سماج اور مذہب - خورشید احمد ندیم

سماج اور مذہب

 کم و بیش تیس ہزار بچے خسرہ کا شکار ہوگئے۔ اس کا سبب یہ ہوا کہ والدین نے انہیں بیماری سے بچاؤ کے ٹیکے نہیں لگوائے۔ کیوں؟ مذہبی عقائدکے سبب۔

اس خبرکا تعلق پاکستان سے نہیں ہے۔یہ اطلاع امریکہ سے آئی ہے۔1990ء کی دہائی میں،امریکی ریاست فلیڈلفیا میں خسرے کی وبا پھوٹ پڑی۔ دوبڑے مسیحی مراکز نے مذہب کے نام پر ویکسی نیشن کی مخالفت کی۔ بچے بیمار ہوئے توکہا گیا دعا کیجیے۔ ایک مسیحی راہب نے فرمایا : اگر میں شفاکے لیے خدا سے دعاکروںگا تو میںڈاکٹر کے پاس نہیں جاؤںگا۔۔۔۔ آپ خدا پر اعتبارکر سکتے ہیں یا بندوں پر۔ اب ایک بار پھراس بیماری نے سراٹھا یا ہے۔2014ء میں 650 واقعات سامنے آئے۔ ابھی 2015ء کا آغاز ہے اورایک سو سے زائد مریض سامنے آچکے۔اس بار بھی مذہب پھیلائوکے اسباب میں شامل ہے۔امریکی ریاست لوگوں کے مذہبی معاملات میں مداخلت نہیں کرتی۔ سوال لیکن یہ ہے کہ کیا مذہبی توہمات کے نام پر لوگوں کومرنے کے لیے چھوڑ دیا جائے؟1991ء میں فلیڈلفیاکے محکمہ صحت نے یہ سوال عدالت کے سامنے رکھا۔ عدالت نے والدین کی مرضی کے خلاف، جبری ویکسی نیشن کا حکم دیا۔ کلیسا کے نمائندوں نے امریکہ کی شہری آزادی کی یونین سے رابطہ کیا کہ وہ ان کی نمائندگی کرے۔ یونین نے ا نکارکر دیا۔کہا گیا: بلاشبہ والدین کو مکمل آزادی ہے کہ و ہ اپنے مذہب پر عمل پیرا ہوں مگر انہیں یہ آزادی نہیں ہے کہ وہ اپنے بچوں کو 'شہید‘ کرتے پھریں۔ 

یہ اکیسویں صدی کے امریکہ کا بیان ہے۔ دنیا کا سب سے ترقی یافتہ سماج، جس کے بارے میں پچیس سال پہلے یہ لکھا گیاکہ انسان کے سماجی ارتقا کی یہ آخری منزل ہے۔ وہاں رویوںکی تشکیل میں مذہب آج بھی پوری توانائی کے ساتھ شریک ہے۔ یقیناً یہ اکثریت کا مذہب نہیں ہے لیکن ایک قابلِ ذکر اقلیت اسے مانتی ہے۔اکثریت مذہب کی اس تعبیر سے اختلاف رکھنے کے باوجود فی نفسہ مذہب کا انکار نہیںکرتی۔ اس کے رویوںکی تہذیب میں یقیناً مذہب کا ایک کردار ہے۔ اگر امریکہ جیسے سماج کا معاملہ یہ ہے تو قیاس کیا جا سکتا ہے کہ پاکستان جیسے معاشرے میں مذہب سماج کی بناوٹ میں کتنا اہم کردار ادا کرتا ہوگا۔ اگر ہم اس معاشرتی حقیقت کا ادراک کر سکیں تو مذہب کی نفی کے بجائے، ہمیں اس سوال پر غورکرنا چاہیے کہ ایک پرامن اور ترقی یافتہ سماج کی تشکیل میں مذہب کیسے ایک مثبت کردار اداکر سکتا ہے۔

اس سوال کاجواب ایک دوسری سماجی حقیقت کے ادراک پر منحصرہے۔ ہر سماج کی تشکیل میں مذہب کا یقیناً ایک کردار ہے لیکن ہر جگہ یہ ایک جیسا نہیں ہے۔ امریکہ میں کہیں یہ توہم پرستانہ ہے، جیسے خسرہ کے معاملے میں ہے۔ اسرائیل میں یہ سیاست سے جڑا ہوا ہے جسے صہیونیت کہا جا تا ہے۔ یہودیوںکی مذہبی کتابوں میں کچھ پیش گوئیوںکا ذکرہے جنہیں بنیاد بنا کر سیاسی غلبے کا خواب دیکھا جاتا ہے۔ پاکستان اور عالمِ اسلام میں مذہب کہیں توہم پرستانہ ہے اورکہیں سیاسی تعبیر لیے ہوئے ہے۔ توہم پرستی نے جعلی پیروں اور جعلی خانقاہوں کے ایک نظام کو جنم دیا ہے جو اب اربوں روپے کی معیشت ہے۔ القاعدہ اور داعش سیاسی اسلام کے مظاہر ہیں۔ یہ بھی اب اربوں روپے کا معاملہ ہے۔

