رمضان، عبادات اور للّٰہیت - ساجد حمید

رمضان، عبادات اور للّٰہیت

 رمضان آتا ہے تو ایک طرح کی تقویٰ کی بہار آجاتی ہے۔اکثر لوگ نمازوں اور عبادات کی طرف راغب ہوتے ہیں۔ روزے کی کیفیات چہروں پر دکھائی دیتی ہیں۔مسجدوں میں رونق بڑھ جاتی ہے۔بہت سے لوگوں کا سال کے بعد خدا کی طرف انابت کا عمل بڑے پیمانے پر ظہور پاتا ہے۔خدا کی وہ منادی جو صدیوں سے انبیا نے بلند کررکھی ہے کہ توبہ کرو میں تمھارے گناہ بخش دوں گا ،فرزندان اسلام رمضان میں اس کے جواب میں رجوع الی اللہ کرتے ہیں۔
لیکن ہم آج ایسے اسلامی مذہب کو مانتے ہیں جو اپنی جامعیت کھو کر محض ایک جزو ی دین بن کررہ گیا ہوا ہے۔ ہم نے صدیوں قبل ہندوستان سے گوتم بدھ اور یونان کے فیثا غورث اور مشرق وسطیٰ سے اخوان الصفا کی باطنیت سے جو مذہبی تصور لیا ، اس نے اسلام کے جامع دین کو بھی راہبانہ اور متصوفانہ بنا دیا ہے۔ اس اعتبار سے ہم غزالی کے عہد دینیات میں جیتے ہیں۔جہان دین کا منتہاے کمال یہ ہے کہ عبادت و ریاضت کی خاص نہج، یعنی طریقت پر چل کر للہیت حاصل کی جائے، جس کا مطلب خاص طرح کا صفاے قلب اوردوام ذکر الٰہی وغیرہ لیا جاتا ہے۔ اس تصور نے ہمارے دینی اشتغالا ت کو یکسر تبدیل کرکے رکھ دیا۔ہمارے آئیڈیل وہ لوگ قرار پائے جنھوں نے تصوف کی ریاضتوں سے یہ کمالات حاصل کیے۔ چنانچہ دین کا تصور للہیت سکڑ کر رہ گیا۔ ایک دیانت دار، حق شناس اور محنتی مزدور کم درجہ کا مسلمان قرار پایا اور ایک فقیرِ راہ سڑک پر یا جنگل میں دُھونی رمائے ۱؂ بیٹھا بڑے درجے کا، حالاں کہ وہ مزدور جس آزمایش میں ڈالا گیا تھا، وہ اس میں کامیاب تھا، اور یہ جس آزمایش میں ڈالا گیا تھا یہ اس سے مفرور تھا۔ 
امام غزالی رحمہ اللہ صوفیانہ طرزحیات پر لکھتے ہیں:

’’میرا مطمح نظر یہ تھا کہ میں آخرت کی سعاد ت تقویٰ اور ہواے نفس سے بچ کر حاصل کروں ،اور یہ بھی واضح تھا کہ اس عمل کی بلند ترین سطح یہ ہے کہ دل کو اس دنیا سے بے زارکر کے اس کا تعلق دھوکے کی اس دنیا سے کاٹ دیا جائے، اور یہ کہ اخروی دار الخلود کی طرف رغبت رکھی جائے ، اور ساری توجہ پوری ہمت لگا کر اللہ کی طرف مبذول کر لی جائے، مگریہ سب کچھ حاصل نہیں ہو سکتا، جب تک کہ جاہ و مال سے اعراض نہ کرلیا جائے، اور مصروفیات و علائق سے فرار نہ ہوا جائے۔ پھر میں نے اپنی حالت پر نگاہ ڈالی تو کیا دیکھتا ہوں کہ علائق دنیا میں غرق ہوں اور چار جانب سے ان میں گھرا ہوا ہوں۔پھر میں نے اپنے اعمال کا جائزہ لیا تو دیکھا کہ سب سے اچھا کام جو میں کرتا ہوں، وہ تدریس کا ہے، اس کی صورت حال بھی یہ ہے کہ میں ایسے علو م سے لگاؤ رکھتا ہوں، جو غیر اہم اور آخرت میں نافع نہیں ہیں۔
...پھر میں (سب چھوڑ چھاڑ کر) شام چلا گیا، وہاں میں تقریبا دو سال تک رہا، تنہائی ، خلوت گزینی، ریاضت، اور مجاہدے کے سوا میرے کچھ مشاغل نہ تھے، میری عزلت تزکیۂ نفس، تہذیب اخلاق اور ذکر الٰہی کے لیے تصفیۂ قلب کے مقصد سے تھی، اسی طرح جس طرح میں نے صوفیہ کی کتابوں سے سیکھا تھا۔ میں دمشق کی مسجد میں ایک مدت تک معتکف رہا، میں اس کے مینار پر چڑھ کراس کا دروازہ بند کر لیتا اور سارا سارادن اس میں بیٹھا رہتا تھا۔ پھر میں بیت المقدس چلا گیا، ہر روز صخرہ میں داخل ہوتا، اور دروازہ بند کرلیتا تھا۔ پھر میرے اندر حج کا فریضہ ادا کرنے کی تحریک نے سر اٹھایا کہ مکہ و مدینہ کی برکات سے بھی مدد لی جائے۔یوں خلیل اللہ کی زیارت کے بعد رسول اللہ کی زیارت بھی کی جائے ۔ اس مقصد سے میں نے حجاز کی مسافرت اختیار کی۔ پھر مجھ پرجذبات اور میرے بچوں کی دعاؤں نے غلبہ پایا اورمیں وطن لوٹ آیا، جب کہ میں اس کی طرف ہر گز لوٹنے والا نہ تھا، اپنے وطن میں بھی میں نے گوشہ نشینی کو ترجیح دیے رکھی، خلوت گزیں رہتا اور ذکر الٰہی کے لیے تصفیۂ قلب جاری رکھا۔ ... ان خلوتوں میں میرے اوپر بہت سے امور منکشف ہوئے جن کا احاطہ ممکن نہیں ہے، بس اتنی بات عرض کیے دیتا ہوں جس سے سب کو نفع ہو گا کہ میں یہ جان گیا ہوں کہ صوفیہ ہی اللہ کے راستے کے سالک ہیں ، انھی کی سیرت بہترین سیرت ہے، انھی کا طریقہ صحیح ترین طریقہ ہے، انھی کا اخلاق پاکیزہ ترین اخلاق ہے۔ ... ان کی تمام حرکات و سکنات ظاہر و باطن میں چراغِ نبوت کے نور کا شعلہ و شرر ہیں، اس سے بڑھ کر زمیں پر نور نبوت کہیں نہیں کہ جس سے روشنی حاصل کی جائے۔‘‘ (المنقذ من الضلال ۱۷۳۔۱۷۷) 

اس اقتباس سے آپ دیکھ سکتے ہیں کہ امام غزالی جیسے عبقری نے کس طرح دین کے ایک جزو کو اٹھایا اور پورے دین پر غالب کردیا ہے۔۲؂ اسلامی شرائع میں اعتکاف اور عزلت بہت مختصر عرصہ کی چیز ہے، جس کو انھوں نے برسوں (تقریباً دس برس) اختیار کیے رکھا۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ گھر در کی ذمہ داری بچوں پر التفات و نگہ داری، دین کی تدریس و خدمت، سب ایک طرف تھا اور یہ عزلت سب پر حاوی تھی۔ واضح رہے کہ اس کا ثبوت نہ قرآن میں تھا اور نہ سنت میں، بلکہ صرف صوفیانہ کتب میں تھا۔ نبی کریم سے اگر کوئی بات ان کو ملی تو وہ اخبار آحاد میں آئی ہوئی نبوت سے پہلے کی غار حراکی عزلت گزینی ہے۔ ساری امت جانتی ہے کہ قبل نبوت کا کوئی عمل دین میں حجت نہیں ہے۔ لیکن ان صوفیہ کو یہی ایک واقعہ ملا ہے۔۳؂ لکھتے ہیں:

’’مختصر یوں کہیے کہ جس کو یہ (روحانی) ذوق نصیب نہیں ہوا، وہ لفظی معنی کے سوا نبوت کی حقیقت کو سمجھ ہی نہیں سکتا، اور نہ اولیا کی کرامات کو سمجھ سکتا ہے۔سچی بات یہ ہے کہ یہ کرامات انبیا کی ابتدائی احوال جیسی ہیں۔ نبی کریم کے ابتدائی حالات بھی ایسے ہی تھے، جب آپ غار حرا میں جاتے اپنے رب کے ساتھ خلوت گزیں ہوتے، اور عبادت کرتے تھے۔ عرب آپ کو کہتے کہ محمد اپنے رب کے عاشق ہو گئے ہیں۔‘‘ ۴؂ (المنقذمن الضلال ۱۷۹)

بہرحال، ہمارے عہدتک یہ طبقہ دین کو رہبانیت سے بدل کر اسے للہیت کا نام دیتا ہے۔بلاشبہ ذکر، عبادت، وغیرہ میں للہیت ہے، لیکن یہ دین اسلام کا ایک جزو ہے۔

اصل للّٰہیت

اسلام جس للّٰہیت کا تصوردیتا ہے، اس میں دنیا کو تیاگ دینا ہر گز شامل نہیں ہے۔انسان کی فطرت میں بلا شبہ اللہ کی خاطر جان و مال کا قربان کرنا رکھا گیا ہے۔ ہم انسانوں میں سے بعض کے ہاں یہ جذبہ زیادہ ہوسکتا ہے، جیسے بعض لوگوں میں نوافل ادا کرنے کا، بعض کے ہاں روزے رکھنے کا اور بعض کے ہاں خدمت خلق کا جذبہ زیادہ ہوتا ہے۔ ٹھیک اسی طرح بعض کے ہاں قربانی و ایثار یا ترک دنیا کا داعیہ قوی ہوتا ہے۔دین کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ ان طبعی داعیات کو توازن میں رکھا جائے۔ لہٰذا اسلام نے ہر طبعی ضرورت کے پیش نظر عبادات و اعمال مقرر کیے ہیں۔ لیکن کسی ایک کو باقی تمام پرغالب نہیں کیا۔بالکل اسی طرح، جس طرح اللہ نے بعض کو غصہ ور اور بعض کو نرم خو بنایا ہے۔ دونوں سے تقاضا یہی ہے کہ مثلاً نرم آدمی حق کی غیرت میں اگر سخت ہونا ہو تو ہو، اور غصہ ور کو اعتراف حق کے لیے نرم ہونا پڑے تو نرم ہو۔
ہم انسان جب کوئی دین بناتے ہیں، جیسے تصوف، ہندو مت اور بدھ مت وغیرہ تو کسی ایک پہلو کو جو بانی مذہب کا پسندیدہ پہلو ہوتا ہے، اسے غالب کردیتے ہیں،۵؂ جب کہ انبیا کا دین ہدایت الٰہی ہونے کی وجہ سے شخصی پسند ناپسند سے نہیں بنا ہوتا، لہٰذا ان کا دین کسی ایک چیز کو باقی نیکیوں پر غالب نہیں کرتا کہ وہی چیز کل دین بن کر رہ جائے۔ لہٰذا تمام دینی و سماجی داعیات کے لیے ہر شخص پر لازم ہے کہ وہ ان رجحانات کو اسلامی احکام کے تابع بنائے تاکہ وہ دینی میدان میں متوازن رہے۔
اسلام میں للّٰہیت یہ ہے کہ آدمی تمام دینی و معاشرتی فرائض و واجبات کو للہ ادا کرنے والا ہو۔جب عبادت کا معاملہ ہو تو عبادت میں؛ معاملات کا موقع ہو، معاملات میں اداے حقوق للہیت ہے۔ یہ للہیت گوتم بدھ وغیر ہ کی تھی کہ دنیا کو تیاگ کر جنگلوں میں دھونی رمائی جائے، جب کہ خدا کویہ للّٰہیت پسند ہے کہ ’أبغض للّٰہ‘ اور ’أحب للّٰہ‘ کے اصول پر میدان کارزار میں جد وجہد کی جائے۔ ہمسایوں اور ذی القربیٰ کے ساتھ نباہ ،تلاش رزق ، حق گوئی و حق نیوشی، علم و تحقیق کی جستجو، عدل و انصاف کا قیام ، قوموں کے مابین جہاں بینی و جہان بانی، غرض حقوق وفرائض کی جو جو ذمہ داریاں عائد ہوں، سب کی بہ توازن بجاآوری ہو۔ بس یہی للّٰہیت ہے کہ یہ سب کام للہ فی اللہ کیے جائیں۔ وہ آدمی للّٰہیت سے یک سر خالی ہے جس کی ماں بڑھاپے میں بیٹے کی خدمت کی طالب ہو یا جس کی بیوی اس کے التفات و سہارے کی محتاج ہو اور وہ دمشق کی مسجد کے منارے پر ذوق عزلت سے لطف اندوز ہو رہا ہو۔
