دین اور ریاست - خورشید احمد ندیم

دین اور ریاست

 

دین اور ریاست کا باہمی تعلق آج ایک بار پھر مسلمان معاشروں میں زیر بحث ہے۔ بیسویں صدی میں یہ مسئلہ اس وقت ایک اہم سوال کے طور پر سامنے آیا جب نو آبادیاتی دور کے خاتمے پر مسلم معاشرے کسی شناخت کی تلاش میں تھے۔ اس وقت دین اور ریاست کا یہ تعلق زیادہ تر ایک نظری بحث کا عنوان تھا۔ آج پچاس ساٹھ سال بعد جب یہ سوال اُٹھایا جاتا ہے کہ مذہب کا ریاست سے کیا تعلق ہے تو اس کے پس منظر میں وہ تجربات بھی ہمارے سامنے ہیں جو ہم نے ان برسوں میں ، اس تعلق کو ایک عملی روپ دینے کے لیے کیے۔ اس طرح آج یہ نظری سے زیادہ ایک عملی اور اطلاقی سوال ہے۔ نظری بحث میں یہ آسانی ہوتی ہے کہ عقلی اور نقلی دلائل کا غلبہ رہتا ہے۔ عقل و منطق کی اساس پر من پسنداور دیدہ زیب عمارتیں تعمیر کی جا سکتی ہیں اور تاریخی واقعات کی ہمیشہ ایک سے زیادہ تعبیرات ممکن ہوتی ہیں۔ مشکل وہاں ہوتی ہے جہاں لمحہ موجود میں ایک مسئلہ اپنی ہمہ گیریت کے ساتھ نظروں کے سامنے کھڑا ہوتا اور ہم سے حل کا طلب گار ہوتاہے۔ ایسی صورت میں زمینی حقائق کو نظر انداز کرکے بحث کو نظری دائرے میں قید کرنا آسان نہیں ہوتا۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ دین اور ریاست کا تعلق اب نظری سے زیادہ ایک عملی سوال ہے تو اس کا مطلب یہی ہے کہ آج افغانستان ، عراق،ایران اور پاکستان سمیت مختلف مسلم ریا ستوں میں مسلمان جس صورت حال سے دوچار ہیں، اس کے پس منظر میں مذہب اور ریاست کے باہمی تعلق ہی کو قائم رکھنے کی مختلف کو ششیں کار فرماہیں۔ اس لیے اس مسئلے کو اطلاقی حوالے سے زیرِ بحث لائے بغیر ہم درپیش حالات کا ادراک کر سکتے ہیں نہ تدارک۔ریاستی نظام اصلاً غیر مذہبی اور تمدنی معاملہ ہے۔ کسی خطے میں آباد ایک گروہ، کسی مذہب کو مانتا ہے یا نہیں، اس سے قطع نظر وہ اس تمدنی ضرورت کو ضرور مانتا ہے کہ اسے کسی اجتماعیت کی صورت میں منظم ہو نا چاہیے۔ گویا ریاست کا وجود انسان کی ایسی تمدنی ضرورت ہے جس سے تاریخ کے کسی دورمیں انسان کے کسی عملی انحراف کا ثبوت موجود نہیں ہے۔ انارکسٹ معاشرہ ایک خیالی ریاست (utopia) ہے، جو تاریخِ انسانی میں کبھی وجود میں نہیں آ سکا۔
اس ناگزیر نظم اجتماعی یا ریاستی نظام کی اب تک تین صورتیں ہی رائج رہی ہیں : ایک شخصی یا خاندانی بادشاہت۔ اس میں حکمرانی کا حق کسی ایک فرد یا خاندان کو حاصل ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حکمران قانون ساز ہے اور اس کو یہ طے کرنا ہے کہ اجتماعی نظام کس قانون اور ضابطے کے تحت چلنا ہے۔ اس کا یہ حق کسی عدالت اور پارلیمان میں چیلنج نہیں ہو سکتا۔ وہ اپنی ذات میں عدالت ہے اور پارلیمان بھی۔ قدیم ریاستوں اور آج کے بعض ممالک میں رائج بادشاہتیں اسی کی ایک صورت ہیں۔
