امریکا سے نفرت یا ۔۔۔۔۔؟ خورشید احمد ندیم

امریکا سے نفرت یا ۔۔۔۔۔؟

 

غالب نے سچ کہاہے کہ انسان بلاشبہ پیالہ و ساغر، نہیں ہوتا۔ دکھ پہنچے تو اس کی آ نکھیں بھیگ جاتی ہیں ۔ ظلم اسے مشتعل کرتا اور غصہ دلاتاہے۔ مصائب میں وہ مضطرب ہوتا ہے اورجبر حد سے بڑھ جائے تو اس کے لیے نا قابلِ برداشت ہو جاتا ہے۔ ہم مسلمان بھی آدم کی اولاد ہیں۔ آنسو، اضطراب اور غصہ ہماری سرشت میں بھی شامل ہیں۔ مصیبت اور غم میں ، ہم سے وہی توقع ہونی چاہیے جوآدم و حوا کی باقی اولاد سے کی جاتی ہے ۔ تاہم مسلمان ہونے کے ،ناتے لازم ہے کہ دکھ اور تکلیف کے ہر لمحے میں ہم اپنے پروردگار کی طرف رجوع کریں ۔ اس رجوع کاایک پہلو مابعد الطبیعیاتی ہے۔ دعا و استغفاراور رکوع و سجود اس کے وہ مظاہر ہیں جن سے ہم اﷲ کی رحمت اور نصرت کو اپنی طرف متوجہ کرنا چاہتے ہیں۔ دوسرا پہلو مادی اور طبیعیاتی ہے۔ اﷲ نے یہ دنیا جن اصولوں پر قائم کی ہے۔ انھیں وہ اپنی سنت کہتا ہے جو کبھی تبدیل نہیں ہوتی۔ اس کا کہنا یہی ہے کہغم و غصے کے عالم میں کسی ردِ عمل کا اظہار کرتے وقت اﷲ کی اس سنت کو پیشِ نظر رکھا جائے۔ یہ مسلم اور غیر مسلم، مرد اور عورت، اﷲ کو ماننے والے اور اس کا انکار کرنے والے، سب کے لیے ایک ہی ہے۔ اس لیے مسلمانوں پر بطور خاص لازم ہے کہ وہ ایسی کیفیت میں اﷲ کی سنت کو سمجھیں اور اس کی روشنی میں کسی ردِعمل کا اظہار کریں۔
امریکا کے خلاف مسلمانوں کا غصہ قابلِ فہم ہے۔ مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل کی غیر مشروط حمایت اور ماضی قریب میں عراق پر حملے سے لے کر پاکستانی سرزمین پر ڈرون حملوں تک، اس کے بے شمار اقدامات ایسے ہیں جن کا کوئی اخلاقی اور قانونی جواز نہیں۔ اس کے نتیجے میں جس طرح ہمارے بے گناہ بہن بھائی اور بچے موت کی وادی میں اتر گئے، اس پراگر ہمیں غصہ آتا ہے تو یہ ایسی بات نہیں جو سمجھ میں نہ آسکے۔ لیکن کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ کہ ہم غصے میں دیوار سے ٹکرا کر خود کو زخمی کر لیں ؟ کیا ہم مقابلہ کرتے وقت اس سنتِ الٰہی کو نظر انداز کر دیں جس کے مطابق یہ معاملات رونما ہوتے ہیں؟ میرا خیال ہے کہ یہ سوالات اس وقت ہماری سنجیدہ توجہ چاہتے ہیں۔ عراق افغانستان اوراب پاکستان کی حالت زار دیکھ کر بھی اگر ہم میں سنجیدگی نہیں آئی تو پھر اس سے بڑی بد قسمتی کوئی اور نہیں ہو سکتی۔ میں نے اس تحریر میں انھی سوالات کے جوابات تلاش کرنے کی سعی کی ہے۔ 
امریکا اس وقت دنیا کی واحد عالمی قوت ہے۔ اس بات کا اعتراف بزدلی ہے نہ مرعوبیت۔ دنیا میں آج تک کوئی فاتح قوم ایسی نہیں گزری جس نے معرکہ آرائی سے پہلے مدِ مقابل کی قوت کا صحیح اندازہ نہ کیا ہو۔ واحد عالمی قوت ہونے کا ایک مفہوم ہے۔ امریکا کو یہ حیثیت اس وقت حاصل ہوئی ، جب اس نے عسکری ،سیاسی، معاشی اور تہذیبی اعتبار سے دنیا پر اپنی برتری ثابت کر دی۔دوسری جنگِ عظیم کے بعد اس کے بے شمار شواہد تاریخ کی کتابوں اور دنیا کے نقشے پر بکھرے ہوئے ہیں۔ سیاسی اعتبار سے اس نے ایک سے زائد مرتبہ ساری دنیاکو امریکی جھنڈے تلے متحد کیا۔ تہذیبی حوالے سے امریکا اس وقت مذہبی رواداری اور جمہوری اقدار کی پاسداری کے لیے معروف ہے۔ اس کی عسکری قوت کا یہ عالم ہے کہ چین کا دفاعی بجٹ پینٹاگان کے بجٹ کے مساوی ہے۔۲۰۰۹ میں دیے جا نے والے تیرہ نوبل انعامات میں سے نو امریکا کو ملے۔ایجادات میں وہ سرِ فہرست ہے۔ اسی طرح بحرانوں کے باوجود آج بھی امریکا دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے۔ ورلڈ اکنامک فورم اسے اب بھی دنیا کی سب سے بڑی مسابقتی معیشت (The most competitive economy)قرار دیتا ہے۔
