سیاست، مذہب اور عقل - خورشید احمد ندیم

سیاست، مذہب اور عقل

 ہمارے ہاں سیاست اور مذہب، بالخصوص دو ایسے میدان ہیں جہاں عقل کا استعمال کم ہی ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں، سیاست میں یہ جرم اور 'سٹیٹس کو‘ کی حمایت، جبکہ مذہبی حلقے میں گناہ اور ایمان کی کمزوری شمار ہوتا ہے۔

ریاست کیا ہوتی ہے، ریاست اور سماج میں کیا فرق ہے، سماجی اخلاقیات کس طرح سیاست پر اثر انداز ہو تے ہیں، حکومت اور ریاست میںکیا فرق ہوتا ہے، ریاست کو چلانے کے لیے کسی عمرانی معاہدے یا آئین کی کیا ضرورت ہے، سیاسی عصبیت کیا ہوتی ہے، کرپشن سیاسی عمل ہے یا سماجی ۔۔۔۔ اس نوعیت کے بے شمار سوالات ہیں جن کی ہمارے ہاں کوئی اہمیت نہیں۔ میں اپنے کالم پر قارئین کے تبصرے پڑھتا ہوں تو حیرت ہوتی ہے کہ بظاہر پڑھے لکھے لوگوں میں بھی اس کا ادراک نہیں ہوتا۔ قارئین کو تو چھوڑیے، جو سیاست پر بولنے اور لکھنے پر مامورہیں، ان کا معاملہ بھی کم مختلف نہیں ہے۔ اب یہ معاملہ نظری بحث کا بھی ہے۔ ماضی قریب میں پاکستان اور دنیا بھر میں جو تجربات ہوئے، میڈیا نے ہمیں سب سے باخبر رکھا ہے۔ مجھے حیرت ہے کہ لوگ مشاہدات پر بھی غور نہیں کرتے۔
مجھے زیادہ حیرت اُن ای میلز پر ہوتی ہے جو بیرونِ ملک مقیم پاکستانی بھیجتے ہیں۔ بظاہر پڑھے لکھے مگر سیاسی حرکیات سے بے خبری انتہا کی۔ خوابوں میں جینے والے۔ یورپ میں رہتے ہیں لیکن کبھی اس سوال پر غور نہیں کیا کہ یہ ملک یہاں تک کیسے پہنچے۔ انہیں یہ سب کچھ حاصل کرنے میں کتنے سال لگے؟ موجودہ یورپ کسی سیاسی انقلاب کا نتیجہ ہے یا سماجی ارتقا کا؟ زیادہ تر لوگ روزگار کی تلاش میں اس طرف کا رخ کرتے ہیں۔ جو پڑھنے کے لیے جاتے ہیں، ان میں بھی اکثریت وہ ہے جوطبعی علوم پڑھتے ہیں۔ کم ہی سماجی علوم کا رخ کرتے ہیں۔ شاید یہی وجوہ اس رائے کا ماخذ ہیں جو سیاست میں، بالعموم اختیار کر لی گئی ہے۔
ایک طبقہ وہ ہے جو ابھی تک خیال کرتا ہے کہ دنیا میں اشتراکی انقلاب آئے گا۔ یہ پڑھے لکھے لوگ ہیں۔ ان کا ایک تصورِ تاریخ ہے۔ وہ اب بھی یہ خیال کرتے ہیں کہ طبقاتی کشمکش امرِ واقعہ ہے اور جب تک یہ موجود ہے، انقلاب کے امکانات موجود ہیں۔ یہ بھی اگرچہ خوابوں میں رہنے والے لوگ ہیں لیکن ان کا کم از کم ایک مقدمہ ہے جس کی تاریخ بھی ہے اور علمی استدلال بھی۔ اس نقطہ نظر کی موجود گی غنیمت ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کی کمزوریاں نظروں سے اوجھل نہیں ہوتیں۔ اشتراکیت میں سرمایہ داری پر تنقید انسان کی تاریخ کا ایک قابلِ قدر اثاثہ ہے؛ تاہم یہ بھی ایک معلوم حقیقت ہے کہ جہاں کہیں، معاملات ان کے ہاتھ میں آئے، تاریخ بدترین ظلم کا شکار ہوئی۔ کاسترو یا شاہ ویز کا کسی حد تک استثنیٰ ہے لیکن ایسے استثنیٰ تو بادشاہوں میں بھی مل جاتے ہیں۔ 
مذہبی دنیا میں بھی یہی ہو رہا ہے۔ آج بھی لوگ بحث کرتے ہیں کہ عقل ماخذ علم یا وحی؟ دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ وحی کی ترجیح کے حق میں دلائل دیتے ہیں جو خالصاً ایک عقلی عمل ہے۔ یہ عمل خود بتا رہا ہے کہ وحی اور عقل کا باہمی تعلق کیا ہے۔ اس میں کیا شبہ ہے کہ وحی ایک برتر ماخذ ِعلم ہے۔ مشکل مگر یہ ہے کہ یہ بات کسی عقل والے ہی کو سمجھائی جا سکتی ہے۔ اسی طرح لوگ فقہا کے قائم پیراڈائم میں کھڑے ہو کر مابعد الطبیعاتی امور پر فیصلے سنا رہے ہوتے ہیں یا نصوص کی تفہیم کر رہے ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر فقہ میں پہلا اصول یہ ہے کہ درپیش مسئلے پر کوئی حکم لگانے کے لیے سب سے پہلے قرآن مجید کی طرف رجوع کیا جائے گا۔ اب قرآن کو کیسے سمجھا جائے گا، یہ فقہ کا نہیں، علمِ تفسیر کا مسئلہ ہے۔ اسی طرح ایک متن قطعی الدلالت ہے یا نہیں، اس کا تعلق بھی فقہ سے نہیں، لسانیات یا تفہیمِِ متن سے ہے۔ توجہ دلائیں تو لوگ ناراض ہو جاتے ہیں۔ رہی مذہب کو سماج کے بیک وقت متن اور پس منظر (Text and context) میں سمجھنے کی کوشش تو الہیات کی دنیا میں ایک جرم ہے۔