ایک شکل وہ ہے جس میں ایک گروہ کسی الہامی (Divine)استحقاق یا طاقت کی بنیاد پر اقتدار پر قبضہ کرتا ہے۔ پاپائیت میں مذہبی طبقہ اقتدار کو اپنا الہامی حق قرار دیتا ہے۔ اس کا دعویٰ ہوتا ہے کہ وہ مشیت الٰہی سے حکومت کر رہا ہے اور اس کا فرمایا ہوا گویا قانون خداوندی ہے۔ اسی طرح فوج کسی ملک میں اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد موجود آئین و دستور کو معطل کر دیتی ہے اوراس کے بعد فوجی اعیان کا دیا ہواقانون نافذ ہوجاتا ہے۔ پاپائیت میں مذہبی طبقہ حکمران اور قانون ساز ہوتا ہے اور فوجی آمریت میں فوجی قیادت۔ اشتراکی ریاستوں میں کیمونسٹ پارٹی کی آمریت ہو تی ہے۔
تیسری صورت جمہوریت ہے ۔ اس میں حقِ حکمرانی کی نسبت عوام سے ہے۔ عوام کسی فرد یا گروہ کو یہ حق تفویض کرتے ہیں کہ وہ ان کی مرضی سے منصب اقتدار پر فائز ہوں ۔ جب نصب کا حق عوام کا ہے توعزل کا حق بھی عوام کے پاس ہوتاہے۔ وہ اگر چاہیں تو ایک حکمران کو اقتدارسے ہٹاکر کسی دوسرے کو بٹھا دیں ۔ اس صورت میں قانون سازی عوام کے منتخب نمائندوں کا حق سمجھی جاتی ہے۔
انسانی تاریخ میں نظم حکومت کی کوئی چوتھی صورت دریافت نہیں ہو سکی ۔ بطور ایک مسلمان معاشرہ ہمارے سامنے سوال یہ ہے کہ اسلام ریاست اور نظم حکومت کے مسئلے کو کس نظر سے دیکھتا ہے اور کیا وہ اس مقصد کے لیے مذکورہ صورتوں سے مختلف کوئی صورت بھی تجویز کرتا ہے؟
ریاست یا اس کی تشکیل ، ان مسائل میں سے نہیں ہے جسے اسلام نے فی نفسہ موضوع بنایا ہے۔ اسلام کا معاملہ فی الجملہ یہ ہے کہ وہ انسان کی ناگزیر تمدنی ضروریات کو کبھی زیر بحث نہیں لاتا۔ وہ انھیں ایک امر واقعہ کے طور پر قبول کرتا اور بالعموم انسان کے عقل و فہم پر اعتماد کرتا ہے۔ ریاست اور نظم اجتماعی کے باب میں اسلام کی مداخلت دیگر شعبہ ہاے حیات کی طرح اصولی اور اخلاقی ہے۔ اس میں ایک طرف وہ انسان کی تمدنی ضرورت کو مؤکدکرتا اور دوسری طرف یہ چاہتا ہے کہ جو بھی نظم اجتماعی وجود میں آئے، اس کا تزکیہ کیا جائے اوروہ انسان کی اخلاقی زندگی میں کوئی فساد برپا نہ کرے۔ چنانچہ اگر ہمیں رسالت مآبﷺ کے بعض ارشادات ملتے ہیں جو ’’الجماعۃ‘‘ یا ’’سلطان‘‘ سے وابستہ رہنے کی تاکید کرتے ہیں تو یہ تعلیم انسان کی تمدنی ضرورت کے عین مطابق ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب مسلمانوں کا ایک نظمِ اجتماعی مو جود ہے تو پھر اس ہی کے ساتھ وا بستہ رہنا چا ہیے اوریہ کہ اگر اخلاقی اعتبار سے اس میں خرابی درآئی ہے تو اس کی اصلاح کیسے کی جا ئے گی۔ دوسری طرف وہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ نظم اجتماعی سے متعلق کچھ امور ایسے ہیں جن کا فیصلہ اﷲ اور اس کے رسولﷺنے کر دیا ہے۔ اب اگر مسلمان اپنی اجتماعیت کی تعمیر کرتے ہیں تولازم ہے کہ وہ ان امورمیں اﷲ اور رسولﷺ ہی کو حاکم مانیں۔ سیاسی نظم کے حوالے سے اسلام کا ایک اہم حکم یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کے باہمی مشورے ہی سے قائم ہوگا(الشوریٰ ۴۲:۳۸)۔ اسلام نے ریاست یا نظم اجتماعی کے باب میں اسی نوعیت کی چند تعلیمات دی ہیں۔
اس مقدمے کی روشنی میں یہ بات پوری طرح واضح ہے کہ نظمِِ حکومت کی مروجہ صورتوں میں واحد صورت جمہوریت ہی ہے جسے ایک مسلمان معاشرے میں اختیار کیا جا نا چاہیے۔ وہ کسی فرد کا یہ حق تسلیم نہیں کرتا کہ چونکہ اس کا باپ حکمران تھا ، اس لیے اسے بھی حکمران مانا جائے۔ وہ کسی فرد یا گروہ کو بھی یہ حق نہیں دیتا کہ وہ بندوق کے زور پر حکمران بن جائے یا اپنے حق حکمرانی کے لیے کوئی الہامی دلیل پیش کرے۔ اب اس فرد یا گروہ کو حکمرانی کا حق حاصل ہے جس پر عامۃالناس بحیثیت مجموعی اعتماد کرتے ہوں۔
حکومتِ اسلامی یا اسلامی ریاست کے باب میں ہمارے مذہبی لٹریچر میں جو افکار موجود ہیں ، ان میں سے بیش تر کا تعلق عباسی دورکے حالات سے ہے۔ اس عہد میں ریاست کو جن مسائل کا سامنا تھا یا اس عہد کے جو سیاسی مطالبات تھے، ان کو سامنے رکھتے ہوئے بعض اصطلاحیں وضع ہوئیں اور بعض خیالات پیش کیے گئے۔ ماوردی، بغدادی،امام غزالی اور دوسرے اہلِ علم نے اس حوالے جو کچھ لکھا ہے، اس کی نوعیت یہی ہے۔ ان میں بڑی حد تک عباسی حکومت کے اقدامات کے لیے جواز تلاش کیے گئے۔ یہ بات اہم ہے کہ نظامِ حکومت کے باب میں اسلام کا جو سب سے اہم مطالبہ تھا،وہ ان صاحبانِ علم کے ہاں اس اصرار کے ساتھ زیرِ بحث ہی نہیں آیا۔ وہ مطالبہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے معاملات چونکہ مشاورت سے چلتے ہیں لہٰذا اسی بنیاد پر کسی کا حق اقتدار ثابت ہو سکتا ہے۔ اس عہد کے لٹریچر میں موروثی بادشاہت کو یا تو موضوع نہیں بنایا گیا یا پھر اس کے لیے جواز تلاش کیا گیا۔ اس بنا پر اگر ہم نے آج کے سیاسی حالات میں کوئی نقطہ ء نظر اختیار کرنا ہے تو یہ لٹر یچر شاید ہماری زیادہ مدد نہ کر سکے ۔ تا ہم یہ اس لحاظ سے راہنما ہو سکتا ہے کہ اپنے عہد کے سیاسی حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہمارے اسلاف نے کس طرح دینی احکام کو سمجھا۔
