فرقہ بندی اور تین بڑے حقائق

فرقہ بندی اور تین بڑے حقائق

 

وطنِ عزیز میں ایک مرتبہ پھر خوں ریز مذہبی فرقہ بندی کی کرب ناک لہر اٹھی ہے ۔ پھر علماے دین سرِ عام قتل ہونے لگے ہیں ۔ پھر حکومت کی طرف سے ایسی فرقہ بندی کے خلاف سخت بیانات دیے جا رہے ہیں اور سخت اقدامات کے ارادے ظاہر کیے جا رہے ہیں۔
افسوس ہے کہ ہمارے ہاں مذہبی اختلافات مخالفت بن چکے ہیں ،بلکہ مخالفت کے حدود پار کر کے دشمنی ، درندگی اور خوں ریزی تک پہنچ چکے ہیں۔ آئے روز کسی نہ کسی فرقے کی نمایاں شخصیت کو سرِ عام موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے ۔
اگرچہ ہمارے ہاں موجود تنگ نظری، عدمِ برداشت اور غیر جمہوری مزاج کو اس درندگی کا سبب کہا جاتا ہے اور درست کہا جاتا ہے ، لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ اس کے ساتھ ساتھ تین نقطہ ہاے نظر کے اختیار نہ کرنے کو بھی فرقہ بندی کا سبب قرار دیاجا سکتا ہے۔ بالفاظِ دیگر یہ تین بڑے حقائق ایسے ہیں جنھیں نہ ماننے کے باعث امتِ مسلمہ میں بڑے بڑے اختلافات پیدا ہوئے جو تنگ نظری ، عدمِ برداشت اور غیر جمہوری مزاج کی وجہ سے مخالفت ، دشمنی اور خوں ریزی کی مکروہ شکل اختیار کر گئے ۔
پہلی حقیقت یہ ہے کہ ختمِ نبوت کے بعد اس زمین کے اوپر اور اس آسمان کے نیچے ہر عقیدے اور ہر عمل کو صحیح یا غلط قرار دینے کی واحد میزان ، واحد کسوٹی اور واحد فرقان صرف اور صرف قرآنِ مجید ہے۔ عالم کے پروردگار نے اپنی اس کتاب کے بارے میں اسی پہلو سے خود فرمایا ہے:

’’اللہ وہی ہے جس نے حق کے ساتھ کتاب اتاری یعنی میزان نازل کی ۔‘‘ (الشوریٰ ۴۲ : ۱۷)

’’بڑی ہی بابرکت ہے وہ ہستی جس نے اپنے بندے پر یہ فرقان اتارا ۔ ‘‘ (الفرقان ۲۵ : ۱)

’’میزان‘‘ یعنی میزانِ عدل ،جس پر تول کر دیکھا جائے کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط ۔ ’’فرقان‘‘ یعنی حق و باطل میں فرق کرنے والی، غرض یہ کہ ہر اختلاف ، ہر مسئلے، ہر معاملے میں اس کی بات ، آخری بات ۔
مگر افسوس ہے کہ ہمارے ہاں اس حقیقت کو صحیح معنوں میں تسلیم نہیں کیا جاتا۔ دوسری کتابوں اور دوسرے لوگوں کی باتوں کو قرآن پر فوقیت دے دی جاتی ہے۔ اس سے ظاہر ہے کہ ہم اپنے فکری مرکز سے محروم ہو جاتے ہیں۔ عجیب و غریب عقائد تخلیق ہونے لگتے ہیں ۔ عجیب و غریب نقطہ ہاے نظر وجود میں آنے لگتے ہیں ۔ عجیب و غریب فرقے بننے لگتے ہیں۔ اور پھر یہ فکری انتشار، قومی انتشار کی صورت اختیار کر لیتا ہے ۔
دوسری حقیقت یہ ہے کہ قرآنِ مجید ایک کتاب ہے ۔ ایک منظم اور باربط کتاب ۔ یہ الگ الگ اور متفرق آیات کا مجموعہ نہیں ہے ۔ یہ نہایت حکیمانہ نظم کی لڑی میں پرویا ہوا مربوط کلام ہے ۔
امام امین احسن اصلاحی اس ضمن میں لکھتے ہیں :

