حدیث و سنت - جاوید احمد غامدی

حدیث و سنت

 

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کو قرآن دیا ہے۔اِس کے علاوہ جو چیزیں آپ نے دین کی حیثیت سے دنیا کو دی ہیں، وہ بنیادی طور پر تین ہی ہیں:
۱۔ مستقل بالذات احکام و ہدایات جن کی ابتدا قرآن سے نہیں ہوئی۔
۲۔ مستقل بالذات احکام و ہدایات کی شرح و وضاحت، خواہ وہ قرآن میں ہوں یا قرآن سے باہر۔
۳۔ اِن احکام و ہدایات پر عمل کا نمونہ۔
یہ تینوں چیزیں دین ہیں۔ دین کی حیثیت سے ہر مسلمان اِنھیں ماننے اور اِن پر عمل کرنے کا پابند ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اِن کی نسبت کے بارے میں مطمئن ہوجانے کے بعد کوئی صاحب ایمان اِن سے انحراف کی جسارت نہیں کرسکتا۔ اُس کے لیے زیبا یہی ہے کہ وہ اگر مسلمان کی حیثیت سے جینا اور مرنا چاہتا ہے تو بغیر کسی تردد کے اِن کے سامنے سرتسلیم خم کردے۔
ہمارے علما اِن تینوں کے لیے ایک ہی لفظ ’’سنت‘‘ استعمال کرتے ہیں۔ میں اِسے موزوں نہیں سمجھتا۔ میرے نزدیک پہلی چیز کے لیے ’’سنت‘‘، دوسری کے لیے ’’تفہیم و تبیین‘‘ اور تیسری کے لیے ’’اسوۂ حسنہ‘‘ کی اصطلاح استعمال کرنی چاہیے۔ اِس سے مقصود یہ ہے کہ اصل اور فرع کو ایک ہی عنوان کے تحت اور ایک ہی درجے میں رکھ دینے سے جو خلط مبحث پیدا ہوتا ہے، اُسے دور کردیا جائے۔
یہ محض اصطلاحات کا اختلاف ہے، ورنہ حقیقت کے لحاظ سے دیکھا جائے تو میرے اور ائمۂ سلف کے مؤقف میں سرمو کوئی فرق نہیں ہے۔ میرے ناقدین اگر میری کتاب ’’میزان‘‘ کا مطالعہ دقت نظر کے ساتھ کرتے تو اِس چیزکو سمجھ لیتے اور اُنھیں کوئی غلط فہمی نہ ہوتی۔ یہ توقع اب بھی نہیں ہے۔ دین کے سنجیدہ طالب علم، البتہ مستحق ہیں کہ اپنے نقطۂ نظر کی وضاحت کے لیے یہ چند معروضات اُن کی خدمت میں پیش کردی جائیں۔
اولاً، سنت کے ذریعے سے جو دین ملا ہے، اُس کا ایک بڑا حصہ دین ابراہیمی کی تجدید و اصلاح پر مشتمل ہے۔ تمام محققین یہی مانتے ہیں۔ تاہم اِس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس میں محض جزوی اضافے کیے ہیں۔ ہرگز نہیں، آپ نے اِس میں مستقل بالذات احکام کا اضافہ بھی کیا ہے۔ اِس کی مثالیں کوئی شخص اگر چاہے تو ’’میزان‘‘ میں دیکھ لے سکتا ہے۔ یہی معاملہ قرآن کا ہے۔ دین کے جن احکام کی ابتدااُس سے ہوئی ہے، اُن کی تفصیلات ’’میزان‘‘ کے کم و بیش تین سو صفحات میں بیان ہوئی ہیں۔ میں اِن میں سے ایک ایک چیز کو ماننے اور اُس پر عمل کرنے کو ایمان کا تقاضا سمجھتا ہوں، اِ س لیے یہ الزام بالکل لغو ہے کہ پہلے سے موجود اور متعارف چیزوں سے ہٹ کر کوئی نیا حکم دینا یا دین میں کسی نئی بات کا اضافہ کرنا میرے نزدیک نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا قرآن مجید کے دائرۂ کار میں شامل ہی نہیں ہے۔
ثانیاً، سنت کی تعیین کے ضوابط کیا ہیں؟ اِن کی وضاحت کے لیے میں نے ’’میزان‘‘ کے مقدمہ ’’اصول و مبادی‘‘ میں ’’مبادی تدبر سنت‘‘ کے عنوان سے ایک پورا باب لکھا ہے۔ یہ سات اصول ہیں۔ اِن کی بنیاد پرہر صاحب علم کسی چیز کے سنت ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کرسکتا ہے۔ سنن کی ایک فہرست اِنھی اصولوں کے مطابق میں نے مرتب کردی ہے۔ اِس میں کمی بھی ہوسکتی ہے اور بیشی بھی۔ تحقیق کی غلطی واضح ہوجانے کے بعد میں خود بھی وقتاً فوقتاً اِس میں کمی بیشی کرتا رہا ہوں۔ میں نے کبھی اِس امکان کو رد نہیں کیا ہے۔
ثالثاً، اِس فہرست سے ہٹ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جو ارشادات بھی دین کی حیثیت سے روایتوں میں نقل ہوئے ہیں، اُن میں سے بعض کو میں نے ’’تفہیم و تبیین‘ ‘ اور بعض کو ’’اسوۂ حسنہ‘‘ کے ذیل میں رکھا ہے۔ یہی معاملہ عقائد کی تعبیر کا ہے۔ اِس سلسلہ کی جو چیزیں روایتوں میں آئی ہیں، وہ سب میری کتاب ’’میزان‘‘ کے باب ایمانیات میں دیکھ لی جاسکتی ہیں۔ یہ بھی ’’تفہیم و تبیین‘‘ ہے۔ علمی نوعیت کی جو چیزیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے نقل ہوئی ہیں، اُن کے لیے صحیح لفظ میرے نزدیک یہی ہے۔ آپ سے نسبت متحقق ہو تو اس نوعیت کے ہر حکم، ہر فیصلے اور ہر تعبیر کو میں حجتسمجھتا ہوں۔ اِس سے ادنیٰ اختلاف بھی میرے نزدیک ایمان کے منافی ہے۔

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت مارچ 2009
مصنف : جاوید احمد غامدی