی ہے۔ ۷؂
اس توجیہ پر عہد رسالت کے واقعاتی تناظر میں یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ ارتداد کے لیے موت کی سزا عہد نبوی کے بالکل آخری دور میں اس وقت تجویز کی گئی تھی جب پورا عرب اسلام کے زیرنگیں ہو چکا تھا اور مرتد ہونے والوں کے ارتداد سے مسلمانوں کی جماعت کے متاثر ہونے کا خطرہ بہت حد تک کم ہو چکا تھا، جبکہ اس سے پہلے کے ادوار میں، جب یہ خطرہ حقیقی طورپر موجود تھا
اور مدینہ منورہ کے یہود اس مقصد کے تحت ایک سوچے سمجھے منصوبے پر باقاعدہ عمل پیرا تھے،ارتداد کے سدباب کے لیے کوئی قانونی اقدام نہیں کیا گیا، بلکہ محض اخروی عذاب کی وعید سنائی گئی۔ ۹؂ یہاں تک کہ ۶ ہجری میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور مشرکین مکہ کے مابین طے پانے والے معاہدۂ حدیبیہ میں مشرکین کی یہ شرط بھی تسلیم کی گئی کہ جو مسلمان نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر قریش کے ساتھ جا ملے گا، کفار قریش اس کو واپس مدینہ بھیجنے کے پابند نہیں ہوں گے۔ ۱۰؂ اس اعتبارسے اس توجیہ میں بیان کیا جانے والا محرک خود اس اولین دور پر منطبق نہیں ہوتا جس میں قانون وجود میں آیا تھا۔
دوسرا اشکال یہ وارد ہوتا ہے کہ یہ توجیہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے اصلاً مذہبی استدلال پر نہیں، بلکہ ایک عمومی اخلاقی ضابطے، یعنی ایک مذہبی گروہ کے وجود وبقا کے تحفظ کے اصول پر مبنی ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسا استدلال نتیجے کے اعتبار سے کسی ایک مذہبی گروہ تک محدود نہیں رہ سکتا اور اس کا دائرہ منطقی طور پر دوسرے تمام مذاہب تک بھی وسیع ہوگا۔ اب اگر کسی شخص کے ارتداد کو امت مسلمہ کے مفاد کے منافی ہونے کی بنیاد پر ایک ناجائز اقدام قرار دیا جائے اور امت مسلمہ کو اپنے اجتماعی وجود کی حفاظت کے لیے اس پر سزاے موت دینے کا حق حاصل ہو تو اس اصول کی آفاقی واخلاقی نوعیت کے تناظر میں یہی حق دوسرے مذاہب کو بھی حاصل ہونا چاہیے۔ اس صورت میں یہ اصول تسلیم کرنا پڑے گا کہ دنیا میں تبدیلی مذہب کو کلیتاً ممنوع اور ایسا کرنے والے کو ’فساد فی الارض‘ کے اصول پر مستوجب قتل قرار دیا جائے، اس لیے کہ ہر مذہب کے ماننے والے، بہرحال اپنے اجتماعی وجود کے تحفظ کا حق رکھتے ہیں۔
پھر یہ سوال اپنی جگہ تشنۂ جواب ہے کہ کسی شخص کا اسلام سے مرتد ہو جانا باقی اہل اسلام کے لیے کیونکر ارتداد کا محرک اور باعث بن سکتا ہے؟ اگر تو مرتد کا نفس وجود اس کا باعث ہے تو جو کفار پہلے سے کفر پر قائم ہیں، ان کا وجود انھیں مستوجب قتل کیوں نہیں ٹھہراتا؟ اور اگر کسی مسلمان کا اسلام سے پھر جانا دوسرے مسلمانوں کے دلوں میں شکوک وشبہات کے پیدا ہونے کا موجب ہو سکتا ہے تو وہ اہل کفر جو اسلام اور اس کی تعلیمات پر باقاعدہ علمی وعقلی اعتراضات کر کے مسلمانوں میں شکوک وشبہات پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں، بدرجۂ اولیٰ اس سزا کے مستحق ہونے
چاہییں، اس لیے کہ مرتد کے اسلام سے پھر جانے کا ارادی محرک تو شاید یہ نہ ہو، لیکن اسلام پر اعتراض کرنے والے کفار کا ہدف تو بدیہی طور پر اہل اسلام کے ایمان ویقین کو متزلزل کرنا ہے۔ مزید یہ کہ اگر مرتد کا اسلام سے پھر جانا دوسرے مسلمانوں کے دلوں میں اپنے مذہب کے بارے میں تردد و تذبذب پیدا کر سکتا ہے تو کیا کسی مرتد کے اشکالات وشبہات کے ازالہ میں بظاہر ناکامی کے بعد اسے قتل کر دینا شکوک وشبہات کا موجب نہیں بنے گا؟
ہماری طالب علمانہ راے میں حرمت ملت کی حفاظت کے جس فائدے کو اس حکم کی بنیادی وجہ اور علت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، وہ زیادہ سے زیادہ اس کا ایک اضافی پہلو ہو سکتا ہے جو کسی طرح بھی اپنی اصل اور اساس کے لحاظ سے حکم کی توجیہ نہیں کر پاتا، بلکہ بعض پہلووں سے خود حکم کی نفی پر منتج ہوتا ہے۔
ب۔ فقہاے احناف سزاے ارتداد کی یہ توجیہ پیش کرتے ہیں کہ مرتد کے لیے قتل کی سزا دراصل ارتداد کی نہیں، بلکہ محاربہ کی سزا ہے، کیونکہ کفر پر اصرار کر کے مرتد مسلمانوں کے ساتھ برسرجنگ ہو جاتا ہے۔ چنانچہ اس کے محاربہ کو دفع کرنے کے لیے اسے قتل کیا جائے گا۔ ۱۱؂ احناف نے اسی اصول پر عورت کو ارتداد کی سزا سے مستثنیٰ قرار دیا ہے، اس لیے کہ وہ اپنی جسمانی ساخت کے اعتبار سے اصلاً جنگ وپیکار کی صلاحیت نہیں رکھتی۔
احناف کا یہ استدلال منطقی اعتبار سے غیر مربوط ہے۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ اگر حکم کی علت محاربہ ہے تو صرف اسی مرتد کو قتل کرنا چاہیے جو عملاً اور بالفعل مسلمانوں کے خلاف برسرپیکار ہو، اس لیے کہ نہ یہ ضروری ہے کہ ہر مرتد ، اسلام یا اہل اسلام کے خلاف معاندانہ رویہ اختیار کرے اور نہ محض یہ خدشہ یا امکان کہ کوئی شخص مسلمانوں کے خلاف محاربہ کا طریقہ اختیار کر سکتا ہے، اس کو قتل کرنے کے لیے وجہ جواز بن سکتا ہے۔ اگر اس خدشے کو وزن دیا جائے تو بھی زیادہ سے زیادہ وہ بالقوہ محارب قرار پائے گا، اور اس صورت میں جس طرح باقی اہل کفر کو جزیہ کا پابند بنا کر ان کے شر اور فساد سے تحفظ حاصل کیا جا سکتا ہے، مرتد کے ساتھ بھی یہی معاملہ کرنے میں منطقی طور پر کوئی چیز مانع نہیں۔ اس سوال کے جواب میں سرخسی کو محاربہ کے بجاے اعتقادی بنیاد ہی کا سہارا لینا پڑا ہے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ چونکہ مرتد صرف حرابہ کا نہیں، بلکہ دین حق کو جان لینے کے بعد اس کے استخفاف کا بھی مرتکب ہے، اس لیے اس کو دیگر اہل افراد کی طرح جزیہ دے کر زندہ رہنے کی رعایت نہیں دی جا سکتی۔ ۱۲؂ دوسری جگہ انھوں نے اس نکتے کو یوں واضح کیا ہے
