قرآن مجید اور مصوری - سید منظور الحسن

قرآن مجید اور مصوری

  قرآن مجید میں سورۂ سبا کی آیات ۱۲۔ ۱۳ میں اُن انعامات کا ذکر ہواہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر سیدنا سلیمان علیہ السلام کو عطا فرمائے تھے ۔ ان میں سے ایک انعام یہ بیان ہواہے کہ اللہ تعالیٰ نے بعض جنات کو سیدنا سلیمان علیہ السلام کے لیے مسخر کر دیا تھا۔ وہ آپ کے تابع فرمان تھے اور آپ کی خواہش کے مطا بق مختلف خدمات انجام دیتے تھے۔آپ نے انھیں جن کاموں پر مامور فرمایا، ان میں سے ایک کام یہ بھی تھا کہ وہ آپ کے لیے تماثیل، یعنی تصویریں اور مجسمے بناتے تھے۔ ۱؂ ارشاد فرمایا ہے:

وَلِسُلَیْمٰنَ الرِّیْحَ غُدُوُّہَا شَہْرٌ وَّرَوَاحُہَا شَہْرٌ وَاَسَلْنَا لَہٗ عَیْنَ الْقِطْرِ وَمِنَ الْجِنِّ مَنْ یَّعْمَلُ بَیْنَ یَدَیْہِ بِاِذْنِ رَبِّہٖ وَمَنْ یَّزِغْ مِنْہُمْ عَنْ اَمْرِنَا نُذِقْہُ مِنْ عَذَابِ السَّعِیْرِ. یَعْمَلُوْنَ لَہٗ مَا یَشَآءُ مِنْ مَّحَارِیْبَ وَتَمَاثِیْلَ وَجِفَانٍ کَالْجَوَابِ وَقُدُوْرٍ رّٰسِیٰتٍ اِعْمَلُوْٓا اٰلَ دَاوٗدَ شُکْرًا وَقَلِیْلٌ مِّنْ عِبَادِیَ الشَّکُوْرُ.
’’اور ہم نے سلیمان کے لیے ہوا کو مسخر کر دیا۔ اس کا جانا بھی مہینا بھر کا ہوتا اور آنا بھی مہینا بھر کا ہوتا اور ہم نے اس کے لیے تانبے کا چشمہ بہا دیااور جنات میں سے بھی اس کے لیے مسخر کر دیے جو اس کے رب کے حکم سے اس کے حضور میں خدمت کرتے (اور ان کے لیے ہمارا حکم یہ تھا کہ) جو ان میں سے ہمارے حکم کی سرتابی کرے گا تو ہم اس کو دوزخ کا عذاب چکھائیں گے۔ وہ اس کے لیے بناتے جو وہ چاہتا: محرابیں، تماثیل، حوضوں کے مانند لگن اور لنگر انداز دیگیں اے آل داؤد، شکر گزاری کے ساتھ عمل کرو اور میرے بندوں میں شکر گزار تھوڑے ہی ہیں۔‘‘

سورۂ سبا کی ان آیات سے تصاویر اور مصوری کے بارے میں حسب ذیل باتوں کی وضاحت ہوتی ہے: 
اولاً ، اللہ کے ایک برگزیدہ پیغمبر نے اپنے تابع فرمان جنوں سے تصویریں اور مجسمے بنوائے۔ پیغمبر چونکہ اللہ کی براہ راست رہنمائی میں زندگی بسر کرتا ہے، اس لیے یہ امر یقینی ہے کہ اس سے شعوری طور پر کوئی غیر مباح عمل صادر نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ سیدنا سلیمان علیہ السلام کا یہ عمل تصویر کی اباحت پر دلیل قاطع ہے۔
ثانیاً ، سیدنا سلیمان علیہ السلام کے اس عمل کا ذکر قرآن مجید نے کیا ہے۔یہ کتاب برحق ہے۔ یہ اگر کسی واقعے کی تصدیق کر دے تو اس کے بارے میں شک و شبہے کا ہر احتمال ختم ہو جاتا ہے۔چنانچہ قرآن کا مذکورہ واقعے کو بیان کر دینا ہی اس کی صحت کی دلیل ہے۔ مزید برآں قرآن کے اس ذکر سے ان تفصیلات کی بھی تصدیق ہوتی ہے جو سیدنا سلیمان علیہ السلام کے تعمیر کردہ ہیکل اور محل میں تصویروں اور مجسموں کے حوالے سے تورات میں بیان ہوئی ہیں۔ ۲؂ 
ثالثاً، ان آیات میں تماثیل کے ساتھ یکساں طور پر محرابیں ، حوضوں کے مانند لگن اور لنگر انداز دیگیں بنانے کا ذکر ہوا ہے۔ اس یکساں ذکر کی وجہ سے مذکورہ چار چیزوں پر باہم مختلف حکم نہیں لگایا جا سکتا۔ یعنی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ان میں فلاں چیز جائز ہے اور فلاں ناجائز ہے ۔ جواز کاحکم لگانا ہے تو سبھی پر لگے گا اور عدم جواز کے حکم کا اطلاق کرنا ہے تو سبھی پر ہو گا۔ چنانچہ یہاں اگر محرابوں، لگنوں اور دیگوں کے جواز کا حکم مستنبط ہوتا ہے تو تماثیل کو اس حکم سے ہر گز خارج نہیں کیا جا سکتا۔ 
رابعاً ، تماثیل کا لفظ حیوان اور غیر حیوان ، دونوں کی تصویروں اور مجسموں پر محیط ہے۔ اس مفہوم کی بنا پر یہ بات یقینی طور پر کہی جا سکتی ہے کہ جب یہ لفظ مجرد طور پر استعمال ہو تو اس کے مفہوم سے حیوانات کی تصویروں کو ہر گز خارج نہیں کیا جا سکتا۔ یہاں یہ لفظ کسی تخصیص کے بغیر استعمال ہو اہے۔ چنانچہ قرین قیاس یہی ہے کہ سیدنا سلیمان علیہ السلام نے حیوان اور غیر حیوان ، دونوں طرح کی مخلوقات کی تصویریں اور مجسمے بنوائے تھے۔
خامساً، آیت کے اختتام پر ’’اے آل داؤد، شکر گزاری کے ساتھ عمل کرو‘‘ کے الفاظ سے واضح ہے کہ مذکورہ چیزیں انعامات ہی کی نوعیت کی تھیں۔اللہ کی شکر گزاری اس کے فضل و انعام ہی سے مستلزم ہے۔ مولانا امین احسن اصلاحی آیت کے ان الفاظ کے تحت لکھتے ہیں:

’’یہ اس فضل و انعام کا حق بیان ہوا ہے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان علیہ السلام پر فرمایا۔ ان کو ہدایت ہوئی کہ اس علم و سائنس اور ان ارضی و سماوی برکات کو پا کر بہک نہ جانا، بلکہ اپنے رب کی شکرگزاری کے ساتھ ہر چیز اس کے صحیح محل میں برتنا اور ہر قدم صحیح سمت میں اٹھانا۔ یہ نصیحت یوں تو اللہ تعالیٰ کی ہر نعمت زبان حال سے بھی کرتی ہے، لیکن حضرت سلیمان علیہ السلام پیغمبر تھے ، اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے سے بھی ان کو ہدایت فرمائی۔‘‘(تدبر قرآن۶/ ۳۰۵) 

سادساً ،قرآن مجید نے اس موقع پر تماثیل کی حرمت و شناعت کا کوئی اشارہ نہیں دیا۔ چنانچہ یہ راے صحیح نہیں ہے کہ یہ سابقہ شریعتوں میں جائز اور اسلامی شریعت میں ناجائز ہیں۔ اگر یہ بات درست ہوتی تو قرآن اسی مقام پر یا کسی دوسرے مقام پرشریعت کی اس تبدیلی کو ضرور بیان کرتا۔ 
قرآن مجید میں ان تصاویر و تماثیل کے بارے میں سخت وعید آئی ہے جو مشرکانہ مقاصد کے تحت بنائی جاتی تھیں۔ اس کے مختلف مندرجات سے معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا نوح علیہ السلام، سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم جن اقوام میں مبعوث ہوئے، وہ شرک کوایک باقاعدہ مذہب کے طور پر اپنائے ہوئے تھیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ان پیغمبروں کو یہ ہدایت فرمائی کہ وہ انھیں اس ضلالت سے نکالیں۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مخاطبین اس معاملے میں پچھلی اقوام سے بھی آگے بڑھے ہوئے تھے۔انھوں نے اپنے لیے نہ صرف نئی تماثیل وضع کر لی تھیں، بلکہ قوم نوح کی قدیم ترین تماثیل کو بھی مرجع عبادت بنا لیا تھا۔ انتہا یہ تھی کہ بیت اللہ جیسی روے زمین کی سب سے مقدس جگہ کو انھوں نے ان مشرکانہ تماثیل سے بھر دیاتھا۔یہی وجہ ہے کہ قرآن نے شرک کی بیخ کنی کا اعلان کیا اور مختلف پہلوؤں سے تماثیل کی بے وقعتی اور شناعت کو واضح کیا۔ اس ضمن میں قرآن کے جملہ مقامات سے یہ بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ تماثیل کی یہ شناعت سرتاسر شرک کے حوالے سے ہے۔ گویا اس کتاب الٰہی نے تماثیل کو نہیں، بلکہ ان کے ساتھ وابستہ ہونے والے مشرکانہ مراسم کو شنیع قرار دیا ہے۔ اس ضمن کے چند نمایاں مقامات حسب ذیل ہیں:
سورۂ انبیا میں ارشاد ہے:

وَلَقَدْ اٰتَیْنَآ اِبْرٰھِیْمَ رُشْدَہٗ مِنْ قَبْلُ وَ کُنَّا بِہٖ عٰلِمِیْنَ. اِذْ قَالَ لِاَبِیْہِ وَقَوْمِہٖ مَا ہٰذِہِ التَّمَاثِیْلُ الَّتِیْٓ اَنْتُمْ لَہَا عٰکِفُوْنَ. قَالُوْا وَجَدْنَآ اٰبَآءَ نَا لَہَا عٰبِدِیْنَ. قَالَ لَقَدْ کُنْتُمْ اَنْتُمْ وَاٰبَآؤُکُمْ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ ... قَالَ اَفَتَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مَا لَا یَنْفَعُکُمْ شَیْءًا وَّلَا یَضُرُّکُمْ. اُفٍّ لَّکُمْ وَلِمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ.(الانبیاء ۲۱: ۵۱ ۔ ۶۷)

’’اور اس سے پہلے ہم نے ابراہیم کو اس کی ہدایت فرمائی اور ہم اس سے خوب باخبر تھے۔ جب کہ اس نے اپنے باپ اور اپنی قوم کے لوگوں سے کہا کہ یہ کیا مورتیں ہیں جن پر تم دھرنا دیے بیٹھے ہو! انھوں نے جواب دیا کہ ہم نے تو اپنے باپ دادا کو انھی کی عبادت کرتے ہوئے پایا ہے۔ اس نے کہا: تم بھی اور تمھارے باپ دادا بھی ایک کھلی ہوئی گمراہی میں مبتلا رہے ہو... اس نے کہا: کیا خدا کے ما سوا تم ایسی چیزوں کی پرستش کرتے ہوجو تم کو نہ کوئی نفع پہنچا سکیں نہ کوئی ضرر! تف ہے تم پر بھی اور ان چیزوں پر بھی جن کو تم اللہ کے سوا پوجتے ہو! کیا تم لوگ سمجھتے نہیں!‘‘

یہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا اپنی قوم کے ساتھ مکالمہ ہے۔ یہاں تماثیل سے مراد وہ مجسمے اور تصویریں ہیں جن کی پرستش آپ کے والد اور آپ کے خاندان اور قوم کے لوگ کرتے تھے۔ ’مَا ہٰذِہِ التَّمَاثِیْلُ الَّتِیْٓ اَنْتُمْ لَہَا عٰکِفُوْنَ. قَالُوْا وَجَدْنَآ اٰبَآءَ نَا لَہَا عٰبِدِیْنَ‘ (یہ کیا مورتیں ہیں جن پر تم دھرنا دیے بیٹھے ہو ! انھوں نے جواب دیا کہ ہم نے تو اپنے باپ دادا کو انھی کی عبادت کرتے ہوئے پایا ہے)کے الفاظ سے واضح ہے کہ آپ کی قوم اور اس کی گذشتہ نسلیں ان تماثیل کو معبود سمجھتی اور ان کی عبادت کرتی تھیں۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے تماثیل کی پرستش کو ایک کھلی ہوئی گمراہی قرار دیا اوران کے قلب و ذہن کو جھنجوڑتے ہوئے فرمایاکہ تم پر افسوس ہے کہ تم ان پتھروں کی عبادت کرتے ہو جو نہ نفع دینے والے ہیں اور نہ نقصان پہنچانے والے ہیں۔ اس سے واضح ہے کہ یہ آیات نہایت صراحت کے ساتھ اس بات کو بیان کر رہی ہیں کہ ’ہٰذِہِ التَّمَاثِیْلُ‘ سے مراد اللہ کے ساتھ شریک ٹھیرائے جانے والے بت اور ان کی شبیہیں اور تصویریں ہیں۔ سورۂ مریم میں سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا وہ خطاب نقل ہوا ہے جو آپ نے اپنے والد سے فرمایا تھا۔ اس سے بھی اسی بات کی وضاحت ہوتی ہے کہ اللہ کے اس برگزیدہ پیغمبرنے تماثیل کو نہیں، بلکہ ان کی پرستش کو شنیع ٹھیرایا۔ ارشاد فرمایا ہے:

اِذْ قَالَ لِاَبِیْہِ یٰٓاَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لَا یَسْمَعُ وَلَا یُبْصِرُ وَلَا یُغْنِیْ عَنْکَ شَیْءًا... یٰٓاَبَتِ لَا تَعْبُدِ الشَّیْطٰنَ اِنَّ الشَّیْطٰنَ کَانَ لِلرَّحْمٰنِ عَصِیًّا.(مریم ۱۹: ۴۲۔۴۴) 
’’یاد کرو جب اس نے اپنے باپ سے کہا: اے میرے باپ، آپ ایسی چیزوں کو کیوں پوجتے ہیں، جو نہ سنتی ہیں، نہ دیکھتی ہیں اور نہ کچھ آپ کے کام آنے والی ہیں۔ ... اے میرے باپ ، شیطان کی بندگی نہ کیجیے، شیطان خداے رحمان کا بڑا نافرمان ہے۔‘‘

