نماز کا شیطان - طالب محسن

نماز کا شیطان

 (مشکوۃ المصابیح ، حدیث ۷۷۔۷۸) 

عن عثمان بن أبی العاص قال : قلت : یا رسول اﷲ ، إن الشیطان قد حال بینی و بین صلاتی و بین قراء تی یلبسھا علی ۔ فقال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم : ذاک الشیطان یقال لہ خنزب ، فإذا أحسستہ فتعوذ باﷲ منہ ۔ واتفل علی یسارک ثلاثا ۔ ففعلت ذلک ۔ فأذھبہ اﷲ عنی ۔
’’حضرت عثمان بن ابی عاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا : اے اللہ کے رسول ، شیطان میرے اور میری نماز اور میری تلاوت کے مابین حائل ہو چکا ہے ۔ وہ اسے میرے لیے گڈ مڈ کر دیتا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یہ ایک شیطان ہے ۔ یہ خنزب کہلاتا ہے ۔ جب تمھیں اس (کی وسوسہ اندازی )کا احساس ہو تو اس شیطان سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگو اور اپنی بائیں جانب تین مرتبہ تھوکو ۔(نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے مطابق ) میں نے ایسا ہی کیا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس شیطان کو مجھ سے دور کر دیا ۔ ‘‘

لغوی مباحث

یلبسھا: تلبیس کا مطلب بات کو الجھا دینا ہے ۔ یہاں اس سے مراد نماز کے مضامین میں الجھاؤ بھی ہے اور نماز کے بارے میں شکوک و شبہات کا پیدا ہونا بھی۔
خنزب: یہ نماز میں خرابی پیدا کرنے والے شیطان کا لقب ہے ، لفظاً ،اس سے بدبودار گوشت مراد ہے ۔اس کی ’خ‘ پر زیر، ’ن‘ ساکن اور ’ز‘ پر زبر یا زیر پڑھی جاتی ہے ۔ اسی طرح ایک تلفظ ’خ‘ اور ’ز‘ دونوں پر زبر کا بھی ہے ۔ یعنی اسے ’خِنْزَبٌ‘، ’خِنْزِبٌ‘ یا ’خَنْزَبٌ‘ پڑھا جاتا ہے ۔

متون

صاحبِ مشکوٰۃ نے یہ روایت مسلم سے لی ہے ۔مسلم نے تصریح کی ہے کہ اسی روایت کے ایک متن میں تین مرتبہ تھوکنے کا ذکر نہیں ہے ۔ مصنف عبدالرزاق میں ’بین صلاتی‘ کا ذکر نہیں ہے ۔ان کے علاوہ کوئی قابلِ ذکر فرق نہیں ہے ۔

