روزے کے اثرات - سید منظور الحسن

روزے کے اثرات

[جناب جاوید احمد غامدی کی ایک تقریر سے ماخوذ]


اس گھڑی ہم جی رہے ہیں، مگر اگلی کسی گھڑی ہمیں مر جاناہے۔جس طرح یہ جینا سدا کا جینا نہیں ہے، اسی طرح وہ مرنا بھی سدا کا مرنا نہیں ہو گا۔ ایک دن ہم اسی روح و بدن کے ساتھ ایک دوسری دنیا میں کھڑے ہوں گے۔پروردگار کا فرمان ہے کہ’’ اس دن ہر شخص کو اپنی اپنی پڑی ہو گی۔ کتنے چہرے اس دن روشن ہوں گے، ہنستے ہوئے ہشاش بشاش!اور کتنے چہرے ہوں گے کہ ان پر خاک اڑتی ہو گی، سیاہی چھا رہی ہو گی۔ ‘‘ اس روز آخری عدالت لگے گی۔ہم سب کے اعمال نامے کھولے جائیں گے ۔ ان اعمال ناموں میں ’’جس نے ذرہ برابر بھلائی کی ہے، وہ بھی اسے دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ برابر برائی کی ہے ، وہ بھی اسے دیکھ لے گا۔‘‘ اور پھر جن کی فہرست اعمال میں نیکیاں زیادہ ہوں گی ، وہ کامیاب اور جنت کے مستحق ٹھہریں گے اور جن کی فہرست اعمال میں گناہ زیادہ ہوں گے، وہ مجرم اور جہنم کے سزاوار قرار پائیں گے۔ اس موقع پر ان مجرموں میں سے ہر ’’مجرم کہے گاکہ اے کاش، وہ اس دن کے عذاب سے بچنے کے لیے ، اپنے بیٹوں کو، اپنی بیوی کو ،اپنے بھائی کو ، اپنے خاندان کو جو اسے پناہ دیتا رہا اور اس زمین کے ہر شخص کو فدیہ میں دے دے، پھر اپنے آپ کو اس سے چھڑا لے‘‘، مگر وہ ایسا نہیں کر سکے گا۔آخرت کا گھر بس انھی لوگوں کے لیے بہتر قرار پائے گاجنھوں نے دنیا کی زندگی نفس کی خواہشوں پر قابو رکھتے ہوئے اور اپنے پروردگار کے حضور میں پیشی سے ڈرتے ہوئے گزاری ہوگی، گویا انھوں نے تقوے کی راہ اختیار کی ہو گی اور عمر بھر اپنے پروردگار کی اس بات کو مشعل راہ بنایا ہو گا کہ:
’’ دار آخرت بہتر ہے ان لوگوں کے لیے جو تقویٰ اختیار کریں۔‘‘ (الاعراف ۷:۱۶۹)
ہم میں سے ہر شخص اس دن جہنم کے دردناک عذاب سے بچنا چاہتا ہے اور دارآخرت میں بہتری کا طلب گار ہے ،مگر ہمیںیہ بات جان رکھنی چاہیے کہ دار آخرت میں کامیابی اور بہتری کاصرف اور صرف ایک ہی راستہ ہے اور وہ راستہ تقویٰ ہے۔ہمیں اس پر گام زن ہونے کے لیے ہر ممکن طریقہ اختیار کرنا چاہیے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے سب سے موثر طریقہ روزہ ہے۔ ارشادخداوندی ہے:
’’ایمان والو، تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں، جیسا کہ تم سے پہلوں پرفرض کیے گئے تھے تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو۔‘‘ (البقرہ۲: ۱۸۳)
روزہ ہمارے عمل ، ہمارے اخلاق اور ہماری روح پرایسے اثرات مرتب کرتا ہے کہ ہمارے لیے شیطان کی ترغیبات اور نفس کے داعیات کے باوجود تقوے کی نشوونما ممکن ہو جاتی ہے۔ چنانچہ رمضان کے دوران میں ہمیں اس بات کا جائزہ لیتے رہنا چاہیے کہ آیا ہم روزے کے ان اثرات سے فی الواقع فیض یاب ہوبھی رہے ہیں یا نہیں۔اگر روزے ہمارے اندر تقوے کو پروان نہیں چڑھا رہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے کھانے پینے کے اوقات میں تبدیلی کے سوا اور کچھ حاصل نہیں کیا۔ روزہ ہماری عملی، اخلاقی اور روحانی زندگی پرجو اثرات قائم کرتا ہے، ان میں سے چند یہ ہیں۔
نمازوں میں سرگرمی