اس کا یہ مفہوم کسی طرح نہیں ہے کہ اس میں مادی اعتبار سے کمزوریاں نہیں ہیں یا وہ جو چاہے کر سکتا ہے۔ویتنام سے لے کر افغانستان تک اس کی ناکامیوں کی ایک طویل داستان ہے۔ تا ہم ایسی کوئی ناکامی اس کی عالمی حیثیت کو متأثر نہیں کر سکی۔ اس کا سبب کیا ہے؟
ہم اس سوال پر غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وقت کے ساتھ تمام میدانوں میں اس نے اپنی برتری قائم رکھی۔ قوت کی یہ نفسیات ہے کہ وہ نہ صرف خود کو برقرار رکھنا چاہتی ہے بلکہ اس میں اضافے کی بھی متمنی رہتی ہے۔ اس خواہش سے توسیع پسندی اور غلبے کا رحجان پیدا ہوتا ہے۔ اسی کا ایک مظہر یہ ہے کہ وہ اس خطرے کابھی سدِ باب کرتی ہے جومحض امکانی سطح پر موجود ہوتا ہے۔ وہ دنیا کے ان وسائل پر بھی قابض ہونا چاہتی ہے جو کسی بھی لمحے اس کے خلاف استعمال ہو سکتے ہیں۔ انسان کی معلوم تاریخ بتاتی ہے کہ ہر عالمی قوت یہی کرتی رہی ہے اور آج امریکا بھی کسی طرح پہلی عالمی قوتوں سے مختلف نہیں۔ کل وہ سوویت یونین کو خطرہ سمجھتا تھا ۔چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ وہ عالمی قوت دنیا کے نقشے سے محو کر دی گئی۔ آج ایک طرف مشرقِ وسطیٰ کے وسائل پر اس کی نظر ہے اور دوسری طرف وہ اس عسکریت پسندی سے خطرہ محسوس کرتا ہے جو القاعدہ وغیرہ کے زیرِ عنوان متحرک ہے۔ امریکا کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ اسلام بطورِ مذہب اس کا ہدف نہیں ہے۔ تا ہم اس کی کوئی تعبیر اگرایسی ہے جو امریکا کے لیے چیلنج بن سکتی ہے توپھر وہ اشتراکیت کی طرح اس کو بھی ختم کرنا چاہتا ہے۔
اس وقت چین اور یورپ کے بے شمار ممالک امریکا کی اس توسیع پسندی سے نالاں ہیں۔ وہ اس کی غیراخلاقی عالمی حیثیت کو دل سے تسلیم نہیں کرتے، لیکن ان میں سے کوئی اس کے ساتھ تصادم کی راہ پر چلنے کے لیے تیار نہیں۔ سب اپنی تعمیر میں مصروف ہیں اور وہ اس دن کے انتظار میں ہیں جب وہ معاشی، سیاسی اور عسکری اعتبار سے اس قابل ہو جائیں کہ امریکا کے ساتھ برابری کی سطح پر معاملہ کرسکیں۔ وہ جس دن یہ مقام حاصل کر لیں گے، فطری اصول کے مطابق طاقت کا توازن تبدیل ہو جائے گا۔ یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ اب طاقت کا ایک مر کز نہیں رہا۔معیشت اپنی جگہ مر کز ہے،عسکری قوت اپنی جگہ مر کز ہے۔لازم نہیں کہ یہ سب مراکز ایک جگہ ہوں۔جس دن بین الاقوامی منڈی میں ڈالر کی مر کزیت ختم ہو جا ئے گی، دنیا میں امریکا کی معاشی بر تری کم ہو نا شروع ہو جا ئے گی اور اس کے آثار دکھا ئی دے رہے ہیں۔