کہ چونکہ مرتد، اسلام کی حقانیت سے واقف ہونے کے بعد اسے ترک کر تا ہے، اس لیے اتمام حجت کے اصول کے تحت وہ مشرکین عرب کے مماثل ہے اور جیسے ا ن کے لیے اسلام قبول نہ کرنے کی صورت میں سزاے قتل تجویز کی گئی تھی، اسی طرح مرتد بھی سزاے موت کا مستحق ہے۔ ۱۳؂ اس طرح احناف کی پیش کردہ توجیہ مآل کار اگرچہ امام شافعی کے نقطۂ نظر سے ہم آہنگ ہو جاتی ہے جس کے مضمرات پر ہم آیندہ سطور میں گفتگو کریں گے، تاہم یہ سوال پھر باقی رہ جاتا ہے کہ اگر حکم کی اصل علت محاربہ کے بجاے اتمام حجت کے بعد انکار حق ہے تو احناف عورت کو اس سزا سے کس اصول پر مستثنیٰ قرار دیتے ہیں۔
ج۔ مولانا مودودی نے روایتی فقہی استدلال کو اپنے مخصوص اسلوب میں ایک نیا رنگ دیا اور اپنے فہم کے مطابق اسلامی ریاست کے مخصوص سیاسی تصورات کے تناظر میں اس سزا کی عقلی توجیہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کے استدلال کا خلاصہ یہ ہے کہ مرتد کو دراصل اس کے کفر کی سزا دینے کے لیے نہیں، بلکہ اسلامی ریاست کے نظم کو خلل اور انتشار سے محفوظ رکھنے کے لیے قتل کیا جاتا ہے۔ مولانا کا کہنا ہے کہ اسلام چونکہ محض مابعد الطبیعیاتی مفہوم میں ایک ’’مذہب‘‘ نہیں ہے، بلکہ ایک پورا نظام زندگی ہے جس کے مخصوص تصورات پر اسلامی معاشرے اور ریاست کی تشکیل کی جاتی ہے، اس لیے اس میں داخل ہونے کے بعد واپس جانے کا راستہ کھلا نہیں رکھا جا سکتا، کیونکہ یہ چیز اس نظام کی تخریب، اس کے اجزاے تعمیر کے انتشار اور اس کی بندش وجود کی برہمی کی اجازت دینے کے مترادف ہوگی۔ ۱۴؂
مولانا کے استدلال پر ایک سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر مرتد کو قتل کرنے کی اصل وجہ اسلامی ریاست کو ایسے عناصر سے پاک رکھنا ہے جو اس کے نظم اور استحکام میں اختلال کا باعث ہو سکتے ہیں تو اس کے لیے مرتد کو قتل کر دینا ہی کیوں ضروری ہے اور یہی مقصد اسے اسلامی ریاست کے حق شہریت سے محروم کر کے کیوں حاصل نہیں کیا جا سکتا؟ چنانچہ اپنے استدلال کے منطقی تقاضوں کو نبھانے کے لیے مولانا کو ایک نہایت بنیادی نکتے میں روایتی فقہی موقف سے اختلاف کرتے ہوئے یہ تسلیم کرنا پڑا کہ جو شخص ارتداد کی راہ اختیار کرنا چاہتا ہے،
اسے یہ حق ہے کہ وہ اسلامی ریاست کی شہریت سے دست بردار ہو کر اس کے حدود سے باہر چلا جائے۔ ۱۵؂ یہ اس قانون میں ایک ایسی شق کا اضافہ ہے جس کا ثبوت نہ احادیث وآثار میں کہیں ملتا ہے اور نہ فقہا میں سے کوئی اس کا قائل ہے۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر اسلام کے پیش نظر ایک ایسی مخصوص ریاست کا قیام ہے جس کے باشندے قانونی اور سیاسی دائرے میں ریاست کی حاکمیت کو تسلیم کرنے کے ساتھ ساتھ نظریاتی بنیادوں پر بھی پوری طرح اس کے وفادار ہوں اور اس میں غیر مسلم عناصر کا وجود محض بدرجہ مجبوری ہی گوارا کیا جاتا ہے تو پھر ’’مصلحانہ جہاد‘‘ کے عنوان سے خود مولانا کے پیش کردہ اس فلسفے کا کیا جواز ہے جس کی رو سے دنیا کی تمام غیر مسلم ریاستوں کا خاتمہ کر کے ایک عالم گیر اسلامی ریاست کا قیام مسلمانوں کا مذہبی فریضہ قرار پاتا ہے؟ اس صورت میں لازماً ایک بہت بڑی اکثریت، جو مختلف اور متنوع مذاہب کی پیروکار ہوگی، اسلامی ریاست کی رعایا کی حیثیت اختیار کر لے گی۔ اب اگر ایک اسلامی ریاست کے استحکام کی ضمانت یہی ہے کہ اس کے باشندوں میں ریاست کے مذہبی نظریے سے اختلاف رکھنے والے لوگ کم سے کم ہوں اور اسی بنا پر ارتداد اختیار کرنے والوں کے لیے اس کے حدود میں رہنے کی کوئی گنجایش نہیں رکھی گئی تو پھر اس ریاست کی سرحدوں کو جہاں تک ممکن ہو محدود رکھنا چاہیے ، نہ کہ عالم گیر توسیع کو اس کا ہدف قرار دینا چاہیے۔ ایک طرف نظریاتی بنیاد پر استحکام ریاست اور دوسری طرف اس کے حدود میں عالم گیر توسیع کے باہم متضاد تقاضے آخر کیسے نبھائے جائیں گے؟
پھر یہ کہ عالم گیر اسلامی ریاست کے قیام کے اس تصور کے مطابق اگر کسی وقت پوری دنیا میں اسلام کا سیاسی غلبہ قائم ہو جائے تو اس صورت میں ایک طرف ا س کے حق آزادی راے اور دوسری طرف اسلامی ریاست کے تحفظ کے متضاد تقاضوں کے مابین تطبیق کی جو صورت مولانا نے تجویز کی ہے، یعنی یہ کہ مرتد کو اسلامی ریاست کی شہریت سے محروم کر دیا جائے، اس پر کیسے عمل کیا جا سکے گا؟ اس لیے کہ اس صورت میں کوئی غیر مسلم ریاست موجود ہی نہیں ہوگی جہاں مرتد اپنے عقیدہ و مسلک کے مطابق زندگی بسر کر سکے۔
مولانا نے اس اعتراض کا بھی کوئی تسلی بخش جواب نہیں دیا کہ اسلام اگر اپنے پیروکاروں کو تبدیلی مذہب پر سزاے موت دیتا ہے تو دوسرے مذاہب کو اس کا حق کیوں نہیں دیتا اور اس پر ان کی مذمت کیوں کرتا ہے؟