اپنے مالک کے حضور میں سربہ سجود ہونا انسان کی معراج ہے۔نماز اصل میں ، ان نعمتوں پر شکر کا اظہار ہے جو پروردگار نے انسان کو کسی استحقاق کے بغیر دی ہیں؛اس حقیقت کا اعتراف ہے کہ دنیا کا کارساز صرف اور صرف وہی ہے؛ اس بات کا اقرار ہے کہ ہماری محبت کا مرکز حقیقی وہی ہے؛ اس امر کی تائید ہے کہ اطاعت کا مرجع اسی کی ذات ہے اور اس تصور کا ادراک ہے کہ جو کچھ ملے گا، اسی کے در سے ملے گا۔ دوسرے الفاظ میں نماز انسان کی طرف سے بندگی رب کا بھرپور اظہار ہے۔رمضان میں چونکہ پورا ماحول اللہ تعالیٰ کی عبادت میں سرگرم ہوتا ہے، اس لیے ہر شخص کے اندر عبادت کا رجحان بڑھ جاتا ہے۔یہ مہینا ہمیں یہ موقع فراہم کرتا ہے کہ ہم رضاے الٰہی کی جستجو میں نماز کو اپنے معمولات کا سب سے اہم حصہ بنائیں۔ اس ضمن میں ہمیں سہ جہتی منصوبہ بندی کرنی چاہیے :ایک یہ کہ اس کی حتی المقدور کوشش کی جائے کہ فرض نمازیں کسی حال میں قضا نہ ہوں اور مسجد میں باجماعت نماز کا التزام کیا جائے۔ دوسرے یہ کہ فرض نمازوں کے ساتھ ساتھ زیادہ سے زیادہ نوافل ادا کرنے کی کوشش کی جائے ۔ تیسرے یہ کہ تہجد کی نماز کواس مہینے میں اپنا معمول بنا لیا جائے ۔ اگرچہ اس بات کی روایت پڑ گئی ہے کہ رمضان میں تہجد کی نماز عشا کے ساتھ ہی تراویح کے نام سے پڑھ لی جاتی ہے، مگر اس کا اصل طریقہ یہ ہے کہ اسے تنہائی میں اور رات کا کچھ حصہ گزر جانے کے بعد پڑھا جائے۔ رمضان میں اس کی اس قدر اہمیت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جو شخص رمضان کی راتوں میں اپنے ایمان کو قائم رکھتے ہوئے ثواب کی نیت سے (تہجد کی نماز پڑھنے کے لیے) کھڑا رہا، اس کے تمام اگلے گناہ معاف کر دیے جائیں گے۔ ‘‘
(بخاری، رقم ۱۸۸۵)
مطالعۂ قرآن
رمضان میں مطالعۂ قرآن کی اہمیت دو پہلوؤں سے ہے: ایک یہ کہ یہ وہ با برکت مہینا ہے جس میں قرآن مجید نازل ہوا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’یہ رمضان کا مہینا ہے جس میں قرآن اتارا گیا لوگوں کے لیے ہدایت بنا کر اور حق و باطل کے درمیان امتیاز کے کھلے دلائل کے ساتھ۔‘‘ (البقرہ ۲:۱۸۵)
اس سے واضح ہوتا ہے کہ ماہ رمضان کی قرآن مجید سے خاص مناسبت ہے۔
دوسرے یہ کہ اس مہینے میں خدا کی بات سننے اور سمجھنے کی طلب ہر دل میں پیدا ہوتی ہے اور خلوت میسر ہونے اور روزمرہ مصروفیات میں کمی کی وجہ سے فہم قرآن کا پورا موقع میسر آ جاتا ہے۔ اس موقع سے پورا فائدہ اٹھاتے ہوئے قرآن مجید کی زیادہ سے زیادہ تلاوت کرنی چاہیے۔ یہاں یہ واضح رہے کہ تلاوت سے مراد قرآن مجید کو بے سوچے سمجھے پڑھنا نہیں ہے، بلکہ نہایت غور و فکر کے ساتھ مطالعہ کرنا ہے۔
انفاق
اللہ کی راہ میں اپنا مال خرچ کرنا انفاق ہے۔ آخرت کی کامیابی کے حوالے سے اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی بہت اہمیت ہے ۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے:
’’ ہم نے جو کچھ تمھیں بخشا ہے، اس میں سے خرچ کرو ، اس سے پہلے کہ تم میں سے کسی کی موت آ دھمکے۔ پھر وہ حسرت سے کہے کہ اے رب، تو نے مجھے کچھ اور مہلت کیوں نہ دی کہ میں صدقہ کرتا اور نیکو کاروں میں سے بنتا۔‘‘ (المنافقون۶۳: ۱۰)
گویا اللہ کی یاد کو قائم رکھنے ،مال واولاد کے فتنوں سے محفوظ رہنے کا طریقہ یہ ہے کہ اللہ کی راہ میں اس کے دیے ہوئے مال میں سے خرچ کیا جائے۔
رمضان میں اس نیکی کا بھرپور اظہار ہونا چاہیے ۔ اس موقع پر اپنے اعزہ پر، اپنے ہم سایوں پر، اپنے ہم وطنوں پر اور ناداروں اور ضرورت مندوں پر جس قدر ممکن ہو اللہ کی راہ میں خرچ کرنا چاہیے۔ رمضان میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے انفاق کے حوالے سے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں بہت سخاوت کرتے تھے۔آپ کی سخاوت چلتی ہوئی ہوا سے بھی زیادہ ہوتی تھی۔‘‘ (مشکوٰۃ ،رقم ۱۹۹۷ )
