نماز کے بارے میں اختلافات - سید منظور الحسن

نماز کے بارے میں اختلافات

[جناب جاوید احمد غامدی اپنے ہفتہ وار درس قرآن و حدیث کے بعد شرکا کے سوالوں کے جواب دیتے رہے ہیں۔ یہ ان میں سے چند سوال و جواب کا انتخاب ہے۔]


سوال:کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں مختلف طریقوں سے نماز ادا کی ہے؟ اگر ایسا نہیں ہے تو مسلمانوں میں نماز کے بارے میں عملی اختلافات کیوں پائے جاتے ہیں؟
جواب:حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جو نماز مسلمانوں کو سکھائی ،اس میں دو طرح کے امور ہیں: ایک وہ امور ہیں جنھیں آپ نے سنت کی حیثیت سے جاری فرمایا ہے۔ یہ نماز کے لازمی اجزا ہیں اور ان میں کسی تبدیلی کی گنجایش نہیں ہے۔مثال کے طور پر نمازوں کی تعداد، ان کے اوقات، اذان کے الفاظ، نمازوں کی رکعتیں، قیام میں سورۂ فاتحہ اور قرآن کے کچھ حصے کی تلاوت، رکوع کا طریقہ ، سجدے کا طریقہ اور تکبیر تحریمہ کے وقت ہاتھ اٹھانا وغیرہ۔
دوسرے امور وہ ہیں جنھیں آپ نے سنت کی حیثیت سے جاری نہیں فرمایا، بلکہ کچھ اصولی ہدایات دے کر انھیں لوگوں کے اختیار پر چھوڑ دیا ہے ۔ مثال کے طور پر ثنا،قعدے میں پڑھی جانے والی دعائیں،حضور کے لیے دعا (درود)، قیام کی صورت میں ہاتھ باندھنا ، سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد آمین کہتے ہوئے اپنی آواز کو بلند یا پست رکھنااور تکبیریں کہتے ہوئے ہاتھ اٹھانا وغیرہ۔
پہلی نوعیت کے امور میں امت میں ہمیشہ اتفاق رہا ہے اور یہی وہ معاملات ہیں جن پر ہمیں اصرار کرنا چاہیے۔ جہاں تک دوسری نوعیت کے امور کا تعلق ہے تو ان کے بارے میں ہم اپنے ذوق کے مطابق کوئی چیز اختیار کر سکتے ہیں۔یہی وہ امور ہیں جن میں علما کی آرا مختلف رہی ہیں۔ ان اختلافات سے نماز کی اصل ہیئت میں کوئی فرق واقع نہیں ہوتا۔ان معاملات کو چونکہ خود پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے اختیار پر چھوڑ دیا ہے، اس لیے ہمیں بھی ان میں سے کسی چیز پر اصرارنہیں کرنا چاہیے ۔
ان معاملات کو جنھیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سنت کے طور پر جاری نہیں فرمایا یا جن کے بارے میں لوگوں کو اختیار دیا، انھیں چند مثالوں سے سمجھا جا سکتا ہے۔ ایک مرتبہ حضور نے دیکھا کہ ایک صحابی قعدے میں دعا کے موقع پر اس طرح کے کلمات ادا کر رہے ہیں: ’السلام علی اللّٰہ‘ ، یعنی اللہ پر سلامتی ہو۔ حضور نے انھیں سمجھایاکہ اللہ تعالیٰ تو سراسر سلامتی ہیں۔ انسانوں کا ان کے لیے سلامتی کی دعا کرنابے ادبی کے مترادف ہے۔پھر آپ نے ’’التحیات‘‘ کے کلمات سکھائے۔ گویا ایسا نہیں ہوا کہ حضور نے ابتدائی طور پر نماز سکھاتے ہوئے ’’التحیات ‘‘ سکھائی ہو، بلکہ ایک غلطی کی اصلاح کرتے ہوئے آپ نے اللہ تعالیٰ کے حضور سلام پیش کرنے کا صحیح اسلوب بتایا۔
سورۂ فاتحہ سے پہلے ثنا پڑھنے کا معاملہ بھی اسی طرح کا ہے۔لوگوں نے محسوس کیا کہ حضور امامت کرتے وقت سورۂ فاتحہ کی تلاوت سے پہلے کچھ دیر خاموش کھڑے رہتے ہیں۔ انھوں نے آپ سے اس کی وجہ دریافت کی۔ آپ نے فرمایا کہ میں نماز شروع کرتے وقت پروردگار کے حضور میں اپنی طرف سے کچھ حمد و ثنا کے کلمات پیش کرتا ہوں۔ لوگوں نے سیکھنے کی خواہش ظاہرکی تو آپ نے انھیں ’سبحانک اللّٰھم وبحمدک...‘ اور اس طرح کے بعض دوسرے کلمات سکھائے۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے دعا، یعنی درود بھی لوگوں نے اسی طرح سیکھا۔
ا ن مثالوں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ نماز کے بعض حصوں کو حضور نے سنت کے طور پر جاری نہیں فرمایا۔ ان کی حیثیت اختیاری ہے۔ ان اختیاری امور میں ہر مسلمان فطری طور پرچاہے گا کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے مختارات جاننے کی کوشش کرے ۔ نہیں جان سکے گا تو لازماً اجتہاد کرے گا ۔ اس میں ظاہر ہے کہ اختلاف ایک فطری بات ہے ۔ 

------------------------------

 

بشکریہ سید منظور الحسن
تحریر/اشاعت جون 2007 

مصنف : سید منظور الحسن
Uploaded on : Aug 27, 2016
5049 View