مولانا نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ اسلام چونکہ اپنے آپ کو حق اور دوسرے مذاہب کو باطل قرار دیتا ہے، اس لیے وہ اپنے دعوے کی رو سے دوسرے مذاہب کے لیے یہ حق تسلیم نہیں کر سکتا۔ مولانا اسی بنیاد پر اجتماعی نظم کی حفاظت کا یہ حق صرف صالح نظام کے لیے تسلیم کرتے ہیں، ۱۶؂ لیکن یہ اصل سوال کا جواب نہیں، اس لیے کہ اگر تو قانون کی توجیہ عمومی عقلی و اخلاقی اصولوں پر کی جا رہی ہے، جیسا کہ مولانا کا دعویٰ ہے ۱۷؂ تو پھر ہر مذہب کے پیروکار اپنے مذہب کو حق سمجھ کر ہی اس کی پیروی اختیار کرتے ہیں اور ہر اجتماعی نظام، چاہے وہ اسلام کی نگاہ میں غیر صالح ہی کیوں نہ ہو، انھی اقدار پر مبنی ہوتا ہے جنھیں اس نظام کو اپنانے والے صالح سمجھتے ہیں۔ چنانچہ خالص عقلی استدلال کے دائرے میں ارتداد پر سزاے موت دینے کا حق اسلام اور دیگر مذاہب کو یکساں طور پر حاصل ہونا چاہیے۔ اور اگر صالح اور غیر صالح کا فیصلہ عقل عام کے بجاے مآل کار کسی دینیاتی استدلال کی بنیاد پر کیا جانا ہے تو پھر ظاہر ہے کہ بحث عقلی توجیہ کے دائرے سے باہر نکل جاتی ہے اور سزا پر وارد ہونے والے عقلی اعتراضات کو رفع کرنے کے لیے یہ سارے پاپڑ بیلنے کی سرے سے ضرورت ہی نہیں رہتی۔
د۔ دور جدید کے بعض اہل علم نے کلاسیکی فقہی موقف سے اختلاف کرتے ہوئے یہ راے ظاہر کی ہے کہ ارتداد پر مقرر کی جانے والی یہ سزا در اصل بالفعل محاربہ اور فتنہ وفساد کی سزا تھی اور اس کا نفس کفر سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ ان کی راے میں چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں اہل ایمان اور اہل کفر، دو واضح گروہوں میں تقسیم تھے اور ان کے مابین جنگ کی حالت مسلسل قائم تھی اور ارتداد اختیار کرنے والے افراد مسلمانوں کی جماعت سے الگ ہو کر اہل کفر کے ساتھ جا ملتے اور مسلمانوں کے خلاف سازشوں اور مفسدانہ کارروائیوں میں شریک ہو جاتے تھے، اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے لوگوں کے لیے قتل کی سزا مقرر فرمائی۔ ۱۸؂
یہ راے کئی وجوہ سے درست نہیں لگتی:
اول تو حکم کے الفاظ سے اس کی جو علت واضح طور پر معلوم ہوتی ہے،وہ تبدیلی مذہب ہے ،نہ کہ محاربہ۔ ’من بدل دینہ‘ ۱۹؂ اور ’کفر بعد اسلامہ‘ ۲۰؂
الفاظ اس مفہوم میں بالکل صریح ہیں کہ یہ حکم ارتداد کے بعد اختیار کیے جانے والے مفسدانہ طرزعمل کے بجاے نفس ارتداد کے تناظر میں دیا گیا تھا۔ چنانچہ حکم کے اولین اور براہ راست مخاطبین، یعنی صحابہ نے بھی اس کا یہی مفہوم سمجھا اور نفس ارتداد پر موت کی سزا دی ہے۔ ۲۱؂ اس ضمن میں بعض روایات میں ارتداد کے لیے ’حارب اللّٰہ ورسولہ وارتد عن الاسلام‘ یا اس کے ہم معنی جو تعبیر استعمال ہوئی ہے، ۲۲؂ وہ اپنی جگہ بالکل درست ہے اور اس کا صحیح مفہوم اور محل ہم آگے چل کر واضح کریں گے۔
دوسرے یہ کہ روایات میں مرتدین کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عملی فیصلے ہی منقول نہیں، بلکہ اس کو ایک عمومی قانونی حکم کے طور پر بیان کرنا بھی ثابت ہے۔ اگر یہ حکم انھی مرتدین سے متعلق تھا جنھوں نے زیر بحث توجیہ کے مطابق ارتداد کے بعد مسلمانوں کی حکومت میں ان کا ذمی بن کر رہنا پسند نہیں کیا ،بلکہ مسلمانوں کا ساتھ چھوڑ کر ان کے مخالف کیمپ میں شامل ہو گئے تو سوال یہ ہے کہ کیا ان سب کو ان کے انفرادی رویے اور طرز عمل سے قطع نظر محض مخالف کیمپ میں شامل ہونے کی بنا پر قتل کا سزاوار قرار دیا گیا یا یہ حکم صرف معاند اور شرپسند افراد تک محدود تھا؟ اگر یہ کہا جائے کہ مرتد ہونے والے افراد یا گروہوں میں اس طرح کی کوئی تقسیم موجود ہی نہیں تھی اور یہ سب لوگ لازماً محاربہ اور شرپسندی ہی کا رویہ اختیار کرتے تھے تو یہ بات عقل عام کے خلاف ہونے کے علاوہ تاریخی طور پر بھی محتاج ثبوت ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ مرتدین کے انفرادی رویے اور طرز عمل سے قطع نظر ان کا مخالف کیمپ میں شامل ہو جانا ہی ان کے قتل کے لیے کافی وجہ جواز تھا تو اس پر یہ اعتراض وارد ہوتا ہے کہ محارب کفار کے خلاف قتال کا حکم تو بے شک ثابت ہے اور جنگ کی حالت میں ان کو قتل کرنا بھی بدیہی طور پر جائز ہے، لیکن بالفعل جنگ کی حالت کے بغیر محض دشمن گروہ سے تعلق رکھنے کی بنا پر ان کے افراد کو قتل کرنے کی اجازت قرآن وسنت سے ثابت نہیں، بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سریہ نخلہ میں مسلمانوں کے ہاتھوں مارے جانے والے مشرکین کے مقتول عمرو بن الحضرمی کی باقاعدہ دیت ادا کی تھی، ۲۳؂ جبکہ زیر بحث توجیہ کی رو سے مرتد محض اس بنا پر قتل کا مستحق قرار پاتا ہے کہ وہ دشمنوں کے گروہ میں شامل ہو گیا ہے۔