معنی

ہر مسلمان کی یہ گہری دلچسپی ہے کہ اس کی نماز ایک مکمل نماز ہو ۔ وہ نہ صرف نماز کے ظاہری اعمال کو صحت کے ساتھ ادا کرنا چاہتا ہے ، بلکہ خشوع و خضوع کے ساتھ ساتھ اس میں پڑھنے کے لیے سکھائے گئے کلمات بھی پورے شعور اور ذہنی آمادگی کے ساتھ پڑھنا چاہتا ہے ۔علاوہ ازیں ، وہ اپنی نمازسے خدا کے تقرب اور اس کی یاد کا مقصود بھی حاصل کرناچاہتا ہے ۔لیکن شیاطین اپنی در اندازی کے ذریعے سے ہر ہر مرحلے پر نمازی کو اعتماد اور یقین سے محروم کر دیتے ہیں ، تاکہ نمازی اوہام کا شکار ہو کر نماز کے اصل مقاصد سے محروم ہو جائے ۔
اس روایت میں ایک نمازی کو یہی صورت پیش آنے کامعاملہ بیان ہوا ہے ۔ حضرت عثمان بن ابی عاص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے یہ بیان کیا کہ شیطان انھیں نماز کے بارے میں شکوک و شبہا ت میں مبتلا کر دیتا ہے ۔ روایت کے الفاظ سے یہ تأثر ہوتا ہے کہ یہ شکوک نماز پڑھتے ہوئے ہوتے ہیں ،لیکن ان سے نجات کے لیے جو طریقہ تجویز کیا گیا ہے ۔ اس میں بائیں طرف تین بار تھوکنا بھی شامل ہے ۔ظاہر ہے کہ نماز کی حالت میں تین بار تھوکنا نماز سے مناسبت نہیں رکھتا ۔ اس سے شارحین کو یہ خیال ہوا ہے کہ سوال نماز کی حالت سے متعلق نہیں ہے ۔لیکن اس روایت کے ایک دوسرے متن میں تھوکنے کا ذکر نہیں ہے ۔ اگر اس متن کو اصل متن مان لیا جائے تو یہ اشکال دور ہوجاتا ہے ۔
روایت میں نماز اور اس کے اذکار سے دوری کا سبب تلبیس بیان ہوا ہے ۔یہاں تلبیس کا اطلاق دونوں پہلوؤں پر ہوا ہے ۔ اس سے نماز کے صحیح طریقہ سے ادا ہونے میں شبہ بھی مراد ہے اورمختلف خیالات اور وساوس کی وجہ سے نماز کے اذکار کے معنی پر توجہ نہ رہنا بھی ۔حقیقت میں نقصان ایک ہی ہے اور وہ یہ ہے کہ پیدا ہونے والے شبہات یا تشکیک کے نتیجے میں آدمی نماز میں حضوری اور خشوع و خضوع کی لذت سے محروم ہو جاتا ہے ۔ اگر غور کریں تو واضح ہو جاتا ہے کہ یہ نماز کی حقیقت سے محرومی ہے ۔ صحابہ رضوان اللہ علیہم پر یہ بات بالکل واضح تھی ۔ حضرت عثمان نے اس محرومی سے بچنے کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنا معاملہ رکھ دیا اور آپ نے اس سے نجات کا طریقہ بتادیا ، تاکہ نمازصحیح طریقے سے ادا کی جا سکے ۔
شیطان کی دراندازی سے بچنے کا طریقہ قرآنِ مجید میں بھی تعوذ بتایا گیا ہے ۔اور اس روایت میں بھی یہی تجویز کیا گیا ہے۔ غیر مرئی مخلوق کی دراندازی ہو یا ان دیکھے عوامل کی اثر اندازی ، ان سے بچنے کی واحد صورت خدا کی حفاظت کا میسر آنا ہے ۔اس حفاظت کو حاصل کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ آدمی اپنے آپ کو خدا کی پناہ میں دے دے ۔ اور پناہ میں دینے کاعمل دعا کے ذریعے سے ہوتا ہے ، چنانچہ اس میں خدا سے دعا کرنے ہی کی ہدایت کی گئی ہے ۔
قرآنِ مجید میں شیطان کے حملوں سے بچنے کے لیے صرف تعوذ یعنی اللہ سے اللہ کی پناہ مانگنے کی دعا سکھائی گئی ہے۔ اس دعا میں شیطان کے ساتھ رجیم کا لفظ بھی شامل ہے ۔ رجیم کا لفظ اس حقیقت کی یاددہانی کے لیے ہے کہ شیطان بارگاہِ ایزدی کا دھتکارا ہوا ہے ۔ اس پر پروردگارِ عالم کی طرف سے لعنت کر دی گئی ہے ۔ چنانچہ اس کی راہ پر چلنے والا بھی اسی طرح ملعون اور دھتکارا ہوا قرار پائے گا ۔ اس روایت میں تعوذ کے ساتھ بائیں طرف تھوکنے کا عمل شیطان سے نفر ت کے اظہار کے لیے ہے۔ گویا بندۂ مومن اپنے پروردگار کی طرف سے کی گئی لعنت میں شامل ہو جاتا ہے ۔
روایت میں نماز میں در اندازی کرنے والے شیطان کا نام بھی بتایا گیا ہے ۔احادیث میں شیاطین کے اور بھی نام آتے ہیں جس سے مختلف فتنوں پر مختلف شیاطین کے مامور ہونے کا علم ہوتا ہے اور اس سے اس تصور کی نفی ہوتی ہے کہ ابلیس ہی ہر فتنہ سامانی کے موقع پر موجود ہوتا ہے ۔ ان ناموں کے معنی پر غور کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ یہ اصلی نام نہیں ہیں ۔ یہ وہ نام ہیں جو ان کے کارناموں کی وجہ سے انھیں دے دیے گئے ہیں ۔ ہم انسانوں میں بھی بدمعاشوں کی ٹولیاں اپنے ارکان کے ساتھ یہی کام کرتی ہیں ۔ چنانچہ جیرا بلیڈ ، شیدا پستول وغیرہ اسی قبیل کے نام ہیں ۔
قرآنِ مجید میں شراب اور جوئے کی حرمت بیان کرتے ہوئے یہ حقیقت بھی بیان ہوئی ہے کہ شیطان کا اصل ہدف ذکرِالہٰی ، بطورِ خاص نماز سے دور کرنا ہے ۔ نشے اور جوئے کی عادت کے نتیجے میں آدمی جس غفلت کا شکار ہوتا ہے ، اس کا نتیجہ نماز بھول جانے کی صورت میں نکلتا ہے ۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