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یوں تو عام حالات میں بھی سب سے زیادہ فیاض تھے ، لیکن رمضان میں تو آپ سراپا جود و کرم بن جاتے۔‘‘ (بخاری ، رقم ۱۷۶۹۔مسلم ، رقم ۴۲۶۸)
رمضان میں انفاق کی ایک صورت روزہ دار کوروزہ افطار کرانا بھی ہے ۔ حضرت زید بن خالد جہنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں:
’’جس نے کسی روزہ دار کو افطار کرایا ، اس کے لیے روزہ دارکے برابر اجر ہے اور اس سے روزہ دار کے اجر میں کوئی کمی واقع نہیں ہو گی۔ ‘‘( ترمذی،رقم ۷۳۵)
نفس پر قابو
شیطان انسان پر جن راستوں سے زیادہ تاخت کرتا ہے، وہ بطن اور فرج ہیں ۔ اگر انسان اپنے پیٹ اور اپنی شرم گاہ کے تقاضوں کو بے لگام نہ ہونے دے تو وہ بیش تر برائیوں سے محفوظ رہتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے :
’’جو شخص ان چیزوں کے بارے میں مجھے ضمانت دے سکے جو اس کے دونوں گالوں اور دونوں ٹانگوں کے درمیان ہیں ، میں اس کے لیے جنت کا ضامن بنتاہوں ۔ ‘‘
(بخاری ، رقم ۵۹۹۳)
روزے کے دوران میں کھانے پینے پر پابندی ہوتی ہے۔ فضول گفتگو سے پرہیز بھی ضروری ہوتا ہے۔ اس وجہ سے زبان کے چٹخارے اوراس کی فتنہ انگیزیاں بند ہو جاتی ہیں ۔اسی طرح انسان کی حیوانی ضروریات پر بھی ایک لمبے وقت کے لیے پابندی لگ جاتی ہے۔ چنانچہ اس دوران میں بے راہ روی سے بچے رہنے کی صورت پیدا ہو جاتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شادی نہ ہونے کی صورت میں روزہ رکھنے کی ہدایت فرمائی ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جو شخص شادی کرنے کی استطاعت رکھتا ہو ، وہ نکاح کرے اور جو اس کی استطاعت نہ رکھتا ہو ، وہ روزہ رکھے۔‘‘ (بخاری، رقم ۱۷۸۷)
حسن کلام
وہی کلام اچھا اور موثر ہوتا ہے جو شایستہ ہو، حیا کا آئینہ دار ہو اور جھوٹ سے پاک ہو۔روزے کا زیادہ وقت کم گوئی اور پروردگار کے ساتھ مناجات میں گزرنا چاہیے، لیکن اگر گفتگو کا موقع بھی ہو تو اسے پاکیزہ ہونا چاہیے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے روزے کے دوران میں فحش گفتگو کرنے اور جھگڑنے سے منع فرمایا ہے:
’’ روزہ دار کو چاہیے کہ وہ روزے میں فحش باتیں نہ کرے، نہ بدتمیزی کرے، اگر کوئی شخص اس سے جھگڑے تو اسے کہہ دے کہ میں روزے سے ہوں۔ ‘‘(بخاری، رقم ۱۷۸۶)
اسی طرح آپ کا ارشاد ہے:
’’ جو شخص(روزہ رکھ کر) جھوٹ بولنا اورجھوٹ پر عمل کرنا نہ چھوڑے تو اللہ تعالیٰ کو اس بات کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے۔ ‘‘( بخاری، رقم ۱۷۸۵)
صبر و برداشت
روزے کی حالت میں روزہ دار صبر و برداشت کا پیکر بن جاتا ہے۔ جب اس کے سامنے کھانا آتا ہے تو بھوک کے باوجود وہ اس سے منہ پھیر لیتا ہے۔ جب کوئی اس سے جھگڑا کرتا ہے تو وہ یہ کہہ کر گریز کر لیتا ہے کہ میں روزے سے ہوں۔
اللہ کے حکم کی پیروی میں انسان کے اس صبر و ثبات پر اللہ کی رحمتیں نازل ہوتی ہیں ۔ ام عمارہ بنت کعب بیان کرتی ہیں :