ایک طبقہ وہ ہے جو چاہتا ہے کہ آخرت میں سرخروئی کا کوئی آسان نسخہ ہاتھ لگ جائے۔ اسلام کے تصور ِشفاعت کو اس کے تصور جزا و سزا سے الگ کر کے بیان کیا جا تا ہے، یہ دین ٹی وی چینلز پر پیش کیا جاتا ہے اور ایسے لوگ سب سے مقبول مذہبی مبلغ ہیں جو اس کے علم بردار ہیں۔ یہ لوگ یہ بھی بتاتے ہیں کس طرح چھوٹی چھوٹی نیکیوں پر بڑے سے بڑا اجر ملے گا، جیسے کسی ولی کے چہرے کو دیکھنے سے جنت واجب ہو جاتی ہے۔ بظاہر پڑھے لکھے لوگ اسے مان رہے ہوتے ہیں اور اس پر غور کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہوتے کہ جنت اتنی آسان ہوتی تو اللہ کے پیغمبرﷺ، صحابہ اور امت کے نیک لوگ اتنی مشقت کیوں اٹھاتے۔ میرے نزدیک یہ مسیحیت کے تصورِ کفارہ کی ایک 'مسلمانی تعبیر‘ ہے۔ ایسے لوگوںکا خیال ہے کہ حضرت مسیحؑ نے صلیب پر چڑھ کر سب کے گناہوں کا کفارہ ادا کر دیا۔ لوگوں کو اب صرف اس پر ایمان رکھنا ہے۔ ہم بھی سمجھتے ہیں کہ امت کے بڑے لوگوں نے ہمارے حصے کی مشقت بھی اٹھا لی۔ ہمیں بس ان پر ایمان لانا ہے، وہ ہمیں بخشوا دیں گے۔
میں جب اپنے معاشرے کی سیاسی وفکری پراگندگی کو ددیکھتا ہوں تومجھے لگتا ہے کہ عقل کی بنیاد پر ہم معاملات کو حل کر نے کے عادی نہیں رہے۔ اس کی وجہ ہے کہ عقل شارٹ کٹ راستہ نہیںبتاتی۔ ہم اس سے فرار چاہتے ہیں۔ سرخروئی کی کوئی سادہ صورت ہو تاکہ سب دکھ درد دور ہو جائیں۔ دنیا میں ہم ایک دن جاگیں تو سب کچھ بدلا ہوا ہو۔ نہ کرپشن نہ بجلی پانی یا کھانے پینے کا مسئلہ۔ ہم یہ سمجھنے کے لیے آمادہ نہیں کہ دنیا میں کہیں ایسا نہیں ہوتا۔ ایران سے زیادہ کرپشن سے دور اور دنیا سے بے نیاز قیادت کہاں آئے گی؟ خمینی صاحب جیسی سادہ زندگی کون گزار سکتا ہے۔ اس کے باوجود، ایرانی سماج کے مسائل حل نہیں ہوئے۔ 
آخرت کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ ہم اگر کچھ دیر کے لیے عقل سے سوچیں تو یہ بات جاننے میں کوئی دقت نہیں ہوتی کہ ایمان کے ساتھ اعمال بھی لازم ہیں۔ حسنِ عمل کے بغیر ایمان کا کوئی اعتبار نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس بات میں کوئی ابہام نہیں رکھا کہ یہ دنیا قانونِ آزمائش پر قائم ہے۔ یہ آزمائش ایمان کی بھی ہے اور اعمال کی بھی۔ اس نے یہی دیکھنا ہے کون حسنِ عمل کا مظاہرہ کرتا ہے۔ اس کے بغیر نجات کی کوئی صورت نہیں۔ دین کی تفہیم عقل کے بغیر ممکن نہیں اور عقل یہی بتاتی ہے کہ آخرت کی کامیابی کے لیے عمل لازم ہے۔
انسان مگر آسانی چاہتا ہے۔ جذبات اور رومان کی دنیا اسے اچھی لگتی ہے۔ دن رات اسے ایک بے خودی چاہیے۔ انسانی تاریخ میں کوئی ایک معاشرہ ایسا نہیں گزرا جہاں محض سیاسی قیادت تبدیل ہونے سے معاشرہ تبدیل ہو گیا ہو۔ جو کام کل نہیں ہوا، آج کیسے ہو سکتا ہے۔ انسان مگر تجربہ کر نا چاہتا ہے۔ ہم وہ بدقسمت قوم ہیں جس نے تجربات سے بھی سیکھنے کی کوشش نہیں کی۔ قوم کا ایک بڑا طبقہ آج بھی یہ سمجھتا ہے کہ 2 نومبر کے بعد دنیا بدل جائے گی۔ شاید بدل جائے مگر یہ ویسی کبھی نہیں ہو گی جیسے لوگ سوچ رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں پچھتاوے کی اذیت سے محفوظ رکھے۔
بشکریہ روزنامہ دنیا، تحریر/اشاعت 26 اکتوبر 2016
مصنف : خورشید احمد ندیم
Uploaded on : Nov 29, 2016
3350 View