دنیا کی یہ ساری قوتیں چاروناچاراسی سنتِ الٰہی کا اتباع کر رہی ہیں جو ما دی دنیا میں جاری ہے ، البتہ و ہ اسے قانونِ فطرت (Law of Nature) کہتے ہیں۔ اگر ہم دنیا میں عزت سے جینا چاہتے ہیں توہمارے پاس بھی اس راستے کو اپنا نے کے سوا کو ئی چارہ نہیں۔ا س کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنی ساری قوت مادی تعمیر پر صرف کرڈالیں۔آج چین،جاپان اور جر منی سمیت بے شمارممالک اسی سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں۔یہ اگر چہ امریکا کی خواہش کے بر عکس ہے لیکن قانونِ فطرت کے عین مطابق ہے۔ یہ قانون بتاتاہے کہ اس دنیا میں کو ئی قوت قادرِ مطلق نہیں اور جو مثبت طرزِ عمل اختیا ر کر تا ہے وہ لازماًآگے بڑھتا ہے۔ دوسری جنگِ عظیم میں جاپان کو جس ذلت کا سامنا کر نا پڑا،ما ضی قریب میں اس کی کو ئی مثال موجود نہیں لیکن آج دنیا کے معاشی فیصلے جا پان کی مر ضی کے بغیر نہیں ہو سکتے۔ہما رے لیے بھی یہی راستہ ہے۔ہم اگر اس پر چل نکلیں تو امریکا سمیت کو ئی بھی ہمیں نہیں روک سکتا۔اس کے لیے چند کام نا گز یر ہیں۔
۱۔ما ؤ نے چینی قوم کو یہ پیغام دیا تھا کہ اپنی کمزوری کو اپنی طاقت میں بدل دو۔ہمیں بھی یہی کر نا ہے۔ہم اپنا غصہ توا نا ئی میں تبدیل کر ڈالیں جو ہماری تعمیر کا باعث بن جا ئے۔یہ سفر علم سے شروع ہو گااور اس کا ظہور معیشت، معاشرت اور سیاست سمیت ہر شعبہء زندگی میں ہو گا۔ 
۲۔ہم یہ طے کر لیں کہ ہم نے ہر قیمت پر امن خرید نا ہے۔یہ امن بعض اوقات کمزور کو یک طرفہ اور غیر منصفانہ بنیا دوں پر ملتا ہے۔ ہمیں اس کے لیے بھی تیا ر ہو جا نا چاہیے۔لوگ عزت،حمیت جیسے الفاظ سے ہمیں اشتعال دلائیں گے لیکن ہمیں اپنی سماعتوں کو ان آوازوں سے دور رکھنا ہے۔دیوارسے سر پھوڑنے کو دنیا کی کسی لغت اور تا ریخ میں غیرت یا حمیت نہیں کہا گیا۔
۳۔ کو ئی ہمیں تصادم میں الجھا نا چا ہے تو چین کی طرح ہمیں اس سے گریز کر تے ہو ئے ساری توا نا ئی اپنی تعمیر پر لگا نا ہو گی۔
۴۔جو قوم داخلی سطح پر اخلاقی پستی میں مبتلا ہووہ کسی بڑے خارجی چیلنج کا مقا بلہ نہیں کرسکتی۔سماجی اخلاقیات کے باب میں ہمیں اپنی تعمیر پر خصوصی تو جہ دینی ہے۔ناپ تول میں صحت،معا ملات میں اجلا پن،حفظِ مراتب، رواداری، برداشت، ان سب اقدار کے حوالے سے ہمیں خود کو مثالی سطح پر لے جانا ہو گا۔
یہ اہداف کسی سیاسی تبدیلی سے نہیں،سماجی انقلاب سے حاصل ہوں گے۔اس کے لیے کسی فردِ واحد کا انتظار یا کسی سیاسی را ہنما سے تو قعات باندھنا عبث ہے۔آج ضرورت ہے کہ ہما ری اجتماعی بصیرت کام آئے۔لوگ اپنی صلاحیت اور افتا دِ طبع کے ساتھ مختلف میدا نوں میں سرگرمِ عمل ہوں۔ ان کی مشترکہ کو ششوں سے انشا اللہ وہ تبدیلی آئے گی جس کے بعد کو ئی ہم پر ظلم نہیں کر سکے گااور ہم اپنے وقار کا بہتر دفاع کر سکیں گے۔یہ سچ ہے کہ انسان پیا لہ و ساغرنہیں ہو تالیکن حکمت اسی کی گم شدہ میراث ہے۔آج ہمیں وہ حکمت چاہیے جو امریکا کے خلاف ہماری نفرت کو ایک تعمیری قوت میں بدل ڈالے۔تبدیلی کا واحد راستہ تعمیرہے۔ہمیں اپنے غصے کو تھا منا ہے۔ہمیں اپنے غم کو اپنی طاقت بنا نا ہے۔ قانونِ فطرت کے مطابق، پھر ہمارا راستہ کو ئی نہیں روک سکتا۔

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت دسمبر 2009
مصنف : خورشید احمد ندیم
Uploaded on : Aug 02, 2018
1329 View