ہمارے علاقے میں ایک صاحب تبلیغ پر گئے تو اپنی بیو ی کو متوقع ولادت کے دنوں میں گھر میں اکیلے چھوڑ گئے۔ تین ماہ کا دورۂ تبلیغ تھا۔ یوں چھوڑنے کو اللہ کے توکل پر چھوڑنا کہا جاتا ہے ۔ایک دن ہم عصر کے بعد مسجد سے نکلے تو ان صاحب کے گھر کے باہر لوگوں اور پولیس کا رش دیکھا۔معلوم ہوا کہ گھر بند ہے اور اس میں شدید بو اٹھ رہی ہے۔ پولیس کی موجودگی میں گھر کے تالے توڑ کر لوگ اندر پہنچے تو کیا دیکھا کہ ان صاحب کی بیوی اور اس کے قدموں میں پڑا نوزائیدہ بچہ، دونوں وفات پاچکے ہیں۔ ان کے جسموں کے گلنے سڑنے سے بدبو پورے محلے میں پھیل رہی ہے۔ ان صاحب کا یہ چلہ اسی رہبانیت کی ایک دوسری صورت ہے، جسے للہیت کا نام دیا جاتاہے۔
دین کا یہ تصور صرف اسی وقت بنا، جب ہم نے للّٰہیت کا تصور متصوفانہ روایتوں سے لیا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑا صاحب للہیت کون ہو سکتا ہے! کیا انھوں نے کوئی منارہ آباد کیا؟ کیا انھوں نے ایسے تبلیغی اور جہادی مشن بھیجے۔ ان کا حال تو یہ تھا کہ جس کی بوڑھی ماں گھر ہوتی یا بیوی بیمار ہوتی، اس کو جہاد کی اجازت نہ دیتے تھے۔ یہ تو واضح ہے کہ جہاد ایمرجنسی کا معاملہ ہوتا ہے، جس میں جتنی نفری ہو، کم ہوتی تھی، لیکن اس کے باوجود توازن کا یہ عالم تھا کہ آپ ایسے مجاہدین کو جہاد پر نہ لے جاتے تھے۔
دین ہماری معروف اصطلاحات میں حقوق اللہ اور حقوق العباد کا نام ہے۔ان دونوں کو ہر وقت نبھانے میں لگے رہنا للہیت ہے۔اس رمضان میں ہمیں اسی حقیقی للّٰہیت کو پیدا کرنے کی طرف بڑھنا چاہیے۔ نہ صرف ہماری عبادات بہتر ہوں، بلکہ ہمارے اخلاق میں درستی آئے۔ ہماری نمازیں صحیح ہو جائیں ،والدین، بہن بھائی ، ہمسایے ، راہ گیر اور سائل کے حقوق ادا ہونے لگیں ۔ ہم ملکی قانون کے پابند ہو جائیں۔ ہماری زبان، ہمارے ہاتھ، ہماری نگاہ، ہمارے گمان، ان میں سے کوئی چیز دوسروں کو نقصان نہ پہنچائے تو سمجھ لیجیے کہ للّٰہیت پیدا ہو گئی۔ 
سچی بات یہ ہے کہ یہی حقیقت میں خدا کو یاد رکھنا ہے، یہی سچا ذکر الٰہی ہے۔ جب بھوک آمادہ کررہی ہو کہ آدمی کچھ چرا کر کھالے، اور آدمی خدا خوفی سے ایسا نہ کرے؛ جب غصہ اگلے کو گالی دینے پر اکسا رہا ہو، اور اللہ کے ڈر سے بندہ ایسا نہ کرے، اورجب حسد اور نفرت چغلی کرنے کی صَلاح دے رہی ہو، اور خدا کی جواب دہی اسے روک دے، تو سمجھیے کہ یہ بندہ خدا کی یاد سے غافل نہیں، بلکہ یہ للہیت کی معراج پر ہے جسے قرآن نے یوں بیان کیا ہے: ’الَّذِیْنَ یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ قِیٰمًا وَّقُعُوْدًا وَّعَلٰی جُنُوْبِھِمْ...‘ (آل عمران ۳: ۱۹۱)، یعنی جو اللہ کو یاد رکھتے ہیں اٹھتے بیٹھتے اور لیٹے ہوئے۔گویا زندگی کے امور انجام دیتے ہوئے ہر حال میں خدا کو یاد رکھتے ہیں۔
اس بات کی مزید وضاحت کے لیے ذیل کی حدیث دیکھیں:

إِنَّ أَبَا سَعِیْدٍ الْخُدْرِيَّ حَدَّثَہُ إِنَّہُ سَمِعَ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ: ’’خَمْسٌ مَنْ عَمِلَہُنَّ فِيْ یَوْمٍ کَتَبَہُ اللّٰہُ مِنْ أَہْلِ الْجَنَّۃِ: مَنْ عَادَ مَرِیْضًا، وَشَہِدَ جَنَازَۃً، وَصَامَ یومًا، وراح یوم الجمعۃ، وأعتق رقبۃ‘‘.(صحیح ابن حبان، رقم ۲۷۷۱)
’’ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا کہ پانچ چیزیں ہیں جو انھیں ایک دن میں کرنے میں کامیاب ہو گیا وہ اہل جنت میں لکھا گیا: مریض کی عیادت کرے، جنازہ میں شرکت کرے، روزہ رکھے، اور جمعہ کا سفر بھی کرے اور غلام آزاد کرے۔‘‘۶؂

اس حدیث مبارکہ میں دیکھیے کہ ایک ذمہ داریوں سے بھرپور زندگی کا نقشہ ملتا ہے۔ کوئی فوت ہوا ہے تو جنازہ پڑھنا ہے، کوئی بیمار ہوا ہے تو تیمار داری کرنی ہے، استطاعت ہوئی ہے تو غلام کو آزاد کرنا ہے، جمعے کے لیے جامع مسجد تک کا سفر بھی کرنا ہے۔یہ سب اس حالت میں ہوا ہے کہ رمضان کا روزہ بھی رکھا ہواہے۔۷؂ صحیح معنی میں یہی للہیت ہے؛ یہی لوگ اللہ کے راستے کے سالک ہیں؛ انھی کی سیرت بہترین سیرت ہے؛ انھی کا طریقہ صحیح ترین طریقہ ہے؛ انھی کا اخلاق پاکیزہ ترین اخلاق ہے۔ 
لہٰذا رمضان میں نماز روزے کی بہتری کے ساتھ اپنے اخلاق اور معاملات کی بہتری کرنے کی سعی بھی کرنی چاہیے تاکہ ہم قرآن کی مطلوب للہیت کو حاصل کریں، اور اہل جنت میں شمار کیے جائیں۔ہم نے جن کو ستایا ہے، ان سے رمضان میں معافی مانگ لیں۔ عہد کریں کہ چغلی غیبت نہیں کریں گے،دھوکا اور فریب چھوڑ دیں گے۔ لوگوں کے حقوق پورے کریں گے۔خدا کا حق ادا کریں گے۔ گویا دین کا کوئی جزو نہیں، بلکہ پورا دین اپنائیں گے۔ ذیل کی حدیث میں محض عبادت و ریاضت کو للّٰہیت سمجھنے کی واضح طور پر تردید سامنے آتی ہے:

عَنْ أَبِيْ ہُرَیْرَۃَ، قَالَ: قَالَ رَجُلٌ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ، إِنَّ فُلَانَۃَ یُذْکَرُ مِنْ کَثْرَۃِ صَلَاتِہَا، وَصِیَامِہَا، وَصَدَقَتِہَا، غَیْرَ أَنَّہَا تُؤْذِيْ جِیْرَانَہَا بِلِسَانِہَا، قَالَ: ’’ہِيَ فِي النَّارِ‘‘، قَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، فَإِنَّ فُلَانَۃَ یُذْکَرُ مِنْ قِلَّۃِ صِیَامِہَا، وَصَدَقَتِہَا، وَصَلَاتِہَا، وَإِنَّہَا تَصَدَّقُ بِالْأَثْوَارِ مِنَ الْأَقِطِ، وَلَا تُؤْذِيْ جِیْرَانَہَا بِلِسَانِہَا، قَالَ: ’’ہِيَ فِي الْجَنَّۃِ‘‘.(مسند احمد، رقم ۹۶۷۵) 
’’ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے پوچھا: اے رسول اللہ، فلاں خاتون ہے، اس کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ بہت نمازیں پڑھتی ہے، روزے بھی بہت رکھتی ہے، اور صدقات بھی بہت دیتی ہے، مگر یہ کہ بدزبانی سے ہمسایوں کو اذیت دیتی ہے۔ آپ نے فرمایا: دوزخ میں جائے گی۔ اس شخص نے پھر پوچھا کہ اے رسول اللہ، فلاں خاتون کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ نفل روزے بہت کم رکھتی ہے، صدقہ و خیرات بھی کم کرتی ہے: وہ صدقہ میں سوکھی پنیر کے ٹکڑے دے دیتی ہے، نفل بھی کم ہی پڑھتی ہے، لیکن اپنی زبان سے ہمسایوں کو نہیں ستاتی۔ آپ نے فرمایا: جنت میں جائے گی۔‘‘

اس دوزخی بڑھیا اور اس تارک دنیا میں کوئی فرق نہیں ہے ، اس کی بدزبانی سے لوگ اذیت میں ہوتے ہیں اور اس کی ذمہ داریوں کے فرار سے اس کے تعلق دار اذیت میں ہوتے ہیں۔

