قرآن مجید اور ہماری فقہ - محمد حسن الیاس

قرآن مجید اور ہماری فقہ

 "ھدایہ " فقہ حنفی کی معروف کتاب ہے۔اس کتاب کے آغاز میں "باب صفة الصلوة" ہے ۔جہاں سب سے پہلے صاحب ھدایہ نماز کے فرائض ،اور قرآن مجید سے ان کی فرضیت کے دلائل بیان کرتے ہیں ۔

زیر نظر پوسٹ میں ہم قرآن مجید کے ان دلائل کا ترتیب سے جائزہ لیں گے جن سے نماز کے مختلف اعمال کی فرضیت ثابت کی گئی ہے ۔

صاحب ھدایہ اس باب کے آغاز میں لکھتے ہیں:

۱۔نماز کے چھ فرائض ہیں۔پہلا تحریمہ،اس کی دلیل اللہ تعالی کا ارشاد ہے: وربک فکبر ۔ اور تکبیر سے مراد نماز شروع کرنے کی نیت ہے''(ھدایہ)

صاحب ھدایہ نے نماز کے آغاز میں تکبیر کہنے کی فرضیت کو جس آیت سے ثابت کیا ہے وہ سورہ مدثر کی تیسری آیت ہے ۔ہم اس آیت کو پڑھتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ کیا وہ نماز میں تکبیر کی فرضیت ثابت کرنے کے لیے نازل ہوئی ہے۔

آیات کا یہ سلسلہ یہاں سے شروع ہوتا ہے:

يا أيها المدثر

اے اوڑھ لپیٹ کر بیٹھنے والے

قُمْ فَأَنذِرْ

اٹھو اور انذار عام کے لیے کھڑے ہو جاؤ

وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ

اپنے رب ہی کی کبریائی کا اعلان کرو

وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ

اپنے دامن دل کو پاک رکھو

وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ

شرک کی غلاظت سے دور رہو

لَا تَمْنُن تَسْتَكْثِر‏

اور (دیکھو)، اپنی سعی کو زیادہ خیال کر کے منقطع نہ کر بیٹھو

وَلِرَبِّكَ فَاصْبِرْ

اور اپنے پروردگار کے فیصلے کے انتظار میں ثابت قدم رہو۔

جس آیت سے تکبیر تحریمہ کی فرضیت کا استدلال کیا گیا ہے وہ ہے :رَبَّكَ فَكَبِّرْ ،اس کا ترجمہ ہے اپنے رب ہی کی کبریائی کا اعلان کرو۔یعنی اعلان کرو کہ وہی سب سے بڑا، سب سے یگانہ اور یکتا ہے۔ اُس کے سوا جن کی بڑائی کا دعویٰ کیا جاتا ہے، وہ سب باطل ہیں۔

اس آیت میں کہیں دور دور بھی تکبیر تحریمہ یا اس کی فرضیت زیر بحث نھیں۔یہاں كبَّر المُصلّي نھیں ہے ۔بلکہ وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ ہے۔آیات کے اس سلسلے میں جس مقام پر یہ آیت ہے اور جس شان کی یہ آیت ہے وہ خدا کی کبرائی کا اعلان کرنے کا کہہ رہی ہے ۔اس آیت کا نماز کے ایک عمل تکبیر تحریمہ کی فرضیت سے کوئی تعلق ہی نھیں۔الفاظ اس بات کو قبول ہی نھیں کرتے ہیں۔

۲۔صاحب ھدایہ نماز کا دوسرا فرض اور اس کی دلیل بیان کرتےہوئے لکھتے ہیں:

''نماز کا دوسرا فرض ہے قیام ۔اس کی دلیل اللہ تعالی کا ارشادہے:وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ ۔''(ھدایہ)

اس پوری آیت کا اپنے پس منظر میں ترجمہ یہ ہے:

"(یہ خدا کی شریعت ہے۔ اِس پر قائم رہنا چاہتے ہو تو) اپنی نمازوں کی حفاظت کرو، بالخصوص اُس نماز کی جو (دن اور رات کی نمازوں کے ) درمیان میں آتی ہے ، (جب تمھارے لیے اپنی مصروفیتوں سے نکلنا آسان نہیں ہوتا)، اور (سب کچھ چھوڑ کر) اللہ کے حضور میں نہایت ادب کے ساتھ کھڑے ہو جاؤ۔"

