بدعت - محمد حسن الیاس

بدعت

 کسی بھی عمل کی دو ہی صورتیں ہوسکتی ہیں۔

اول، وە عمل مشروع دینی اعمال میں سے ہوگا۔جیسے:نماز پڑھنا روزە رکھنا ۔

دوم، وہ مشروع دینی عمل نہیں ہوگا.جیسا کیک کاٹنا ،جلوس نکالنا، سالگرہ منانا۔

1)اب اگر کسی عمل کو شارع کی صراحت کے بغیر خود سے مشروع دینی عمل قرار دے دیا جائے تو یہ بدعت شمار ہوگی۔

جیسے عید میلاد النبی منانے کے عمل کو مشروع دینی عمل سمجھا جائے۔

2)یا کسی مشروع دینی عمل کی نوعیت اور حدود و شرائط تبدیل کر دیے جائیں،یعنی نفل کو فرض یا مطلق کو مقید کردیا جائے تو یہ بھی بدعت کہلائے گی۔

جیسے، یہ کہا جائے کہ کل سب مل کر 6 بجے صبح نشتر پارک میں عید میلادالنبی کی خوشی میں دو رکات اجتماعی نفل نماز ادا کریں گے تو یہ بھی بدعت ہے، اس لیے کہ ایک نفل عبادت جو مطلق تھی اسے مقید کردیا گیا ہے ۔

اسی طرح کسی جگہ حرم کعبہ کا ماڈل بنا کر طواف شروع کردیا جائے تو یہ بھی بدعت ہے ۔اس لیے کہ طواف کی حدود اپنے مقام پر ہی خاص ہیں۔

یہ دونوں امور اس لیے بدعت کہلائیں گے. پہلے امر میں ہم دین کے شارع کی سینکشن کے بغیر کسی عمل خود کو خود سے مشروع دینی اعمال میں شمار کر رہے ہیں، 

اور دوسرے امر میں شارع نے مشروع اعمال کی جو نوعیت اور حدود و شرائط طے کیے ہیں انھیں خود سے تبدیل کر رہے ہیں۔

عید میلاد النبی کو اگر کوئی شخص اس حیثیت سے نہیں مناتا کہ اسے مشروع دینی عمل سمجھے یا اسے مناتے ہوئے کسی دینی عمل کی نوعیت یا حدود و شرائط میں تبدیلی کردے ، تو اب وہ چاہے

کیک کاٹے، 

جلوس نکالے، 

چراغاں کرے، 

مجلس سجائے، 

نفل نمازیں پڑھے، 

یا پکوان تقسیم کرے

اس کے ذوق پر تو تنقید کی جا سکتی ہے، یہ عمل بدعت شمار نہیں ہو گا ۔اس لیے کہ اب یہ عمل دینی دائرے کا عمل ہی نہیں بلکہ دنیوی دائرے کا عمل ہے، 

جس پر شریعت نے کوئی پابندی عائد نہیں کی ہے۔

بشکریہ محمد حسن الیاس
مصنف : محمد حسن الیاس
Uploaded on : Jan 16, 2019
1549 View