’’جو شخص نظم کی رہنمائی کے بغیر قرآن کو پڑھے گا ،وہ زیادہ سے زیادہ جو حاصل کر سکے گا ،وہ کچھ منفرد احکام اور مفرد قسم کی ہدایات ہیں ۔
اگرچہ ایک اعلیٰ کتاب کے منفرد احکام اور اس کی مفرد ہدایات کی بھی قدر و قیمت ہے ،لیکن آسمان و زمین کا فرق ہے اس بات میں کہ آپ طب کی کسی کتاب المفردات سے چند جڑی بوٹیوں کے کچھ اثرات و خواص معلوم کر لیں اور اس بات میں کہ ایک حاذق طبیب ان اجزا سے کوئی کیمیا اثر نسخہ ترتیب دے دے۔ تاج محل کی تعمیر میں جو مسالا استعمال ہوا ہے ،وہ الگ الگ دنیا کی بہت سی عمارتوں میں استعمال ہوا ہو گا، لیکن اس کے باوجود تاج محل دنیا میں ایک ہی ہے ۔ ‘‘ (تدبرِ قرآن ، ج ۱ ، ص ۲۲)

یہی وجہ ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم نے قرآنِ مجید کو انسانی کلام قرار دیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کے الہامی ہونے کی ایک دلیل دیتے ہوئے یہ نہیں کہا کہ ایسی بات ہے تو اس کتاب کی آیتوں جیسی کوئی آیت تخلیق کر کے پیش کرو ، بلکہ یہ کہا کہ اس کی ایک یا ایک سے زائد سورتوں جیسی کوئی سورت بنا کر دکھاؤ۔ سورۂ بقرہ میں ہے :

’’اور جو کچھ ہم نے اپنے بندے پر نازل کیا ہے ،اس کے بارے میں اگر تمھیں کوئی شبہ ہے تو (جاؤ اور )اس کے مانند ایک سورہ ہی بنا لاؤ،اور خدا کو چھوڑ کر (اِس کے لیے ) اپنے سب حمایتی بھی بلالو، اگر تم (اپنے اس گمان میں)سچے ہو۔‘‘(۲ : ۲۳)

اسی طرح سورۂ ہود میں ہے :

’’کیا یہ کہتے ہیں کہ اس نے گھڑ لیا ہے ؟ اِن سے کہو ،پھر تم بھی ایسی ہی دس سورتیں گھڑی ہوئی لے آؤ اور اللہ کے سوا جن کو تم بلا سکتے ہو ،انھیں بھی بلالو ،اگر تم سچے ہو۔‘‘ (۱۱ : ۱۳)

فرقہ بندی کے پہلو سے اس حقیقت کو یہاں اس لیے بیان کیا جا رہا ہے کہ اگر کوئی شخص قرآن کو میزان تو تسلیم کرے، مگر اسے ایک باربط کتاب نہ مانے تو قرآن اس کے لیے صحیح معنوں میں میزان بن ہی نہیں پاتا۔ اصل میں قرآنِ مجید کا اسلوب ادبی ہے ۔ ادب کے بارے میں جاننے والے جانتے ہیں کہ یہ یک سطحی نہیں ہوتا، اس کی کئی سطحیں، کئی پرتیں اور کئی جہتیں ہوتی ہیں۔ اس کے کئی معنی ہوتے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ جب قرآنی آیات کے کئی معنی نکل رہے ہوں گے تو وہ اپنے ماننے والے کو ایک نکتے پر جمع نہیں کر سکتا۔ معاذ اللہ اس طرح انتشار کا کام تو خود اسی کے ہاتھوں ہونے لگتا ہے۔ یہ نظمِ قرآن ہی ہے جو ہمیں مجبور کر دیتا ہے کہ اس کے الفاظ کے وہی معنی لیں جو اس کے سیاق و سباق سے نکلتے ہیں۔ اور یہ حقیقت ہے کہ ہم ہر کتاب کے ساتھ ایسا ہی معاملہ کرتے ہیں ۔ کسی انگریزی کی کتاب ہی کی مثال لے لیں۔ کتاب پڑھتے ہوئے کوئی مشکل لفظ سامنے آئے تو ہم لغت دیکھتے ہیں۔ لغت میں اس لفظ کے کئی معنی لکھے ہوتے ہیں، مگر ہم اسی ایک معنی کو لیتے ہیں جسے اس جملے کا سیاق و سباق قبول کرتا ہے ۔ مگر افسوس ہے کہ قرآنِ مجید کے معاملے میں عقلِ عام (common sense) پر مبنی یہ سادہ سی بات نہیں مانی جاتی ۔
امام امین احسن اصلاحی کی ’’تدبرِ قرآن ‘‘ وہ تفسیر ہے جس میں اس حقیقت کو صحیح معنوں میں تسلیم کیا گیا ہے ۔ چنانچہ دیکھیے، اصلاحی صاحب کہتے ہیں:

’’میں نے اس تفسیر میں چونکہ نظمِ کلام کو پوری اہمیت دی ہے ،اس وجہ سے ہر جگہ میں نے ایک ہی قول اختیار کیا ہے ،بلکہ اگر میں اس حقیقت کو صحیح لفظوں میں بیان کروں تو مجھے یوں کہنا چاہیے کہ مجھے ایک ہی قول اختیار کرنے پر مجبور ہونا پڑا ہے،کیونکہ نظم کی رعایت کے بعد مختلف وادیوں میں گردش کرنے کا کوئی امکان ہی باقی نہیں رہ جاتا ۔صحیح بات اس طرح منقح ہو کر سامنے آ جاتی ہے کہ آدمی اگر بالکل اندھا بہرا متعصب نہ ہو تو اپنی جان تو قربان کر سکتا ہے ،لیکن اس سے انحراف برداشت نہیں کر سکتا۔‘‘ (تدبرِ قرآن ،ج ۱ ،ص ۲۲)

تیسری حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ہاں نبی اور رسول میں صحیح فرق نہیں کیا جاتا۔ نبی اور رسول میں بنیادی فرق یہ ہے کہ نبی کی قوم نبی کا انکار کرسکتی ہے اور انکار کرنے کے باوجود اس دنیا میں زندہ رہ سکتی ہے، حتیٰ کہ نبی کو قتل بھی کرسکتی ہے اور تاریخ گواہ ہے کہ نبیوں کو قتل کیا گیا۔ مگر رسول کی قوم رسول کی دعوت کا انکار کر کے اس دنیا میں زندہ نہیں رہ سکتی ، اسے صفحۂ ہستی سے مٹا دیا جاتا ہے ۔ اسی طرح وہ قوم رسول کو مغلوب نہیں کر سکتی۔ رسول کی حفاظت کا اللہ تعالیٰ غیر معمولی اہتمام کرتے ہیں ۔ چنانچہ تاریخ گواہ ہے کہ حضرت موسیٰ کو ،جو کہ ایک رسول تھے ،غیر معمولی طریقے سے فرعون اور اس کے لشکر سے بچایا گیا اور فرعون اور اس کے لشکر کو پانی میں غرق کر دیا گیا۔ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی رسول تھے ۔ حفاظت کے پہلو سے غور کیجیے، مخالفین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جان سے مار دینے کے درپے تھے ،مگر آپ نے ان کی صفیں چیرتے ہوئے ،سنگ ریزوں والی مٹی کی ایک مٹھی لے کر ان کے سروں پر ڈالی اور وہ بینا ہوتے ہوئے بھی نابینا ہو گئے ۔ غارِ ثور کے دہانے پر مکڑی نے لمحوں میں جالا بن لیا اور سراقہ کے گھوڑے کے اگلے پاؤں گھٹنوں تک زمین میں دھنس گئے ۔
جب کسی علاقے میں رسول بھیجا جاتا ہے تو وہاں دراصل قیامت کا ایک نمونہ دکھایا جاتا ہے ۔ جو قوم رسول کا انکار کرتی ہے اسے سزا دی جاتی ہے یہ سزا دو صورتوں میں ملتی ہے ۔ ایک صورت میں اگر رسول کو مناسب تعداد میں ساتھی میسر نہ آئیں تو قدرتی آفات کے ذریعے سے ملتی ہے۔ حضرت نوح ، حضرت لوط کی اقوام کو ایسی ہی سزا ملی ۔ دوسری صورت میں اگر رسول کو سیاسی اقتدار حاصل ہو جائے تو سرکش قوم کو یہ سزا اس کے ساتھیوں کی تلواروں کے ذریعے سے ملتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم کے حوالے سے دوسری صورت کی سزا کے نفاذ کا اعلان ہوا ۔ سورۂ توبہ کے آغاز ہی میں حکم ہوا کہ ان مشرکین کو جہاں کہیں پاؤ قتل کردو اسی طرح قوم کے وہ افراد جو رسول کی بات مانیں اور اس کا ساتھ دیں انھیں جزا دی جاتی ہے۔ انھیں اس علاقے میں غلبہ دیا جاتا ہے۔ صحابۂ کرام کو عرب میں دوسری اقوام پر جو غلبہ حاصل ہوا وہ اسی قانونِ الٰہی کے تحت تھا۔
قرآنِ مجید میں رسولوں کے بارے میں یہ قانون ان الفاظ میں بیان ہوا ہے :