جس آیت سے نماز میں قیام کی فرضیت کی دلیل دی گئی ہے وہ وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ ہے سورہ بقرہ کی آیت ۲٣٨ میں یہاں وَقُومُوا نماز میں کیے جانے والے قیام کے لیے بیان ہی نھیں ہوا بلکہ عبادت کے اس پورے عمل میں ادب کے ساتھ پیش ہونے لیے استعمال ہوا ہے۔بلکل اسی طرح جس طرح ہم کہتے ہیں قد قامت الصلاہ ۔یعنی نماز کھڑی ہوگی ہے۔نماز کے اعمال میں قیام کی فرضیت سرے سے اس آیت میں زیر بحث ہی نھیں ۔ قوموا محض نماز کے ایک جز قیام کی فرضیت کے بیان میں نھیں ہے بلکہ اس مراد ہے اس پورے عمل کے لیے جب اٹھ کھڑے ہوں تو فرماں برداری اور ادب کے ساتھ خدا کے روبرو پیش ہوا جائے۔

۳۔صاحب ہدایہ اس کے بعد لکھتے ہیں :"تیسرا فرض قرات ہے۔اس کی دلیل ہے فَاقْرَؤُوا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ"(ھدایہ)

اس آیت کا پورا ترجمہ یہ ہے:

" (ہم نے، اے پیغمبر تم کو حکم دیا تھا کہ رات میں قیام کرو) تمھارا پروردگار خوب جانتاہے کہ تم کبھی دوتہائی رات کے قریب، کبھی آدھی رات اور کبھی ایک تہائی رات (اُس کے حضور میں) کھڑے رہتے ہو اور تمھارے کچھ ساتھی بھی۔(لوگوں کی ضرورت کے لحاظ سے)اللہ ہی رات اور دن کی تقدیر ٹھیراتا ہے۔ اُس نے جان لیا کہ تم لوگ اِسے نباہ نہ سکو گے تو اُس نے تم پر عنایت کی نظر کی۔ چنانچہ اب قرآن میں سے جتنا ممکن ہو،(اِس نماز میں) پڑھ لیا کرو۔ اُسے معلوم ہے کہ تم میں بیمار بھی ہوں گے اور وہ بھی جو خدا کے فضل کی تلاش میں سفر کریں گے اور کچھ دوسرے وہ بھی جو اللہ کی راہ میں جہاد کے لیے اُٹھیں گے۔ اِس لیے جتنا ممکن ہو، اِس میں سے پڑھ لیا کرو اور (اپنے شب و روز میں) نماز کا اہتمام رکھو اور زکوٰۃ دیتے رہو اور (دین و ملت کی ضرورتوں کے لیے) اللہ کو قرض دو، اچھا قرض۔ اور (یاد رکھو کہ) جو کچھ بھلائی تم اپنے لیے آگے بھیجو گے، اُسے اللہ کے ہاں اُس سے بہتر اور ثواب میں برتر پاؤ گے۔ اللہ سے معافی مانگتے رہو۔ بے شک ،اللہ غفور و رحیم ہے۔

اس آیت میں جس بات کو محل استدلال قرار دیا گیا ہے وہ فَاقْرَؤُوا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ ہے۔یعنی قرآن میں سے جتنا ممکن ہو پڑھ لیا کرو۔

آیت کا سیاق یہاں یقینا یہی بیان کر رہا ہے کہ قرآن پڑھنے سے مراد یہاں نماز میں قرآن پڑھنا ہے۔لیکن یہ آیت دراصل نماز میں قرآن پڑھنے کی فرضیت میں نازل ہی نھیں ہوئی بلکہ یہ تو ایک بالکل دوسری بات بیان کر رہی ہے ۔

صاحب البیان اس حوالے سے لکھتے ہیں :

"نماز تہجد کا جو حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سورہ کی ابتدا میں دیا گیا ہے، یہ عام مسلمانوں کے لیے اُس میں تخفیف کی آیت ہے جو ہجرت مدینہ سے پہلے کسی وقت نازل ہوئی اور مضمون کی مناسبت سے اِسی سورہ کا حصہ بنا دی گئی ہے۔ اِس تخفیف کی ضرورت اِس لیے پیش آئی کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کے شوق میں آپ کے بعض ساتھیوں نے یہ نماز اپنے اوپر لازم کر لی تھی۔ دراں حالیکہ نماز تہجد کا یہ حکم آپ کے لیے خاص تھا اور اپنی قوم کو انذار کی جو ذمہ داری بحیثیت پیغمبر آپ پر ڈالی گئی تھی،اُس میں صبر و ثبات کے لیے دیا گیا تھا۔ یعنی اُن کے تقاضوں، مطالبات اور انسان پر اُن کے اثرات کو مقدر کرتا ہے۔"

یعنی یہاں زیر بحث نماز کے اعمال میں قرات کی فرضیت بیان کرنا نھیں بلکہ اس آیت میں تہجد کی نماز میں تخفیف قرات کے حوالے سے ایک ہدایت دی گئی ہے.جس سے قرات کی فرضیت کا استدلال کر دیا گیا ہے۔

۴۔اس کے بعد صاحب ھدایہ مذید فرائض لکھتے ہیں :"اور قیام اور سجدہ اس کی دلیل قرآن کی آیت ارْكَعُوا وَاسْجُدُوا ہے"(ھدایہ)