فرض کیجیے کہ دشمن گروہ سے تعلق رکھنے والا ہر فرد مباح الدم تھا تو ظاہر ہے کہ قتل کی یہ عمومی اباحت مرتدین کو بھی شامل ہوگی، پھر ان کے لیے خصوصی طور پر یہ سزا بیان کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ اگریہ کہا جائے کہ مرتد ہونے والوں میں معاندین اور غیر معاندین کی تقسیم موجود تھی اور قتل کاحکم خاص طور پر معاندین اور مفسدین ہی کے لیے دیا گیا تھا تو اس تخصیص کے حق میں کوئی قرینہ مفقود ہونے کے علاوہ یہ بات بھی ناقابل فہم ہے کہ ایسے افراد کو، جو ظاہر ہے کہ اسلامی حکومت کے دائرۂ اختیار (Jurisdiction) سے باہر جا چکے تھے، قتل کر دینے کے حکم کا محل کیا تھا، اس کا مخاطب کون تھا اور اس پر عمل درآمد کی کیا صورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیش نظر تھی؟ اس صورت میں تو کوئی قانونی حکم بیان کرنے کے بجاے زیادہ موثر اقدام یہ ہوتا کہ آپ کعب بن اشرف اور ابو رافع کی طرح ایسے افراد کے قتل کے لیے خفیہ مہمیں بھیجتے، جبکہ اس نوعیت کی کسی ایک مہم بھیجنے کا ذکر بھی ذخیرۂ سیرت میں نہیں ملتا اور اس طرح کے تمام افراد، مثلاً ابن خطل وغیرہ سے اسی وقت تعرض کیا گیا جب مثال کے طور پر فتح مکہ کے بعد وہ مسلمانوں کے قانونی دائرۂ اختیار میں آ گئے۔
خلاصہ یہ ہے کہ زیر بحث راے کے پس منظر میں جو ذہنی اشکال کارفرما ہے، وہ اپنی جگہ درست ہے، لیکن اس کو حل کرنے کے لیے ارتداد پر سزاے موت کے حکم کی توجیہ دشمن عناصر سے اسلامی ریاست کے تحفظ کے تناظر میں کرنا مختلف پہلووں سے بعید از قیاس اور مبنی بر تکلف دکھائی دیتا ہے۔
۳۔ سزاے ارتداد کی توجیہ کے حوالے سے تیسرا زاویۂ نگاہ، جو سب سے زیادہ قرین قیاس ہے، امام شافعی نے پیش کیا ہے۔ وہ اس کو ’اتمام حجت‘ کے اصول پر مبنی قرار دیتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ خدا کے دین کی حقانیت سے پوری طرح واقف ہو جانے اور اس کا اقرار واعتراف کر لینے کے بعد اس کو چھوڑ دینا ایک بہت بڑا گناہ ہے، اور اسی گناہ کی پاداش میں مرتد کو شرعاً مستوجب قتل قرار دیا گیا ہے۔ ۲۴؂ اس ضمن میں دو نکتوں کی تنقیح، البتہ ضروری ہے:
ایک یہ کہ کیا اتمام حجت کے بعد مرتد ہونے والے شخص کو قتل کرنا دین کے معاملے میں جبر واکراہ کے تحت نہیں آتا؟
اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن مجید میں دین کے معاملے میں جبر واکراہ کی نفی دو حوالوں سے کی گئی ہے: ایک تکوینی نظام کے دائرے میں اور دوسرے انسانی اخلاقیات کے تناظر میں۔ پہلی بات کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اگر چاہتے کہ تمام انسان تکوینی طور پر ایمان کے حامل ہوں اور انھیں کفر کا اختیار ہی حاصل نہ ہو تو وہ ایسا کر سکتے تھے، لیکن انھوں نے انسانوں کا امتحان لینے کی غرض سے ایمان کو جبراً انسانوں پر مسلط نہیں کیا۔ چنانچہ کوئی انسان تکوینی طور پر ایمان قبول کرنے پر مجبور نہیں، بلکہ اسے کفر یا ایمان میں سے کوئی بھی راستہ اختیار کرنے کی پوری آزادی حاصل ہے۔ دوسری بات کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی انسان کو یہ اختیار نہیں دیا کہ وہ اللہ کی دی ہوئی یہ آزادی کسی دوسرے انسان سے چھیننے کی کوشش کرے۔ انسان کا کام بس یہ ہے کہ وہ حق بات کو موثر طریقے سے دوسروں تک پہنچانے کا اہتمام کرے۔ کسی دوسرے انسان کو طاقت کے زور پر حق کی اطاعت پر مجبور کرنے کا اختیار اللہ نے کسی انسان کو نہیں دیا، تاہم ان دونوں باتوں سے یہ کسی طرح لازم نہیں آتا کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو جو اختیار دیا ہے، اس کو غلط استعمال کرنے پر وہ انسانوں کا محاسبہ بھی نہیں کریں گے۔ کسی کو کوئی اختیار دینے اور پھر اس اختیار کے غلط استعمال پراسے سزا دینے میں باہم کوئی منافات نہیں، اور اللہ تعالیٰ بھی اپنے دیے ہوئے اختیار کے غلط استعمال پر انسانوں کو سزا دیتے ہیں۔ یہ سزا اپنی کامل صورت میں تو آخرت میں دی جائے گی، لیکن اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں بھی انسانوں کو اس کا نمونہ دکھانے کا اہتمام کیا ہے۔ قرآن مجید نے اس ضمن میں اللہ کے رسولوں اور ان کی قوموں کے واقعات جابجا نقل کیے ہیں اور ان کے ذریعے سے یہ واضح کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی قوم میں اپنے رسول کو مبعوث کر کے اس کے ذریعے سے حق کو اس قوم پر پوری طرح واضح کر دیتے ہیں اور اس کے باوجود وہ قوم ایمان نہیں لاتی تو اللہ تعالیٰ اس پر عذاب نازل کر کے اسے عبرت کا نمونہ بنا دیتے ہیں۔ ۲۵؂
قرآن مجید کی رو سے یہ کسی انسان کا نہیں، بلکہ خدا کا فیصلہ ہوتا ہے جس میں کسی انسان، حتیٰ کہ خود پیغمبر کو بھی کوئی اختیار حاصل نہیں ہوتا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جب جزیرۂ عرب میں مبعوث کیا گیا تو خدائی قانون کے یہ دونوں پہلو پوری طرح واضح کر دیے گئے۔ چنانچہ فرمایا گیا کہ ’فَاِنَّمَا عَلَیْکَ الْبَلٰغُ وَعَلَیْنَا الْحِسَابُ‘ ۲۶؂ ،یعنی خدا کا پیغام پہنچانا تو پیغمبر کی ذمہ داری ہے، جبکہ منکرین سے حساب لینا خدا کاکام ہے، البتہ سابقہ قوموں کے برعکس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مخاطبین کے لیے عذاب کی صورت یہ تجویز کی گئی کہ اگر وہ ایمان نہ لائیں تو انھیں کسی آسمانی آفت کا نشانہ بنانے کے بجاے خود اہل ایمان کی تلواروں کے ذریعے سے جہنم رسید کیا جائے۔ قرآن نے واضح کیا ہے کہ اہل کفر کے خلاف
نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کی یہ جنگ دراصل خدا کا عذاب تھا، چنانچہ فرمایا:’وَلَوْ یَشَآءُ اللّٰہُ لَانْتَصَرَ مِنْہُمْ وَلٰکِنْ لِّیَبْلُوَاْ بَعْضَکُمْ بِبَعْضٍ‘ ،یعنی اللہ چاہتا تو اپنے دین کا انکار کرنے پر ان کفار سے خود انتقام لے لیتا، لیکن اس نے اپنی خاص حکمت کے تحت اہل ایمان کو جانچنے کے لیے انھیں اہل کفر کے مقابلے میں معرکہ آرا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہی بات ’قَاتِلُوْہُمْ یُعَذِّبْہُمُ اللّٰہُ بِاَیْدِیْکُمْ‘ ۲۸ کے الفاظ میں بیان کی گئی ہے، یعنی تم ان کے خلاف قتال کرو، اس طرح اللہ تعالیٰ تمھارے ہاتھوں سے انھیں عذاب دینا چاہتے ہیں۔ اس جنگ کے آخری مرحلے میں مشرکین عرب کے لیے قتل کی سزا تجویز کی گئی، جبکہ اہل کتاب کے بارے میں کہا گیا کہ انھیں محکوم بنا کر ان پر جزیہ عائد کر دیا جاہے جو اس دورمیں محکومی اور تحقیر وتذلیل کی ایک علامت تھا۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اگر ارتداد اختیار کرنے والے ان اہل کفر کو قتل کرنے کا حکم دیا جو اتمام حجت کے بعد ایمان لانے کے پابند اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں خدا کے عذاب کے مستحق بن چکے تھے تو یہ کسی طرح بھی دین کے معاملے میں جبر واکراہ کی ممانعت کے عمومی اصول کے خلاف نہیں تھا۔ اسی سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ بعض روایات میں ارتداد کے لیے ’حارب اللّٰہ ورسولہ‘ کی تعبیر کیوں استعمال ہوئی ہے۔ یہ تعبیر درحقیقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ارتداد کی قانونی نوعیت کو بیان کرتی ہے اور اس سے مراد یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کے بعد کفر کی طرف پلٹ جانا فی نفسہٖ اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ جنگ کے ہم معنی تھا، خواہ مرتد ہونے والا شخص عملاً اسلام اور اہل اسلام کے خلاف کسی قسم کی سرگرمیوں میں ملوث ہوئے بغیر غیر جانب دار رہنے کا اعلان کرے۔ ’’محاربہ اور فساد فی الارض‘‘ اور ’’توہین رسالت کی سزا‘‘ کے زیر عنوان ہم نے یہ بات واضح کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مخاطبین آپ پر ایمان لانے اور مذہبی وسیاسی، ہر دو دائروں میں آپ کی اطاعت کو قبول کرنے کے پابند تھے۔ اللہ تعالیٰ نے کفار کی خواہشات کے علی الرغم جزیرۂ عرب میں آپ اور آپ کے لائے ہوئے دین کا غلبہ مقدر کر دیا تھا اور اس کشمکش کے عبوری مراحل میں اگرچہ بہت سے گروہوں کو غیر جانب دار رہنے کا اختیار دیا گیا تھا، تاہم تکمیلی مرحلے میں یہ گنجایش باقی نہیں رہنے دی گئی تھی۔ ارتداد کی سزا ہماری راے میں اسی آخری مرحلے میں نافذ کی گئی اور اس مرحلے میں اسلام کو چھوڑ کر دوبارہ کفر کی طرف پلٹ جانا صریحاً اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ محاربہ کے مترادف تھا۔
دوسرا اہم نکتہ اتمام حجت کے تحقق اور اس پر مبنی احکام کے عملی اطلاق سے متعلق ہے۔ اتنی بات تو واضح ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی نیابت میں آپ کے صحابہ نے جن اقوام اور گروہوں کے خلاف جہاد وقتال کا اقدام کیا، ان پر یقینی طور پر اتمام حجت ہو چکا تھا اور آپ کے دعواے نبوت کی صداقت دور اول کی اسلامی سلطنت کے دائرے میں بسنے والے اہل کتاب پر بالخصوص واضح تھی۔ چنانچہ وہ بالعموم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا اقرار کرتے ہوئے آپ کی بعثت کو اہل عرب کے لیے خاص قرار دے کر اپنے آپ کو آپ پر ایمان لانے سے مستثنیٰ قرار دیتے تھے، ۳۰؂ تاہم سوال یہ ہے کہ پیغمبر کی طرف سے ایک مرتبہ اتمام حجت متحقق ہونے کے بعد کیا یہ زمان ومکان اور حالات کی تبدیلی سے متاثر ہوتا ہے یا تغیر کے اثرات سے بالاتر رہتا ہے؟ اور اگر متاثر ہوتا ہے تو پھر مختلف افراد اور ان کے احوال و ظروف میں پایا جانے والا تفاوت اتمام حجت کی کیفیت اور اس پر متفرع ہونے والے احکام پر بھی اثرانداز ہوتا ہے یا نہیں؟ دوسرے لفظوں میں اگر کسی شخص پر اتمام حجت کا تحقق یقینی نہ ہو تو کیا پھر بھی ارتداد کی صورت میں اسے مستوجب قتل قرار دیا جائے گا؟
فقہی روایت کے مطالعہ سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اہل علم کے ہاں یہ احساس موجود رہا ہے کہ اتمام حجت کی جو کیفیت اور فضا نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کے مخصوص دائرۂ تخاطب میں پائی جاتی تھی، وہ آفاقی نہیں، بلکہ محدود ہے۔ اسی طرح اتمام حجت پر متفرع ہونے والے احکام کی تحدید و تخصیص کے حوالے سے بھی صدر اول ہی سے علمی بحثیں موجود رہی ہیں۔ مثال کے طور پر مشرکین کو قتل کرنے اور اہل کتاب سے ’جزیہ‘ وصول کرنے کے احکام قرآن مجید میں واضح طور پر دیے گئے ہیں اور ان دونوں حکموں کے حوالے سے یہ سوال زیر بحث رہا ہے کہ ان کی کس حد تک تعمیم کی جا سکتی ہے۔ سیدنا عمر کے دور میں جب فارس کے علاقے مفتوح ہوئے اور اہل کتاب کے علاوہ مجوس بھی اسلامی ریاست کے زیر نگیں ہوئے تو سیدنا عمر اس معاملے میں ایک عرصے تک متردد رہے کہ مجوس نہ مشرکین ہیں اور نہ اہل کتاب تو ان کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے؟ چنانچہ ابتداءً انھوں نے یہی فیصلہ کیا کہ مجوس سے جزیہ وصول نہ کیا جائے، تاہم بعد میں عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ اس روایت کی بنیاد پر کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجر کے مجوس سے جزیہ وصول کیا تھا، انھوں نے مجوس سے جزیہ لینے کا فیصلہ کیا ۔ ۱ا اسی طرح مشرکین کو قتل کرنے کے حکم کو فقہاے احناف نے مشرکین عرب تک محدود قرار دیا اور اس کی وجہ یہ بیان کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم اور آپ کی بعثت خاصہ کا مخاطب ہونے کی وجہ سے اتمام حجت کے بعد انھیں زندہ رہنے کی رعایت نہیں دی جا سکتی تھی، لیکن دنیا کی دیگر مشرک اقوام پر چونکہ خود پیغمبر کے ذریعے سے براہ راست اتمام حجت کا معاملہ نہیں ہوا، اس لیے وہ اس حکم سے مستثنیٰ ہیں۔ ۳۲؂ برصغیر میں ایک ہزار سال سے زائد عرصے پر محیط مسلم سلطنت کے مختلف ادوار میں، چند استثنائی واقعات کے علاوہ، عمومی طور پر غیر مسلموں پر جزیہ عائد نہیں کیا گیا، جبکہ خلافت عثمانیہ نے اپنے آخری دور میں غیر مسلموں سے جزیہ لینے کے دستور کو باقاعدہ قانونی سطح پر ختم کر دیا۔ ۳۳؂
خود مرتد کے لیے سزاے موت کے لازم ہونے کے بجاے کسی متبادل سزا کا امکان تسلیم کرنے کا رجحان، بہت محدود دائرے میں سہی، صدر اول کے اہل علم کے ہاں دکھائی دیتا ہے۔ چنانچہ کتب فقہ میں ایک گروہ کی، جن میں ابراہیم نخعی شامل ہیں، یہ راے نقل ہوئی ہے کہ مرتد کو کسی مخصوص مدت تک نہیں، بلکہ مدت العمر توبہ کا موقع دیا جائے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اسے قتل نہ کیا جائے۔ ۳۴؂ ابراہیم نخعی کی اس راے کو غالباً مخالف راے کے عمومی شیوع کے تناظر میں محض ان کا تفرد قرار دے کر زیادہ غور وفکر کا مستحق نہیں سمجھا گیا اور اسی وجہ سے فقہی لٹریچر میں اس موقف کی بحث و تمحیص کے حوالے سے زیادہ علمی مواد نہیں پایا جاتا، تاہم ہمارے خیال میں یہ راے محض ابراہیم نخعی کا تفرد نہیں ہے، بلکہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ جیسے بلند مرتبت فقیہ کے ہاں بھی یہ رجحان دکھائی دیتا ہے اور کم از کم ان جیسی شخصیت کی طرف نسبت کے ناتے سے یہ راے ہر لحاظ سے توجہ اور اعتنا کی مستحق ہے۔
انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جب تستر فتح ہوا تو ابو موسیٰ اشعری نے مجھے سیدنا عمر کے پاس بھیجا۔ میں پہنچا تو سیدنا عمر نے مجھ سے دریافت کیا کہ جحیفہ اور اس کے ساتھیوں کا کیا ہوا؟ یہ بنو بکر بن وائل سے تعلق رکھنے والے کچھ افراد تھے جو مرتد ہو کر کفار کے ساتھ جا ملے تھے۔ انس کہتے ہیں کہ سیدنا عمر نے بڑی کرید کرتے ہوئے ان افراد کے بارے میں پوچھا، لیکن میں نے تین مرتبہ ان کی توجہ اس موضوع سے ہٹانے کے لیے کوئی دوسری بات چھیڑ دی۔ آخر ان کے اصرار پر میں نے بتایا کہ انھیں گرفتار کر کے قتل کر دیا گیا ہے۔ اس پر سیدنا عمر نے انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھا۔ انس نے کہا کہ یہ لوگ جو مرتد ہوکر کفار کے ساتھ جا ملے تھے، کیا ان کے لیے قتل کے علاوہ کوئی اور صورت بھی ممکن تھی؟ سیدنا عمر نے کہا کہ ہاں، میں انھیں اسلام کی طرف واپس آنے کی دعوت دیتا اور اگر وہ انکار کرتے تو انھیں قید میں ڈال دیتا۔ ۳۵؂ روایت سے واضح ہے کہ سیدنا عمر اس راے کے حق میں عمومی رجحان رکھتے تھے اور انس بن مالک بھی اس سے پیشگی واقف تھے۔ چنانچہ انھوں نے پہلے اس موضوع پر گفتگو کو ٹالنے اور پھر ابوموسیٰ اشعری کے اقدام کا دفاع کرنے کی کوشش کی جس پر سیدنا عمر نے اپنی مذکورہ راے ظاہر کی۔ ابن حزم نے نقل کیا ہے کہ فقہا کا ایک گروہ مرتد کو قتل کرنے کے بجاے مدت العمر توبہ کا موقع دینے کا قائل رہا ہے اور انھوں نے اس گروہ کے مستدل کے طور پر سیدنا عمر کے مذکورہ واقعے ہی کا حوالہ دیا ہے۔ ۳۶؂
ابن عبد البر نے سیدنا عمر کی اس راے کو جمہور فقہا کے موقف پر محمول کرتے ہوئے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ اگر وہ قید میں ڈالنے کے بعد بھی اسلام قبول نہ کرتے تو سیدنا عمر انھیں قتل کر دیتے، تاہم اس کے لیے انھوں نے کلام سے کوئی داخلی قرینہ پیش نہیں کیا، بلکہ یہ کہا ہے کہ چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مرتد کو قتل کرنے کا حکم دیا ہے، اس لیے سیدنا عمر اس سے مختلف کوئی بات نہیں کہہ سکتے، ۳۷؂ حالانکہ ازروے علت سیدنا عمر کی یہ راے ارشاد نبوی کے خلاف نہیں۔ اگرچہ روایت میں ان کی اس راے کا استدلال نقل نہیں ہوا، لیکن یہ قیاس کرنا غالباً غلط نہیں ہوگا کہ وہ مرتد کے دل میں اسلام کی حقانیت کے حوالے سے واقعی شکوک وشبہات کا امکان تسلیم کرتے ہوئے اتمام حجت کے پہلو سے اس کو قتل کی سزا دینے میں تردد محسوس کرتے اور اس کے بجاے اسے مدت العمر توبہ کا موقع دینے کو شریعت کے منشا کے زیادہ قریب تصور کرتے ہیں۔