میرا احساس ہے کہ ہمارے ہاں مذہب کے مروجہ تصورات سے دو نتائج نکلے۔ ایک یہ کہ ہم نے روایتی مذہبی اداروںکو ان کے اصل کردار سے ہٹاکر انہیں اپنے غیر مذہبی مقاصدکے لیے استعمال کیا۔ مثال کے طور پر 1857ء کے بعد ہمارے ہاںدینی مدرسہ مسلم سماج کی مذہبی ضرورت کے لیے وجود میں آیا۔ ہم نے مذہب کے نام پر سیاسی جماعت بنائی اور اس مدرسے کو سیاسی جماعت کے دفتر میں بدل دیا۔ ہم نے اسے حلقہ انتخاب کے متبادل کے طور پر دیکھا۔ یہی سلوک ہم نے مسجد کے ساتھ کیا۔ اس کام کے لیے ہم نے اقبال کے اس مصرعے سے خوب مدد لی کہ 'جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی‘۔ دوسرا نتیجہ یہ نکلا کہ ہم نے سماج کو مذہب کی نظر سے دیکھا حالانکہ مذہب کو سماج کی نگاہ سے دیکھا جا نا چاہیے۔ اس سے ہم نے ان کاموںکو بھی مذہب کے وظائف میں شامل کیا جواصلاً مذہب کے کام نہیں تھے۔ انسان 

بہت سے کام تمدنی اور سماجی ضرورت کے تحت کرتا ہے، جیسے سیاسی ضرویات کے لیے اس نے ریاست کا ادارہ تشکیل دیا، یا سماجی تنظیم کے لیے خاندان کا ادارہ بنا۔ انسان کواس کی رہنمائی فطرت نے فراہم کی۔ اس سے قطع نظرکہ وہ انبیاکی دعوت پرایمان لایا، یا نہیں، انسان نے اپنی سیاسی اور سماجی تنظیم کی۔ ہم نے ان امورکو مذہبی وظائف بنا دیا۔ مثال کے طور پر ہم نے ریاست کی تشکیل کو مذہبی فریضہ بنایا اور یہ تصور پیش کیاکہ انبیا دنیا میں ریاست قائم کرنے کے لیے تشریف لائے تھے۔ یہاں بھی ہم نے اس جملے سے خوب فائدہ اٹھا یا کہ 'اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے‘۔ 

ان دونوں نتائج سے ہمیں جو نقصانات اٹھانے پڑے ،ان کی فہرست بہت طویل ہے۔ سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ مذہب کا اصل وظیفہ پس منظر میں چلا گیا۔ یہ انسان کے اخلاقی وجودکا تزکیہ اور اسے آخرت کے لیے تیارکر نا تھا۔ مذہب انسان کو یہ سکھانے کے لیے نہیں آیاکہ اسے اپنی سیاسی تنظیم کر نی ہے یا نہیں۔ وہ اسے یہ بتانے آیا کہ جب زمامِ کار اس کے ہاتھ میں ہو تو وہ کن اخلاقی ضوابط کا پابند ہے۔ وہ سماج میں جوکردار ادا کرے،اس میں اس کا پروردگار اس سے کیا مطالبہ کرتا ہے۔ جب انسان اس زاویے سے سوچتا ہے تو وہ سماج کو مذہب کی نظر سے نہیں، مذہب کو سماج کی نظر سے دیکھتا ہے۔ وہ جب شعورکی آنکھ کھولتا تو یہ دیکھتاکہ وہ کہاںکھڑا ہے۔ اس کے بعد وہ اس سوال پر غورکرتا 

ہے کہ یہاں مذہب اسے کیا رہنمائی دیتا ہے۔ مروجہ تصورکے تحت ، ہم پہلے انسان سے یہ کہتے ہیں کہ مذہب اسے کہاںکھڑاکرنا چاہتا ہے۔ یوں ہم اسے مذہب کے نام پر ایسی مشقت میں ڈال دیتے ہیں جس کا مطالبہ مذہب نہیںکرتا۔

انسان کسی مرض کا شکار ہے تویہ مذہب کاکام نہیں کہ اسے علاج کی ترغیب دے۔ اس کے لیے اسے فطرت کی رہنمائی کفایت کرتی ہے۔ مذہب البتہ اسے یہ بتائے گا کہ وہ علاج کاکوئی ایسا طریقہ اختیار نہ کرے جو اس کے اخلاقی وجود کو بربادکرد ے۔ وہ اس کے لیے ناجائز طریقہ نہیں اپنا ئے گا۔ وہ اس بات پر یقین رکھے گا کہ وہ تدبیرکا مکلف ہے، شفا بہر حال اللہ کے ہاتھ میں ہے اور وہ اس کا فیصلہ اپنی حکمت کے تحت کرے گا۔ یوں اگر علاج کارگر نہیں ہوتا تو مذہب اسے سکھاتا ہے کہ اسے صبرکرنا اور بیماری کو ایک آ زمائش سمجھنا ہے۔ یہ مذہب کی اخلاقی مداخلت ہے اور یہی اس کا اصل وظیفہ ہے۔

میں سماج، ریاست اور مذہب کے تعلق پر جتنا غورکرسکا، یہی جان پایاکہ مذہب سرتا پا خیر ہے۔ اس خیرکو دریافت کر نے کے لیے لازم ہے کہ مذہب کا وہی وظیفہ متعین کیا جائے جو خود عالم کے پروردگار نے اس کے لیے مقر رفرمایا ہے۔ جب ہم اس کے ذمے وہ کام لگا دیتے ہیں جو اصلاً اس کا میدان نہیں ہیں تو اس سے فساد پیدا ہوتا ہے۔ پھر مذہب ان باتوں کے لیے جواب دہ بن جا تا ہے جن سے اسے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ اس صورت میں لوگوںکو موقع ملتا ہے کہ مذہب کی فی نفسہ نفی کریں۔ اگرانسان مذہب کے خیرکو دیافت کر سکے تو امریکہ میں خسرہ پھیلے نہ پاکستان میں فکری پولیو۔

بشکریہ روزنامہ دنیا، تحریر/اشاعت 23 فروری 2015
مصنف : خورشید احمد ندیم
Uploaded on : May 18, 2016
3874 View