سورہ حج کی اس آیت کا ترجمہ اپنے پس منظر کے لحاظ سے یہ ہے:

ایمان والو، (اِن کا عہد تمام ہوا، اب تمھارا دور شروع ہو رہا ہے تو) رکوع و سجود کرو اور اپنے پروردگار کی بندگی کرو اور نیکی کے کام کرو تاکہ تم فلاح پاؤ۔

زیر نظر آیت میں رکوع اور سجدہ کس معنی میں ہے اس حوالے سے صاحب البیان لکھتے ہیں:

"یعنی گھٹنوں پر جھک جاؤ اور اپنا سر سجدے میں ڈال دو کہ خدا کی عظمت و جلالت کے اعتراف کی اِس سے بڑھ کر کوئی صورت نہیں ہے۔ چنانچہ یہ حقیقت ہے کہ انسان اگر پورے شعور کے ساتھ رکوع و سجود کرے اور اُس پر مداومت رکھے تو کبھی استکبار میں مبتلا نہیں ہوتا اور ہمیشہ تیار رہتا ہے کہ کوئی حق آئے تو بغیر کسی تردد کے اُس کے آگے سرتسلیم خم کر دے۔ اصل میں ’عبادت‘ کا لفظ آیا ہے اور یہ جامع مفہوم میں ہے۔ رکوع و سجود کی ہدایت کے بعد، ظاہر ہے کہ یہ خاص کے بعد عام کا ذکر ہے۔ چنانچہ مدعا یہ ہے کہ زندگی کے تمام معاملات میں خدا ہی کی بندگی اور اُسی کی اطاعت اختیار کرو۔"

گویا یہاں رکوع و سجود محض نماز کے اعمال کے بیان کے لیے سرے سے بیان ہی نھیں ہو رہے ۔جن کی فرضیت کے لیے اسے دلیل قرار دیا جاے ،بلکےیہاں عبادت کی تعبیر کے طور پر استعمال ہوئے ہیں۔

ہماری فقہ میں قرآن مجید سے استدلال کے حوالے سے یہ مشتے نمونے از خروارے ہیں۔

اس پورے فہم دین میں دو بنیادی غلطیاں ہیں ۔

پہلی یہ کہ قرآن مجید سے استدلال میں اس بات کو نظر انداز کر دیا گیا ہے کہ خود قرآن اس بات کو کیسے بیان کر رہا ہے۔ جو بات ہم اس کے الفاظ سے اخذ کرنا چاہ رہے ہیں ،وہ کلام اسے قبول ہی نھیں کر رہا ۔فقہ کا کوئی بھی باب اٹھائیں اس کی بے تحاشہ مثالیں مل جائیں گئیں۔

دوسری غلطی غلط ماخذ سے دلائل کے انتخاب کی ہے ۔یہ بات کسی بھی طرح درست نھیں کہ ہر عمل کی فرضیت کے ثبوت کے کیے لازما قرآن مجید سے دلیل درکار ہوتی ہے، کس چیز کی دلیل کہاں سے لی جائے گی اس کا فیصلہ بھی ہمیں نھیں کرنا۔ جس نے دین دیا ہے وہ یہ کر چکا ہے۔دین کا تنہا ماخذ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات والا صفات ہے۔جس طرح ہمیں آپ سے قرآن مجید ملا ہے اسی طرح سنت بھی ملی ہے ۔یہ انبیاکی سنت ہے ۔اور ہم جانتے ہیں نماز کا آغاز رسول اللہ سے نھیں ہوا وہ پہلے سے جاری تھی ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کے اعمال و اذکار کو پورے اہتمام سے ادا کیا اور سب لوگوں کو بتایا کہ نماز اس طرح پڑھو جس طرح مجھے پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو ۔پھر امت کے اجماع اور تواتر عملی نے پوری قطعیت سے سنت کے ذریعے اسے منتقل کیا ۔ہم بغیر کسی تردد کے اسے جان سکتے ہیں اس لیے کہ اسے پوری امت نے نسل در نسل منتقل کیا ہے اور کر رہی ہے ۔ نقل علم کا یہ طریقہ بالکل قطعی ہے۔اس میں افراد کی اتنی بڑی تعداد اس حقیقت کو منتقل کر رہی ہوتی ہے جن کا جھوٹ پر جمع ہونا محال ہے ۔ نماز اسی طرح منتقل ہوئی ہے جس طرح خود قرآن مجید منتقل ہوا ہے ۔لھذا یہ مسلمان امت میں موجود ہے ۔اس کے اعمال جاننے کے لیے کہیں اور رجوع کرنے کی ضرورت نھیں۔

بشکریہ محمد حسن الیاس
مصنف : محمد حسن الیاس
Uploaded on : Jan 16, 2019
2446 View