بعض روایات اور آثار میں مرتد ہونے والی عورت کو قتل کے حکم سے مستثنیٰ قرار دینے کا ذکر ملتا ہے۔ چنانچہ معاذ بن جبل سے روایت ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں یمن کا حاکم بنا کر بھیجا تو من جملہ دوسرے احکامات کے یہ حکم بھی دیا کہ اگر کوئی عورت اسلام سے پھر جائے تو اسے اسلام کی دعوت دو۔ اگر وہ توبہ کرلے تو قبول کرلو اور اگر انکار کردے تو اس سے جبراً توبہ کراؤ۔ ۳۸؂ اسی طرح ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک عورت مرتد ہوگئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قتل نہیں کیا۔ ۳۹؂
ایک روایت کے مطابق سیدنا علی کے زمانے میں کچھ لوگ مرتد ہو گئے تو حضرت علی نے ان میں سے بالغ مردوں کو قتل کر دیا اور عورتوں اور بچوں کو غلام بنا لیا۔ ۴۰؂ عبداللہ ابن عباس کا فتویٰ یہ نقل ہوا ہے کہ اگر عورتیں اسلام سے مرتد ہوجائیں تو انھیں قتل نہیں کیاجائے گا، بلکہ انھیں محبوس کر کے اسلام کی دعوت دی جائے گی اور اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا جائے گا۔ ۴۱؂ فقہاے تابعین میں سے زہری، ابراہیم نخعی، قتادہ، عطاء، حسن بصری، خلاس اور عمر بن عبد العزیز سے مرتد ہونے والی عورت کو قتل کرنے کے بجاے قید کرنے یا لونڈی بنا لینے جیسی متبادل سزائیں دینا مروی ہے۔ ۴۲؂ اس کے برعکس بعض دیگر روایات میں مرتد ہونے والی عورتوں کو قتل کرنے کا ذکر بھی ملتا ہے۔ ۴۳؂
ہمارے نزدیک اگر ارتداد کی سزا کو اتمام حجت کے نکتے کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کی جائے تو خواتین پر اس سزا کو نافذ کرنے اور انھیں اس سے مستثنیٰ قرار دینے کے دونوں طریقے قابل فہم ہو جاتے ہیں۔ قتل چونکہ کسی بھی جرم کی آخری سزا ہوتی ہے جس کے بعد اصلاح یا توبہ کا کوئی موقع باقی نہیں رہ جاتا، اس لیے کوئی فرد اگر کسی بھی درجے میں رعایت کا مستحق ہو تو اس پر یہ سزا نافذ کرنے کے بجاے کوئی متبادل سزا تجویز کرنا اور توبہ واصلاح کے دروازے کو اس کے لیے کھلا رکھنا ایک قابل فہم اور معقول بات ہے۔ خواتین کے بارے میں یہ معلوم ہے کہ انسانی تاریخ میں بالعموم انھیں مردوں اور بالخصوص اپنے خاندان کے مردوں کے رجحانات اور اثرات سے آزاد ہو کر اپنی عقل وفہم اور صواب دید کے مطابق خود کوئی فیصلہ کرنے کے مواقع حاصل نہیں رہے اور مذہبی، معاشرتی اور سیاسی معاملات میں انھیں مردوں ہی کے تابع سمجھا جاتا رہا ہے۔ یہ صورت حال اس بات کی مقتضی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اتمام حجت کے بعد انکار حق کے معاملے میں انھیں مردوں کے ساتھ یکساں درجے کا مجرم نہ سمجھا جائے، بلکہ ان کے بارے میں فیصلہ کرتے ہوئے زیادہ احتیاط ملحوظ رکھی جائے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو اتمام حجت کے تحقق کا اطمینان حاصل ہونے کی صورت میں خواتین کو قتل کرنے، جبکہ اس میں شک وشبہ پائے جانے کی صورت میں کوئی متبادل سزا نافذ کرنے کے دونوں طریقے درست قرار پاتے ہیں۔
جب صدر اول میں مختلف گروہوں کے حوالے سے اتمام حجت کی کیفیت میں تفاوت محسوس کیا جا رہا تھا تو ظاہر ہے کہ بعد کے زمانوں میں لازمی طور پر اس میں مزید تغیر رونما ہوا۔ چنانچہ امام غزالی نے پانچویں صدی میں یہ راے ظاہر کی تھی کہ غیر مسلموں کا ایک گروہ تو یقیناًرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی حقانیت سے پوری طرح واقف ہے اور اس کے انکار کے نتیجے میں خدا کے عذاب کا مستحق ٹھہرے گا، لیکن وہ غیر مسلم جنھوں نے سرے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام ہی نہیں سنا یا نام تو سنا ہے، لیکن آپ کی نبوی حیثیت اور پیغمبرانہ کمالات واوصاف سے کماحقہ آگاہ نہیں ہیں، ان کے بارے میں یہی امید ہے کہ وہ رحمت الٰہی کے دائر ے میں شامل ہو کر نجات پا جائیں گے۔ ۴۴؂ عہد رسالت اور بعد کے ادوار میں فرق وتفاوت کا یہی احساس فقہ اسلامی کے بہت سے قانونی تصورات پر بھی بتدریج اثر انداز ہوا ہے، تاہم اس تدریجی تغیر کا تفصیلی مطالعہ ایک مستقل بحث کا متقاضی ہے۔ ۴۵؂
بعض معاصر اہل علم نے اسی تناظر میں ارتداد پر سزاے موت کے حوالے سے یہ سوال اٹھایا ہے کہ اتمام حجت کے لیے جو معاون اور سازگار فضا اور جو اسباب ومحرکات اسلام کے دور اول میں موجود تھے، کیا وہ آج بھی اسی طرح موجود ہیں اور کیا معروضی تناظر میں اس سزا کا اطلاق خود حکم کی علت کی رو سے درست ہوگا؟ ۴۶؂ مولانا مودودی بھی، جنھوں نے ارتداد پر سزاے موت کا بھرپور دفاع کیا ہے، یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہوئے ہیں کہ دور جدید میں اسلامی تعلیم وتربیت کے نظام میں نقص اور کافرانہ تعلیم وتربیت کے اثرات کے تحت نئی نسلوں میں اسلام سے فکری انحراف کا میلان اس درجے میں پھیل چکا ہے کہ انھیں قانون ارتداد کے تحت جبراً دائرۂ اسلام میں مقید رکھنے سے ’’اسلام کے نظام اجتماعی میں منافقین کی ایک بہت بڑی تعداد شامل ہو جائے گی جس سے ہر وقت ہر غداری کا خطرہ رہے گا۔‘‘ ۴۷؂ ایسے لوگوں کو جبراً اسلام کا پابند بنانے پر مولانا کی تشویش کا اصل پہلو تو وہی ہے جو انھوں نے بیان کیا ہے، تاہم اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ دور جدید میں وضوح حق اور اتمام حجت کی کیفیت کے حوالے سے ان کے احساسات کیا ہیں۔ مولانا نے غالباً اسی احساس کے تحت مرتد کے لیے ملک بدر کرنے کی متبادل سزا کا امکان تسلیم ،بلکہ تجویز کیا ہے۔