جب ہم یہ کہتے ہیں کہ نظام حکومت کی واحد صورت جو اسلام کے مزاج سے ہم آہنگ اور اس کی تعلیمات کے عین مطابق ہے، وہ جمہوریت ہے تو اس پربعض اعتراضات عموماً پیش کیے جاتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ چونکہ عوام دین سے واقف نہیں ہیں ،اس لیے وہ ایسے لوگوں کو پارلیمان میں بھیجتے ہیں جو دین سمجھتے ہیں نہ دینی اعتبار سے مثالی اخلاق و کردار کے مالک ہوتے ہیں۔ اس بنیادپر ہمارے ہاں دینی جماعتیں بالعموم مسلمانوں کی منتخب حکومتوں اور بڑی سیاسی جماعتوں کو لادینی قرار دیتی ہیں۔ اسی طرح وہ اپنے فہمِِ دین کے مطابق حکومت سے بعض مطالبات کرتی ہیں جسے وہ نفاذِ شریعت کا مطالبہ قرار دیتی ہیں ۔ یہ مطالبہ عام طور پر کسی عوامی تحریک کے نتیجے میں سامنے نہیں آتا بلکہ وہ مذہبی جماعتیں اسے پیش کرتی رہی ہیں جنھیں عوامی سطح پر سواد اعظم کی کبھی حمایت حاصل نہیں رہی۔ اس کے نتیجے میں یہ ہوا کہ کسی فوجی آمر نے اپنی مصلحت کے تحت یا پھر کسی سیاسی حکومت نے اپنی سیاسی ضروریات کے پیش نظرِ ایسے اقدامات کیے جن کا مقصد نفاذ شریعت کے اس مطالبے کو پورا کرنا تھا۔ جیسے جنرل ضیاء الحق صاحب کے دور میں حدود آرٖڈیننس کا نفاذ یا ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے عہد میں شراب وغیرہ پر پابندی ہے۔ ان اقدامات کے بارے میں ہم یہ بات اطمینان کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ ان سے معاشرے کی اسلامی تعمیر کے حوالے سے قابلِ ذکر پیش رفت نہیں ہو سکی ۔ اس صورتِ حال کو سامنے رکھیے تو دو سوال پیدا ہوتے ہیں:
۱۔ اگر عامۃالنّاس کا فہم دین کسی کے نزدیک قابل اعتبار نہیں تو کیا پھر بھی جمہوریت ہی کواختیار کیا جانا چاہیے ؟
۲۔ اگر محض قوانین کے نفاذ سے مطلوبہ تبدیلی نہ آ سکے تو کیا اس کے لیے کوئی دوسرا راستہ اختیار کیا جانا چاہیے ؟
جہاں تک پہلے سوال کا تعلق ہے تو ہمارے نزدیک اس صورت میں بھی جمہوریت کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ موجود نہیں ہے۔ یہ بات پیشِ نظر رہنی چاہیے کہ جس حد تک عامۃ النّاس کے لیے دین ایک سنجیدہ مسئلہ ہو گا، اسی نسبت سے اقتدار کے ایوانوں میں دین کے حوالے سے سنجیدگی پائی جائے گی۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ معاشرے کا عمومی مزاج غیر دینی ہواور منصبِِ اقتدار پر تشریف فرما لوگ خلافتِ راشدہ کی مثال پیش کر رہے ہوں۔ اگر اسلام میں کسی اقتدار کے جواز کے لیے مشاورت دینی ضرورت ہے تو پھر عوام کا انتخاب ان کے فہمِ دین یا دین کے حوالے سے ان کے عمومی ادراک سے مختلف کیسے ہوسکتا ہے۔ ایسی صورت میں راستہ یہ نہیں ہے کہ رائے عامہ کی تائید کے اصول کو نظر اندازکرکے کسی دوسرے ذریعے سے صالحین کی حکومت قائم کرنے کی کوشش کی جائے۔ اگر بالفرض کسی جگہ یہ انہونی ہو جائے کہ ایک بہت صالح جماعت یا فردکسی حادثے کے سبب اقتدارکے ایوانوں تک پہنچ جائے تو بھی اس سے معاشرے میں مطلوبہ تبدیلی نہیں آ سکتی۔ ہماری تاریخ میں حضرت عمر بن عبدالعزیز کی حکومت بھی ایسا ہی ایک استثنائی واقعہ تھا۔ شخصی حوالے سے انھوں نے خلفاے راشدین کی مثال قائم کر دی ،لیکن مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کا تجزیہ ہے کہ وہ بھی اس ’’مجددِ کامل‘‘ کے منصب تک نہیں پہنچ سکے، جو معاشرے کی اسلامی تشکیل کے لیے ایک نا گزیر ضرورت ہے(تجدید و احیائے دین )۔ یہ واقعہ اس دعوے کی دلیل ہے کہ معاشرے کی اسلامی تشکیل کا طریقہ یہ نہیں ہے کہ صالحین کو اقتدارکے ایوانوں تک پہنچایا جائے۔اس کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ معاشرے کی تعلیم و تربیت اس ڈھنگ سے کی جائے کہ اس کا عمومی مزاج صالح ہو جائے۔ اس کے بعد اس کے مشورے سے جو حکومت قائم ہو گی، وہ لازماً صالحین کی ہو گی۔
ہماری مذہبی جماعتوں نے معاشرے کی اسلامی تشکیل کے لیے ساری توانائیاں اس پر صرف کر ڈالیں کہ وہ صالحین کو اقتدار کے ایوانوں تک پہنچائیں۔اب ضرورت ہے کہ وہ اس نقطہء نظر کی اصلاح کریں جس کی غلطی تجربے نے واضح کر دی ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ریاست کے بجاے معاشرہ ان کی دلچسپی کا اصل میدان بنے۔ اس کی واحد صورت معاشرے کی تعلیم ہے۔ مغرب میں ہم آج جس سیاسی نظم کو دیکھتے ہیں وہ اصلاً ان معاشرتی اقدار کا پر تو ہے جنھیں وہاں فروغ ملا۔ جب جمہوریت ایک معاشرتی قدر بنی اور لوگوں نے ایک دوسرے کے حقِ اختلاف کو سماجی سطح پر قبول کیا تو اس کا اظہار ان کے نظام حکومت میں بھی ہوا۔ اسی طرح جب معاشرتی سطح پر مذہب کے ایک محدود کردار پر بالعموم اتفاق رائے پیدا ہو گیا تو اس کے بعد اس کا ظہور حکومتی پالیسیوں میں بھی ہوا اور آج مغرب کا سیاسی نظام پوری طرح ان اقدار سے ہم آہنگ ہے جن پر معاشرہ اتفاقِ رائے سے کھڑا ہے۔ ہمارے سامنے بھی یہی راستہ ہے ۔ اگر ہم یہ خیال کرتے ہیں کہ ہماری نجی اور اجتماعی زندگی میں دینی مزاج کا اظہار ہو تو یہ کام اسی وقت ہو سکے گا جب معاشرہ اس کو بطور قدر اختیار کرے گا۔ اس کے بعد یہ ممکن نہیں ہے کہ جمہوریت کی صورت میں معاشرہ کسی اور قدر کا نمائندہ ہو اور پارلیمنٹ کسی دوسری قدر کو فروغ دے رہی ہو۔اس ترتیب کو الٹنے کا نتیجہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ ہم سماجی سطح پر ایک منا فقت کو فروغ دیں ا وراسے ایک سماجی قدر کی حیثیت سے قبول کیے رکھیں۔
جب یہ طے ہے کہ مقصود معاشرے کی اسلامی تشکیل ہے اور یہ اقتدار پر صالحین کے قبضے سے ممکن نہیں ہے تو پھر جمہوریت کی نفی کے بجاے سارا زورمعاشرے کی تعلیم و تربیت پر صرف کیا جائے ۔ اس سے دین و ریاست کے مابین ایک فطری تعلق وجود میں آئے گا جو دیر پا ہو گا۔