مولانا امین احسن اصلاحی ان آیات کی وضاحت میں لکھتے ہیں:

’’اس حقیقت کی طرف توجہ دلائی ہے کہ آخر اپنے ہی ہاتھوں کی گھڑی ہوئی ان پتھر کی مورتوں کو معبود مان کر ان کی پوجا کرنے کا کیا تک ہے ؟ کسی کو معبود بنا لینا کوئی شوق اور تفریح کی چیز نہیں ہے ۔ اس کا تعلق تو انسان کی سب سے بڑی احتیاج سے ہے ۔ انسان خدا کو اس لیے مانتا اور اس کی عبادت کرتا ہے کہ وہ اس کی دعا و فریاد کو سنتا ، اس کے دکھ درد کو دیکھتا اور اس کی ہر مشکل میں اس کی دست گیری کرتا ہے۔ آخر یہ آپ کے اپنے ہی ہاتھوں کی گھڑی ہوئی مورتیں جو نہ سنتی ہیں ، نہ دیکھتی ہیں ، نہ آپ کے کچھ کام آ سکتی ہیں ، کس مرض کی دوا ہیں کہ آپ ان کے آگے ڈنڈوت کرتے ہیں۔ یہ گویا شرک کے بدیہی باطل ہونے کی دلیل ہے کہ اس کے باطن سے قطع نظر اس کا ظاہر ہی شہادت دیتا ہے کہ یہ کھلی ہوئی سفاہت اور عقل و فطرت سے بالکل بے جوڑ چیز ہے ۔ ... شیطان کو سب سے زیادہ کد اور ضد ، جیسا کہ قصۂ آدم و ابلیس سے واضح ہے، توحید کی صراط مستقیم ہی سے ہے ۔ اس نے یہ قسم کھا رکھی ہے کہ وہ ذریت آدم کو اس صراط مستقیم سے برگشتہ کرنے کے لیے اپنا پورا زور لگا دے گا اور ان کو شرک میں مبتلا کر کے چھوڑے گا ۔ خداے رحمان کے ایسے کھلے ہوئے باغی کی ایسی وفادارانہ اطاعت درحقیقت اس کی عبادت ہے اور بدقسمت ہے وہ انسان جو خدا کو چھوڑ کر شیطان کی عبادت کرے۔‘‘ (تدبر قرآن۴/ ۶۵۸)

اس تفصیل سے یہ بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا منفی تبصرہ ان تماثیل کے بارے میں ہے جنھیں ان کی قوم نے معبود بنا رکھا تھا اور اس بنا پر وہ شرک کا بدترین مظہر تھیں۔ چنانچہ آپ کا اظہار براء ت درحقیقت تماثیل سے نہیں، بلکہ شرک سے ہے ۔ سورۂ انعام میں جہاں یہ مکالمہ نقل ہو ا ہے، وہاں آپ کا یہ فرمان بھی مذکور ہے کہ:میں ان چیزوں سے بری ہوں جن کو تم شریک ٹھیراتے ہو۔ اور میں تو مشرکوں میں سے نہیں ہوں:

قَالَ یٰقَوْمِ اِنِّیْ بَرِیْٓءٌ مِّمَّا تُشْرِکُوْنَ. اِنِّیْ وَجَّہْتُ وَجْہِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ حَنِیْفًا وَّمَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ.(الانعام۶: ۷۸۔۷۹) 
’’اس نے (اپنی قوم سے ) کہا کہ میری قوم کے لوگو، میں ان چیزوں سے بری ہوں جن کو تم شریک ٹھیراتے ہو۔ میں نے تو اپنا رخ بالکل یک سو ہو کر اس کی طرف کیا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے اور میں تو مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔‘‘

سورۂ صافات میں بھی سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے اس واقعے کا حوالہ آیا ہے۔ اس موقع پر بھی تماثیل کی پرستش کرنے کی شناعت بیان کی گئی ہے:

قَالَ اَتَعْبُدُوْنَ مَا تَنْحِتُوْنَ. وَاللّٰہُ خَلَقَکُمْ وَمَا تَعْمَلُوْنَ.(۳۷: ۹۵۔۹۶)

’’اس نے کہا: کیا تم لوگ اپنے ہی ہاتھوں گھڑی ہوئی چیزوں کو پوجتے ہو! اللہ ہی نے پیدا کیا ہے تم کو بھی اور ان چیزوں کو بھی جن کو تم بناتے ہو۔‘‘

مولانا امین احسن اصلاحی ان آیات کی وضاحت میں لکھتے ہیں:

’’انھوں نے فرمایا کہ شامت زدو! تم اپنے ہی ہاتھوں کی گھڑی ہوئی، لکڑی اور پتھر کی مورتوں کی پوجا کرتے ہو! اللہ کی پوجا تو اس لیے کی جاتی ہے کہ اس نے ہم کو پیدا کیا ہے ، لیکن تمھاری عقل اس طرح ماری گئی ہے کہ تم جن کو خود اپنے ہاتھوں سے تراشتے ہو ، انھی کی پوجا کرتے ہو۔ گویااپنے خالقوں کے خالق تم خود ہو۔ یاد رکھو کہ اللہ ہی ہے جس نے تم کو بھی پیدا کیا ہے اور ان لکڑیوں اور پتھروں کو بھی پیدا کیا ہے جن سے تم اپنے معبودوں کو تراشتے ہو اور ان جنات و ملائکہ کو بھی پیدا کیا ہے جن کے تم پیکر تراشتے ہو۔‘‘ (تدبر قرآن۶/ ۴۸۲)

سورۂ نجم (۵۳) کی آیات ۱۹ ۔۲۳ اور ۲۷۔۲۹ میں لات، منات اور عزیٰ کی تماثیل کے حوالے سے بیان ہوا ہے:

اَفَرَءَ یْتُمُ اللّٰتَ وَالْعُزّٰی. وَمَنٰوۃَ الثَّالِثَۃَ الْاُخْرٰی. اَلَکُمُ الذَّکَرُ وَلَہُ الْاُنْثٰی. تِلْکَ اِذًا قِسْمَۃٌ ضِیْزٰی. اِنْ ہِیَ اِلَّآ اَسْمَآءٌ سَمَّیْتُمُوْہَآ اَنْتُمْ وَاٰبَآؤُکُمْ مَّآ اَنْزَلَ اللّٰہُ بِہَا مِنْ سُلْطٰنٍ اِنْ یَتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَمَا تَہْوَی الْاَنْفُسُ وَلَقَدْ جَآءَ ہُمْ مِّنْ رَّبِّہِمُ الْہُدٰی... اِنَّ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَۃِ لَیُسَمُّوْنَ الْمَلآءِکَۃَ تَسْمِیَۃَ الْاُنْثٰی. وَمَا لَہُمْ بِہٖ مِنْ عِلْمٍ اِنْ یَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَاِنَّ الظَّنَّ لَا یُغْنِیْ مِنَ الْحَقِّ شَیْءًا. فَاَعْرِضْ عَنْ مَّنْ تَوَلّٰی عَنْ ذِکْرِنَا وَلَمْ یُرِدْ اِلَّا الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا.
’’بھلا، کبھی غور کیا ہے لات اور عزیٰ اور منات پر جو تیسری اور درجہ کے اعتبار سے دوسری ہے! تم اپنے لیے بیٹے پسند کرتے ہو اور اس کے لیے بیٹیاں! یہ تو بڑی ہی بھونڈی تقسیم ہے! یہ محض نام ہیں جو تم نے اور تمھارے باپ دادا نے رکھ چھوڑے ہیں، اللہ نے ان کے حق میں کوئی دلیل نہیں اتاری۔ یہ لوگ محض گمان اور نفس کی خواہشوں کی پیروی کر رہے ہیں۔ حالاں کہ ان کے پاس ان کے رب کی جانب سے نہایت واضح ہدایت آچکی ہے ... جولوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے انھی نے فرشتوں کے نام عورتوں کے نام پررکھ چھوڑے ہیں۔ حالاں کہ اس باب میں ان کو کوئی علم نہیں۔ وہ محض گمان کی پیروی کر رہے ہیں اورگمان کسی درجے میں بھی حق کا بدل نہیں۔ تو تم ان لوگوں سے اعراض کرو جنھوں نے ہماری یاد دہانی سے اعراض کیا اور جن کا مطلوب دنیا کی زندگی ہی ہے۔‘‘ 

لات، منات اور عزیٰ قریش کی مقبول ترین تماثیل تھیں۔ یہ عرب میں مختلف مقامات پر نصب تھیں۔ اہل عرب ان کی پوجا کرتے ، ان کے سامنے نذر ونیاز پیش کرتے اور ان کے تقرب کے لیے انھی کی ساخت پر مجسمے تراش کر اورانھی کی شبیہ پر تصویریں بنا کر اپنے گھروں میں رکھتے تھے۔ مشرکین عرب کے نزدیک یہ درحقیقت فرشتوں کے بت تھے۔ فرشتے ان کے خیال میں اللہ کی بیٹیاں تھے۔ان کے بارے میں وہ یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ اگر وہ ان کی عبادت کریں گے تو یہ آخرت میں اللہ کے حضورمیں ان کی سفارش کریں گی۔قرآن مجید نے ان کی ان خرافات کو ہر لحاظ سے ناجائز قرار دیا اور واضح کیا کہ ان تماثیل کی کوئی حقیقت نہیں ہے، اوریہ لات، منات، عزیٰ اور دوسرے بت تو محض نام ہیں جو ان کے باپ دادا نے رکھ چھوڑے ہیں۔ ان کی پرستش کرنے والے درحقیقت اپنے مشرکانہ مذہب کی اساس بے بنیاد گمانوں پر قائم کیے ہوئے ہیں جن کی حق کے مقابلے میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔ مولانا امین احسن اصلاحی ان تماثیل کے بارے میں لکھتے ہیں:

’’ یہ تینوں فرشتوں کے بت تھے۔ فرشتوں کی نسبت مشرکین عرب کا عقیدہ یہ تھا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی چہیتی بیٹیاں ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی ہر بات مانتا ہے اس وجہ سے وہ اپنے پجاریوں کو اس دنیا میں بھی رزق و اولاد دلواتی ہیں اور اگر آخرت ہوئی تو وہاں بھی یہ ان کو بخشوا لیں گی۔ خاص طور پر ان تینوں دیویوں کا ان کے ہاں بڑا مرتبہ تھا۔ ان کی سفارش بے خطا سمجھی جاتی تھی۔ ان کی نسبت ان کا عقیدہ تھا کہ ’تلک الغرانیق العلٰی وان شفاعتہن لا ترتجٰی‘ ’’یہ بڑے مرتبے کی دیویاں ہیں اور ان کی شفاعت کی قبولیت کی پوری امید ہے۔‘‘
اس بحث میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہے کہ قبائل عرب میں سے کون ان میں سے کس کو پوجتا تھا۔ ہو سکتا ہے کہ کسی خاص قبیلہ کو ان میں سے کسی ایک کے ساتھ کچھ زیادہ خصوصیت رہی ہو ، لیکن ان کی عظمت تمام مشرکین کے نزدیک یکساں مسلم تھی۔ قریش نے سارے عرب پر اپنی سیاسی ومذہبی پیشوائی کی دھاک جمائے رکھنے کے لیے تمام دیویوں دیوتاؤں کی مورتیاں خانۂ کعبہ میں بھی جمع کر چھوڑی تھیں۔ ان تینوں دیویوں کے پجاریوں کی تعداد چونکہ سارے عرب میں سب سے زیادہ تھی ، اس وجہ سے قریش بھی ان کی سب سے زیادہ تعظیم کرتے تھے۔
قرآن کے بیان سے یہ بات بھی واضح ہے کہ یہ تینوں دیویاں اس اعتبار سے اگرچہ ایک ہی زمرہ سے تعلق رکھنے والی تھیں کہ یہ سب عالی مرتبہ خیال کی جاتی تھیں ، تاہم ان میں باہم فرق مراتب بھی تھا۔ لات اور عزیٰ کا مرتبہ سب سے اونچا تھا۔ منات اگرچہ زمرہ میں انھی کے اندر شمار ہوتی تھی ، لیکن مرتبے کے لحاظ سے یہ ان سے فروتر تھی۔‘‘(تدبر قرآن۸/ ۶۱) 

ان دیویوں کے ساتھ عربوں کے تعلق کو بیان کرتے ہوئے مولانا امین احسن اصلاحی نے یہ تبصرہ کیا ہے کہ یہ جزا و سزا سے بچنے کا آسان راستہ ہے جو انھوں نے اپنے تئیں دریافت کر رکھا تھا۔ لکھتے ہیں:

’’ان دیویوں کے حق میں ظاہر ہے کہ کوئی عقلی یا نقلی دلیل موجود نہیں تھی، لیکن جزا اور سزا کی ہر خلش سے مامون کر دینے کے لیے شیطان نے ان مشرکین کو یہ فریب دیا کہ فرشتے خدا کی چہیتی بیٹیاں ہیں۔ خاص طور پر اس کی فلاں اور فلاں بیٹیاں اس کو بہت محبوب ہیں۔ وہ ان کی ہر بات سنتا اور مانتا ہے۔ اس کے حضور میں ان کی ہر سفارش تیر بہدف ہے ، اس وجہ سے جو ان کی جے پکاریں گے اور ان کے تھانوں پر قربانی پیش کر دیا کریں گے، ان کو وہ خدا سے سفارش کر کے، اس دنیا میں بھی رزق و اولاد سے بہرہ مند کرائیں گی اور اگر آخرت کا کوئی مرحلہ پیش آیا تو وہاں بھی ان کو بڑے درجے دلوائیں گی۔ دیکھیے دنیا اور آخرت دونوں کی فلاح کی کیسی آسان راہ نکل آئی اور آخرت کے حساب وکتاب اور جزا و سزا کا ہر خطرہ کیسی آسانی سے دور ہو گیا۔‘‘ (تدبر قرآن ۸/ ۶۳)

سورۂ اعراف کی آیات ۱۹۰۔۱۹۸ میں ان تماثیل کے بارے میں مشرکانہ عقائد کی حقیقت کو نمایا ں کیا ہے۔ ارشاد فرمایا ہے:

فَتَعٰلَی اللّٰہُ عَمَّا یُشْرِکُوْنَ. اَیُشْرِکُوْنَ مَا لاَ یَخْلُقُ شَیْءًا وَّھُمْ یُخْلَقُوْنَ. وَلَا یَسْتَطِیْعُوْنَ لَھُمْ نَصْرًا وَّلَآ اَنْفُسَھُمْ یَنْصُرُوْنَ. وَاِنْ تَدْعُوْہُمْ اِلَی الْہُدٰی لاَ یَتَّبِعُوْکُمْ سَوَآءٌ عَلَیْکُمْ اَدَعَوْتُمُوْہُمْ اَمْ اَنْتُمْ صَامِتُونَ. اِنَّ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ عِبَادٌ اَمْثَالُکُمْ فَادْعُوْہُمْ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لَکُمْ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ. اَلَھُمْ اَرْجُلٌ یَّمْشُوْنَ بِھَآ اَمْ لَھُمْ اَیْدٍ یَّبْطِشُوْنَ بِھَآ اَمْ لَھُمْ اَعْیُنٌ یُّبْصِرُوْنَ بِھَآ اَمْ لَھُمْ اٰذَانٌ یَّسْمَعُوْنَ بِھَا قُلِ ادْعُوْا شُرَکَآءَ کُمْ ثُمَّ کِیْدُوْنِ فَلَا تُنْظِرُوْنِ. اِنَّ وَلِیِّ ےَ اللّٰہُ الَّذِیْ نَزَّلَ الْکِتٰبَ وَھُوَ یَتَوَلَّی الصّٰلِحِیْنَ. وَالَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖ لَا یَسْتَطِیْعُوْنَ نَصْرَکُمْ وَلَآ اَنْفُسَھُمْ یَنْصُرُوْنَ. وَاِنْ تَدْعُوْھُمْ اِلَی الْھُدٰی لَا یَسْمَعُوْا وَتَرٰھُمْ یَنْظُرُوْنَ اِلَیْکَ وَھُمْ لَا یُبْصِرُوْنَ.(اعراف ۷: ۱۹۰ ۔ ۱۹۸)

’’اللہ برتر ہے ان چیزوں سے جن کو یہ شریک ٹھیراتے ہیں۔ کیا وہ ایسی چیزوں کو شریک ٹھیراتے ہیں جو کسی چیز کو پیدا نہیں کرتیں ، بلکہ وہ خود مخلوق ہیں اور وہ نہ ان کی کسی قسم کی مدد کر سکتی ہیں اور نہ اپنی ہی مدد کر سکتی ہیں۔ اور اگر تم ان کو رہنمائی کے لیے پکارو وہ تمھارے ساتھ نہ لگیں گی، یکساں ہے خواہ تم ان کو پکارو یا تم خاموش رہو۔ جن کو تم اللہ کے ما سوا پکارتے ہو یہ تو تمھارے ہی جیسے بندے ہیں۔ پس ان کو پکار دیکھو، وہ تمھیں جواب دیں اگر تم سچے ہو۔ کیا ان کے پاؤں ہیں جن سے وہ چلتے ہیں، کیا ان کے ہاتھ ہیں جن سے وہ پکڑتے ہیں، کیا ان کی آنکھیں ہیں جن سے وہ دیکھتے ہیں، کیا ان کے کان ہیں جن سے وہ سنتے ہیں؟ کہہ دو، تم اپنے شریکوں کو بلاؤ، میرے خلاف چالیں چل دیکھو اور مجھے مہلت نہ دو۔ میرا کار ساز اللہ ہے جس نے کتاب اتاری ہے اور وہ نیکوکاروں کی کارسازی فرماتا ہے اور جن کو تم اللہ کے ماسوا پکارتے ہو ، نہ وہ تمھاری ہی مدد کر سکتے ہیں اور نہ اپنی ہی مدد کر سکتے ہیں اور اگر تم ان کو رہنمائی کے لیے پکارو ، وہ تمھا ری بات نہ سنیں گے اور تم ان کو دیکھتے ہو کہ وہ تمھاری طرف تاک رہے ہیں ، لیکن انھیں سوجھتا کچھ بھی نہیں۔‘‘

ان آیات سے حسب ذیل باتیں معلوم ہوتی ہیں:
اولاً، اللہ تعالیٰ ان چیزوں سے پاک اور برتر ہے جنھیں مشرکین اس کی ذات، صفات اور حقوق میں شریک کر کے بیان کرتے ہیں۔جو لوگ اللہ کے شریک ٹھیراتے ہیںیا اس کے ہاں اولاد کا تصور رکھتے ہیں ، وہ اصل میں اس کی صفات الوہیت ، شان یکتائی، قدرت، بے نیازی اور اس کے بے پایاں علم کی نفی کا اظہار کرتے اور اس طرح اس کی ذات و صفات کی اہانت کے مرتکب ہوتے ہیں۔ ۳؂ مولاناامین احسن اصلاحی لکھتے ہیں:

’’خدا کی صفات کے ساتھ ایسی صفات کا جوڑ ملاناجو اس کی بنیادی صفات کو باطل کر دیں، بالکل خلاف عقل ہے۔ شرک، جس نوعیت کا بھی ہو، تمام صفات کمال کی نفی کر دیتا ہے، اس وجہ سے خدا ایسی تمام نسبتوں اور شرکتوں سے منزہ اور ارفع ہے۔‘‘ (تدبر قرآن۳/ ۴۰۸)