مذکورہ بحث سے واضح ہے کہ ارتداد پر سزاے موت کو اتمام حجت کے نکتے سے متعلق ماننے کی صورت میں یہ سوال بنیادی اہمیت اختیار کر جاتا ہے کہ کسی شخص یا گروہ پر اتمام حجت ہو جانے کا فیصلہ کیسے اور کن بنیادوں پر کیا جائے گا۔ اس ضمن میں جناب جاوید احمد غامدی نے یہ نقطۂ نظر اختیار کیا ہے کہ چونکہ کسی بھی شخص یا قوم پر حجت تمام ہو جانے کا فیصلہ کوئی انسان، حتیٰ کہ خود پیغمبر بھی نہیں کر سکتا، بلکہ اتمام حجت اور اس کی بنیاد پر سزا اور عذاب کا فیصلہ خود اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں، اس لیے قتل مرتد کا حکم شریعت کا کوئی عمومی ضابطہ نہیں، بلکہ اس کا تعلق صرف مشرکین بنی اسماعیل سے ہے جن پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اتمام حجت کے بعد براہ راست اللہ تعالیٰ کے حکم کے تحت موت کی سزا نافذ کی گئی تھی اور اسلام قبول کیے بغیر ان کے لیے زندہ رہنے کی کوئی گنجایش باقی نہیں رکھی گئی تھی۔ ۴۸؂
ہماری راے میں اس حکم کو مشرکین عرب تک محدود رکھنے کے بجاے اہل کتاب کو بھی اس کے دائرۂ اطلاق میں شامل سمجھنے میں کوئی مانع نہیں، کیونکہ ان کے لیے جزیہ دے کر اپنے مذہب پر قائم رہنے کی اجازت محض ایک رعایت کی حیثیت رکھتی تھی۔ چنانچہ اگر وہ اسلام قبول کرنے کے بعد دوبارہ کفر کی طرف پلٹنا چاہتے تو یہ چیز ان کی دی گئی رعایت کو ختم کر کے ان کے کفر کی اصل سزا کوبحال کرنے کی ایک مضبوط وجہ تھی۔ اس وجہ سے صحابہ کا اس حکم کو مشرکین عرب کے ساتھ خاص سمجھنے کے بجاے اس کو دوسرے گروہوں کے لیے عام سمجھنا ہماری راے میں درست تھا، البتہ زیربحث نقطۂ نظر کا یہ پہلو بے حد وزن رکھتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مخاطب کفار سے متعلق دیے جانے والے احکام ایک مخصوص اساس پرمبنی تھے اور ان کی علی الاطلاق تعمیم نہیں کی جا سکتی۔ ہم واضح کر چکے ہیں کہ ارتداد پر سزاے موت دینے کا تعلق انھی اہل کفر سے تھا جن پر اتمام حجت کیا جا چکا تھا اور اس کی بنیاد پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے انھیں سزا دینے کی باقاعدہ اجازت دی گئی تھی۔ اگرچہ کلاسیکی علمی روایت میں معاملے کا یہ پہلوزیادہ توجہ کا مستحق نہیں سمجھا گیا اور فقہا نے بالعموم ارتداد کی سزا کو شریعت کا ایک ابدی حکم ہی شمار کیا ہے، تاہم دور جدید کی بیش تر مسلم ریاستوں میں ارتداد پر سزاے موت نافذ کرنے کا طریقہ اختیار نہیں کیا گیا جو ہماری راے میں حکم کی علت کی رو سے بالکل درست ہے۔

__________

۱؂ یونس۱۰: ۹۹۔ ۱۰۰۔
۲؂ البقرہ ۲:۲۵۶۔
۳؂ ہود: ۱۱۸۔ ۱۱۹۔
۴؂ الانعام ۶:۱۰۷۔ الشوریٰ۴۲: ۴۸۔ الغاشیہ۸۸: ۲۱۔ ۲۲۔
۵؂ بخاری، رقم ۲۷۹۴۔
۶؂ ابن تیمیہ، مجموع الفتاویٰ ۷/۸۵، ۲۰/۱۰۲۔
۷؂ ابن تیمیہ، مجموع الفتاویٰ ۷/۸۵، ۲۰/۱۰۲۔
۸؂ آل عمران ۳:۷۲۔
۹؂ البقرہ ۲:۲۱۷۔ المائدہ ۵:۵۴۔
۱۰؂ ابن ہشام، السیرۃ النبویہ ۴/۲۸۵۔
۱۱؂ سرخسی، المبسوط ۱۰/۱۱۰۔
۱۲؂ سرخسی، المبسوط ۱۱/۱۰۳۔
۱۳؂ سرخسی، المبسوط ۱۰/۱۱۷۔
۱۴؂ مرتد کی سزا ۴۹۔۵۰۔
۱۵؂ مرتد کی سزا ۴۸، ۷۴۔ ۷۶۔
۱۶؂ مرتد کی سزا ۵۱، ۶۷۔
۱۷؂ مرتد کی سزا۴۳۔
۱۸؂ عمر احمد عثمانی، فقہ القرآن: حدود وتعزیرات اور قصاص۵۹۵۔ ۵۹۶۔
۱۹؂ بخاری، رقم ۲۷۹۴۔
۲۰؂ نسائی، رقم ۳۹۵۲۔
۲۱؂ نظائر کے لیے دیکھیے: ابو الاعلیٰ مودودی، مرتد کی سزا ۱۹۔ ۲۳۔
۲۲؂ بخاری، رقم ۶۳۹۰، ۴۲۴۴۔ نسائی، رقم ۳۹۸۰۔
۲۳؂ ابن کثیر، البدایہ والنہایہ ۳/۲۶۳۔
۲۴؂ الشافعی، الام ۲/۲۵۶۔
۲۵؂ اس نقطۂ نظر کی مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: جاوید احمد غامدی، قانون جہاد ۳۲۔۳۸۔ برہان ۱۳۹۔ ۱۴۳۔ ماہنامہ اشراق، مارچ۲۰۰۶،۱۸۔۲۳؛اپریل ۲۰۰۶، ۲۱۔۲۸۔

۳۲؂ جصاص، احکام القرآن۴/۲۶۹۔۲۷۰۔ سرخسی، المبسوط۱۰/۹۸۔مرغینانی، الہدایہ۲/۱۶۰۔آلوسی، روح المعانی۱۰/۷۹۔
۳۳؂ Norman Stillman, The Jews of Arab Lands in Modern Times,http://www.nitle.org
۳۴؂ ابن حزم، المحلٰی ۱۱/۱۸۹۔ ابن قدامہ، المغنی ۱۰/ ۷۷۔ابن حجر، فتح الباری ۱۲/۲۷۰۔
4213۳؂ مصنف عبد الرزاق، رقم ۱۸۶۹۶۔ بیہقی، السنن الکبریٰ، رقم۱۶۶۶۵۔ ابن عبد البر، التمہید ۵/۳۰۷۔ طحاوی، شرح معانی الآثار ۳/۲۱۰۔ ابن حزم، المحلیٰ ۱۱/۱۹۱۔
۳۶؂ المحلیٰ ۱۱/۱۹۱۔
۳۷؂ الاستذکار ۷/۱۵۴۔
۳۸؂ طبرانی، المعجم الکبیر ۲۰/۵۳۔
۳۹؂ ابن عدی، الکامل فی ضعفاء الرجال ۲/۳۸۲، رقم ۵۰۵۔
۴۰ الطحاوی، شرح معانی الآثار، رقم ۴۷۲۸۔ الطوسی، تہذیب الاحکام ۱۰/۱۳۹۔
۴۱؂ مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۲۸۹۹۴۔ مصنف عبد الرزاق، رقم ۱۸۷۳۱۔
۴۲؂ مصنف عبد الرزاق، رقم ۱۸۷۲۵ ۔ ۱۸۷۳۰۔ مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۲۸۹۹۳، ۲۸۹۹۵۔ ۲۸۹۹۶، ۳۲۷۸۰۔
۴۳؂ دارقطنی ۳/۱۱۸۔ ۱۲۰۔
۴۴؂ الغزالی، فیصل التفرقہ ۹۶۔
۴۵؂ ہم نے اپنی زیر ترتیب کتاب ’’جہاد ایک تقابلی مطالعہ‘‘میں اس کے بعض پہلووں کو واضح کیا ہے۔

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت مئی 2009
مصنف : عمار خان ناصر
Uploaded on : Jul 27, 2018
2848 View