’’بے شک ،وہ لوگ جو اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کر رہے ہیں،وہی ذلیل ہوں گے ۔اللہ نے لکھ رکھا ہے کہ میں غالب رہوں گا اور میرے رسول بھی ۔ بے شک ،اللہ قوی ہے ،بڑازبردست ہے۔‘‘ ( المجادلہ ۵۸: ۲۰۔۲۱)

یعنی اللہ تعالیٰ کے کچھ احکام اور قوانین ایسے ہیں جو رسولوں اور ان کی براہِ راست مخاطب اقوام کے ساتھ خاص ہیں ۔ ان احکام اور قوانین کو اب کسی شخص یا قوم پر نافذ نہیں کیا جا سکتا ۔ ان احکام اور قوانین کے لحاظ سے اب کسی شخص یا قوم کے ساتھ کوئی معاملہ نہیں کیا جا سکتا۔ مگر ہمارے ہاں اس حقیقت کو ماننا تو دور کی بات ہے، لوگوں کو اس کا فہم بھی حاصل نہیں ہے ۔ ہوتا یہ ہے کہ متشدد لوگ یہ خاص احکام اور قوانین لیتے ہیں، انھیں بیان کرتے ہیں، دوسرے فرقے کو کافر قرار دیتے ہیں اور یوں سادہ لوح مذہبی افراد کو کافر فرقے کے لوگوں کو قتل کرنے پر قائل کر لیتے ہیں۔ سادہ لوح افراد بھی ان کی بات کو حکمِ الٰہی سمجھ کر، رضاے الہٰی کے حصول کا ذریعہ سمجھ کر اور جنت میں داخلے کا پروانہ سمجھ کر دل و جان سے قبول کرتے ہیں اور خوں ریزی کا ایک نہ ختم ہونے والا ’’مقدس‘‘ سلسلہ شروع کر دیتے ہیں۔
ہمارے ہاں فرقہ بندی کی یہ جڑیں اور بنیادیں ہیں ۔ جب تک ملک و ملت کے خیر خواہ ان کی اہمیت نہیں سمجھیں گے، اس وقت تک فرقہ بندی کے خلاف سخت سے سخت بیانات داغے جاتے رہیں گے، کچھ سخت اقدامات بھی ہوتے رہیں گے، مگر مسئلہ جوں کا توں موجود رہے گا۔

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت جولائی 2001
Uploaded on : Aug 01, 2018
1424 View