ثانیاً، یہ ایسی چیزوں کو اللہ کا شریک ٹھیراتے ہیں جو خالق نہیں، بلکہ انھی کی طرح مخلوق ہیں۔ یعنی یہ کس قدر بے بنیاد بات ہے کہ خدا کی خدائی میں ان چیزوں کو شریک مانا جائے جو کچھ بھی تخلیق کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتیں، بلکہ اللہ کی دیگر مخلوقات ہی کی طرح اس کی مخلوق ہیں۔خدا کو جب مدد کے لیے پکارا جائے تو وہ پکارنے والے کی مدد کرتا ہے، مگر یہ کسی کی مدد تو کیا کریں گی ، خود اپنی مدد کرنے کی استطاعت بھی نہیں رکھتیں۔ چنانچہ ان کو پکارنا اور نہ پکارنا بالکل یکساں ہے۔یہ فقط مٹی اور پتھر ہیں اور ان صلاحیتوں سے بھی محروم ہیں جو اللہ تعالیٰ نے ان کے سامنے گڑگڑانے والوں کو دے رکھی ہیں۔ نہ ان کے پاؤں ہیں کہ چل پھر سکیں، نہ ہاتھ ہیں کہ کسی کو اپنی مرضی کے خلاف عمل کرنے سے روک سکیں، نہ ان کی آنکھیں ہیں کہ نذر و نیاز کو دیکھ سکیں اور نہ کان ہیں کہ آہ و پکار کو سن سکیں۔ سورۂ حج میں اسی بات کو دوسرے انداز میں بیان فرمایا ہے:

یٰٓاَیُّہَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ اِنَّ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ لَنْ یَّخْلُقُوْا ذُبَابًا وَّلَوِ اجْتَمَعُوْا لَہٗ وَاِنْ یَّسْلُبْہُمُ الذُّبَابُ شَیْئًا لَّا یَسْتَنقِذُوْہُ مِنْہُ ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوْبُ. مَا قَدَرُوْا اللّٰہَ حَقَّ قَدْرِہٖ اِنَّ اللّٰہَ لَقَوِیٌّ عَزِیْزٌ.(الحج ۲۲: ۷۳۔۷۴)
’’لوگو، ایک تمثیل بیان کی جاتی ہے تو اس کو توجہ سے سنو! جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو، وہ ایک مکھی بھی پیدا کر سکنے پر قادر نہیں ہیں اگرچہ وہ اس کے لیے سب مل کر کوشش کریں۔ اور اگر مکھی ان سے کوئی چیز چھین لے تو وہ اس سے اس کو بچا بھی نہیں پائیں گے۔ طالب اور مطلوب، دونوں ہی ناتوان! انھوں نے اللہ کی، جیسا کہ اس کا حق ہے ، قدر نہیں پہچانی! بے شک، اللہ قوی اورغالب ہے۔‘‘ 

سورۂ اعراف کی مذکورہ آیات میں قرآن مجید نے ایک طرف ان مخلوقات کی خدا کے مقابلے میں حیثیت کو واضح کیا ہے جن کو اللہ کا شریک سمجھا جاتا تھا اور دوسری طرف ان پتھروں اور مورتوں کی بے چارگی نمایاں کی ہے جنھیں ان مخلوقات کے قالب قرار دے کر پوجا جاتا تھا۔ اس طرح قرآن نے بت پرستی کے ان دونوں اجزا کی اصلیت کو پوری طرح واضح کر دیا ہے۔ 
اس تفصیل سے واضح ہے کہ قرآن مجید میں تماثیل، یعنی تصویروں اور مورتوں کی حرمت و شناعت کا بیان علی الاطلاق نہیں، بلکہ مشرکانہ مراسم سے متعلق ہونے کی وجہ سے ہے۔ احادیث میں بھی اسی بنا پر مجسموں اور ان کی تصویروں اور شبیہوں کو مذموم اور ممنوع قرار دیاہے اور انھیں بنانے والے مصوروں کے بارے میں اخروی عذاب کا اعلان کیا ہے۔

________________

۱؂ ’تماثیل‘ ’تمثال ‘کی جمع ہے۔ یہ لفظ حیوانات اور جمادات و نباتات کی صورت میں تمام مخلوقات کی تصویروں اور مجسموں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
۲؂ تورات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تصویریں اور مجسمے حیوان اور غیر حیوان ، دونوں طرح کی مخلوقات کے تھے اور سیدنا سیلمان علیہ السلام نے انھیں ہیکل اور اپنے محل کی تعمیر کے موقع پر بنوایا تھا (سلاطین ۱۸: ۳۰، ۲۷: ۳۰)۔
۳؂ ماخوذ از تدبر قرآن ۳/ ۳۹۹۔

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت اگست 2017
مصنف : سید منظور الحسن
Uploaded on : Sep 19, 2017
3078 View