دین و ریاست کے باب میں جب ہم عصری تجربات اور افکار کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے مذہبی اہل سیاست کے نزدیک اسلامی ریاست کا جو تصورہے ، اس سے مراداقتدارکا ایک مخصوص طبقے کو منتقل ہونا ہے۔ ایران میں علما اور افغانستان میں طالبان کی حکومتیں اس کی مثال ہیں ۔ ہماری مذہبی سیاسی جماعتیں بھی اسی نقشے کو سامنے رکھے ہو ئے ہیں۔ چنانچہ یہ سرحد میں متحدہ مجلسِ عمل کے عہد میں پیش کیا جانے والا حسبہ بل ہو یا سوات کا نظامِ عدل ریگو لیشن ۲۰۰۹ء ہو، ان کے مطا لعہ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک نفاذ شریعت سے مراد یہی ہے کہ ملک میں ایک خاص طرز کا عدالتی نظام ہو اور اس کی باگ ڈور علما کے ہاتھ میں ہو۔ یہ انداز فکر ایک طرح سے عدلیہ کی آمریت پر مبنی ہے۔ دوسرے لفظوں میں اس کا حاصل علما کی آمریت ہے کیونکہ اس نظام میں قاضی کا عہدہ علما ہی کے پاس ہو گا۔ اسی کو پاپائیت کہتے ہیں۔ قطع نظر اس کے کہ تاریخ نے اس تصوّر کو مسترد کر دیا ہے، یہ اس نظامِ ریاست سے بھی ہم آہنگ نہیں ہے جس نے تقسیم کار کے اصول پر کئی ریاستی اداروں کو جنم دیا ہے اور جو انسان کی اجتماعی بصیرت کے اظہار کا مؤثر ترین اور معقول ترین ذریعہ ہے۔
اس تجزیے کا حاصل یہ ہے کہ دورِ جدید میں اگر ہم نے دین و ریاست کے باہمی تعلق کو قائم رکھنا ہے تو اس کے لیے وہ افکار ہماری مدد نہیں کر سکتے جو بنو عباس کے عہد خلافت یا پھر بیسویں صدی میں بعض اہل علم کی طرف سے پیش کیے گئے۔اس کے لیے ایک نئے نظام فکرnew paradigm ضرورت ہے۔ اس کے خط و خال ہمارے نزدیک یہ ہے:
۱۔ اس معاملے میں مکمل یک سوئی کی ضرورت ہے کہ ہمارے لیے اگر کوئی نظامِ سیاست و حکومت قابل قبول ہے تو وہ صرف جمہوریت ہے۔لہٰذا میدانِ سیاست میں ہونے والی جدوجہد محض اس نکتے پر مرتکز ہونی چاہیے کہ اوّل و آخر جمہوری ریاست ہمارا مقصد ہے۔
۲۔ ا گر ہم ریاست کو کوئی مخصوص نظری شناخت دینا چاہتے ہیں تو اس کی واحد صورت یہ ہے کہ ہم عوام کو اس کے لیے قائل کریں۔ اس کا واحد را ستہ معاشرے کی تعلیم و تربیت ہے۔ جس کے لیے ریاست کے آئین اور قانون کے مطابق ابلاغ کے تمام ذرائع استعمال میں لائے جا سکتے ہیں۔
۳۔ ۱۹۷۳ء کے آئین میں اسلام کو ریاست کامذہب قرار دینے اور قرآن و سنت کی تعلیمات کے برخلاف قانون سازی کے ممنوع ہونے کے بعد، سیاسی جماعتوں میں مذہبی اور غیر مذہبی کی تقسیم بے معنی اور غیر ضروری ہے۔ اب سیاسی جماعتوں کو اس طرح اپنے منشور کی بنیاد پر سیاست کرنی چاہیے جس طرح جمہوری معاشروں میں کی جا تی ہے ۔
۴۔نظامِ تعلیم میں مذہبی اور غیر مذہبی کی تقسیم بھی بے معنی ہے جس کا نتیجہ نظریاتی ابہام ہے ،اس لیے اسے ختم ہو نا چاہیے۔
ہمارے نزدیک اس کی جو ممکنہ عملی صورت ہے، اسے ہم ایک الگ مضمون میں بیان کریں گے۔

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت جولائی 2009
مصنف : خورشید احمد ندیم
Uploaded on : Sep 25, 2018
1715 View