________

۱؂ کسی جگہ ٹک کر بیٹھے رہنا۔ 
۲؂ ہمارے عہد میں مودودی رحمہ اللہ نے بھی غلبۂ دین کے ایک نبوی فریضہ کو پورے دین پر غالب کردیا ۔
۳؂ واضح رہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اگر یہ واقعہ صحیح بھی ہے تو تب بھی جو معلومات اس کے بارے میں ہم تک پہنچی ہیں، ان کا متصوفانہ ریاضتوں سے کوئی تعلق معلوم نہیں ہوتا، اور نہ آپ اس طرح کی کسی چیز کے لیے غارمیں جاتے تھے، جنھیں امام غزالی نے کرامات اولیا کا نام دیا ہے۔قرآن کی نصوص واضح طور پر آپ کے ساتھ اس طرح کی منسوب باتوں کی نفی کرتی ہیں۔ مثلاً ’وَمَا ھُوَ عَلَی الْغَیْبِ بِضَنِیْنٍ‘ (التکویر ۸۱: ۲۴) یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم غیب کے حریص کبھی نہیں رہے، اور ’قُلْ لَّوْ شَآءَ اللّٰہُ مَا تَلَوْتُہٗ عَلَیْکُمْ وَلَآ اَدْرٰکُمْ بِہٖ فَقَدْ لَبِثْتُ فِیْکُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِہٖ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ‘ (یونس ۱۰: ۱۶) وغیرہ۔
۴؂ اس آخری جملے کا کوئی مستند حوالہ نہیں ملتا۔باقی روایت میں بھی صوفیہ نے تصرف کیا ہے کہ چالیس سال کی عمر میں آپ تنہائی اور عزلت پسند رہنے لگے اور غار حرا میں جا کرتحنث کرنے لگے۔ بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسا نہ تھا، بلکہ آپ نے ایک ماہ کے اعتکاف کی نذر مانی تھی۔ بس اسی کو پورا کرنے کے لیے وہاں گئے تھے۔ اگر ان واقعات کو ایسے ہی مان لیا جائے تو تب بھی صوفیانہ ریاضت اس میں موجود نہیں ہے، بلکہ واقعات کی ترتیب یہ ہے کہ آپ کو پہلے رویاے صالحہ آنے لگے، اس کے بعد آپ تنہائی پسند ہوئے، یعنی نبوت کا آغاز پہلے ہوا ہے، نہ کہ آپ کی ریاضتوں کے بعد۔رویاے صالحہ سے پہلے آپ ایک عام آدمی کی زندگی گزار رہے تھے۔یہ بات بھی واضح رہے کہ یہ روایت اپنے کئی اجزا میں قرآن سے ٹکراتی ہے۔
۵؂ صرف اتنی باتیں ہی لازم کی ہیں جو کم از کم ہیں اور ہر مزاج و طبیعت کو راس آتی ہیں ۔
۶؂ یہ حدیث اس بات پر ابھار رہی ہے کہ ہم مسلسل ایسی ذمہ داریاں ادا کرنے کی کوشش میں لگے رہیں گے تو ایک دن ایسا میسر آہی جائے گا جس میں یہ سب کام اکٹھے ہو جائیں۔
۷؂ اسی طرح کا مضمون اس روایت میں بھی ملتا ہے: 

أَنَّ أَبَا ہُرَیْرَۃَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، یَقُوْلُ: ’’مَنْ أَنْفَقَ زَوْجَیْنِ مِنْ شَيْءٍ مِنَ الأَشْیَاءِ فِيْ سَبِیْلِ اللّٰہِ، دُعِيَ مِنْ أَبْوَابِ، ۔ یَعْنِي الجَنَّۃَ، ۔ یَا عَبْدَ اللّٰہِ، ہٰذَا خَیْرٌ، فَمَنْ کَانَ مِنْ أَہْلِ الصَّلاَۃِ دُعِيَ مِنْ بَابِ الصَّلاَۃِ، وَمَنْ کَانَ مِنْ أَہْلِ الجِہَادِ دُعِيَ مِنْ بَابِ الجِہَادِ، وَمَنْ کَانَ مِنْ أَہْلِ الصَّدَقَۃِ دُعِيَ مِنْ بَابِ الصَّدَقَۃِ، وَمَنْ کَانَ مِنْ أَہْلِ الصِّیَامِ دُعِيَ مِنْ بَابِ الصِّیَامِ، وَبَابِ الرَّیَّانِ‘‘، فَقَالَ أَبُوْ بَکْرٍ: مَا عَلٰی ہٰذَا الَّذِی یُدْعَی مِنْ تِلْکَ الأَبْوَابِ مِنْ ضَرُوْرَۃٍ، وَقَالَ: ہَلْ یُدْعَی مِنْہَا کُلِّہَا أَحَدٌ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ؟ قَالَ: ’’نَعَمْ، وَأَرْجُوْا أَنْ تَکُوْنَ مِنْہُمْ یَا أَبَا بَکْرٍ‘‘. (صحیح بخاری ۳۶۶۶)
بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت جون 2018
مصنف : ساجد حمید
Uploaded on : Jun 11, 2018
2702 View