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ہاں تشریف لائے تو انھوں نے آپ کے لیے کھانا منگوایا۔ کھانا آیا تو آپ نے فرمایا کہ تم بھی کھاؤ تو انھوں نے کہا کہ میں روزے سے ہوں۔ اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس وقت روزہ دار کے پاس کھانا کھایا جائے، تو فرشتے اس کے لیے رحمت کی دعا کرتے ہیں، یہاں تک کہ وہ کھانے سے فارغ ہوجائے۔ ‘‘(مشکوٰۃ ، رقم ۱۹۸۱)
روزہ انسان کی ایسی تربیت کر دیتا ہے کہ وہ بڑی سے بڑی آزمایش کو بھی خندہ پیشانی سے سہ لیتا ہے ۔ تربیت کے اسی پہلو کی وضاحت میں مولانا امین احسن اصلاحی لکھتے ہیں :
’’ یہی صوم (روزہ) ہے جو مذہب نے انسانوں کی ظاہری و باطنی تربیت کے لیے تجویز فرمایا ہے اور مقصود اس سے ان کی صلاحیت کار کو ضعیف کرنا نہیں ہے ، بلکہ اس صلاحیت کار کو صبر اور تقویٰ کی بنیاد پر زیادہ سے زیادہ مستحکم کر دینا ہے تاکہ انسان حق کی مخالف طاقتوں کے مقابل میں، خواہ یہ طاقتیں شیطانی ہوں یا انسانی ، جہادکا اہل ہو سکے ۔ قرآن اور حدیث پر نگاہ رکھنے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ روزے کے بنیادی مقصد دو بیان کیے گئے ہیں: تقویٰ اور صبر۔ تقویٰ یہ ہے کہ آدمی زندگی کے ہر مرحلہ میں اور ہر قسم کے حالات میں اپنے نفس کو حدود الٰہی کا پابند رکھے۔ صبر یہ ہے کہ اس راہ میں خارج سے یا اس کے اپنے باطن سے جو مشکلات و موانع بھی سر اٹھائیں ان کا پورے عزم و جزم کے ساتھ مقابلہ کرے اور ان کے آگے سپر انداز نہ ہو۔ یہ جہاد زندگی بھر کا جہاد ہے ۔ رمضان کے مہینہ میں ہر مسلمان اسی جہاد کی ٹریننگ حاصل کرتا ہے۔ اگرچہ اس کا امکان ہے کہ نئے نئے بھرتی ہونے والوں پر اس ٹریننگ کا فوری اثر اضمحلال اور ضعف کی شکل میں ظاہر ہوتاہو ، لیکن دیکھنے کی چیز یہ فوری اثر نہیں ،بلکہ اس کا مستقل اثر ہے ۔ اس کا مستقل اثر یقیناًاس کو صحیح طور پر برتنے کی شکل میں ، یہی ہونا چاہیے کہ انسان کی بلادت کم ہو ، اس کی روح قوی ہو، اس کا دل توانا ہو، اس کی قوت ارادی مضبوط ہو ، اس کی قوت برداشت بڑھ جائے ، وہ جہاد زندگانی اورجہاد فی سبیل اللہ کے لیے پوری طرح تیار ہو جائے ۔ ‘‘
(تدبر قرآن۱/۴۶۲)
اللہ سے تعلق
روح انسانی کی فطرت رجوع الی اللہ ہے، مگر نفس کی خواہشات اور شہوات اس کی فطرت کو مجروح کرتی رہتی ہیں۔روزہ نفس کے میلانات پر پابندی عائد کر کے روح کو اس کے فطری رجحان کے مطابق پروان چڑھنے میں مدد دیتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بندہ دنیا سے کٹ کراللہ کی رضا جوئی کے لیے سرگرم عمل ہو جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ روزے کی عبادت اللہ تعالیٰ کی محبوب ترین عبادت ہے اور اللہ نے اس کا خاص اجر بیان فرمایا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
’’اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آدمی کا ہر نیک عمل اس کے کام کا ہے، مگر روزہ خاص میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا۔ قسم اس کی جس کے قبضے میں میری جان ہے، روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک مشک کی بو سے بہتر ہے۔ روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں : ایک خوشی روزہ افطار کرتے ہوئے حاصل ہوتی ہے اور دوسری خوشی اس وقت حاصل ہو گی جب وہ اپنے مالک سے ملے گااور روزے کا اجر دیکھ کر خوش ہو گا۔ ‘‘ (بخاری، رقم ۱۷۸۶)

------------------------------

 

بشکریہ سید منظور الحسن
تحریر/اشاعت اکتوبر 2004

مصنف : سید منظور الحسن
Uploaded on : Aug 12, 2016
4095 View