یَأیُّھَاالَّذِیْنَ آمَنُوْا إنَّمَا الْخَمْرُ وَ الْمَیْسَرُ وَالْاَنْصَابُ وَ الْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّیِْطَانِ فَاجْتَنِبُوْہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ ۔ إِنَّمَایُرِیْدُ الشَّیْطَانُ اأنْ یُوْقِعَ بَیْنَکُمُ الْعَدَاوَۃَ وَ الْبَغْضَاءَ فِی الْخَمْرِ وَالْمَیْسَرِ وَیَصُدَّکُمْ عَنْ ذِکْرِ اللّہِ وَ عَنِ الصَّلوۃِ فَھَلْ اَنْتُمْ مُنْتَھُوْنَ۔ (المائدہ ۵: ۹۱)
’’ اے ایمان والو ، شراب ، جوا ، تھان ، پانسے کے تیر بالکل نجس شیطانی کاموں میں سے ہیں تو ان سے بچو تاکہ تم فلاح پاؤ ۔ شیطان تو بس یہ چاہتا ہے کہ تمھیں شراب اور جوئے میں لگا کر تمھارے اندر دشمنی اور کینہ ڈالے اور تمھیں اللہ کی یاد اور نماز سے روکے تو بتاؤ کیا اب تم ان سے باز آتے ہو۔‘‘

مولانا امین احسن اصلاحی اس آیت کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’’ذکر اﷲ‘ کے بعد ’صلاہ‘ کا ذکر عام کے بعد خاص کا ذکر ہے جس سے ان دونوں کا ربط واضح ہوتا ہے۔اسلام نے زندگی کی تمام عظمت و رفعت ذکرِ الہیٰ کے ساتھ وابستہ کی ہے ۔ جو شخص خدا سے غافل ہو ، وہ خود اپنی قدرو قیمت سے بالکل بے خبر ہو جاتا ہے ۔ ’نسوا اﷲ فانساھم انفسہم‘ میں اسی حقیقت کی طرف اشارہ ہے ۔ اللہ کی یاد کا خاصہ یہ ہے کہ وہ انسان کو زندگی کی اصل حقیقتوں سے کبھی بے پروا نہیں ہونے دیتی ۔ جس کا فائدہ یہ ہے کہ انسان کبھی بھی راہ سے بے راہ نہیں ہوتا۔ اور کبھی کوئی لغزش ہوجاتی ہے تو اﷲ کی یاد اسے سنبھال لیتی ہے ۔‘‘(تدبرِ قرآن ، ج ۲، ص ۵۹۱)

مولانا اصلاحی نے اس آیہ کی وضاحت کرتے ہوئے ایک اور حقیقت کی خبر دی ہے ۔ نماز خدا کی یاد کا ذریعہ ہے۔ اور یہ یاد انسان کو اصل حقیقتوں سے غافل نہیں ہونے دیتی اور اس طرح انسان بے راہ ہونے سے بچ جاتا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شیطان کا نماز پر وار کتنے دور رس نتائج رکھتا ہے ۔ چنانچہ شیطان کے وساوس کے بارے میں ہمیشہ چوکنا رہنا چاہیے ۔یہی وجہ ہے کہ قرآنِ مجید میں بار بار شیطان کی انسان دشمنی کو نمایاں کیا گیا ہے تاکہ اہلِ ایمان اس کے معاملے میں غفلت کا شکار نہ ہو ں۔

کتابیات

مسلم ، کتاب السلام ، باب ۲۵۔احمد ، حدیث عثمان بن ابی العاص۔ تفسیر القرطبی ، ج ۱ ، ص ۸۹۔مستدرک علی صحیحین، ج۴ ، ص ۲۴۴۔ مصنف ابنِ ابی شیبہ ، ج ۵ ، ص ۵۱۔ مصنف عبد الرزاق ، ج ۲ ، ص ۸۵، ص ۴۹۹۔ مسند عبد بن حمید ، ج ۱ ، ص ۱۴۸۔المعجم الکبیر ، ج ۹ ، ص ۵۲۔۵۳ ۔الترغیب و الترہیب ، ج ۲ ،ص ۳۰۸۔

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت مئی 2001
مصنف : طالب محسن
Uploaded on : Dec 23, 2016
3388 View